1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علی گڑھ کے ایک گمنام پٹھان شاعر

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏15 جون 2015۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    جوش ملیح آبادی کی آپ بیتی "یادوں کی برات" سے ایک انتخاب

    وہ اپنے مکان کے چبوترے پر ڈُھکّی لگائے بیٹھے رہتے تھے کہ کوئی شاعر ادھر سے گزرے اور وہ اس کو اپنا کلام سنائیں۔ اور جب کوئی شاعر ان کے ہتے چڑھ جاتا تھا وہ اس کو اپنے کمرے میں لے آتے، بڑی مدارت کرتے اور اپنا کلام سنانے لگتے تھے

    یہاں تک تو کوئی عجیب بات نہیں تھی، ہزاروں شاعروں کو ہَوکا ہوتا ہے اپنا کلام سنانے کا مگر ان میں یہ عجیب بات تھی جب وہ کسی شاعر کو پھانس کر اپنے کمرت میں کے آتے تھے تو ان کا سُدھا ہوا ملازم تینوں تینوں دروازوں میں باہر سے زنجیر لگا دیا کرتا تھا کہ پھنسا ہوا شاعر بھاگ نہ سکے۔ جب باہر سے دروازے بند ہوجاتے تھے تو وہ الماری کھول کر اپنا دیوان نکال لاتے اور غزلیں سنانا شروع کردیا کرتے تھے اور سننے والا جب ان کو داد دیتا تھا تو ہر داد پر، بڑے تحکمانہ انداز سے وہ حکم دیتے تھےکھڑے ہوجائیے اور جب وہ حیرت زدہ ہوکر کھڑا ہوجاتا تھا تو اس کو اس طرح بھینچ کر گلے لگاتے تھے کہ ان کی پسلیاں بولنے لگتی تھیں۔

    ذرا تصور کی آنکھوں سے یہ سماں دیکھیئے کہ گمنام پٹھان شاعر صاحب، اپنا کلام سنارہے ہیں اور سننے والا واہ، واہ، سبحان اللہ کہہ رہا ہے اور اس بیچارے داد دینے والے کو بار بار یہ حکم دیا جارہا ہے "کھڑے ہوجائیے، کھڑے ہوجائیے" اور جب وہ تکھا ماندہ کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کو بڑے زور سے گلے لگایا جارہا ہے۔ العظمۃ للہ، کوئی حد بھی اس عذابِ مسلسل کی۔

    اور ایک صاحب نے تو یہاں تک بیان کیا تھا کہ جب بار بار کڑھے ہونے اور ہر بار گلے ملنے سے تھک کر انھوں نے یہ کہا کہ اب مجھ میں بار بار کھڑے ہانے کا دم باقی نہیں رہا ہے تو ان پٹھان شاعر صاحب نے اپنے تنبیہہ الغافلین ڈنڈے کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا: اٹھیئے، نہیں تو اس سے آپ کا سر توڑ دوں گا۔
     
    ساجد حنیف اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں