1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عقلمند بھینسا(پہلی قسط) ۔۔۔۔ نعمان خان

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏28 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عقلمند بھینسا(پہلی قسط) ۔۔۔۔ نعمان خان

    پیارے بچو!دور کسی علاقے میں ایک کسان رہتا تھا۔اس کے پاس ایک بھینسا تھا جس سے وہ کھیتی باڑی کرنے اور زمین پر ہل چلانے کے لیے مدد لیتا تھا۔یہ بھینسا نہایت ہی طاقتور اور اپنے مالک کا وفادار بھی تھا۔کئی سال یونہی گزر گئے تو ایک روز کسان نے محسوس کیا کہ اب اس کا بھینسا بوڑھا ہونے لگا ہے اور اس میں پہلے جیسی ہمت باقی نہیں رہی۔
    وہ تھوڑی دیر ہی ہل چلانے کے بعد ہانپنے لگتا تھا،اور کسان کو اپنے پیارے جانور کی اس حالت پر ترس آنے لگتا۔آخر ایک روز اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھینسے کو باقی کی زندگی صرف آرام کروائے گا۔اگلے دن ہی وہ باڑے میں آیا اور بھینسے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا’’میرے پیارے جانور!تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔اس کے لیے میں تمہارا بے حد مشکور بھی ہوں،لیکن اب مزید میں تم سے کوئی کام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اب تمہارے آرام کرنے کے دن ہیں۔اس لیے چاہتا ہوں کہ باقی زندگی تم گھوم پھر کر مستی کرتے ہوئے گزارو‘‘۔

    بھینسا گردن موڑ کر اپنے مالک کی جانب دیکھنے لگا تو کسان پھر گویا ہوا’’میرے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے تم جب چاہو یہاں واپس آ سکتے ہو،اور ایسا ہر گز مت سوچنا کہ تم اب میرے کام کے نہیں رہے اورمیں تم سے جان چھڑوا رہا ہوں،میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جو آج تک اس چھوٹے سے گائوں میں ہی رہے ہو تو اب باہر گھوم پھر کر دیکھ سکو کہ دنیا کتنی حسین ہے اور جنگلوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔ گھومنے کے بعد تم جب چاہو میرے پاس واپس آ سکتے ہو‘‘۔

    بھینسااپنے مالک سے بے حد محبت کرتا تھا اور تمام عمر اسی کے پاس رہنے کی وجہ سے اسے گائوں سے بھی لگائو ہو گیا تھا۔دل سے وہ خود بھی باہر کی دنیا دیکھنے کا سوچ کر خوش تھا لیکن اندر ہی اندر اُداسی بھی محسوس کر رہا تھا۔رات بھر وہ باڑے میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا،کیا جائے اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ کر سو گیا۔

    اگلے روز بھینسا اپنے مالک سے ملنے کے بعد گائوں سے باہر کی جانب چل پڑا۔اسے نئے راستوں پر چلنا اچھا لگ رہا تھا۔جہاں دل کرتا وہاں رک کر پانی پی لیتا۔جہاں بھوک محسوس کرتا وہاں کچھ کھانے کو ڈھونڈ لیتا۔اسی طرح چلتے چلتے وہ ایک گھنے جنگل میں جا پہنچا۔اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھینسا حیران رہ گیا۔جگہ جگہ تناور گھنے درخت تھے،جن کی چھائوں سخت گرم موسم میں بھی راحت دینے والی تھی۔ جھیل میں رُکا ہوا پانی بھی بے حدلذیذاور ٹھنڈا تھا ۔پورے جنگل میں ہر تھوڑے فاصلے پر رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔درختوں پر اتنی قسم کے پھل موجود تھے کہ بھینسا سوچنے لگا ایسے پھل چکھنا تو دور انہیں تو اس نے زندگی میں کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔

    ٹھنڈی فضاء سے لطف اندو ز ہوتا،پانی سے اپنی پیاس بجھاتا اور قدرت کی لذیذ نعمتیں کھاتا ہوا بھینسا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔دن بھر چلتے رہنے کی وجہ سے اب اسے تھکن محسوس ہونے لگی تھی اور ساتھ شام کے سائے بھی گہرے ہو رہے تھے۔بھینسے نے چاہے ساری زندگی گائوں میں گزاری تھی لیکن اس نے جنگل کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ جنگل دیکھنے میں جس قدر خوبصورت ہے یہاں اسی قدر خطرہ بھی ہوتا ہے۔جنگلوں میں خوفناک جانور جگہ جگہ گھات لگائے شکار کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں۔یہی سوچ کر بھینسا اب اپنے لیے کوئی محفوظ مقام تلاش کرر ہا تھا جہاں وہ پُر سکون ہو کر رات بسر کر سکے۔

    چلتے چلتے اُس کی نظر ایک غار پر پڑی جو خالی معلوم ہو رہا تھا۔بھینسے نے سوچا ابھی دن کی روشنی باقی ہے تو کیوں نہ غار کے اندر جا کر دیکھ لیا جائے کہ یہاں رہنا محفوظ ہے یا نہیں آہستگی سے چلتا ہوا بھینسا غار کے اندر جانے لگا ۔یہاں سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی تب اسے یقین ہونے لگا کہ غار کے اندر کوئی موجود نہیں ہے۔آگے بڑھتے ہوئے اس نے قدرے محفوظ کونہ ڈھونڈا ،تاکہ رات میں اگر کوئی جنگلی جانور غار میں داخل ہو بھی تو اس کی نظر بھینسے پر نہ پڑے۔(جاری ہے)
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عقلمند بھینسا (آخری قسط) ۔۔

    بھینسا اس بات سے بے خبر تھا کہ غار کا مالک کون ہے؟دراصل یہ غار جنگل کے بادشاہ ببرشیر کا تھا جو شکار کی تلاش میں جنگل کی طرف نکلا ہوا تھا۔
    جونہی وہ واپس آتا اور اس کی نظر موٹے ، تازے بھینسے پر پڑتی یقینا وہ اسے اپنا شکار بنا لیتا۔بھینسا د ن بھر کا تھکا ہوا تھا اس لیے جلد سونا چاہتا تھا۔اپنے لیے قدرے پُر سکون کونہ تلاش کر کے وہ آرام کرنے کی غرض سے لیٹا تو جلد ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔غار کے باہر موجود چالاک لومڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔وہ اسی جنگل کی رہنے والی تھی،اور جانتی تھی کہ یہ غار جنگل کے بادشاہ ببر شیر کا ہے لیکن جان بوجھ کر خاموش رہی۔وہ ببرشیر کے واپس لوٹنے پر بھینسے کی تکہ بوٹی ہوتی دیکھنا چاہتی تھی۔

    رات آدھی سے زیادہ بیت گئی تو ببرشیر غار کی طرف واپس لوٹا۔گھُپ اندھیرے میں وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا غار کی جانب بڑھ رہا تھا۔ابھی وہ غار سے چند قدموں کی دوری پر تھا کہ اس کے قدموں کی دھمک سے بھینسے کی آنکھ کھُل گئی۔کونے میں موجود ہونے کے باوجود اس نے خود کو ایک بڑے پتھر کی آڑ میں چھپا لیا اور نظر بچا کر دیکھنے لگا۔وہ محسوس کر سکتا تھا کہ کوئی غار کی جانب بڑھ رہا ہے،اور اس کے قدموں کی دھمک سے معلوم ہوتا تھا کہ یقینا یہ کوئی خونخوار جانو ر ہے۔اب جو بھینسے نے غور سے دیکھا تو یہ جان کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ غار میں ببر شیر داخل ہو رہا ہے۔بھینسا اب بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کے جسم میں اتنی طاقت باقی نہیں تھی کہ وہ ببرشیر کا مقابلہ کر سکے یا اپنی جان بچانے کے لیے دوڑ ہی پائے۔اس لیے اسے جلد ہی کوئی ایسی ترکیب سوچنی تھی جس سے وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو سکتا۔

    اچانک بھینسے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس سے پہلے کہ ببرشیر غار میں داخل ہوتا بھینسا اپنی آواز بدل کر بھار ی لہجے میں یوں بولنے لگا جیسے کسی سے باتیں کر رہا ہو۔پہلے وہ ایک آواز میں کوئی سوال پوچھتا اور دوسری آواز بدل کر جواب دیتا۔اپنی مستی میں چلتا ہوا ببر شیر غار سے آتی آوازیں سن کر ٹھٹھک گیا۔غار میں اندھیرا ہونے اور بڑے پتھر موجود ہونے کے سبب وہ غور سے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔جب کافی کوشش کے باوجود وہ کسی جانور یا انسان کو نہ دیکھ پایا تو حیرت زدہ ہوا کہ آخر یہ کس کی آوازیں آ رہی ہیں۔

    دوسری جانب بھینسا ایسی آواز میں باتیں کر رہا تھا جیسے ببرشیر کو یہ یقین دلا نے کی کوشش کر رہا ہو کہ غار میںد و بھوت موجود ہیں جو ببرشیر کے انتظار میں ہیں ا ور اس کے لوٹتے ہی ببرشیر کا تازہ گوشت کھا کر اپنی بھوک مٹائیں گے۔کچھ نظر نہ آنے کے سبب ببرشیر کو یقین ہو چلا تھا کہ غار میں کوئی بھوت گھس آئے ہیں اور اندر جانے پر یقینا اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔خوفزدہ ہو کر ببرشیر غار سے پیچھے ہٹنے لگا ۔لومڑی نے یہ منظر دیکھا تو وہ ساری بات سمجھ گئی۔وہ جانتی تھی کہ ضرور بھینسا ہی خوفناک آوازیں نکال کر اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔وہ دوڑتی ہوئی ببرشیر کے پاس پہنچی اور مؤدبانہ انداز میں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی’’میرے آقا آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔غار میں کوئی بھوت موجود نہیں ہے بلکہ ایک موٹا تازہ بھینسا آپ سے بچنے کے لیے ڈرامہ کر رہا ہے‘‘۔لومڑی کی بات سن کر ببرشیر غصیلے لہجے میں بولا’’بیوقوف لومڑی، بھلا تمہیں کیا معلوم اندر کون موجود ہے، کیا تم خود کو مجھ سے زیادہ سمجھدار مانتی ہو‘‘ ؟ ببرشیر کو غصے میں دیکھ کر لومڑی کانپنے لگی اور ایک بار پھر کوشش کرتے ہوئے بولی’’جنگل کے بادشاہ! میں نے خود بھینسے کو غار میں داخل ہوتے دیکھا ہے‘‘۔

    یہ سن کر ببرشیر کو مزید غصہ آیا اور وہ بولا’’تم بہت چالاک ہو،مجھے بہانے سے غار کے اندر بھیج کر خود جنگل کی رانی بننا چاہتی ہو۔تمہیں آج میں سبق سکھا کر ہی رہوں گا۔اتنا کہہ کر ببرشیر نے لومڑی کو گردن سے دبوچا اور ایک ہی لمحے میں اس کی گردن دبا دی۔لومڑی اپنی جان بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارتی رہی لیکن ناکام رہی ۔ لومڑی کا کام تمام کر کے ببرشیر رات بسر کرنے کی خاطر آگے بڑھ گیا ،اور یوں بھینسے نے اپنی عقلمندی سے جان بچا لی۔

    پیارے بچو!جسم سے بھی زیادہ بڑی طاقت ہمارے سر میں موجود دماغ ہے۔جسے استعمال کر کے ہم فتح حاصل کر سکتے ہیں،لیکن یہی دماغ اگر لومڑی کی طرح دوسروں کے نقصان کی خاطر استعمال کیا جائے تو نتیجہ بُرا بھی ہو سکتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں