1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فالج سے بچاؤ

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فالج سے بچاؤ
    upload_2019-10-30_3-37-46.jpeg
    ڈاکٹر عبدالمالک
    دنیا بھر میں ہر سال فالج سے آگاہی، علاج اور تدارک کے سلسلے میں 29 اکتوبر کو عالمی سٹروک ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو پاکستان میں منانے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں عمومی طور پر فالج کو ایک ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر فالج کا حملہ ہوتا ہے۔ طبی اصطلاح میں فالج کا شمار غیر متعدی امراض میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے امراض کی شرح تقریباً 40 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ یہاںتقریباً 10 لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔ مریض کے ساتھ ساتھ گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دور حاضر میں فالج کے علاج میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فالج سے نا صرف حفاظتی تدابیر اختیار کر کے بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کا مؤثر علاج بھی ہمارے ہاں دستیاب ہے۔ حکومتی سطح پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے تاکہ معیاری اور سستا علاج ہر بڑے ہسپتال میں میسر آ سکے۔ اس وقت بدقسمتی سے فالج کے دورے کو میڈیکل ایمرجنسی کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جاتا۔ اکثر افراد اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فالج کے بعد فوری طور پر علاج معالجے سے مریض کی بحالی یا مستقل معذوری کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں فالج کے ماہر ڈاکٹروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ایک مثالوں کے علاوہ سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں ان مریضوں کی تشخیص، علاج اور بحالی کے لیے یونٹس قائم نہیں ہیں۔ عوام میں آگاہی کی کمی، فالج سے بچاؤ اور علاج کیلئے مناسب سہولیات اور تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی کے باعث فالج کی بیماری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کیلئے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ چکنائی والی اشیا کا استعمال بھی اس بیماری کی وجوہات میں شامل ہے۔ فالج کی شرح میں اضافے کو روکنے کیلئے ذیل میں 12نکاتی ایجنڈہ دیا جا رہا ہے۔ اسے فالج سے بچاؤ اور اس کے علاج کا منشور بھی کہا جا سکتا ہے۔ ۱۔ فالج کے آثار و علامات کے بارے میں مقامی زبانوں میں آگاہی مہمات ۲۔ فالج کو بطور طبی ایمرجنسی تمام ہسپتالوں میں نافذ کرنا ۳۔ تمام Tertiary careہسپتالوں میں فالج کئیر یونٹ کا قیام ۴۔ تمام یونٹس میں معیاری طبی ساز و سامان، تربیت یافتہ طبی سٹاف کی فراہمی اور معیار کو برقرار رکھنے کا طریقہ کار ۵۔ تھرامبو لائسز ، کلاٹ بسٹنگ دوا کی رجسٹریشن ۶۔ مریض کو ایمرجنسی رسپانس سہولت ۷۔ تربیت یافتہ سٹروک اسپیشلسٹس (Stroke Specialists)کی تعداد میں اضافہ ۸۔ فالج کے مریضوں کیلئے سی ٹی سکین سے آراستہ ایمبولینس، ٹیلی میڈیسن کی سہولت اور عملے کی تربیت کے جامع پروگرام ۹۔ فالج کے مریضوں کی بحالی کے لیے قلیل المدت و طویل المدت پروگرام ۱۰۔ فالج کا سبب بننے والے عوامل بشمول تمباکونوشی، حقہ، بیڑی، شیشہ، گٹکا، نسوار بجار، پان ، مشری اور گھنڈی وغیرہ پر مکمل پابندی اور عمل درآمد ۱۱۔ حکومتی سطح پر ماہرین کی معاونت و مشاورت سے روڈ میپ کی تیاری ۱۲۔ فالج کی طبی قسم، عوامل اور وجوہات کو جاننے کے لیے قومی فالج ڈیٹا بیس رجسٹری کا قیام درج بالا اقدامات کے ذریعے فالج کے مرض سے بچاؤ، معیاری علاج اور مریضوں کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں 10فیصد سے بھی کم مریض فالج کے بعد دو گھنٹوں کے اندر ہسپتال لائے جاتے ہیں جبکہ فالج ہونے کی صورت میں ہر گزرتا لمحہ مریض کی تکلیف اور معذوری کے امکانات کو بڑھاتا رہتا ہے۔ فالج کے شدید حملے میں ہر ایک منٹ میں دماغ کے 20لاکھ خلیات مر جاتے ہیں اس لیے جہاں ایک طرف فالج سے بچاؤ ، دورے کی صورت میں فوری علاج اور بحالی سے متعلق ہر فرد کو آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے وہیں حکومت کو چاہیے کہ فالج کو ایک فوری طبی ایمرجنسی (ہنگامی حالت) قرار دے کر تمام بڑے ہسپتالوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ فالج کے علاج کیلئے تمام مطلوبہ سہولیات و طبی سازو سامان کی دستیابی یقینی بنائیں۔ اس وقت ملک بھر میں Stroke Specialists کی تعداد دو درجن بھی نہیں ہے۔ دوسری جانب ماہرین دماغ و اعصاب یعنی نیورو لوجسٹ کو دیکھا جائے تو 22کروڑ کی آبادی کے ملک میں وہ بھی 200کے لگ بھگ ہیں۔ ڈاکٹروں کی کمی سے علاج میں دقت ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فالج کے 35فیصد مریض جبکہ چھوٹے فالج (جسے TIA کہتے ہیں) کے 50 فیصد سے زائد مریض بروقت تشخیص سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وقت ضائع ہونے سے مریضوں کی مشکلات و طبی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شعبہ نیورولوجی کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری رکھنے والے نیورو لوجسٹ کو ایک سال کیلئے سٹروک فیلو شپ کی تربیت دینے کا انتظام کرے۔ اس کے علاوہ فالج کے علاج معالجے کا کامیاب پروگرام ایمبولینس میں سی ٹی سکین اور ٹیلی میڈیسن کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سٹاف کی مناسب تربیت سے بھی مشروط ہے تاکہ وہ مریضوں کی علامات کی بنیاد پر فوری طبی سہولیات کیلئے ٹھیک ہسپتال لے کر جا سکے۔ مزید برآں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد مریضوں کی جلد بحالی کیلئے بہتر معاونت، مناسب دیکھ بھال، ضروری طبی سازو سامان کی دستیابی اور مسلسل خیال رکھنے جیسے اقدامات کے ذریعے ان افراد کو معاشرے کا سود مند حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ انسانی معذوری کا سب سے بڑا سبب بننے والی یہ بیماری فالج ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کی شرح میں تیزی سے اضافے کو روکنے کیلئے سرکاری سطح پر ہی اقدامات کافی نہیں بلکہ لوگوں کا اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا بھی بہت ضروری ہے۔ فالج کے حوالے سے آگہی، علاج اور تدارک کیلئے عام لوگوں میں شعور بیدار کرکے ان امراض میں اضافے کی شرح کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں