1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غالب کے اشعار

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان, ‏27 نومبر 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بس کہ ہے میخانہ ویراں جو ں بیابانِ خراب
    عکس چشم ِ آہوئے رمخوردہ ہے داغ ِ شراب

    تیرگی ظاہری ہے طبع ِ موزوں کا نشاں
    غافلاں، عکس ِ سوادِ صفحہ ہے گردِ کتاب

    یک نگاہِ صاف، صد آئینہء تاثیر ہے
    ہے رگِ یا قوت، عکس ِ خطِ جام آفتاب

    ہے عرق افشاں مشی سے، ادھم مشکین ِیار
    وقتِ شبِ اختر ثمر ہے چشم ِبیدار ِرکاب

    ہے شفق از سوز دل ہا آتش ِ افروختہ
    ہریک اختر ہے فلک پر قطرہء اشکِ کباب

    بسکہ شرم عارض ِ رنگیں سے حیرت جلوہ ہے
    ہے شکستِ رنگِ گل آئینہ پرداز ِنقاب

    شب کہ تھا نظّارہ گر روے بتاں کا اے اسد
    گر گیا بامِ فلک سے صبح تشتِ ماہتاب

    (مرزا اسد اللہ خان غالب )​

    نوٹ: براہ کرم کوئی مجھ سے ان اشعار کا معنی نہ پوچھے۔ شکریہ :bigblink:
     
  2. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ہم آپ سے شاید پوچھ ہی لیتے، اگر غالب نے خود ہی نہ کہہ دیا ہوتا

    بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔
     
  3. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    معنی

    کیوں ؟آپ کو ان اشعار کا معنی نہیں آتاکیا؟
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نہیں۔ اسی لیے تو پہلے ہی بتادیا کہ بھئی مت پوچھیے۔
    آپ نے پھر بھی سوال پوچھ ہی لیا :takar:
     
  5. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسداللہ خاں قیامت

    [/quote:3nce7zw4]
    میں آپکا مطلب نہیں سمجھا “شعر“ کی بجائے“ غزل“ لکھنا چاہتے تھے یا“ شاعر“
    ایک اور عرض
    ہوئی مدت کہ غالب مرگیا ‘ پر یاد آتا ہے
    وہ ہر بات پر کہنا کہ ‘یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘
     
  6. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
    کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
    کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

    نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
    یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں

    ترے جواھر طرفِ کلُہ کو کیا دیکھیں
    ہم ادَجِ طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

    (مرزا غالب)
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ کاشفی بھائی ۔ اچھا کلام شئیر کیا ہے۔
     
  8. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ہوئی مدت کہ غالب مرگیا ‘ پر یاد آتا ہے

    ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید

    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا

    اَور درویش کی صدا کیا ہے؟
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ عرفان بھائی ۔ا چھا قطعہ ہے
     
  10. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    رہئیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
    بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئیے
    کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
    پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ بیمار دار
    اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

    (مرزا غالب)
     
  11. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہ کہیں جنازہ اٹھتا ‘ نہ کہیں مزار ہوتا

    ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے ہوئے کیونہ غرق دریا
    نہ کہیں جنازہ اٹھتا ‘ نہ کہیں مزار ہوتا
     
  12. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    “اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا“۔۔ اس کا پہلا مصرہ کسی کو پتا ہے تو بتا دیں پلیززز۔۔
     
  13. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    مریم سیف صاحبہ آپ کی نظر۔۔۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

    ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
    کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

    تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
    کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
    یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

    یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

    رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
    جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

    غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
    غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

    کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
    مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

    ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
    نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

    اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
    جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

    یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
    تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا
     
  14. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

    تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
    کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

    نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
    شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

    نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
    تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

    فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
    ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

    نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
    تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

    دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
    غمِ آوارگی ہائے صبا کیا

    دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘
    ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

    محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
    شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

    سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
    شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا

    کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
    شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

    یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
    یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

    بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
    عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!​
     
  15. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
    کیا خوب قیامت کا کیا ہوگا کوئی دن اور
    یہ غزل غالب نے اپنے بیٹے کی وفات پر لکھی تھی مزید اشعار
    تم کون سے اچھے تھے اتنے داد و ستد کے
    کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مریم جی ۔ اسکا پہلا مصرعہ ہے

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا​
     
  17. ہٹلر
    آف لائن

    ہٹلر ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اپریل 2008
    پیغامات:
    134
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    واہ واہ کاشفی بھیا۔ بہت عمدہ انتخاب ہے
    ہم بھی غالب کے چاہنے والے ہیں۔ یہ میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک ہے۔ اور خصوصا یہ اشعار

     
  18. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہ تھا کچھ تو خدا تھا نہ ہوتا کچھ تو خدا ہوتا
    ڈبو یا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا کچھ تو کیا ہوتا
     
  19. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
    بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    تنگئ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
    کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

    بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے
    کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بات تو درست ہے مرزا صاحب قبلہ کی۔
     
  21. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
    بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
     
  22. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    [center:1yuitopm]دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
    بارے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی دادیاں
    ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
    مہر گردوں ہے چراغ رہگوار بادیاں
    [/center:1yuitopm]
     
  23. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی پوسٹس ہیں کچھ میری طرف سے۔۔۔۔۔۔۔۔

    حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
    کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو
    بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
    بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو
    اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے
    کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ارے چیٹر بھائی ۔ بہت دنوں بہت نظر آرہے ہیں۔
    خیریت تھی نا؟
    کوئی امتحان وغیرہ میں بزی تھے؟
    خیر آپکو دوبارہ یہاں دیکھ کر اچھا لگا۔ :dilphool:
     
  25. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ بھائی مجھے تو امید نہیں تھی کہ کسی کو میں یاد بھی ہونگا ۔غیر حاضری کی وجہ پڑھائی تھی جس کے سلسلے میں میں لاہور تھا۔ اب ایک ماہ آور اردو کا ساتھ رہے گا۔
     
  26. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    مرزا اسد اللہ خان کی فارسی غزل کا اردو ترجمہ

    دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
    اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں

    ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
    اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں

    آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
    داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں

    قطرۂ خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
    موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں

    جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
    تنگ ہوا جب حلقۂ دام آشیاں کہتا تھا میں

    تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
    اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

    عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
    ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں

    مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
    اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں

    گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
    لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں

    اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
    تھا وہ صاحبِ خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں

    چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
    کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں

    شیوۂ صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
    تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں