انتہائی عزیز دوستو! السلامُ علیکم۔ آپ کی خدمت میں اپنی ایک نمائندہ غزل لے کر حاضر ہو رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کو حسبِ سابق پسند آئے گی۔ مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ ہمیشہ خوش رہیے۔ مسکراتے رہیے۔ غزل وصل کی شام شبِ ہجر میں تحلیل ہوئی تب کہیں جاکے مرے عشق کی تکمیل ہوئی آ پڑا میری ہی دیوار کا سایہ مجھ پر دھوپ میرے لیے یوں چھاؤں میں تبدیل ہوئی رفتہ رفتہ ہی مری آنکھ میں اُترا پانی رفتہ رفتہ یہ نظر پھیل کے اک جھیل ہوئی میری آنکھوں پہ بھی غلبہ تھا کسی چہرے کا لوحِ دل پر بھی کسی اِسم کی تنزیل ہوئی نیند کے چاک پہ رکھا مجھے کُوزہ گر نے عالمِ خواب میں گویا میری تکمیل ہوئی نیند تو آنکھ میں در آئی کبھی کی اشرف بعد مدت کے مگر خواب کی ترسیل ہوئی اشرف نقوی