1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فرحتِ زیارتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ (رض) کا رقص

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏17 اکتوبر 2008۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ مجھے ای-میل کے ذریعے ایک مخطوطہ موصول ہوا جس میں مضمون نگار نے حدیث پاک اور مستند آئمہ حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ بتایا ہے کہ حضور اکرم :saw: کے دور میں عید وغیرہ کی خوشی کے موقع پر دیدارِ مصطفی :saw: اور آمدِ مصطفیٰ :saw: کی خوشی میں رقص بھی کیا کرتے تھے۔
    آپکے ایمانی ذوق کے لیے تحریر پیش خدمت ہے۔

    [​IMG]
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رقص کرنا ؟؟

    ایک نئی ، حیرت انگیز اور قدرے عجیب سی بات ہے :nose:
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    سبحان اللہ ۔
    اگر اتنے عظیم آئمہ کرام نے اس حدیث پاک کو بیان کیا ہے تو یقیناً حضور نبی پاک :saw: کے سچے غلاموں نے محبت و فرحتِ دیدارِ محبوب میں رقص کیا ہوگا ۔
    جزاک اللہ نعیم چاچو ۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم نور بہنا ۔
    میں‌ نے اوپر لکھا ہے کہ یہ تحریر مجھے ای-میل سے موصول ہوئی ۔ لیکن اس مخطوطے کے اندر والے مضمون میں کوئی سنی سنائی حکایت یا قصہ نہیں ۔ بلکہ آئمہ اربعہ میں سے بہت عظیم امام الحدیث اور امام الفقہ حضرت امام احمد بن حنبل :rda: کے تحقیق و تخریج کا حوالہ درج ہے۔
    پھر قاضی عیاض :ra: ، امام نووی :ra: اور امام عسقلانی :ra: جیسے اکابر آئمہ حدیث کے حوالہ جات ہیں۔
     
  5. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم۔
    یہ مخطوطہ درست ہے۔
    یہ حدیث پاک اور واقعہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بعض خطاب سے سننے کا اتفاق ہوا تھا ۔
    اللہ تعالی ہمیں لذتِ ایمان عطا فرمائے۔ آمین
     
  6. باباجان
    آف لائن

    باباجان ممبر

    شمولیت:
    ‏8 دسمبر 2008
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عاشقان صادق کا رقص بھی خالق حقیقی عزوجل کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے لئے تھا نہ کہ کسی مجازی محبوب کے لئے تو یہ بھی عین عبادت
    سبحان اللہ عزوجل شکریہ نعیم بھائی جزاک اللہ خیر
     
  7. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائیو ، بہن نور کا سوال کافی معقول اور غور طلب ہے ، ایسے سوالات ، یا کسی بھی سوال کا جواب محدود معلومات کی بنا پر دیا جانا سائل اور مسئول دنوں کے نقصان کا باعث بنتا ہے ، خاص طور پر جب معاملہ دینی ہو ، پس کسی معاملے کے بارے میں میسر تمام تر معلومات کو سامنے رکھ کر ہی بات کی جانی چاہیے ، اور اسی طور معاملہ کو ٹھیک طرح سمجھا جا سکتا ہے ،
    یہ مذکورہ حدیث ایک واقعہ کا حصہ ہے ، ہونا تو چاہیے تھا کہ اس کو پورا بیان کیا جاتا تا کہ واضح ہوتا کہ """ رقص """ کیا تھا ؟
    ایمان والوں کی والدہ محترمہ اس واقعہ کو بیان فرماتی ہیں ، کیونکہ وہ اس کی سب سے اہم گواہ ہیں ، پس ان کی بات کسی بھی اور کی بات سے زیادہ معتبر ہے ،
    فرماتی ہیں ((((( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا فسمعنا لغطا وصوت صبيان فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا حبشية تزفن والصبيان حولها فقال """يا عائشة تعالي فانظري """فجئت فوضعت لحيي على منكب رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعلت أنظر إليها ما بين المنكب إلى رأسه فقال لي """ أما شبعت؟ أما شبعت؟ """قالت فجعلت أقول لا لأنظر منزلتي عنده إذ طلع عمر قال فارفض الناس عنها قالت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم """ إني لأنظر إلى شياطين الإنس والجن قد فروا من عمر """ قالت فرجعت::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے شور اور بچوں کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ حبشہ کے لوگ رقص کر رہے ہیں اور بچے ان کے گرد کھڑے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا """ اے عائشہ ادھر آؤ اور دیکھو """ تو میں نے وہاں جا کر اپنی ٹھوڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کندھے پر رکھ دی ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان میں سے ان لوگوں کی طرف دیکھنے لگی تو (کچھ دیر بعد )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا """کیا تمہارا جی نہیں بھرا ؟کیا تمہارا جی نہیں بھرا ؟ """تو میں کہتی رہی ، جی نہیں ، تا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس اپنی قدر و منزلت دیکھوں تو اتنے میں عمر (رضی اللہ عنہ ) ظاہر ہوئے تو لوگ حبشیوں کے پاس سے دائیں بائیں ہو گئے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا """ میں انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دیکھ رہاہوں کہ وہ عُمر سے بھاگ رہے ہیں """ ( حبشیوں کا کھیل چونکہ ختم ہو چکا تھا اس لیے ) میں بھی واپس ہو گئی )))))
    یہ الفاظ تو سنن الترمذی اور سنن النسائی کی روایات کے ہیں ، ان میں سمجھنے والی بات """ یزفن """ یا ""' دیگر روایات میں """ یزفنون """ کے لفظ کو سمجھنا ہے جس کا ترجمہ عام طور پر اردو میں """رقص """ میں کیا جاتا ہے ، لیکن یہ """ رقص """ کیا وہی حرکات ہیں جنہیں اردو داں طبقہ """ رقص """ کے طور پرپر جانتا ہے ،
    اس کو ہم دیگر روایات کی روشنی میں سمجھیں گے نا کہ محض لفظی ترجمے یا مفہوم کے ذریعے ، ملاحظہ فرمایے ،
    صحیح البخاری ، کتاب المناقب ، باب ۱۳ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں میں بھی ایک حصہ بیان ہوا ہے ، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ (((((یلعبون فی المسجد:::مسجد میں کھیل رہے تھے ))))) اور یہاں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ یہ کھیل عید کے موقع پر تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زیارت مبارک کی وجہ سے نہ تھا ،
    سابقہ روایت میں یہ بھی واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو اہل حبشہ اور بچوں کا شور سن کر تشریف لائے ، نہ کہ ان کے تشریف لانے پر """ رقص """ کیا گیا ،

    اب دیکھیے کہ اس کھیل کی کیفیت اور اصلیت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے صحیح البخاری ، کتاب الصلاۃ ،ابواب المساجد ، باب 36 ، میں اور صحیح مسلم ،کتاب صلاۃالعیدین ، باب 4 میں بیان فرمائی کہ ((((( و الحبشۃ یلعبون بحرابھم ::: اور حبشہ کے لوگ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ کھیل رہے تھے ))))) ،،،
    ان دو روایات کے ذریعے """ یزفنون """" جسے """ رقص """ کہا گیا ، اس """ رقص """ کی حقیقت اور کیفیت بالکل واضح ہو جاتی ہے ، اس کے بعد تاویل ہی رہ جاتی ہے جو کسی بھی بات کی کوئی بھی کی جانے کی کوشش کی ہی جاتی رہتی ہے ،
    اگر اس واقعے کو بنیاد بنا کر کسی بھی قسم کا """رقص """یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ رقص جو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے اسے جائز اور درست مانا جائے تو ایسا کرنا ان احادیث کے خلاف ہے ، اور ایمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا جو امت کی سب سے بڑے علما اور فقہا میں سے ہیں ،ان کی فقہ کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے ، وہ فقہ جو یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی براہ راست تعلیم و تربیت کا پھل ہے ،
    علم الاصول الفقہ میں ایک قانون ہے کہ """ الراوی ادریٰ بالروایتہ عن غیرہ """ اور یہی ایمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا """ رقص """ تو دور کی بات اس سے ملتی جلتی حرکت ، یا اس کے جز کو بھی برداشت نہیں فرماتی تھیں ، اس کی ایک مثال ذکر کر کے فی الحال اپنی بات روکتا ہوں ،
    ایمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھانجیوں کا ختنہ کیا گیا تو وہ درد کی حالت میں تھیں ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا """ اے ام المؤمنین کیا کسی ایسے کو نہ بلایا جائے جو ان بچیوں کو بہلائے """ فرمایا """کیوں نہیں """ ، توایک گانے والے کو بلایا ، (یہاں بھی گانے کا لفظ صرف لفظی ترجمہ ہے ، اور حقیقت یہ کہ کسی بات کو ترنم کے ساتھ بیان کرنے والا جیسا کہ امام البیھقی نے اس حدیث کے باب کے عنوان میں کہا ) تو جب ام المؤمنین رضی اللہ عنہا وہاں سے گذریں تو دیکھا کہ وہ ترنم خیز ہے اور لے کی مستی میں اپنا سر ہلا رہاہے اور اس کے بال کافی بڑے بڑے تھے ، تو فرمایا """" اُف، شیطان ،أخرجوہ ،أخرجوہ ::: توبہ ، شیطان (ہے یہ ) اسے نکالو ، اسےنکالو """" تو گھر والوں نے اسے نکال دیا ، الادب المفرد ،للامام البخاری ، سنن البیھقی الکبریٰ ،
    اگر """یزفنون """ سے مراد """ رقص """ ہی ہے اور وہ جائز ہے تو ایمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرح اور فقہ اور عمل کو کس کھاتے میں ڈالیں گے ؟؟؟
    اللہ ہم سب کو حق جاننے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی ضد اور تعصب کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے ، اور اللہ کے فرامین اور اعمال ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین اور اعمال کے مطابق ، اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجعین کے فرامین اور اعمالکے مطابق سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ، و السلام علیکم ۔
     
    دلبر جان نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
    بلا شبہ ان احادیث مبارکہ کے اندر بیان ہونے والے رقص سے وہ رقص مراد نہیں جو رقص فی زمانہ فلموں، مجروں وغیرہ کا حصہ ہے۔ جس میں مرد یا عورت جسمانی نمائش کے ذریعے گناہ و معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نہ ہی اس سے وہ رقص و ڈانس و ناچ مراد ہو سکتا ہے جو نایٹ کلبوں یا دیگر پارٹیوں میں ہوتا ہے۔

    بلکہ جیسا کہ اس لڑی کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ وہ رقص ہے یا مخصوص قلبی و روحانی وجد کی حالت میں وہ جسمانی حرکات و سکنات ہیں جو انسان سے حالتِ ایمان میں محبتِ الہی میں یا محبت رسول :saw: کے احساس میں غرق ہوکر وارد ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ روحانی رقص ہر صوفی، ہر روحانی شخصیت، ہر اہل ایمان ہمہ وقت ہی انجام نہیں دیتا رہتا بلکہ جیسا کہ اوپر عرض کیا کچھ مخصوص مواقع و حالات ہوتے ہیں جس میں نشہء محبت الہی اور نشہء محبت رسول :saw: میں وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

    نعیم بھائی کے ارسال کردہ مخطوطے میں پہلی حدیث پاک جو کہ مسند امام احمد بن حنبل سے لی گئی ہے۔ اس میں امام احمد بن حنبل :ra: نےواضح طور پر لفظ " یرقصون" استعمال کیا ہے۔ " یزفنون" کے معانی پر بحث بعد میں آتی ہے سب سے پہلے تو ہمیں عظیم امام فقہ کے اسی واضح لفظ " یرقصون" کو لینا ہوگا جنہوں نے اپنے طریق سے یہ لفظ بیان کیا ہے جس کے معنی سوائے " رقص " کے اور کچھ نہیں نکلتے۔ اور حبشہ کے لوگ نہ صرف یہ کہ رقص کرتے تھے بلکہ ساتھ ہی ساتھ عظمتِ رسول :saw: کے ترانے بھی گاتے تھے۔ یعنی "‌محمد عبد الصالح" پڑھتے تھے۔ یعنی محمد :saw: ایک صالح آدمی ہیں۔ یہ حضور اکرم :saw: کی تعریف و ثنا ہے جس کے الفاظ کو حبشہ کے لوگ ایک ردھم کے ساتھ پڑھتے اور رقص کرتے تھے۔ واضح رہے کہ امام مقدسی نے اس حدیث کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابن حبان نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے۔ حوالہ جات کے لیے نعیم بھائی کا ارسال کردہ مخطوطہ دیکھیے۔

    امام عسقلانی رحمہ اللہ کی فتح الباری کے مطابق نہ صرف حبشہ کے لوگ بلکہ مدینہ طیبہ کے بچے بھی انکے گردا گرد رقص کرتے اور توصیف و ثنائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیان کررہے تھے۔ علاوہ ازیں امام طبرانی، امام قاضی عیاض اور امام نووی جیسے عظیم آئمہ کرام نے بھی یزفنون کے لفظ سے رقص مراد لیا ہے۔

    یہ رقص جو حبشہ کے لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کے سامنے کررہے تھے ۔ یہ رقص کے جائز ہونے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود بھی ا سے دیکھنا، اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی بلا کر دکھانا اور اتنا دکھانا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بار بار پوچھنا کہ عائشہ ! جی بھر گیا ؟ جی بھر گیا ؟ یعنی انکے دل بھر جانے تک دکھاتے رہنا۔

    جس انداز میں انسان و جن کی شکل میں شیطانوں کے بھاگنے کا ذکر کیا گیا وہ کمالِ نگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم تھا کہ رقص کا یہ منظر نہ صرف مدینہ کے لوگ بشمول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جیسے کامل مومنین کے علاوہ شیطانی مخلوق بھی جن و انس کی شکل میں دیکھ رہی تھی ۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بھاگ نکلے۔ یہی واحد وجہ ہے جو اس مقام پر شیاطین کا ذکر کرنے پر سمجھ آسکتی ہے وگرنہ وہ عمل جو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برضا و رغبت ملاحظہ فرما رہے ہوں اور ام المومنین سید عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلا بلا کر دکھا رہے ہوں۔ اسکے جائز ہونے میں مزید کسی دلیل کی ضرور ت نہیں رہتی ۔

    حضرت زید بن حارث، حضرت جعفر اور حضرت علی رضی اللہ عنھم کا رقص کرنا

    حضرت علی اور حضرت براء بن عازب سے ایک اور حدیث پاک بھی مروی ہے جس میں ایک ننھی بچی کے معاملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ فرمایا ۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارث کو نے اپنے بھائی اور مولیٰ (دوست) کا درجہ عطا فرمایا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی اس اعزاز کے ملنے پر خوشی سے ذاتِ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد دائرے کی صورت میں رقص کرنے لگے۔ اسکے بعدحضرت جعفر رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعزاز بخشتے ہوئے فرمایا کہ تم خلق اور خُلق میں میری شبیہہ ہو ۔ اس مرتبہ کے ملنے کی خوشی میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے حضرت زیدکے گرد ایک حلقہ کی صورت میں رقص کرنا شروع کر دیا۔ پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اعزاز بخشتے ہوئے فرمایا " علی انت منی وانا منک " اے علی ! تو مجھ سے ہے اور میں تم سے ہوں ۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گرد ایک تیسرے دائرے کی شکل میں رقص کرنا شروع ہوگئے۔

    امام نسانی ، السنن الکبریٰ ، جلد 5، صفحہ 127، رقم 8456
    البیہقی ، السنن الکبری ، جلد 8، صفحہ 6
    البیہقی ، جلد 10، صفحہ 226، رقم 20816
    (امام بیہقی اور امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے)
    امام احمد بن حنبل ، المسند، جلد 1، صفحہ 108
    المقدسی ، الحدیث المختارہ، جلد 2، صفحہ 392، رقم 744
    امام بزار ، المسند، جلد 2، صفحہ 316

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و استقبال پر رقص کیا جانا

    نعیم بھائی کے پیغام میں بیان کردہ حدیث سے کچھ ذہنوں میں محض ایک ہی حدیث پڑھ کر یہ مغالطہ بھی آجاتا ہے کہ شاید خوشی کا یہ رقص صرف عید کے موقع پر ہی تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور استقبال کے لیے ایسا کوئی اہتمام نہ کیا جاتا تھا۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے امام بخاری، امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم کی بیان کردہ ایک اور حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حبشہ کے لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےقدم رنجہ فرمانے کی فرحت و خوشی میں ایسا ہی کھیل اور رقص پیش کیا۔

    امام بخاری ، التاریخ الصغیر ، جلد 1، صفحہ 8، رقم 15
    ابو داؤد، المسند ،جلد 4، صفحہ 281، رقم 4923
    امام احمد بن حنبل المسند، جلد 3، صفحہ 161

    اوپر بیان کی گئی احادیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ وہ رقص جو محبت و فرحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وارفتگی کے عالم میں کیا جائے وہ جائز ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم نے یہ رقص کیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور انکے گرد دائرے کی شکل میں کیا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حجرہ انور کے سامنے کیا جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دیکھنا پسند فرمایا، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دِکھایا ۔

    اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بعد ازاں کسی موقع پر کسی مغنی کو منع فرمایا تو اسکی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ وہ رقص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی یا آپ کی ذات گرامی کی تعریف و ثنا میں نہ تھا بلکہ دنیوی مقاصد کے لیے تھا اور پیشہ ور تھا۔

    واللہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم ۔

    والسلام علیکم
     
  9. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    برادر بھائی ، بہت ہی بھلا ہو کہ اگر آپ نے جن روایات کا ذکر فرمایا ہے ان کا عربی متن لکھ دیجیے ، یا کتاب کی ترتیب کے مطابق اندرونی کتابوں اور ابواب کا حوالہ دیجیے ، پھر ان شا اللہ پر ایک روایت پر بات کرتے ہوئے اس کو سمجھنا آسان ہو سکتا ہے ، کیونکہ ہر ایک طباعت میں صفحات اور جلدوں کی ترتیب اور انداز مختلف ہو جاتا ہے ، یوں تلاش کافی وقت لیتی ہے ، پس حوالہ جات کا ذکر اس علمی انداز میں کیا جانا چاہیے جو ایک معیار کے طور پر مقرر ہے، تا کہ انہی حوالہ جات تک پہنچا جا سکے جو دیے جا رہے ہیں اور پھر ان کی صحت اور درستگی اور درستگی کی صورت میں درست فہم تک رسائی ہو سکے ، باذن اللہ ،
    رہا معاملہ امام احمد رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت میں """ یرقصون """ کا تو میرے بھائی ، ہم نے اوپر جس روایت کے بارے میں بات کی ، وہ ایک ہی واقعہ کے روایات ہیں ، امام احمد کے پاس انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں ، اور میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ذکر کیے ہیں جو اس واقعے کی جزئیات کی ایک کردار کی طرح گواہ ہیں ، اور ‌آغاز سے اختتام تک بیان کرتی ہیں ، جب کہ انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں صرف ایک جز کا ذکر ہے ،
    اور مزید یہ کہ لغتا بھی """ یزفنون """ کا متبادل """ یرقصون """ بنتا ہے ، پس اس میں بحث نہیں ، بلکہ اس """ یزفنون """ یا """ یرقصون """ کی کیفیت کو سمجھنا ہے جو ام المومنین رضی اللہ عنہا کی روایات میں واضح ہے ،
    اور انہی روایات میں واضح ہے کہ یہ عید کے دن کا واقعہ ہے ،
    مزید گذارش یہ کہ میرے لیے یہ بھی واضح فرما دیجیے کہ اس گفتگو کا مقصد کیا ہے ؟
    میرا اس گفتگو میں شامل ہونا دور نبوت میں """ رقص """ کا انکار نہیں ، میں صرف یہ کہنا اور بتانا چاہتا ہوں کہ ان واقعات میں """ رقص """ کی کیفیت سمجھ کر ، موقع اور مناسبت سمجھ کر """ رقص """ کی شرعی حیثیت جانی جائے ، نہ کہ صرف الفاظ کو دیکھتے ہوئے ان کاموں کو درست خیال کر لیا جائے جو ہم مسلمانوں میں بعض مخصوص لوگوں نے اپنا رکھی ہیں اور انہیں اسلامی قرار دیا جاتا ہے ،
    رہا معاملہ """ ردھم """ کا تو بھائی یہ تو کسی بھی عبارت کی ادائیگی کے انداز میں تبدیلی پیدا کر کے اس میں مہیا کیا جا سکتا ہے ، اس کی ابتدا کو ترنم اور اگلے مرحلے کو غنا یعنی گانا کہا جاتا ہے اور پھر عرض کروں کہ قران اور صحیح احادیث میں کسی کام کی کیفیت اس سے متعلقہ تمام صحیح روایات کی جزئیات کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھی جاتی ہیں نہ کہ محض لغوی معانی کے مطابق ،اور پھر کسی بھی معاملے میں وارد تمام صحیح احادیث اور آثار کو بھی جانا اور سمجھا جاتا ہے اس کے بعد اس کا شرعی حُکم معلوم ہو پاتا ہے ، یہ منہج ہے اہل سنت و الجماعت کا ، یعنی صحیح ثابت شدہ سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے فہم کے مطابق شرعی معاملات کو سمجھنا ،
    آخر کو ابتدا والی گذارش کی دھرائی جانیے ، و السلام علیکم
     
  10. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم جناب بھائی برادر صاحب۔
    دورِ نبوی :saw: میں پیارے نبی آخر الزمان :saw: کی آمد، استقبال، یا عید سعید کے مواقع پر خوشی منانا، یا بارگاہِ مصطفوی :saw: سے کوئی انعام، اعزاز و اکرام کے عطا ہونے پر وجد و رقص کی کیفت کا طاری ہونا ، مکمل شرح و بسط اور حوالہ جات کے ساتھ سنت نبوی :saw: سے ثابت کرنے پر بہت شکریہ ۔
    مجھ بےعلم کو بہت مفید معلومات میسر آئی ہیں۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپکے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
     
  11. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    سلام عرض ہے۔
    نعیم صاحب اور بالخصوص جناب برادر صاحب کا شکریہ جنہوں نے اتنی خوبصورت بات سنت نبوی :saw: کی روشنی میں واضح فرمائی ۔
    بدقسمتی سے آج ہم نے اسلام کا تصور کچھ محدود کر دیا ہے حالانکہ ہم اسلام کے دین فطرت ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور خشک مذہب بھی پیش کرتے ہیں۔
    علامہ اقبال نے ایسے تنگ ذہن اسلام کو "‌ملائیت" قرار دیا ہے۔
     
  12. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    برادر بھائی ، جزاک اللہ خیرا ، ان احادیث میں یقینا اس رقص کی بات نہیں جس کا آپ نے اس مندرجہ بالا عبارت میں ذکر کیا ، اور نہ ہی اس """ رقص """ کا ذکر ہے جس کا آپ نے آگے ذکر کیا ، کہ :::

    برادر بھائی ، اصولی بات ہے کہ کسی بات کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے پہلے قواعد و قوانین اور کسوٹیاں مقرر کی جاتی ہیں ، اور اس کے بعد ان کے مطابق تحقیق و بحث کی جاتی ہے ،
    اور بحیثیت مسلمان ، ہم سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے قواعد و قوانین اور کسوٹیاں مقرر فرما دی ہیں ، جو مندرجہ ذیل ہیں ::: (1) اللہ کی کتاب (2) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم (3) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت (4) ان سب کی موافقت رکھنے والے عُلماء کرام ،
    چونکہ یہاں """ رقص """ بلکہ """رقص و سرود""" کا معاملہ ان مذکورہ بالا کسوٹیوں کے بغیر ہی سمجھے جانے کی سعی ہو رہی ہے اس لیے ان کسوٹیوں کا ذکر کیا ، اور یہ یاد کروانے کے لیے بھی کہ کسی اختلاف کی صورت میں کسی بھی مسلمان کے لیے ان مذکورہ بالا ذرائع کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حق تک رسائی ممکن نہیں ،
    تو میرے محترم برادر ، آپ کے مندرجہ بالا جملوں میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کی حقیقت غیر واضح ہے ، کیا ہی بھلا ہو کہ آپ ان کی کچھ وضاحت فرما دیں ، کہ """ وجد """ کیا ہوتا ہے ؟؟؟ روحانی ، قلبی ، جسمانی کی تقسیم ، """ وجد""" کی تعریف کے بعد سمجھی جا سکتی ہے ان شاء اللہ ،
    برادر بھائی جسمانی رقص تو معروف چیز ہے ، بڑی عنا یت ہو گی گر یہ بھی سمجھایے کہ """ روحانی رقص """ کیا اور کیسا ہوتا ہے ؟؟؟

    اور میرے بھائی ، """ نشہ """ بہر صورت اور بہر کیفیت و کمییت حرام ہے ، معاذ اللہ یہ کیا انداز گویائی ہے کہ اللہ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت جو کہ عقل و خِرد کو رعنائی اور قوت ، چمک و فراست دیتی ہے اسے """ نشہ""" کہا جا رہا ہے ، جو بد بخت عقل و خِرد کو معطل کر کے انسان کو انسانیت کے لیے شرم و عار بنا دیتا ہے ، شاید اسی فلسفے کے زیر اثر اور اسی قسم کے وجد کے حصول کے لیے اکثر """ حضرات """ اپنے اپنے ٹھکانوں پر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے اور کرواتے ہیں اور """ وجدانی کیفیات """ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ، ایسے شواہد ہمارے معاشرے میں با کثرت ہیں ،

    بھائی جی ، گو کہ یہ بات ہمارے زیر بحث موضوع سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی لیکن ان شا ء اللہ سب کے فائدے کے لیے بتاتا چلوں کہ مسند احمد میں روایت کیے گئے الفاظ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نہیں ، بلکہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کے ہیں ، جو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے روایت کیے ہیں ، پس یہ الفاظ امام احمد رحمہ اللہ سے منسوب کرنا کسی بھی طور درست نہیں ،
    اس کے بعد گذارش ہے میرے بھائی کہ اگر ، """ یزفنون """ یا """ یرقصون """ کے لغوی معانی ، کی بات کی جائے تو آپ کا فرمان درست لیکن ام المومنین رضی اللہ عنہا جو اس واقعہ کی گواہ ہیں ، اور خاص حصہ ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے سب سے بڑے فقہا میں سے ہیں ، ان کی شرح و تفسیر غلط ہوتی ہے ، جس کے بارے میں سابقہ مراسلے میں بات کر چکا ہوں ،
    برادر بھائی مسند احمد والی روایت کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں :::
    حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا عبد الصَّمَدِ قال ثنا حَمَّادٌ عن ثَابِتٍ عن أَنَسٍ قال ((( كَانَتِ الْحَبَشَةُ يَزْفِنُونَ بين يدي رسول اللَّهِ (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) وَيَرْقُصُونَ وَيَقُولُونَ مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ فقال رسول اللَّهِ (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) ما يَقُولُونَ قالوا يَقُولُونَ مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ )))
    ملاحظہ فرمایے ، کہ یہ الفاظ امام احمد رحمہ اللہ کے نہیں ، بلکہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کے ہیں ،

    برادر بھائی مسند احمد کی مذکورہ بالا روایت کی صحت کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں ، اور نہ صحت کے بارے میں کوئی بات ہوئی ، معاملہ صرف اسے سمجھنے کا ہے ، کئی صحیح احادیث کا غیر صحیح مفہوم اپنا کر بہت کچھ ایسا کہا اور کہلوایا ، کیا اور کروایا جاتا ہے جو درست نہیں ہوتا ، پس اعتماد صرف صحت روایت پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس روایت کے صحیح مفہوم پر کیا جاتا ہے ، اس موضوع کی تفصیل میں ایک الگ مضمون کی صورت میں نشر کر چکا ہوں ،
    خاص طور پر اس """ رقص""" کے مفہوم کے بارے میں سابقہ مراسلے میں گذارشات پیش کر چکا ہوں ، انہیں پھر پڑھیے ، اور اس دفعہ امام النووی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح صحیح مسلم میں سے اسی """ رقص """ کی شرح میں جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ بھی نقل کیے دے رہا ہوں ، کہ آپ اور دیگر پڑھنے والوں کو مزید وضاحت ہو جائے
    """""""" قولها جاء حبش يزفنون في يوم عيد في المسجد هو بفتح الياء واسكان الزاي وكسر الفاء ومعناه يرقصون وحمله العلماء على التوثب بسلاحهم ولعبهم بحرابهم على قريب من هيئة الراقص لأن معظم الروايات إنما فيها لعبهم بحرابهم فيتأول هذه اللفظة على موافقة سائر الروايات """"""""
    اور یہ بھی غور فرمایے کہ یزفنون اور یرقصون دو الگ الگ کام ہیں یا ایک ہی کام کو دو مختلف لیکن مترادف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، یا ایک ہی کام کی دو مختلف کیفیات کا ذکر ہے ، یا ایک ہی کام کے تسلسل کو ظاہر کرنے کے لیے دو مترادف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، جیسا کہا جاتا ہے ، یتکلمون و یقولون، بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں ، جلس و قعدوہ بیٹھا اور با نشست ہوا ، وغیرہ وغیرہ ،
    بفرض محال آپ کی منطق کو ہی درست مان لیا جائے تو بھی میرے بھائی """ یرقصون """ کا مفہوم باقی روایات کے مطابق لیا جائے گا ، جیسا کہ میں نے سابقہ مراسلے میں کہا اور اپنی بات کی تائید میں ابھی ابھی امام النووی کا فرمان ذکر کیا ،
    اور ردھم کے ساتھ پڑھتے تھے والا معاملہ محض ایسی سوچ کا عکاس ہے جو """ رقص""" کو اس طرح سمجھتی ہے جس طرح وہ وہاں نہ تھا ، ورنہ کسی روایت میں ایسی کوئی بات میسر نہیں جس سے ردھم یعنی """ لحن """ یعنی قواعد و انداز موسیقی کے مطابق یہ الفاظ ادا کیے جانے کی بات ہو ،

    آپ کے اس فرمان کو یقینا اچھی طرح سے جانچا او ر سمجھا جانا چاہیے ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ امام ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی فتح الباری میں اس جگہ کا حوالہ عنایت فرمایے جس میں وہ کچھ کہا بتا یا گیا ہو جو آپ نے لکھا ، تا کہ اس کی درستگی کا اندازہ کیا جائے ،
    اسی طرح امام الطبرانی ، قاضی عیاض ، اور امام النووی رحمہم اللہ اجمعین کے ان اقوال کا حوالہ بھی عنایت فرمایے ، جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے ،
    برادر بھائی ، ابھی ابھی کچھ اوپر میں نے امام النووی رحمہ اللہ کا """ یزفنون """ کا معنی """ یرقصون """ اور پھر """ یرقصون """ کی کیفیت سمجھنے کا طریقہ اور علماء کا رویہ بیان فرمایا ہے ، اسے دوبارہ بغور پڑھیے اور دیکھیے کہ ائمہ اور علماء نے ان احادیث میں مذکور """ رقص """ کو جس طرح سمجھا اور سمجھنے کی تعلیم دی وہ وہی کچھ ہے جو میں نے سابقہ مراسلے میں عرض کیا تھا،

    جی بالکل درست فرمایا ، ایسے عمل کے جائز ہونے کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ، لیکن اس عمل کی کیفیت اور صفت جاننے کی ضرورت یقینا برقرار رہتی ہے جو صرف ایک یا چند روایات میں ظاہر نہیں ہوتی ، اپنے سابقہ مراسلے میں اس کے صفت و کیفیت کے بارے میں لکھ چکا ہوں اور اس مراسلے میں بھی امام النووی علیہ رحمۃ اللہ کا فرمان لکھ چکا ہوں ،
    رہا شیطانوں کے بھاگنے کے ذکر میں شیطانوں سے کیا مراد لی جائے اس کی بات پھر سہی ان شاء اللہ ،آپ کی لکھی ہوئی تاویل کو بھی ایک ملاحظے کے ساتھ مانا جا سکتا ہے ،

    برادر بھائی ، اب ہم آپ کی ذکر کردہ روایات اور اس کے حوالہ جات اور اس کی صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ ،
    بھائی جی ، امام الحاکم کی تصحیح کہاں ہے ؟؟؟ میری درخواست ہے کہ امام الحاکم نے یہ تین صحابہ رضی اللہ عنہم کے """ رقص """ والی روایت کونسی سند کے ساتھ اور کہاں صحیح قرار دی ہے براہ کرم اس کا حوالہ مہیا فرمایے ،
    میرے بھائی یہ روایت امام الحاکم نے اپنی """ المستدرک الحاکم """ میں ، کتاب معرفۃ الصحابۃ ، باب ذکر اسلام علی رضی اللہ عنہ ، میں ذکر کی ہے اور اس میں اُس نام نہاد """ رقص """ کا کہیں ذکر نہیں ،
    اور آپ فرما رہے ہیں کہ امام الحاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے ،

    رہا معاملہ آپ کے دیگر حوالہ جات کا تو سابقہ مراسلہ میں ، میں نے درخواست کی تھی کہ ان حوالہ جات کو علمی انداز میں مہیا فرمایے ، لیکن ،،،،،،،،،
    بہر حال اب آتے ہیں آپ کے دیے ہوئے حوالہ جات کی طرف ، ایک ایک کر کے ان میں میسر روایت کو پورا کا پورا نقل کرتا ہوں :::
    [highlight=#FFFF80:1yoavn0u]آپ نے پہلا حوالہ دیا ::: امام نسانی ، السنن الکبریٰ ، جلد 5، صفحہ 127، رقم 8456[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFBFBF:1yoavn0u]برادر بھائی ، آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا وہ سنن النسائی ، کتاب الخصائص ، باب 22 ذکر الاختلاف علی ابی اسحاق علی ھذا الحدیث ، میں کچھ یوں ہے ، بغور ملاحظہ فرمایے ، اس میں کہیں کسی بھی """ رقص """ کا ذکر تو کیا اشارہ بھی نہیں ،[/highlight:1yoavn0u]
    أخبرنا أحمد بن حرب قال حدثنا القاسم الجرمي قال حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن هبيرة بن يريم و هانئ بن هانئ عن علي قال لما صدرنا من مكة إذا ابنة حمزة تنادي يا عم يا عم فتناولها علي فأخذها فقال لفاطمة دونك ابنة عمك فحملها فاختصم فيها علي وجعفر وزيد فقال علي أنا أحق بها وهي ابنة عمي وقال جعفر ابنة عمي وخالتها تحتي وقال زيد بنت أخي فقضى بها رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) لخالتها وقال الخالة بمنزلة الأم وقال لعلي أنت مني وأنا منك وقال لجعفر أشبهت خلقي وخلقي وقال لزيد يا زيد أنت أخونا ومولانا (8456 )
    بھائی جی ، اسی واقعے کی ایک اور روایت میری طرف سے بھی حاضر ہے جو اسی سنن النسائی میں میں کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ ، اسی کتاب الخصائص کے باب 63 ذكر الأخبار المؤيدة لما تقدم ووصفه میں ہے ، اور اس میں بھی کہیں کسی """ رقص """ کا ذکر نہیں ، اس روایت کے آخر میں امام النسائی کا ایک جملہ بہت فیصلہ کن ہے ، اس پر خوب غور فرمایے ،
    أخبرنا أحمد بن سليمان قال حدثنا عبيد الله بن موسى قال أخبرنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن البراء بن عازب قال اعتمر رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) في ذي القعدة فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على أن يقيم فيها ثلاثة أيام فلما كتبوا هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله قالوا لا نقر بها لو نعلم أنك رسول الله ما منعناك بيته ولكن أنت محمد بن عبد الله قال أنا رسول الله وأنا محمد بن عبد الله قال لعلي امح رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) قال والله لا أمحوك أبدا فأخذ رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) الكتاب وليس يحسن يكتب فكتب مكان رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) محمدا فكتب هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله لا يدخل مكة سلاح إلا السيف في القراب وأن لا يخرج من أهلها بأحد إن أراد أن يتبعه وأن لا يمنع أحدا من أصحابه إن أراد أن يقيم فلما دخلها ومضى الأجل أتوا عليا فقالوا قل لصاحبك فليخرج عنا فقد مضى الأجل فخرج رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) فتبعته ابنة حمزة تنادي يا عم يا عم فتناولها علي فأخذها بيدها فقال لفاطمة دونك ابنة عمك فحملتها فاختصم فيها علي وزيد وجعفر فقال علي أنا آخذها وهي ابنة عمي وقال جعفر ابنة عمي وخالتها تحتي وقال زيد ابنة أخي فقضى بها رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) لخالتها وقال الخالة بمنزلة الأم ثم قال لعلي أنت مني وأنا منك وقال لجعفر أشبهت خلقي وخلقي ثم قال لزيد أنت أخونا ومولانا فقال علي ألا تتزوج ابنة حمزة فقال إنها ابنة أخي من الرضاعة [highlight=#FF4040:1yoavn0u]قال أبو عبد الرحمن خالفه يحيى بن آدم فروى آخر هذا الحديث عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن هانئ بن هانئ وهبيرة بن يريم عن علي[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFFF80:1yoavn0u]اب آتے ہیں آپ کے دوسرے اور تیسرے حوالے سنن البیھقی کی روایت کی طرف ، جن کا آپ نے یوں ذکر فرمایا ::: البیہقی ، السنن الکبری ، جلد 8، صفحہ 6
    البیہقی ، جلد 10، صفحہ 226، رقم 20816[/highlight:1yoavn0u]
    گوکہ آپ کے یہ حوالہ جات بھی مبہم ہیں ، بلکہ ان میں کچھ آگے پیچھے لکھا گیا ہے ، کہ سنن الصغریٰ کے حوالے میں سنن الکُبریٰ کی روایت کا نمبر لکھا ہوا ہے ، پھر بھی اللہ کی عطا کردہ توفیق سے میں ان روایات تک پہنچ گیا ، ملاحظہ فرمایے ،
    [highlight=#FFFF40:1yoavn0u]سنن البیھقی الکبری ، کتاب الشھادات ، باب 67 من رخص في الرقص إذا لم يكن فيه تكسر وتخنث )[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FF4040:1yoavn0u]یہ وہ روایت ہے جو آپ کی بات کا ساتھ دیتی ہے ، کہ اس میں ایک قسم کی """ رقص """ نُما حرکت کا ذکر ملتا ہے ،
    لیکن اس روایت کی صحت اور اس روایت میں بیان """ حجل""" کے بارے میں خود امام البیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا کیا فرمان ہے روایت کے آخر میں غور سے پڑھیے ،
    [/highlight:1yoavn0u]
    20816 أخبرنا أبو الحسين محمد بن علي بن خشيش المقرئ بالكوفة أنبأ أبو جعفر محمد بن علي بن دحيم الشيباني ثنا أحمد بن حازم بن أبي غرزة ثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن هانئ بن هانئ عن علي رضي الله عنه قال أتينا رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) أنا وجعفر وزيد فقال لزيد أنت أخونا ومولانا فحجل وقال لجعفر أشبهت خلقي وخلقي فحجل وراء حجل زيد ثم قال لي أنت مني وأنا منك فحجلت وراء حجل جعفر [highlight=#FF4040:1yoavn0u]قال الشيخ هانئ بن هانئ ليس بالمعروف جدا وفي هذا إن صح دلالة على جواز الحجل وهو أن يرفع رجلا ويقفز على الأخرى من الفرح فالرقص الذي يكون على مثاله يكون مثله في الجواز والله أعلم[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFFF40:1yoavn0u]اور سنن البیہقی الصغریٰ ، کتاب النفقات ، باب 6 أي الوالدين أحق بالولد
    یہ روایت سنن النسائی کی دوسری روایت کے الفاظ میں جیسی ہے ، یعنی کہیں کسی بھی """ رقص """ کا ذکر نہیں ،[/highlight:1yoavn0u]
    اور وہاں امام النسائی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کی طرف غور کرنا کا کہا تھا اور اب یہاں اس روایت کے بعد امام البیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر بھی غور فرمایے کہ""" وهكذا رواه البخاري عن عبيد الله بن موسى فأدرج قصة ابنة حمزة في قصة القضية """
    [highlight=#FF4040:1yoavn0u]یعنی یہ واقعہ اسی طرح امام البخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، اور وہاں بھی کسی قسم کے """ رقص ""' کا کوئی ذکر نہیں ، [/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFFF80:1yoavn0u]اس کے بعد آپ نے چوتھا حوالہ دیا ::: امام احمد بن حنبل ، المسند، جلد 1، صفحہ 108[/highlight:1yoavn0u]
    میرے بھائی ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو چار جگہوں پر روایت کیا اور کسی بھی جگہ پورے ایک واقعے کی طرح نہیں بلکہ مختلف حصوں میں روایت کیا ہے ، جن میں سے صرف ایک روایت آپ کے مطلب کی محسوس ہوتی کہ اس میں """ حجل """ کا ذکر ہے جسے آپ """ رقص """ سمجھا رہے ہیں ، یہ مسند علی (رضی اللہ عنہ ) بن ابی طالب کی روایت 300 ہے ، اور میرے پاس جو ایڈیشن ہے اس میں اس کا نمبر 857 ہے جلد اول اور صفحہ 319 ہے ، اور روایت بمع سند یوں ہے :::
    حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا أسود یعنی بن أنبانا اِسرائیل عب ابی اسحاق عن هاني بن هَانی عن علیًّ رضي الله عنه قال أتیتُ النبي صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم وجعفر وزيد قال فقال لزيد أنت أنت مولاي فحجل قال وقال لِجعفر أنت أشبھھت خلقی و خُلقی قال فحجل وراء زیدٍ قال و قال لي أنت مِنِّى وأنا مِنْكَ قال فحجلتُ وَراء جعفر
    [highlight=#FFFF80:1yoavn0u]اس کے بعد آپکا پانچوں حوالہ یہ تھا :::المقدسی ، الحدیث المختارہ، جلد 2، صفحہ 392، رقم 744[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFFF40:1yoavn0u]برادر بھائی ، امام الضیاء المقدَسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو """ھانی بن ھانی عن علی رضی اللہ عنہ """ میں پانچویں روایت کے طور پر ذکر کیا ہے ، اور یوں ہے ،[/highlight:1yoavn0u]
    أخبرنا عبدالباقي بن عبدالجبار الهروي ببغداد أن عمر بن محمد البسطامي أخبرهم قراءة عليه أنا أحمد بن محمد بن محمد بن عبدالله الخليلي أنا علي بن أحمد بن محمد بن الحسن الخزاعي ثنا الهيثم بن كليب الشاشي ثنا الحسن بن علي بن عفان العامري ثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن هانئ بن هانئ عن علي قال أتينا رسول الله (صلی علیہ و علی آلہ وسلم ) أنا وجعفر وزيد فقال لزيد أنت أخونا ومولانا قال فحجل ثم قال لجعفر أنت أشبهت خلقي وخلقي قال فحجل وراء حجل زيد ثم قال لي أنت مني وأنا منك فحجلت وراء حجل جعفر
    [highlight=#FFFF80:1yoavn0u]آپ کا دیا ہوا آخری اور چھٹا حوالہ یوں تھا ::: امام بزار ، المسند، جلد 2، صفحہ 316[/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FFFF40:1yoavn0u]بھائی جی ، امام البزار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُسند میں , ومما روى هانئ بن هانئ عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، میں چھٹی روایت میں یہ واقعہ مندرجہ ذیل سند اور الفاظ میں روایت کیا :::[/highlight:1yoavn0u]
    حدثنا محمد بن معمر قال نا عبيد الله بن موسى قال نا إسرائيل عن أبي إسحاق عن هانئ بن هانئ عن علي قال أتانا رسول الله (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) أنا وجعفر وزيد فقال لزيد أخونا مولانا فحجل زيد وقال لجعفر أنت أشبهت خلقي وخلقي قال فحجل وراء حجل زيد ثم قال لي أنت مني وأنا منك فحجلت وراء حجل جعفر ،،، [highlight=#FF4040:1yoavn0u]وهذا الحديث لا نعلم أحدا رواه عن رسول الله (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) إلا علي بن أبي طالب رضي الله عنه بهذا الإسناد [/highlight:1yoavn0u]
    [highlight=#FF8040:1yoavn0u]اس مندرجہ بالا روایت کے آخر میں امام البزار رحمہ اللہ کا قول بھی غور سے ملاحظہ فرمایے ، بھائی جی ، اب اس کے بعد میں آپ کی اور ہر پڑھنے والے کی توجہ چند اہم امور کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں[/highlight:1yoavn0u]
    اب یہ ملاحظہ فرمایے میرے بھائی ، کہ وہ روایات جن میں لفظ """ حجل """ یا """ حجلتُ """ آیا اور جس کو بنیاد بنا کر آپ نے """ رقص ""' کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت فرمایا ، ان سب میں کی اسناد کا مدار یعنی مرکزی راوی """ ھانی بن ھانی """ ہے ، جس کے بارے میں امام البیہقی کا فرمان ہے [/b]""" قال الشيخ هانئ بن هانئ ليس بالمعروف جدا ::: استاد نے کہا کہ ھانی بن ھانی کچھ خاص معروف نہیں """ یعنی تقریبا مجھول راوی ہے ،
    اور امام البزار کا فرمانا ہے کہ """ ،،، وهذا الحديث لا نعلم أحدا رواه عن رسول الله (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) إلا علي بن أبي طالب رضي الله عنه بهذا الإسناد ::: اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے روایت کی ہو سوائے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اور سوائے اس سند کے ذریعے """
    یعنی سوائے ھانی بن ھانی والی سند کے یہ روایت کسی کے پاس نہیں ، اور ھانی بن ھانی کے بارے میں امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ """ المغنی فی الضعفاء """ ترجمہ رقم 6726 میں لکھتے ہیں """" هانئ بن هانئ عن علي ليس بالمعروف قال ابن المديني مجهول ::: ھانی بن ھانی علی (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتا ہے اور یہ راوی مجھول (الحال) ہے اور (امام) ابن المدینی (امام البخاری کے استاد) کا کہنا ہے کہ یہ (ھانی بن ھانی ) مجھول ہے """
    اور امام ابن حجر العسقلانی نے """ تھذیب التھذیب """ میں """ من أسمہ ھانی """ میں ترجمہ رقم 48 میں بہت تفصیل سے اس راوی کے بارے میں محدثین کے احکام لکھے کہ """ هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي روى عن علي بن أبي طالب وعنه أبو إسحاق السبيعي وحده قال النسائي ليس به بأس وذكره بن حبان في الثقات قلت وذكره بن سعد في الطبقة الأولى من أهل الكوفة قال وكان يتشيع وقال بن المديني مجهول وقال حرملة عن الشافعي هانئ بن هانئ لا يعرف وأهل العلم بالحديث لا ينسبون حديثه لجهالة حاله ::: ھانی بن ھانی الھمدانی الکوفی نے علی (رضی اللہ عنہ ) بن ابی طالب سے روایات کیں اور اس سے صرف ابو اسحاق نے ، امام النسائی نے کہا کہ اس ھانی بن ھانی کی روایت میں کوئی حرج نہیں ، اور امام ابن حبان نے اسے قابل اعتماد روایوں میں شمار کیا ، اور میں کہتا ہوں کہ امام اب سعد نے """ الطبقات """ میں اس کا ذکر پہلے طبقے کے تابعین میں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شیعیت کا پرچار کرتا تھا اور امام ابن المدینی نے کہا یہ مجھول (الحال) ہے اور حرملہ نے (امام) الشافعی کا قول بتایا کہ """ ھانی بن ھانی مجھول ہے اور حدیث کے عُلماء اس کے احوال کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حدیث (بطور) دلیل نہیں لیتے """
    اور اگر بفرض محال اس کی روایت کو قابل حجت و دلیل مان بھی لیا جائے تو """ حجل """ اور """ حجلتُ """ کا معنی و مفہوم """ رقص """ نہیں ہوتا ، نہ لغتاً اور نہ ہی دیگر وضاحت کرنے والی صحیح روایت کے مطابق ،
    ابھی کچھ اوپر میں نے امام البیہقی کا قول ذکر کیا تھا کہ """ وفي هذا إن صح دلالة على جواز الحجل وهو أن يرفع رجلا ويقفز على الأخرى من الفرح فالرقص الذي يكون على مثاله يكون مثله في الجواز والله أعلم ::: اگر یہ روایت درست ہو تو اس میں """ حجل """ کا جواز ہو سکتا ہے اور """ حجل ""' یہ ہے کہ کوئی خوشی میں اپنا ایک پاؤں اُٹھا کر دوسرے پاؤں پر زور دے کر (آہستگی سے) پس ایسا کوئی رقص جو اس جیسا ہو ، وہ جواز میں بھی اسی کے حکم پر ہو گا ،اور اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے """
    تو میرے بھائی اگر کوئی """ چال یا حرکت """ اس """حجل""" جیسی ہو ، تو اس کا جواز صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ اگر """ ھانی بن ھانی """ کی یہ روایت صحت کے معیار پر پوری اتر کر قابل حجت و دلیل ہو ، اور ایسا نہیں ہے ، """

    تو برادر بھائی ایسے راوی کی روایت پر """ رقص """ نہیں ہو سکتا ، و للہ الحمد ،
    اس کے علاوہ آپ کی چند باتیں ، یا حوالہ جات باقی ہیں جن کا آپ نے وضاحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا ، ان شاء اللہ اگلی فرصت میں اُن کے بارے میں بات ہو گی ، باذن اللہ تعالیٰ ،
    واللہ اعلم و رسولہ یعلم ما اوحیٰ الیہ ،
    والسلام علیکم
     
    دلبر جان نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    السلام علیکم ۔
    دورِ نبوت :saw: میں رقص کرنا اگر تسلیم ہے ۔ اور حضور اکرم :saw: کے سامنے رقص ہونا تسلیم ہے۔ اور رقص کی کیفیات و جزئیات بھی مروجہ فحش رقص و سرود سے مختلف ہیں۔
    تو پھر اسکو ناجائز ثابت کرنے کے لیے صفحوں کے صفحے کالے کرنا چہ معنی دارد ؟
    چھوڑیں اس بحث کو ۔ آپ کو رقص کرنا پسند نہیں ۔ نہ کریں۔ مجبور کس نے کیا ہے۔
    صوفیاء ، محبان و عشاقان اگر کسی وجدانی کیفیت میں‌وجد کر اٹھتے ہیں تو انہیں کرنے دیں۔
    آپ کافر مشرک گمراہ بنانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں ۔
    ظاہر ہے انہوں نے بھی ایسی ہی احادیث کی روشنی میں اپنے فہم کے مطابق اس عمل کو جائز سمجھا ہے۔
     
  14. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    دورِ نبوت :saw: میں رقص کرنا اگر تسلیم ہے ۔ اور حضور اکرم :saw: کے سامنے رقص ہونا تسلیم ہے۔ اور رقص کی کیفیات و جزئیات بھی مروجہ فحش رقص و سرود سے مختلف ہیں۔
    تو پھر اسکو ناجائز ثابت کرنے کے لیے صفحوں کے صفحے کالے کرنا چہ معنی دارد ؟
    چھوڑیں اس بحث کو ۔ آپ کو رقص کرنا پسند نہیں ۔ نہ کریں۔ مجبور کس نے کیا ہے۔
    صوفیاء ، محبان و عشاقان اگر کسی وجدانی کیفیت میں‌وجد کر اٹھتے ہیں تو انہیں کرنے دیں۔
    آپ کافر مشرک گمراہ بنانے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں ۔
    ظاہر ہے انہوں نے بھی ایسی ہی احادیث کی روشنی میں اپنے فہم کے مطابق اس عمل کو جائز سمجھا ہے۔[/quote:18nvcmrq]
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائی """ الف """ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، سب سے پہلے تو گذارش یہ ہے کہ جب کالی روشنائی سے کچھ بھی لکھا جاتا ہے تو صفحہ کالا ہی ہوتا ہے ، اگر معنوی کالک آپ کا مقصد فرمان ہے تو میرے محترم بھائی جن صفحات پر بات اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ان کی مقرر کردہ حدود کے مطابق امت کے علما اور اماموں‌کی لکھی جإے وہ کالے نہیں ہوتے ، ان شا اللہ ، اللہ کے ہاں روشن ہوں گے ،
    اس ساری گفتگو کا مقصد ،ایک ایسی چیز جو دین کے ساتھ متعلق کر دی گئی ، دینی عمل کے طور پر مروج کر دی گئی ، ایک دین دار طبقہ نے اپنے خاص اعمال میں شامل قرار دے دیا ، اسے قرب الہہی کے اسباب میں‌جانا گیا ، اور مزید """ بلند رتبے """ والوں کے لیے محبت الہی کی دلیل کے طور پر مانا گیا ، اس چیز کی وہ حقیقت ظاہر کرنا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کے مطابق ہو ،
    میرے بھائی ، میں آپ کا بڑا ممنون و مشکور ہوں گا اگر آپ وہ مقام نشان زدہ فرمادیں جہاں معاذ اللہ میں نے کسی کلمہ گو """""" کافر یا مشرک """"" بنانے پر تلا نظر آیا ہوں ، تا کہ ان شا اللہ میں‌ اپنی غلطی کا اظہار کر سکوں اور اس کی اصلاح کر سکوں‌،
    میرے بھائی ، قران اور حدیث کو اپنے اپنے فہم پر سمجھنا امت کی گمراہی کے بنیاری ترین اور اولین اسباب میں سے ہے ، اللہ کی طرف سے احکام دین کو سمجھنے کے لیے کسوٹیاں مقرر ہیں اور ان میں کہیں ’’’ ذاتی فہم """ نہیں ، جی اللہ کی عطا کردہ عقل کے ذریعے کسی بھی معاملے کو ان کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول و رد کرنے کا حکم ہے ، نہ کہ جس کو جو سمجھ آئے اسے ہی دین سمجھ لے ، یا جائز و ناجائز سمجھ لے ،
    اس موضوع پر ایک مضمون میں نشر کر چکا ہوں و للہ الحمد ، اور سابقہ مراسلات میں اس کا ڈاون لوڈ لنک بھی دے چکا ہوں ، اگر ہماری اردو کی انتظامیہ تصویری مراسلات کو غیر مناسب خیال نہ کرتی ہوتی تو میں اس کی ٹصویریں ایک الگ مراسلہ کی‌صورت میں ارسال کر دیتا ۔
    والسلام علیکم۔
     
    دلبر جان نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم جناب بھائی برادر صاحب۔
    دورِ نبوی :saw: میں پیارے نبی آخر الزمان :saw: کی آمد، استقبال، یا عید سعید کے مواقع پر خوشی منانا، یا بارگاہِ مصطفوی :saw: سے کوئی انعام، اعزاز و اکرام کے عطا ہونے پر وجد و رقص کی کیفت کا طاری ہونا ، مکمل شرح و بسط اور حوالہ جات کے ساتھ سنت نبوی :saw: سے ثابت کرنے پر بہت شکریہ ۔
    مجھ بےعلم کو بہت مفید معلومات میسر آئی ہیں۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپکے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
    [/quote:3kun445b]

    السلام علیکم۔
    میرا خیال ہے یہ گفتگو محترمہ نور العین بہن کے سوال سے شروع ہوئی تھی ۔
    محترم عادل سہیل صاحب اور محترم برادر صاحب نے احادیث‌کی روشنی میں اپنی رائے پیش کردی ۔
    اسکے بعد اب اس بحث کو طوالت دینا نامناسب سا معلوم ہوتا ہے۔

    اس لیے میری سب دوستوں سے درخواست ہے کہ ماحول کو دوستانہ رکھنے کی خاطر اس گفتگو کو روک دیا جائے۔
    شکریہ
     
  16. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم جناب بھائی برادر صاحب۔
    دورِ نبوی :saw: میں پیارے نبی آخر الزمان :saw: کی آمد، استقبال، یا عید سعید کے مواقع پر خوشی منانا، یا بارگاہِ مصطفوی :saw: سے کوئی انعام، اعزاز و اکرام کے عطا ہونے پر وجد و رقص کی کیفت کا طاری ہونا ، مکمل شرح و بسط اور حوالہ جات کے ساتھ سنت نبوی :saw: سے ثابت کرنے پر بہت شکریہ ۔
    مجھ بےعلم کو بہت مفید معلومات میسر آئی ہیں۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپکے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
    [/quote:3w5bpxt8]

    السلام علیکم۔
    میرا خیال ہے یہ گفتگو محترمہ نور العین بہن کے سوال سے شروع ہوئی تھی ۔
    محترم عادل سہیل صاحب اور محترم برادر صاحب نے احادیث‌کی روشنی میں اپنی رائے پیش کردی ۔
    اسکے بعد اب اس بحث کو طوالت دینا نامناسب سا معلوم ہوتا ہے۔

    اس لیے میری سب دوستوں سے درخواست ہے کہ ماحول کو دوستانہ رکھنے کی خاطر اس گفتگو کو روک دیا جائے۔
    شکریہ
    [/quote:3w5bpxt8]
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    نعیم بھائی اگر آپ کو کسی بدمزگی کا اندیشہ ہے تو میں آپ کا ہم نوا ہوں ، اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا متمنی بھی ہوں کہ اگر اسلامی اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے متفق علیہا قوانین و قواعد کے مطابق معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے بات چلتی رہے تو چلنے دی جائے ۔و السلام علیکم۔
     
  17. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم ۔
    میرا ذاتی تجربہ یہی کہتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خواہ ایک حدیث یا خواہ 10 احادیث کی رو سے جس سوچ و عقیدے پر قائم ہے یا اپنے اساتذہ و بزرگان کی طرف سے جس عقیدے پر قائم کردیا گیا ہے ۔ ہم اسی کو حق سمجھتے ہیں اور فریقِ مخالف کو ہمیشہ "غلط" خیال کرتے ہیں۔
    اس لیے اب اس لڑی کو آئندہ کے لیے مقفل کیا جاتا ہے۔

    اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ آئندہ اس طرح کے موضوعات پر دوسروں کو " ذاتی رائے" ، "غیرشرعی حرکات" وغیرہ کے طعنے یا الزامات سے پرہیز کرتے ہوئے صرف اپنی تحقیق پیش کریں۔

    والسلام
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں