1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فارسی شاعری معہ اردو ترجمہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏10 نومبر 2018۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    فارسی زبان میں شاعری کا ایک بحر بیکراں موجود ہے۔
    اگر اہل زبان کبھی کبھار معیاری فارسی کلام معہ اردو ترجمہ پیش کردیا کریں تو شاید میرے جیسے بہت سوں کو عمدہ کلام پڑھنے اور سمجھنے کا موقع مل سکے گا۔
    آغاز میں مثنوی مولائے روم حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے چند اشعار معہ اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

    بشنو از نے چون حکایت می کند
    از جدایی ها شکایت می کند
    بانسری سے سن ! کیا بیان کرتی ہے درد وجدائی کی (کیا ) شکایت کرتی ہے

    کز نیستان تا مرا ببریده اند
    از نفیرم مرد و زن نالیده اند
    کہ جب سے مجھے ہنسلی سے کاٹا ہے میرے نالہ سے مرد و عورت سب روتے ہیں

    سینه خواهم شرحه شرحه از فراق
    تا بگویم شرحِ درد اشتیاق
    میں ایسا سینہ چاہتا ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو تا کہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں

    هر کسی کو دور ماند از اصلِ خویش
    بازجوید روزگار وصلِ خویش
    جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ تلاش کرتا ہے

    من به هر جمعیتی نالاں شدم
    جفت خوشحالان وبدحالاں شدم
    میں ہر مجمع میں روئی خوش اوقات اور بداحواں لوگوں کے ساتھ رہی

    هر کسی از ظنِ خود شد یارِمن
    از دورنِ من نجست اسرارِ من
    ہر شحص اپنے خیال کے مطابق میرا یار بنا اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ گئی

    سر من از ناله ی من دور نیست
    لیک چشم و گوش را آں نور نیست
    میرا راز میرے نالہ سے دور نہیں ہے لیکن آنکھ اور کان کے لیے وہ نور نہیں ہے

    تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
    لیک کس را دید جاں دستور نیست
    بدن روح سے اور روح بدن سے چھپی ہوئی نہیں ہے لیکن کسی کے لیے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں ہے

    آتش است این بانگِ نائے و نیست باد
    هر که این آتش ندارد نیست باد
    بانسری کی یہ آواز آگ ہے ہوا نہیں ہے جس میں یہ آگ نہو وہ نیست و نابود ہو

    آتش عشقست کاندرِ نے فتاد
    جوشش عشق است کاندر می فتاد
    عشق کی آگ ہے جو بانسری میں لگی ہے عشق کا جوش ہے جو شراب میں آیا ہے

    نے حریفِ هر که از یارے بُرید
    پرده هایش پرده هائے ما درید
    بانسری اس کے ساتھ ہے جو یار سے کٹا ہو اس کے راگوں میں نے ہمارے پردے پھاڑ دیئے

    همچو نے زهرے و تریاقے که دید؟
    همچو نی دمساز و مشتاقے که دید؟
    بانسری جیسا زہر اور تریاق کس نے دیکھا ہے؟ بانسری جیسا ساتھی اور عاشق کس نے دیکھا ہے؟

    نے حدیث راهِ پرخوں می کند
    قصه های عشقِِ مجنوں می کند
    بانسری خطرناک راستہ کی بات کرتی ہے مجنون کے عشق قصہ بیان کرتی ہے

    محرم این هوش جز بیهوش نیست
    مر زبان را مشتری جز گوش نیست
    اس ہوش کا رازداں بیہوش کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے زبان کا خریدار کان جیسا کوئی نہیں ہے

    در غم ماروزها بیگاه شد
    روزها با سوزها همراه شد
    ہمارے غم میں بہت سے دن ضائع ہوئے بہت سے دن سوزشوں کے ساتھ ختم ہوئے

    روزها گر رفت گو رو باک نیست
    تو بماں ای آنکه چون تو پاک نیست
    دن اگر گزریں تو کہدو و گزریں پردا نہیں ہے اے وہ کے تجھ جیسا کوئی پاک نہیں ہے تو رہے!

    هرکه جز ماهی ز آبش سیر شد
    هرکه بی روزیست روزش دیر شد
    جو مچھلی کے علاوہ ہے اس کے پانی سے سیر ہوا جو بے روزی ہے اس وقت ضائع ہوا

    درنیابد حال پخته هیچ خام
    پس سخن کوتاه باید والسلام
    کوئی ناقص کامل کا حال نہیں معلوم کر سکتا پس بات مختصر چاہئے والسّلام

    بند بگسل باش آزاد ای پسر
    چند باشی بند سیم و بند زر
    اے بیٹا ! قید کو توڑ آزاد ہو جا سونے چاندی کا قیدی کب تک رہیگاہ

    گر بریزی بحر را در کوزه‌ای
    چند گنجد قسمت یک روزه‌ای
    اگر کو دریا کو ایک پیالے میں ڈالے کتنا آئے گاَ ایک دن کا حصہ

    کوزه چشم حریصان پر نشد
    تا صدف قانع نشد پر در نشد
    حریضوں کی آنکھ کا پیالہ نہ بھرا جب تک سیپ نے قناعت نہ کی ہوئی سے نہ بھرا

    هر که را جامه ز عشقے چاک شد
    او ز حرص و عیب کُلی پاک شد
    جس کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوا وہ حرض اور عیب سے بالکل پاک ہوا

    شاد باش ای عشقِ خوش سودائے ما
    ای طبیب جمله علتهائے ما
    خوش رہ ہمارے اچھے جنون والے عشق اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب

    ای دوائے نخوت و ناموس ما
    ای تو افلاطون و جالینوس ما
    اے ہمارے تکبر اور جھوٹی غیرت کے علاج، اے ہمارے افلاطون اور جالینوس، تو سدا خوش رہے

    جسم خاک از عشق بر افلاک شد
    کوه در رقص آمد و چالاک شد
    خاکی جسم عشق کی وجہ سے آسمانوں پر پہنچا پہاڑ ناچنے لگا اور ہوشار ہو گیا

    عشق جان طور آمد عاشقا
    طور مست و خر موسی صعقا
    اے عاشق! عشق طور کی جان بنا طور مست بنا اور موسی بیہوس ہو کر گرے

    با لب دمساز خود گر جفتمے
    همچو نی من گفتنیها گفتمے
    اگر میں اپنے یار کے ہونٹ سے ملا ہوا ہوتا بانسری کی طرح کہنے کی باتیں کہتا

    هر که او از هم زبانی شد جدا
    بی زبان شد گرچه دارد صد نوا
    جو شحص دوست سے جدا ہوا بے سہارا بنا خواہ سو سہارے رکھے

    چونکه گل رفت و گلستاں درگذشت
    نشنوی زان پس ز بلبل سر گذشت
    جب پھول ختم ہوا اور باغ جاتا رہا اس کے بعد تو بُلبل کی سرگزشت نہ سنیگا

    جمله معشوقست و عاشق پردۃ
    زنده معشوقست و عاشق مردۃ
    تمام کائنات معشوق ہے اور عاشق پردہ ہے معشوق زندہ ہے اور عاشق مردہ ہے

    چون نباشد عشق را پروائے او
    او چو مرغے ماند بی پروائے او
    جب عشق کو اس سے پردہ نہ ہو وہ بے پرکے پرند کی طرح ہے اس پر افسوس ہے

    من چگونه هوش دارم پیش و پس
    چون نباشد نورِ یارم ہم نفس
    میں کیا کہوں کہ میں آئے پیچھے کا ہوش رکھتا ہو جب میرے دوست کا نور کا ساتھی نہ ہو

    عشق خواهد کین سخن بیرون بود
    آینہ ات غماز نبود چون بود
    عشق چاہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہو تیرا آئینہ غماز نہ ہو تو کیوں کر ہو

    آئینات دانی چرا غمازِ نیست
    زانکه زنگار از رخش ممتازِ نیست
    تو جانتا ہے تیرا آئنہ غماز کیوں نہیں ہے ؟ اس لئے کہ زنگ اس کے چہرے سے علیحدہ نہیں ہے
     
    Last edited: ‏10 نومبر 2018
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا رومی ہی کا ایک اور کلام ۔۔۔ معہ اردو ترجمہ
    یہ کلام استاد نصرت فتح علی خان مرحوم نے قوالی کی صورت میں بھی گایا ہے۔


    نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
    مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم

    میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

    خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
    خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

    اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

    شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
    سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

    میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

    گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
    مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

    اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

    بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
    غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

    اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
     
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اعلی جناب
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ًمحمد سعید سعدی
    آف لائن

    ًمحمد سعید سعدی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جون 2016
    پیغامات:
    252
    موصول پسندیدگیاں:
    245
    ملک کا جھنڈا:
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    واہ بھولے بادشاہ ۔
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ھر لحظه به شكلي بت عيار بر آمد -- دل برد و نهان شد
    هر دم به لباس دگر آن يار بر آمد -- گه پير و جوان شد

    ہر لحظہ وہ بتِ عیار ایک نئی ہی شکل میں ظاہر ہوتا ہے --- دل چھینتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔
    ہر دم وہ یار دوسروں کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے -
    - کبھی بوڑھے کے روپ میں اور کبھی جوان کے۔

    خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ --- خود رندِ سبو کش
    خود بر سرِ آں کوزہ خریدار برآمد --- بشکست رواں شد

    وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا اور خود ہی کوزہ کی مٹی -- اور خود ہی کوزے سے پینے والا۔
    اور خود ہی اس کوزے کے خریدار کے طور پر ظاہر ہوتا ہے --- اور اس کیلیے اس کوزے کو توڑنا بھی جائز ہے۔

    ني ني كه همو بود كه مي آمد و مي رفت --- هر قرن كه ديدي
    تا عاقبت آن شكل عرب وار برآمد -- داراي جهان شد

    وہی تھا جو ہرزمانے میں آتا رہا اور چاتا رہا - ہر زمانے نے دیکھا
    لیکن بلآخر وہ ایک عرب (ص) کی شکل میں ظاہر ہوا -- اور وہی (ص) جہان کے بادشاہ ہیں۔

    ني ني كه همو بود كه مي گفت انا الحق --- در صوت الهي
    منصور نبود آن كه بر آن دار برآمد --- نادان به گمان شد

    وہی تھا کہ جس نے کہا کہ میں ہی حق ہوں -- خدا کی آواز میں
    وہ منصور نہیں تھا جو سولی پر ظاہر ہوا -- نادان اور نہ جاننے والوں کو یہی لگتا ہے کہ وہ منصور تھا۔

    رومي سخن كفر نگفته است و نگويد --- منكر نشويدش
    كافر بود آن كس كه به انكار برآمد --- از دوزخيان شد

    رومی نے کبھی کفر کی بات نہیں کی اور نہ وہ کرتا ہے -- وہ منکر نہیں ہے
    کافر تو وہ ہے جس نے انکار کیا تھا یعنی شیطان --- اور وہی دوزخیوں میں سے ہے

    مولانا جلال الدین رومی رح
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں