1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیر مسلموں کو عبادت گاہ کی اجازت شرعی یا خلاف شریعت ہے 10

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏3 جولائی 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امام ابن کثیر تصریح فرماتےہوئے رقم طرازہیں:

    ولا نعلم أولادنا القرآن ولا نظهر شركاً ولا ندعو إليه أحداً ولا نمنع أحداً من ذوي قرابتنا الدخول في الإسلام إن أرادوه وأن نوقر المسلمين وأن نقوم لهم من مجالسنا إن أرادوا الجلوس ولا نتشبه بهم في شيء من ملابسهم في قلنسوة ولا عمامة ولا نعلين ولا فرق شعر ولا نتكلم بكلامهم ولانكتني بكناهم لا نركب السروج ولا نتقلد السيوف ولا نتخذ شيئاً من السلاح ولا نحمله معنا ولا ننقش خواتيمنا بالعربية.(تفسیر ابن کثیر ج2 ص347، 348)

    شام کے نصاری نےیہ شرطیں بھی قبول کی تھیں۔

    (1) ہم اپنے بچوں کو قرآن نہیں پڑھائیں گے۔

    (2) ہم اپنے شرکیہ کام کھلم کھلا نہیں کریں گے۔

    (3) اور نہ اپنے شرک کی دعوت دیں گے۔

    (4) ہم اپنے کسی قرابت دار کو اسلام قبول کرنے سے منع نہیں کریں گے۔

    (5) ہم مسلمانوں جیسا لباس بھی نہیں پہنیں گے،نہ مسلمانوں کی ٹوپی جیسی ٹوپی، نہ عمامہ جیسا عمامہ اور نہ جوتے جیسا جوتا پہنیں گے۔

    (6) نہ ہم سرکے بالوں کی سیدھی مانگ نکالیں گے۔

    (7) نہ ان کی زبان بولیں گے۔

    (8) نہ ان کی کنیتوں جیسی کنیت رکھیں گے۔

    (9) اور نہ ہی اپنی سواریوں پر زین سجائیں گے۔

    (10) اور نہ تلوار لٹکائیں گے( یادرہے تلوار اس زمانہ میں مسلمانوں کا علامتی ہتھیار اور شعار ( شناختی نشان) سمجھا جاتا تھا۔

    (11) اور نہ ہم اپنے گھروں میں اسلحہ رکھیں گے۔

    (12) اور نہ کسی قسم کا اسلحہ اٹھا کر چلیں گے۔

    (13) اور نہ اپنی انگوٹھی پر عربی زبان میں کچھ نقش کریں گے اور آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ہم ان جملہ شرائط میں سے کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کریں گے تو مستوجب سزا ہوں گے۔

    --------------------

    امام وردی یہ بھی لکھتے ہیں:

    والخامس ان لا يفتنوا مسلماً عن دينه(الاحكام السلطانيه ص145)

    پانچویں شرط لازمی یہ بھی ہے کہ ذمی لوگ اور کوئی اقلیت کسی مسلمان کو اس کے دین کے معاملہ میں کسی آزمائش اور فتنہ میں مبتلا کرنے کی ہر گز مجاز نہ ہوگی۔ نہ دھونس کی صورت میں، نہ مال کی تحریص کے ساتھ، نہ رشتہ کی ترغیب کے ساتھ اور نہ کسی قسم کے لالچ کے ساتھ، اگروہ ایسا کرے گی تو قانون حرکت میں آکر اس کو کیفر کردار تک پہنچا کررہے گا۔

    خلاصۃ المرام یہ کہ کسی غیر مسلم عیسائی، یہودی ، مجوسی ، صابی، ہندو، سکھ ، پارسی، بہائی، بابی، قادیانی ، لاہوری اورربوری مرزائیوں کو شعائر اسلام یعنی کلمہ ، توحید، رسول، قبلہ ، صلاۃ، درود، مسجد، قربانی، عید وغیرہ مقدس اصطلاحوں کو استعمال کرنے کی ازروئے شرح اسلام قطعاً اجازت نہیں اور نہ ان مذکورہ باطل گروہوں اور خارج ازاسلام فرقوں کو فرقوں کو اپنے باطل عقائد وافکار اوراعمال اور رسومات کا برملا پرچار کرنے کی اجازت ہے، اور نہ ان کو اپنے ان باطل اور خلاف اسلام عقائد و افکار اوراعمال ورسومات کی نشر و ترویج اور دعوت اور تبلیغ کی اجازت ہے اور مسلمان حکمران اور مسلم اکثریت پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والی غیرمسلم اقلیتوں کو ان شرائط کا پابند بنائے کہ یہ مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں