1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیر مسلموں کو عبادت گاہ کی اجازت شرعی یا خلاف شریعت ہے 9

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏3 جولائی 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امام ابن قیم رقم طراز ہیں:

    الا نضرب نواقيسنا الا ضربا خفيا فى جوف كنائسنا ولا نظهر عليها صليبا ولا نرفع اصواتنا فى صلواتنا ولا القراءة فى كنائسنا وان لا نخرج صليبا ولا كتابا فى سوق المسلمين والا نخرج باعوث قال والباعوث يجتمعون كما يخرج المسلمون يوم الاضحىٰ والفطر ولا نظهر شركا ولا نرغب فى ديننا ولا ندعوا اليه احدا.(كتاب حقوق اهل الذمة ج2 ص659، 660)

    ’’ ذمیوں نے حسب ذیل شرطیں قبول کرتے ہوئے ان پر دستخط کیے کہ

    (1)ہم اپنے گرجاؤں میں بآواز بلند ناقوس نہیں بچائیں گے

    (2) ان کے اوپر اونچی کرکے صلیب کھڑی نہیں کریں گے

    (3) ہم اپنے گرجاؤں کے اندر بھی بلند آواز کے ساتھ دعا نہ مانگیں گے

    (4) نہ ان کے اندر اونچی آواز کے ساتھ اپنی کتاب پڑھیں گے

    (5) مسلمانوں کے بازاروں میں صلیب نہیں نکالیں گے

    (6) عید کے لیے کھلے میدان میں نہیں جائیں گے ، جیسےمسلمان اپنی عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر کی ادائیگی کےلیے کھلے گراؤنڈ میں جاتے ہیں

    (7) کھلے عام شرک نہیں کریں گے۔

    (8) ہم اپنے دین کی کسی کو ترغیب نہیں دیں گے اور

    (9) نہ کسی کو اپنے دین کی دعوت دیں گے۔‘‘

    ان تصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ ازروئے اسلام مسلم ممالک کے ذمیوں اور اقلیتوں کے اپنے باطل مذاہب کی تبلیغ و اشاعت کی ہرگزاجازت نہیں۔نہ تقریر میں اور نہ تحریرمیں اور نہ مناظروں کے ذریعہ سے اور نہ مناقشوں کے ساتھ۔ غرضیکہ وہ اپنے مذہب کی کسی طرح اور کسی بھی انداز میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی مسلمان حکمران کسی وجہ سے اس کی اجازت دیتا ہے تو یہ اجازت کالعد اور حکمران شرعاً مجرم ہوگا۔ کیونکہ اس میں اسلام کی حقانیت کو بٹہ لگتا ہے۔اللہ تعالی ، رسول اللہؐ اور کتاب اللہ قرآن مجید کی تکذیب لازم آتی ہے اور اسلام کی توہین اور سبکی ہوتی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں