1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل جگر مراد آبادی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏5 ستمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    جگر مراد آبادی


    اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
    درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
    عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
    آدمی کام کا نہیں ہوتا
    ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
    بیشتر دیرپا نہیں ہوتا
    وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
    ماسوا ماسوا نہیں ہوتا
    ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
    غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا
    دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
    ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
    جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
    اس کی جانب خدا نہیں ہوتا
    میں کہ بےزار عمر بھر کے لیے
    دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا
    وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
    جب ہمارا پتا نہیں ہوتا
    دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
    جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
    ہو کے اک بار سامنا ان سے
    پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا​
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ

    دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
    ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
    وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

    آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
    رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

    سلسلہ فتنۂ قیامت کا
    تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

    مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
    ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

    کاروبار جہاں سنورتے ہیں
    ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

    روح کو بھی مزا محبت کا
    دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

    جگر مراد آبادی
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ محترم
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا

    آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا

    تاریک مثل آہ جو آنکھوں کا نور تھا

    کیا صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا

    وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا

    آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا

    ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا

    بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا

    کوئی تو دردمند دل ناصبور تھا

    مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا

    لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو

    ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا

    ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش

    شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا

    ساقی کی چشم مست کا کیا کیجیے بیان

    اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا

    پلٹی جو راستے ہی سے اے آہ نامراد

    یہ تو بتا کہ باب اثر کتنی دور تھا

    جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا

    اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا

    اس چشم مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا

    سب کو بقدر حوصلۂ دل سرور تھا

    دیکھا تھا کل جگرؔ کو سر راہ مے کدہ

    اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں