1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علی رستم کی شاعری

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از علی رستم, ‏7 ستمبر 2011۔

  1. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    نظم
    تِتلیوں کا بِھی ذِکر کرتا میں
    اور جُگنُو کی بات بھی کرتا
    میں بتاتا کہ آسماں سے اُتر کر یہ چاند
    مؤج در مؤج سمندر میں بھٹکتا کیوں ہے؟
    پھول کھِلنے کی وجہ بھی میں بتاتا سب کو
    جو کبھی صُبح کبھی شام ڈھلے
    خامشی کا جمُود توڑتی ہے
    زندگِی کا یقیں دِلاتی ہے
    اُسی کوئل کی کہانی کہتا
    مگر میں کیا کروں ؟
    مگر میں کیا کروں،تیرے شہر کے لوگوں میں
    کوئی اِن چیزوں‌سے واقِف ہی نہیں !
     
    طاہرہ مسعود نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    غزل

    خوشبُو ہوا دِیا اُسے اچھّا نہیں لگتا
    دھاگا کوئی کچّا اُسے اچھّا نہیں لگتا
    کل تک اُسے اچھّی نہیں لگتی تھی کوئی چھت
    اب ابر کا سایہ اُسے اچھّا نہیں لگتا
    وہ شخص کبھی لؤٹنا نہیں جَسے، اُس کا
    دیکھیں سدا رستہ ، اُسے اچھّا نہیں لگتا
    ہم جِس کو کوئی نام کبھی دے نہیں سکتے
    ایسا کوئی رِشتہ اُسے اچھّا نہیں لگتا
    پہلے سے مراسم نہ سہی پر کوئی رُستم
    [blink]مُجھ کو کہے بُرا اُسے اچھّا نہیں لگتا[/blink]
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    بہت خوب ۔۔۔۔
     
  4. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    مُجھے بس اِتنا کہنا ہے !


    کبھی بھی زِندگی میں تُم
    کِسی ٹِہنی پہ اپنے سنگ
    میرا نام نہ لِکھنا
    کہ جِن شاخوں پہ کوئی
    بے دِلی سے نام لِکھتا ہے
    وہ اکژ سُوکھ جاتی ہیں
    وہ اکژ ٹُوٹ جاتی ہیں
    مُجھے بس اِتنا کہنا ہے !


    جناب واصَف حُسین کے نام
     
  5. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    رُستم جی بُہت اچھی ؛ آمد ؛ہے آپ کی اور کلام بھی ماشاء اللہ بُہت خُوبصُورت ہے
    ذرا جلدی آنے کی کوشش کیا کریں​
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    بہت زبردست۔۔ مگر جو میں نے لکھا تھا وہ بےدلی سے نہیں لکھا تھا کہ اس کے سوا کچھ لکھنے کا حوصلہ ہی نہ تھا۔۔
    آپ کی آمد کا شکریہ اور مجھے یقین ہے کہ شاعری کے سکشن میں اب بہار آ جائے گی کہ اس سے پہلے تو ہم دو چار دوست صرف تک بندی یا دوسروں کا کلام ہی شئیر کر رہے تھے۔
     
  7. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    گُڑیاں اور خوشیاں

    تھیں‌دِسمبر کی ٹھِٹھرتی صُبحیں
    میرے کالج کے گیٹ پر اِک دِن
    ایک بچّی نے آ کے مُجھ سے کہا
    تُجھ سے اللہ کے نام پر بھیّا
    اِک روپے کا سوال ہے میرا
    میں نے اُس سے کہا کہ اے ناداں
    اِس قدر ٹھِٹھرتے ہُوئے دِن میں
    تُم نے جُوتا بھی نہیں پہنا ہے
    نہ کوئی شال نہ چادر نہ سکارف
    ڈھنگ کا کپڑا بھی نہیں پہنا ہے
    مُجھ سے بولی بھیّا یقِیں جانو
    کل سے کھانا بھی نہیں کھایا ہے
    مُجھ سے بولی کہ بھیّا مُجھ کو بتا
    ہو گئی مُجھ سے ایسی کیسی خطاء
    مُجھ سے رُوٹھا ہے کیوں میرا مؤلا
    جب سے دُنیا میں آنکھ کھولی ہے
    اپنی کُٹیا میں بھُوک دیکھی ہے
    آپ سے کُچھ گِلہ نہیں بھیّا
    اپنا خالِق ہی ہم سے رُوٹھ گیا
    کر کے پیدا ہمیں وہ بھُول گیا
    میں نے اُس سے کہا نہیں ناداں
    تیرا خالِق رحیم ہے گُڑیا
    وہ بڑا ہی کریم ہے گُڑیا
    وہ تو ہر روز آسما نوں سے
    تیری گُڑیاں اُتارا کرتا ہے
    تیری خُوشیاں اُتارا کرتا ہے
    پر یہ دُنیا کے بانٹنے والے
    تیرے حِصّے کی ساری خُوشیوں کو
    اپنے بچّوں میں بانٹ دیتے ہیں
    تیری خُوشیوں سے مُسکُراتا ہے
    تیری گُڑیوں سے کھیلتا ہے جہاں
    اُس کے چِہرے پہ اُس وقت مُجھ کو
    اِک عجب سی دھنک نظر آئی
    اُس کی حسرت بھری نِگاہوں میں
    رؤشنی کی چمک نظر آئی
    کُچھ لمحے سوچ کر وہ کہنے لگی
    اَس کا مطلب تو یہ ہُوا بھیّا
    کار میں کل جو بچّہ بیٹھا تھا
    اُس کے ہاتھوں میں بھالو میرا تھا
    ساتھ میں سیب بھی پڑے تھے کئی
    وہ بھی میرے تھے
    کیا یہی سچ ہے
    مُجھ سے بولی اگر ہے ایسا تو
    آپ سب لوگ مُسکُراتے رہیں
    دُکھ کو رستہ ہمارا یاد رہے
    دُکھ ہمارے گھروں میں آتے رہیں
    اپنے پیسے آپ اپنے پاس رکھّو
    اور یہ میرے چند روپئے لے لو
    یہ امیرِ شہر کے بچّوں کو
    جا کے میری طرف سے دے دینا
    تاکہ اِن سے خرید لیں گُڑیاں
    تاکہ اِن سے خرید لیں خُوشیاں
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    دل کو چھو لینے والی نظم ہے ۔۔۔۔ جتنی بھی تعریف کروں اسکا حق ادا نہیں ہو سکتا۔۔۔ بہت زبردست
     
  9. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    نظم

    اپنِی میّت پہ آنسُو بہا ئیں سبھی


    شہر سے دُور اِک کُٹیا آباد تھی
    کوئی ماں‌اُس میں‌تصوِیرِ فریاد تھِی
    بھُوکے بچّوں کو اپنے لپیٹے ہُوئے
    سوچتی تھِی بیچارَی وہ لیٹے ہُوئے
    دِن ہُوئے ہیں کہانی سُناتے ہُوئے
    اور چُولہے پہ پتھّر چڑہاتے ہُوئے
    پھِر اِنہیں کِس طرح آج بہلاؤں میں
    اپنی مجبُوریاں کیسے سمجھاؤں میں
    آج پھر وہ کہانی سُنانے لگی
    اشک آنچل میں اپنے چھُپانے لگی
    سب سے چھوٹا جو بیٹا تھا رونے لگا
    اور روتے ہُوئے ماں سے کہنے لگا
    بھُوک سے ماں میرا تو بُرا حال ہے
    سانس بھی لینا اب مُجھ کو مُحال ہے
    تُجھ پہ وقتِ قیامت گُزر جائے گا
    تیرا بچّہ اے ماں آج مر جائے گا
    اُس کی آنکھوں میں یارو نمی آ گئی
    اور آواز بھی دُکھ سے بھرّا گئی
    بولی بیٹے ابھی کھانا لاؤں گی میں
    اپنے ہاتھوں سے تُجھ کو کھِلاؤں گی میں
    وہ اُٹھی اور چلنے لگی چشمِ نم
    اُسی دِہلیز پہ اُس نے رکھّا قدم
    کانپتی ڈگمگاتی کہاں آ گئی
    آج پھِر ایک مجبُور ماں آگئی
    کوئی جانے نہ کِتنا ستائی ہُوئی
    کِس مُصیبت میں ہے کھِنچ کے آئی ہُوئی
    بھیڑیوں کی طرح دیکھتے تھے سبھی
    نظروں ہی نظروں میں تولتے تھے سبھی
    کوئی مجبُور بازار میں آگئی
    آج پھِر سر سے رِداء گئی
    واں‌سے لؤٹی کہ گھر جلدی جائے گی وہ
    اپنے بچّوں‌کو کھانا کھِلائے گی وہ
    جانے کیا سوچ کے خُود بھی چکرا گئی
    سڑک کے بِیچ گاڑی سے ٹکرا گئی
    جِسم بے جاں پڑا کوئی راہ میں تھا
    بھُوکے بچّوں کا منظر نِگاہ میں تھا
    اور دِل میں دبی کوئی فریاد تھی
    لب پہ بس آخری یہی آواز تھی
    بھُوک بچّو تُمہاری مِٹا نہ سکی
    معاف کرنا کہ ماں کھانا لا نہ سکی
    کِس کو کیا اِس سے یارو کہ کیا ہو گیا
    کوئی گھر کِس طرح سے تباہ ہو گیا
    یاں تو اپنی لگی کو بُجھائیں سبھی
    اپنی میّت پہ آنسُو بہائیں سبھی
     
  10. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    زمیں پہ زمیں‌کو ہی جنت بنا لیں


    ستاروں بھرا دیکھا جب آسماں
    مُجھے لے گئی یاد میری کہاں
    وہ کچّی سی گلیاں وہ کچّے مکاًں
    مُحبّت کا وہ پیار کا گُلستاں
    وہ گاؤں کی بُڑہیا وہ بچّوں کی ماں
    سمیٹے ہوئے چاہتوں کا جہاں
    وہ اِک کی شَکایت وہ اِک کا بیاں
    سُنے جیسے سُنتے ہیں جج صاحِباں
    مگر فیصلہ جب سُناتی تھی وہ
    ہمیں دیکھ کے مُسکُراتی تھی وہ
    وہ بالوں میں چاندی وہ چِہرے کی جھُریاں
    کہانی وہ شہزادے دیؤ اور پریاں
    نہ جانے وہ پریاں گئی ہیں کہاں
    کہاں کھو گیا اُن کااب کارواں
    بُہت یاد آئے وہ گُزرا زمانہ
    وہ گاؤں کی گلیوں میں ہنسنا ہنسانا
    فصل لہلہاتے وہ دریا کِنارے
    سبھی لوگ سادہ مُحبّت کے مارے
    وہ کوئل کی کُو کُو مُرغ کی اذاں
    وہ چاروں‌طرف بیل کی گھنٹیاں
    وہ بچّے وہ بُوڑھے وہ سبھ نؤجواں
    یُوں لگتے تھے اِک کُنبہ اِک خانداں
    سرِ شام کھیتوں سے آتے تھے وہ
    چوپالوں میں محفِل جماتے تھے وہ
    خُوشی ایک کی سبھ کو بھاتی تھی یارو
    غمی اِک کی ہر دِل دُکھاتی تھی یارو
    وہ سچّی ہنسی ہنسنے والے تھے یارو
    وہ دِل سے سبھی چاہنے والے تھے یارو
    یہ جِس دِن سے دؤلت برسنے لگی
    مُحبّت کو دُنیا ترسنے لگی
    خلُوص اِس جہاں سے گیا زارزار
    پڑی چار سُو نفرتوں کی بوچھاڑ
    میرے ساتھیو تُم کہاں کھو گئے ہو
    کیا تھے مگر کیا سے کیا ہو گئے ہو
    ہمیں پھِر وہ بُڑہیا بُلاتی ہے یارو
    مُجھے اُس کی آواز آتی ہے یارو
    وہ ویران آنکھیں لیے پھِر رہی ہے
    وہ چند ٹُوٹی سانسیں لیے پھِر رہی ہے
    وہ لگتی ہے تھوڑی سی ناشاد ہم سے
    مگر وہ نہیں اِتنی ناراض ہم سے
    ہمیں دیکھ کے بازو پھیلائے گی وہ
    اور ہم سب کو سینے سے لِپٹائے گی وہ
    گر آنکھوں میں آنسُو نہ آئیں تو کہنا
    جو سارے زخم بھر نہ جائیں تو کہنا
    چلو مِل کے رُستم اُسے ہم منا لیں
    زمیں پہ زمیں کو ہی جنّت بنا لیں
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    رستم جی بہت اعلی۔۔۔۔۔
    :mashallah::mashallah::mashallah:
     
  12. شاہ جی
    آف لائن

    شاہ جی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2011
    پیغامات:
    146
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    بہت خوب محترم اللہ آپکو اوراحساس محبت دے
     
  13. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    غزل


    محبت کی حدوں سے دور جانا چاہتا ہے دل
    کسی اندھیر نگری میں ٹھکانہ چاہتا ہے دل
    دھڑکنے سے کبھی باغی،کبھی بے دل دھڑکتا ہے
    دھڑکنے سے مکرنے کا بہانہ چاہتا ہے دل
    تیرا ملنا بھی جیون کا سنہری دور تھا لیکن
    ذرا اس سے بھی پہلے کا زمانہ چاہتا ہے دل
    یہ کیسا عشق ہے چند آنسووں ،آہوں کے بدلے میں
    میری ہر سانس پہ ہی حق جتانا چاہتا ہے دل
    بھلے رُستم ؔ علی مُجھ کو زمانہ بے وفاء کہہ دے
    پر اب رونے پہ تیرے مسکرانا چاہتا ہے دل
     
  14. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    غزل


    گھر نہیں بھولتا تو گھر سے نکلتا کیوں ہے
    دو قدم پر ہی جو تھکنا ہے تو چلتا کیوں ہے
    بے خبر آس دلادیتا ہے جینے کی ہمیں
    جس کو ڈھلنا ہو وہ اس قدر چمکتا کیوں ہے
    میری گستاخ نگاہی کا گلہ ٹھیک مگر
    چاند نکلے تو سمندر بھی اچھلتا کیوں ہے
    لوگ اندھیر بھی کر جاتے ہیں من کی نگری
    اور پھر دل سے بھی کہتے ہیں کہ جلتا کیوں ہے
    ہم نے رستمؔ جہاں گنوا کے بھید پایا ہے
    ہم سے پوچھو کہ کوئی راہ بدلتا کیوں ہے
     
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: علی رستم کی شاعری

    رستم علی جی۔ جب بھی لکھتے ہیں خوب لکھتے ہیں۔
    خوش رہیں، بہت جئیں
     
  16. علی رستم
    آف لائن

    علی رستم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جولائی 2011
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں