1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علامات رضائے رب جلیل ہے،محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از اقبال ابن اقبال, ‏1 جنوری 2013۔

  1. اقبال ابن اقبال
    آف لائن

    اقبال ابن اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏31 دسمبر 2012
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ4

    بسم اللہ الرحمٰن الرحمٰن الرحیم
    الصلوٰۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اقدس ہے،کہ
    ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیمَانِ أَنْ یَکُونَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا وَأَنْ یُحِبَّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہُ إِلَّا لِلَّہِ وَأَنْ یَکْرَہَ أَنْ یَعُودَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ: یہ تین باتیں جس کسی میں ہونگیں، وہ ایمان کی مٹھاس (مزہ) پائے گا، (۱)اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور(۲) جس کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ ہی کے لئے کرے اور (۳)کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو۔
    (رقم ا لحدیث15 ۔باب حلاوۃالایمان ۔جزء1۔صفحہ26۔مکتبۃالشاملۃ)
    مذکورہ احادیث کریمہ میں مومنین کو ایمان کی حلاوت و لذت کے بارے میں آگاہ کیا جارہاہے کہ ایمان لانے کے بعد ایمان کی حلاوت پانابھی اہم قرار دیا جارہاہے محض یہ نہیں کہ کہدیاکہ ہم ایمان لائے بلکہ ایمان کی حلاوت کے لئے جب وہ آزمائش کے مرحلے میں ہو، تو کفرپر نہ لوٹ جائے ،بلکہ آزمائش میں صبر کرتے ہوئے ثابت قدم رہے اور کفر پر لوٹنے کو ایسا جانے جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کرے اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دنیا ومافیہا کی تمام محبتوں پر فوقیت دے، اس جگہ پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے،چنانچہ
    ارشاد باری تعالیٰ ہے،کہ
    قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ:یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں،کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کُنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
    (سورۃ التوبۃ۔آیت نمبر24)
    مذکورہ آیت بالا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے،کہ اللہ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں لڑنے سے زیادہ اگر کوئی اور محبوب ہو تو راستہ دیکھو حتیٰ کہ اللہ اپنا حکم لائے۔
    اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ یہ بیان فرمادیاکہ اس انسان کی جتنی بھی رشتہ داریاں ہیں یا اس کی محبت کے جتنے بھی زاویئے ہیں ان سب کو سمیٹ کر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا جھنڈا بلند ہونا چاہئے ،
    اگرایک طرف اس کی محبت اپنے باپ،بیٹے، زوجہ، اپنے کمائے ہوئے مال یا اپنی کوٹھی اپنے بنگلہ کے ساتھ ہواور دوسری طرف اس کی محبت اللہ تعالیٰ و رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو،توایسی صورت میں جب یہ سب محبتیں آپس میں متعارض ہوجائے ،تو مومن وہی ہوگا ،کہ جو ان ساری (مادی) چیزوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو بلند کرے گا اور ان کی محبت کو باقی تمام ذوات کی محبتوں پر غالب کردے گا ۔
    نیزمذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تذکرہ فرماکے اس بات کو واضح کردیاہے،کہ ہروہ محبت جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابل آجائے ،(یعنی جو اللہ تعالیٰ ورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی راہ میں مانع بنے )اس کو ہر حال میں چھوڑدیاجائے
    امام ابوبکر احمدبن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،کہ
    أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم توضأ یوما فجعل أصحابہ یتمسحون بوضوۂ ، فقال لہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما یحملکم علی ہذا ؟... قالوا حب اللہ ورسولہ ، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من سرہ أن یحب اللہ ورسولہ ، أو یحبہ اللہ ورسولہ فلیصدق حدیثہ إذا حدث ، ولیؤد أمانتہ إذا ائتمن ، ولیحسن جوار من جاورہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوفرمارہے تھے ،صحابہ کرام علیہم الرضوان مستعمل پانی حاصل کررہے تھے اور اسے اپنے ماتھوں پر لگارہے تھے ،جب ان سے پوچھاگیا،کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟...کہ میں وضوکرتاہوں اور تم میرے وضو کے پانی کے لئے تڑپتے ہو اس کو حاصل کرتے ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟...توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یحب اللہ ورسولہ :یعنی یہ کام اللہ تعالیٰ کی محبت اور آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے کرتے ہیں۔
    (شعب الایمان للبیہقی ۔رقم الحدیث1502 ۔جزء4۔صفحہ61۔مکتبۃالشاملۃ)
    ملاحظہ فرمایاآپ نے،کہ وضو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں اور خالق کائنات تو اعضاء سے بھی پاک ہے،لیکن اس مستعمل پانی کے بارے میں گویاکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا نظریہ یہ تھا ،کہ ہم یہ عمل اس لئے کررہے ہیں ،کہ اس ماء مستعمل میں ہمیں نہ صرف خوشبوء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، بلکہ محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ، رضائے رب العلیٰ کا احساس ہوتا ہے ۔
    لہذا لب لباب یہ ہے،کہ کلام مذکورہ سے واضح ہوا،کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،علامت رضائے رب جلیل ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں