1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فانی بدایونی اردو شاعری کا عظیم نام ۔۔۔۔ ڈاکٹرظہیر احمد صدیقی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏4 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فانی بدایونی اردو شاعری کا عظیم نام ۔۔۔۔ ڈاکٹرظہیر احمد صدیقی

    فانی بدایونی کے حوالے سے کچھ بھی لکھنے سے پہلے ایک شعر ان کے لئے ،
    ہمیں ابھی ترے اشعار یاد ہیں فانی
    ترا نشان نہ رہا اور بے نشاں بھی نہ ہوا
    جدید اردو غزل چار ستونوں پر قائم ہے، ان میں فانی کا نام امتیازی حیثیت رکھتا ہے،ان کو دوسرے ہم عصروں حسرت موہانی، اصغر،جگر مراد آبادی پر کئی اعتبار سے امتیاز حاصل ہے۔ فانی کے خیالات اور جذبات میں ایسا نکھار ہے جو دوسروں کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ہماری المیہ شاعری میر سے شروع ہو کر فانی پر ختم ہوتی ہے،مگر فانی کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے غم کے سامنے سپر نہیں ڈالی۔ وہ اس کا مقابلہ تو نہیں کر سکے مگر غم کو تزکیہ نفس کاذریعہ بنایا،آرنلڈ جب کہتا ہے کہ ''شاعری زندگی کی ایسی تنقید ہے جو حسن و صداقت کے تابع ہے ‘‘ تو اس کے اس قول کی صداقت کی تائید فانی کے کلام سے ہوتی ہے۔ اپنے غم کو فانی نے جمالیاتی احساسات کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کی مثالیں اگر اردو شاعری میں نایاب نہیں ہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔
    فانی بدایونی 13ستمبر 1879ء کو بلسی (بدایوں) میں پیدا ہوئے۔ شاہ عالم کے عہد میں ان کے بزرگ اصالت خاں کابل سے آئے اور دربار دہلی سے وابستہ ہو گئے ۔ اصالت خاں اور ان کی اولاد کو دربار دہلی سے منصب اور خطابات عطا ہوئے۔ نواب بشارت خاں جو فانی کے پردادا تھے، بدایوں کے گورنر مقرر ہوئے۔ فانی نے جب آنکھ کھولی تو عیش و فراغت کی زندگی تھی۔ انہوں نے ایک مضمون میں اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں لکھا ہے کہ
    ''میں 13ستمبر 1879ء کو دنیا میں لایا گیا۔نسلاََ پٹھان ہوں اصلی وطن کابل ہے، شاہ عالم بادشاہ دہلی کے زمانے میں میرے بزرگ صالت خاں ہندوستان آئے، دربار دہلی نے انہیں اور ان کے جانشینوں کو بہت نوازا۔ممتاز عہدوں پر فائز کئے جانے کے علاوہ جاگیرات، خطابات اور منصب وغیرہ سے سرفراز کئے گئے، نواب بشارت خاں میرے دادا تھے۔ صوبہ بدایوں کے گورنر تھے مگر زمانے کے انقلا ب نے رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ میرے والد شجاعت علی خاں صاحب پولیس کی ملازمت کرنے پر مجبور ہو گئے‘‘۔
    اس اقتباس سے مراد یہ ہے کہ فانی نے جس فضاء میں آنکھ کھولی اس میں اگرچہ وہ شان و شوکت تو نہیں تھی مگر پھر بھی آسودہ زندگی بسر کرنے کیلئے حالات ساز گار تھے ۔ علی گڑھ سے 1901 ء میں بی اے اور 1908ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔لکھنو، بریلی، اٹاوہ اور بدایوں میں وکالت کی مگر مزاج کے مطابق نہ ہونے پر یہ پیشہ ترک کر دیا۔ آفتاب احمد جوہر کہا کرتے تھے کہ جس زمانے میں وہ اور فانی وکالت کیا کرتے تھے ، اس وقت فانی کا یہ حال تھا کہ مقدمے سے بے نیاز بار میں بیٹھے شعر و شاعری کرتے۔ گرمی کے موسم میں ان کیلئے بارسے نکلنا محال ہوتا تھا، ظاہر ہے ایسے میں وکالت چلتی تو کیونکر؟
    ۔1932ء میں وکالت ترک کر کے حیدر آبا دچلے گئے وہاں صدر مدرس کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ۔ فانی جب حیدر آباد گئے تو انہیں امید تھی کہ وہ نظام آف حیدر آباد کی استادی پر فائز ہو جائیں گے، مگر خود داری کا یہ حال تھا کہ اپنی زبان سے اظہار مدعاکر نہ سکے۔کچھ متلون مزاجی اور کچھ غیر ملکی سیاست، 1939میں ملازمت سے بھی سبکدوش ہو گئے۔یہ زمانہ مالی اور ذہنی مصائب میں گزرا، آخر 26 اگست 1941 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور حیدر آباد کی زمین کو ہی اپنی آخری آرام گاہ بنا لیا۔
    اس دار فنا میں تھا جو بدنام حیات
    اک عمر رہا مورد الزام حیات
    فانی جس کی حیات تھی حسرت مرگ
    اس خاک میں دفن ہے وہ ناکام حیات
    فانی کی شاعری اور ذہنی ارتقاء کو سمجھنے کے لئے ان کی زندگی کے بعض گوشوں کو سمجھنا ضرور ی ہے۔سب سے اہم پہلو فانی کی انا اور خود داری ہے۔یہی سبب تھا کہ وہ امراء کی محفلوں میں مخلص دوست بن کر تو بیٹھتے تھے لیکن مصاحب رہنا ممکن نہ تھا۔صدق جائسی نے اعتراف کیا ہے کہ فانی کو جو مواقع ملے ان میں وہ اپنے لئے کچھ حاصل نہ کر سکے ۔ فانی اپنے ایک مضمون میں شاعری کے معیار کا جو پیمانہ مقرر فرماتے ہیں، وہ خود ان کی اپنی زندگی کا غماز ہے ،
    ــ'' جو شعراء صحیح معنوں میں شعراء تھے یا ہیں، وہ شعر کو اس کے صحیح درجہ سے گرانے کے لئے نہ کسی سے قیمت سے خریدے جا سکتے ہیں اور نہ کسی قوت سے مرعوب ہوسکتے ہیں ۔وہ ہر اس مصیبت کو جو خیالات کی بدولت اس پر ٹوٹتی ہے،خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘۔
    فانی کے کلام میں ان کی سیرت کی جھلکیاں نظر آئیں گی،
    اک کلمۂ شوق لب پہ لایا نہ گیا
    افسانہ آرزو سنایا نہ گیا
    مولانا ضیاء احمد فانی کی شخصیت پر لکھتے ہیں،'' اگرچہ آخر میں زندگی کی مایوسیوں نے بالکل ہی ان کا دل بجھا دیا تھا، لیکن وہ ہمیشہ سے افسردہ نہ تھے بلکہ شروع میں خاصے خوش طبع تھے، گھر میں اگر کوئی بہن یا بھائی اداس ہوتاتو ان سے کہتے '' تم لوگ ہنسی خوشی رہا کرو، مجھے روتی صورت بری معلوم ہوتی ہے کسی کو اداس دیکھتا ہوں تو دل کو صدمہ ہوتا ہے‘‘۔
    فانی کی شاعری کا محور ان کے صوفیانہ افکار ہیں۔ان کو متصوفانہ افکار و واردات میں جو وابستگی نظر آتی ہے اُس میں حصہ بدایوں کی مذہبی روایات کا بھی ہے۔تصوف کا یہی رشتہ مذہبی، سماجی اور اخلاقی نظام سے جا ملتا ہے۔ فانی کے اخلاقی درس کے2 منبع ہیں ایک عشق اور دوسرا غم۔ان دونوں کے امتزاج سے فانی کو زندگی اور شاعری میں تجربات حاصل ہوئے ہیں۔
    اس بحربے کراں میں ساحل کی جستجو کیا
    کشتی کی آروز کیا،ڈوب اور پار کر جا
    موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی
    گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
    فانی کی شاعری میں غم سے مراد غم عشق ہے اور عشق کا مفہوم عشق الہٰی سے تعبیر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غم ان کاذاتی تھا، معاشی مشکلات ،اولاد کی بے روزگاری، عزیزوں کی بے وفائی، یہ سب دور انہوں نے دیکھے۔آخر میں فانی نے غم کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔
    دل کے سوا یہاں کوئی محرم درد دل نہیں
    بے خبروں سے کیوں کہیں ، اہل خبر سے کیا کہیں
    وحدت حسن کے جلوئوں کی یہ کثرت اے عشق
    دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا
    حسن ہے ذات مری، عشق صفت ہے میری
    ہوں میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
    فکر راحت چھوڑ بیٹھے ہم تو راحت مل گئی
    ہم نے قسمت سے لیا جو کام تھا تدبیر کا
    فانی کی غزل پر مضمون ختم کرتا ہوں
    موت بھی فرقت میں ٹل کر رہ گئی
    آخری صورت نکل کر رہ گئی
    اہل دنیا حشر جس کو کہہ بیٹھے
    وہ نظر کیا چال چل کر رہ گئی
    جل رہے ہیں آج تک دل کے چراغ
    طور پر اک شمع جل کر رہ گئی
    زندگی کی دوسری کروٹ تھی موت
    زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی
    چن لیا تیری محبت نے مجھے
    اور دنیا ہاتھ ملتی رہ گئی
    اب کہاں فانی وہ جوش اضطراب
    کیا طبیعت تھی سنبھل کر رہ گئی



     

اس صفحے کو مشتہر کریں