1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏5 ستمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل کا لفظ غزال سے نکلا ہے اور غزال ہرن کو کہتے ہیں غزل "ہرن کے گلے سے نکلنے والی اُس آواز کو کہا جاتا ہے جب وہ شیر کے خوف سے بھاگ رہی ہوتی ہے غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عشق و محبت کا ذکر کرنا بھی بتایا گیا ہے۔

    اشعار پہ مشتمل مجوعہ غزل کہلاتا ہے اک غزل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلے حصلے کو مطلع کہا جاتا ہے جس میں دو مصرعے ہوتے ہیں پہلے مصرع کو مصرع اولیٰ اور دوسرے مصرع کو مصرع ثانی کہتے ہیں مطلع کے دونوں مصروں میں قافیہ اور ردیف استمال ہوتا ہے لیکن کسی غزل میں ردیف لازی جز نہیں ہے قافیہ کے بعد اگر ردیف نہ بھی لکھا جائے تو کوئی قید نہیں
    غزل کے دوسرے حصے کو مقطع کہا جاتا ہے جس کے پہلے مصرعے یعنی مصرع اولیٰ میں اکثر شاعر اپنا تخلص استمال کرتا ہے اور دوسرے مصرعے یعنی مصرع ثانی میں قافیہ اور ردیف استعمال ہوتا ہے
    غزل کے تیسرے حصے کو اشعار کہا جاتا ہے یعنی مطلع اور مقطع کے درمیاں والے مصروں کو اشعار کہتے ہیں
    غزل کے کم از کم اشعار کی تعداد پانچ ہوتی ہے اس سے زیادہ اشعار لکھنے کی کوئی قید نہیں لیکن 11 اشعار موزوں جانے جاتے ہیں۔

    غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے۔


    وجہ تسمیہ

    غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق وعاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ موضوعات پر اظہارِ خیال کو روا جانا جانے لگا ہے۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی تک بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عربی صنف قصیدہ میں کے تشبیب نامی حصے ہی غزل کی ابتدا ہوئی۔

    اجزائے ترکیبی
    غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتاہے جس کے دو نوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف یا صرف ہم قافیہ ہوتے ہیں

    (غم رہا جب تك كه دم ميں دم رہا
    دل كے جانے كا نهايت غم رہا)

    اور باقی اشعار میں سے دوسرا مصرع قافیہ میں پہلے شعر کی پابندی کرتا ہے۔ آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اور اسے مقطع کہا جاتا ہے

    (تاب كس حال كو جو دانش سنے
    حال هى اور كچه ہے مجلس كا)۔

    کلیم الدین احمد نے غزل کو ایک نیم وحشی صنف ِ سخن قرار دیا ہے۔ یعنی غزل کے اشعار میں موضوع کے حوالے سے کوئی ربط نہیں ہوتا اور ہر شعر کا موضوع اور مطلب الگ الگ ہوتا ہے۔ غزل کا ہر شعر معنوں کے لحاظ سے مکمل ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا شعر یا اشعار سے معنوی ربط ہونا ضروری نہیں۔ اگر تمام اشعار میں خیال کا تسلسل ہو تو ایسی غزل کو غزل ِمسلسل کہیں گے۔

    غزل اور اردو
    غزل کی اردو ادب میں کامیابی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اہلِ اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور داخلی و خارجی اتار چڑھاؤ کے باوجود اردو شاعر کم و بیش ہر قسم کے تجربات کامیابی سے غزل میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سی اصناف مثلاً قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی وغیرہ رفتہ رفتہ قبولِ عام کے درجے سے گر گئیں مگر غزل اپنی مقبولیت کے لحاظ سے ہنوز وہیں کی وہیں ہے۔ اردو غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے جن میں قلی قطب شاہ، نصرتی، غواصی اور ملا وجہی شامل ہیں۔ تاہم ولی وہ پہلا شخص ضرور تھا جس نے پہلی بار غزل میں مقامی تہذیبی قدروں کو سمویا۔ غزل کی ایک قسم مسلسل غزل ہے جس میں شاعر ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اقبال، حسرت موہانی اور کلیم عاجز کے یہاں تسلسل غزل کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔

    غزل اور نظم میں فرق
    غزل اور نظم میں بنیادی دو فرق ہیں:

    غزل کا ہر شعر ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور فی نفسہٖ مکمل ہوتا ہے ۔
    غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا جبکہ نظم اپنے موضوع کے موافق باقاعدہ عنوان رکھتی ہے ۔
     
    د پیخورگل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں