1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 9

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏15 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی​




    صبح صادق طلوع ہو رہی تھی جب طاہر نےگاڑی حویلی کےپورچ میں روکی۔ گیٹ کھولنےوالا ملازم گیٹ بند کر کےمڑا تو طاہر گاڑی سےاتر رہا تھا۔ ملازم اس کےپھٹےہوئےکرتےاور مٹی میں اٹےجسم کو دیکھ کر حیران ہوا ۔ پھر اس سےپہلےکہ وہ کچھ کہتا‘ مردانےسےملک بلال نےباہر قدم رکھا۔
    ”چھوٹےمالک۔ کیا ہوا؟ “ وہ گھبرا کر اس کےقریب چلا آیا۔
    ”کچھ نہیں۔“ طاہر نےمختصر سا جواب دیا اور اندر کو چلا۔
    ”مگر یہ ۔۔۔“ ملک نےاس کےکپڑوں کی جانب حیرت سےدیکھتےہوئےکہا۔ ”کیا کسی سےجھگڑا ہو گیا؟“
    ”نہیں۔“ طاہر اس کےقریب سےگزر گیا۔
    ” آپ آ کہاں سےرہےہیں چھوٹےمالک؟“ سارےلوگ آپ کےانتظار میں جاگ رہےہیں۔ مالکن اس قدر پریشان ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ تو بابا شاہ مقیم کا کہہ کر گئےتھے۔۔۔“
    ”میں وہیں سے آ رہا ہوں ۔“ طاہر نےقدم بر آمدےمیں رکھا۔
    ”تو ساری رات آپ وہیں تھے؟“ ملک کی حیرت دوچند ہو گئی۔
    ”ہاں۔۔۔ اور اب بس۔“ طاہر ‘ہال کمرےکےدروازےپر رکا۔پلٹا اور ملک کی آنکھوں میں اس انداز سےدیکھا کہ ملک کو مزید کچھ کہنےکا یارا ‘ نہ رہا۔ ”اور کوئی سوال نہیں۔ تم نےجو دیکھا‘ سمجھو ‘ نہیں دیکھا۔ سب کو سمجھا دو۔دن میں ڈیرےپر ملاقات ہو گی۔“ وہ اندر داخل ہو گیا۔
    ملک خاموش ‘ منہ پھاڑےکھڑا رہ گیا۔ اس کےذہن میں بےشمار سوال مچل رہےتھےمگر اسےزبان بندی کا حکم دےکر طاہر جا چکا تھا۔اسی وقت وہ ملازم تیز تیز قدموں سےاس کےپاس چلا آیا جس نےگیٹ کھولا تھا۔
    ”ملک صیب۔“ وہ سرگوشی کےلہجےمیں بولا۔ ”کیا ہوا۔ چھوٹےمالک کا کسی سےجھگڑا ہو گیا کیا؟“
    ” آں۔۔ ۔“ ملک چونکا۔ اس کی نظر ملازم پر پڑی تو جیسےہوش میں آ گیا۔ ”کیا کہا تو نے؟“
    ملازم نےاپنی بات دہرائی تو ملک ایک دو لمحےاس کی جانب خالی خالی نظروں سےدیکھتا رہا ‘ پھر اس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔
    ”گیٹ تو نےکھولا تھا؟“ ملک کا لہجہ سخت پا کر ملازم گھبرا گیا۔
    ”ج۔۔جی ہاں ملک صیب۔“ وہ ہکلایا۔
    ”اور کس نےچھوٹےمالک کو اس حال میں دیکھا ہے؟“
    ”کسی نےنہیں جی ملک صیب۔ باقی ملازم ڈیرےپر ہیں۔“
    ”تو بس۔“ ملک نےہاتھ اٹھا کر تحکم سےکہا۔ ”چھوٹےمالک کو تو نےبھی نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں لوٹےہیں۔ سمجھ گیا۔“
    ”سمجھ گیا جی۔ بالکل سمجھ گیا۔“ ملازم نےزور زور سےسر ہلایا۔
    ”زبان کو گانٹھ دےکر رکھنا۔ مجھےبات دہرانی نہ پڑی۔“ کہہ کر ملک اندر جانےکےلئےپلٹا۔
    ”جی ملک صیب۔ “ ملازم کا رنگ بدل گیا۔ ملک اس کی دگرگوں حالت کو نظر انداز کرتا ہوا ہال میں داخل ہو گیا‘ جہاں اس کی توقع کےمطابق طاہر موجود نہیں تھا۔ وہ زنان خانےمیں جا چکا تھا۔
    ٭
    ”میرےمالک۔ان کو اپنی امان میں رکھنا۔ انہیں ہر بلا سےمحفوظ فرمانا۔ مجھےان کا کوئی دُکھ نہ دکھانا۔ میرےمعبود۔انہیں حفاظت کےساتھ گھر لے آ۔ ان کی آئی مجھے آ جائے۔ ان کی بلا مجھ پر پڑے۔ انہیں کچھ نہ ہو میرےمالک۔ انہیں کچھ نہ ہو۔ تجھےتیرےحبیب کا واسطہ۔ مجھےمیرےحبیب سےخیر و عافیت کےساتھ ملانا۔“
    سجدےمیں پڑی صفیہ زار زار روئےجا رہی تھی۔ اس کی آواز ہچکیوں میں ڈوبی ٹوٹ ٹوٹ کر ابھر رہی تھی۔ اسےیوں بلکتا دیکھ کر دروازےمیں کھڑاطاہر بےکل سا ہو گیا۔
    کاریڈور میں قدم رکھا تو اس کی حالت پر حیرت زدہ فہمیدہ نےسلام کر کےکمرےکی طرف دوڑ لگانا چاہی۔ شاید وہ صفیہ کو طاہر کے آنےکی خبر سناناچاہتی تھی مگر طاہر نےاسےروک دیا۔ اسےخاموشی سےچلےجانےکا کہہ کر وہ کمرےکی جانب بڑھا اور آہستہ سےکھلےدروازےمیں آ کھڑا ہوا۔ شاید وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کی گم خبری پر صفیہ کا کیا حال ہے؟اور اب اسےیوں تڑپتا پاکر اس کا دل ہاتھوں سےنکلا جا رہا تھا۔
    ”صفو۔۔۔“
    آواز تھی یا نوید حیات۔ صفیہ کا خزاں رسیدہ پتےکی طرح کانپتا جسم ایک دم ساکت ہو گیا۔ ایک پل کو اسےلگا کہ یہ اس کی سماعت کا دھوکا ہےمگر دوسرےہی پل اس نےسر سجدےسےاٹھایا اور دروازےکی جانب دیکھا۔
    ”طاہر۔۔۔“ شبنم میں دھلتا ہوا اس کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو رہا تھا۔ اسےاپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دروازےمیں کھڑےطاہر کی حالت دیکھ کر وہ سُن ہو گئی۔
    ”صفو۔۔۔“ طاہر کےبازو وَا ہوئے۔
    اب شبےکی گنجائش کہاں تھی؟
    ”طاہر۔۔۔“ وہ تڑپ کر جائےنماز سےاٹھی اور بھاگتی ہوئی اس کےسینےسے آ لگی۔ ”طاہر۔۔۔ طاہر۔۔۔“ وہ اس سےلپٹی سسک رہی تھی۔ ”یہ آپ کو کیا ہوا؟ کہاں تھے آپ اب تک؟ کہاں تھے؟“
    ”شش۔۔۔“ طاہر نےاسےباہوں کےگھیرےمیں لےکر بھینچ لیا۔ ”خاموش ہو جائو صفو۔ کچھ مت کہو۔ کچھ مت کہو۔“ اس کی زلفوں میں چہرہ چھپا کر طاہر نےسرگوشی کی۔
    بچوں کی طرح ہچکیاں لیتی ہوئی صفیہ نےاس کی کمر کےگرد بازو حمائل کر لئےاور یوں لپٹ گئی جیسےجدا ہونا اس کےلئےممکن نہ رہا ہو۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔
    پھر طاہر نےاسے آہستہ سےاپنے آپ سےالگ کیا۔دوسرےہی لمحےوہ اس کی باہوں میں جھول گئی۔ وہ غش کھا گئی تھی۔
    ”صفو۔۔۔“ طاہر گھبرا گیا۔اسےہاتھوں پر اٹھا کر بستر پر ڈالا۔ کمبل اوڑھایا اور بیڈ کی پٹی پر بیٹھ کر اس کےچہرےکو والہانہ دیکھنےلگا‘ جو یوں پُرسکون تھا جیسےپریاں اس پر کہانیوں کےرنگ لےکر اتر رہی ہوں۔چہرےکی سفیدی‘ سرخی میں بدلتےپا کر اسےکچھ حوصلہ ہوا۔ اس نےچاہا کہ فہمیدہ کو آواز دے۔ پھر نجانےکیوں اس کا جی چاہا کہ بس ایک ٹک صفیہ کو دیکھتا رہے۔ کسی بھی تیسرےکا اس وقت وہاں آنےکا خیال اسےاچھا نہ لگا۔ آنسوئوں نےصفیہ کا چہرےشبنم دھلےگلاب کا سا کر دیا تھا۔ بےاختیار وہ جھکا اور صفیہ کےرخسار پر ہونٹ رکھ دیے۔
    یکبارگی صفیہ کا سارا جسم لرز گیا۔ اس نےہولےسےحرکت کی ۔
    ”طاہر۔۔۔“ ہونٹ لرزےتو آہ نکلی۔
    ”صفو۔۔۔“ طاہر نےاس کےہاتھ تھام لئےجو برف کی طرح سرد ہو رہےتھے۔
    ”طاہر۔۔۔“ آہستہ سےپلکوں کو حرکت ہوئی۔
    ”صفو میری جان۔۔۔“ طاہر نےاس کےہاتھ ہونٹوں سےلگا لئے۔
    ”طاہر۔۔۔“ پلکیں وَا ہوئیں تو آنکھوں کےگوشوں سے آنسو ڈھلک پڑی۔
    ”بس۔۔۔“ طاہر نےہونٹوں سےوہ شفاف موتی چُن لئے۔ ” بس ۔ اب نہیں۔ کبھی نہیں۔“ اس نےگڑیا سی صفیہ کو کمر میں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور سینےکےساتھ بھینچ لیا۔ پھر پاگلوں کی طرح اسےچومنےلگا۔اس کی دیوانگی صفیہ کو رُلا رہی تھی۔ کھلا رہی تھی۔ بتا رہی تھی کہ اس کا صبر رنگ لے آیا ہے۔اس کا طاہر لوٹ آیا ہے۔ وہ اس کےبازئووں میں بےخود سی پڑی اس دیوانگی کو سینت سینت کر دل کےنہاں خانےمیں رکھتی رہی۔سنبھالتی رہی۔ یہ وہ لمحےتھےجن کا وہ کب سےانتظار کر رہی تھی۔بہار کےیہ پل جو اس کےلئےخواب ہو چکےتھے‘ خزاں ختم ہو جانےکی نوید لےکر لوٹےتو وہ سر تا پا گلاب ہو گئی۔ایسا گلاب‘ جس کی شبنم قطرہ قطرہ ‘ طاہر کا غبار دھو رہی تھی۔ یقین اور اعتماد کا غسل دےرہی تھی۔
    عشق کا عین ‘ عشق کےشین کا ہاتھ تھامےاپنی پوری وضاحتوں کےساتھ طاہر پر نازل ہو رہا تھا۔
    ٭
    غسل کر کےطاہر باتھ روم سےنکلا تو صفیہ میز پر ناشتہ سجا چکی تھی۔
    ”جلدی آ جائیے۔ ایک دم بھوک حملہ آور ہو گئی ہے۔“ وہ اس کےلئےکرسی سرکاتےہوئےبولی اور گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا۔
    ”طاہر ۔۔۔“ اس کےلبوں پر ایک لفظ مچلا اور وہ مسحور و حیراں اسےتکتی رہ گئی۔ سفید شلوار کرتےمیں دھلا دھلایا طاہر اس کےسامنےکھڑا تھا۔ مگر نہیں ۔ یہ وہ طاہر تو نہیں تھا جو کل تک اس کےسامنےرہتا تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ ایک عجیب سا نورانی ہالہ جس کےچہرےکو چوم رہا تھا۔ ایک ناقابل ِبرداشت چمک جس کی آنکھوں میں لو دےرہی تھی۔ ایک ملکوتی مسکراہٹ جس کےلبوں پر مہک رہی تھی۔ اسےلگا جیسےطاہر اس کےسامنےنہیں‘ بہت بلندی پر ‘ بہت اونچی جگہ پر کھڑا اسےدیکھ رہا ہو۔ ایسی بلندی‘ جس کا اسےادراک تو ہو رہا تھا‘ مگر جسےوہ کسی اور کو سمجھا نہ سکتی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ کیسےہوا؟ کب ہوا؟ اس کا ذہن ریشمی تاروں میں الجھ کر رہ گیا۔
    ”کیا دیکھ رہی ہو؟“ طاہر اپنی جگہ سےاس کی طرف چل پڑا۔
    ”کچھ نہیں۔“ وہ گڑبڑا سی گئی۔ گھبرا کر نظریں اس کےچہرےسےہٹا لیں۔ اسےمحسوس ہوا کہ اگر وہ مزید چند لمحےاسےیونہی دیکھتی رہی تو طاہر کو نظر لگ جائےگی۔ کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک گہرا سانس لیا۔ جیسےوہ طاہر کی اس شبیہ کو اپنےدل میں ‘ اپنی سانسوں میں‘ اپنی روح میں اتار لینا چاہتی ہو۔
    تینوں ویکھیاں صبر نہ آوی
    وےچناں تیرا گُھٹ بھر لاں
    اس کےاندر سےایک صدا ابھری اور سارےوجود پر سرور بن کر چھا گئی۔
    ”کہاں کھو گئیں؟“ طاہر نےاس کےشانےپر ہاتھ رکھ کر اسےاپنےساتھ لگا لیا۔
    ”یہیں ہوں۔ آپ کےقدموں میں۔“ وہ نشےمیں ڈوبی آواز میں بولی اور اس کےسینےمیں سما گئی۔
    ”میری طرف دیکھو۔“ طاہر نےاس کی ٹھوڑی کےنیچےہاتھ رکھا۔
    ” نہیں۔“ صفیہ نےمچل کر کہا اور اس سےالگ ہو تےہوئےچہرہ پھیر لیا۔
    ”کیوں؟“ طاہر ہولےسےہنسا۔
    ”نظر لگ جائےگی آپ کو۔“ صفیہ نےاس کی جانب دیکھنےسےگریز کیا۔
    ”تمہاری نظر۔۔۔“ طاہر نےمسکراتےہوئےحیرت سےکہا۔ ” اور مجھےلگ جائےگی؟“ وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
    اثبات میں سر ہلاتےہوئےصفیہ اس کےساتھ والی نشست پر بیٹھ گئی۔” اور اب بس۔ خاموشی سےناشتہ کیجئے۔“
    ”جو حکم سرکار کا۔“ طاہر نےسر خم کیا اور دونوں ناشتےمیں مصروف ہو گئے۔
    ناشتہ واقعی خاموشی سےکیا گیا۔ پھر فہمیدہ آئی اور برتن لےگئی۔
    صفیہ نےاس کےپیروں سےچپل نکالی اور اسےبستر میں گھس جانےکا اشارہ کیا۔ اس نےکوئی ہچرمچر نہ کی۔ صفیہ نےکمبل اسےخوب اچھی طرح اوڑھایا اور خود اس کےپاس پیروں کی جانب بیٹھ گئی۔
    ”میں جانتی ہوں آپ تھکےہوئےہیں اور اس وقت آپ کےلئےسب سےزیادہ ضروری چیز نیند ہےلیکن میرا ضبط اور صبر اب ختم ہو رہا ہے۔ مجھےبتائیےکہ کل کا سارا دن اور آج رات آپ کہاں رہے؟ جس حالت میں آپ لوٹے‘ وہ کوئی اچھی خبر نہ دےرہی تھی۔مجھےایک ایک بات بتائیے۔“
    ”ایک ایک بات۔“ طاہر نےکہا اور اس کی جانب بڑی عجیب سی نظروں سےدیکھا۔
    ”کیوں؟ بتانےکی بات نہیں ہےکیا؟“ صفیہ نےاس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہا ۔ پھر نظر ہٹا لی۔ ان بلور آنکھوں کی چمک اس سےسہی نہ گئی۔
    ”نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جو میں تم سےچھپا ئوں ۔مگر صفو۔۔۔“وہ ایک پل کو رکا۔ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر دائیں ہاتھ سےماتھا سہلانےلگا۔
    چند لمحےخاموشی کی نذر ہو گئےتو صفو نےزبان کھولی۔
    ”کیا سوچ رہےہیں؟“
    ”سوچ رہا ہوں۔“ طاہر نےایک گہرا سانس لیا اور ہاتھ ماتھےسےہٹا لیا۔ ” تمہیں کیا بتائوں؟ کیسےبتائوں؟ میں تو خود نہیں جانتا کہ میرےساتھ ہوا کیا ہے؟ بس یوں لگتا ہےکہ میں کسی خواب میں گم ہو گیا تھا۔ جاگا ہوں تو سب کچھ یاد ہےمگر اسےبیان کرنامیرےلئےاتنا ہی مشکل ہےصفو‘ جتنا کسی کو یہ بتانا کہ ہم جس کی عبادت کرتےہیں وہ کیسا ہے؟کہاں نہیں ہے؟“
    ”مجھےکچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہہ رہےہیں۔“ صفیہ نےاسےحیرت سےدیکھا۔ ” آپ کل گھر سےبابا شاہ مقیم کےمزار پر گئےتھے۔ یہ کہہ کر کہ شام تک لوٹ آئیں گے۔ شام گئی۔ رات ہوئی۔ جب آدھی رات نےدم توڑا تو میرا حال برا ہو گیا۔ آپ کا موبائل بھی یہیں تھا۔ ملک نےبتایا کہ آپ سختی سےمنع کر گئےہیں کہ کوئی آپ کےپیچھےنہ آئے۔حویلی کےسب لوگ پریشان تھے۔ سب جاگ رہےتھے۔ ملازم ڈیرےپر چلےگئےکہ جب بھی آپ لوٹے‘وہ فوراً یہاں خبر کر دیں گے۔ ملک یہیں مردانےمیں رک گیا۔ اس کی پریشانی میری وجہ سےدو چند ہو گئی تھی۔ جب مجھےکچھ نہ سوجھا تو میں نےمصلہ پکڑ لیا۔ پھر مجھےکچھ پتہ نہیں کہ کتنا وقت گزرا اور کیسےگزرا۔ آپ کے آنےسےکچھ دیر پہلےمیرا بڑی شدت سےجی چاہ رہا تھا کہ میں آپ کی تلاش میں بابا شاہ مقیم کےمزار کی طرف چل پڑوں۔۔۔“
    ”ہاں۔۔۔ تمہاری اس حالت کی خبر ہےمجھے۔“ طاہر نےاس کی جانب نظر اٹھائی۔
    ”کیسے؟“ وہ حیران ہوئی۔
    ”اس نےبتایا تھا۔ “ وہ کھوئےکھوئےانداز میں بولا۔ ”اس نےمجھ سےکہا تھا کہ اب تو گھر چلا جا ورنہ وہ تیری تلاش میں نکل پڑےگی۔“
    ”کس کی بات کر رہےہیں آپ؟“ صفیہ نےاسےگھبرا کر دیکھا۔
    ”درویش کی۔“ طاہر ایک گہرا سانس لےکر بولا۔ ” وہ بابا شاہ مقیم کےمزار پر رہتا ہے۔ میں کل سارا دن اور آج رات اسی کےساتھ تھا۔“
    ”درویش کےساتھ؟“ صفیہ اچنبھےسےبولی۔
    ”ہاں۔ کل جب میں اس کےپاس پہنچا تو وہ مجھےحافظ عبداللہ اور سکینہ کےپاس لےگیا۔“
    ”حافظ عبداللہ؟ سکینہ؟“ صفیہ اور الجھ گئی۔ ۔۔ مگر ان دو ناموں کےساتھ ہی جیسےبات کا سِرا طاہر کےہاتھ آ گیا۔
    ”ہاں۔“ وہ نیم دراز ہو گیا۔” میں تمہیں ان کی کہانی سناتا ہوں صفو۔ ایسی بات تم نےشاید اپنی زندگی میں کبھی نہ سنی ہو گی۔“
    پھر وہ ہولےہولےبولتا رہا ۔ کبھی اس کی آواز بھیگ جاتی تو کبھی لہجےمیں تھکن اتر آتی۔ کبھی آنکھوں کےگوشےنم ہو جاتےتو کبھی چہرہ لرزہ براندام ہو جاتا۔بُت بنی صفیہ ‘حافظ عبداللہ اور سکینہ کی داستان سنتی رہی اور ایک ایک پل ‘ ایک ایک گھڑی میں یوں سانس لیتی رہی‘ یوں جیتی رہی جیسےوہ خود سب کچھ اپنی آنکھوں سےدیکھ رہی ہو۔
    ”اب وہ دونوں نور پور کی مسجد کےحجرےمیں یک جان دو قالب بنےبیٹھےہیں۔ ایک سانس لیتا ہےتو دوسرا زندہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک کا دل دھڑکتا ہےتو دوسرےکا سینہ متحرک لگتا ہے۔ درویش کہتا ہےیہ عشق کا عین ہےجس نےان دونوں کو اپنی باہوں میں لےلیا ہے۔ عشق کا عین جو عاشق ِ صادق کی عبادت سےشروع ہوتا ہےاور عقیدت تک پھیلا ہوا ہے۔“
    طاہر خاموش ہو گیا۔
    صفیہ کتنی ہی دیر ایک کیف میں ڈوبی رہی۔ اس کا سارا جسم سنسنا رہا تھا۔ اس سنسناہٹ میں ایک لذت تھی۔ ایک سرور تھا۔ ایسی باتیں اس نےپہلےکب سنی تھیں مگر یوں لگتا تھا جیسےوہ ان باتوں سےہمیشہ سے آگاہ ہو ۔ ان کا مفہوم اسےقطعاً اجنبی نہ لگا۔ طاہر نےجو کہا‘ ایک ایک لفظ اس کےلئے آشنا نکلا۔ اس بات پر اسےحیرت بھی تھی مگر اس سےزیادہ وہ اس لذت میں گم تھی جس نےاس کےرگ و پےمیں سفر شروع کر دیا تھا۔
    ”ارے۔۔۔“ آہستہ سےاس نےنظر اٹھائی تو بےساختہ اس کےلبوں سےنکلا۔” آپ رو رہےہیں طاہر؟“ آگےسرک کر وہ اس کےپہلو میں آ گئی۔
    ”کہاں؟“ طاہر نےدھیرےسےاپنی آنکھوں کو چھوا۔ اس کےہاتھ نم ہو گئےتو وہ مسکرا دیا۔” ارےواقعی۔۔۔ مگر کیوں؟ یہ آنسو کیوں بہہ رہےہیں؟“
    ”یہ آنسو نہیں ہیں۔ موتی ہیں۔ گوہر ہیں۔ “ صفیہ نےاس کا چہرہ ہاتھوں میں لےکر اس کی آنکھوں سےسارےموتی‘ سارےگوہر چوم چوم کر چُن لئے۔
    طاہر نےتھکےتھکےانداز میں آنکھیں موند لیں اور سر صفیہ کےسینےپر رکھ دیا جو اسےکسی بچےکی طرح سینےسےلگائےبیٹھ گئی ۔
    ” یہ تو ہوئی دن کی بات۔ رات کی بات ابھی باقی ہے۔ اب وہ سنائیے۔“ وہ پیار سےاس کےبالوں میں انگلیاں پھیرنےلگی۔
    ”رات کی بات۔۔۔“ طاہر آہستہ سےہنسا۔ ” اچھا کہا تم نے۔رات کی بات۔“ اس نےدہرایا۔ ”کہتےہیں رات گئی بات گئی۔۔۔ مگر صفو۔ لگتا ہےجو رات میں درویش کےساتھ گزار کر آیا ہوں‘ اس کی بات تو شروع ہی اب ہوئی ہے۔ ختم کب ہو گی‘ کون جانے۔“
    وہ خاموش ہو گیا۔
    صفیہ کچھ دیر اس کےبولنےکا انتظار کرتی رہی ۔ جب خاموشی طویل ہو گئی تو اس نے آہستہ سےطاہر کےچہرےکی جانب دیکھا۔ وہ تو سکون سےسو رہا تھا۔ صفیہ اس کےچہرےکو وارفتگی سےتکتی رہی۔ جی ہی نہ بھر رہا تھا اسےدیکھ دیکھ کر۔ دھیرےسےاس نےطاہر کےہونٹوں کا بوسہ لےلیا۔پھر دونوں رخساروں پر پیار کیا۔ آخر میں پیشانی کو نرم ہونٹوں سےچھوا اور اسےبستر پر آرام سےلٹا یااور بیڈ سوئچ دبا کر لائٹ آف کر دی ۔ وہ طاہر کو خوب سونےدینا چاہتی تھی۔ کمبل اس پر اچھی طرح اوڑھا کر کےوہ اس کےپائوں کی طرف سمٹ کر یوں لیٹ گئی کہ طاہر کےپائوں اس کےبازوئوں کےحلقےمیں سینےکےساتھ بھنچےتھےاور ہونٹ تلووں کو چُھو رہےتھے۔
    کمرےکےنیم اندھیرےمیں سکون نے آہستہ سے آنکھ کھولی اور کسی پہرےدار کی طرح ان کی رکھوالی کرنےلگا۔
    ٭
    جدہ ایر پورٹ پر بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی بورڈنگ کارڈحاصل کرنےکےبعد فلائٹ کی انائونسمنٹ کےانتظار میں لائونج میں چلے آئے۔
    عمرہ کےبعد انہوں نےمدینہ شریف میں پورےدو ماہ گزارےتھے۔ اب مزید قیام بڑھوانا ممکن نہ رہاتو مجبوراً بیگم صاحبہ نےواپسی کی تیاری کر لی۔ طاہر اور صفیہ کےساتھ ساتھ وسیلہ خاتون کو بھی واپسی کی اطلاع دو دن پہلےدی جا چکی تھی۔ فلائٹ کا وقت تین بجےکا تھا۔ ابھی دو بج کر چالیس منٹ ہوئےتھے۔
    بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی آمنےسامنےگدیلےصوفوں پر بیٹھےتھے۔ بیگم صاحبہ کےہاتھ میں تسبیح چل رہی تھی جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ایر پورٹ کی گہما گہمی کو نظروں میں تولتےہوئےکائونٹر پر انگوٹھا چلا رہےتھی۔رہ گیا اعجاز تو وہ سوائےبتیاں دیکھنےکےاور کیا کرتا۔
    ”ارے۔۔۔“ ایک دم بیگم صاحبہ کےہونٹوں سےتحیر بھری آواز نکلی۔ وہ ڈاکٹر ہاشمی کےپچھلی طرف کسی کو دیکھ رہی تھیں۔
    ”کیا ہوا بیگم صاحبہ؟“ ڈاکٹر ہاشمی چونکی۔
    ”ڈاکٹر صاحب۔ یہ اپنا سرمد یہاں کیا کر رہا ہی؟“ وہ جلدی سےبولیں۔
    ”سرمد۔۔۔ اور یہاں؟“ ڈاکٹر ہاشمی نےحیرت سےکہا اور پلٹ کر دیکھا۔ ”ارےہاں۔ یہ تو سرمد ہی ہے۔“ وہ اٹھ گئے۔ ” آپ بیٹھئے۔ میں اسےلےکر آتا ہوں۔“ وہ کہہ کر تیزی سےباہر جاتےسرمد کی طرف بڑھےجو احرام باندھےخارجی دروازےکی طرف چلا جا رہا تھا۔
    ”سرمد۔۔۔“ انہوں نےاسےپیچھےسے آواز دی۔
    سر جھکائےدھیرےدھیرےقدم اٹھاتا سرمد رک گیا۔ بڑی آہستگی سےاس نےگردن گھمائی اور ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھا۔
    ڈاکٹر ہاشمی کےذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ دونوں باپ بیٹا آمنےسامنےکھڑےتھے۔ سرمد کندھےپر سفری بیگ ڈالےبڑی سپاٹ سی نظروں سےانہیں دیکھ رہا تھا اور ڈاکٹر ہاشمی اس کےسُتےہوئے‘ زرد اور بجھےبجھےچہرےکو حیرت سےجانچ رہےتھے۔
    ”ارےابو آپ۔۔۔“ بڑی آہستگی سےسرمد کی آنکھوں میں شناسائی جاگی۔ جیسےاس نےانہیں پہچاننےمیں بڑی دقت محسوس کی ہو۔
    ”سرمد۔“ ڈاکٹر ہاشمی اس کےکمزور سراپےکو نظروں سےکھنگالتےہوئےبولے۔ ”یہ تم نےاپناکیا حال بنا رکھا ہےبیٹے۔ تمہاری صحت کو کیا ہوا؟“ انہوں سےسرمد کو گلےلگا لیا۔
    ”صحت کو کیا ہوا ابو۔ اچھی بھلی تو ہے۔“ وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا اور ان کےکندھےپر سر رکھ دیا۔
    ”خاک اچھی ہے۔ مجھےبےوقوف بنا رہےہو۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاسےبھینچ لیا۔ پھر اس کی گردن پر بوسہ دیتےہوئےاسےخود سےالگ کیا۔
    ”مجھےکچھ نہیں ہوا ابو۔ آپ کو وہم ہو رہا ہے۔“ نم آنکھوں سےباپ کو دیکھ کر سرمد نےکہا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا وہ ماں جیسی شفقت لٹاتےباپ کےکندھےپر سر رکھ کر خوب روئے۔ اتنا روئےکہ اندر رکا ہوا سارا غبار دھل جائے۔جل تھل ہو جائے۔۔۔ مگر اس نےخود پر قابو پا لیا۔
    ” آپ عمرےسےفارغ ہو گئےاور میں کرنےجا رہا ہوں۔“ سرمد نےباپ کا ہاتھ تھام کر کہا۔
    ” آئو۔ ادھر آئو۔ بیگم صاحبہ سےملو۔“ وہ اسےلئےہوئےبیگم صاحبہ کےپاس چلے آئے۔ سرمد نےانہیں ادب سےسلام کیا اور ان کےپاس بیٹھ گیا۔اعجاز کو جیسےاس نےدیکھا ہی نہ تھا۔
    ”ارےبیٹے۔ یہ تمہاری صحت کو کیا ہو گیا؟“بیگم صاحبہ نےسلام کا جواب دیتےہوئےاس کےسر پر پیار سےہاتھ پھیرا۔
    ”یہی ابو بھی کہہ رہےہیں آنٹی۔“ وہ ہنسا۔ ”مگر میں تو خود کو بالکل ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔“
    ”ہم دونوں غلط کہہ رہےہیں اور تم ٹھیک کہہ رہےہو۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاپنی جگہ بیٹھتےہوئےخفگی سےکہا تو سرمد نےسر جھکا لیا۔
    ”چلئےابو۔ آپ ہی ٹھیک ہیں ۔“
    ”تو اب سیدھےسیدھےبتا دو کہ تمہاری اس کمزوری اور خراب صحت کا سبب کیا ہے؟“ ڈاکٹر ہاشمی نےتلخی سےکہا۔
    ”کچھ خاص نہیں ابو۔ بس بخار نےیہ حالت کر دی۔ چند دنوں میں ٹھیک ہو جائوں گا۔ واپس جاتےہی اپنا علاج باقاعدگی سےکرائوں گا۔“
    “واپس کہاں؟“ ڈاکٹر ہاشمی نےسختی سےکہا۔” تم عمرہ کر کےسیدھےپاکستان آئو گے۔ رزلٹ آ چکا ہے۔ اب واپس جانا ضروری نہیں ہے۔“
    ”مگر ابو۔ مجھےساری کاغذی کارروائیاں پوری کرنا ہیں۔ اپنےرزلٹ ڈاکومنٹس وصول کرنا ہیں اور۔۔۔“
    ”کچھ نہیں سنوں گا میں۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاسی لہجےمیں کہا۔ ان کا دل تڑپ رہا تھا۔ پھول جیسا بیٹا سوکھ کر کانٹاہو گیا تھا۔ لگتا تھا کوئی روگ اندر ہی اندر اسےچاٹ رہا ہے۔ انہوں نےبال دھوپ میں سفید نہیں کئےتھے۔ انہیں کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ بات کیا ہو سکتی ہے؟مگر وہ سرمد سےبات کئےبغیر کسی نتیجےپر پہنچنا نہ چاہتےتھے۔ اور بات کرنےکےلئےیہ جگہ مناسب تھی نہ یہ ماحول۔
    بیگم صاحبہ بھی اندر ہی اندر کسی سوچ کےگرد خیالوں کا جال بُن رہی تھیں۔ باپ بیٹےکی گفتگو میں انہوں نےکوئی دخل نہ دیا۔ تاہم اتنا تو وہ بھی سمجھ ہی سکتی تھیں کہ بخار جینےکی امنگ چھین لیتا ہےنہ زندگی کو بےرونق کردیتا ہے۔ سرمد کی آنکھوں میں زندگی کی وہ علامت مفقود تھی جو چمک چمک کر انسان کو حالات کےسامنےسینہ سپر رکھتی ہے۔ اسےدیکھ کر تو لگتا تھا وہ جینا ہی نہیں چاہتا۔بس کسی مجبور کی طرح سانس لےرہا ہےکہ موت آنےتک زندہ کہلا سکے۔ ان کا جی چاہا ڈاکٹر ہاشمی سےکہیں کہ سرمد کی اس حالت کا سبب ضرور کوئی جذباتی حادثہ ہے۔ طاہر کی ماں ہونےکےناطےوہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ محبت کی چوٹ سےبڑا کوئی ایسا حادثہ نہیں ہےجو انسان کو نیم جان کر دےمگر پھر انہوں نےبھی اس بات کو پاکستان پہنچنےتک کےلئےموقوف کر دیا۔
    ”تم عمرہ کر کےفوراً وطن پہنچو۔ اور اگر تمہارا ارادہ کسی گڑ بڑ کا ہےتو میں کچھ بھی کر کےرک جاتا ہوں۔ تمہیں ساتھ لےکر ہی جائوں گا۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےکہا تو سرمد گھبرا گیا۔
    ”کیسی باتیں کر رہےہیں ابو۔“ اس نےجلدی سےکہا۔ ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہاں سےلندن نہیں جائوں گا۔ “
    ”لندن نہیں جائو گےاور پاکستان آئو گے۔ یوں کہو۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےلفظوں پر گرفت کمزور نہ ہونےدی۔
    ”جی ہاں۔ ایسا ہی ہو گا۔“ وہ بیچارگی سےہنس پڑا۔
    ”پیسےویسےہیں ؟“ انہوں نےجیب سےپرس نکالا۔
    ”وافر ہیں ابو۔ ضرورت ہوتی تو میں خود ہی کہہ دیتا۔“ اس نےانہیں روک دیا۔
    ”پھر بھی یہ رکھ لو۔“ انہوں نےویزا کارڈ پرس سےنکال کر اسےتھما دیا۔
    سرمد جانتا تھا ‘ ضد کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئےاس نےخاموشی سےکارڈ ‘ بیگ کھول کر اندر رکھ لیا۔
    اسی وقت پاکستان جانےوالی فلائٹ کی انائونسمنٹ کی جانےلگی۔
    ”اپنا خیال رکھنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی کےساتھ ہی بیگم صاحبہ اور سرمد بھی اٹھ گئی۔ انہوں نےکھینچ کر اسےپھر گلےسےلگا لیا۔ وہ بھی باپ کےسینےسےلگا ایسےسکون میں ڈوب گیا جس نےاس کی آنکھیں نم کر دیں۔ کتنی ہی دیر گزر گئی ۔ تب دونوں الگ ہوئے۔ ڈاکٹر ہاشمی نےچشمہ اتارا۔ رومال سے آنکھیں خشک کیں ۔ سرمد کی آنکھیں پونچھیں۔
    ”ارے۔ آپ تو بچوں کی طرح جذباتی ہو گئےڈاکٹر صاحب۔“ بیگم صاحبہ نےصورتحال کو مزید گھمبیر ہونےسےبچانا چاہا۔
    ”یہ میرا اکلوتا بچہ ہےبیگم صاحبہ اور میں عمر کےاس حصےمیں ہوں جب انسان ویسےہی بچہ بن جاتا ہے۔“ وہ پھیکےسےانداز میں مسکرائےتو سنجیدگی میں خاصی کمی آ گئی۔
    ”اچھا آنٹی۔ اللہ حافظ۔“ سرمد نےسر جھکا دیا۔ بیگم صاحبہ نےاس کےسر پر پیار دیا اور پیشانی چوم لی۔
    ”جیتےرہو۔ جلدی پاکستان آ جانا۔ زیادہ انتظار نہ کرانا ہمارےڈاکٹر صاحب کو۔“
    ”جی آنٹی۔“ اس نےمختصراً کہا اور باپ کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ہونٹوں سےلگا لیا۔” اپنا خیال رکھئےگا ابو۔ میرا بھی اور کون ہے آپ کےسوا۔“
    ”جلدی آ جانا۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےدوسرےہاتھ سےاس کےبالوں میں انگلیاں پھیریں اور ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔ نجانےکیوں ابھی تک انہیں سرمد کےپاکستان چلے آنےکا یقین نہ ہو رہا تھا۔
    ”جی ابو۔“ اس نےباپ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ تیزی سےپلٹا اور خارجی دروازےکی طرف بڑھ گیا۔جب تک وہ باہر نہ نکل گیا‘ ڈاکٹر ہاشمی اسےایک ٹک دیکھتےرہی۔پھر جب وہ ان کی نظروںسےاوجھل ہو گیا تو بیگم صاحبہ کی طرف مڑی۔
    ”نجانےکیا ہوگیا ہےاسے؟“ وہ آنکھوں کی نمی چھپاتےہوئےبڑبڑائے۔
    ”اسےپاکستان آ لینےدیں۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔ فکر نہ کریں۔“ بیگم صاحبہ نےانہیں تسلی دی لیکن نجانےکیوں یہ الفاظ کہتےہوئےان کا دل بڑےزور سےدھڑک اٹھا۔
    ” آئیے۔ چلیں۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاثبات میں سر ہلاتےہوئےرن وےکی جانب کھلنےوالےگیٹ کا رخ کیا۔ بیگم صاحبہ نےایک نظر پلٹ کر اس دروازےکی طرف دیکھا جہاں سےچند لمحےپہلےسرمد باہر گیا تھا۔ پھر اعجاز کےساتھ ڈاکٹر ہاشمی کےپیچھےقدم بڑھا دیے۔
    جس دن سرمد کی وسیلہ خاتون سےبات ہوئی‘ وہ اس کی زندگی میں مسکراہٹوں اور شگفتگی کا آخری دن تھا۔
    ہنستا کھیلتا‘ زندگی سےبھرپور قہقہےلگاتا سرمد ایک دم مرجھا گیا۔ اس کےساتھی لڑکےاور لڑکیاں اس کی حالت پر پہلےتو حیران ہوئے۔ اسےبہلانےاور کریدنےکی کوششیں کرتےرہی۔ اس کےلبوں سےچھن جانےوالی ہنسی کی واپسی کےراستےڈھونڈتےرہےلیکن جب انہیں اپنی ہر کوشش میں ناکامی ہوئی تو آہستہ آہستہ وہ اس سےدور ہوتےچلےگئے۔ لندن کی ہنگامہ خیز رُتوں میں کسی کےپاس اس پر ضائع کرنےکےلئےوقت نہ تھا۔ ایک انڈین لڑکی ریحا نےبڑےدنوں تک اس کاانتظار کیا۔ اس کےفلیٹ کےچکر کاٹی۔ دن رات کی پرواہ کئےبغیر اسےاپنےماحول میں کھینچ لانےکےجتن کئےمگر جب سرمد کی اداسی بڑھتی ہی چلی گئی۔ صحت مسلسل گرنےلگی اور ہونٹوں پر سوائے آہوں کےکچھ نہ رہا تو وہ بھی مایوس ہو کر لوٹ گئی۔
    رزلٹ کےبعد یہ مہینہ بھر کا وقت پارٹیوں‘ ہائو ہو اور مستی کا تھا۔ سرمد کےگرو پ کےسبھی سٹوڈنٹ کامیاب ہو ئےتھے۔ واپس اپنےاپنےملک جانےسےپہلےوہ آخری دنوں کو یادگار بنا دینا چاہتےتھے۔ سرمد ان سےکٹتا کٹتا بالکل اکیلا ہو گیا تو وہ اسےبھولنےلگے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ پورا ایک ہفتہ اپنےفلیٹ میں پڑا بخار سےجنگ لڑتا رہا اور کوئی اسےملنےبھی نہ آیا۔ اس دن کےبعد وہ خود ہی ان سب سےدور ہو گیا۔
    وہ کرتا بھی کیا؟ اس نےاپنےحساب میں کوئی غلطی کی تھی نہ وقت ضائع کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اس نےڈاکٹر ہاشمی کےساتھ اپنےطور پر کی ہوئی کمٹ منٹ نبھانےکےلئےیہ فیصلہ کر لیا کہ اپنا رزلٹ آنےتک وہ ان سےکوئی بات نہیں کرےگا ۔ جب اس کا رزلٹ نکلا تو اپنے آپ سےکئےہوئےوعدےکےمطابق اس نےسب سےپہلےانہیں یہ خوشخبری سنانا چاہی مگر ساتھ ہی اس خیال سےکہ اس اچھی خبر کےبعد وہ انہیں صفیہ کےرشتےکےلئےاس کےگھر جانےکو کہےگا‘ وسیلہ خاتون سےپوچھ لینا مناسب سمجھا۔ اسےبظاہر اپنےلئےانکار کی کوئی وجہ نظر نہ آ رہی تھی ‘ پھر بھی وہ ان کا عندیہ لےلینا چاہتا تھا۔ تاکہ کسی بھی قسم کی کوئی بدمزگی پیدا ہی نہ ہو۔ اس کی یہ احتیاط ایک طرف اگر اس کےلئےزندگی بھر کےزخم کا پیغام لےکر آئی تو دوسری طرف باپ سےاس بارےمیں بات کر کےجو شرمندگی اس کےحصےمیں آنےوالی تھی‘ اس سےبچ گیا۔
    سب باتیں اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت تھیں مگر وہ اپنےدل کا کیا کرتا جو دھڑکنا ہی بھولتا جا رہا تھا۔صفیہ کا خیال اب اس کےلئےشجرِ ممنوعہ تھا مگر وہ اس کےخیال سےدامن چھڑاتا تو کیسے؟ اس کی راتیں بےخواب ہو گئیں۔ دن بےرونق ہو گئے۔ وقت کا ایک ایک لمحہ ٹیس بنتا چلا گیا۔ سانس لیتا تو آہ نکلتی۔ آنکھ اٹھاتا تو ہر طرف اس دشمن ِ جاں کی تصویر سجی نظر آتی جو کبھی اس کی تھی ہی نہیں۔وہ اکیلا ہی اس آگ میں جلتا رہا تھا۔ اس نےصفیہ کےساتھ گزرےہوئےایک ایک پل میں جھانکا۔ کسی جگہ اسےصفیہ کی جانب سےکوئی ہمت افزائی کا اشارہ نہ ملا۔ کہیں اس کی نظروں سےچھلکنےوالا کوئی پیغام نہ تھا۔ وہ کس وہم کےسہارےزندگی میں اس کےتصور کوجینےکا بہانہ مان لیتا؟اگر یہ عشق تھا تو یک طرفہ تھا۔ اگر یہ محبت تھی تو صرف اسی کی طرف سےتھی۔اگر یہ پیار تھا تو اس میں صفیہ کی رضا کہیں نہ تھی۔
    آہیں‘ آنسو‘ پچھتاوا۔ یہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ صفیہ کا خیال آتا تو آہ ہونٹوں پر مچل جاتی۔ اس کےطاہر کا ہو جانےکےبارےمیں سوچتا تو آنسو دل کا دامن بھگو دیتی۔ اپنی طرف سےکی گئی دیر پچھتاوا بن کر دل مسل ڈالتی تو وہ تڑپ تڑپ جاتا۔بڑی کوشش کی کہ کسی طرح خود کو سنبھال لےمگر عشق میں ناکامی کا داغ ایسی آسانی سےدُھل جانےوالا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ ناسور تو ایساتھاجو اندر کی جانب رِستا تھا۔ اس کا سارا زہر سوچوں اور خیالوں میں اترتا اور وہیں پڑا چرکےلگایا کرتا۔ وہ چندہفتوں ہی میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔
    ایک دن فلیٹ کےپتےپر خط آیا۔ کھولا تو یونیورسٹی کی طرف سےانوی ٹیشن تھا۔ یونیورسٹی والوں نےکامیاب طلبہ کےاعزاز میں ایک فنکشن ارینج کیا تھا جس میں انہیں ڈگریاں دی جانےوالی تھیں۔ تب اسےخیال آیا کہ اس نےابھی تک باپ کو اپنی کامیابی کی اطلاع ہی نہیں دی۔ خود کو سنبھالا کہ باپ کہیں اس کی آواز اور لہجےسےاس کےدُکھ کا بھید نہ جان لی۔ پھر اسےفون کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی نےاس کی آواز سن کر بیتابی سےپوچھا کہ اتنےدنوں تک رابطہ کیوں نہیں کیا۔ بتایا کہ وہ اسےوقفےوقفےسےکنٹیکٹ کرنےکی کوشش کرتےرہےہیں مگر اس کا موبائل نہ مل رہا تھا۔ سرمد نےبہانہ کیا کہ موبائل خراب تھااور وہ رزلٹ آنےپر ہی انہیں بتانا چاہتا تھااس لئےجان بوجھ کر رابطہ نہیں کیا۔ وہ اس کی کامیابی کا سن کر پھولےنہ سمائے۔ اس وقت سرمد کو پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں نہیں ‘ ارض ِ حجاز پر ہیں۔
    تقسیم ِ اسناد کی تقریب میں شرکت کےلئےوہ عین وقت پر گیا اور ڈگری وصول کر کےنکال آیا۔ ریحا نےاسےروکنےکی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ لوٹ آیا۔
    اب اس کا لندن میں کوئی کام نہ تھا۔اہم امور نمٹانےمیں زیادہ سےزیادہ ایک ہفتہ لگ جاتا ۔ اس کےبعد وہ وطن جا سکتاتھا مگر وہ وہاں نہ جانےکےبارےمیں اپنا فیصلہ وسیلہ خاتون کو سنا چکا تھا۔ ویسےبھی وہ وہاں جا کر کیا کرتا؟ خود پر قابو نہ رکھ پاتا تو معمولی سی حرکت صفیہ کےلئےوبال ِ جان بن سکتی تھی۔ اس نےعزم کر لیا کہ کبھی پاکستان نہیں جائےگا۔ ڈاکٹر ہاشمی کو کس طرح سمجھایا جاتا‘ اس بات کو اس نے آنےوالےوقت پر چھوڑ دیا۔
    پندرہ دن پہلے آخری بار اس کی بات ڈاکٹر ہاشمی سےہوئی۔ ان کا ارادہ ابھی مزید مدینہ شریف میں رکنےکا تھا۔ تین مہینےکا وقت پورا کئےبغیر وہ واپس پاکستان جاناچاہتےتھےنہ بیگم صاحبہ۔
    اب پہلی بار وہ سوچ میں پڑگیا۔ پندرہ دن بعد جب ڈاکٹر ہاشمی کا ارض ِ حجاز پر قیام ختم ہو جاتا تو وہ لازماً واپس چلےجاتے۔ پھر وہ لندن میں مزید رکنےکا کیا بہانہ کرتا؟
    سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھوڑا بن گیا۔ ایک طرف صفیہ سےدور رہنےکا ارادہ اور دوسری طرف تنہائی کا مارا باپ۔ جو اس کےلئےگن گن کر دن گزار رہا تھا۔
    اس شام ریحا اس سےملنے آئی۔ دونوں کتنی ہی دیر چُپ چاپ بیٹھےرہے۔ وہ اس کی حالت پر بیحد دُکھی تھی۔
    ”سرمد۔“ خاموشی طویل ہو گئی تو ریحا نےلب کھولے۔ ”ایک بات پوچھوں؟“
    ”پوچھو۔“ اس نےبجھی بجھی نظروں سےاس کےملیح چہرےکو دیکھا۔
    ”مجھےتمہارےنجی معاملےمیں دخل تو نہیں دینا چاہئےلیکن ہم نےابھی تک بڑا اچھا وقت گزارا ہے۔ تم اسےدوستی کہہ لو مگر میں یہ کہنےمیں کوئی باک نہیں رکھتی کہ میں تم میں انٹرسٹڈ تھی۔ آں ہاں۔۔۔ چونکو مت۔“ ریحانےہاتھ اٹھا کراسےکچھ کہنےسےروک دیا۔ ”اسی لئےمیں اب تک تمہارےلئےخوار ہو رہی ہوں۔ بارہا ایسا ہوا ہےکہ تم مجھ سےبات نہیں کرنا چاہتےتھےمگر میں ڈھیٹ بن کر تمہارےارد گرد منڈلاتی رہی۔ یہ جانتےہوئےبھی کہ ہم دونوں کا مذہب جدا ہے۔ کلچر جدا ہے۔ رہن سہن جدا ہے‘ میں اس آس پر تمہیں مائل کرنےکی کوشش کرتی رہی کہ تم لندن کے آزاد ماحول میں پل بڑھ رہےہو۔ ہم کسی نہ کسی کمپرومائز پر پہنچ کر ایک ہو جائیں گے۔ تمہاری ایک دم بدل جانےکی کیفیت نےمجھےتم سےقریب رکھا جب میں نےپوری طرح جان لیا کہ ہماری یونیورسٹی کی یا باہر کی کسی لڑکی میں تم انٹرسٹڈ نہیں ہو۔ مگر تمہارےگریز اں رویےنےمجھےبددل کر دیا تو میں کچھ دنوں کےلئےتم سےدور چلی گئی۔ یہ سوچ کر کہ شاید میری دوری تمہیں میرےہونےکا احساس دلائےاور تم مجھ سےملنا چاہو مگر ۔۔۔“ وہ پھیکےسےانداز میں مسکرائی۔ ”یہ میری بھول تھی۔ تم آج بھی ویسےہی ہو جیسےچند ماہ پہلےپتھر ہو گئے۔ بہرحال۔۔۔“ اس نےاپنےبال جھٹکےسےچہرےسےہٹائےاور اس کی حیران حیران آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ ” آج میں تم سےیہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا تمہاری یہ حالت کسی لڑکی کی وجہ سےہے؟“
    سرمد نےاس سےنظریں چرا لیں۔ اس کےلب کانپےاور سر جھک گیا۔
    ”خاموش مت رہو سرمد۔“ وہ اٹھی اور اس کےسامنےقالین پر گھٹنےٹیک کر بیٹھ گئی۔ اس کےہاتھ اپنےہاتھوں میں لئےاور اسےوالہانہ دیکھنےلگی۔ ”یہ مت سوچو کہ تمہارےاقرار سےمجھےدُکھ ہو گا۔ہوگا مگر اس سےزیادہ یہ ضروری ہےسرمد کہ میں حقیقت جان لوں تاکہ مجھےیہ پچھتاوا نہ رہےکہ میں نےتم سےاصل بات جاننےکی کوشش ہی نہیں کی۔ بولو سرمد۔ ویسےبھی جب تک تم اپنا دُکھ کسی کو بتائو گےنہیں ‘ تمہارےغم کا مداوا نہ ہو سکےگا۔ یہی سوچ کر بولو سرمد کہ شاید میں‘ تمہارےکسی کام آ سکوں۔“
    بےاختیار سرمد کی آنکھوں سے آنسو ٹپکےاور ریحا کےہاتھوں پر گرے۔
    ”سرمد۔“ بےچین ہو کر ریحا نےاس کا چہرہ ہاتھوں میں لےلیا‘ جس پر کئی دنوں کی بڑھی ہوئی شیو نےاداسی اور یاسیت کھنڈ دی تھی۔
    ”میں کیا بولوں ریحا؟“ وہ یوں رو دیا جیسےاسےاب تک ریحا ہی کےکندھےکا انتظار تھا۔ ریحا اٹھی اور اس کےپاس صوفےپر بیٹھ گئی۔ سرمد نےدونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپالیا اور اس کی گود میں سر رکھ کر بلکنےلگا۔ریحا اس کےبالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی اور اپنے آنسوپینےکی ناکام کوشش کرتی رہی۔
    جی بھر کر رو لیا تو سرمد کا من ہلکا ہو گیا۔ ریحا نےاس کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ اصرار کر کےشیو کرائی۔کپڑےبدلوائےاوراپنی ننھی سی ٹو سیٹر میں اسےہل پارک میں لے آئی۔
    شام ہونےکو تھی۔ آمنےسامنےگھاس کےفرش پر بیٹھےجب چند منٹ سکوت کےعالم میں گزر گئےتو ریحا نےمحبت سےاس کا ہاتھ تھام کر سہلاتےہوئےکہا۔
    ”ہاں تو سرمد جی۔ اب کھل جائیے۔ ذرا بتائیےتو کہ وہ کون مہ وش ہےجس نےہمارےحق پر ڈاکہ ڈالا ہے؟“
    ”ڈاکہ؟“ سرمد نےنظریں اٹھائیں اور مسکراتی ہوئی ریحا کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ اس کےلبوں پر بھی ابھری۔ پھر یہ مسکراہٹ ایک سرد آہ میں بدل گئی۔
    ”وہ مجھ سےٹیوشن پڑھا کرتی تھی ریحا۔۔۔“ ہولےہولےاس نےکہنا شروع کیا۔ ریحا سنتی رہی اور جب سرمد نےبات ختم کی تو ریحا کو اداسی پوری طرح گرفت میں لےچکی تھی۔
    سرمد خاموش ہو گیا۔
    ریحا سر جھکائےتنکےتوڑ تی رہی۔ لگا‘ جیسےاسےسرمد کی بات ختم ہونےکا پتہ ہی نہیں۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تب ہوا کےایک سرد جھونکےنےانہیں کپکپاکر رکھ دیا۔
    ریحا نےسر اٹھایا۔ شام اتر آئی تھی۔پرندےچہچہانا ختم کر چکےتھے۔پارک سےلوگ رخصت ہو رہےتھے۔
    ”تمہارا اداس ہونا سمجھ میں آتا ہےسرمد۔“ ریحا نےایک گہرا سانس لیا۔”واقعی۔ بات ہی ایسی ہےکہ انسان اپنےقابوسےباہر ہو جاتا ہے‘ جیسےکہ تم۔۔۔ مگر اب کیا؟ ساری زندگی تو دُکھ کی یہ چادر اوڑھ کر نہیں گزاری جا سکتی۔“
    ”گزاری جا سکتی ہےریحا۔“ پہلی بار سرمد کےلبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ بکھری۔ ” آج سےپہلےمجھےبھی یہ زندگی بوجھل لگتی تھی۔ سانس جیسےسینےمیں آرا بن کر چلتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جیسےتیسےیہ جینا ختم کر کےدنیا سےچل دوں مگر۔۔۔“ اس نےبڑی محبت سےریحا کا ہاتھ تھام لیا۔ ” آج تمہارےکندھےپر سر رکھ کر رو لیا ہےتو لگتا ہےسانس لینا آسان ہو گیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان مرتےدم تک یاد رکھوں گا ریحا۔تم نےمیرا من دھو کر سارا غبار اپنےدامن میں سمیٹ لیا ہی۔ اب صفیہ کا دُکھ ‘ دُکھ نہیں رہا۔ ایک نشہ بن گیا ہی۔ اس کی یاد اب نشتر نہیں چبھوتی‘ ٹیس بن کر درد جگاتی ہی۔ اس درد میں ایک لذت ہےریحا۔ میں نےایسی لذت کبھی محسوس ہی نہیںکی ‘ جس سے آج گزر رہا ہوں۔یاد ایسی مست بھی ہوتی ہے‘ مجھےاس سےتم نے آشنا کیا۔ یہ غم کا مزہ تمہاری دین ہے۔ صفیہ کےساتھ تمہاری یاد جُڑ گئی ہےریحا۔ اسےمیں چاہوں بھی تو الگ نہیں کر سکتا۔“
    ”میں ایسی گہری اور مشکل مشکل باتیں نہ کر سکتی ہوں نہ سوچ سکتی ہوں سرمد۔“ ریحا نےمسکرا کر کہا۔ ”بس یہ جان کر خوش ہوں کہ اب تم زندگی کی طرف لوٹ رہےہو۔ ساری بات سمجھ کر ایک امید کی جوت دل میں جگا لی ہےمیں نےکہ شاید ایک دن تم میرےپاس آ جائو اور کہو کہ ریحا۔ مجھےاپنی باہوں میں لےلو۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ آئو مل کر ایک آشیانہ بنائیں جس میں۔۔۔“
    ”بس۔“ سرمد نےاس کا ہاتھ اپنےہونٹوں سےلگا لیا۔ ”مجھ سےکوئی وعدہ نہ لیناریحا۔ اگر تم میرا نصیب ہو تو ایسا ضرور ہو گا اور اگر میں تمہارا حصہ نہیں ہوں تو آرزو کاپودا پالنےسےکوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔“
    ”جانتی ہوں۔“ ریحا نےاپنا ہاتھ واپس کھینچا اور چوم لیا۔ ”تمہارا یہ بوسہ میرےلئےکافی ہے۔ تمہارا یہ لمس میری تمنا کےپودےکو سینچتا رہےگا سرمد۔ میں جب تک ممکن ہو سکا تمہارا انتظار ضرور کروں گی۔ زندگی کے آخری سانس تک انتظار کا وعدہ اس لئےنہیں کر سکتی کہ ماں باپ کی نافرمان نہیں ہونا چاہتی تاہم کوشش کروں گی کہ اس وقت تک کسی کی سیج نہ سجائوں جب تک تمہاری طرف سےناامیدی کی خزاں کا جھونکا میرےیقین کےگلشن میں نہ در آئے۔“
    ایک عجیب سےوعدےاور امید کےدیپ دلوں میں جلا کر دونوں اٹھےاور چل پڑی۔ اسےفلیٹ پر چھوڑ کر ریحا نےباہر ہی سےرخصت چاہی تو سرمدکو پتہ چلا کہ وہ اگلےدن واپس انڈیا جارہی ہے۔
    ”کبھی لوٹنا چاہو تو بڑا سیدھا سا پتہ ہےسرمد۔ سرینگر میں جموں کشمیر روڈ پر کوٹھی نمبر تین میرا گھر ہے۔ میرا موبائل نمبر تمہیں ازبر ہے۔ کوشش کرنا کہ یہ سیٹ تم بھی کبھی نہ بدلو جس کا نمبر میرےپاس ہے۔اس پر میں اکثر تمہیں تنگ کرتی رہوں گی۔“
    ”واپس جا کر کیا کرو گی؟“ سرمد نےاس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
    ”سب سےپہلےماں سیتا کےمندر جائوں گی۔ ان سےتمہیں مانگوں گی۔ فرقت کا دُکھ وہ خوب سمجھتی ہیں۔ مجھےیقین ہےاگر تم میرےنصیب میں نہیں بھی ہو تو وہ میرا نصیب بدل دیں گی۔ تمہیں ضرور میرےدامن میں ڈال دیں گی۔ ۔۔اور جب تک ایسا ہو نہیں جاتا تب تک مجھےسکون اور سُکھ کا وردان ضرور دیں گی۔“
    ریحا نےاس کا ہاتھ ہونٹوں سےلگایا ۔ آنکھوں سےمس کیا اور اس کی جانب دیکھےبغیر گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔ شاید اس میں جاتےہوئےسرمد کو چھوڑ جانےکےاحساس سے آنکھیں ملانےکی ہمت نہ تھی۔
    ریحا چلی گئی۔
    مگر۔۔۔ وہ اپنی جگہ بُت بنا کھڑا تھا۔ اس کےدماغ میں بگولےسےچکرا رہےتھے۔ کانوں میں سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ کیا کہہ گئی تھی ریحا؟ اس کا ایک بُت پر کیسا پختہ یقین تھا ۔ اسےکیسا اعتماد تھا ایک پتھر پر کہ وہ اس کا مقدر بدل دےگا۔ اسےسکون اور اطمینان بخش دےگا۔ ہونی کو انہونی کر دکھائےگا۔ یہ ایک باطل مفروضےپر قائم مذہب نما ڈھکوسلےپر یقین رکھنےوالی ریحا کا حال تھا اور وہ خود جو ایک آفاقی‘ ازلی و ابدی سچ کےحامل دین کا پیروکار تھا۔ جس کا ایمان ایک ‘ اکیلےاور واحد اللہ پر تھا۔ اس کی سوچ اپنےمعبود کی طرف گئی ہی نہ تھی‘ جو اسےسب کچھ دےسکتا تھا۔ انہونی کو ہونی کر سکتا تھا۔ سکون اور سُکھ کےلئےجس کی طرف رجوع کر لینا ہی کافی تھا۔ وہ اس کےبارےمیں اب تک غفلت کا شکار تھا۔
    ندامت سےاس کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ جسم میں شرمندگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ صفیہ تو اب اس کی نہ ہو سکتی تھی مگر اس نےاپنےخالق سےاس زخم کا تریاق مانگا ہی نہ تھا۔تنہائی اوڑھ لی تھی۔ اداسی پہن لی تھی۔ ناامیدی کےرستےپر تھکےتھکےقدم اٹھاتا وہ زندگی کا لاشہ گھسیٹ رہا تھا۔ بھول گیا تھا کہ ہر غم‘ ہر دُکھ ‘ ہر زخم کا مداوا جس کےپاس ہےوہ اس کی شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہےاور اس کےپکار لینےکا ہر آن منتظر ہے۔
    ایک بُت پرست نےاپنےدو فقروں سےاسےملیا میٹ کر دیا۔ گرتا پڑتا وہ فلیٹ میں پہنچا اور قبلہ رخ ہو کر سجدےمیں گر پڑا۔ کچھ نہ کہا۔ کچھ نہ بولا۔ بس‘ روتا رہا۔ ہچکیاں لیتا رہا۔ سسکتا رہا۔ اس کےحضور ندامت کی سب سےاعلیٰ زبان آنسو ہیں اور آنسو اسےجس قدر پسند ہیں‘ اس کےبارےمیں آنسو بہانےوالا سب سےبہتر جانتا ہے۔یہ آبگینےجب جب پھوٹتےہیں تب تب اس کےدربار میں بیش قیمت ہوتےجاتےہیں۔
    دوسرےدن اس نےعمرےکےلئےویزا اپلائی کر دیا۔ اس کےاندر ایک اور ہی شمع روشن ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھااُڑ کر حرم جا پہنچے۔ اپنے آقا کےحضور جائےاور پھر لوٹ کر نہ آئے۔ اسےشرم آتی تھی ریحا کےپتھر کےبےجان بھگوان کےبارےمیں سوچ کر ۔ جس کا ذکر کر کےریحا نےاسےاس کےسچےخدا کی طرف رجوع کا ادراک بہم پہنچایا تھا۔ریحا کا یہ دوسرا احسان اس کےپہلےاحسان سےبھی بڑا تھاجو اس نےسرمد کی ذات پر کیا تھا۔
    ٭
    ڈاکٹر ہاشمی سےرخصت ہو کر وہ ایر پورٹ سےباہر نکلا اور مکہ کےلئےروانہ ہو گیا۔
    ہوٹل میں سامان رکھ کر حرم پہنچا تو اس کی حالت غیرہو گئی۔ جسم سےجان نکل گئی۔ ہاتھ پائوں سرد پڑ گئے۔ وہ گرتا پڑتا صحن ِ حرم میں داخل ہوا اور گر پڑا۔ اپنےرب کےگھر کےسامنےسجدےمیں پڑا وہ سسک رہا تھا۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کا سر اٹھانےکو جی ہی نہ چاہتا تھا۔ پھر جیسےدل کو قرار سا آ گیا۔سکون اس کا شانہ تھپک کر تسلی دیتا ہوا جسم و جان میں اتر گیا۔ آنسو خشک ہو گئےیا شاید ختم ہو گئے۔
    اس نےسجدےسےسر اٹھایا۔ کعبہ ‘ اپنےاللہ کےپہلےاور آخری گھر پر نظر ڈالی۔ اسےلگا ‘ کعبہ اسےاپنی طرف بلا رہا ہے۔ باہیں پسارےاسےسینےسےلگانےکو اشارےکر رہا ہے۔ وہ آہستہ سےاٹھا اور عمرےکےارکان ادا کرنےلگا۔ حجرِ اسود کو چومنےکےلئےجھکا تو ایک خیال برق کی طرح اس کےدل و دماغ میں روشنی دےگیا۔
    ”اسےمیرے آقا نےبوسہ دیا ہے۔“
    اس کےلئےحجرِ اسود کا بوسہ لینا مشکل ہو گیا۔ جس پتھر کو اس کے آقا نےاپنےلب ِ اطہر سےچوماتھا‘ وہ اسےکس ادب سےبوسہ دے؟ کس احترام سےہونٹوں سےلگائے؟ لرزتےکانپتےہوئےاس نےاس جنتی پتھر کو بوسہ دیا اور بادل نخواستہ پیچھےہٹ گیا۔ طواف کرتےکرتےوہ جب بھی حجرِ اسودکےبوسےکےلئےرکا‘ اس کی یہی حالت ہوئی۔
    وہ مکہ میں ارکان ِ عمرہ سےفارغ ہو گیا۔اب اسےمدینہ شریف جانا تھا۔ اپنےاللہ کےحبیب پاک کےحضور حاضر ہونا تھا۔ اپنے آقا و مولا کا خیال آتےہی اس پر ایک کیف سا طاری ہو گیا۔رات گزارنا اس کےلئےمشکل ہو گیا۔ ساری رات وہ حرم میں نفل پڑھتا رہا۔ اسےصبح صبح شہر ِ نبی کےلئےروانہ ہو جانا تھااور وہ چاہتا تھا کہ اس دوران نیند میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے۔
    صبح آخری بار حرم کا طواف کر کےجب وہ رخصت ہوا تو اس کےہاتھ دعا کےلئےاٹھے۔ دل سےایک خوشبو کا جھونکا نکلا اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا۔
    ”میرےمعبود۔ اسےسُکھی رکھنا۔“
    آمین کےلفظ کےساتھ اس نےچہرےپر ہاتھ پھیرتےہوئےحرم کو نگاہوں میں جذب کر لینا چاہا تو جدائی کا احساس ‘ رخصت ہونےکا غم اس کی آنکھوں کو دھندلاگیا مگر جانا تو تھا۔ اس نےسر جھکا کر دونوں ہاتھ کسی غلام کی طرح باندھ لئےاور قدم وداع ہونےکےلئےاٹھا دیا۔
    ٭
    بیگم صاحبہ کا فون آیا تو طاہر نےصفیہ سےواپسی کی تیاری کرنےکا کہہ دیا۔ وہ دو دن بعد آ رہی تھیں۔
    ”طاہر۔“ جھجکتےہوئےصفیہ نےکہنا چاہا۔
    ”کہو ناں۔ رک کیوں گئیں؟“ طاہر نےاسےباہوں میں لےلیا۔
    ”واپسی سےپہلےایک بار بابا شاہ مقیم کےمزار پر لےچلئےمجھےبھی۔“ صفیہ نےاس کےسینےپر پیشانی ٹکا دی۔
    ”تو پھر آج ہی چلو۔ صبح واپس جانا ہے۔ وقت نہیں ملےگا۔“
    ”تو چلئے۔ میں تیار ہوں۔“ وہ کھل اٹھی۔
    ”کرایہ دینا پڑےگاجانے آنےکا؟“ شرارت سےطاہر نےاسےہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا۔
    ”واپس آ کر۔“ اس نےہاتھ چھڑایا اور شرما کر الماری کی طرف بڑھ گئی۔ طاہر ہنسا اور وضو کرنےچلا گیا۔
    تقریباً ڈیڑھ گھنٹےبعد وہ بابا شاہ مقیم کےمزار پر تھے۔ درویش برگد تلےدری بچھائےجیسےانہی کےانتظار میں بیٹھا تھا۔
    ”سلام کر کےادھر ہی آ جانااللہ والیو۔“ اس نےوہیں سےصدا لگائی۔ صفیہ نےخود کو چادر میں خوب اچھی طرح ملفوف کر رکھا تھا۔ اس نےگاڑی سےاتر کر درویش کی جانب نظر اٹھائی جو سر جھکائےہولےہولےجھوم رہا تھا۔
    ” آ جائو۔ پہلےسلام کر لیں۔“ طاہر اسےلئےہوئےمزار کی جانب چل پرا۔
    سادہ سےمزار کےاندر داخل ہوتےہی صفیہ کو ایک عجیب سےسکون نےگھیر لیا۔ جتنی دیر وہ طاہر کےساتھ اندر کھڑی دعا کرتی رہی اس کا سارا جسم کسی نامعلوم احساس سےلرزتا رہا۔ اس کپکپاہٹ میں ایک ایسا سرور تھا ایک ایسی لذت تھی ایک ایسا کیف تھا‘ جسےوہ بیان نہ کر سکتی تھی۔
    دعا کےبعد وہ دونوں باہر آئےاور درویش کےپاس دری پر جا بیٹھے۔ طاہر نےاس سےمصافحہ کیا اور اس کےچہرےپر کچھ تلاش کرنےلگا۔ کوئی پیغام۔ کوئی سندیسہ۔
    ”بیٹی آئی ہے۔“ اس نےصفیہ کےسر پر ہاتھ پھیرا۔
    ”جی بابا۔“ صفیہ نےادب سےجواب دیا۔
    ”جیتی رہو۔ تمہارےسُکھ کی دعا تو وہاں قبول ہوئی ہےجہاں ۔۔۔“ کہتےکہتےدرویش خاموش ہو گیا۔”اس پگلےکا خیال رکھا کرو۔“ اس نےبات بدل دی۔
    ”اپنی سی کوشش تو کرتی ہوں بابا۔“ صفیہ نے آنکھ نہ اٹھائی۔
    ”کوشش ہی فرض ہےپگلی۔ اس کےبعد تو سب اس کی مرضی پر ہے۔“ درویش نے آسمان کی جانب دیکھا۔ ”اور کوشش کا پھل وہ ضرور دیتا ہے۔“
    صفیہ خاموش رہی۔
    ”بابا۔ کل صبح ہم واپس جا رہےہیں۔“ طاہر نےپہلی بار زبان کھولی۔
    ”خیر سےجائواللہ والیو۔خیر سےجائو۔ خیر سےرہو۔“ وہ جھوم کر بولا۔
    ” آپ کو اپنا وعدہ یاد ہےناں بابا؟“
    ”یاد ہے۔ یاد ہے۔“ درویش نےاس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔ ”اتاولا نہ ہو۔ وقت آنےدے۔ وعدےسارےپورےہوں گےاس کےحکم سے۔“ پھر اس نےپاس پڑی ایک کاغذکی پڑیا اٹھائی اور صفیہ کی جانب بڑھا دی۔ ”یہ لےبیٹی۔ یہ بابےشاہ مقیم کا تبرک ہے۔ گھر جا کر دونوں چکھ لینا۔“
    ” جی بابا۔“صفیہ نےپڑیا لےکر پرس میں رکھ لی۔
    ”بس اب جائو۔ اللہ کی پناہ ۔ رسول کی امان۔“ درویش نےدونوں ہاتھوں سےصفیہ کےسر پر پیار دیا۔طاہر سےہاتھ ملایا۔ اس کی آنکھوں میں غور سےدیکھا۔دھیرےسےمسکرایا اور دوزانو بیٹھا رہا۔
    طاہر اور صفیہ اٹھی۔ الٹےپائوں دری سےاترے۔ جوتےپہنےاور ایک بار پھر اسےسر خم کر کےسلام کرکےگاڑی میں آ بیٹھے۔درویش آنکھیں بند کئےجھوم رہا تھا۔ طاہر نےگاڑی سٹارٹ کی تو درویش کےلبوں سےایک مدھ بھری تان نکلی۔
    پیلُو پکیاں وی۔ پکیاں نی وے
    آ چُنوں رَل یار
    وہ جھوم جھوم کر گاتا رہا۔ طاہر نےبڑی خوابناک نظروں سےصفیہ کی طرف دیکھا جو درویش کی تان میں گم پلکیں موندےاس کےشانےسےلگی بیٹھی تھی۔ جسم میں پھریریاں لیتےسرور نےطاہر کو مست سا کر دیا۔ بےخودی کےعالم میں اس نےایکسیلیٹر پر پائوں کا دبائو بڑھا دیا۔ نور پور کی حدود سےنکلنےتک درویش کی تان ان کا یوں پیچھا کرتی رہی جیسےانہیں رخصت کرنےکےلئےان کےساتھ ساتھ محو سفر ہو۔
    بیگم صاحبہ ڈاکٹر ہاشمی اور اعجاز کوطاہر‘ صفیہ‘ وسیلہ خاتون ‘ نزدیکی رشتےدار اور طاہر کے آفس کےلوگ چھوٹےموٹےجلوس کی شکل میں کوٹھی لےکر آئے۔
    یہاں طاہر نےنیاز کا اہتمام کر رکھا تھا جس کا انتظام پروفیسر قمراور امبر کےسپرد تھا۔عشا کےقریب فراغت ہوئی ۔ رشتےداروں کےبعد ڈاکٹر ہاشمی اور وسیلہ خاتون رخصت ہو گئےتو پروفیسر قمر اور امبر نےبھی اجازت لی ۔ رات کے آٹھ بجےتھےجب صفیہ اور طاہر بیگم صاحبہ کےکمرےمیں ان کےدائیں بائیں بستر پر آ بیٹھے۔ بڑےسےایرانی کمبل میں تینوں کا چھوٹاسا خاندان سما گیا۔پھر مکہ اور مدینہ‘ حرم اور حرم والی۔ گنبد ِ خضریٰ اور آقائےرحمت کی باتیں شروع ہوئیں تو وقت گزرنےکا پتہ ہی نہ چلا۔بیگم صاحبہ کا سارا طمطراق ‘ سادگی اور عاجزی میں بدل چکا تھا۔شہرِ نبی کی بات پر وہ بار بار پُرنم ہوجاتیں۔ان کی باتوں سےلگتا تھا کہ اگر ان کےبس میں ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتیں۔ وہیں مر مٹ جاتیں۔
    دیوار گیر کلاک نےرات کےگیارہ بجنےکا اعلان کیا تو بیگم صاحبہ نےانہیں جا کر سونےکو کہا۔”بس بیٹے۔ اب تم لوگ بھی جا کر سو جائو۔ رات آدھی ہونےکو ہے۔ اور صبح اٹھ کر نماز بھی پڑھا کرو۔“
    ”جی امی۔“ صفیہ نےشرارت سےطاہر کی جانب دیکھا۔”میں تو پڑھتی ہوں۔ انہیں کہئے۔“
    ”طاہر۔“ بیگم صاحبہ نےتسبیح تکئےتلےرکھتےہوئےکہا۔ ”نماز پڑھا کرو بیٹے۔ اب تم بچےنہیں رہے۔“
    ”جی امی۔“ اس نےچوری چوری صفیہ پر آنکھیں نکالیں۔
    پھر دونوں انہیں سلام کر کےاپنےکمرےمیں آ گئے۔ کمرےکا دروازہ بند کرتےہی طاہر نےاسےچھاپ لیا۔
    ”نماز نہیں پڑھتا میں۔ ہےناں۔“
    ”ہاں تو اور کیا۔“ وہ اس کی باہوں میں مچلی۔ ”روز کہتی ہوں آپ سے۔ آپ سنتےہی نہیں۔“
    ”وجہ کا تو پتہ ہےناں تمہیں۔ کیوں نہیں پڑھتا میں؟“ طاہر نےاس کےرخسار پر چٹکی لی۔
    ”کوئی وجہ نہیں ۔ صرف آپ کی سستی ہے۔“ وہ گال پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
    ”وجہ ہےصفو جان۔ “ طاہر نےاسےسینےپر ڈال لیا۔ ” نہ تم ساری رات جگائو نہ میری نماز رہ جایا کرے۔“
    ”کیا ۔ کیا۔ “ صفیہ نےپُرزور احتجاج کیا۔ ”میں جگاتی ہوں یا آپ نہیں سونےدیتے؟“
    ”ایک ہی بات ہے۔“ وہ لاپروائی سےبولا۔
    ”بہر حال آج سےکوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو گی۔ صبح آپ وقت پر اٹھیں گےاور نماز پڑھیں گے۔“ وہ مچل کر اس کی گرفت سےنکل گئی۔
    ”جیسےحکم سرکار کا۔ “ طاہر نےہار مان لی۔” اب سونےکی اجازت ہےیا نہیں؟“
    ”بالکل ہے۔ سو جائیےچُپ چاپ۔“اس نےکمبل کھول کر طاہر پر پھیلایا۔طاہر نےاسےشریر نظروں سےگھور کر دیکھا۔صفیہ نےشرما کر رخ پھیر لیا۔
    ”اب آ جائو۔ ورنہ میں جاگتا رہوں گا۔ پھر صبح وقت پر نہیں اٹھوں گا اور نماز رہ جائےگی۔“ بڑی معصومیت سےاس نےکہا تو صفیہ کی ہنسی نکل گئی۔ آہستہ سےوہ کمبل میں در آئی۔
    ”مطلب کےپورےپکےہیں آپ۔“
    ”شش۔“ طاہر نےاس کےلبوں پر مہر محبت ثبت کر دی۔ ”بات کرنےکا نہیں۔ سونےکا ہےبابا۔“ اور ہاتھ بڑھا کر بیڈ سوئچ آف کر دیا۔
    ٭

    مسجد ِ نبوی کےصحن میں بیٹھ کر گنبد ِ خضریٰ کو تکتےرہناسرمد کا سب سےپسندیدہ عمل تھا۔ وہ جب سےاپنے آقا کےشہر میں آیاتھا اس نےنماز اور درود کےعلاوہ اورکسی شےکی طرف دھیان ہی نہ دیا تھا۔ ہوٹل میں کپڑےبدلنےیا غسل کےلئےجاتا ورنہ اس کا سارا وقت وہیں گزرتا۔
    اللہ کےحبیب کےحضور حاضر ہو کر اس نےجو کیف پایا تھا‘ اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہ تھا۔ دل کی دھڑکنیں زبان کےساتھ صدا دیتی ہوئی‘ د رود شریف کےورد میں شامل رہتیں۔ ایک مہک تھی جو اسےہر طرف رقصاں محسوس ہوتی۔ ایک نور تھا جو ہر شےپر محیط نظر آتا۔ ایک سکون تھا جو اسےہوائوں میں تیرتا ملتا۔ آنکھیں بند کرتا تو اجالےبکھر جاتی۔ پلکیں وَا کرتا تو قوس قزح کےرنگ چھلک پڑتی۔ آقا کا خیال آتا تو نظر اشکوں سےوضو کرنےلگتی۔ واپس جانےکا خیال آتا تو جگر میں ایک ٹیس سی آنکھ کھول لیتی۔ مگر ‘ ہر ایک کیفیت میں مزا تھا۔ ایک لذت تھی۔ درد بھی اٹھتا تو سرور آمیز لگتا۔
    آخری دن تھا جب وہ دربار ِ نبوی میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنےکےبعد دعا کےلئےہاتھ اٹھائےکھڑا تھا۔ زبان گنگ تھی۔ لب کانپ رہےتھےاور دعا کےالفاظ کہیں گم ہو چکےتھی۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کے آنسو تھم ہی نہ رہےتھے۔ ہچکی بندھ گئی تو وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ آہستہ سےوہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسکنےلگا۔
    ”میرے آقا ۔ میرےمولا ۔میں کیا مانگوں؟ کوئی طلب ہی نہیں رہی۔ آپ کےدر پر آ گیا۔ اب اور کیا چاہوں؟ کس کےلئےچاہوں؟“
    اور ”کس کےلئے“ کےالفاظ پر ایک دم اس کےتصور میں ایک چہرہ ابھرا۔
    ”ہاں۔ اس کےلئےسُکھ عطاکیجئے۔ “ دل سےایک بار پھر مہک نکلی ۔
    ”اپنےلئےبھی تو کچھ مانگ پگلے۔“ ایک سرگوشی نےاسےچونکا دیا۔ اس نےادھر ادھر نظر دوڑائی۔جس کی صدا تھی‘ وہ کہیں نظر نہ آیا۔لوگ اس سےدور دور تھے۔
    ”اس در پر آ کر کچھ نہ مانگنا بد نصیبی ہے۔ کچھ مانگ لے۔ کچھ مانگ لے۔“ کوئی اسےاکسا رہا تھا۔ اسےسمجھا رہا تھا۔ مگر کون؟ اس نےبار بار تلاش کیا۔ کوئی دکھائی نہ دیا۔تھک کر اس نےسر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
    ”کیا مانگوں؟“ اب وہ خود سےسوال کر رہا تھا۔”کیا مانگوں؟ کیامانگوں؟“ اس کا رواں رواں پکار رہا تھا۔پھر جیسےیہ سوال جواب میں بدل گیا۔اسےاپنی زبان پر اختیار نہ رہا۔ اپنی طلب پر اختیار نہ رہا۔ اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
    ”میرے آقا ۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھےوہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئےجو مجھےکامیاب کر دے۔“
    ان الفاظ کےادا ہوتےہی جیسےاس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سےبھی ہلکا۔ وہ بےوزن ہو گیا۔ اس نےبات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نےاپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔مانگےسےلوگ من کی مرادیں پاتےہیں۔ بِن مانگے‘ اپنی مرضی سےوہ کیا عطا کر دیں‘ کون جان سکتا ہے؟سرمد نےنفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسےنفع کا سودا‘ جس کےلئےاس کےپلےصرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سےاس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق ۔۔۔ جس نےاسےہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانےکی ٹھان لی تھی۔
    اپنے آقا و مولا کےدر کےبوسےلیتا ہوا وہ مسجد ِ نبوی سےرخصت ہوا۔ چوکھٹ کو چوم کر دل کو تسلی دی۔ حدود ِ مدینہ سےنکلنےسےپہلےخاک ِ مدینہ پر سجدہ کیا۔ اسےہونٹوں اور ماتھےسےلگایا۔ پھر مٹھی بھر یہ پاکیزہ مٹی ایک رومال میں باندھ کر اپنی اوپر کی جیب میں رکھ لی۔ اس کےلئےیہ کائنات کا سب سےبڑا تحفہ تھا۔
    ہوٹل کےکمرےسےاپنا مختصر سامان سمیٹ کر اس نےسفری بیگ میں ڈالااور چیک آؤٹ کےلئےکاونٹر پر چلا آیا۔
    ٹیکسی نےاسےجدہ ایر پورٹ کےباہر اتارا تو دن کےگیارہ بج رہےتھی۔ اچانک وہ ایر پورٹ کی عمارت میں داخل ہوتےہوتےرک گیا۔
    ”کہاں جا رہا تھا وہ؟“ اس نےخود سےسوال کیا۔
    اس کی لندن واپسی کی ٹکٹ کنفرم تھی مگر اس نےباپ سےوعدہ کیا تھاکہ وہ عمرےکےبعد لندن نہیں جائےگا‘ پاکستان آئےگا۔سوچوں نےاس پر یلغار کر دی۔ اس کےلئےفیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ کیا کرے؟ پاکستان جانا تو اس کےلئےممکن ہی نہیں تھا اور لندن جانےکا راستہ اس نےڈاکٹر ہاشمی سےوعدےکی صورت میں بند کر لیا تھا۔ وہ خیالوں میں ڈوبا ہوا ایر پورٹ میں داخل ہوا اور پتھر کےایک بنچ پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔
    اس کی پشت پر دوسری جانب اسی بنچ پر دو نوجوان بیٹھےسرگوشیاں کر رہےتھے۔ انہوں نےسرمد کو بیٹھتےدیکھا تو خاموش ہو گئے۔ چند لمحےسر جھکائےرہے۔ پھر انہوں نے آہستہ سےگردن گھما کر سرمد کی طرف دیکھا جو دنیا و مافیہا سےبےخبر اپنےہی خیالوں میں گم تھا۔ چند لمحےاس کا جائزہ لیتےرہنےکےبعداس نوجوان نے‘ جس کی عمر بائیس تئیس سال سےزیادہ نہ تھی‘ اپنےپچیس چھبیس سالہ ساتھی کی طرف دیکھا جو اس عرصےمیں وہاں موجود باقی تمام نشستوں کاجائزہ لےچکا تھا۔ کوئی بھی جگہ خالی نہ پا کر اس نےدھیرےسےنفی میں سر ہلایا۔ پہلےنوجوان نےاسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرمد کی طرف سےاطمینان دلایا ۔ چند لمحوں کےبعد وہ پھر سرگوشیاں کرنےلگے۔
    ” آج آخری دن ہےحسین۔ اگر آج بھی طلال نہ پہنچا تو ہم دونوں کو روانہ ہو جانا پڑےگا ۔مزید وقت نہیں ہےہمارےپاس۔“
    ”تم ٹھیک کہہ رہےہو حمزہ بھائی مگر طلال اکیلا کیسےکمانڈر تک پہنچ پائےگا ۔“ چھوٹی عمر کےنوجوان نےاسےسوالیہ نظروں سےدیکھا۔
    ”وہ بعد میں دیکھیں گے۔کل کےبعد ہمیں کمانڈر تک لےجانےوالا شخص پھر ایک ماہ بعد مل پائےگا۔ اور یہ سارا عرصہ ہم سوائےدعائیں مانگنےکےاور کیسےگزاریں گے۔“ حمزہ کی سرگوشی تیز ہو گئی۔
    ”ہوں۔“ حسین نےکنکھیوں سےادھر ادھر دیکھا۔ ”تو پھر پروگرا م کیا رہا؟“
    ”ابھی عراق سے آنےوالی فلائٹ چیک کریں گے۔ اگر طلال آ گیا تو ٹھیک ۔ ورنہ آج رات نو بجےصبح کی فلائٹ کےلئےٹکٹیں کنفرم کرا لیں گے۔“
    ”سیدھا دہلی اور وہاں سےسرینگر۔۔۔“
    ”شش۔۔۔۔“ حمزہ نےحسین کا ہاتھ دبا دیا۔ ”نام مت لو کسی جگہ کا ۔“ اس کےلہجےمیں سختی تھی۔
    ”سوری بھائی۔ “ حسین نےمعذرت خواہانہ آواز میں کہا۔
    ”تمہاری یہ سوری کسی دن ایسا کام دکھائےگی کہ۔۔۔“ حمزہ نےہونٹ کاٹتےہوئےسر جھٹکااور دوسری طرف دیکھنےلگا۔
    اسی وقت عراق کےشہر نجف سے آنےوالی فلائٹ کی انائونسمنٹ ہونےلگی۔ حمزہ اور حسین ایک ساتھ اٹھےاور داخلی دروازےکی جانب بڑھ گئے۔ وہ بڑےاطمینان اور سکون سےقدم اٹھا رہےتھے۔ ان کی چال میں کسی قسم کا اضطراب نہ تھا ۔ اضطراب تو وہ بُت بنےبیٹھےسرمد کی جھولی میں ڈال گئےتھےجو کہنیاں گھٹنوں پر رکھے‘ ہاتھوں پر چہرہ ٹکائےان دونوں کو دزدیدہ نگاہوں سےجاتا دیکھ رہا تھا۔
    ان کی گفتگو نےسرمد کےقلب و ذہن میں جوار بھاٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسےفوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ خشک ہوتےحلق کو اس نےتھوک نگل کر تر کیا اور جب نجف سے آنےوالی فلائٹ کےپہلےمسافر نےکلیرنس کےبعد لائونج میں قدم رکھا تو اس نےاپنی نشست چھوڑ دی۔اس کا رخ باہر کی جانب تھا۔
    اسےکہاں جانا تھا‘ فیصلہ ہو چکا تھا۔ راستہ دکھایا جا چکا تھا۔ اب تو اسےصرف قدم بڑھانا تھا اور منزل تک پہنچنا تھا۔
    ٭
    آدھ گھنٹےبعد وہ جدہ کےہوٹل الخامص کےدوسرےفلور پر کمرہ نمبر تین سو تیرہ کےباہر کھڑا تھا۔ سفری بیگ اس نےخوب سنبھال کر کندھےپر درست کیا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کاریڈور بالکل خالی تھا۔ اس کا ہاتھ دستک کےلئےاٹھا ۔
    ”کون؟“ اندر سےحمزہ کی آواز ابھری۔
    جواب میں اس نےپھر ہولےسےدستک دی۔ فوراً ہی کسی کےدروازےکی طرف چل پڑنےکی آہٹ سنائی دی۔ پھر ایک جھٹکےسےدروازہ کھلا۔
    ”تم؟“ سامنےکھڑےحمزہ کا منہ حیرت سےکھلا رہ گیا۔
    ”کون ہےحمزہ بھائی؟“ حسین نےپوچھا۔ پھر وہ بھی اس کےپیچھے آ کھڑا ہوا۔ سرمد کو دیکھ کر اس کا حال بھی حمزہ سےمختلف نہ رہا۔
    ”کیا آپ مجھےاندر آنےکےلئےنہ کہیں گے؟“ سرمد مسکرایا۔
    ”یہ تو وہی ہےجو ۔۔۔“ حسین نےکہنا چاہا۔
    ”جی ہاں۔ میں ایر پورٹ پر موجود تھا۔“ سرمد نےاخلاق سےکہا۔
    ”اندر آ جائو۔“ اچانک حمزہ نےکہااور ایک جھٹکےسےاس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔ پھر جب تک سرمد سمجھ پاتا‘ دروازہ بند ہو گیا اور ایک سیاہ ریوالور کی نال اس کی پیشانی پر آ ٹکی۔حسین نےدروازہ اندر سےلاک کر دیا۔
    ”کون ہو تم؟“ حمزہ کا لہجہ بیحد سرد تھا۔
    ”اس کےبغیر بھی پوچھیں گےتو میں سچ سچ بتادوں گا۔“ سرمد نےاچھل کر حلق میں آجانےوالےدل کی دھڑکن پر قابو پانےکی کوشش کرتےہوئےریوالور کی طرف اشارہ کیا۔
    ”بکواس نہیں۔“ حمزہ نےاسی لہجےمیں کہا۔” تم یہاں تک پہنچےکیسے؟“
    ”ٹیکسی میں آپ کاپیچھا کرتےہوئے۔“ سرمد نےبیگ کندھےسےفرش پر گرا دیا۔ اسی وقت حسین نےپیچھےسے آ کر اس کی گردن میں بازو ڈال کر گرفت میں لےلیا۔ دوسرےہاتھ سےاس نےسرمد کا دایاں ہاتھ مروڑ کر کمر سےلگا دیا۔
    ”میرا پہلا سوال ابھی جواب طلب ہے۔ کون ہو تم؟“ حمزہ نےاسےمشکوک نظروں سےگھورتےہوئےپھر پوچھا۔
    ”ایک پاکستانی۔“ سرمد نےمختصراً کہا۔
    ”فرشتےنہیں ہوتےپاکستانی۔“ حمزہ نےتلخی سےکہا۔ ” تم ہمارا پیچھا کیوں کر رہےتھے؟“
    ”یہ ذرا تفصیل طلب بات ہےاور اس حالت میں تو میں وضاحت نہ کر سکوں گا۔“ سرمد نے آنکھ کےاشارےسےحسین کی جانب اشارہ کیا۔
    ”ہوں۔“ حمزہ بڑی سرد نظروں سےچند لمحےاسےگھورتا رہا۔ پھر اس نےریوالور اس کی پیشانی سےہٹا لیا۔”چھوڑ دو اسی۔“
    حسین نےایک جھٹکےسےاسےچھوڑ دیا اور سرمد اس کےدھکےسےبستر پر جا گرا۔ حمزہ کرسی گھما کر اس کےسامنےبیٹھ گیااور ریوالور اس پر تان لیا۔ اس کا انداز بتاتا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کےدسویں حصےمیں اسےنشانہ بنا سکتا ہے۔
    ”حسین۔باہر کا جائزہ لو۔ یہ اکیلا ہےیا ۔۔۔“
    جواب میں حسین نےپینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ریوالور پر ہاتھ جماتےہوئےبڑی احتیاط سےدروازہ کھولا۔ دائیں بائیں گردن گھما کر دیکھا۔ پھر باہر نکل گیا۔ تقریباً دو منٹ بعد لوٹا تو اس کےچہرےکی وحشت غائب ہو چکی تھی۔
    ”لگتا ہےیہ اکیلا ہی ہےحمزہ بھائی۔“ وہ دروازہ لاک کر کےدوسری کرسی پر آ بیٹھا۔
    ”ہوں۔“ حمزہ نےسرمد کی جانب معنی خیز نظروں سےدیکھا۔ ”اب کھل جائو بچے۔ کون ہو اور کیوں آئےہو؟ اور بولنےسےپہلےیہ سمجھ لو کہ ہمارےپاس تمہارےسچ جھوٹ کو جانچنےکےلئےوقت ہےنہ کوئی جواز۔ اس سےکم وقت میں ہم تمہاری لاش کو باتھ روم میں بند کر کےنکل جائیں گے۔ اس لئےجلدی ‘ کم اور سچ بولو۔“
    ”میرا نام سرمد ہاشمی ہی۔ پاکستانی ہوں۔ یہاں عمرہ کرنے آیا تو زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا۔ واپس جا رہا تھا تو آپ دونوں کی باتیں کان پڑیں۔ لگا ‘ جیسےراستہ مل گیا ہے۔ اب بےمقصد جینےسےجان چھوٹ جائےگی۔“
    ”کیا مطلب؟“ حمزہ نےحیرت سےپوچھا۔ ”ہماری باتوں سےکیا جان لیا تم نے؟“
    ”یہ کہ آپ کسی بڑےمقصد کےلئےکام کر رہےہیں۔ مجھےبھی اس میں شامل کر لیجئے۔“ سرمد نےتمہیدیں باندھنےسےگریز کیا۔
    ”او بھائی۔ کیا سمجھ رہےہو تم؟“ حمزہ ہنسا۔” ہم کسی خاص مقصد کےلئےکوئی بڑا کام نہیں کر رہے۔ہم تو سیدھےسادےاردنی ہیں۔“
    ”اردنی؟“ اب سرمد کےحیرا ن ہونےکی باری تھی۔”مگر آپ تو بڑی روانی سےاردو بول رہےہیں۔“
    ”تو اس میں کیا ہے۔ کیا تم لوگ ہماری طرح عربی نہیں بول لیتے؟“ حمزہ نےلاپرواہی سےکہا۔”بہر حال۔ تم نےجو سمجھا غلط سمجھا اور یہاں آ کر اس سےبھی بڑی غلطی کی۔ اب جب تک ہم جدہ سےنکل نہیں جاتے‘ تم یہاں قید رہو گے۔“
    ”بالکل نہیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ طلال کی جگہ مجھےاپنےساتھ لےچلیں۔“
    ”طلال؟“ حمزہ کےساتھ حسین بھی اچھل پڑا۔” اس کےبارےمیں تم کیسےاور کیا جانتےہو؟“
    ”صرف یہ کہ آپ دونوں اس کےنجف سے آنےکےمنتظر تھے۔ اور آج بھی اس کےنہ آنےپر اب آپ اکیلےہی انڈیا کےلئےروانہ ہوجائیں گے۔“
    بھک سےجیسےحمزہ کےدماغ کا فیوز اڑ گیا۔اس نےایسی نظروں سےحسین کی طرف دیکھا جن سےبےاعتباری مترشح تھی۔
    ”یہ تو ہماری ساری باتیں سن چکا ہےحمزہ بھائی۔ اب اس کا زندہ رہنا ٹھیک نہیں۔“ اس نےجیب سےریوالور نکال لیا۔
    ”رکو۔“ حمزہ نےہاتھ اٹھا کر اسےکسی بھی اقدام سےمنع کر دیا۔پھر اس نےسرمد کی جانب دیکھا۔ ”تمہارا کیا خیال ہےکہ ہم لوگ کون ہیں اور کس کام میں لگےہیں؟“
    ”میرا اندازہ ہی۔“ سرمد بازو سہلاتا ہوا بولا۔ ” آپ لوگ انڈیا میں کسی ایسی تحریک سےوابستہ ہیں جو حربی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ آپ کےپاس یہ اسلحہ اور آپ کی گفتگو میں کمانڈر اور سرینگر کا لفظ یہی بتاتا ہےاور۔۔۔“
    ”اور۔۔۔“ حمزہ کا سانس رکنےلگا ۔
    ”اور یہ کہ ۔۔۔“ سرمد نےاس کی آنکھوں میں آنکھیں دال دیں۔ ” انڈیا میں صرف ایک ہی حربی تحریک چل رہی ہے۔ کشمیر کی ۔۔۔“
    ”تمہارا کیاخیال ہےاس تحریک کےدرست اور نادرست ہونےکےبارےمیں؟“
    ”میں اسےجہادی تحریک سمجھتا ہوں۔“ سرمد نےبڑےاعتماد سےکہا۔
    ”حمزہ بھائی۔ اس کی باتوں میں نہ آئیے۔ یہ کوئی بڑی گیم کھیل رہا ہے۔“حسین نےبیتابی سےبات میں دخل دیا۔
    ”ہوں۔“ حمزہ نےایک گہرا سانس لیا۔اس کی تیز اور اندر تک چھید کرتی نگاہوں نےسرمد کا سر سےپائوں تک ایک بار بھرپور جائزہ لیا۔ پھر اس کےچہرےپر رک گئیں۔
    ”تو تم ہمارےساتھ اس لئےشامل ہونا چاہتےہو کہ تم کسی مقصد کےلئےجینا چاہتےہو؟“ اب حمزہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
    ” مرنا بھی اسی مقصد کےلئےچاہتا ہوں۔“ سرمد کےلہجےسےعجیب سا عزم جھلک رہا تھا۔
    ”اور تمہارا خیال ہےکہ ہمیں تمہاری بات پر یقین آ جائےگا؟“ تمسخر سےحمزہ نےپوچھا۔
    ” آ تو جانا چاہئے۔“ سرمد نےگھبرائےبغیر جواب دیا۔
    ”وہ کیوں؟“ حمزہ نےاسی لہجےمیں پوچھا۔
    ”اس لئےکہ میں جس جگہ اپنی بےمقصد زندگی سےنجات کی دعا کر کے آ رہا ہوں ‘ وہاں جھوٹ کو اجازت ہی نہیں کہ پر مار سکے۔“
    ”کہاں سے آ رہےہو تم؟“ حمزہ ایک دم حیران ہوا۔
    ”اپنے آقا و مولا کےدرِ اقدس سے۔“
    اور حمزہ کا ہاتھ بےجان ہو کر نیچےہو گیا۔ ریوالور چھوٹ کر فرش پر جا پڑا۔ایسا لگا ‘ کسی انجانی طاقت نےایک جھٹکےسےاسےکرسی سےکھڑا کر دیا ہو۔ حسین کا ریوالور والا ہاتھ بھی جھک گیا۔بالکل ساکت کھڑا حمزہ چند لمحےاسےخالی خالی نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
    ”میں قربان جائوں اس نام پر۔“ اس کی آواز لرز رہی تھی۔ ”مجھےاب تک گناہ گار کیوں کر رہےتھےتم سرمد ہاشمی؟ ارے۔ تم آتےہی بتا دیتےکہ تمہیں میرے آقا نےبھیجا ہے۔ آجاو۔ سینےسےلگو ۔ ٹھنڈی ڈالو۔ میرے آقا کےبھیجےہوئے۔ میری پلکوں پر تشریف رکھو۔ میرےدل میں قیام کرو۔ میرےسینےپراترو مرشد۔“
    حمزہ نےبازو پسار دیے۔ سرمد آہستہ سےاٹھا۔ پھر لپک کر اس کےسینےسےجا لگا۔ حسین ان دونوں سے آ کر لپٹ گیا۔
    وہ تینوں سسکیاں بھر رہےتھے۔ انہیں اپنی منزل پر اپنے آقا کی رحمت‘ رضا اور خوشنودی کا سایہ چھائوں کرتا دکھائی دےگیا تھا۔
    * * *​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سرفراز راہی صاحب تو کہانی کو رفتہ رفتہ پھیلاتے ہی جارہے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ " عشق" کی حدود سے باہر نہیں نکلنے دے رہے۔

    کعبۃ اللہ اور خاص کر آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کی منظر کشی بہت پسند آئی ۔ دل ایمانی کیفیت سے لبریز ہوگیا۔

    عرفان بھائی ۔ اگلی قسط کا شدت سے انتظار ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں