1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیر مسلم شہریوں کے بنیادی حقوق

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏4 جولائی 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے پیارے پاکستان کے 1973 كے آئین مطابق تمام سیاسی اور مذہبی اقلیتوں كو ہر قسم كا تحفظ حاصل ہے- تمام پاکستان کے شہری قانون كی نظر میں برابر ہیں - اور یہ ریاستی حکومت کا فرض ہے کہ اقلیتوں كے جائز حقوق اور مفادات كی حفاظت كرے - ملازمتیں دیں انکو اور اسمبلی میں ان کو اقلیتی نشستیں بھی دستیاب کرے

    اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔ عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک غیر مسلم کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔


    لاینہٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین، ولم یخرجوکم من دیارکم․ أن تبروہم وتقسطوا الیہم․ (الممتحنة: ۸)
    اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک۔

    پاکستان میں ان کو مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دوسرے تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہیں اور تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہیں۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جاتا ہے، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جانا چاہیے ۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے۔

    پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ”من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا“
    جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔

    (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)

    حضرت عمررضی اللہ عنہہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا: ”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“

    حضرت علی رضی اللہ عنہہ نے اپنے ایک عامل کو لکھا:
    ”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“

    کسی جائز طریقے کے بغیر ان کا مال لینا جائز نہیں ہے

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ”ألا ! لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا“
    خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔


    قانون ومقدمات مسلم اورغیر مسلم دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا ہے، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔

    حدیث شریف میں ہے: ”دماوٴہم کدمائنا“
    ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کردیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

    ”أنا أحق من وفیٰ بذمتہ“
    میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔

    غیر مسلموں کو اعتقادات میں عبادات میں اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہے، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جانا چاہیے، ان کے گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جانا چاہیے ۔

    قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:
    لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)
    دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔

    اسلام میں وہ بستیاں جو اسلامی شہروں میں داخل نہیں ہیں، ان میں صلیب نکالنے اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہے، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مذہبی درسگاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں