غم اگرچہ کثیر لایا ہوں حوصلے بھی خطیر لایا ہوں خواہشیں مختصر سی رکھتا ہوں دل غنی و فقیر لایا ہوں کیسا پاگل ہوں، تیرے گھر سے میں کھینچ کر اک لکیر لایا ہوں شب کو بھی راستہ مجھے مل جائے ایسا روشن ضمیر لایا ہوں کاٹ کر کوہِ غم کو، اشکوں کی میں بھی اک جوئے شیر لایا ہوں دُکھ مجھے بھی ہیں سو غزل میں مَیں طرز و اُسلُوبِ میر لایا ہوں ( امین عاصم )
جواب: غزل کیسا پاگل ہوں، تیرے گھر سے میں کھینچ کر اک لکیر لایا ہوں شب کو بھی راستہ مجھے مل جائے ایسا روشن ضمیر لایا ہوں امین بھائی بہت خوب :222: امید ہے آپ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے بہت خوب انتخاب ہے
جواب: غزل امین عاصم بھائی ۔ بہت سی داد قبول کیجئے۔ چھوٹی بحر میں معانی و مفاہیم کی عمدہ ترکیب ہے۔ بہت سی داد قبول کیجئے۔
جواب: غزل بہتخوب،،،،،،،،،،،،،،،، ایسا روشن ضمیر لایا ہوں ۔۔ لا جواب!!!! لیکن پہلا مصرعہ شاید توجہ چاہتا ہے۔ شب کو بھی راستہ دکھائے جو ایسا روشن ضمیر لایا ہوں خوش رہیں
جواب: غزل محترمہ طاہرہ مسعود صاحبہ حوصلہ افزائی پر آپ کا دلی شکر گزار ہوں آپ نے ایک مصرع کی نشان دہی کی ہے۔ ممنون ہوںآپ کا۔ شب کو بھی راستہ مجھے مل جائے آپ کا اشارہ آخری لفظ جائے کہ طرف تو نہیں؟ بظاہر ایک رکن کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کچھ شعرا کا کلام ایسے بھی دیکھا ہے۔ یعنی دونوںحرف گرا دیے گئے۔۔ میںمزید کسی استاذ سے اس بارے پتا کرتا ہوں۔۔ آپ نے جو گرہ لگائی یقیناً یوں مصرع خوب صورت ہو جاتا ہے۔ میں اپنا مصرع تبدیل کر لیتا ہوں۔۔۔ آپ کے فنِ شاعری کا معترف ہوں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے
جواب: غزل نہیں تھا ذہن میں کوئی تصور تک مسافت کا مگر آیا ہے لے کر شوق مجھ کو تیری چاہت کا بہت پر پیچ راہیں تھیں مگر وہ کٹ گئیں پل میںِ کمال اپنا نہیں، اعجاز ہے تیری رفاقت کا ِ اگر سینہ سپر باطل کے آگے ہم نہیں ہوں گے ثبوت اس کو ملے گا کیسے ایماں کی صداقت کا نہ لو تم بخل سے کچھ کام اب شیریں کلامی میں مزہ جاتا رہے گاورنہ لفظوںکی حلاوت کا میسر آگئی جس شخص کوافکار کی دولت اسی کے ذہن کو ادراک ہوتا ہے بلاغت کا قدم اک بار اٹھتے ہیں توپھر رکتے نہیں ہرگز ازل سے ہے یہی دستور دل والوں کی چاہت کا شعور و فہم کی عقل و خرد کی آبیاری سے ابل پڑتا ہے چشمہ کوئی تحسین فراست کا زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اکثر کچھ مناظر سے نہیں ہے دخل کم گوئی میں کچھ انساں کی عادت کا جنہیں ملتا ہے اعلی ظرف اور کردار اے غوری نہیں کرتے کبھی پرچار وہ اپنی شرافت کا