1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزلیں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از اوجھڑ پینڈے, ‏16 فروری 2012۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نہ جنوں میں تشنگی ہے، نہ وصال ِ عاشقانہ
    مری زندگی کا شاید، یہیں تھم گیا زمانہ


    مرے ہجر کے فسانے ہیں مکاں سے لا مکاں تک
    نہ چمن نہ گل نہ بلبل، نہ بہار و آب و دانہ
     
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    (حکیم آزاد انصاری)

    دلبرِ صد عشوہ زا مطلوب ہے
    خوبصورت تر بلا مطلوب ہے

    اہلِ دل ہوں، دلربا مطلوب ہے​
    بندہ بننا ہے خدا مطلوب ہے​

    بے وفا! کیا کہئیے، کیا مطلوب ہے​
    طاقتِ ترکِ وفا مطلوب ہے​

    اذن ہو تو عرضِ حالِ دل کروں​
    طبع ِ نازک کی رضا مطلوب ہے​

    اے وفا کے خبط! لےکچھ اور سُن​
    اب اُنہیں شکرِ جفا مطلوب ہے​

    او ستمگر!‌کچھ خطا ہو یا نہ ہو​
    اب بہر حالت سزا مطلوب ہے​

    پھر گرفتارِ غمِ حاجات ہوں​
    پھر کوئی حاجت رو ا مطلوب ہے​

    مضطر آیا ہوں، سکوں درکار ہے​
    درد لایا ہوں دوا مطلوب ہے​

    کچھ بھی ہو، اب میں ہوں اور تیری تلاش​
    کچھ بھی ہو، تیرا پتا مطلوب ہے​

    واہ اُس طالب کی قسمت، جو مدام​
    شاغِل تسبیح "یا مطلوب" ہے​

    اے ترے قربان!‌اب اتنی سُدھ کہاں ​
    تو مِرا طالب ہے یا مطلوب ہے​

    شورِ فریادِ گدا ناحق نہیں​
    التفاتِ بادشاہ مطلوب ہے​

    شیخ! آپ اور حُبِّ زر سے یہ جہاد​
    ہو نہ ہو، کچھ فائدہ مطلوب ہے​

    رند ہیں اور بادہ و شاہد کا قحط​
    حضرتِ زاہد!‌دعا مطلوب ہے​

    پائے لنگِ فقر لے کر کیا کروں​
    بازوئے کشور کشا مطلوب ہے​
     
    پاکستانی55 اور عشوہ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عشوہ
    آف لائن

    عشوہ ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2014
    پیغامات:
    278
    موصول پسندیدگیاں:
    189
    ملک کا جھنڈا:
    خوشبو کی دوبارہ کہیں تنظیم نہ کرنا
    لوگو! مجھے بنیاد سے تقسیم نہ کرنا

    بچوں کی ہنسی ہوں، میں بزرگوں کی دُعا ہوں
    میں شعر نہیں ہوں مِری تفہیم نہ کرنا

    جو منبر و محراب سے نفرت کا سبق دے
    لازم ہے کہ اس شخص کی تعظیم نہ کرنا

    یہ خواب ہمارے لیے دیکھا تھا بڑوں نے
    ممکن ہو تو اس خواب میں ترمیم نہ کرنا

    میں مدرسۂ عشق سے آیا ہوں یہاں تک
    بہتر ہے مجھے قتل کی تعلیم نہ کرنا

    کیا اس سے بڑا عیب بھی ممکن ہے جہاں میں
    رہنا مرے گھر میں مجھے تسلیم نہ کرنا

    وصی شاہ
     
    پاکستانی55 اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جو منبر و محراب سے نفرت کا سبق دے
    لازم ہے کہ اس شخص کی تعظیم نہ کرنا



    بہت خوب!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    یارِ پری چہرہ

    وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
    طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا

    گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
    کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا

    نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
    وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا

    خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
    ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا

    خوش چشم و خوش اطوار و خوش آواز و خوش اندام
    اک خال پہ قربان سمرقند و بخارا

    گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
    ایماں شکن، آئینہ جبیں، انجمن آرا

    صبحِ گلِ نوخواستہ و شامِ شگوفہ
    مر رہنے کا سامان، تو جینے کا سہارا

    آئینۂ رخسار پر اک خالِ سیہ تاب
    پیشانئ گل رنگ پر آنچل کا کنارا

    آنکھوں کے چمکنے میں تقاضائے تلطف
    پلکوں کے جھپکنے میں تمنائے مدارا

    وہ لب کہ مہِ نو کی دھڑکنے لگے چھاتی
    وہ آنکھ کہ موتی کو نہ ہو صبر کا یارا

    کلیوں کی نمایش میں اگر ہو متبسم
    ہو اُس کے ہی ہونٹوں کی طرف کثرتِ آرا

    نظریں جو اٹھا دے تو لرزنے لگے خورشید
    ابرو کو جو بل دے تو ہو مہتاب دوپارا

    اللہ ری ملبوس کی تابش شبِ مہ میں
    سلما جو دمکتا تھا، جھمکتا تھا ستارا

    تھا میری نگاہِ طرب آموز کا پابند
    رنگِ لب و رخسار کا چڑھتا ہوا پارا

    صندل کی دمک تھی عرق آلودہ جبیں پر
    یا نہرِ گلستاں میں تڑپتا ہوا تارا

    نغموں کے تلاطم سے تھا جنبش میں لبِ لعل
    لہروں کے تھپیڑوں میں تھا دریا کا کنارا

    ہر سانس میں اپنے ہی پہ پیچیدہ جوانی
    ہر گام پہ بکھری ہوئی زلفوں کا نظارا

    اس طرح تبسم میں تحکم کی گھلاوٹ
    جس طرح مئے تند کی تلخی ہو گوارا

    کاکل کے خم و پیچ سے افشاں کا جھلکنا
    ظلمات سے تھا چشمۂ حیواں کا اشارا

    سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
    شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا

    زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
    شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا

    رُخ بات کا اقرار سے انکار کی جانب
    جس طرح ہرن دشت میں بھرتا ہو ترارا

    اللہ کرے وہ صنمِ دشمنِ ایماں
    مچلے کسی شب جوش کے پہلو میں دوبارا


    جوش ملیح آبادی
     
    حریم خان اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    نجد وحشت میں وہ دمساز غزالی آنکھیں
    روشنی دیتی ہوئی ، رات سے کالی آنکھیں
    واقف غم ، متبسم ، متکلم ، خاموش
    تم نے دیکھی ہیں کہیں ایسی نرالی آنکھیں ؟
    ...
    دیکھ اب چشم تصور سے انہیں دیکھ ، اے دل
    جو حقیقی تھیں ، ہوئیں اب وہ خیالی آنکھیں
    ٹوٹتے جاتے ہیں پھر ضبط کے بندھن سارے
    پھر الٹنے کو ہیں اشکوں کی پیالی آنکھیں
    پھر کہے دیتی ہیں احوال غم و درد حیات
    گرچے ہم نے تھیں بہت دیر سنبھالی آنکھیں
    شام فرقت کے سنبھالے ہوئے پلکوں پہ دیے
    سال بھر اب تو مناتی ہیں دیوالی آنکھیں
    صبح امید کی صورت وہ فروزاں سے چراغ
    لیے ڈھونڈ کے پھر ایسی جمالی آنکھیں . . .​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محمد عمیر خان
    آف لائن

    محمد عمیر خان مہمان

    سنا ہے اس کے شبستان سے متصل ہے بہشت
    مکیں ادهر کے بهی نظارے ادهر کے دیکهتے ہیں
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. عدیل بلال
    آف لائن

    عدیل بلال ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    عدم گونڈوی

    زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ، گلاب
    بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب

    پیٹ کے بھوگول میں الجھا ہوا ہے آدمی
    اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب

    اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے
    بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب

    ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول
    سبھیتا رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب

    چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے
    ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ انتخاب
     
  10. وحید درانی
    آف لائن

    وحید درانی ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2016
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
     
  11. وحید درانی
    آف لائن

    وحید درانی ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2016
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا


    دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا

    کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے


    دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
     
  12. وحید درانی
    آف لائن

    وحید درانی ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2016
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا


    دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا

    کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے


    دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
     

    منسلک کردہ فائلیں:

    Last edited by a moderator: ‏16 اکتوبر 2016
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    آنکھ برسی ہے تیرے نام پہ ساون کی طرح
    جسم سلگا ہے تیری یاد میں ایندھن کی طرح

    لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
    کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

    اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
    گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

    مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
    میں تیرے دل میں سما جاہوں گا ڈھرکن کی طرح

    منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
    زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہہن کی طرح
     

اس صفحے کو مشتہر کریں