ایک تازہ غزل آپ کی بصارتوں کی نذر غزل لفظ کو موجِِ معانی سے الگ رکھتا ہے وہ مجھے میری کہانی سے الگ رکھتا ہے مجھ کو مجھ سے کبھی ملنے بھی نہیں دیتا ہے یعنی پانی کو ہی پانی سے الگ رکھتا ہے کھیلتا اب بھی ہے وہ کھیل لڑکپن والے اور بچپن کو جوانی سے الگ رکھتا ہے رام کی طرح دیا کرتا ہے بن باس مجھے اور مجھ راجہ کو رانی سے الگ رکھتا ہے میں تو دریائے محبت ہوں ، بہے جاؤں گا تُو عبث مجھ کو روانی سے الگ رکھتا ہے جو نظر آتا ہے ہر چیز میں ، ہر منظر میں خود کو ہر ایک نشانی سے الگ رکھتا ہے اشرف نقوی
بہت خوب نقوی صاحب۔ بہت ہی عمدہ غزل ہے۔ پسند آئی لیکن مطلع اور مقطع پوری غزل کے ماتھے کا جھومر بنے ہوئے ہیں۔ :a180: