1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد نبیل خان, ‏19 اکتوبر 2012۔

  1. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز

    علمائے حرمین شریفین کا خطاب علمائے دیوبند کے نام

    ائے علمائے کرام ! آپ حضرات پر چند لوگوں نے وہابی عقائد کا الزام عائد کیا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ کی بعض کتابوں کے حوالے دیئے ہیں اور ان پر ہم سے فتویٰ طلب کیا ہے ، ہم نے خالی الذہنی میں جواب دیدیا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دجل وفریب تھا ، چونکہ آپ کی کتابیں اردو زبان میں تھیں ، ہم حقیقت حال سے کما حقہ واقف نہ ہو سکے ، لہذا آپ حضرات سے یہ چند سوالات دریافت کرنا چاہتے ہیں واضح طور پر جواب دیں ۔

    سوال 2،1 : مدینہ طیبہ کی زیارت کرنے والا روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے سفر کرے یا مسجد نبوی شریف کی زیارت کی نیت سے سفر کرے؟ "شد رحال" کا کیا حکم ہے ؟ ( یعنی روضہ نبوی شریف کی زیارت کے لئے مستقل سفر کرنا )

    جواب : ہمارے اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کی زیارت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ، ثواب عظیم اور سعادت عظمیٰ کا ذریعہ ہے ، بلکہ زیا رت نبوی شریف کا حکم واجبات میں شمار کیا جاتا ہے کہ اس سفر میں مسجد نبوی شریف اور دیگر مقامات َ مقدسہ کی نیت شامل کر لے ۔
    علامہ ابن حمام ( حنفی فقیہ ) نے سب سے اچھا فیصلہ کیا ہے، لکھتے ہیں : بوقت سفر" روضہ اقدس " کی زیارت کی نیت کرے جب وہاں حاضر ہوگا تو خود بخود مسجد نبوی شریف کی بھی زیارت ہو جایئگی ( کیونکہ روضہ مبارکہ مسجد نبوی شریف میں ہے ) اس میں صورت میں حضور ﷺ کی تعظیم وتکریم زیادہ ہو گی ۔
    مزید ثبوت کیلئے " زُبدۃ المناسک " مؤلفہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ " احسن املقال " مؤلفہ مفتی صدر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیجئے ۔

    سوال 4،3: کیا حضور ﷺ کا توسل دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں ؟
    اسی طرح سلف صالحین ( صدیقین ، شہداء واولیاء اللہ ) سے توسل کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

    جواب : ہم اور ہمارے سارے شیوخ واکابر کے نزدیک اپنی دعاؤں میں انبیاء کرام واولیاء اللہ وشہدا وصدیقین کا تو سل جائز ہے ان کی حیات میں بھی اپنی دعاؤں میں اس طرح کہہ سکتا ہے ۔
    اے اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ آپسے دعا کی قبولیتوھاجت بر آری چاہتا ہوں یا اس جیسے دوسرے کلمات کہہ سکتا ہے ، خطاب صرف اور صرف اللہ ہی سے ہو گا ( مزید ثبوت کے لئے شاہ عبد الھق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ مطالعہ کیجئے ( فتاویٰ رشیدیہ ج 1 ص 93)
    اس سلسلے میں حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی " مناجات مقبول " کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
    صدقہ اپنی عزت واجلال کا صدقہ پیغمبر کا اُن کی آل کا
    اپنے پیغمبر کا صدقہ ائے خدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نام جن کا ہے محمد مصطفیٰ
    حضرت موسی کا صدقہ اے کریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہیں پیغمبر ترے اور ہیں کلیم
    اور سب اصحاب وآل مصطفےٰ کے واسطے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحم کر مجھ پر الٰہی اولیاء کے واسطے

    نوٹ : مذکورہ اشعار میں خطاب صرف اللہ تعالیٰ سے ہے

    سوال : 5 : حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ حضرات کا کیا عقیدہ ہے اور کیا آپ کی حیات ِ شریفہ عام مسلمانوں کی حیاتِ برزخی کی طرح ہے ؟

    جواب : ہم اور ہمارے سارے شیوخ واکابر کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں اپنے مبارک جسم کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ کی یہ زندگی عام مسلمانوں کی طرح صرف برزخی روحانی نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ وارفع زندگی ہے مزید ثبوت کے لئے "آب حیات " مؤلفہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ " المورد الفرسخی فی المولد البرزخی " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ " عالم برزخ " مؤلفہ قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند مطالعہ کیجئے ۔

    سوال6: مسجد نبوی شریف میں دعا کرنے والے کو بوقت دعا مواجہ شریف کی جانب رخ کر کے آپ کے وسیلے سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا کیسا ہے ؟

    جواب : اس مسئلہ میں حنفی فقہاء کی دو رائے ہیں ۔ لیکن ہم اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ مواجہ شریف کی جانب اپنا منہ کر کے کھڑا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے جناب باری تعالیٰ میں دعا کرے ۔
    یہ طریق اجابت دعا کے لئے زیادہ قریب ہے اسی پر ہمارااور ہمارے شیوخ واکابر کا عمل ہے ۔
    مزید ثبوت کے لئے " زُبدۃ المناسک ص 6 ، مؤلفہ رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیجئے ۔

    سوال 7:کثرت سے درود شریف پڑھنے اور دلال الخیرات ( درود شریف کی جامع کتاب ) ودیگر اوراد کے پڑھنے پڑھانے کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟

    جواب : ہم اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سےدرود شریف پڑھنا مستحب ہی نہیں بلکہ افضل المستحبات عمل ہے اور موجب رحمت وبرکات اور باعثِ خوشنودی الٰہی ہے ۔ خواہ دلائل الخیرات پڑھ کر ہو یا درود شریف کے دیگر رسائل کی تلاوت سے ہو لیکن افضل اور سب سے بہتر دروقد شریف ہے جس کے الفاظ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوں جیسے درود ابراہیمی وغیرہ ، اگر چہ غیر منقول درود شریف پڑھنا بھی ثواب سے خالی نہیں ۔ ہمارے مشائخ ِطریقت اور اساتذہ کرام " دلائل الخیرات " پڑھا کرتے تھےاور اپنے مریدوں کو اجازت بھی دیا کرتے تھے اور آج بھی اسی پر ہمارا عمل ہے ( آداب النبی ) مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا مطالعہ کیجئے ۔

    سوال8:کیا صوفیہ کرام کے اشغال واوراد اور ان سے بیعت ( پیری مریدی) آپ حضرات ے ہاں جائز ہے یا نہیں ؟
    اسی طرح اولیاء اللہ کے سینوں اور ان کی قبوں سے باطنی فیوض اور اہل طریقت کی رُوحانیت سے مریدوں کو نفع ملتا ہے یا نہیں ؟

    جواب: ہمارے نزدیک یہ بات پسندیدہ ہے کہ جب مسلمان عقائد ضروریہ کی درستی کرلے اور مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہو جائے تو کسی ایسے شیخ طریقت سے بیعت ہو جائے جو شریعت میں راسخ القدم ہو آخرت کا طالب ہو ، دنیا سے بے رغبت ہو ، اپنی اصلاحِ نفس کر چکا ہو ، اعمال ضروریہ کا خوگر ہو ( یعنی فرائض وواجبات طبیعت ثانیہ ہو چکی ہو ) گناہوں سے اجتناب کرتا ہو، خود بھی کامل ہو اور دوسروں کو بھی دین کا کامل بنانے کی اہلیت رکھتا ہو تو ایسے مُرشد کامل کو اپنا رہنما بنالے اور اس کی ہدایات وتعلیمات پر استقامت سے عمل شروع کر دے اور اس کے بتائے ہوئے ذکر وفکر سے اُس نسبت ( تعلق مع اللہ ) کو حاصل کرے جو نعمتِ عظمیٰ وغنیمت کبریٰ ہے اور جس کو احادیث صحیحہ میں لفظ " احسان " سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
    اور جس شخص کو ریاضت ومجاہدہ کے بعد یہ نعمت حاصل نہ ہو اُس کو مایوس نہ ہو نا چاہئے ایسے شخص کا بھی سلسلہ میں شامل رہنا ان شاء اللہ تعالیٰ فائدے سے خالی نہ ہوگا ۔
    بحمد للہ ہم اور ہمارے مشائخ واساتذہ ایسے مرشدین کاملین میں داخل ہیں اور خود بھی منصبِ ارشاد وتلقین کے حامل رہے ہیں ۔اور بحمد للہ آج بھی ہیں ، ہمارے خانقاہیں وشجرے وکتب تصوف مشہور ومعروف ہیں ؎
    اب رہا اہل طریقت کی رُوحانیت سے استفادہ اور ان کے قلوب سے باطنی فیوض کا حصول سو یہ بات درست ہے اور عملاً یہ طریقہ رائج ہے لیکن اس کے حاصل کر نے کا وہ طریقہ نہیں جو عوام میں رائج ہے بلکہ ہے جو خواص اہل دل میں پا یا جاتا ہے ۔
    ( واضح رہے کہ یہ مسئلہ تصوف سے ونیز ذواقِ وجدان سے متعلق ہے )
    تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں " التکشف فی مہمات التصوف " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی " امداد السلوک " مؤلفہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی " ارشاد ومرشد " مؤلفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی

    سوال9: کیا آپ حضرات کا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کوئی افضل ہے ۔

    جواب : ہم اور ہمارے سارے شیوخ واساتذہ کا عقیدہ اس مسئلے میں بالکل واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہیں ، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر اور برتر ہیں اور وہ قُربِ الٰہی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کوئی شخص برابر تو کیا اُس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید الاولین وآخرین ہیں ، نبوت ورسالت کے سرے کمالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ختم کر دیئے گئے ہیں ۔؎
    لایمکن الثناء کماکان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
    یعنی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی دین دین وایمان کا تقاضہ ہے اس کے خلاف بے دینی اور گمراہی ہے ۔
    بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوئی رحمۃ اللہ علیہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی شان وعظمت میں لکھتے ہیں۔
    تو فخرِ کون ومکاں زُبدہ زمین وزماں امیر لشکرِ پیغمبراں شہِ ابرار
    جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار
    اُمیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا شمار
    اُڑا کے باد مری مُشتِ خاک کو پسِ مرگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرے حضور کے روضہ کے آس پاس نثار
    ولے یہ رتبہ کہاں مشتِ خاک قاسم کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جائے کوچہ اطہر میں تری بن کے غُبار
    جو توہی ہمکو نہ پوچھے تو کون پو چھے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنے گا کون ہمارا ترے سواغمخوار


    نوٹ: سرکارِ دو عالم ص کی شان ومنقبت میں علمائے دیوبند وسہارن پور کی بے شمار نعتیں وقصائد ہیں اور اس سلسلے میں مستقل رسالے اور کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں ۔
    فجز اللہ عنا نبینا صلی اللہ علیہ وسلم بما ھو اھلہ

    سوال10: کیا آپ حضرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی ورسول کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں در احالانکہ حضور اکرم خاتم النبیین ہیں اور آنحصور کا ارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اس کے علاوہ ایسے شخص کے بارے میں آپ حضرات کا کیا خیال ہے جو امکانِ نبوت کو ظاہر کرتا ہو ؟

    جواب: ہم اور ہمارے مشائخ کرام کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین الآیۃ ۔ اور یہی بات احادیث سے ثابت ہے
    لہذ حاشا وکلا ہم میں سے کوئی اس کے خلاف کہے ( نعوذ با اللہ ) اور جو کوئی ختم نبوت کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں شمار کیا جاتا ہے ، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نا نوتوی( بانی دارالعلوم دیو بند) نے اپنے رسالہ " تحذیر الناس " میں نہایت واضح طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو ثابت کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے زمانہ کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں اور ذات کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں آپ ہی فرد اکمل ویگانہ اور دائرہ رسالت ونبوت کے مر کز بھی ہیں ۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ذاتاً بھی اور زماناً بھی ۔
    نوٹ: مسئلہ ختم نبوت پر جیسی ہمارے علماء نے علمی خدمات انجام دی ہیں اس کی نظیر شائد وبائد ہی کہیں اور طبقات میں ملے ۔ تحذیر الناس مؤلفہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ۔" ختم نبوت " مؤلفہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان ،یہ کتاب تین جلدوں میں ایسی مدلل ومکمل کتاب ہے جس نے قادیانیت پر قیامت ڈھادی

    سوال 11: کیا آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے ؟ اور کیا آپ حضرات میں سے کسی نے اپنی کتاب میں ایسا لکھا ہے ؟
    جواب: ہم اور ہمارے شیوخ میں سے کسی کا بھی ایسا عقیدہ نہیں ہے اور نہ کسی مسلمان کا ہو سکتا ہے ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی بھی ضعیف الایمان شخص ایسی خرافات اپنی زبان سے نکالتا ہو اور جو شخص ایسا خیال رکھتا ہو وہ حدود اسلام سے خارج ہو گیا ۔ ہماری اور ہمارے سارے بزرگوں کی کتابیں ایسے واہی تباہی عقیدےبیزار ہیں اور جو شخص ایسے واہیات وخرافات کا ہم پر یا ہمارے بزرگوں پر الزام لگاتا ہے وہ جھوٹا مفتری کذاب ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل البشر ہونا ایسا قطعی اور واضح عقیددہ ہے جس میں کسی مسلمان کو شک نہیں ( حاسدوں نے ہم پر الزام لگایا ہے جو بدترین جھوٹ ہے )۔

    سوال 12:کیا آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف احکام شرعیہ کا علم تھا ؟ یا آپ کو وہ علوم واسرار عطاء ہوئے تھے جو مخلوق میں کسی بھی نہیں دیئے گئے تھے ؟

    جواب: ہم اور ہمارے شیوخ واکابر قلب وزبان سے اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری مخلوق میں سب سے زیادہ علم والے ہیں آپ کے علوم ومعارف میں کوئی بھی آپ کے برابر نہیں نہ کوئی نبی مرسل نہ مقرب فرشتہ ۔آپ کو اولین وآخرین کا علم عطا کیا گیا مخلوق میں علمی خزائن آپ ہی کو دیئے گئے ، آپ پر اس بارے میں اللہ کا فضل عظیم ہوا ہے ۔

    سوال 13: کیا آپ حضرات کی یہ رائے ہےکہ شیطان ملعون کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذیادہ وسیع تر ہے ۔اور کیا آپ نے کسی مضمون یا کتاب میں یہ خبیث بات لکھی ہے ؟ اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا کیا حکم ہے ؟
    جواب : اس بارے میں ہم لکھ چکے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم ومعارف واسرار الٰہیہ علیٰ الاطلاق اللہ سبحانہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے زیادہ ہیں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں فلاں شخص آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ یا برابر علم والا ہے وہ کافر ہے ایسے شخص کے بارے میں ہمارے مشائخ نے کفر کا فتویٰ دیا ہے ۔
    بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ خبیث مضمون کیونکر آسکتا ہے ، ذرا غور فر مایئے ادنیٰ مسلمان کو شیطان مردود پر ہر طرح شرف وفضیلت حاصل ہے چہ جائیکہ نبی مرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت وبزرگی ؟چہ نسبت ال رَا با عالم پاک
    اس کی صراحت ایک نہیں ہمارے سینکڑوں علماء ومشائخ نے بارہا کی ہے اس کے باوجود ہم پر بہتان لگایا جاتا ہے ایسے لوگ یوم جزا سے بے خوف ہو گئے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو شیطان مردود کے علم سے تشبیہ دینا یا اس جیسا عنون بیان کرنا سراسر بے دینی وگستاخی ہے ۔ نعوذ با للہ منہ ۔
    مزید ثبوت کے براہیں قاطعہ "مؤلفہ حضرت مولانا محدث خلیل احمد صاحب اور " بسط البنان " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اسکے علاوہ کتاب " السحاب المدار : ص 48 ملاحظہ
    فر مایئے۔

    سوال 14: کیا آپ حضرات کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زید وبکر اور جانوروں کے علم جیسا ہے ؟ یا پھر اس خرافات سے آپ حضرات بری ہیں ؟ اور کیا مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنے رسالہ " حفظ الایمان " میں ایسا مضمون لکھا ہے ؟ اور جو یہ عقیدہ رکھے اس کا کیا حکم ہے ؟

    جواب : میں کہتا ہوں یہ بھی ان لوگوں کا افتراء وکذب ہے انہوں نے مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے معنیٰ کو بدلا اور اُن کی مُراد کے خلاف ظاہر کیا ۔ خود حضرت تھانوی نےا س عقیدے کی تردید تحریراً اور تقریراً کی ہے اور ایسے مضمون سے بیزارگی طاہر کی ہے لیکن یہ جھوٹے لوگ برابر یہی اَلاپتے رہے کہ تھانوی نے ایسا ہی لکھا ہے اور اس کا یہی مطلب ہے ۔نعوذ با اللہ منہ ۔
    خود مولانا تھانوی نے اپنی کتاب بسط البنان ص 45 پر صراحت کر دی ہے کہ میں نے یہ خبیث مضمون ( جو میری منسوب کیا گیا ہے ) کسی کتاب میں نہیں لکھا ہے اور لکھنا تو در کنار میرے قلب میں اس مضمون کا کبھی وسوسہ بھی نہیں گزرا ، جو شخص ایسا اعتقاد صراحۃً یا اشارۃً یہ بات کہے اس شخص کو خارج اسلام سمجھتا ہوں۔
    در اصل علامہ تھانوی نے اپنے مختصر رسالہ "حفظ الایمان " میں سوال کر نے والے کے تین سوالات کا جواب لکھا ہے جو اُن سے پو چھے گئے تھے ۔
    پہلا سوال : قبروں کو تعظیمی سجدہ کرنا کیسا ہے ؟
    دوسرا سوال :مزارات کا طواف کرنا کیسا ہے ؟
    تیسرا سوال : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا درست ہے یا نہیں ؟
    مولانا تھانوی نے عالم الغیب کے بارے میں جواب دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ قرآن وحدیث میں لفظ غیب کا استعمال ایسے علم کے لئے آیا جو ذاتی ہویعنی بغیر کسی ذریعہ وسیلہ کے حاصل ہو ۔( جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ کا علم )
    اور رسولوں ونبیوں کو جو علم دیا جاتا ہے وہ وحی یا الہام کے ذریعہ دیا جاتا ہے لہذا ایسے علم کو غیب نہیں کہا جائے گا اگر نبیوں کے علم کو بھی غیب کہا جائے تو علم الٰہی سے التباس پیدا ہو گا ۔یعنی اللہ اور نبیوں کا علم یکساں ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ علم غیب صرف خاصہ خدا وندی ہے ۔ لہذا رسولوں کو علم دیئے جانے کی بنیاد پر انھیں عالم الغیب کہنا مناسب نہیں ۔قرآن حکیم میں علم غیب کو اللہ نے خاص اپنے لئے فر مایا ہے
    قل الا یعلم من فی السمٰوٰۃ والارض الغیب الا اللہ ۔الآیہ ( سورۃ النمل آیت 65)
    ترجمہ: زمین وآسمانوں میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ۔
    ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرتم من الخیر ۔
    ترجمہ: اور اگر میں ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) عالم الغیب ہوتا تو بہت سارا خیر جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی برائی نہیں پہنچ سکتی ۔
    اس مضمون کی کئی آیات ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غیب صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے خاص ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جیسے موت وحیات وغیرہ کی صفت صرف اللہ کے لئے خاص ہیں اس صفت میں کوئی بھی شریک نہیں ۔
    البتہ اللہ تبارک وتعالیٰ جو علم اپنے نبیوں ورسولوں کو عطا فر ماتے ہیں وہ " اطلاع علیٰ الغیب " ہے علم غیب نہیں ، الغیب اللہ تعالیٰ کی خاص ذاتی صفت ہے ۔ قرآن حکیم نے نبیوں کے علم کی یہی حقیقت بیان کی ہے کہ انہیں جو علم دیا جاتا ہے وہ علم غیب نہیں اطلاع علیٰ الغیب ہے ( یعنی بعض غیب کی باتیں ان پر کھول دی جاتی ہیں ) وہ آیت شریفہ یہ ہے وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء ۔
    ترجمہ: اور نہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کر نے والا ہے البتہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے رسولوں میں سے انتخاب کر لیتا ہے ( یعن بعض اُمور غیب کی اطلاع کے لئے )
    یہی حقیقت دوسری آیت میں بیان کی گئی ہے
    عالم الغیب فلا یظھر علیٰ غیبہ احد ( سورہ الجن )
    یہاں اظہار علیٰ الغیب کہا گیا دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے ۔ اطلاع علیٰ الغیب اظہار علیٰ الغیب ( اطلاع یا اظہار غیب صرف نبیوں کو دیا جاتا ہے )
    اب رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم شریف کو زید ، عمر بکر یا حیوانات کے علم کے جیسا قرار دینا حاشا وکلا کوئی بھی مسلمان ایسی جرات نہیں کر سکتا چہ جائیکہ مولانا تھانوی جیسا عالم وفاضل زمانہ ( ایسی بکواس کرے نعوذ با اللہ منہ ) ہمارے سارے علماء ومشائخ اس تصور سے بری ہیں اور خود حضرت تھانوی نے اپنے رسالہ " بسط البنان " میں صراحتہً لکھ دیا ہے کہ جو شخص فکر بنی آدم حضور اکرم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم شریف کو کسی مخلوق کے برابر یا مماثل بتاتے ہوئے وہ شخص اسلام سے خارج ہے ۔ مگر با وجود ان تصریحات کے یہ بریلی کا طبقہ وہی الزام لگائے جارہا ہے ۔اللہ ان کو ہدایت دے ( گمراہی میں بہت دور چلے گئے )

    سوال 15: کیا آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ولادت شرعاً بری بات یا حرام ہے ۔

    جواب: حاشا وکلا ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ولادت کو برا یا بدعت حرام کہے ، ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ کے نعلین شریفین کا تذکرہ بھی باعث برکت وسعادت ہے ۔اسی طرح اُن جملہ احوال کا ذکر جن کا آپ کی ذات ِ اقدس سے تعلق ہے باعثِ رحمت وچواب دارین ہے جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب " براہیں قاطعہ " ( مؤلفہ مولانا خلیل احمد صاحب محدث ) میں متعدد جگہ لکھا ہے ۔
    علاوہ ازیں ہمارے مشائخ کے فتاویٰ میں اس کا جواز نقل کیا گیا ہےچنانچہ شاہ محمد اسحق صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ کے شاگرد مولانا احمد علی صاحب محدث سہا رنپوری کا فتویٰ درج کیا جاتا ہے جو ہمارے تمام مشائخ کے استاذ الکل ہیں کسی نے مولانا سے پوچھا تھا ، مجلس میلاد کس طرح جائز اور کس طرح نا جائز ہے ؟
    مولانا نے لکھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ولادت شریف باعث خیر وبرکت ہے لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
    اول : ولادتِ شریفہ کا ذکر صحیح صحیح روایات سے ہو ۔
    دوم: نمازوں کے اوقات کا لحاظ رکھتے ہوئے ہو ( یعنی اس عمل سے نمازیں قضا یا مؤخر نہ ہوں )

    سوم: اُسی طریقے سے ہو جو خیر القرون ( دور صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین) کے دور میں پا یا جاتا تھا ۔
    چہارم:اُن آداب کے ساتھ ہو جو صحابہ کرام کی سیرت میں ملتے ہیں ۔
    پنچم: اُس مجلس میں مُنکراتِ شرعیہ نہ ہو ں ( جیسے ساز وراگ ، مرد عورتوں کا اجتماع ، آرائش وچراغاں وغیرہ)
    ششم : اخلاص ونیک نیتی سے ہو ( رسم ورواج یا نام ونمود وشہرت کی نیت سے نہ ہو )
    ہفتم اس ذکرِ خیر کے لئے مخصوص دن تاریخ متعین نہ کی جائے ( کہ ہر سال انہی تاریخوں میں ذکر ولادت منائی جاتی ہو )
    الغرض مولود حدود کے ساتھ ہو تو یہ ذکر باعثِ سعادت ہے بھلا ایسے ذکر کو کون منع کرے گا ۔ ہم پر یہ الزام وتہمت ہے کہ ہم مولود شریف کے ذکر کو منع کرتے ہیں ،البتہ ہم اُن ناجائز اُمور سے منع کرتے ہیں جو مولود شریف میں شامل ورائج ہیں ۔
    ہمارے علاقوں میں مولود شریف پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو پیشہ ور قسم کے قوال ،ڈاڑھی منڈھے ، بے نمازی جنھیںنہ جنابت کی خبر نہ طہارت کا پاس ولحاظ ، منہ سگریٹ کی بد بو ، چہرے پر لعنت یہ لوگ رات رات بھر گلے ملا ملا کر آوازیں نکالتے ہیں ، خود بھی نمازیں نہیں پڑھتے اوروں کی نمازوں کو بھی گارت کر دیتے ہیں ۔ آجکل عورتیں بھی رنگ برنگ کی آوازوں سے راگ راگنی کی طرح میلاد پڑھتی ہیں جبکہ مردوں کی موجودگی میں ان کو قرآن شریف بھی آواز سے پڑھنا منع ہے ،ایسے میلاد کو اگر منع نہ کیا جائے تو کیا اس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے ؟ ( اللہ انہیں ہدایت دے آمین )
    نوٹ ذکر میلا کی مستند کتاب " نشر الطیب " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب مطالعہ کیجئے ۔
    جاری ہے
     
  2. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز

    عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز۔2

    علمائے حرمین شریفین کا خطاب علمائے دیوبند کے نام

    سوال16: کیا آپ حضرات نے اپنی کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ذکرِ ولادت جنم اسٹمی کی طرح ہے ؟

    جواب: یہ بھی ان جھوٹوں کا ایک اتہام اور پر پیگنڈہ ہے جو ہم پر لگا یا جاتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک پسندیدہ اور افضل ترین مستحب ہے پھر کسی مسلمان کی طرف سے کیو نکر گمان ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے ذکرِ شریف کو معاذاللہ کا فروں کے عمل جیسا قرار دے ؟
    جن جھوٹوں نے یہ مضمون مولانا رشید احمد گنگوی محدث کی جانب منسوب کیا ہے وہ بدتر ین جھوٹ اور نا پاک الزام ہے ۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ مجلسَ میلاد کے موجودہ منکرات بیان کر کے لکھتے ہیں
    "بعض لوگ ذکرِ ولادت کے وقت یہ عقیدہ رکھتے ہں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بوقتِ ذکر شریف مجلسِ میلاد میں تشریف لاتے ہیں اور پھر اس تصور کے ساتھ وہ لوگ فوری کھڑے بھی ہو جاتے ہیں ایسے لوگ غلطی میں مبتلا ہیں ، یہ قیام بلا دلیل شرعی ہے ( یعنی قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ) دراصل ایسے لوگوں کو غیر مسلموں کے یومِ ولادت سے دھوکہ ہوا یا شیعہ وروافض کے عمل سے دھوکہ ہوا جب کہ یہ لوگ ایسے موقعوں پر یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں'' ۔ مسلمانوں کو اپنے محترم نبی کے ذکرِ ولادت کو اس طرح ادا نہ کرنا چاہئےجس طرح غیر مسلم ادا کرتے ہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ شرعاً بُرا ہے ۔
    حضرت شیخ رشید احمد گنگوہی رحمۃاللہ علیہ نے ہندوستانی جاہلوں کے اس باطل عقیدے کا انکار کیا ہے نہ کہ ذکرِ ولادت شریف کی نفی کی ہے ، ہم اور ہمارے سارے مشائخ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریفین کی اہانت کو بھی موجب کُفر سمجھتے ہیں ۔ اللہ ان مفسدوں کو ہدایت دے ( بغض وعناد میں اندھے ہو گئے ہیں ) مزید ثبوت کے لئے کتاب " خیر النعال" مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویرحمۃ اللہ علیہ مطالعہ کیجئے ۔

    سوال17:شریعت کے اصول ،فروع میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کا مقلد کیسا ہے ؟

    جواب: موجودہ زمانہ میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید کی جائے کیونکہ ہمارا بارہا تجربہ ،مشاہدہ ہے کہ ائمہ کی تقلید چھوڑنے اور از کود قرآن ،حدیث سمجھنے کی سعی اور کواہش عموماً بے دین وگمراہی اور نئے نئے اجتہادات اور فتنوں کا با عث بنی ہے ( لہذا عوام کیلئے تقلید ضروری ہے )

    سوال18: کیا کسی ایک امام کی تقلید مستحب (بہتر) ہے یا واجب ( ضروری ) ہے ؟

    جواب: چاروں ائمہ ہدیٰ میں کسی ایک کی تقلید اس زمانے میں ( عوام کے لئے ) ضروری بلکہ واجب کے قریب ہے ۔

    سوال19: آپ حضرات کس امام کی مقلد ہیں ؟ جواب: ہم اور ہمارے تمام اساتذہ کرام اصول وفروع میں امام المسلمین امام ابو حنیفہرحمۃاللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔
    نوٹ: جواب 17 ،18 ،19 کی مزید تفصیل کے لئے " الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد " مؤلفہ حکیم الامت اشرف علی ساحب تھانویؒ " سبل الرشاد " مؤلفہ رشید احمد گنگوہیؒ " توثیق الکلام " کا مطالعہ کیجئے ۔

    سوال 20: امام محمد بن عبد الوہاب نجدی اور اُن کے پیروی کر نے والوں کے بارے میں آپ حضرات کی رائے کیا ہے ؟ اور کیا آپ حضرات بھی ان کی طرح اپنے آپ کو مومنین اور دوسروں کو مشرکین خیال کرتے ہیں ؟

    جواب: امام محمد بن عبد الوہاب یا ان کو کوئی شاگرد وتابع ہمارے بزرگوں کے کسی بھی سلسلے میں شامل نہیں ۔ نہ ہمارے علمی سلسلے ( تفسیر وحدیث وفقہ ) میں نہ سلوک وتسوف میں ۔ علاوہ ازیں ہم ان کے بعض خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے ، رہا سلف صالھین یا عام مسلمانوں کو کافر یا مشرک کہنا یہ ہمارا طریقہ نہیں بلکہ ایسا ہنا ہمارے نزدیک بے دینی کی بات ہے ہم تو اُن بدعتیوں کو جو اہل قبلہ ہیں جب تک اُصولِ دین کا انکار نہ کریں کافر نہیں سمجھتے یہی ہمارا طریقہ ہے ۔

    سوال21: کیا شیخ رشید احمد گنگوہی نے اپنی کسی کتاب یا فتویٰ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے ؟ یا یہ بات ان پر جھوٹ بہتان ہے ؟ اگر بہتان ہے تو پھر اُس بریلوی کی بات کیا جواب ہے ؟ کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرے پاس رشید احمد گنگوہیؒ کے فتویٰ کا فوٹو ہے جس میں یہ بات لکھی ہے ۔

    جواب: حضرت شیخ اجل مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب اِن لوگوں نے یہ بات منسوب کر دی ے اور اس کو شہرت دےدی حالانکہ یہ نہایت صریح کذب اور دجل وفریب ہے ( اللہ انہیں ہلاک کرے ) حضرت شیخ اجل پر ان جھوٹوں کا یہ سب سے بڑا الزام وتہمت ہے ۔ حضرت مولانا اس زندیقیت وبے دینی سے بَری ہیں ۔ فتاویٰ رشیدیہ ج 1 ص 119 پر اسی سوال کے جواب میں مولانا گنگوہیؒ لکھتے ہیں ۔
    " اللہ تعالیٰ کذب ( جھوٹ ) سے پاک ومنزہ ہے اس کے کلام میں کذب تو کیا کذب کا شائبہ بھی نہیں ۔خواد اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ومن اصدق من اللہ قیلا ۔الایۃ (اللہ سے بڑھکر سچا کون ہے ؟) وہ قطعی کا فر ملعون ہے اور کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور اجماعِ امت کا مالف ہے ۔ یہ ہی اُمت کے علماء کا عقیدہ ہے۔
    اور یہ جو بریلوی عالم کہتا ہے کہ اُس کے پاس حضرت مولانا گنگوہی کے فتویٰ کا فوٹو ہے سرا سرا جعل سازی ، دھوکہ بازی ، مکر ومکاری کے سوا کچھ نہیں اس جھوٹے کاکام ہی یہی ہے کہ علماء امت کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر کفر کا فتویٰ تیار کرتا ہے ۔1323ھ 1905میں داالعلوم دوبند کے ایک استاذ مولانا مرتضیٰ صاحب چاند پوری نے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے اس جعلی فوٹو کی حقیقت دریافت کی تھیَ
    حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی نے اُس کا جواب دیا "یہ سراسر افترا ، وتہمت وبہتان ہے ۔میں نے نہ کبھی ایسا فتویٰ دیا اور نہ ہی دے سکتا ہوں ۔(السحاب المدار" تزکیۃ الخواطر" مؤلفہ رشید احمد گنگوہی)

    سوال22: کیا آپ حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کے کلام میں وقوع کذب کا امکان ہے ؟
    جواب: ہم اور ہمارے سارے مشائخ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ سے جو بھی کلام صادر ہو اہے وہ یقینا سچا، حقیقت کے مطابق ہے اللہ کے کلام میں کذب ( جھوٹ) کا شائبہ اور خلاف کا واہمی تک نہیں ،اور جو کوئی اس کے خلاف عقیدہ رکھے یا اس کے کلام میں کذب کا وہم کر ے وہ کافر ، بے دین ہے ایسے شخص میں ایمان کا شائبہ تک نہیںَ۔
    جاری
    [/quote]
     
  3. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز

    عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز۔2

    علمائے حرمین شریفین کا خطاب علمائے دیوبند کے نام

    سوال16: کیا آپ حضرات نے اپنی کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ذکرِ ولادت جنم اسٹمی کی طرح ہے ؟

    جواب: یہ بھی ان جھوٹوں کا ایک اتہام اور پر پیگنڈہ ہے جو ہم پر لگا یا جاتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک پسندیدہ اور افضل ترین مستحب ہے پھر کسی مسلمان کی طرف سے کیو نکر گمان ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے ذکرِ شریف کو معاذاللہ کا فروں کے عمل جیسا قرار دے ؟
    جن جھوٹوں نے یہ مضمون مولانا رشید احمد گنگوی محدث کی جانب منسوب کیا ہے وہ بدتر ین جھوٹ اور نا پاک الزام ہے ۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ مجلسَ میلاد کے موجودہ منکرات بیان کر کے لکھتے ہیں
    "بعض لوگ ذکرِ ولادت کے وقت یہ عقیدہ رکھتے ہں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بوقتِ ذکر شریف مجلسِ میلاد میں تشریف لاتے ہیں اور پھر اس تصور کے ساتھ وہ لوگ فوری کھڑے بھی ہو جاتے ہیں ایسے لوگ غلطی میں مبتلا ہیں ، یہ قیام بلا دلیل شرعی ہے ( یعنی قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ) دراصل ایسے لوگوں کو غیر مسلموں کے یومِ ولادت سے دھوکہ ہوا یا شیعہ وروافض کے عمل سے دھوکہ ہوا جب کہ یہ لوگ ایسے موقعوں پر یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں'' ۔ مسلمانوں کو اپنے محترم نبی کے ذکرِ ولادت کو اس طرح ادا نہ کرنا چاہئےجس طرح غیر مسلم ادا کرتے ہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ شرعاً بُرا ہے ۔
    حضرت شیخ رشید احمد گنگوہی رحمۃاللہ علیہ نے ہندوستانی جاہلوں کے اس باطل عقیدے کا انکار کیا ہے نہ کہ ذکرِ ولادت شریف کی نفی کی ہے ، ہم اور ہمارے سارے مشائخ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریفین کی اہانت کو بھی موجب کُفر سمجھتے ہیں ۔ اللہ ان مفسدوں کو ہدایت دے ( بغض وعناد میں اندھے ہو گئے ہیں ) مزید ثبوت کے لئے کتاب " خیر النعال" مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویرحمۃ اللہ علیہ مطالعہ کیجئے ۔

    سوال17:شریعت کے اصول ،فروع میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کا مقلد کیسا ہے ؟

    جواب: موجودہ زمانہ میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید کی جائے کیونکہ ہمارا بارہا تجربہ ،مشاہدہ ہے کہ ائمہ کی تقلید چھوڑنے اور از کود قرآن ،حدیث سمجھنے کی سعی اور کواہش عموماً بے دین وگمراہی اور نئے نئے اجتہادات اور فتنوں کا با عث بنی ہے ( لہذا عوام کیلئے تقلید ضروری ہے )

    سوال18: کیا کسی ایک امام کی تقلید مستحب (بہتر) ہے یا واجب ( ضروری ) ہے ؟

    جواب: چاروں ائمہ ہدیٰ میں کسی ایک کی تقلید اس زمانے میں ( عوام کے لئے ) ضروری بلکہ واجب کے قریب ہے ۔

    سوال19: آپ حضرات کس امام کی مقلد ہیں ؟ جواب: ہم اور ہمارے تمام اساتذہ کرام اصول وفروع میں امام المسلمین امام ابو حنیفہرحمۃاللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔
    نوٹ: جواب 17 ،18 ،19 کی مزید تفصیل کے لئے " الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد " مؤلفہ حکیم الامت اشرف علی ساحب تھانویؒ " سبل الرشاد " مؤلفہ رشید احمد گنگوہیؒ " توثیق الکلام " کا مطالعہ کیجئے ۔

    سوال 20: امام محمد بن عبد الوہاب نجدی اور اُن کے پیروی کر نے والوں کے بارے میں آپ حضرات کی رائے کیا ہے ؟ اور کیا آپ حضرات بھی ان کی طرح اپنے آپ کو مومنین اور دوسروں کو مشرکین خیال کرتے ہیں ؟

    جواب: امام محمد بن عبد الوہاب یا ان کو کوئی شاگرد وتابع ہمارے بزرگوں کے کسی بھی سلسلے میں شامل نہیں ۔ نہ ہمارے علمی سلسلے ( تفسیر وحدیث وفقہ ) میں نہ سلوک وتسوف میں ۔ علاوہ ازیں ہم ان کے بعض خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے ، رہا سلف صالھین یا عام مسلمانوں کو کافر یا مشرک کہنا یہ ہمارا طریقہ نہیں بلکہ ایسا ہنا ہمارے نزدیک بے دینی کی بات ہے ہم تو اُن بدعتیوں کو جو اہل قبلہ ہیں جب تک اُصولِ دین کا انکار نہ کریں کافر نہیں سمجھتے یہی ہمارا طریقہ ہے ۔

    سوال21: کیا شیخ رشید احمد گنگوہی نے اپنی کسی کتاب یا فتویٰ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے ؟ یا یہ بات ان پر جھوٹ بہتان ہے ؟ اگر بہتان ہے تو پھر اُس بریلوی کی بات کیا جواب ہے ؟ کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرے پاس رشید احمد گنگوہیؒ کے فتویٰ کا فوٹو ہے جس میں یہ بات لکھی ہے ۔

    جواب: حضرت شیخ اجل مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب اِن لوگوں نے یہ بات منسوب کر دی ے اور اس کو شہرت دےدی حالانکہ یہ نہایت صریح کذب اور دجل وفریب ہے ( اللہ انہیں ہلاک کرے ) حضرت شیخ اجل پر ان جھوٹوں کا یہ سب سے بڑا الزام وتہمت ہے ۔ حضرت مولانا اس زندیقیت وبے دینی سے بَری ہیں ۔ فتاویٰ رشیدیہ ج 1 ص 119 پر اسی سوال کے جواب میں مولانا گنگوہیؒ لکھتے ہیں ۔
    " اللہ تعالیٰ کذب ( جھوٹ ) سے پاک ومنزہ ہے اس کے کلام میں کذب تو کیا کذب کا شائبہ بھی نہیں ۔خواد اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ومن اصدق من اللہ قیلا ۔الایۃ (اللہ سے بڑھکر سچا کون ہے ؟) وہ قطعی کا فر ملعون ہے اور کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور اجماعِ امت کا مالف ہے ۔ یہ ہی اُمت کے علماء کا عقیدہ ہے۔
    اور یہ جو بریلوی عالم کہتا ہے کہ اُس کے پاس حضرت مولانا گنگوہی کے فتویٰ کا فوٹو ہے سرا سرا جعل سازی ، دھوکہ بازی ، مکر ومکاری کے سوا کچھ نہیں اس جھوٹے کاکام ہی یہی ہے کہ علماء امت کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر کفر کا فتویٰ تیار کرتا ہے ۔1323ھ 1905میں داالعلوم دوبند کے ایک استاذ مولانا مرتضیٰ صاحب چاند پوری نے مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے اس جعلی فوٹو کی حقیقت دریافت کی تھیَ
    حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی نے اُس کا جواب دیا "یہ سراسر افترا ، وتہمت وبہتان ہے ۔میں نے نہ کبھی ایسا فتویٰ دیا اور نہ ہی دے سکتا ہوں ۔(السحاب المدار" تزکیۃ الخواطر" مؤلفہ رشید احمد گنگوہی)

    سوال22: کیا آپ حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کے کلام میں وقوع کذب کا امکان ہے ؟
    جواب: ہم اور ہمارے سارے مشائخ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ سے جو بھی کلام صادر ہو اہے وہ یقینا سچا، حقیقت کے مطابق ہے اللہ کے کلام میں کذب ( جھوٹ) کا شائبہ اور خلاف کا واہمی تک نہیں ،اور جو کوئی اس کے خلاف عقیدہ رکھے یا اس کے کلام میں کذب کا وہم کر ے وہ کافر ، بے دین ہے ایسے شخص میں ایمان کا شائبہ تک نہیںَ۔
    جاری
    [/quote]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں