1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عورت عظیم ہے

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏10 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آج مختلف مقامات پر سیر کرتے کرتے نصیر احمد ناصر کی تحریر عورت عظیم ہے پڑھنے کو ملی
    سوچا آپ سب سے بھی شیئر کر دوں

    گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
    کہ دکھ عورت ہے
    وہ عورت ہی تھی
    جس نے اُسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
    اور وہ بھی عورت تھی

    جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
    اور حالتِ مرگ میں اسے
    دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی

    دکھ عورت ہے اور عورت دکھ ہے۔ عورت کسی بھی روپ میں ہو عظیم ہے۔ کیونکہ دکھ عظیم ہے۔ دکھ کی ارفع ترین شکل تخلیق ہے اور عورت خدا کے بعد تخلیق کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔ دونوں میں یکتائی کا رشتہ ہے۔ خدا اتنی بڑی کائنات تخلیق کر کے بھی تنہا ہے تو عورت ماں، بیوی، محبوبہ، بہو، بیٹی، بہن یہ سارے روپ دھار کر، ان سارے رشتوں کو جنم دے کر بھی اپنی اصل میں تنہا رہتی ہے۔ اگر مرد صحیح معنوں میں عورت کے دکھ اور عظمت کو سمجھ لے تو خود مرد سے بڑا فیمینسٹ کوئی نہیں ہو سکتا۔

    میں جب بہت چھوٹا تھا، اتنا چھوٹا کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو ایک مرد نے ایک عورت کے پیٹ پر ٹھوکر ماری تھی، اتنے زور سے کہ اس عورت سے زیادہ مجھے درد ہوا تھا اور یوں لگا تھا جیسے میں زندہ ہوئے بغیر ہی مر گیا ہوں۔ لیکن میرے درد کی آواز اس عورت کے علاوہ کسی نے نہیں سنی تھی۔ میری چیخ کو تو اس نے کوکھ کے اندھیرے سناٹوں میں زندگی کی روشن گونج بنا لیا تھا، لیکن خود اُس کے جسم میں درد کی جو ٹیس اٹھی ہو گی اور روح پہ جو سلوٹ پڑی ہو گی وہ کسی نے بھی سنی نہ دیکھی۔ خدائی سوناٹا خاموش تھا۔ کہیں دکھ کا کوئی آرکسٹرا بجا نہ غم کی کوئی سمفنی چھڑی۔ مجھے نہیں معلوم کہ عقیدوں میں بسا خدا اتنی بڑی کائنات میں اپنی تخلیقی سنسناہٹ میں مگن تھا یا دکھ کی شدت سے سکتے میں تھا، بس اتنا یاد ہے خدا، عورت اور میں تینوں بےبسی سے مرد کو دیکھتے رہے جو چارپائی پر بیٹھا مزے سے خربوزہ کھا رہا تھا۔ جسے کوئی پشیمانی تھی نہ پریشانی۔ اور پھر اس کے تئیں ہوا ہی کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک درمیانے سے گھر میں ایک ٹھوکر کے سوا ہو بھی کیا سکتا تھا، کوئی عظیم واقعہ یا سانحہ تو رونما ہونے سے رہا جس سے زمین کانپ اٹھتی زلزلہ آ جاتا۔ ایک خربوزہ ہی تو پھیکا نکلا تھا جو مرد کی طبع مردانگی کو ناگوار گزرا تھا۔ خربوزہ میٹھا تھا یا پھیکا وہ اُس عورت نے تو پیدا نہیں کیا تھا، اُس نے تو چکھا بھی نہیں تھا اور کاٹ کر ساری قاشیں مرد کے آگے رکھ دیں تھیں کہ پہلے چکھنے یا کھا لینے سے مرد کے مقام و مرتبے میں فرق آتا تھا۔ اُس نے تو میرے حصے کی قاش بھی الگ نہیں کی تھی۔ اور وہ عورت کون تھی ماں تھی اور وہ مرد کون تھا باپ تھا۔

    میں تو اُس روز ہی مر گیا تھا
    جس روز باپ نے ماں کے حاملہ پیٹ پر ٹھوکر لگائی تھی
    مگر میں قبر کے اندر بڑا ہوتا گیا
    اتنا بڑا کہ ماں مجھے سر جھکائے بغیر دیکھ سکتی ہے

    کہتے ہیں میں پیدا ہوا تو جسامت میں بہت چھوٹا سا تھا۔ چوہے جتنا جسے بوتل میں بند کیا جا سکتا ہو۔ لیکن ماں مجھے بہت بڑا سمجھتی تھی اور میرے ننھے ننھے ہاتھ چوم کر میرے بڑے ہونے کا اعلان کرتی تھی۔ یہ دکھ اور خوشی کا جزوی یا مکسور (فریکشنل) اظہار تھا۔ ناقابلِ بیان۔ پورا دکھ اور پوری خوشی کوئی بیان کر سکتا ہے نہ بانٹ سکتا ہے۔ خدا بھی نصف دکھ ہے نصف خوشی۔ ماں پورا دکھ تھی لیکن میں نے خوشی اس کی آنکھوں سے بہتی دیکھ لی تھی اور میں سچ مچ بڑا ہو گیا۔ لفطی اعتبار سے تو پتا نہیں لیکن جسمانی اعتبار سے پورے چھ فٹ کا۔ اور ماں مرتے دم تک میرے ہاتھوں کو چومتی رہی گویا میرے ہونے کا یقین اور قد کاٹھ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی تھی اور ٹھوکر کا خراج پیش کرتی تھی اور میرے درد کو کم کرتی تھی۔ بتاتی تھی کہ میں نے ابھی چلنا شروع نہیں کیا تھا کہ شدید بیمار ہو گیا۔ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ خاندان کے سب مرد اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، کوئی نوکری میں، کوئی زمینوں پہ تو کوئی بیٹھکوں داروں کی چودھراہٹ میں۔ ماں کسی بھی صورت جیتے جی مجھے دوسری بار قبر میں اتارنا مارنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک صبح ماں نے چپکے سے مجھے کاندھے سے لگایا اور تن تنہا کسی کو بتائے بغیر نکل کھڑی ہوئی، حکیموں ڈاکٹروں کی تلاش میں، ایک سے دوسرے گاؤں، دوسرے سے تیسرے، تیسرے سے چوتھے، کوس در کوس بغیر دم لیے بغیر کچھ کھائے پیے چلتی رہی ۔۔۔۔۔

    ماں اٹھائے ہوئے چل رہی تھی مجھے
    پاؤں جوتوں سے عاری تھے
    سر کی ردا مجھ پہ تانے ۔۔۔۔۔۔۔
    مِری سانس سے تیز تر اس کی رفتار تھی
    راستہ، ایک سے دوسرے کوس تک پھیلتا جا رہا تھا
    مگر فاصلہ تھا کہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا
    طبیبِ ازل دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔
    کوئی روگ تھا جان لیوا
    کسی دکھ کی چنتا کسی پیڑ کی چھاؤں میں اس کو رکنے نہ دیتی تھی
    پل بھر بھی تھکنے نہ دیتی تھی اس کو
    سحر دم سے جاگی ہوئی تھی مگر چل رہی تھی
    اٹھائے ہوئے مجھ کو ہاتھوں پہ اپنے
    کوئی تیز نوکیلے پنجوں، بڑے پنکھوں والا پرندہ تھا
    جو میرے چھوٹے سے دل سے کہیں دور اڑنے کو بےحال تھا
    اور کسی ڈاکٹر کا، کلینک کا کوئی نشاں تک نہیں تھا
    زمیں تو زمیں آسماں تک نہیں تھا
    کسی ویدِ اعظم، حکیمِ جہاں کا پتا بھی نہیں مل رہا تھا
    مسیحا بھی کوئی نہیں تھا جو اپنے زماں سے نکل کر
    مِری آخری سانس لیتی ہوئی ننھی بیمار صدیوں میں آتا
    صلیبِ اذیت اٹھاتا، مِری جاں کے بدلے سبھی ماؤں کے دکھ مٹاتا،
    شفاعت کنندہ ہی بنتا ۔۔۔۔۔۔
    عجب راستہ تھا
    جو زیرِ زمیں تھا، پسِ آسماں تھا، کہیں تھا مگر ماں کو مِلتا نہیں تھا
    عجب دکھ کی شدت تھی جس میں
    ہر اک شے تھی ساکت، کوئی پتا ہلتا نہیں تھا
    بس اک سانس تھی جو ابھی چل رہی تھی
    ہوا تھی جو رک رک کے پہلو بدلتی تھی لیکن، ہوا بھی کہاں تھی
    کہ ایک سے دوسرے گاؤں ماں تھی جو پیہم رواں تھی
    کہ اس کو خبر تھی یہ رستہ بہت دور جائے گا
    رک کر بھی چلتا رہے گا
    مجھے زندہ رکھنے کی خاطر خدا کائناتوں کی حکمت بدلتا رہے گا

    اور پھر واقعی خدا کو اپنی حکمت بدلنی پڑی۔ خدا ہار گیا۔ ماں جیت گئی۔ بالآخر کوسوں دور ایک قصبے میں ایک ڈاکٹر مل گیا جس کی معجز اثر دوائی نے میری دم بدم رکتی سانسوں کو بحال کیا اور شام کی ملگجی روشنی میں دن بھر کی پیاسی ماں نے ایک کنویں سے پانی پیا اور چہرہ دھویا۔ میں نے اپنی دیے جیسی ننھی ٹمٹماتی آنکھوں سے دیکھا ماں رو رہی تھی اور خدا مسکرا رہا تھا۔

    تو صاحبو! ماں واحد ہستی ہے جو خدا سے لڑ سکتی ہے۔ پھر اس کی عظمت میں کیا شک ہے؟ اور ماں کون ہے عورت ہے اور عورت محض ایک جسم نہیں، کئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی روح ہے۔ ماں ہے، بیوی ہے، محبوبہ ہے، بہن ہے، بیٹی ہے۔ ہر روپ میں سروپ میں جی جان سے بار بار کایا پلٹتی ہے۔ ایک زندگی میں کئی بار مرتی ہے کئی بار جنم لیتی ہے۔ آواگون کی زندہ مثال۔ محبت، دکھ اور ہجرت کا عظیم امتزاج۔ جی ہاں یہ عورت ہی ہے جو جسم کا چوغہ بدلے بغیر اندر ہی اندر ایک روپ سے دوسرے روپ میں تا دمِ مرگ ہجرت کرتی رہتی ہے۔ اس کی عظمت جانچنے کے لیے کسی فتوے کی ضرورت نہیں، کسی فقہ کو سمجھنے، کسی مسلک کو اپنانے کی حاجت نہیں۔ کسی مفتی، کسی فقیہہ، کسی مولانا کا سرٹیفکیٹ درکار نہیں۔ کسی عمرانی و سائنسی علم، کسی کیمیا گر، سائنس دان،کسی آرشمیدس، کسی آئن اسٹائن کسی نیوٹن کسی اسٹیفن ہاکنگ، کسی نکولا ٹیسلا کی تھیوری ثابت کرنے، کسی ٹائم اسپیس، کسی قانونِ ثقل کی مساواتِ جبریہ حل کرنے اور کسی بلیک ہول، دم دار ستارے، کسی کہکشاں پر جانے کی ضرورت نہیں۔ زمین گول ہو یا چپٹی عورت کی ساخت کو فرق نہیں پڑتا۔ عورت خود ایک بڑا کائناتی استعارہ ہے، کششِ ثقل کی عظیم لہر ہے۔ سمجھنا ہے تو اسے سمجھو! عورت عورت کا شور مچانے والو! عورت ہر حال میں ہر روپ میں، ہر رشتے کی اضافیت میں عظیم ہے۔ روشنی اور توانائی کا منبع ہے۔ کوئی مرد اس کا روپ دھار کر تو دیکھے، ایک ہی دن میں بلبلاتا ہوا اپنی جون میں واپس آ جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بڑے بڑے فلاطوں اور فلاسفہ عورت کے آگے گھوڑا بن کر اپنی پیٹھ پر سواری کراتے رہے ہیں۔ \”عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے\” ، خدا کے بندو کبھی اس کے استعاراتی معانی پر بھی غور کرو۔ حیات و کائنات، تخلیق، ادب، ثقافت، مذہب سے استعارے نکال دیے جائیں تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔ ریگستان میں رہنے والے کے لیے جنت کے معانی اور ہیں اور سائبیریا میں رہنے والے کے لیے اور لیکن استعاراتی جنت دونوں کی ایک ہے۔ انسان کتنا بھی شہری کتنا ہی مہذب ہو جائے اس کے پیچھے ایک گاؤں ہوتا ہے، پس ماندگی کی تاریخ ایک ہوتی ہے، ایک عورت ہوتی ہے، ایک مرد ہوتا ہے۔

    اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عورت اور مرد یکساں انسان ہیں، دونوں میں ایک جتنے 23 23 کروموسومز کے جوڑے ہیں۔ 22 جوڑے ایک جیسے صرف 23 واں جوڑا جو جنس کا تعین کرتا ہے مختلف ہوتا ہے، مرد کا ایکس وائی اور عورت کا ایکس ایکس۔ اور یہی وہ فرق ہے جس کی بدولت نسلِ انسانی کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن جنس کا تعین عورت اپنی مرضی یا خواہش سے نہیں کرتی۔ اس کے اختیار میں نہ لڑکا ہے نہ لڑکی نہ مڈل سیکس، یہ سب گمٹوں کا کھیل ہے اور ایکس وائی یعنی مرد کی کارستانی ہے۔ تیسری جنس ایکس ایکس وائی بھی ایکس وائی مرد کی مہربانی ہے۔ چلیے تیسری جنس کو گمٹی کے پیچیدہ نظام میں کسی گمٹے کی گڑ بڑ یا قدرت کی غلطی کہہ لیجیئے۔ جو بھی ہو، کربِ تخلیق جھیلنا اور ماقبل و مابعد پیدائش اس کا خمیازہ بھگتنا عورت کا مقدر ہے۔ عورت کو کم عقل کہنے والو! اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ انسان میں دماغ،ذہانت، آئی کیو، نروس سسٹم کو 21 نمبر کروموسوم کا جوڑا کنٹرول کرتا ہے جو مرد اور عورت کا ایک ہی ہے۔ اس میں ذرا بھی فرق نہیں۔ مزید براں اگر استعارے کی زبان میں بات کی جائے تو مرد کا وائی کروموسوم تو \”عقل سے خالی\” ہوتا ہے جبکہ عورت کا ایکس کروموسوم جینز سے بھرا ہوتا ہے۔ نیز عورت کو مرد پر ہارمونل برتری حاصل ہے۔ مرد کے ہارمونز پری کرسر سے ٹیسٹو سڑیران تک ختم ہو جاتے ہیں لیکن عورت میں ایک اضافی ہارمون ایسٹروجن بنتا ہے جو کئی اضافی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے۔ انسان علم حیاتیات و جینیات میں جتنی چاہے ترقی کر لے تخلیق کے عمل میں عورت کے بغیر نفسِ واحدہ،ایک خلیہ، ایک نخرِ مایہ اِدھر سے اُدھر نہیں کر سکتا۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہو، کلوننگ ہو یا سپر نیچرل کلوننگ، عورت کی کوکھ کا محتاج ہے۔ عورت انسانی عظمت، خوبصورتی اور تخلیقی اپج کی انتہا ہے۔ عورت عظیم ہے۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بیشک یہ تم عورتوں کا مکر ہے۔ بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے۔

    { قَالَ: فرمایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ زلیخا الٹا آپ پر الزام لگاتی ہے اور آپ کے لئے قید و سزا کی صورت پید ا کرتی ہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی براء ت کا اظہار اور حقیقت ِحال کابیان ضروری سمجھا اور فرمایا ’’یہ مجھ سے برے فعل کی طلب گار ہوئی تو میں نے اس سے انکار کیا اور میں بھاگا۔ عزیز نے کہا’’ اس بات پر کس طرح یقین کیا جائے؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ اس گھر میں ایک چار مہینے کا بچہ جھولے میں ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ عزیز نے کہا کہ’’ چار مہینے کا بچہ کیا جانے اور کیسے بولے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو گویائی دینے اور اس سے میری بے گناہی کی شہادت ادا کرا دینے پر قادر ہے۔ عزیز نے اس بچہ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ بچہ بولنے لگا اور اس نے کہا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں۔ یعنی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔(1)

    تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان:

    اس واقعے سے سرکار ِدوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر تہمت لگی تو ان کی پاکیزگی کی گواہی بچے سے دلوائی گئی اگرچہ یہ بھی عظیم چیز ہے لیکن جب سیّدالمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا پر تہمت لگی تو چونکہ وہ معاملہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت کا بھی تھا اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی عِفت و عِصمت اور پاکیزگی کی گواہی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی۔

    دودھ پینے کی عمر میں کلام کرنے والے بچے:

    مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ چند شیر خوار بچوں نے کلام کیا ہے۔ (1) حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ گواہ ۔ (2) ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیدا ہوتے ہی حمدِ الٰہی کی۔ (3) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔(4)حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا۔

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    1…خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳/۱۵-۱۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۵۲۶-۵۲۷، ملتقطاً۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت!! بہت اعلی
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ تو لکھ دیتے ساتواں انسان صاحب
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    آج کل اتنے حساس موضوع زیر بحث ہیں کہ کچھ بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہیں کوئی فتوہ نہ آجائے
    ویسے کسی دوسری لڑی میں لکھا تھا کہ اس لڑی کا نام ماں عظیم ہے ہونا چاہیے ، کیونکہ صرف ماں کے کردار کو جو کہ بےشک عظیم ہے اس لڑی میں تحریر کرکے عورت کی عظمت بیان کی گئی ہے جبکہ بحیثیت عورت کے اور کئی کردار ہیں اور اگر ان کو شامل گفتگو کیا جائے تو شاید عظمت کا گراف کافی نیچے آجائے
    ( عورت کا ماں کا نہیں )
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کا سب سے دلکش روپ ''ماں'' کا ہے ماں کائنات کی مقدس ترین ہستی ہے
    لیکن عورت کے کئی روپ ہیں عورت ماں ہو یا بیٹی، بیوی ہو یا بہن، ہر وقت عظیم ہے۔
    اسلام نے عورت کو عظیم حیثیت عطا فرمائی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کا اپنا مقام بالکل بھی حاصل نہ تھا مگر اسلام نے آکر اسی عورت کو اس کا حقیقی مقام عطا فرمایا

    عورت بیوی ہو تو بھی عظیم ہے۔ میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں بیوی گھر کی سربراہ ہوتی ہے۔ بچے کی تربیت کا تمام تر دارومدار ماں پر ہوتا ہے۔ عظیم بیوی تو ہے جو اپنے شوھر کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور ہر وقت اس کی فرمانبرداری کرے۔

    عورت بہن ہو تو اس کے مرتبے میں گویا چار چاند لگ جاتے ہیں۔ عورت بیٹی ہو تو گویا پورے خاندان کا ارمان ہوتی ہے۔ اس کی پرورش بڑی ناز برداریوں سے ہوتی ہے اس کی نزاکت کی اس کی تربیت میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کی ناراضگی پر تمام بھائی اور والدین پریشان ہو جاتے ہیں۔ اسے ابتدا سے ہی مہمان کی طرح رکھا جاتا ہے۔ اس کو راحت کا ہر سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

    @ساتواں انسان صاحب اب میں آپ کے بات کی طرف آتی ہوں کہ عورت کی عزت اس کے ہاتھ میں ہے۔ عورت کی چاہے کوئی بھی روپ ہو وہ قابل احترام اسی وقت ہوتی ہے جب وہ شرعی ہدف کے مطابق اپنی زندگی گزارے مگر جب وہ حیا کی چادر اتار کر مردوں کے مقابل آتی ہے تو اسے اس کا مقام نہیں دیا جاتا۔ اس لیے کہ ہر شے اپنے محل پر اچھی لگتی ہے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اگر اسلام سے پہلے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا تو پھر اس دور کے لوگوں کو شادیوں کے لئے چار چار پانچ پانچ عورتیں کہاں سے مل جاتی تھیں اور بونس کے طور پر لونڈیاں کہاں سے حاصل کرتے تھے؟ ذرا اس بات کا جواب دیجیے۔۔۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ایسا بعض قبیلوں میں ہوتا تھا
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ساتواں انسان بھائی نے اوپر جواب دے دیا ہے۔ بعض قبیلوں اور بعض طبقات بالخصوص مفلس و نادار طبقات میں یہ روایت زیادہ تھی۔ متمول اور اعلی قبیلے اور اسی طرح جنگجو قبیلے کے لوگ اپنی نسل بڑھانے کےلیے عورتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ بعض قبائل میں عورت کاروباری جنس بھی تھی یعنی اسے بطور لونڈی، کنیز بیچا جاتا تھا سو وہاں بھی عورت کو زندہ رکھا جاتا تھا۔
    الغرض عورت چاہے بچپن میں زندہ درگور ہو یا بڑی ہوکر لونڈی بنے، وہ اپنے مقام و مرتبے اور عزت و حرمت سے محروم تھی۔ ایسے معاشرے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو اس بلند مقام پر پہنچایا کہ بطور ماں اسکے قدموں تلے جنت رکھ دی، بطور شریک حیات اسے دنیا کی بہترین نعمت قرار دے دیا، بطور بہن و بیٹی نہ صرف باپ کی جائیداد میں حقدار و حصے دار بنایا بلکہ بیٹی کی تعظیم اس قدر فرمائی کہ کائنات کے آقا و مولا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹی کی آمد پر اسکے استقبال کو کھڑے ہوجاتے اور اپنی خاص نشست پر بیٹی کو بٹھاتے۔
    بدقسمتی سے آج کے مسلم معاشروں میں مردوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرکے، عورت کو "اسلام کے فراہم کردہ" تمام حقوق نہیں دیے۔ بلکہ اپنی پسند کے چیدہ چیدہ حقوق دے دیے۔ اور بقیہ معاملات میں عورت کو اپنی اپنی قبائیلی، نسلی، علاقائی روایات کی زنجیروں میں ہی باندھ رکھا ہے۔
     
    Last edited: ‏9 مئی 2018
  12. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب والا
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں