1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏24 نومبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن ترمذي

    کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل

    باب: عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیار دینے کا بیان۔

    حدیث نمبر: 1179

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا؟ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ، عَنْ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أنهما قَالَا: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا، قَالَا: أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلَاثٌ، وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.

    ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
    امام ترمذی کہتے ہیں:
    ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
    ۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
    ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎،
    ۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا، ۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی،
    ۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،
    ۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔

    تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۳)، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، سنن النسائی/النکاح ۲ (۳۲۰۴)، والطلاق ۲۷ (۳۴۷۱- ۳۴۷۵) (تحفة الأشراف: ۱۷۶۱۴) مسند احمد ۶/۲۰۲، ۲۰۵، ۲۴۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۲ (۲۲۰۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۰ (۱۵۲)، مسند احمد (۶/۴۵، ۴۸، ۱۷۱، ۱۷۳، ۱۸۵، ۲۶۴) من غیر ہذا الوجہ۔

    وضاحت: ۱؎: استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔ ۲؎: اور یہی قول اس صحیح حدیث کے مطابق ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بعض باتیں تو سر سے گزر جاتی ہیں اور سمجھ کچھ نہیں آتا کہ آپ سمجھانا کیا چاہتی ہیں ؟
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    معلوماتی پوسٹ قابل تحسین ہے۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شبہات و اشکالات کا ازالہ

    پہلا اشکال اور اس کی وضاحت

    بعض علماء آیتِ تخییر سے تفویض طلاق کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے جو نبیﷺ اور اَزواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی و جہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا جو نبیﷺکو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

    ﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دنَ الحَيو‌ٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّ‌حكُنَّ سَر‌احًا جَميلًا ٢٨ ﴾... سورة الاحزاب

    ''اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو، تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی طلاق دے دیتا ہوں۔''

    جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہؓ سمیت تمام ازواجِ مطہرات کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اللہﷺ کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔

    یہ 'آیتِ تخییر 'کہلاتی ہے۔ اس سے تفویض طلاق کا اثبات نہیں ہوتا کیونکہ اس میں تو اُن کے مطالبات کے جواب میں اُنھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پراصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں، قرآن کے الفاظ واضح ہیں:﴿فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّ‌حكُنَّ سَر‌احًا جَميلًا ٢٨ ﴾''آؤ میں تمھیں متعۂطلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں۔'' جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبیﷺ کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے...از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔

    اس سے مستقل طور پر عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنے کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر کچھ ایسے مطالبات پیش کرے جس کو خاوند پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ بیوی سے یہ کہے کہ میں یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتا، اگر تو انھی حالات کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر میں طلاق دیکر اچھے طریقے سے تجھے فارغ کر دیتا ہوں۔ اگر عورت دوسری (طلاق کی) صورت اختیار کرتی ہے تو اسے طلاق نہیں ہو جائے گی بلکہ خاوند اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے طلاق دے تبھی طلاق، یعنی علیحدگی ہو گی۔

    غرض اس صورت کا تفویض طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس آیت سے استدلال یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

    دوسرا شبہ

    اسی سے ملتی جلتی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جھگڑے کے موقع پر خاوند عورت کو یہ کہہ دے: أَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے)

    اس سے بھی بعض لوگوں نے تفویض طلاق کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کنائی کی ایک صورت بنتی ہے۔ اور اکثر فقہا اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ تفویض نہیں بلکہ طلاق ہے۔

    نیز اوّل تو یہ الفاظ نہ مرفوعاً ثابت ہیں اور نہ موقوفاً، یعنی یہ نہ حدیثِ رسول ہے اور نہ کسی صحابی کا قول13 ... یہ الفاظ جامع ترمذی، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں منقول ہیں۔ ان سب کی سندیں ضعیف ہیں تاہم اسے حسن بصری﷫ کا قول قرار دیا گیا ہے۔ (اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے)

    البتہ بعض صحابہ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، مثلاً: المعجم الکبیر للطبرانی14 میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے:

    إذا قال الرجل لامرَأته: أمركِ بیدكِ أو استفلحي بأمرك أووهبها لأهلها فقبلوها فهي واحدة بائنة15

    ''اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے ، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔''

    اس اثر میں غور کریں، کیا اس کا تعلق زیر بحث تفویض طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاقِ کنائی) یاتوکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہو جائے گی اور بقول عبداللہ بن مسعود یہ ایک طلاق بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے کیونکہ یہ طلاق کون سی ہو گی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔

    دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں، تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے، یعنی خاوند خود طلاق نہ دے بلکہ وکیل کے سپرد یہ کام کر دے، تو وہ طلاق خاوند ہی کی طرف سے تسلیم کی جائے گی۔مذکورہ اثر میں یہی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک صورت خیارِ طلاق کی سی ہے بلکہ یہ طلاق بالکنایہ ہے اور دوسری توکیل طلاق کی۔ اس اثر سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔

    دوسرا اثر، جس سے استدلال کیاگیا ہے، حسب ذیل ہے:

    ''سیدنا عثمان کے پاس وفد میں ابوا لحلال العتکی﷫ آئے، تو کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: فأمرها بیدها پس اس عورت کااختیار اس کے پاس ہی ہے۔''16

    اس میں بھی وہی خیارِ طلاق بلکہ طلاق بالکنایہ کا اثبات ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں، یعنی لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار کنائے کی صورت میں دے دینا، اس اثرکا بھی تفویض طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    تیسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے:

    ''سیدنا عبداللہ بن عمر سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو انھوں نے فرمایا: "القضاء ماقضت فإن تنا کراحلف" وہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہے، پھر اگر وہ دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد کو قسم دی جائے گی۔''17

    یہ اثر نقل کرکے فاضل مفتی﷾ تحریر فرماتے ہیں:

    ''یہاں پرچونکہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اورگواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔''18

    لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویض طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق ہی کا مسئلہ بیان ہوا ہے جس کا شادی کے بعد ہونے والے میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑے سے ہے کہ اگر اختلافات کا کوئی حل نہ نکلے تو خاوند اس کا یہی حل پیش کرے کہ تجھے اختیار ہے میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا۔ اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی نافذ ہو گا۔ علیحدگی پسند کرے گی تو طلاق ہو جائے گی، بصورتِ دیگر نہیں۔ لیکن اس طلاق میں بھی فیصلہ کن بات خاوند کی نیت ہی ہے کہ طلاق رجعی ہے یا بائن؟

    اس اثر سے بھی رشتۂ ازدواج میں جڑنے سے پہلے ہی نکاح کے موقعے پر مرد کا اپنے اس حق طلاق سے دست بردار ہو کر، جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے، عورت کو اس کا مالک بنا دینا، کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ ... میاں بیوی کے درمیان عدمِ موافقت کی صورت میں ان کے اختلافات دور کرنے کے کئی طریقے ثابت ہیں۔ ایک یہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ ایک ثالث (حَکَم)بیوی کی طرف سے اور ایک خاوند کی طرف سے مقرر کیے جائیں، وہ دونوں کے بیانات سن کر فیصلہ کریں اور دونوں کی کوتاہیوں کو معلوم کرکے ان کو دور کرنے کی تلقین دونوں کو کریں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ بطورِ وکالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کر دیں۔ اس کو 'توکیل بالفرقہ' کہا جاتا ہے، یہ وکالت کی وہ صورت ہے جو جائز ہے۔

    دوسری صورت یہ ہے جو بعض آثار ِصحابہ سے ثابت ہے کہ خیارِ طلاق کی ہے جو نبیﷺ نے اختیار فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ازواجِ مطہرات علیحدگی کو پسند کرتیں تو آپﷺ ان کو طلاق دے کر فارغ کر دیتے۔

    تیسری صورت یہ ہے کہ خاوند علیحدگی کا معاملہ عورت کے سپرد کر دے: اَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں) مذکورہ سارے آثار کا تعلق اسی صورت سے ہے۔ اس جملے کی بابت فقہا کہتے ہیں اور مذکورہ آثارِ صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ اگر عورت علیحدگی اختیار نہیں کرتی اور خاوند ہی کے پاس رہنے کو اختیار کرتی ہے تو طلاق نہیں ہو گی اور اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ طلاق شمار ہو گی۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق ایک ہو گی یا تین طلاقیں۔ ایک طلاق ہونے کی صورت میں رجعی ہو گی یا بائنہ؟ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خاوند کی نیت کے مطابق فیصلہ ہو گا، اگر اس سے مراد اس کی ایک طلاقِ رجعی ہے تو یہ ایک طلاقِ رجعی شمار ہو گی اور خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس میں خاوند کی نیت کے فیصلہ کن ہونے نے اس کو طلاق بالکنایہ بنادیا ہے اور یوں یہ خیارِ طلاق سے مختلف صورت ہے کیونکہ اسے اگر خیارِ طلاق کی وہی صورت قرار دیں جو نبیﷺ نے ازواجِ مطہرات کے سلسلے میں اختیار فرمایا تھا تو اس سے میں بھی طلاق کا حق مرد ہی کو حاصل تھا، اور امرک بیدک میں یہ اختیار عورت کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ طلاقِ کنائی بنے گی اس لیے کہ یہ طلاق ،طلاقِ رجعی ہو گی یا بائنہ؟ اس کا فیصلہ خاوند کی نیت کے مطابق ہو گا۔

    حضرت زید بن ثابت کے پاس محمد بن عتیق نامی ایک شخص آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت زید نے پوچھا: کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ اُس نے کہا: میں نے اپنی عورت کو اس کے معاملے کا مالک بنا دیا تھا تو اُس نے مجھ سے جدائی اختیار کر لی ہے۔ حضرت زید نے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا: بس اسے تقدیر ہی سمجھ لیں۔ حضرت زید نے فرمایا: اگر تو رجوع کرناچاہتا ہے تو رجوع کرلے، یہ ایک ہی طلاق ہے اور تو رجوع کرنے کا اس عورت سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔

    اور حضرت زید بن ثابت کا ایک دوسرا قول یہ نقل ہوا ہے اور اسے حضرت عثمان اور حضرت علی کا بھی قول بتلایا گیا ہے کہ القضاء ما قضت (عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہوگا)، یعنی اس کے کہنے کے مطابق اسے طلاقِ رجعی یا بائنہ، ایک یا تین شمار کیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا گیا تھا۔

    اور ایک تیسری رائے حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا، تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔19

    ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار دینا، زیر بحث تفویض طلاق سے یکسر مختلف معاملہ ہے جس کا جواز ان آثار سے کشید کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ أَمْرُكِ بِیَدِكِ کی صورت یا تو توکیل کی بنتی ہے کہ مرد کسی اور کو وکیل بنانے کے بجائے عورت ہی کو وکیل بنا دیتا ہے یا یہ کنائی صورت ہے کیونکہ اس میں فیصلہ کن رائے خاوند ہی کی ہو گی کہ اگر عورت نے علیحدگی پسند کرلی ہے تو یہ کون سی طلاق شمار ہو گی، رجعی یا بائنہ، ایک یا تین؟ ایک رجعی شمار کرنے کی صورت میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات کرنے والوں سے ہمارے چند سوال ہیں:

    1. تفویض طلاق والی عورت اگر خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو کیا اس میں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گایا نہیں؟

    2. اگر خاوند کہے کہ میری مراد اس تفویض طلاق سے ایک طلاقِ رجعی تھی، تو کیا خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا؟

    3. اوراگر رجوع کا حق حاصل ہو گا تو پھر تفویض طلاق کی شق ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہے، کیونکہ جو عورت بھی اس حق کو استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے گی تو خاوند رجوع کر لیا کرے گا۔

    4. اگر تفویض طلاق میں طلاقِ بائنہ ہو گی تو پھر یہ صورت أَمْرُكِ بِيَدِكِ میں کس طرح آسکتی ہے جس کو اس کے جواز میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟ جبکہ أَمْرُكِ بِيَدِكِ کی صورت میں طلاق بائنہ نہیں ہو گی جیسا کہ آثار سے واضح ہے۔20

    تیسرا اشکال: توکیل(وکیل بنانے) کی اجازت

    ایک تیسری اصطلاح 'توکیل' ہے، یعنی ایک جائز کام کو خود کرنے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے کرایا جائے۔

    شریعت نے اس کو جائز رکھا ہے، اس کو نیا بت بھی کہا جاتا ہے۔ طلاق دینا بھی (ناگزیر حالات میں) جائز ہے اور یہ صرف خاوند کا حق ہے، تاہم خاوند اپنا یہ حقِ طلاق وکیل کے ذریعے سے استعمال کرے تو دوسرے معاملات کی طرح یہ توکیل بھی جائز ہے۔ قرآن کریم کی آیت: ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها...٣٥﴾... سورة النساء" میں جمہور علما کے نزدیک حَکَمَیْن کے 'توکیل بالفُرقہ' ہی کے اختیار کا بیان ہے۔

    اسی توکیل میں وہ خاص صورت بھی شامل ہے جو پنچایتی توکیل کی ضرورت پیدا کر دیتی ہے، مثلاً: ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا حتیٰ کہ بیوی بار بار اپنے میکے آجاتی ہے اور خاوند بار بار حسن سلوک کا وعدہ کرکے لے جاتا ہے لیکن وعدے کے مطابق حسن سلوک نہیں کرتا، بالآخر لڑکی کے والدین تنگ آکر اس سے وعدہ لیں کہ اس دفعہ عہد کی پاسداری نہیں کی تو ہم آئندہ اس کو تمہارے پاس نہیں بھیجیں گے، خاوند سے پنچایت میں یہ اقرار لیا جائے۔ اس صورت میں یہ پنچایت' توکیل بالفرقہ' کا کردار ادا کرکے دونوں کے درمیان جدائی کروا دے۔

    پنچایت یا عدالت کا یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا، جیسے خلع میں عدالت کا فیصلہ فسخ نکاح سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی عدالت کے اقربا خاوند سے تفویض طلاق کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم بیوی کو حق طلاق تفویض کرو، یعنی معاہدۂ حسن سلوک کی پاسداری نہیں کی گئی تو بیوی حق طلاق استعمال کرے گی بلکہ خلع کی طرح پنچایت یا عدالت ہی علیحدگی کا فیصلہ کرے گی۔

    خلع اور اس توکیل میں فرق یہ ہے کہ خلع میں حق مہر واپس لینے کا حق خاوند کو حاصل ہے جب کہ پنچایتی فیصلے میں خاوند کو یہ حق نہیں ہو گا کیونکہ یہ جدائی خاوند کے اقرار یا وعدے کی بنیاد پر ہو گی۔ دوسرے، توکیل کی و جہ سے یہ جدائی طلاق کے قائم مقام ہو گی۔

    چوتھی نوعیت: تفویض طلاق؟

    چوتھی اصطلاح، تفویض طلاق ہے جس کی اجازت فقہاے احناف اور دیگر بعض فقہا دیتے ہیں لیکن شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری۔ کیونکہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرنے میں ان تمام حکمتوں کی نفی ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے میں مضمر ہیں۔

    اس اعتبار سے عورت کو کسی بھی مرحلے میں حق طلاق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ابتدا میں عقدِ نکاح کے وقت اور نہ بعد میں عدمِ موافقت کی صورت میں۔ عدم موافقت کی صورت میں چار صورتیں جائزہوں گی جن کی تفصیل گزری۔ ہم خلاصے کے طور پر اسے دوبارہ مختصراً عرض کرتے ہیں:

    1. تخییر:نبیﷺ کی طرح خاوند کی طرف سے عورت کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو خاوند اس کو طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کر دے، جیسا کہ ﴿أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّ‌حكُنَّ سَر‌احًا جَميلًا ٢٨﴾... سورة الاحزاب" سے واضح ہے، یعنی طلاق دے کر علیحدگی کا کام مرد ہی کی طرف سے ہو گا۔

    2. توکیل: یا پھرحَکَمیْن (دوثالثوں) کے ذریعے سے توکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک ثالث خاوند اور ایک بیوی کی طرف سے ہو گا۔ وہ دونوں میاں بیوی کی باتیں آمنے سامنے یا الگ الگ (جو بھی صورت مناسب اور مفید ہو گی) سنیں گے اور اس کی روشنی میں صلح و مفاہمت کی مخلصانہ کوشش کریں گے لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر وہ، ان دونوں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ فیصلہ بھی طلاق کے قائم مقام ہو گا۔

    3. یا أَمْرُكِ بِیَدِكِ، کہہ کر خاوند عورت کو علیحدگی کا حق دے دے۔ یہ بھی اختلافات ختم کرنے کی ایک صورت ہے جو آثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور یہ طلاقِ کنائی کی ایک شکل ہے۔

    4. یا خلع یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی عمل میں لائی جائے گی۔ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑے گا۔

    ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو گا۔

    اور یہ تفویض طلاق پانچواں طریقہ ہے جو فقہا کا ایجاد کردہ ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل ہے، نہ صحابہ و تابعین کا کوئی اثر اس کی تائید میں ہے۔

    ایک اور عجیب جسارت یا حیلہ

    احناف شریعت کے دیے ہوئے اس حق خلع کو نہیں مانتے جو عورت کو مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے، جبکہ عورت کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس لیے احناف نے اس کا متبادل حل ایک تو تفویض طلاق کی صورت میں ایجاد کیا جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کی، اس کا ایک اور حل فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے جو عجیب بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں شوخ چشمانہ جسارت بھی۔

    اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑتا ہو اور وہ اس کے ہاتھ سے تنگ ہو تو وہ خاوند کے بیٹے سے زِنا کروالے، تاکہ وہ خاوند پر حرام ہو جائے کیونکہ فقہ حنفی میں حرام کاری سے بھی رشتۂ مصاہرت قائم ہو جاتا ہے۔21

    اس حیلے کی بھی ضرورت اسی لیے پیش آئی کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حق خلع علماے احناف کو تسلیم نہیں ورنہ اس قسم کی صورتوں میں عورت عدالت سے خلع کے ذریعے سے ناپسندیدہ یا ظالم شوہر سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالىٰ

    ہمارے نزدیک یہ حیلہ بھی بناے فاسد علیٰ الفاسد ہے۔ حرام کام کے کرنے سے کوئی حلال حرام نہیں ہو سکتا۔ میاں بیوی کا تعلق حلال ہے، بیوی اگر خاوند کے بیٹے سے اپنا منہ کالا کروائے گی تو زنا کاری جیسے جرم کبیرہ کی مرتکب ہو گی لیکن اس سے وہ اپنے میاں کے لیے حرام نہیں ہو گی،

    حدیث رسولﷺہے: «لَا یُحَرِّمُ الحرامُ الحلالَ»22

    ''حرام کام حلال کو حرام نہیں کرے گا۔''

    اس لیے اَسلم واَحوط راستہ عورت کے لیے حق خلع کا تسلیم کرنا ہے، اس حق شرعی کو ماننے کے بعد نہ تفویض طلاق کے کھکیڑ میں پڑنے کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ اپنے سوتیلے بیٹے سے منہ کالا کرانے کی۔ اس کے بغیر ہی عورت خاوند سے نجات حاصل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے شریعت نے جب کئی معقول طریقے تجویز کیے ہوئے ہیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ غیر معقول تجاویز پر اصرار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ وماعلینا إلاالبلاغ المبین
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امید کرتی ہوں کہ اب یہ مسئلہ واضح ہو چکا ہوگا
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں