غزل: طارق شاؔہین شاید یہ دوستی کے مقدر کی بات ہے اک تیرے ساتھ ساتھ زمانہ بدل گیا داغ جدائی سہہ نہ سکا قلبِ ناتواں سارا وجود خون کے اشکوں میں ڈھل گیا یوں گردشِ حیات نے یکساں دیے فریب خود مجھ سے آگے میرا ہی سایہ نکل گیا اس وقت ہوگا اہلِ وفا کا علم تجھے جس وقت تیرے جسم کا سونا پگھل گیا کچھ اس طرح رقیب کی بازی پلٹ گئی میرے ہی مونگ میرے ہی سینہ پہ دل گیا طارق کسی کی یاد میں بہلا ہوا تھا دل تڑپا کچھ اس طرح کہ حد سے نکل گیا