1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عصمت چغتائی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    عصمت چغتائی

    عصمت چغتائی 21 اگست 1915ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ دس بہن بھائی تھے، چھ بھائی اور چار بہنیں۔ بھائیوں کے ساتھ وہ بھی لڑکوں والے کھیل کھیلتیں۔ اس زمانے میں مسلمان گھرانوں میں لڑکیوں کی مغربی تعلیم کا رواج نہ تھا۔ عصمت کو بھی اس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ دھن کی پکی تھیں۔ ایک دفعہ ارادہ کرلیا تو پھر اس کو پورا کیے بغیر نہیں چھوڑنا۔ میٹرک کے بعد انٹر اور پھر بی اے کے لیے وہ علی گڑھ چلی گئیں۔ پڑھنے لکھنے سے دلچسپی شروع ہی سے تھی۔ بھائی عظیم بیگ چغتائی باقاعدہ رسالوں میں چھپتے تھے۔ وہ ان کے Mentor تھے۔ شاید وہ تیرہ برس کی تھی جب عصمت نے پہلا افسانہ لکھا اور وہ افسانہ اپنے نام کے بجائے ایک سہیلی کے نام سے چھپوایا۔ لیکن شوق کے بہاؤ کے آگے کون بند باندھ سکتا ہے۔ عصمت نے اردو میں ایک ڈرامہ ''فسادی‘‘ سے لکھنے سے آغاز کیا اور پھر اردو کہانیاں لکھنے لگیں۔ یہ اردو میں تیکھے اسلوب کی کہانیاں تھیں‘ جن کے موضوعات مڈل کلاس سے لیے گئے تھے‘ اور زندگی کے وہ پہلو بے نقاب کیے گئے تھے جن کا ذکر بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر وہ پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہو گئیں۔ 1930ء میں ان کی ملاقات معروف ادیب رشید جہاں سے ہوئی۔ رشید جہاں نے عورتوں کے حوالے سے ایک جرأت مندانہ موقف اپنایا تھا۔ بعد میں ''انگارے‘‘ کتاب میں ان کی دو تحریروں ''دلی کی سیر‘‘ اور ''پردے کے پیچھے‘‘ نے سماجی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔ رشید جہاں کی جرأت اور بہادری عصمت چغتائی کو بھاگئی۔ رشید جہاں نے عصمت کو نصیحت کی کہ سماج کے ان موضوعات پر لکھو جن پر لوگ کم لکھتے ہی لیکن جو سماج کو سدھارنے کے لیے اہم ہیں۔ علی گڑھ کے ماحول نے عصمت چغتائی کو مزید اعتماد دیا۔ یہیں ان کی ملاقات شاہد لطیف سے ہوئی۔ اس وقت شاہد علی گڑھ سے ہی ایم اے کر رہے تھے۔ بعد میں شاہد بمبئی چلے گئے‘ جہاں وہ فلموں کے ڈائیلاگ لکھنے لگے۔ یہیں عصمت اور شاہد کی شادی ہوئی۔ اس شادی کے گواہ مشہور افسانہ نگار خواجہ احمد عباس تھے‘ جو ان دنوں بمبئی میں فلموں کے لیے کہانیاں لکھا کرتے تھے۔
    عصمت چغتائی کو پڑھنے کا جنون تھا۔ اردو اور انگریزی ادب کے اہم ادبی شاہکار وہ پڑھ چکی تھیں۔ پھر ان کا تعارف روسی ادب سے ہوا اور انہیں احساس ہوا کہ اصل ادب تو یہ ہے جس میں لوگوں کی زندگیاں دھڑکتی ہیں۔ چیخوف ان کا پسندیدہ ادیب تھا۔ لکھنا اور پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ لکھنے کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی تھیں۔ زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی کہ عصمت کی زندگی میں ایک تلاطم آگیا۔ یوں تو وہ خود ہنگاموں میں خوش رہتی تھیں لیکن اس طوفان نے اس کی زندگی اتھل پتھل کر کے رکھ دی۔ یہ 1944ء کی بات ہے‘ انہوں نے ایک افسانہ لکھا‘ عنوان تھا: ''لحاف‘‘۔ پہلے انہوں نے یہ کہانی اپنی بھاوج کو سُنائی‘ پھر اپنی خالہ زاد بہن کو اور پھر یہ کہانی ''ادبِ لطیف‘‘ کو بھیج دی۔ رسالے کے مدیر نے کسی ردِعمل کا اظہار نہ کیا اور اسے شائع کردیا۔ انہی دنوں شاہد احمد دہلوی عصمت کی کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع کررہے تھے۔ انہوں نے یہ کہانی اس مجموعے میں شامل کر دی۔ وہ 1944ء کا سال تھا اور دسمبر کا مہینہ جب انہیں عدالت میں پیشی کا سمن ملا۔ انہی دنوں سعادت حسن منٹو کی ایک کہانی ''بُو‘‘ پر بھی فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا اور یوں دونوں جنوری 1945ء میں لاہور کی عدالت میں پیش ہوئے۔ منٹو کو تو جیسے پروا ہی نہیں تھی۔ اس کے برعکس عصمت پر گھروالوں کا دباؤ تھا‘ لیکن وہ بہادری سے ساری صورتحال کا سامنا کر رہی تھیں۔ دو پیشیوں میں ہی مقدمے کا فیصلہ ہوگیا: عصمت اور منٹو‘ دونوں کو باعزت بری کر دیا گیا۔ لحاف کی اشاعت کے بعدکا عرصہ عصمت کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ ہرروز کی ڈاک سے اسے ایسے خط ملتے جن کے الفاظ عصمت کے بقول بچھوؤں کی طرح ہوتے اور وہ ان خطوں کوپڑھ کرجلا دیتیں۔ عصمت چغتائی کی کہانیوں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ کہانیوں کے علاوہ انہوں نے آٹھ ناول لکھے جن میں ''ٹیڑھی لکیر‘‘ نے سب سے زیادہ شہرت پائی۔ عصمت کی پارہ صفت طبیعت اب کچھ نیا کرنا چاہتی تھی۔ وہ فلموں کی کہانیاں لکھنے لگیں۔ پھر وہ فلمیں ڈائریکٹ کرنے لگیں۔ کچھ فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔

    شاہد صدیقی کے کالم ’’عصمت چغتائی،گورڈن کالج اور میں ’’ سے منقبس

    اُردو ادب کی ایک اور بے بدل مصنّفہ، قراۃ العین حیدر نے عِصمت چغتائی کو ’’لیڈی چنگیز خاں‘‘ کا نام دیا تھا۔24 اکتوبر 1991ء کو ممبئی میں جس وقت عِصمت کا انتقال ہوا، تو وہ ایک بار پھر خبروں کا موضوع قرار پائیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اُن کی وصیّت تھی کہ اُنہیں دفنانے کی بہ جائے ہندووانہ رسم کے تحت نذرِ آتش کیا جائے اور راکھ کو گنگا ، جمنا کے پانیوں میں بہا دیا جائے۔ ذوویہ حمید الدّین کے مطابق ، عِصمت چغتائی کی خواہش تھی کہ اُنہیں اپنی بہن کے پہلو میں دفن کیا جائے، مگر اُن کے نواسے اشیش نے ایسا نہ ہونے دیا اور ہندوانہ رسم کے مطابق اُنہیں نذرِ آتش کر کے ایک تنازعے کو جنم دیا۔ وصیّت کی صداقت سے قطع نظر عِصمت چغتائی کی پوری زندگی ہنگامہ خیزی سے پُر ہے اور واقعات کا نہ ختم ہونے والا بہاؤ ادب کے قاری کو اپنے ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں