1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فرق ۔۔۔۔۔ اقتدار جاوید

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فرق ۔۔۔۔۔ اقتدار جاوید

    میدان تو پہلے ہی تیار تھا کہ سنجرانی صاحب، عمران خان سے بھی کئی ماہ پہلے چیئرمین سینیٹ بن چکے تھے۔ وہ تھے بھی منظور ِ نظر اس بارے میں کوئی دوسری راے ہی نہیں۔
    دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
    بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
    ابھی عمران خان کی وزارت ِ عظمیٰ پنگھوڑے میں بھی نہیں تھی کہ وہ مملکت کے تیسرے اہم ترین شخص بن چکے تھے۔ وہی صادق سنجرانی، وہی جو نواز شریف کے پچھلی صدی کی وزارت عظمیٰ میں معاون رہے۔ پچھلی صدی‘ وہ جو پنجابی زبان کے شاعر نے مرزا صاحباں تصنیف کرتے ہوئے لکھا کہ
    ایہہ واقعہ اٹھویں صدی دا جیویں راوی دین خبر
    اج چودہویں صدی سراج نے فیر پھولیا ایہہ دفتر
    دیکھتے دیکھتے پچھلی صدی ہمارے سامنے ختم ہوئی۔ دوسری صدی کا ایک ربع بھی ہونے کو ہے۔نواز شریف کی دوسری وزارت ِ عظمیٰ میں ان کے ساتھ معاون اور یوسف رضا گیلانی کے عہد میں شکایات سیل کے انچارج۔ وہی سنجرانی صاحب۔ شکایتیں، عوام کے مسائل کے حل کے لیے، نہیں‘ قطعاً نہیں! وہی یوسف رضا گیلانی جو اب سینیٹ کے متفقہ امیدوار ہیں۔ لگتا ہے وہ پانی کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آثار تو ایسے ہی ہیں۔وہ ہیں کہ سنجرانی صاحب کی سیٹ پر بھی نظر جمائے ہوئے۔
    وزیر اعظم کے شکایات سیل کے مدارالمہام نے نہ مسائل سننے تھے‘ نہ سننے سے دلچسپی تھی، اقتدار کی بھول بھلیّوں میں وقت گزارنا تھا کہیں گزار لیا۔اسلام آباد تو وہ بچپن میں ہی آگئے تھے،اس شہرِ اقتدار کی اپنی رونق، اپنا طلسم ہے۔ جس سرنگ سے نکلیں شہ نشین پر شہزادی بیٹھی نظر آتی ہے یا سادہ ترین تین لفظوں میں لیلائے اقتدار دعوتِ نظارہ دیتی ہوئی، کسی محمل میں نہیں، کسی کجاوے پر نہیں، کسی لال رنگ اوڑھنی میں نہیں، سامنے شہ نشین پر۔جہاں وہ بھی ہر ایک کو دیکھ سکتی ہے اور اسے بھی دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں۔بعض دیکھنے والے تو قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
    چاغی کی شہرت ایٹمی دھماکوں سے پہلے آصف سنجرانی سے تھی۔ اس سے پہلے کسی اور کا نام کسی کو یاد نہیں ہے۔ کوئی ہوتا تو کوئی یاد رکھتا۔چاغی، نوشکی اور خاران‘ ان تین جگہوں سے قومی اسمبلی کا ایک ممبر بنتا ہے اور صرف ایک گائوں نور کنڈی سے چیئرمین سینیٹ۔بلوچستان کے شمال مغربی کونے میں ایک گائوں نور کنڈی۔چاغی، گرینائٹ کے پہاڑی سلسلے والا چاغی۔گرینائٹ‘ وہ پتھر جس میں خزانہ چھپا ہوتا ہے۔ معدنیات کا خزانہ اور بلوری قلموں والا سلسلہ رکھنے والا عطیہ خداوندی ‘وہ سوڈا جو پودوں کی راکھ سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ساری خوبیاں ہمارے ممدوح چیئرمین سینیٹ میں کسی نے تو دیکھی ہوں گی۔جنہوں نے دو وزراے اعظم کے ساتھ کام کیا، جو کبھی ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ایک جس کے خلاف دو بھائیوں کی جوڑی کالے کوٹ والی جوڑی مشہور ہو گئی تھی۔دو بھائی جن کا بزنس علیحدہ علیحدہ مگر اقتدار میں ساجھے داری۔
    کہتے ہیں روسو کا ایک معاہدہ عمرانی ہوا تھا۔ روسو‘ جس نے فرانس اور یورپ کو جگایا۔ بادشاہ سے اور بادشاہت سے ٹکر لی۔بادشاہت کو ختم کیا اور ختم کیا کیا‘ نیست و نابود کر دیا۔کہتے ہیں اب یا تاش کا بادشاہ یا ملکہ ہے یا برطانیہ کی۔کیا ستم ہے کہ وہ ملکہ کسی پاسپورٹ کی روادار بھی نہیں۔جہاں چاہے جہاز اڑائے اور کسی بھی سرزمین پر پیرا شوٹر کی طرح اتر جائے‘ نہ پوچھ پڑتیت نہ روک ٹوک۔چون ممالک کی ملکہ۔ کرہ ارض پر کل ممالک ایک صد پچانوے اور ایک چوتھائی ممالک سے زیادہ کی ملکہ۔کیمرون سے سوازی لینڈ تک، برونائی دارالسلام سے لے کر ڈیورنڈ لائن کے درمیان آتے ممالک اور دیسوں تک کی ملکہ، بہاماس سے چودھ لاکھ آبادی والے کریبین کے ملکوں تک، ٹرینی داد اور کئی سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزیروں پر پھیلا ہوا خطہ مگر ملکہ صرف تاش کی ملکہ۔
    روسو میں طاقت ہی بڑی تھی۔ اس کے اندر تخلیقی قوتیں ایسے جمع تھیں جیسے پانی میں صحت افزا مواد۔روسو‘ جس نے کہا تھا کہ ماں نے بچوں کو آزاد جنا مگر آج وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی بات سے مارکس نے روشنی لی کہ محنت کشوں کے پاس کیا ہے جن کے چھن جانے کا خوف لاحق ہو؟ زنجیریں ہی چھینی جا سکتی ہیں۔کیا معنی خیز بات ہے‘ زنجیروں کے چھن جانے کی آزادی۔
    دوسرا علاقہ جیکب آباد، جو ملک کا گرم ترین علاقہ ہے۔ وہاں سے ایک گرم نہیں نرم طبیعت کا مالک ایسے طوفان کی طرح اٹھا جو اچانک جنم لیتا ہے اور محکمہ موسمیات والوں کو بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے موسم کی پیش گوئی کی تو امید تک نہیں تھی۔جہاں بارش نہیں ہوتی جہاں پہ جو اور تربوز ہوتے ہیں وہاں سے شیخ حفیظ نکلے اور ارباب غلام رحیم، پرویز مشرف،آصف زرداری سے ہوتے ہوئے اس عہد میں پھر طوفان کی کی طرح اٹھے اور سب کو حیران کر دیا۔
    فرزند ِ راولپنڈی سے فرزند ِ پاکستان تک آنے والے شیخ رشید گواہ ہیں کہ اسحاق‘ نواز شرف چپقلش اور بحران کے دنوں میں پرنسپل سیکرٹری انور زاہد کے بعد ایک شخص قاضی علیم اللہ بھی منظر پر آئے تھے۔ جب نوازشریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو ان کا ایک اور روپ سامنے آیا جو کتنا خطرناک ہو سکتا تھا‘ یہ اسحاق خان بھی جان گئے تھے۔ ملاقات کے لیے نکلے تو قاضی علیم اللہ نے کوئی وظیفہ پڑھا اور نواز شریف پر پھونک ماری۔ کہا: جائیں فتح آپ کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد جو نواز شریف کو کامیابی ملی‘ وہ دس سال کے لیے کیسے یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور کئی بادشاہوں اور بادشاہتوں کی ضمانت کے بعد۔اب کوئی ایسا بیوروکریٹ ہو جو سفید، سیاہ اور گرے فہرستوں کے بجائے کسی منتر کا اہتمام کرے۔ جہاں سینیٹ کے ووٹر پارلیمنٹ کو پارلیامنٹ کہیں،استاد طلبہ کے بجائے یونیورسٹی میں اپنا امیج بنانے میں لگے ہوں وہاں یوسف رضا گیلانی صاحب کا سینیٹ کے چیئرمین کی سیٹ پر سجنا بنتا ہے۔
    ویسے تو رئیس جعفری اورنگ زیب عالمگیر کو اسلام کا آخری تیر کہتے ہیں اور سچ بھی ہے کہ اس نے پچیس نہیں، پچاس سال گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے اور حکمرانی بھی کی۔ مگر اب زمانہ تبدیل ہو گیا ہے نہ اورنگ زیب رہا نہ ویسی کسی کے دل میں تڑپ رہی۔ ہر شعبے میں ایک نفسا نفسی کا عالم ہے مگر سیاست چونکہ سب کے سامنے کرنے والی چیز ہے کوئی بھی چھپ نہیں سکتا، میڈیا آر پار سب کچھ دکھانے پر تیار۔ عوام کے سامنے ہر ایک کی حقیقت واضح ہے۔ کون ہیرا ہے ؟ کوئی بھی نہیں! کس کو کس پر فوقیت ہے ؟ مشکل سوال ہے۔ پچھلے تیس سال تو ہمارے سامنے ہیں‘ ایک سے ایک خواب ایک سے ایک بڑا جھوٹ۔نہ سننے والے کو اعتبار رہا نہ بولنے والوں کو اپنے کہے کی پروا۔
    بھارت میں کرناٹک کی ریاست میں، وہی ٹیپو سلطان اور حیدر علی خان کا کرناٹک‘ وہاں دو شہروں کا نام آپس میں اتنا ملتا جلتا ہے کہ ہم اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کرناٹک کی شاعرہ دوست مہر افروز سے بار بار پوچھنا پڑتا ہے۔ صدر مقام اس ریاست کا بنگلور اور منگلور ایک بندر گاہ ہے۔ وہیں کرناٹک کے جنوب میں‘ جہاں سے عرب ہندوستان میں داخل ہوے تھے‘ مہر افروز تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں بنگلور اور منگلور آتی جاتی رہتی ہیں۔ جب بنگلور کے بارے بات کرتی ہیں تو منگلور کا شبہ ہوتا ہے اور منگلور پر بنگلور پر دھوکا۔ دیکھ لیں کتنا ملتا جلتا نام ہے منگلور اور بنگلور۔ ان دو صاحبان میں بھی اتنا ہی فرق ہو گا۔ سو گیلانی کیسے بھلائے جا سکتے ہیں؟ اور اپنے شیخ صاحب‘ جب ٹماٹر تین سو روپے کلو بِک رہا تھا تو یہ صاحب سترہ روپے کلو کا بتاتے تھے۔ اب ہم دونوں میں سے کس کے لیے کہیںع
    ترکشِ مارا خدنگِ آخریں
    سینیٹ کے لیے کس امیدوار کا انتخاب ہونا ہے؟ کس نے کامیاب ہونا ہے؟ بنگلور یا منگلور؟ کیا فرق ہے؟


     

اس صفحے کو مشتہر کریں