1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے .... طارق حبیب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏1 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے .... طارق حبیب

    پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کسی بھی جرم کی سزا قانون کی کتاب میں موجود ہونے کے باوجود نئے قوانین بنا دیے جاتے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے انسدادِ کرپشن کے نام سے نیا ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر اس ڈھانچے کی کرپشن پکڑنے کے لیے الگ سیل بنائے جاتے ہیں؛ تاہم سوچنا چاہئے کہ جہاں جرم روکنے کے لیے قانون پر قانون اور کرپشن روکنے کے لیے ایک ادارے پر دوسرا ادارہ اور پھر اس کی کرپشن روکنے کے لیے تیسرا ادارہ قائم کیا جاتا ہو‘ وہاں مثبت تبدیلی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ ان قوانین کی پرتیں کھولنے بیٹھیں تو پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک کے نیچے دوسری تہہ ملتی چلی جائے گی ‘ مگر نجانے اربابِ اختیار کو کب یہ بات سمجھ آئے گی کہ کسی بھی ریاست میں جرائم کے خاتمے کے لیے صرف قوانین کی موجودگی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ان قوانین کی عملداری اہم ہوتی ہے۔ اگر سزا کا تصور ہی نہیں ہو گا تو قانون کی کتاب بس لائبریریوں میں سجانے کے کام ہی آئے گی۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کسی قتل کے مقدمے میں پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا جائے تو پولیس کی جانب سے اس کیس کی فائل بند کرکے داخلِ دفتر کر دی جاتی ہے‘ یعنی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مقتول خود ہی موت کے منہ میں چلا گیا یا اس کے قاتل کو زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا۔
    قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
    مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
    اگر ایسے کیسوں کی تفصیلات کی کھوج لگائی جائے تو بقول ماہرین قانون یہ حیران کن صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ 90 فیصد ایسے مقدمات ہیں جن میں عدالتوں نے کمزور استغاثہ کی وجہ سے پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے ملزمان کو بے گناہ قرار دیا۔ پھر ان کیسوں پر دوبارہ کام نہیں کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مقتول ایسے ہیں جن کے قاتلوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہزاروں قاتل جرم کرنے کے بعد بھی آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسی اندھیر نگری ہے کہ ایک پولیس اہلکار کو ٹریفک سگنل پر گاڑی سے اڑا دیا جاتا ہے، سی سی ٹی وی کیمروں میں اس قتل کی وڈیو بنتی ہے‘ قاتل بھی واضح ہے اور مقتول بھی‘ مگر پھر بھی قاتل آزاد ہو جاتا ہے۔ دن دہاڑے‘ کھلے عام روڈ پر ایک فیملی کو بچوں سمیت اُڑا دیا جاتا ہے‘ یہ واقعہ سانحہ ساہیوال کے نام سے میڈیا پر جگہ پاتا ہے مگر اس کے مجرم ہزار ہا واضح جھوٹ بولنے کے باوجود بھی رہائی پا لیتے ہیں۔ ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں المناک داستانیں ہیں جو ملک میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ اب ایسے قاتلوں کے لیے مزید جتنے مرضی قوانین بنالیے جائیں‘ اگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوگا‘ قانون غریب امیر‘ عام شہری و بااثر شخصیت کے لیے برابر نہیں ہوگا تو نت نئے قوانین بنانا ایک سیاسی ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک قانون کا شکنجہ بلا تفریق مجرموں کی گردن نہیں جکڑے گا‘ یہ جنگل کا راج یونہی قائم رہے گا۔ لاشیں موجود ہوں گی مگر قاتل نہیں پکڑے جائیں گے۔
    دیکھو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں
    ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
    سانحہ گجرپورہ پر نظر ڈال لیں تو مجرمان کو گرفتار کرنے والوں کی کارکردگی کا پول کھل جائے گا۔ ایک ایسا سانحہ جو ملک گیر ردعمل کا باعث بنا‘ اس میں پولیس کی کل کارکردگی یہ تھی کہ مرکزی ملزم لاہور کے نواحی شہروں میں آتا جاتا رہا مگر پولیس اس کو گرفتار نہ کر سکی۔ مجرم کا جب دل چاہا اس نے اپنی مرضی سے اپنے باپ کے کہنے پر گرفتاری دی اور پولیس افسران اپنے ماتحتوں کے ذریعے یہ خبریں چلواتے رہے کہ ہمارے افسروں کی دن رات کی اَن تھک محنت سے مجرم گرفتار ہوا‘ مگر پھر مجرم کے باپ نے سب کی ''اَن تھک محنت‘‘ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اب ہائی پروفائل کیس کے حوالے سے ہمارے قانون کے رکھوالوں کی یہ کارکردگی تھی تو عام شہری کے حوالے سے کیا ہوگی‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
    ایسا کوئی سانحہ جب بھی ہوتا ہے تو ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے کہ ایسے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے۔ سانحہ گجرپورہ کے بعد اس بحث میں تیزی آئی اور اب گزشتہ روز اخبار کی شہ سرخیاں تھیں کہ کابینہ نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ کی منظور کردہ سفارشات کو اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020ء اور تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس 2020ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت مجرموں کو 10 سے 25 سال قید کی سزا‘ تاحکم قید‘ موت کی سزا کے ساتھ ساتھ نامرد بنانے کی سزا بھی دی جائے گی۔ میں یہ سمجھنے سے یکسر قاصر ہوں کہ سزائے موت سے زیادہ سخت سزا کون سی ہو سکتی ہے؟ میرا خیال میں تو کوئی نہیں اور یہ سزا تو پہلے سے موجود ہے‘ علامتی طور پر یا عوامی دبائو پر‘ چند درندوں کو دی بھی گئی‘ جیسے قصور کی بچیوں سے زیادتی کے مجرم کو۔ پھر اب سخت سزائوں سے کیا مراد ہے؟ جنسی زیادتی کے مجرم کو نامرد بنانے کی سزا اگرچہ پہلی بار شامل کی گئی ہے؛ تاہم حکومت اسے سخت سزا کہہ رہی ہے تو اس کے حوالے سے بھی مختلف آراموجود ہیں۔ اس سزا کے بعد ایسا مجرم کیا ردعمل دے گا؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے جس کے جواب میں ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اگر کسی مجرم کو نامرد بنا کر آزاد چھوڑ دیا گیا تو سماج کے لیے وہ ایک ''اَن گائیڈڈ میزائل‘‘ ثابت ہو سکتا ہے جو اپنی مایوسی کا بدلہ مختلف بھیانک جرائم کی صورت میں عوام سے لے سکتا ہے اور اگر اسے نامرد کر کے قید رکھا گیا تو یہ ایک جرم پر دو سزائیں دینے کے مترادف ہو گا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔
    درپیش مسائل کا حل قوانین متعارف کرانے کی ریس میں شامل ہونا نہیں بلکہ موجود قوانین پر عمل درآمد کروانا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جرائم میں اضافہ قوانین کی دھجیاں اڑانے سے ہوتا ہے۔ گزشتہ چھ سالوں میں 22 ہزار 37 زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے جو سماجی دبائو کے باعث ہونے والے زیادتی کے واقعات کا نصف بتائے جاتے ہیں۔ ان مقدمات میں صرف 77 مجرمان کو سزائیں ہوئیں جو تقریباً 0.34 فیصد اوسط بنتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ہماری آنکھیں کھولنے اور یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ اصل مسئلہ نئے قوانین بنانا نہیں بلکہ قوانین پر عمل درآمد کر کے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ اب جو نظام اپنے عوام کو سرخ لائٹ پررُکنا نہ سکھا سکے وہ نئے ہوں یا پرانے‘ قوانین پر کیا عمل درآمد کرائے گا؟ اگر قانون کی عمل داری نہیں ہوتی تو پھر نئے قوانین بنانا محض شعبدہ بازی ہی قرار پائے گا۔
    وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
    عوام تھکنے لگے ہیں تالیاں بجاتے ہوئے
    ہمارے اربابِ اختیار کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سستا اور فوری انصاف کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ ریاست اور فرد کے درمیان جو معاہدہ طے پاتا ہے‘ جسے عمرانی معاہدہ بھی کہا جاتا ہے‘ اس کا بنیادی جز بھی فرد کے جان و مال کا تحفظ اور اسے فوری سستے انصاف کی فراہمی ہے۔ اگر حاکمانِ وقت اپنی یہ بنیادی ذمہ داری ہی ادا نہیں کر پاتے تو پھر ان کا مسندِ اقتدار پر براجمان رہنا عوام کے ساتھ ساتھ ریاست کے مفاد میں بھی نہیں۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں