1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 8

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏14 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی


    دن کےگیارہ بجےتھےجب طاہر‘ ملک بلال اور اس کےچند ملازم بابا شاہ مقیم کےمزار کےباہر پجارو سےاترے۔
    اگر دس پندرہ منٹ پہلے آتےتو وہ حافظ عبداللہ ‘ سکینہ اور باقی سب لوگوں سےبھی مل لیتے۔ نکاح کےفوراً بعد جو درویش مزار کےاندر گیا تو پھر باہر نہ آیا۔ وہ کچھ دیر اس کا انتظار کرتےرہے۔ پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ جلد باہر نہ آئےگا توباہم مشورےسےواپس جانےکا فیصلہ کر لیا گیا۔ طےیہ ہوا کہ سب لوگ پہلےنور پور چلیں۔ وہاں چوہدری حسن دین کےہاں قیام کیا جائے۔ آج کا باقی دن اور آنےوالی رات وہاں گزاری جائے۔ اگلےدن وہ سکینہ کو ساتھ لےکر سائیاں والےکو لوٹ جائیں گے۔ دو دن بعد چوہدری حسن دین سکینہ کو باقاعدہ جا کر سائیاں والا سےواپس نور پور لے آئےگا۔
    تانگےمیں وہ سب لوگ کسی نہ کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ گئےاور ایک چھوٹی سی بارات کی شکل میں نور پور کی طرف روانہ ہو گئی۔
    برگد تلےبچھی دریاں دیکھ کر ملک بلال نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا کیا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دونوں کمرےدیکھے۔ کوئی نہ ملا تو وہ سب مزار کی طرف چلے۔
    مزار کےباہر رک کر طاہر نےکھسہ اتارا۔ پھر کرتےکی جیب سےرومال نکال کر سر پر باندھا۔ ملک نےاپنی ٹوپی سر پردرست کی۔ ملازموں نےتب تک گاڑی سےاجناس کی دو بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرااتار لیا تھا۔مزار کا دروازہ اندر سےبند پا کر وہ رک گئے۔ پھر اس سےپہلےکہ ملک کچھ کہتا‘ ایک دم دروازہ کھلا اور درویش ان کےسامنے آ گیا۔
    ” آ گیا پگلے۔“ اس نےاپنی چمکدار آنکھوں سےطاہر کی جانب دیکھا۔
    طاہر ‘ جیسےمسحور ہو گیا۔ اس کی زبان سےکچھ نکلا نہ ہونٹ ہلے۔وہ تو بُت بنا درویش کی آنکھوں میں گم ہو گیا تھا۔
    ”بابا۔ “ ملک نےکہنا چاہا۔” یہ میرےچھوٹےمالک۔۔۔“
    ”جانتا ہوں۔“ درویش نےہاتھ اٹھا کر اسےمزید بولنےسےروک دیا۔ ”تو یہیں رک ابھی۔ اور تو آ جا میرےساتھ ۔“ اس نےطاہر کا ہاتھ تھام کر اسےاندر کھینچ لیا۔ دروازہ پھر بند ہو گیا۔ ملک اور باقی سب لوگ منہ پھاڑےرہ گئےمگرکسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کہتا یا اندر جانےکی کوشش کرتا۔
    طاہر اپنےحواس سےبیگانہ ‘کسی بےوزن شےکی طرح درویش کےساتھ کھنچا چلا جا رہا تھا۔ اس کےدماغ میں ایک ہی لفظ ریت اڑا رہا تھا۔ ”پگلے۔ پگلے۔ پگلے۔“
    درویش اسےلئےہوئےبابا شاہ مقیم کےسرہانےاسی جگہ آ رکا‘جہاں حافظ عبداللہ بیٹھا کرتا تھا۔
    ”بیٹھ جا ۔“ درویش نےاس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
    طاہر کسی معمول کی طرح اس کےسامنےدوزانو بیٹھ گیا اور کھوئی کھوئی نظروں سےاس کی طرف دیکھنےلگا۔
    ”بابا کو سلام کر لے۔“ پیار سےدرویش نےکہا تو وہ چونکا۔ حواس میں آ گیا۔ ایک گہرا سانس لےکر اس نےبابا شاہ مقیم کےمزار کی جانب نظر جمائی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر قبر کو چھو لیا۔ ہاتھوں کی انگلیاں چوم کر آنکھوں سےلگائیں اور دعا میں محو ہو گیا۔ چند منٹ بعد آمین کہتےہوئےاس نےہاتھ چہرےپر پھیرےاور درویش کی جانب متوجہ ہوا جو سر جھکائے‘ آنکھیں بند کئےجیسےمراقبےمیں گم تھا۔
    طاہر کا جی چاہا ‘ اس پُرسکون چہرےکو دیکھتا رہے۔ اسےدرویش کےچہرےمیں عجیب سا سحر دکھائی دےرہا تھا۔ دل کو مٹھی میں لےکر دھیرےدھیرےمسلنےوالا سحر۔ جس کی لذت دل کو درد سہنےپر اکسائے۔ رگ و پےمیں سرور بن کر تیر جانےوالا درد۔ اس کا دل ہولےہولےجیسے آہیں بھرنےلگا۔ وہ اس کیفیت میں ڈوب جانےکو تھا کہ درویش کی آواز نےاس کی سماعت میں خوشبو اتار دی۔
    ”عشق کا جام ہونٹوںتک نہیں پہنچا۔ یہی دُکھ لئےپھرتا ہےناں تو؟“ آہستہ سےدرویش نےسر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔
    طاہران سرخ سرخ ڈوروں سےلبریز آنکھوں کی چمک سےخیرہ ہو گیا۔اس کےہونٹ کانپے‘ آواز نہ نکلی۔ نظر میں غبار سا پھیل گیا۔ درویش کا دمکتا چہرہ اس کی بصارت کےحلقےمیں دھندلا گیا۔
    ”کوئی اَن چُھواتجھےچاہے‘ یہی تمنا تجھےکُوبکُو خوار کرتی پھرتی ہےناں اب تک۔“
    ”بابا۔“ بمشکل طاہر کےلبوں سےنکلا اور اس سرگوشی کےبعد وہ بےزبان ہو گیا۔ کوشش کےباوجود کچھ اور نہ کہہ سکا۔ حلق میں اُگتےکانٹوں کا درد پیاس میں شدت پیدا کرتا چلا گیا۔
    ”پگلا ہےتو۔“ درویش اس کی آنکھوں میں دیکھےجا رہا تھا۔ ” شرط لگا رکھی ہےکہ اس سےعشق کرےگا جو پہلےتجھ سےعشق کرے‘ جو پہلےتجھےچاہے۔ جس نےتجھ سےپہلےکسی کو نہ چاہا ہو۔ اَن چھوا ہو۔ جس کےخیالوں میں سب سےپہلےتیرا عکس ابھرا ہو۔ تو خود کسی کےلئےایساکیوں نہیں بن جاتا۔ اَن چھوا۔ سب سےپہلا تصور۔ سب سےپہلا خیال۔ سب سےپہلا عکس۔“
    طاہر بےجان بُت کی طرح سن رہا تھا۔ سمجھ رہا تھا۔ بولنےسےمعذور نہیں تھا۔ بولنا نہیں چاہتا تھا۔ صرف سننا چاہتا تھا۔ اس پر ادراک کےدر وَا ہو رہےتھے۔ پرت کھل رہےتھے۔ حقیقتیں بےنقاب ہو رہی تھیے۔ اس بےحجابی میں ایک اور ہی لطف تھا۔ ایک اور ہی مزا تھا جو اس کو بےصدا کئےہوئےتھا۔
    ”عشق شرطوں سےنہیں کیا جاتا۔ عشق تو اس سےبھی ہو جاتا ہےجو ہر رات کسی نئےمرد کا بستر بنتی ہےمگر جو اس پر عاشق ہوتا ہے‘ اسےصرف وہ نظر آتی ہے‘ اس کےگاہک نظر نہیں آتے۔ وہ بستر بھی نظر نہیں آتا جس پر پڑی سلوٹیں شمار نہیں ہو پاتیں۔ اس کےلئےتو وہ اَن چھوئی ہو جاتی ہے۔ عشق ‘ اسےایسا بینا کرتا ہےکہ اس کےسوا سب کچھ دِکھنا ختم ہو جاتا ہے۔جانتا ہےکیوں؟“
    درویش رکا۔ طاہر کی آنکھوں میں سوال ابھرا‘ زبان نہ ہلی۔ تب جواب نےپر کھولے۔
    ”اس لئےکہ عشق کا پہلا حرف عین ‘ عاشق ِصادق پر نازل ہو جاتا ہے۔ عین ‘ عبادت۔ عشق کا پہلا حرف عین ‘ عبادت سےمنور ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ عجز۔ عبودیت۔ عشق کا بندہ عاجز ہو جاتا ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہو سکتی۔ عجز نہ ہوتا تو عشق کا پہلا حرف نہ ہوتا۔ وہ جو سب سےپہلا عشق کرنےوالا ہےناں۔“ درویش نےشہادت کی انگلی چھت کی طرف اٹھا دی۔ ” اس نےجب آدم میں عشق کا عین ودیعت کیا تو ایک ایسی صفت کی شکل میں کیا‘ جسےاس نےاپنےلئےممنوع قرار دےدیا۔ عجز۔ عبودیت۔ یہ آدم کےخمیر میں ڈالا۔ خود تکبر کےتخت پر بیٹھا اور استکبار کو آدم کےلئےشجر ِ ممنوعہ قرار دےدیا۔ آدم کو بندہ‘ بنایا۔ اسےعبد کیا۔ اپنا عبد۔ عبداللہ۔ عین ‘ عشق کا پہلا حرف۔ عبد میں عجزہو گا تو وہ عبادت کےلئےعبودیت کےمرتبےپر فائز ہو گا اور عبادت جب عجز سےعبارت ہوتی ہےتو عشق کا پہلا حرف سمجھ میں آتا ہےپگلی۔ عبادت کر۔ عجز میں ڈوب کر۔ جیسے۔۔۔“
    درویش خاموش ہو گیا۔
    طاہر کا سانس سینےمیں رک سا گیا۔ بیتابی نےاسےشدت سےجکڑ لیا۔
    ”کہتےرہئےبابا۔“ وہ نشےمیں ڈوبی آواز میں بولا۔ اس نےپورا زور لگا دیا تب جا کر وہ یہ چند الفاظ کہہ پایا تھا۔ اسےلگا جیسےاس کی طاقت لڑکھڑا رہی ہو۔ بےخود ہو کر اپنا آپ چھوڑ گئی ہو۔
    ”جیسے۔۔۔“ درویش نےاس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ” کسی کو چاندکےداغ دکھائی نہ دیے۔ اپنا عجز یاد رہا۔ چاند کا گرہن نظر نہ آیا۔ اپنی عبادت کے آگےسب کچھ ہیچ لگا۔یاد آیا کچھ؟“
    طاہر کےدماغ میں ریگستان سا جاگا۔ تصور میں امبر اور قمر کےہیولےابھرےاور معدوم ہو گئے۔
    ”ہاں بابا۔“ وہ شرابیوں کےانداز میں جیسےکسی کنویں کی تہہ سےبولا۔”یاد آگیا۔“
    ”عشق کا پہلا حرف ۔عین عبادت ۔ یاد رکھنا۔ عبادت میں عجز لازم ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہوتی۔ عجز نہ ہو تو انسان کو خود پر عبد کےبجائےمعبود ہونےکا شبہ ہونےلگتا ہے۔ اپنے آپ کو چاہنا تو اس متکبر کےلئےہےاور بس۔ کسی اور کےلئےیہ روا نہیں ہے۔ اس نےاپنےنور کو خود چاہا۔ اپنےنور سےعشق کیا۔ اپنےنور کو اپنا حبیب بنایا۔ اپنا محبوب بنایا۔ پھر ساری مخلوق کو اپنےحبیب سےعشق کا حکم دیا۔ کہا‘ جو مجھےپانا چاہے‘ وہ میرےحبیب کو چاہے۔ جو اس تک جانا چاہے۔ اسےاس کےحبیب کا منظور ِ نظر ہونا پڑتا ہے۔ اس وسیلےکےبغیروہ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔ اور جو اس کی” اپنے آپ کو چاہنےکی صفت “ سےمتصف ہونا چاہتا ہےناں ‘ اس پر استکبار کا رنگ چڑھنےلگتا ہے۔تکبر سےجُڑتےہی انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہتا ہےکہ اس کےہاں ہر گناہ کی معافی ہی‘ شرک کی معافی نہیں ہےپگلے۔“درویش نےاس کی جانب تنبیہ کےانداز میں انگلی اٹھائی۔
    ”بابا۔“ طاہر ساری جان سےلرز کر رہ گیا۔
    ”ہاں۔“ درویش نےسر ہلا کر کہا۔ ” پگلا بن کر رہ۔ سیانا بننےمیں جان کانٹوں پر گھسیٹی جاتی ہے۔ پگلےپن میں معافی مل جاتی ہے۔ آسانی پگلا بن کر رہنےمیں ہے۔سیانا وہ ہےجو چاہےجانےکی خواہش کا اسیر ہو جائے۔ پگلا وہ ہےجو کسی کو چاہنےلگے۔ عبد ہوجائے۔ایک سیانا حافظ عبداللہ ہےجو چاہا گیا۔ ایک پگلی سکینہ ہےجس نےحافظ عبداللہ سےعشق کر لیا۔ اس کی عبادت میں محو ہو گئی۔ “
    ”بابا۔عبد کی عبادت۔۔۔؟“ طاہر نےحیرت سےکہا۔
    ”نہ نہ پگلی۔“ درویش نےکانپ کر کانوں کو چھوا۔” عبادت تو صرف اس کی ہےجو معبود ہے۔ مگر مجاز میں خدائی بھی تو چھپا رکھی ہےاس نی۔ خود ہی تو کہتا ہےکہ اگر اپنےسوا کسی اور کو سجدہ کرنےکی اجازت دیتا تو عورت اپنےمجازی خدا کو سجدہ کرتی۔ کہتا ہےکہ ماں کو ایک بار محبت سےدیکھنےکا ثواب بیٹےکو ایک حج ِ مقبول کےبرابر دیتا ہوں۔ عبادت نہیں کی‘ مگر کی ہے۔ حج نہیں کیا مگر ہو گیا۔ یہ استعارےہیں۔ تشبیہیں ہیں۔ مثالیں ہیں۔ انہیں اسی طرح لینا چاہئے۔ عجز پیدا ہوتا ہےعبادت کی طرف رغبت سے۔ پگلی سکینہ نےحافظ عبداللہ کےسامنےعاجزی سےاقرار کیا کہ وہ اسےچاہتی ہے۔ سیانا حافظ عبداللہ اکڑ گیا کہ وہ اس کےقابل نہیں ہے۔ میں نےہاتھ جوڑ کر اس سیانےکو سمجھایاکہ پگلا بن ۔ سیانا نہ بن۔ اللہ کی نعمت کا کفران نہ کر۔ شکر ہےاسےسمجھ آ گئی۔ اب سکینہ کورغبت کےلئےراستہ مل گیا۔عبادت میں عجز کےلئےچن لیااس نےحافظ عبداللہ کو۔ وہ اس کی خدمت کرےگی اور عبادت کا ثواب پائےگی۔ یہ ہےعشق کےعین کی حقیقت۔ “
    ”بابا۔“ طاہر کےاندر چراغ سےجل اٹھے۔
    ”اسی لئےکہتا ہوں تو پگلا ہے۔“ درویش نےاس کی جانب پیار سےدیکھا۔ ”اتنی جلدی پگلےہی بات سمجھ بھی لیتےہیں اور مان بھی لیتےہیں۔“
    ”اور عشق کا دوسرا حرف۔۔۔“
    ”شین کی بات کر رہا ہے۔“ درویش ہولےسےہنسا۔ ” ابھی نہیں۔ پہلےعین کو تو دیکھ لے۔ جان لے۔ “
    ”کیسےبابا؟“ طاہر اتاولےپن سےبولا۔
    ”صبر پگلے۔ صبر۔“ درویش نےاس کےگال کو چھوا۔ ”دکھائیں گےتجھے۔ چند دن ٹھہر جا۔ ابھی لوٹ جا۔ تیرےگھر میں بھی ایک پگلی ہے۔ ابھی اس کےپاس لوٹ جا۔ تجھےچند دن بعد دکھائیں گےکہ عین کےپرت کیسےکھلتےہیں؟“
    ”تب تک میرا کیاحال ہو جائےگا بابا؟“ طاہر نےدرویش کےدونوں ہاتھ تھام کر سینےسےلگا لئے۔ اس کا دل یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسےکوئی دھان کوٹ رہا ہو۔
    ”اچھا ہے۔“ درویش نےمسکرا کر کہا۔ ایک اطمینان اس کی آنکھوں سےجھلکا۔ ”بہت اچھا ہے۔ جوت جگ گئی ہے۔ اسےانتظار کی ہوا دے۔ اس الائو کو بھڑکنےدے۔ اس پر ہاتھ تاپ۔ اپنی آگ پر ہاتھ تاپنےکا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہےپگلے۔ اپنےالائو پر ہاتھ تاپ۔کباب ہونےسےپہلےکی سوندی سوندی خوشبو لے۔اشتہا کو بڑھنےدے۔ خوب چمک جائےتو بھوک لذت دیتی ہے۔ ۔۔ لذت۔۔۔“ درویش نےسسکاری بھر کر آنکھیں بند کر لیں۔ ” لذت سےعشق کا شین شروع ہوتا ہےپگلے۔عشق کا شین۔۔۔“
    درویش ایک سلگتی ہوئی آہ بھر کر خاموش ہو گیا۔
    طاہر کےسارےجسم میں پھریریاں سی چکر ا رہی تھیں۔ اسےلگ رہا تھا ابھی کےابھی اس کےجسم میں پھلجھڑیاں چھوٹنےلگیں گی۔وہ درویش کےچہرےمیں گم ہو کر رہ گیا جہاں زردی چھا گئی تھی۔ سرسوں کےپھولوں جیسی ۔ شفق کی ابتدا جیسی۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔ تب آہستہ سےدرویش نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی تھی۔ طاہر اس سرخی کی لپک کو سہہ نہ سکا اور گھبرا کر نظر ہٹا لی۔
    ”ارے۔ میں تو بھول ہی گیا۔“ اچانک درویش کو جیسےکچھ یاد آ گیا۔ اس نےہاتھ بڑھا کر قبر کےتعویذ پر رکھےدومیں سےایک گلاب جامن اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر ہاتھ طاہر کی جانب دراز کر دیا۔”لے۔ یہ تیرا حصہ ہے۔“
    طاہر نےبسم اللہ کہہ کر ایک گلاب جامن اٹھا لیا ۔
    ”کھا لے۔ یہ بابےشاہ مقیم کا تبرک ہےجو سکینہ اور حافظ عبداللہ کےایک ہو جانےکی خوشی میں تیرےلئے آیا رکھا ہے۔“
    طاہر نے آہستہ آہستہ گلاب جامن کھانا شروع کیا۔ اسےلگا ‘ اس نےایسی لذیذمٹھائی آج سےپہلےکبھی نہیں کھائی۔ جوں جوں وہ گلاب جامن حلق سےاتارتا گیا‘ اس کےجسم میں تیرتی بےچینی دم توڑتی چلی گئی۔ اس کےرگ و پےمیں ایک سکون اور صبر سا پر پھیلاتا چلاگیا۔
    ”اور یہ لے۔ اپنی پگلی کےلئےلےجا۔ یہ صرف اسی کو دینا۔ میں اپنا حصہ اسےبھجوا رہا ہوں۔“ درویش نےدوسرا گلاب جامن ایک کاغذ میں لپیٹ کر اسےتھما دیا۔طاہر نےسر سےرومال کھولا۔ کاغذ اس میں رکھ کر گانٹھ ماری اور کرتےکی جیب میں ڈال لیا۔
    ”اب جا۔ باہر وہ بونےتیرا انتظار کر رہےہیں۔ جا ۔ اللہ تیرا اندر آباد رکھے۔“ درویش نےاس کا شانہ تھپکتےہوئےکہا۔
    طاہر اٹھ کھڑا ہوا۔ قبر کےتعویذ کو پیروں کی طرف سےچھوا۔ درویش کی جانب جھکا تو اس نےہاتھ اٹھایا اور اسےخم ہونےسےروک دیا۔
    ”یہ صرف اس کا حق ہے۔“ چھت کی جانب شہادت کی انگلی اٹھا کر مسکراتےہوئےوہ بولا۔ ” اس کےسوا کسی کے آگےسر جھکانا شرک ہے۔“
    سر اثبات میں ہلاتےہوئےطاہر ایک دم سیدھا ہو گیا۔
    ”اللہ حافظ بابا۔“ اس نےدونوں ہاتھ سینےپر رکھ کر آنکھیں جھکائیں۔
    ”اللہ حافظ۔“ درویش نےہاتھ کھڑا کیا۔
    طاہر الٹےپائوں باہر نکلا۔ چوکھٹ پر ایک پل کو رکا پھر دروازےپر چلا آیا۔ پٹ کھلےتو باہر بیتابی سےٹہلتا ملک بلال نظر آیا۔
    طاہر نےباہر قدم رکھا۔ مگر نہیں۔ یہ طاہر تو نہیں تھا۔ یہ اس کا چھوٹا مالک تو نہیں تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ کوئی اور۔۔۔ جس کےچہرےپر زردی اور آنکھوں میں آگ سی آباد تھی۔ طاہر کا چہرہ ایک عجیب سےجلال کےہالےمیں دمک رہا تھا۔ یہ کیسی زردی تھی جس پر سرخیاں نثار ہو رہی تھیں۔ یہ کیسی آگ تھی ‘ جس میں خنکی کروٹیں لےرہی تھی۔
    ملک بےاختیار دو قدم پیچھےہٹ گیا۔ باقی کےملازم بھی طاہر کی بدلی ہوئی حالت کو حیرت سےجانچ رہےتھے۔
    ”ملک۔ تم سب بھی سلام کر لو۔ میں گاڑی میں تم لوگوں کا انتظار کر رہا ہوں۔“ طاہر کہہ کر پجارو کی طرف بڑھ گیا۔
    ملک نےکچھ کہنا چاہا مگر اس کا حوصلہ نہ ہوا۔ آہستہ سےوہ ملازموں کی جانب مڑا۔ پھر انہیں اجناس کی بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرا اٹھالانےکا کہتےہوئےوہ مزار کی طرف چل دیا۔ اس کے آہستہ آہستہ اٹھتےہوئےقدم اس کےکسی سوچ میں ڈوبےہونےکےغماز تھےاور اس سوچ کا تعلق صرف اور صرف طاہر کی موجودہ حالت سےتھا۔
    ٭
    ”کیا بات ہی؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟“ طاہر کمرےمیں داخل ہوا تو صفیہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔
    ”ہاں۔“ طاہر مسکرایا۔ ”کیا ہوا میری طبیعت کو۔“
    ”ٹھیک نہیں لگتی۔“ وہ بیتابی سےاس کا ماتھا چھوتےہوئےبولی۔” رنگ دیکھئےکیسا زرد ہو رہا ہےاور جسم بھی تپ رہا ہے۔“ اس نےاس کےرخسار پر ہاتھ کی پشت رکھ دی۔
    ”ارےنہیں۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔“ طاہر نےلاپروائی سےکہا۔ ”میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
    ” آپ ٹھیک نہیں ہیں۔“ صفیہ بےقرار ہو رہی تھی۔ اس کی آواز میں فکر عود کر آیا۔ ”ٹھہریی۔ میں آپ کا ٹمپریچر چیک کرتی ہوں۔ ابھی پتہ چل جائےگا۔“وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف لپکی۔ دراز کھولا۔ اس میں سےتھرمو اسٹک نکالی اور واپس اس کی طرف آ گئی ۔ طاہر تب تک بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔
    صفیہ نے آتےہی اسٹک اس کےماتھےپر چپکا دی اور کسی ماہر نرس کی طرح رسٹ واچ پر ٹائم نوٹ کرنےلگی۔ طاہر نےاسےروکنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک تو اسےیاد آ گیا کہ بابا نےصفیہ کےبارےمیں پگلی کا لفظ استعمال کیا تھا اور دوسرےاسےعلم تھا کہ صفیہ اس کےبارےمیں کسی قسم کی رورعایت سےکام نہیں لےگی ۔ جب تک اس کا اطمینان نہ ہو جائےوہ اپنا کام جاری رکھےگی۔
    ”ارے۔ “ ایک منٹ بعد اسٹک ہٹا کر جب اس نےاس پر ٹمپریچر چیک کیا تو حیرت بھری آواز اس کےلبوں سےنکلی۔ ”یہ کیا؟“
    ”کیا ہوا؟“ طاہر نےنیم دراز ہوتےہوئےپوچھا۔
    ”ٹمپریچر تو نارمل ہے۔“ وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ ”مگرجسم اب بھی گرم ہے آپ کا۔“ اس نےدوبارہ اس کی گردن چھو کر دیکھی۔
    ”کہہ تو رہا ہوں‘ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے ۔“
    ”ہو سکتا ہےیہ اسٹک خراب ہو گئی ہو۔“ وہ اب بھی یقین نہ کر رہی تھی۔ ” میں بازار سےتھرمامیٹر منگواتی ہوں۔“ اس نےاسٹک تپائی پر ڈالی اور قالین پر اکڑوں بیٹھ کر طاہر کےپائوں سےکھسہ اتارنےلگی۔” آپ آرام سےلیٹ جائیں۔ میں آپ کےلئےکوئی ہلکی سی گولی اور چائےلےکر آتی ہوں۔“
    ”پستول کی گولی کےبارےمیں کیا خیال ہے؟“ طاہر نےاسےستانےکےانداز میں کہا۔
    تڑپ کر صفیہ نےاس کی جانب دیکھا۔ پھر اس کےلبوں پر دبی دبی مسکراہٹ پا کر اس کا چہرہ نارمل ہو گیا۔”میں جانتی ہوں‘ آپ مجھےایسی باتوں سےدُکھ دےکر خوش ہوتےہیں طاہر۔ لیکن پلیز ‘ کچھ اور کہہ لیا کیجئے۔ مجھےتھپڑ مار لیا کیجئے‘ اپنےبارےمیں ایسی بات نہ کہا کیجئے۔“ سر جھکا کر وہ اس کی جرابیں اتارتےہوئےدھیرےسےبولی۔
    ”میں تو مذاق کر رہا تھا۔“ طاہر ہنس پڑا۔
    ”جانتی ہوں۔“ وہ پھیکےسےانداز میں مسکرائی۔ ” آپ کا مذاق کسی دن میری جان لےلےگا۔تب آپ کو یقین آئےگا کہ ۔۔۔“ وہ خاموش ہو گئی۔ جرابیں اور کھسہ بیڈ کےنیچےسرکا کر اس نےطاہر کےپائوں دونوں ہاتھوں سےسہلائے‘ پھر اس سےپہلےکہ طاہر کچھ سمجھ پاتا اس نےاس کےدونوں پیروں کو باری باری چوم لیا۔
    ”ارےارے۔“ اس نےپائوں کھینچ لئے۔” یہ کیا دیوانگی ہےبھئی۔“ وہ گھبرا گیا۔
    ”عقیدت ہےیہ۔ “ صفیہ نےمسکرا کر اس کی جانب دیکھا ۔ ” اس سے آپ مجھےکبھی مت روکئےگا طاہر۔“ وہ اٹھ گئی۔”میں آپ کےلئےڈسپرین اور چائےلاتی ہوں۔“
    ”رکو۔“ طاہر نےاٹھتےہوئےکہا۔”اپنا تحفہ تو وصول کر لو۔“
    ”یہ کیا ہی؟“ طاہر نےجیب سےنکال کر رومال کا گولہ صفیہ کےہاتھ پر رکھا تو اس نےاشتیاق سےپوچھا۔
    ”کھول کر دیکھو۔“ طاہر نےکہا ۔
    صفیہ نےرومال کی گانٹھ کھولی۔ اندر سےکاغذ میں لپٹا ہوا خوشبو دیتا گلاب جامن نکلا تو اس نےحیرت سےطاہر کی جانب دیکھا۔
    ”بابا شاہ مقیم کےدربار کا تبرک ہے۔ وہاں کےدرویش بابا نےخاص طور پر تمہارےلئےبھیجا ہے۔ کہہ رہےتھےکہ یہ صرف تمہیں دوں۔ یہ ان کا اپنا حصہ ہےجو انہوں نےتمہارےلئےرکھ چھوڑا تھا۔“
    ”بسم اللہ۔“ صفیہ نےادب سے آنکھیں بند کر کےکہا۔ ” میں قربان اس تحفےکے۔“ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو ان میں نمی سی چمک رہی تھی۔ وہ آگےبڑھی اور قالین پر ‘ طاہر کےقدموں میں گھٹنےموڑ کر بیٹھ گئی۔
    ”لیجئے۔ ذرا اسےجھوٹا کر دیجئے۔“ اس نےگلاب جامن انگلیوں میں تھام کر طاہر کےہونٹوں کی جانب بڑھایا۔
    ”اوں ہوں۔“ طاہر نےنفی میں سر ہلایا۔ ” میں اپنا حصہ وہاں کھا آیا ہوں۔“
    ”جانتی ہوں۔“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتےہوئےبولی۔” مگر میں اپنا حصہ آپ کےبغیر کیسےکھا سکتی ہوں۔لیجئے۔ ذرا سا ہی لےلیجئے۔“
    ”مگر۔۔۔“ طاہر نےکہنا چاہا۔
    ”طاہر۔“ صفیہ نےگلاب جامن اس کےہونٹوں سےلگا دیا۔ ” آپ اسےجھوٹا کر دیں گےتو میرا حصہ مجھ پر حلال ہو جائےگا۔ مجھےحرام کھانےسےبچانا آپ پر فرض ہےیا نہیں؟“اور بےاختیار طاہر کےہونٹ وَا ہو گئے۔ اس نےذرا سا گلاب جامن دانتوں سےکاٹ لیا۔
    ”شکریہ۔“ وہ کھل اٹھی۔پھر اس نےہاتھ واپس کھینچا اور بچوں کی طرح گلاب جامن کھاتی ہوئی اٹھ کر چل دی۔
    ”پگلی۔“ بےساختہ طاہر کےدماغ میں درویش بابا کی آواز گونجی۔ اسےبےطرح صفیہ پر پیار آ گیا‘ جو دروازےسےباہر قدم رکھ چکی تھی۔
    اس کےجانےکےبعد طاہر بستر پر دراز ہو گیا اور ہاتھ سر کےنیچےرکھ کر آنکھیں موند لیں۔ اس کےذہن میں صبح کےواقعےکی فلم سی چلنےلگی۔ درویش کی ایک ایک بات اسےازبر تھی۔ راستےبھر بھی وہ خاموش رہا۔ ملک بلال نےایک دو بار کوئی بات کرنا چاہی مگر جب اس کی طرف سےکوئی خاص توجہ نہ ملی تو وہ بھی خاموشی سےڈرائیو کرنےلگا۔
    حویلی پہنچ کر وہ سیدھا اپنےکمرےمیں چلا آیا اور اب بستر پر لیٹا پھر انہی سوچوں میں ڈوب گیا جن سےرستےبھر اس کا دل اور دماغ الجھےرہےتھے۔ ۔
    عشق کا فلسفہ آج ایک عجیب رنگ میں اس پر کھلا تھا۔ عشق کا ہر حرف اپنےاندر کیا وسعت رکھتا تھا‘ یہ تو اس کےلئےایک اچنبھا تھا۔ ایک اسرار کا عالم تھا‘ جس میں اسےدرویش نےداخل کر کےاس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ تھا اور درویش کی باتیں۔ ہر ہر بات ہشت پہلو تھی۔وہ جتنا ان پر غور کرتا گیا ‘ اس کا ذہن فراخ ہوتا چلا گیا۔سوچوں میں روشنی پھیلتی چلی گئی۔ حیرت کا ایک جہان تھا‘ جو اس کےلئےاپنی باہیں پسارےاسےعشق کا مفہوم سمجھانےکےلئےجھوم رہا تھا۔ عین سےعاشق ِ صادق ۔ عین عجز سےعبادت ‘ عبودیت اور عبد کےبعد اب عین سےعقیدت نےاس کی سوچوں کو اور بہت کچھ عطا کر دیا تھا۔ کہیں امبر اور قمر تھےتو کہیں حافظ عبداللہ اور سکینہ۔ اور کہیں صفیہ اور ۔۔۔
    صفیہ پر آکر اس کا دماغ رک گیا۔ صفیہ ۔۔۔ جس نےاسےعین عقیدت کا احساس دلایا تھا۔۔۔اس کےساتھ طاہر کا نام جوڑا جاتا یا سرمد کا؟ وہ الجھ کر رہ گیا۔سرمد کےبقول وہ صفیہ کےلئےدنیا تیاگ دینےکا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔ اور وہ خود صفیہ کو دل کےتخت پر جو مقام دےکر بٹھا چکا تھا‘ کیا وہ سرمد کےجذبےسےکمتر نہیں تھا؟ اس کےلئےکوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو گیا۔ درویش نےصفیہ کو پگلی اور اسےپگلا کہا تھا ۔ یعنی ایک پگلی کےلئےایک سیانا درکار تھا۔ کہیں وہ سیانا سرمد تو نہیں تھا؟وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ لگا جیسےاس کا دل کسی نےمٹھی میں لےکر مسل دیا ہو۔
    اسی وقت صفیہ ایک منی ٹرےمیں چائےکا کپ اور ڈسپرین کی گولیاں رکھےاندر داخل ہوئی۔ طاہر نےخود پر قابو پانےکی کوشش کرتےہوئےاس کی جانب دیکھا جومسکراتےہوئےاس کےقریب آ چکی تھی۔
    ”کیا بات ہےطاہر؟“ وہ جیسےاس کےدل تک پہنچ گئی۔” دل گھبرا رہا ہےتو ڈاکٹر کو بلوالیں۔“ اس نےٹرےتپائی پر رکھی اور اس کےقریب بیڈ پر بیٹھ کر اس کےماتھےپر ہاتھ رکھ دیا جو برف کی طرح سرد ہو رہا تھا۔
    ”ارے۔“ اب بالکل ہی ٹھنڈا ہو گیا آپ کا جسم۔“ وہ پریشانی سےبولی۔ ” یہ ہو کیا رہا ہے؟“اس نےطاہر کی طرف تشویش سےدیکھا۔
    ”کچھ نہیں۔“ طاہر نےسر کو ہلکاسا جھٹکا دیا۔ ”تم چائےدو مجھے۔ میرا خیال ہی‘ ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائوں گا۔“ اس نےبہانہ بنایا۔
    ”چائےتو پی لیں آپ۔ “ اس نےکپ اٹھا کر اس کےہاتھ میں دےدیا۔” مگر میں ڈاکٹر کو بلوا رہی ہوں۔ اسےچیک کر لینےدیجئے۔“
    ”کیا ضرورت ہے۔“ طاہر نےاسےروکا۔ ”میں نےکہا ناں‘معمولی ٹھنڈ کااثر ہے۔ چائےپینےسےدور ہو جائےگا۔ اگر فرق نہ پڑا تو پھر ڈاکٹر کو بلوا لیں گے۔“
    ”چلئی۔ یونہی سہی۔ آپ چائےپی کر آرام کریں۔ میں آپ کےلئےیخنی بنواتی ہوں۔“ صفیہ نےکمبل کھول کر اس کی ٹانگوں پر پھیلا دیا اور اس کی جانب فکرمندی سےدیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
    تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ کمرےمیں لوٹی تو طاہر سینےتک کمبل اوڑھےبےخبر سو رہا تھا۔ وہ دبےپائوں اس کےپاس آئی۔ آہستہ سےاس کا ماتھا چھو کر دیکھا ۔ حرارت نارمل محسوس ہوئی تو بےاختیار اس کےلبوں سے” یا اللہ تیرا شکر ہے“ کےالفاظ نکل گئی۔ اس نےجھک کر طاہر کی پیشانی کو ہلکا سا بوسہ دیا۔ لائٹ آف کی اور چائےکا خالی کپ ٹرےمیں رکھ کر کمرےسےنکل گئی۔ دروازہ بیحد آہستگی سےبند کر کےجاتی ہوئی صفیہ کب جانتی تھی کہ طاہر اب بھی جاگ رہا تھااور اس کےبوسےنےطاہر کی روح تک میں ایک سرشاری سی بھر دی تھی۔ سرمد کا خیال ایک دم اس کےدل و دماغ سےیوں محو ہو گیا جیسےاس کا کہیں وجود ہی نہ رہا ہو۔
    ایک ہفتہ اور گزر گیا۔
    عادل اور زبیدہ کی شادی ہو گئی۔ طاہر اور صفیہ خاص طور پر ان کی شادی میں شریک ہوئے۔ صفیہ بہت خوش تھی۔ گائوں کی شادی اس نےپہلی بار دیکھی تھی۔ وہاں کےرسم و رواج اس کےلئےجہاں اچنبھےکا باعث تھے‘ وہیں دلچسپی بھی رکھتےتھے۔
    زبیدہ کی رخصتی تک وہ دونوں ماسٹر محسن کےہاں موجود رہے۔ پھر جب وہ اپنےماں باپ‘ بھائی اور سہیلیوں کو آنسوئوں کےحوالےکر کےبلکتی ہوئی پیا کےگھر کو سدھار گئی تو اداس اداس صفیہ نم آنکھیں لئےطاہر کےساتھ حویلی لوٹ آئی۔
    رات وہ کتنی ہی دیر تک جاگتی رہی۔ اس کا جی چاہا وسیلہ خاتون سےبات کرے۔ وقت دیکھا تو رات کےگیارہ بج رہےتھی۔ وہ اس وقت سو گئی ہوں گی‘ اس نےسوچا۔پھر صبح ان سےبات کرنےکاخیال دل میں لئےوہ طاہر کےبازو پر سر رکھ کر سو گئی‘ جو آنکھیں موندےنجانےکیاسوچ رہا تھا۔
    صبح اٹھ کر اس نےسب سےپہلےوسیلہ خاتون کو فون کیا۔ وہ اس کی طرف سےفکرمند تھیں۔ جب اس نےانہیں اپنےبارےمیں خیریت کا بتایا تو ان کی جان میں جان آئی۔ دوپہر کےقریب بیگم صاحبہ کا فون آ گیا۔ وہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی اس وقت مدینہ منورہ میں تھےاور خوش تھے۔ طاہر نےان کی واپسی کا جان بوجھ کر نہ پوچھا۔ ایسی مقدس جگہ سےلوٹ آنےکو کس کا جی چاہتا ہے؟ وہ ان سےواپسی کا پوچھ کر گستاخی کا مرتکب نہ ہوناچاہتا تھا۔ صفیہ اور طاہر کوبہت سی دعائیں دےکر انہوں نےفون بند کیا تو صفیہ کےساتھ ساتھ طاہر کا موڈ بھی بہت اچھا ہو چکا تھا۔
    ”طاہر۔ آپ بتا رہےتھےکہ آپ کو پھر بابا شاہ مقیم کےمزار پر جانا ہے۔“ وہ موبائل تپائی پر ڈالتےہوئےبولی۔
    ”ہاں۔جانا تو ہےمگر کل۔“ دن کا حساب لگاتےہوئےاس نےبتایا۔
    ”میں بھی آپ کےساتھ چلوں؟“ وہ اشتیاق سےبولی۔
    ”تم؟“ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
    ”کیوں؟ کیا کوئی دقت ہے؟“ اسےغور سےدیکھتےہوئےصفیہ نےپوچھا۔
    ”نہیں۔ دقت کوئی نہیں۔“ طاہر نےصاف گوئی سےکہا۔ ”دراصل بابا نےمجھےاکیلے آنےکو کہا تھا۔“
    ”اچھا اچھا۔“ وہ مطمئن ہو گئی۔ ”تو اس میں اتنا سوچنےکی کیا بات ہے۔ آپ اکیلےچلےجائیں مگر لوٹ جلدی آئیےگا۔پھر ٹھنڈ نہ لگوا بیٹھئےگا۔“
    ”تمہیں برا تو نہیں لگا؟“ طاہر نےاس کی جانب دیکھا۔
    ”ارے۔“ وہ ہنسی۔ ” برا کیوں لگےگا۔ آپ نےکہہ دیا ‘میں نےمان لیا۔بس۔“
    طاہر کےدل میں ہوک سی اٹھی۔اتنا عجز۔ اتنی فرمانبرداری۔اتنا خلوص۔ وہ اسےعجیب سی نظروں سےدیکھتا رہ گیا۔
    اسی وقت موبائل بول پڑا۔ طاہر نےجیب سےسیٹ نکالااور سکرین پر امبر کا نمبر دیکھ کر جلدی سےبٹن دبا دیا۔
    ”ہیلو سر۔ مارننگ۔ میں بول رہی ہوں امبر۔“ دوسری طرف سےوہ چہکی۔
    ”مارننگ ۔ مارننگ۔“ طاہر ہنسا۔ ”کیا حال ہےلیڈی ؟“
    ”بالکل ٹھیک سر۔ آپ سنائیے۔ کیسی گزر رہی ہیں چھٹیاں؟“
    ”فسٹ کلاس۔“ وہ صفیہ کی جانب دیکھ کر بولا جو اس کےقریب کھڑی اشارےسےپوچھ رہی تھی کہ کس کا فون ہے۔
    ”امبر کا فون ہے۔“ طاہر نےہولےسےبتایا۔
    ”اچھا اچھا۔“ صفیہ بھی مسکرائی اور اس کےپاس پڑی کرسی پر بیٹھ کر سر اس کےسر کےساتھ جوڑ لیا۔ اب وہ بھی امبر کی باتیں سن سکتی تھی۔
    ”کیسا جا رہا ہے آفس؟“ طاہر نےپوچھا۔
    ”میں نے آپ کو کسی قسم کی رپورٹ دینےکےلئےفون نہیں کیا سر۔“ امبر نےخوش گفتاری سےکہا۔ ” آپ کی رپورٹ لینےکےلئےکیا ہے۔“
    ” وہ تو میں نےبتا دیا لیڈی۔“ طاہر پھر ہنسا۔ امبر سےبات کرتےہوئےاس کےذہن میں درویش کا اس کےبارےمیں ”پگلی “ کا لفظ گونج رہا تھا۔ وہ اسی تناظر میں اسےدیکھ اور سن رہا تھا۔”تم سنائو۔ تمہارےپروفیسر صاحب کیسےہیں؟“
    ”بالکل ٹھیک سر۔the poroudکےمعاملات میں میرا ہاتھ بٹا رہےہیں۔“
    ”مفت کام نہ لیتی رہنا ان سے۔ گھر کےمرغےکو دال برابر سمجھو گی تو یہ ان کےساتھ زیادتی ہو گی۔“
    ”اس کی آپ فکر نہ کریں سر۔“ امبر اس کےکمنٹ پر ہنس ہنس کر بےحال ہو گئی۔” آپ کی اس بات پر میں آپ کی چھٹی مزید کتنی ایکسٹنڈ کر دوں؟“
    ”ابھی پہلی چھٹی ختم ہونےمیں تین دن باقی ہیں بھئی۔“ طاہر نےجلدی سےکہا۔
    ”اسی لئےتو کہہ رہی ہوں سر کہ آج میرا موڈ بہت اچھا ہ‘ فائدہ اٹھا لیجئے۔“
    ”تو پھر یہ بھی تم پر رہا کہ تم ہمیں اور کتنی چھٹی دےسکتی ہو۔ “ طاہر شگفتگی سےبولا۔
    ”اگر میری مرضی پر بات ٹھہری ہےتو سر‘ آپ جب جی چاہےلوٹئےگا۔ آپ کےلئےکھلی آفر ہے۔“
    ”واقعی؟“ طاہر نےحیرت سےپوچھا۔
    ”یس سر۔جب جی چاہے آئیےگا۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔“
    ”مگر امبر۔ ۔۔“
    ”پروفیسر صاحب کوکالج سےتین ماہ کی چھٹی مل گئی ہےسر۔ اب میرےپاس وقت ہی وقت ہے۔“
    ”اوہ۔ تو یہ بات ہی۔ میں بھی کہوں اتنی نوازش کا سبب کیا ہے؟“
    ”شکریہ امبر۔ “ اچانک بیچ میں صفیہ بول پڑی۔ ” آپ نےبہت اچھا کیا جو انہیں مزید کچھ عرصےکےلئےٹینشن فری کر دیا۔“
    ”اری۔ آپ بھی وہیں ہیں صفیہ جی۔“ امبر کا موڈ اور خوشگوار ہو گیا۔ ”بہرحال میں نےاکیلےسر کو نہیں ‘ آپ کو بھی ان کےساتھ مزید انجوائےکرنےکا وقت دیا ہے۔“ اور صفیہ نےجھینپ کر سر پیچھےہٹا لیا۔”اوکے۔ آلویز بی ہیپی اینڈ بائی۔“ امبر نےہنستےہوئےرابطہ ختم کر دیا ۔
    طاہر نےموبائل جیب میں ڈالا اور انگڑائی لی۔ ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور دروازےکی جانب چل پڑا۔
    ”میں ڈیرےپر جا رہا ہوں۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھائوں گا۔“ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
    صفیہ اٹھی اور کرسی پر جا بیٹھی۔ ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی آن کر دیا۔
    امبر کی باتوں نےاس کا حال عجب کر دیا تھا۔ اس کا بدن ایک دم ٹوٹنےلگا ۔ ایک دم تھکن نےگھیر لیا۔ وہ اپنی یہ حالت طاہر پر ظاہر نہ ہونےدینا چاہتی تھی۔ امبر کیا سمجھ رہی تھی ‘ اسےاس کا احساس ہوا تو جذبات میں جوار بھاٹا سا اٹھامگر وہ امبر کو کیا بتاتی کہ جب سےطاہر نےسرمد کی باتیں سنی تھیں اور اس کےساتھ گھر لوٹا تھا‘ تب سے آج تک و ہ دونوں ہر وقت ایک ساتھ ہوتےہوئےبھی اتنےہی دور تھی‘ جتنا شادی سےپہلی۔

    صبح کےنو بجےتھےجب مقررہ دن طاہر اکیلا ہی پجارو میں بابا شاہ مقیم کےمزار پر جا پہنچا۔ اس نےملک یا کسی اور ملازم کو ساتھ نہ لیا۔ ہاں ملک بلال کو اتنا بتا دیا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ساتھ ہی منع کر دیا کہ کوئی اس کےپیچھےنہ آئی۔
    درویش اسےمزار کےباہر ہی مل گیا۔ وہ گاڑی سےاترا اور اس کےپاس چلا آیا۔
    ” آ گیا پگلے۔“ وہ اسےدیکھ کر معصومیت سےمسکرایا۔
    ”جی بابا۔“ اس نےادب سےجواب دیا ۔
    ”چلیں؟“ درویش نےپوچھا۔
    ”ضرور بابا۔“ یہ پوچھنےکو اس کا جی ہی نہ چاہا کہ کہاں جانا ہے؟ ”مگر۔۔۔“ اس نےمزار کی طرف دیکھا۔
    ”سلام کرنا چاہتا ہے؟“ درویش مسکرایا۔ ” بابا شاہ مقیم وہاں ۔۔۔ “ درویش نےمزار کی جانب اشارہ کیا۔” اندر موجود نہیں ہے۔ کہیں گیا ہوا ہے۔ اینٹ روڑوں کو سلام کرنا ہےتو یہیں سےکر لے۔ کیا خیال ہے؟ “ وہ ہنسا۔” آجا ۔ چلیں۔“اور وہ سر جھکائےاس کےساتھ چل پڑا۔ ان کا رخ نور پور گائوں کی جانب تھا۔
    گائوں میں داخل ہوئےتو جگہ جگہ لوگوں نےدرویش کو سلام کیا۔ وہ جواب دیتا ہوا ‘ طاہر کو ساتھ لئےنور پور کی اکلوتی مسجد پر چلا آیا۔مسجد کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔
    درویش نےدروازہ کھول دیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ اب وہ جہاں کھڑےتھےوہ ڈیوڑھی نما جگہ تھی جو نمازیوں کےجوتیاں اتارنےکےلئےتھی۔ اس کےبعد سامنےمسجد کا صحن اور اس کےبعد مسجد کی عمارت۔ صحن میں دائیں ہاتھ وضو خانہ بنا ہوا تھا۔ جس کے آخر پر طہارت خانےکےبعد چھوٹی سی کھوئی کےاوپر چرخی اور اس میں رسی سےبندھا چمڑےکا ڈول دکھائی دےرہا تھا۔ بائیں ہاتھ حافظ عبداللہ کا حجرہ تھا‘ جس کی دیوار آگےکی جانب مسجد کےساتھ جا ملی تھی۔ حجرےکی مسجد کےصحن میں کھلنےوالی کھڑکی کےپٹ وَا تھے۔
    ”پگلے۔“ درویش نےاپنےدائیں ہاتھ کھڑےطاہر کی طرف دیکھا۔ ” عشق کےعین کا نظارہ کرنےکےلئےتیار ہو جا۔“
    طاہر کا دل زور سےدھڑکا اور رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ نجانےاس کےسامنےکیا آنےوالا تھا۔درویش نےقدم آگےبڑھایا اور کھلی کھڑکی کےقریب جا کھڑا ہوا۔ طاہر اس کےساتھ تھا۔
    اندر کا منظر دیکھ کر طاہر کو پہلےتو کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر نجانےکیوں اسےلگا جیسےوہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ ایسا خواب جو دھند بن کر اس کی آنکھوں میں غبار اڑا رہا ہے۔ چمکیلا‘ رگوں میں سنسناہٹ دوڑاتا ‘ دماغ کےبند دریچوں کو پُرشور آواز کےساتھ کھولتا ہوا خواب۔
    دلہن کےلباس میں ملبوس جواں سال خوبصورت گوری چٹی سکینہ‘ اپنےسامنےچٹائی پر بیٹھےباریش‘ سانولےاور واجبی سی شکل کےحامل حافظ عبداللہ کو اپنےہاتھ سےناشتہ کرا رہی تھی۔ وہ روٹی کا لقمہ توڑتی۔ اسےسالن لگاتی اور حافظ عبداللہ کےہونٹوں کی طرف بڑھا دیتی۔بچوں کی طرح حافظ عبداللہ منہ کھول کر لقمہ لےلیتا ۔ پھر وہ گود میں پڑےاپنےلنجےہاتھ سےہونٹ صاف کرنا چاہتا تو وہ بڑی نرمی سےاسےروک دیتی۔ اس کےلنجےہاتھ کو تھام کر چومتی ۔ پھر اپنےگوٹےکناری سےسجےسرخ دوپٹےکےپلو سےاس کےہونٹوں کو ارد گرد سےصاف کرتی۔ طاہر نےصاف دیکھا کہ حافظ عبداللہ کی آنکھوںمیں شبنم لبالب تھی۔ لگتا تھا وہ کسی وقت بھی چھلک پڑےگا۔ نجانےکیوں؟
    طاہر کو لگا جیسےاس کےسامنےجنت کےباسیوں کا کوئی منظر چل رہا ہو۔ ایک حور اپنےمالک کی خدمت کر رہی تھی۔
    ”یہ ہےعشق کا عین پگلی۔عبادت‘ عجز‘ عقیدت۔“ درویش کی بیحد آہستہ سی آواز نےطاہر کو ہوش و حواس کی دنیا میں کھینچ لیا۔” وہ پگلی ایسا کیوں کر رہی ہےاور وہ سیانا کیوں اندر سےبلک رہا ہے؟ آ۔ تجھےعین کےہجےکر کےبتائوں۔“
    کھڑکی سےہٹ کر وہ حجرےکےدروازےپر آ گئے۔درویش نےایک پل کو کچھ سوچا پھر آہستہ سےدستک دی۔
    ”کون؟“ اندر سےحافظ عبداللہ کی آواز ابھری۔
    ”اللہ والیا۔ تیرےہاں مہمان آیا ہے۔“ درویش نےجواب میں کہا اور کوئی جیسےبڑی جلدی میں اٹھ کر دروازےکی طرف لپکا۔ ایک جھٹکےسےدروازہ کھلا اور درویش کےپیچھےکھڑےطاہر نےدیکھا ‘ان کےسامنےحافظ عبداللہ حیران حیران کھڑاتھا۔ پھر اس نےجلدی سےاپنی آستین سے آنکھیں خشک کر ڈالیں۔
    ”ارےبابا آپ۔۔۔“ اسےجیسےیقین نہ آ رہا تھا۔ نظر طاہر پر پڑی تو وہ اور کھل گیا۔ ” آئیےناں بابا۔ آپ بھی آئیےجی۔ باہر کیوں کھڑےہیں۔“ وہ انہیں راستہ دیتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا۔
    درویش اور طاہر آگےپیچھےاندر داخل ہوئی۔کھلی کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی سےمنور کمرہ جیسےان کےاستقبال کےلئےمسکرا رہا تھا۔
    ”سلام بابا۔“ چٹائی پر بیٹھی سکینہ اٹھ کھڑی ہوئی اور درویش کے آگےسر جھکا دیا۔
    ”کیسی ہےتو اللہ والئے؟“ درویش نےاس کےسر پر ہاتھ پھیرا۔
    ”نہال ہوں بابا۔ سُکھ میں ہوں۔“ وہ ہنس کر بولی۔
    ”سُکھی رہےگی تو۔ میرےرب کےحکم سے۔“ وہ پیار سےبولا۔ ”لگتا ہےتم لوگ کھانا پینا کر رہےتھے۔“ درویش نےچٹائی پر برتن پڑےدیکھ کر کہا۔
    ”ہاں بابا۔ ناشتہ کر رہےتھی۔ آپ بیٹھئےناں۔ میں آپ کےلئےبھی ناشتہ بناتی ہوں۔“ اس نےاب تک ایک بار بھی طاہر کی جانب نہ دیکھا تھا۔
    ”بیٹھتےہیں ۔ بیٹھتےہیں۔ “ درویش نےچپل اتار دی اور طاہر اس کی تقلید میں چٹائی پر دیوار سےٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ سکینہ کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔سہاگ کی چادر سےخود کو ڈھکے‘ وہ اسےکوئی ایسا محل نظر آ رہی تھی جس میں غلیظ ہوا کےکسی جھونکےکےداخلےکےلئےکوئی روزن موجود نہ ہو۔ حافظ عبداللہ بھی دروازہ بھیڑ کر ان کےپاس آ بیٹھا۔
    ”لےبھئی پگلے۔ یہ ہےحافظ عبداللہ۔ اس کی کہانی تو تجھےہم بعد میں سنائیں گےپہلےاپنی بیٹی سےیہ کہہ دیں کہ ہمارےلئےصرف چائےبنائے۔ “
    ” اچھا بابا۔“ سکینہ مسکرا کر دوسرےکمرےمیں چلی گئی۔
    حافظ عبداللہ نےکھانےکےبرتنوں پر رومال دےکر انہیں ایک طرف سرکا دیا۔ درویش نےاس کےہاتھ پر نظر ڈالی۔
    ”کیا حال ہےحافظ اس نشانی کا؟“
    ”بس ۔ ٹھیک ہو گیا ہےبابا۔اب اس سےتھوڑا بہت کام لینےلگ گیا ہوں۔“ حافظ عبداللہ نےاپنےچُرمرائےہوئےہاتھ کو دیکھتےہوئےجواب دیا۔
    ”جانتا ہے‘ اس ہاتھ کےساتھ کیا کیا میرےاوپر والےنے؟“ درویش نےاچانک طاہر کا رخ کر لیا۔
    ”کیا بابا؟“ حافظ عبداللہ کےہاتھ کو دیکھتا ہوا طاہر ہمہ تن گوش ہو گیا۔
    اورحافظ عبداللہ کا سر جھک گیا۔ درویش نےکہنا شروع کیا تو طاہر کےاندر روزن کھلتےچلےگئے۔ روشنی اور رنگوں کےفوارےچھوٹنےلگے۔ اس کی حیرت فزا آنکھیں حافظ عبداللہ کےچہرےکا طواف کرتی رہیں جہاں سوائےحیاکےکچھ نہ تھا۔ شاید وہ داستان میں اپنی تعریف پر خود کو شرمندہ شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔
    ”یوں میری پگلی نےاس سیانےکو اپنےپلو سےباندھ لیا۔ اس کا یہ ہاتھ ‘ جو بظاہر دیکھنےمیں لنجا لولا لگتا ہے‘ میرےرب کی مہر کی وہ نشانی ہے‘ جس کے آگےدنیا کی ساری خوبصورتیاں ہیچ ہیے۔ کیوں پگلے‘ ٹھیک کہا ناں میں نے؟“ درویش نےاسےچمکتی آنکھوں سےدیکھا۔
    ”ہاں بابا۔“ طاہر کےحلق سےبڑی چھلکتی ہوئی آواز نکلی۔”ایسےہاتھ نصیبوں والوں کےہوتےہیں۔“
    ”ہاں۔“ درویش بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا۔ ”یہی تو میں کہتا ہوں۔ ایسےہاتھ نصیبوں والےکےہوتےہیں جنہیں کوئی دم دم بوسےدیتا رہی۔ چومتا رہے۔ “
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ نے آبدیدہ ہو کر سر جھکا لیا۔ ” سکینہ تینوں وقت مجھےاپنےہاتھ سےکھانا کھلاتی ہے۔ ہر نماز کےلئےوضو کراتی ہے۔ میرےاس ناکارہ ہاتھ کو سو سو بوسےدیتی ہے۔ مجھےہر وہ کام کرنےسےروک دیتی ہےجو مجھےاس ہاتھ سےکرنا ہوتا ہے۔وہ میرا دایاں ہاتھ بن گئی ہےبابا۔ “ حافظ عبداللہ کی آواز بھرا گئی۔
    ”وہ بھی تو اپنےاس بندےکا ہاتھ بن جاتا ہے۔ زبان بن جاتا ہے۔ کان بن جاتا ہے۔ آنکھ بن جاتا ہےجو اس کےلئےاپنا آپ تیاگ دیتا ہے۔عاجز ہو جاتا ہے۔ عبودیت کی سیڑھی پر پائوں رکھ دیتا ہے۔عشق کےعین کےرستےپر چل پڑتا ہے۔“ درویش نےوجد میں آ کر کہا۔
    ”کیا میں غلط کرتی ہوں بابا؟“ اسی وقت سکینہ چائےکےتین پیالےپلاسٹک کےپھولدار ٹرےمیں رکھے آ گئی اور ٹرےان کےسامنےچٹائی پررکھ دی۔
    درویش نےطاہر کی جانب نظرکی‘ جو حیران حیران سا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں دیےسےجل رہےتھے۔ لو دےرہی تھیں اس کی آنکھیں۔
    ” کیا مجھےعبادت نہیں کرنی چاہئے؟“
    ”کرنی چاہئےمیری پگلی بیٹی۔ کرنی چاہئی۔“ درویش کا حلق آنسوئوں سےبھرا ہوا تھا۔” یہ اگر کبھی تجھےروکےناں۔ تو اس کی بات کبھی نہ ماننا۔ اپنی سی کرتی رہنا۔ یہ سیانا ہے۔ کبھی اسےخیال آ گیا ناں کہ تیری نیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں‘ تیری عبادت پہ رنگ آ رہا ہےتو شاید رشک کےمارےتجھےروکنا چاہےمگر اس وقت اس کی نہ ماننا۔ اپنےاللہ کی کہی کرنا۔ وہ کہتا ہےناں کہ جس کا مالک اس سےراضی‘ وہ بھی اس سےراضی۔ تو اپنےدونوں مالکوں کو راضی کرتی رہنا۔ ایک کی خدمت اور دوسرےکی عبادت میں بڑا گہرا تعلق ہےپگلی۔ تو نےیہ جان لیا ہے۔ بس اس بھید کا دامن نہ چھوڑنا۔ مضبوطی سےپکڑ ےرکھنا اسے۔“
    ”جی بابا۔“
    ”کیوں پگلے۔ عشق کےعین کی حقیقت پلےپڑی؟“ درویش نےچائےکا پیالہ اس کے آگےسرکایا۔
    ”ہاں بابا۔‘ ‘وہ جلتی ہوئی آواز میں بولا۔
    ”تو پھر اس کی خدمت کو قبول کر کےبھی کیوں انجان بنا رہتا ہے؟ کیوں اس کی عبادت کو صبر کےکانٹوں پر ڈال دیتا ہے؟ وہ جو تیرا ماتھاچوم کر کمرےسےنکل جاتی ہے‘ اسے آنسوئوں سےوضو کرا کےتیرےمن کو سکون ملتا ہےکیا؟“
    ”نہیں بابانہیں۔“وہ جلدی سےبول اٹھا۔”بس ۔ اندر ایک پھانس سی چبھ گئی ہے۔ وہ نہیں نکلتی۔“ وہ بےبسی سےبےحال ہو گیا۔
    ”نکل جائےگی۔ نکل جائےگی۔“ درویش نےاس کےکندھےپر ہاتھ پھیرا۔ ”ابھی یہ تبرک حلق سےاتار۔“
    بڑےضبط سےکام لیتےہوئےطاہر نے آنکھوں کو چھلکنےسےروکا۔ پھر آستین سےچہرہ صاف کیا اور چائےکا پیالہ اٹھا لیا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ بھی چٹائی کےایک کونےپر بیٹھ گئے۔
    ”سکینہ بیٹی۔ ایک بات تو بتا۔“ درویش نےطاہر کےکندھےپر ہاتھ رکھا۔
    ”جی بابا۔“ اس نےپلکیں اٹھائیں۔
    ”تو نےمیرےساتھ آئےاس مشٹنڈےسےپردہ کیوں نہیں کیا؟“ درویش کا اشارہ طاہر کی طرف تھا۔
    ”میں نےانہیں دیکھا ہی نہیں بابا۔“ وہ سادگی سےبولی۔” اور جو نظر ہی نہ آئےاس سےپردہ کیسا؟“
    ”اللہ۔۔۔۔“ درویش نےبےاختیار ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور یوں جھومنےلگا جیسےاس پر جذب طاری ہو گیا ہو۔ ”ٹھیک کہتی ہےپگلی۔ جو دکھائی نہ دےاس سےپردہ کیسا؟ وہ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئےتو اس سےبھی پردہ نہیں کیا جاتا۔ اس سےپردہ کیسا؟ اس سےپردہ کیسا؟“ وہ بڑبڑائےجا رہا تھا۔
    ”چل پگلے۔ آجا ۔ چلیں۔“ ایک دم درویش اٹھ کھڑا ہوا۔ ” یہ تو بہت آگےچلی گئے۔ اسےتو حافظ کےسوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آجا ۔ چلیں۔ اس نےعبادت کی منزل کو چھو لیا ہے۔ عشق کا عین اس پر کھل گیا ہےبابا۔ عین کا در اس پر وَا ہو گیا ہے۔ “ درویش کہتا ہوا کمرےسےنکل گیا۔
    طاہر اس کےپیچھےلپکا۔ درویش بڑبڑاتا ہوا مسجد سےباہر نکل چکا تھا۔ طاہر نےپلٹ کر دیکھا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ اپنےکمرےکےدروازےمیں کھڑےاسی کی جانب دیکھ رہےتھے۔ اس کی نظریں حافظ عبداللہ سےملیں تو دونوں بےاختیار مسکرا دیے۔ لرزتا ہوا نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر اس نےحافظ عبداللہ کی جانب ہاتھ ہلایا۔ جواب میں اس نےبھی اپنےجلےہوئےہاتھ سےاس کی جانب اشارہ کیاتو وہ جلدی سےمسجد کا دروازہ پار کر گیا۔ آنکھوں میں چھا جانےوالی دھند کےپار دیکھا تو درویش اس سےکتنی ہی دور بھاگتاہوا گلی کا موڑ مڑ رہا تھا۔ طاہر نےخود کو تیز قدموں سےاس کی آواز کےتعاقب میں ڈال دیا‘ جو ہوا کےدوش پر لہرا لہرا کر رقص کر رہی تھی۔
    ”اس سےپردہ کیسا؟
    اس سےپردہ کیسا؟
    اس سےپردہ کیسا؟“
    طاہر اسےڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا مگر درویش کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان ‘ اس کا پتہ نہ چلا۔وہ پاگلوں کی طرح اسےتلاش کرتا ہوا بابا شاہ مقیم کےمزار پر آیا ۔ درویش وہاں بھی نہیں تھا۔ طاہر کا حال عجیب ہو رہا تھا۔ اس کا دل اس کےقابو میں نہ تھا۔ جی چاہتا تھا وہ کپڑےپھاڑ کر جنگلوں میں نکل جائی۔ اس کا رنگ ایک دم سرخ ہو گیا۔ لگتا تھا ابھی رگیں پھٹ جائیں گی اور خون ابل پڑےگا۔ سینےمیں ایک الائو سا دہکنےلگا تھا جس کی لپٹیں اسےجھلسائےدےرہی تھیں۔ سکون کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ بھول گیا تھا۔ قرا ر کسےکہتےہیں؟ اسےیاد نہ تھا۔ بےکلی تھی کہ اسے آگ کےپالنےمیں جُھلا رہی تھی۔
    ”بابا۔۔۔۔“ اس نےبےبس ہو کر پورےزور سےصدا دی اور چررر چررر کی آواز کےساتھ اس کا گریبان لیرولیر ہو گیا۔چیتھڑےاڑ گئے۔ اس نےاپنےبال نوچ لئے۔گھٹنوں کےبل وہ کچی زمین پر گرا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینےلگا۔
    وہ دیوانوں کی طرح رو رہا تھا۔ آہیں بھر رہا تھا۔ اس کی سسکیوں میں کوئی فریاد بار بار سر اٹھاتی اور دم توڑ دیتی۔وہ کیا کہہ رہا تھا؟ کس سےکہہ رہا تھا؟ کون جانی۔ ہاں‘ ایک بابا شاہ مقیم کا مزار تھا جو روشن دھوپ میں سر اٹھائےاسےبڑےغور سےدیکھ رہا تھا۔ اس کی اس حالت کا گواہ ہو رہا تھا۔
    دوپہر سےشام ہوئی اور شام سےرات۔درویش نے آنا تھا نہ آیا۔
    وہ کسی بے آسرا‘ بےسہارا‘ بےزبان کی طرح اپنی گاڑی سےٹیک لگائےخاک کےفرش پر سر جھکائےبیٹھا رہا۔ اس کا ذہن سفید لٹھےکی طرح کورا ہو چکا تھا۔ کوئی سوچ ‘ کوئی خیال‘ کوئی شبیہہ اس پر ابھر ہی نہ پا رہی تھی۔بالکل خالی الذہنی کےعالم میں وہ وہاں یوں بیٹھا تھا جیسےدنیا اور دنیا والوں سےاس کا تعلق ٹوٹ چکا ہو۔
    گھٹنےکھڑےکئے‘ ان کےگرد دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرےسےتھامے‘ سر جھکائے‘ آنکھیں بند کئےوہ دنیا و مافیہا سےبےخبر بیٹھا تھا کہ ایک آہٹ نےاسےاپنا سُتا ہوا چہرہ اٹھانےپر مجبور کر دیا۔
    آہستہ سےاس نےسر گھمایا ۔ دائیں دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ بائیں دیکھا۔ خاموشی مہر بہ لب تھی۔ مگر یہ اس کا وہم نہیں تھا۔ اس نےکسی کےتیز تیز قدموں سےپتوں اور گھاس پر چلنےکی آواز سنی تھی۔ اسی وقت وہ آواز پھر ابھری۔ اب اس کےساتھ کسی کی صدا بھی ابھری۔
    وہ تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔ اس آواز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
    ”اس سےکیسا پردہ؟“ درویش کی آواز اب کےصاف سنائی دی۔ اس نےادھر ادھر دیکھا اور اسے آواز کی سمت کا اندازہ ہو گیا۔ بابا شاہ مقیم کےمزار کےعقب میں ایک چھوٹا سا قبرستان تھا‘ آواز اسی طرف سے آ رہی تھی۔ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگا۔
    درویش قبرستان میں تیز تیز قدموں سےٹہل رہا تھا۔ اسےکوئی ہوش نہ تھا کہ اس کےپائوں تلے آنےوالےکانٹےاسےزخم زخم کئےدےرہےہیں۔ اس کےکپڑےتار تار ہو چکےتھے۔ بالوں میں خاک اور جسم پر مٹی نےتہہ جما دی تھی۔وہ جذب کےعالم میں قبرستان کےایک کونےسےدوسرےکونےتک ہر شےسےبیگانہ ٹہل رہا تھا۔ کبھی کبھی آسمان کی طرف دیکھ لیتا۔ پھر اس کےٹہلنےمیں اور شدت آ جاتی۔ہونٹوں پر ایک ہی فقرہ تھا جو کبھی نعرہ بن جاتا اور کبھی سرگوشی۔
    ”اس سےپردہ کیسا؟ اس سےپردہ کیسا؟ اس سےپردہ کیسا؟“
    طاہر گرتا پڑتا اس کےقریب پہنچا اور پھر ایک بار جب وہ پلٹ کر قبروں کےدرمیان سےدوسری جانب جانےکو تھا کہ وہ اس کےقدموں سےجا لپٹا۔
    ”بابا۔“
    ”ارے۔۔۔“ ایک دم درویش کی زبان تھم گئی۔ ” پگلے۔ تو ابھی یہیں ہے؟“ وہ اسےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔“
    ”بابا۔“ طاہر نےاس کےہاتھ تھام کر اپنا ماتھا ان پر ٹکا دیا۔”میں کہاں جائوں اب؟“ اس کا بھیگا ہوا لہجہ تھکان سےلبریز تھا۔
    ”کہاں جائوں سےکیا مطلب؟“ سسکتےہوئےطاہر پر درویش کی نظریں جم سی گئیں۔ ”ارے۔ واپس جا۔“
    ”واپس کہاں بابا؟“ طاہر نےبرستی ہوئی آنکھیں درویش کی جانب اٹھائیں۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں وہ دونوں قبرستان کےخاموش ماحول میں دو روحوں کی طرح ہمکلام نظر آ رہےتھے۔”مجھےتو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کوئی راستہ سامنےنہیں ہےجس پر چل کر میں جہاں سے آیا تھا وہاں لوٹ کر جا سکوں۔“
    ”پگلا ہوتا جا رہا ہےتو واقعی۔“ درویش نےاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔”اور یہ تو نےاپنا حال کیا بنا لیا ہے؟“
    ”پتہ نہیں بابا۔ مجھےکچھ پتہ نہیں کہ میرےساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہونےوالا ہے؟“
    ”چل۔ ادھر چلتےہیں۔ یہ تیری جگہ نہیں ہے۔ چل۔“ درویش نےاس کےہاتھوں سےاپنےہاتھ نکالی۔اسےاٹھایا اور دونوں ایک دوسرےکےسہارےکمرےمیں چلے آئے۔وہاں تک آتے آتےطاہر کی حالت کافی سنبھل گئی۔ طبیعت میں ٹھہرائو سا آ گیا اور الائو کی دہک میں کمی بھی ۔
    کمرےمیں داخل ہوکر چٹائی پر بیٹھتےہی ایک دم طاہر گھبرا گیا۔ اس کی نظر درویش کےپیروں پر پڑی جولہو لہان ہو رہےتھے۔ کانٹوں نےاس کی پنڈلیوں تک کو خون میں نہلا رکھا تھا۔ خون اور مٹی میں لتھڑےاس کےپائوں دیکھ کر وہ تھرا گیا۔
    ”بابا۔ آپ تو زخمی ہیں۔“ اس نےبےاختیار اس کےپائوں چھو لئے۔
    ”اچھا۔“ درویش نےحیرت سےاپنےپیروں کی جانب دیکھا۔ ”یہ کیسےہو گیا؟“
    ” آپ یہیں بیٹھئے۔ میں پانی لاتا ہوں انہیں دھونےکےلئے۔“طاہر اٹھا اور درویش کےروکتےروکتےکمرےسےنکل گیا۔ دوسرےکمرےمیں بھی کچھ نہ ملا تو وہ مزار کےصحن میں چلا آیا۔ دروازےکےپاس ہی ایک میلا سا سٹیل کا جگ پڑا تھا۔ اس نےاس میں ہینڈ پمپ سےپانی نکالااور واپس لوٹ آیا۔
    درویش سرہانےبانہہ دھرےچٹائی پر آنکھیں بند کئےلیٹا تھا۔طاہر نےاپنےپھٹےکرتےکےدامن سےایک ٹکڑا پھاڑا اور درویش کےپاس بیٹھ گیا۔ کپڑےکو جگ کےپانی میں بھگو بھگو کر وہ درویش کےزخم صاف کرنےلگاور بڑی نرمی سےتلووں سےکانٹےنکالنےلگا۔ درویش یوں بےحس و حرکت پڑا تھا جیسےبڑے آرام سےسو رہا ہو۔ طاہر اس کےکانٹےنکالتا رہا۔ خون اور مٹی صاف کرتا رہا۔زخم برہنہ ہوتےچلےگئی۔ جگہ جگہ سےگوشت اڑ گیا تھا۔ اذیت کا احساس ہوا تو طاہر کا دل بھر آیا۔
    ”پگلی۔ “ اچانک درویش نے آنکھیں کھول دیں۔ ” رات بہت جا چکی۔ اب گھر جا ۔“
    ”نہیں بابا۔“ طاہر نےنفی میں سر ہلایا اور اس کےپیروں میں بیٹھ گیا۔” اب کسی گھر کی یاد دل میں باقی رہی ہےنہ کہیں جانےکو جی چاہتا ہے۔مجھےیہیں اپنےقدموں میں پڑا رہنےدیں۔“
    ”نہیں رے۔“ درویش نےپائوں سمیٹ لئےاور اٹھ بیٹھا۔”تو اکیلا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی بندھا ہےتیرےنام سے۔ اس کا حق مارےگا تو وہ ناراض ہو جائےگا۔“ درویش نےاوپر کی جانب دیکھا۔
    ”میں اسے آزاد۔۔۔“
    ”بس۔“ درویش نےسختی سےاس کےہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”ایک لفظ اور نکالا تو راندہ درگاہ ہو جائےگا۔“ وہ بھڑک اٹھا۔” اپنی مستی کےلئےاسےخود سےالگ کرنا چاہتا ہے۔ پگلی۔ اس کی تو اجازت ہی نہیں ہے۔ “
    ”تو پھر میں کیا کروں بابا؟“ وہ بےبسی سےنم دیدہ ہو گیا۔” میں کیا کروں؟ ایک پھانس ہےجو اس دل میں اٹک گئی ہے۔ نکلتی ہی نہیں۔“
    ”نکالنا ہی پڑےگی۔“ درویش آنکھیں موند کر بڑبڑایا۔ ”تو نےہمارےکانٹےنکالےہیں۔ اب تیری پھانس بھی نکل ہی جانی چاہئے۔“اس نےجھٹکےسے آنکھیں کھول دیں۔
    ”ادھر دیکھ ۔“ وہ تحکم سےبولا۔
    بےاختیار طاہر کی نظریں اٹھیں اور درویش کی نظروں میں مدغم ہو گئیں۔
    ”یہ جو تیرےاندر پھانس اٹکی ہوئی ہےناں۔یہ پھانس نہیں ہے‘ عشق کا دوسرا حرف ہے۔ شین۔ کیا سنا تو نے؟ عشق کا دوسرا حرف شین ہےیہ۔ جانتا ہےشین کس کی علامت ہے؟ مگر نہیں تو کیسےجانےگا؟ تو تو بس اسےدل میں اتار کر بےخبر ہو گیا۔یہ نہ سوچا کہ یہ حرف تیرےدل میں اترا کیسے؟ کیوں اترا؟“
    طاہر بُت بنا درویش کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ اس کےاندر ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ عشق کےعین نےاس کا یہ حال کر دیا تھا جو اس کےساتھ بیتا بھی نہ تھا۔ اور عشق کا شین اس کےساتھ کیا کرنےوالا تھا جو اس کےاندر پھانس بن کر اٹکا ہوا تھا۔ اس کےدل میں اندر تک اترا بیٹھا تھا۔
    اس کا جی چاہا ‘ درویش سےکہے۔ ”بابا‘ رکو مت۔ بولتےرہو۔ بولتےرہو۔ “ اس کےبولنےمیں سُکھ تھا۔ سکون تھا۔ ٹھہرائو تھا۔ فیض تھا۔ ایسا فیض جو طاہر کی بےکلی کو تسلی کی چادر سےڈھانپ لیتا تھا۔ تشفی کےدامن میں سمیٹ لیتا تھا۔
    ”شین ۔۔۔“ درویش نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک سسکی لی۔” عشق کےپہلےحرف عین سےعبادت۔ عجزمیں ڈوبےعبد کی عبادت اور عقیدت ایک ہی تصویر کےدو رخ ہیں۔ عبادت‘ جیسی سکینہ کر رہی ہے۔ جیسی تیرےگھر میں ہو رہی ہے۔ جیسی تیرےشہر میں داغدار قمر کےدامن میں پھول کھلا رہی ہے۔ اور اب عشق کادوسرا حرف شین۔ “ درویش ایک لمحےکو رکا۔ پھر اس کی آواز ابھری تو نشےمیں ڈوبی ہوئی تھی۔ خمار آلود‘ بھرائی ہوئی۔ طاہر اپنے آپ سےبےخبر ہوتا چلا گیا۔ اسےصرف درویش کی خوشبو سےبوجھل‘ تپش سےلبریز آواز سنائی دےرہی تھی۔ نہیں۔ سنائی نہیں دےرہی تھی۔ بےخودی کا شہد تھا جو قطرہ قطرہ اس کےکانوں میں ٹپک رہا تھا۔اس کےدل پر شبنم بن کر اتر رہا تھا۔
    ”عشق حقیقی تک پہنچنےکےلئےعشق مجازی ضروری ہے۔ جیسےکسی چھت تک پہنچنےکےلئےسیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھت پر پہنچ کر سیڑھی سےالگ ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔ سیڑھی کےبغیر چھت پر پہنچنا غیر فطری ہے۔ ہاں جوپیدا ہی چھت پر ہواہو اس کےلئےسیڑھی کی ضرورت نہیں پڑتی مگر ہم عام اور بےحیثیت انسانوں کےلئےوسیلہ اور حیلہ دونوں ضروری ہیں۔ کبھی سیڑھی کا وسیلہ۔ کبھی کمند کا حیلہ۔ عشق مجازی کےلئےضروری ہےکہ کوئی دل کےدروازےپر آ کر دستک دے۔ اس میں آ کر مکین ہو جائے۔ دل کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہو جائے۔ اس میں اپنی مرضی کی دھڑکنیں جگائے۔ کبھی اسےتوڑے۔ کبھی اسےجوڑے۔ کبھی اچانک غائب ہو جائےاور رلا رلا کر دل والےکو عاجز کر دے۔ کبھی ایسا مہربان ہو کہ نہال کر دے۔پھر ایک ایسا وقت آتا ہےجب دل میں ایسا گداز پیدا ہو جاتا ہےکہ دل والا بات بےبات آبگینےکی طرح پھوٹ پڑتاہےآنسو اس کی پلکوں کی نوکوں پر موتیوں کی طرح اٹکےرہتےہیں۔ وہ غم ملےتو روتا ہے۔ خوشی پائےتو روتا ہے۔ سوئےتو روتا ہے۔ جاگےتو روتا ہے۔ سوچےتو روتا ہے۔ سمجھےتو روتا ہے۔یہ رونا اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ اس وقت۔۔۔ “ درویش نےدھیرےسےپلکیں وَا کیں۔ طاہرسر جھکائے‘ بےحس و حرکت بیٹھا ‘ ہر شےسےبیگانہ اس کی بات سن رہا تھا۔ اس نےطاہر کےچہرےپر نگاہیں جما دیں اور پھر گویا ہوا۔
    ”اس وقت اس کےدل میں اس قدر نرمی پیدا ہو جاتی ہےکہ وہاں رحمان آن بسیرا کرتا ہےاور اگر ذرا سا۔۔۔“ درویش نےانگلی کی پور کےکونےپر انگوٹھےکا ناخن رکھ کر کہا۔ ”اتنا سا بھی شیطان کو موقع مل جائےتو وہ چھلانگ مار کر دل کےسنگھاسن پر آ بیٹھتا ہے۔ تب گداز پر غیریت کا پردہ پڑ جاتا ہی۔ رحمانیت رخصت ہو جاتی ہےاور شیطانیت لوریاں دینےلگتی ہے۔ دوئی لپک کر آتی ہےاور وحدانیت سےبیگانہ کر دیتی ہے۔پھر انسان ‘ انسان صرف اس حد تک رہ جاتا ہےکہ اس کےہاتھ پیر انسانوں جیسےہیں اور بس۔ اس کےاندر دہکتا عشق کا الائو ہوس کی آگ بن جاتا ہے۔ لوگ اس کےہاتھ پیر چومنےلگتےہیں۔ اسےسر آنکھوں پر بٹھاتےہیں۔ جوانیاں اس کےانگ لگتی ہیں تو وہ اسےنفس پر غلبےکا نام دےکر خوش ہوتا ہےجبکہ حقیقت میں وہ خود شیطان کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ عشق کےنام پر بھڑکنےوالےشعلےپر ہوس کےچھینٹےپھوار بن کر برسنےلگتےہیں اور پھوار میں بھیگنےکا تو ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہےناں۔ یہ مزا انسان کو عشق کی کسک سےدور لےجاتا ہے۔ اس چبھن سےدور لےجاتا ہےجس کانام مجاز ہے۔ وہ دھیرےدھیرےاس رنگ میں ایسا رنگا جاتا ہےکہ اس کا اپنا رنگ‘ عشق کا رنگ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوش اسےتب آتا ہےجب آخری لمحہ اس کےسامنےاس کا کچا چٹھا لئے آن کھڑا ہوتا ہے۔ ۔۔ مگر اس وقت اس کا ہوش میں آنا بیکار ہو جاتا ہے۔ عشق کےنام پر پھیلائی ہوئی بربادی اسےاپنےپیروں تلےروندتی ہوئی گزر جاتی ہےاور اس کا وجودتو مٹ جاتا ہےتاہم اس کا نام ابد ال آباد تک عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ اور اگر ۔۔۔“ درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا لہجہ گھمبیر ہو تا چلا گیا۔ آواز میں ایک عجیب سی نرمی پر کھولنےلگی۔ ۔۔” اگر یہ گداز رحمانیت کو چھو لےتو عشق مجازی کا ہاتھ عشق حقیقی کےہاتھ میں دےدیتا ہے۔ دل ‘ اس کا گھر بن جاتا ہےجو ہر کافر کےدل میں بھی کبھی نہ کبھی پھیرا ضرور ڈالتا ہے۔ پھر جسےوہ چُن لی‘ وہ کافر رہتا ہےنہ مشرک‘ بس اس کا بندہ بن جاتا ہےاور جس کا دل اسےپسند نہ آئےوہ اس کے آنےکو یوں بھول جاتا ہےجیسےجاگنےپر خواب یاد نہیں رہتا۔ ۔۔عشق ِمجازی کی پہلی منزل عشق کےپہلےحرف عین سےشروع ہوتی ہے۔ عبادت جہاں پھل پانا شروع کرتی ہے‘ وہاں سےعشق کےدوسرےحرف شین کےرخ سےپردہ اٹھتا ہے۔ شین۔۔۔“ درویش نےایک مستی بھری سسکی لی۔ ”شین۔۔۔ شین سےشک ہوتا ہےپگلی۔“
    ”شک۔۔۔؟“ ایک دم طاہر کا ذہن جھنجھنا اٹھا۔ سارےبدن میں ایک پھریری سی دوڑ گئی۔ لرز کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
    ”ہاں پگلے۔“ درویش کی نگاہیں اسی کی جانب مرکوز تھیں۔وہ درویش کی لو دیتی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ زبان کو مزید کچھ کہنےکایارا ہی نہ رہا۔ وہ ایک بار پھر دنیا و مافیہا سےبےخبر ہو گیا۔درویش کہہ رہا تھا۔
    ”شک۔۔۔ عشق کو مہمیزکرتاہے۔ اسےایڑ لگاتا ہی۔ انسان جس سےعشق کرتا ہےاس کےبارےمیں ہر پل‘ ہر لمحہ شک کا شکار رہتا ہی۔ کبھی اسےیہ شک چین نہیں لینےدیتا کہ اس کا محبوب کسی اور کی طرف مائل نہ ہو جائےتو کبھی یہ شک نیندیں اڑا دیتا ہےکہ کوئی اور اس کےمحبوب پر کمند نہ ڈال رہا ہو۔کبھی یہ شک بےقراری کی آگ کو ہوا دینےلگتا ہےکہ اس کےعشق میں کوئی کمی نہ رہ جائےکہ اس کا محبوب ناراض ہو جائےتو کبھی یہ شک کانٹوں پر لوٹنےپر مجبور کر دیتا ہےکہ کسی اور کےجذبےکی شدت میرےمحبوب کو متاثر نہ کر لی۔ شک کےیہ ناگ جب انسان کو ڈسنےلگتےہیں تو وہ درد کی اذیت سےبےچین ہو ہو جاتا ہی۔ شک اسےمجبور کرتا ہےکہ وہ ہر وقت اپنےمحبوب کے آس پاس رہے۔ اس کےساتھ ساتھ رہے۔ اس پر کسی دوسرےکا سایہ نہ پڑنےدی۔ اسےدل میں یوں چھپا لےکہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ کھو دینےکا یہ خوف اسےکچھ پا لینےکی منزل کی طرف ہانک دیتا ہے۔جتنی شدت سےیہ شک کا خوف اس پر حملہ آور ہوتا ہے‘ اتنی ہی جلدی وہ عشق کی یہ دوسری منزل طےکر لیتا ہے۔ جب صدیق کو یہ شک ستاتا ہےکہ کوئی دوسرا اس کےمحبوب کےحضور اس سےبڑھ نہ جائےتو گھر کی سوئی تک نچھاور کر دی جاتی ہے۔ جب عمر کو یہ شک مس کرتا ہےتو صدیق سے آگےبڑھ جانےکےلئےرشک کی آخری منزل تمنا بن کر دل میں جنم لیتی ہے۔جب عبداللہ کو یہ شک بےقرار کرتا ہےتو وہ اپنےسگےباپ کےسامنےسینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہےکہ جب تک وہ اس کےمحبوب سےمعافی نہ مانگ لےگا وہ اسےمدینہ میں داخل نہ ہونےدےگا۔ جب یہ شک زید کی جان کو آتا ہےتو وہ اپنےباپ کےساتھ عیش و آرام کی زندگی کو ٹھکرا کر اپنے آقا کےدر پر ابدی غلامی کےلمحات کو چُن لیتا ہے۔ قیس کو یہ شک لیلیٰ کےکتےکو چومنےپر مائل کر لیتا ہےکہ وہ اس کتےسےبھی پیار کرتی ہے۔ یہ شک رانجھےکو کان پھڑوا کر جوگی بنا دیتا ہےتاکہ وہ کسی اور کو حالت ِہوش میں ویسےدیکھ ہی نہ سکےجیسےہیر کو دیکھتا تھا۔ یہ شک مہینوال کو ران کےکباب بنا کر سوہنی کےحضور پیش کرنےپر آمادہ کر لیتا ہےاور ۔۔۔ یہی شک ہےجو اپنےپر پھڑپھڑاتا ہےتو ساری ساری رات سونےنہیں دیتا۔ انسان کروٹیں بدلتےبدلتےچپکےسےاٹھتا ہے۔ یخ بستہ پانی سےوضو کرتا ہےاور محبوب ِ حقیقی کی آرزو میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنےکےلئےکہ وہ میرےعلاوہ اور کس کس کی طرف مائل بہ لطف ہے؟ کون کون اس کی مِسر سےفیض یاب ہو رہا ہے؟ کس کس طرح کوئی اس کےحضور آہ و زاری کےنذرانےپیش کر رہا ہے؟ جن سےمتاثر ہو کر وہ رونےوالوں پر کیا کیا مہربانیاں کر رہا ہے؟ کیا کیا ناز دکھا رہا ہےکہ اپنےعشق کےمبتلائوں کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا؟ بندہ یہ سبب ڈھونڈتےڈھونڈتےخود ناپید ہو جاتا ہےکہ جس کےباعث اس کا رب اوروں پر مہربان اور اس خام و ناکام کی طرف سےلاپروا ہوا بیٹھا ہے۔بندہ اس شک میں مبتلا رہتا ہےکہ اس کا خالق ‘ اس کا مالک اس کےعلاوہ باقی سب پر مہربان ہے۔ اور ایسا ہےتو کیوں؟ یہ ”کیوں “اسےاپنےمالک کےحضور لرزہ براندام رکھتا ہے۔اس ”کیوں “ کا جواب پانےکےلئےیہ شک اسےایسےقیام میں ڈبو دیتا ہےکہ اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ ایسےرکوع میں گم کر دیتا ہےکہ اس کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔سُوہ لینےکی اس حالت میں یہ شک رات رات بھر سجدےکراتا ہے۔ ایسےسجدےکہ سر اٹھانےکو جی ہی نہیں چاہتا۔لگتا ہےکہ ابھی سجدےمیں سر رکھا تھا کہ فجر کی اذان ہو گئی۔ محبوب ِ حقیقی کی دبےپائوں یہ تلاش اس شک ہی کی دین ہوتی ہےجس میں انسان یہ سوچ کر نکل کھڑا ہوتا ہےکہ:
    کوٹھے تے پِڑ کوٹھڑا ماہی ‘ کوٹھےسُکدیاں توریاں
    ادھی ادھی راتیں جاگ کےمیں نپیاں تیریاں چوریاں “
    بڑی پُرسوز آواز میں درویش نےتان لگائی۔
    طاہر کادل ایک دم کسی نےمٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی حالت ایسی غیر ہوئی کہ وہ بیقراری کےعالم میں سر مار کر رہ گیا۔ دونوں ہتھیلیاں پہلوئوں میں چٹائی پر ٹیکےوہ ہلکورےلےرہا تھا۔ جھوم رہا تھا۔ لوہا جانےکیسا گرم تھا کہ ایک ہی چوٹ نےاسےسانچےمیں ڈھال دیا۔
    ”وہ جو سب کا محبوب ِ حقیقی ہے۔ محبوب ِ ازلی ہے۔ اسےاپنےعلاوہ کسی اور کی طرف مائل دیکھنا بڑےدل گردےکا کام ہے۔“ درویش نےایک سرد آہ بھری۔ ”مگر۔۔۔“ اس کےہونٹوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ نےجنم لیا۔ ” وہ تو سب کا محبوب ہےناں۔ سوائےایک کےکسی اور ایک کا ہو کر رہنا اس کی سرشت ہے میں نہیں۔ جس ایک کا وہ ہے‘ اسےاس نےاپنا محبوب بنا لیا ہے۔باقی سب کا وہ مشترکہ محبوب ہے۔اسی لئےتو وہ ہر جگہ مل جاتا ہی۔ ہرجائی جو ہے۔۔۔ہرجائی۔۔۔ ہر جگہ مل جاتا ہے۔“ درویش کی آنکھوں کےسوتےابل پڑے۔ ”ہرجائی۔۔۔ وہ تیرا بھی ہےاور میرا بھی۔اس کا بھی ہےاور اُس کا بھی۔ یہاں بھی ہےاور وہاں بھی۔۔۔وہ سب کا ہےاور کسی کا بھی نہیں۔۔۔ ہرجائی۔“ وہ بچوں کی طرح سسک پڑا۔ ”مگرکیسا ہرجائی ہےوہ کہ ہر جگہ ہےاور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پھڑائی نہیں دیتا۔ لکن میٹی کھیلتا ہےہمارےساتھ۔ خود چھپا رہتا ہےاور ہمیں ڈھونڈنےپر لگا دیا ہے۔پھر کہتا ہےمیں تو تمہاری شہ رگ کےقریب ہوں۔ سرجھکائو اور مجھےپا لو۔ میں تمہارےدل میں رہتا ہوں۔دل۔۔۔ جس میں اس کےعشق کےتینوں حرف اودھم مچائےرکھتےہیں۔ شک ان میں سب سےزیادہ لاڈلا ہے۔ اسےکھل نہ کھیلنےدو تو یہ روٹھ جاتاہے۔ منہ پھیر کر چل دیتا ہے۔ اسےکبھی دل سےجانےنہ دینا پگلے۔ اس کےہونےسےہی عشق کی سج دھج ہے۔ عشق کا الائو اسی چنگاری سےدہکتا ہے۔ یہ چنگاری سلگنا بند کر دےتو عشق کا شعلہ سرد پڑنےلگتا ہے۔ دم توڑنےلگتا ہے۔ یہ شک ہی ہےجو انسان کا ہاتھ پکڑ کر عشق ِ مجازی کےراستےسےعشق ِ حقیقی کی منزل تک لےجاتا ہے۔محبوب کی نظروں میں ہلکا پڑ جانےکا شک انسان کو کبھی بےوزن نہیں ہونےدیتا۔ اسےمحبوب سےدور نہیں جانےدیتا۔ دل میں پھانس بن کر اٹک جانےوالا یہ شک ۔۔۔“ درویش رک گیا۔
    ”بولتےرہئےبابا۔ رکئےمت۔“ طاہر نےمچل کر درویش کی جانب دیکھا۔ جان سمٹ کر جیسےلبوں پر آ گئی۔
    طاہر کی آنکھوں میں دیکھتےہوئےدرویش کےلبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ طاہر اس مسکراہٹ سےاور بےقرار ہو گیا۔
    ”یہی وہ شک ہی۔ وہ پھانس ہے۔عشق کےشین کی یہی وہ شدت ہےجس نےکسی تیسرےکا خوف تیرےدل میں بٹھا دیا ہے۔“درویش نےاس کی جانب انگلی سےاشارہ کیا۔
    طاہر کےدل کا بھید آشکار ہوا تو وہ حیرت سےسُن ہو گیا۔ اس نےکچھ کہنےکےلئےہونٹ کھولے۔
    ”نہ۔۔۔“ درویش نےانگلی اس کی جانب اٹھا دی۔ اسےبولنےسےروک دیا۔ ”تجھےیہ شک نہیں ہےکہ تیری پگلی اور اس تیسرےمیں کوئی واسطہ ہے۔ نہ نہ۔ تجھےتیرےعشق کی شدت نےا س شک میں مبتلا کر دیا ہےکہ کسی روزوہ سامنے آ گیا تو اس کےعشق کی شدت تیری پگلی کو تجھ سےدور نہ لےجائے۔ وہ ایک پل کو بھی اگر اس کےبارےمیں کچھ سوچ لےگی تو تیرا کیا حال ہو گا؟ اس کا خیال بھی تیرےاور تیری پگلی کےدرمیان نہ آجائے‘ یہ شک تجھےتیری پگلی کےقریب نہیں جانےدیتا۔ایساہی ہےناں پگلی؟“ درویش نےاس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔
    بےبسی سےہونٹ کاٹتےہوئےطاہر نےسر جھکایا اور اثبات میں ہلا دیا۔
    ”اسی لئےتو میں تجھےپگلا اور اسےپگلی کہتا ہوں جو دن رات تیری پوجا کرتی ہے۔ پگلا ہونےمیں بڑا فائدہ ہے۔ سیانا ہو جائےناں بندہ تو اس کےہر ہر فعل کی جانچ ہوتی ہے۔ اس کا امتحان لیا جاتا ہےجیسےحافظ عبداللہ کا لیا گیا۔ اسےتو اس کی پگلی نےبچا لیا۔ تو بول۔ تیرےپاس کوئی پگلی ہےجو تجھےبچا لے؟“
    جواب میں طاہر درویش کو درد بھری نظروں سےدیکھ کر رہ گیا۔ اس کےپاس درویش کےسوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
    ” ہے۔ تیرےلئےہونی تو سیانی چاہئےتھی مگر اس کےرنگ نیارےہیں۔ اس نےتجھ جیسےپگلےکو سیانی نہیں دی‘ پگلی ہی دی۔ وہ جو تیرےگھر میں پڑی ہےناں۔ تیرےجیسی ہی پگلی ہے۔ پگلا اور پگلی۔ دونوں کو سمجھانےکےلئےمیری جان عذاب میں آئی ہوئی ہے۔ اسےتو کیا سمجھائوں گا‘ تو ہی اکیلا کافی ہےمیرےلئے۔“ وہ بگڑ گیا۔
    ”بابا۔“ طاہر نےلجاجت سےکہتےہوئےاس کےگھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے۔
    ”دیکھ۔ “ درویش نرم پڑ گیا۔ ” دیکھ پگلے۔ سیانےجو ہوتےہیں ناں۔ انہیں سب معلوم ہو جاتا ہےاور یہ پھنس جاتےہیں۔ جو جتنا سبق یاد کرتا ہےاسےاتنا ہی قابل سمجھا جاتا ہے۔ اور جو جتنا قابل ہوتا ہےاسےاتنی ہی بڑی ذمےداری نبھانا پڑتی ہے۔پھر ان سیانوں کی کمر دوہری ہو جاتی ہےذمےداری کےبوجھ سے۔ آزمائش اور امتحان کےکانٹوں بھرےطویل راستےپر احتیاط کا دامن پھٹنےنہ پائیے یہ احساس انہیں اس اکیلےکی طرح تنہا کر دیتا ہےجس کا عشق ان کےلئےسوہان ِ روح بن جاتا ہے۔پھر بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب ان کا نتیجہ فیل ہونےکی صورت میں نکل آئے۔ اس کےمقابلےمیں تجھ جیسےپگلےبڑےخوش قسمت ہوتےہیں۔ اتنا ہی جانتےہیں جس سےگزارا ہو جائے۔ بس خلوص اور نیک نیتی کےساتھ سر جھکائےعشق کےسفر پر چل دیتےہیں۔ دنیا بھی نبھ جاتی ہےاور مقصود بھی ہاتھ آ جاتا ہے۔جہاںغلطی ہو جائی‘ کوتاہی ہو جائے‘ وہاں معافی بھی مل جاتی ہے‘ پگلا ہونےکا یہ سب سےبڑا فائدہ ہے۔جبکہ سیانا بیچارہ معافی کےلفظ سےہی نا آشنا ہو جاتا ہے۔
    مکتب ِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
    اس کو چھٹی نہ ملی جس نےسبق یاد کیا “
    کہہ کر درویش قلقاری مار کر ہنسا ۔ طاہر اسےیوں دیکھ رہا تھا جیسےاس کی ہر ہر بات ایک نیا بھید‘ ایک نیاراز آشکار کر رہی ہو اور اسےسمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ ان رازوں کو ان بھیدوں کو کہاں سنبھال کر رکھےکہ کسی اور کےہاتھ نہ لگ سکیں۔
    ”اسی لئےکہا تھا میں نےکہ اس پگلی کو چھوڑنےکا خیال بھی کبھی دل میں مت لانا۔اس پر ‘ اپنےجذبےپر شک کر تو صرف اس لئےکہ تو اسےجی جان سےچاہتا ہے۔ اسےکھو دینےکا ڈر اس کےساتھ کسی کا بھی نام آتا دیکھنا نہیں چاہتا‘ یہ اچھا ہے۔ اس طرح تیرا اس سےعشق کا تعلق ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی “جیسا ہو جائےگا۔۔۔ مگر کبھی اس پر شبہ نہ کرنا۔ شک اور شُبےمیں یہی بنیادی فرق ہےپگلے۔ عشق میں شک جائز بھی ہےاور ضروری بھی ‘ اگر کھوٹ درمیان میں نہ آئےاور شُبہ ۔۔۔ الامان الحفیظ۔۔۔ “ درویش نےکانوں کو لووں کو چھوتےہوئےکہا۔ ”عشق میں شُبہ در آئےتو پاک دامن بیوی بیسوا نظر آتی ہے۔ بستر کی شکنوں میں کسی باہر والےکا جسم لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا بنائو سنگھار کسی دوسرےکےلئےلگتا ہے۔ کاجل کی دھار ‘ گناہ آلود راتوں کی طرح خیالات پر بال کھولےبین کرنےلگتی ہے۔ شُبےسےہمیشہ بچنا۔ اسےکبھی دل میں جگہ نہ دینا۔پھر تو بچا رہےگا برباد ہونےسے۔ “
    ” آپ روشن ضمیر ہیں بابا۔“ طاہر کےحواس لوٹ رہےتھے۔ ” آپ جانتےہیں میں نےصفیہ کو کبھی شبےکی نظر سےنہیں دیکھا۔ جو پھانس تھی وہ کسی حد تک نکال دی ہے آپ نے۔“
    ”یعنی ابھی اس کی ٹیس کچھ باقی ہےدل میں؟“ درویش نےبھویں سکیڑ کر اسےدیکھا۔
    ”بس اتنی سی بابا کہ اگر کبھی سرمد لوٹ آیا تو۔۔۔؟“ اس نےسر جھکا لیا۔
    ”تو۔۔۔“ درویش نےسپاٹ لہجےمیں کہا۔” تو کیا ہو گا؟“
    ”یہی تو میری سمجھ میں نہیں آتا بابا۔“ وہ اسی طرح بیٹھےہوئےبولا۔”تب کیا ہو گا؟“
    ”تب کیا ہو گا‘ یہ تو میں نہیں بتا سکتا تجھے۔ اجازت نہیں ہےمجھے۔۔۔ مگر ایک بات تجھےابھی سمجھا سکتا ہوں میں۔“
    طاہر نےنظریں اٹھائیں۔ درویش اسےبڑی سرد نگاہوں سےدیکھ رہا تھا۔
    ”ایک پارسا تھا۔ ‘ اس نےکہنا شروع کیا۔ ” اس کےگھر سےکھانا آتا تو وہ سالن میں پانی ملا کر کھایا کرتا تھا۔ کسی نےسبب پوچھا تو اس نےکہا کہ میں کھانےکی لذت ختم کر کےکھاتا ہوں تاکہ میرا نفس مزہ لینےکی عیاشی نہ کر سکےاور میں اس کےبہکاوےمیں نہ آ جائوں۔میں نےسنا تو اتنےبڑےبڑےپھکڑ تولےمیں نے۔ اسےگالیاں دیں میں نے۔ جانتا ہےکیوں؟ “
    درویش نےانگلی اس کی جانب اٹھائی اور اس کےجواب کا انتظار کئےبغیر کہا۔
    ”اس لئےکہ وہ میرےمالک کی نعمت کا کفران کر رہا تھا۔میں نےکہا ارےبھڑوے۔ اگر لذت نہ دےکر نفس کو مارنا چاہتا ہےتو کھانا ہی پھیکا‘ بدمزہ اور بےلذت کیوں نہیں پکواتا۔ میرارب تجھےاچھی نعمت دےرہا ہےاور تو اس میں خرابی پیدا کر کےکھاتا ہے۔ اس کی دی ہوئی چیز میں اپنی طرف سےمین میخ نکال کر ‘ خود کو پارسا ظاہر کر رہا ہےتاکہ لوگ تجھےنیکو کار سمجھیں یا کم از کم تیرا نفس تجھےاس بھول میں رکھےکہ تو بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ اس سےتیرا رب تجھ سےراضی ہو گا لیکن اگر رب نےپوچھ لیا کہ پاگل کےبچے۔ میں نےتجھےایک نعمت دی کہ تو اس سےبہرہ ور ہو۔ اس سےلطف اٹھائےاور میرا شکر ادا کرےمگر تو نےاسےبد ہیئت اور بدمزہ کیوں کیا؟ تو تیرےپاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ تلا جائےگا یا نہیں اس وقت؟ تو بھی اس پارسا کی طرح اللہ کی بخشی ہوئی نعمت کو آنےوالے‘ نادیدہ ‘ مستقبل کی دھند میں لپٹےوقت کا پانی ڈال کر بد مزہ کرنےکا گناہ کر رہا ہے۔ یہ ریا کاری ہےمیرےبچے۔ اللہ نےتجھےپاکیزہ لباس عطا کیا ہے‘ اسےوہم کا پیوند نہ لگا۔ اسےچوم چاٹ کر پہن۔ اسےکھونٹی پر ٹانگےرکھےگا تو وہ بوسیدہ ہوجائےگا۔ اس پر بےتوجہی کا غبار جم جائےگا۔ گزرتےوقت کی ٹڈیاں اسےجگہ جگہ سےکتر ڈالیں گی۔ اور جب تجھےاس لباس کی اہمیت کا اندازہ ہو گاتب تک وہ اس قابل نہیں رہےگا کہ تو اسےپہن سکے۔ پھر تجھ سےکفران ِ نعمت کا حساب لیا جائےگا۔ دےسکےگا تواس کا حساب؟ سیانا نہ بن۔ پگلا بنا رہ۔ کوتاہی اور غلطی کی معافی مانگ کر لوٹ جا اپنی پگلی کےپاس۔ اسےپہن لےجا کر۔ اسےبوسیدہ ہونےسےپہلےپہن لے۔ ایسےپاکیزہ لباس کسی کسی کا نصیب ہوتےہیں۔“
    درویش خاموش ہو گیا۔
    طاہر کےاندر آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اسےعشق کےعین نےچھو لیا تھا کہ صفیہ اسےکس بلندی پر رکھ کر دیکھتی ہے۔عشق کےشین کا فہم عطا ہو گیا تھا۔ ادراک ہو گیا تھا اسےکہ اس کا عشق صفیہ کےلئےکس مقام پر پہنچا ہوا تھا ۔ صفیہ کےبارےمیں تو وہ جانتا تھا کہ وہ اس کےلئےکیا جذبات رکھتی ہےمگر آج اسےاپنےبارےمیں جو احساس ہوا تھا اس نےاس کےلئےایک نئےجہان کےدر وَا کر دیےتھے۔ خودشناسی کےدرکھلےتو اسےپتہ چلا کہ عشق ہوتا کیا ہے؟ عشق کا عین اور شین اس پر ادراک کےنئےنئےعالم آشکار کررہےتھے۔
    ”کیا سوچ رہا ہے؟ ابھی کوئی الجھن باقی ہےکیا؟“ درویش نےاس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر آہستہ سےپوچھا۔
    ”نہیں بابا۔“ اس کےلبوں سےسرگوشی آزاد ہوئی۔”اب کوئی الجھن نہیں۔۔۔ بس ایک خواہش چٹکیاں لےرہی ہے۔“
    ”خواہش ۔۔۔؟“ درویش نےاسےغور سےدیکھا۔
    ”ہاں بابا۔ “ طاہر نےدونوں ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔” عشق کا عین اور شین تو آپ نےسمجھا دیے۔ عشق کا قاف ابھی باقی ہے۔“
    ”توبہ کر توبہ۔“ درویش نےتڑپ کر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک دم وہ خزاں رسیدہ پتےکی طرح لرزنےلگا تھا۔ چہرےپر زردی کھنڈ گئی اور آواز ایسی پست ہو گئی جیسےکسی کنویں سے آ رہی ہو۔
    ”بابا۔۔۔“ طاہر نےکہنا چاہا۔
    ”سبق یاد ہو گیا تو چھٹی نہیں ملےگی۔ باز آ جا ۔اس بھیدکو بھید ہی رہنےدے۔“ درویش کانپےجا رہا تھا۔
    ”نہیں بابا۔“ طاہر پر ضد سی سوار ہو گئی۔”میں اس کائنات کی سب سےبڑی حقیقت کےبارےمیں مکمل طور پر نہ جان سکوں‘ یہ بات مجھےچین سےمرنےبھی نہ دےگی۔“
    ”مکمل طور پر جاننا میرےتیرےلئےممکن نہیں ہےپگلے۔“ درویش نےاٹھ جانا چاہا۔ ”ضد نہ کر۔“
    ”میں ضد کہاں کر رہا ہوں بابا۔“ طاہر بھی اس کےساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ ”میں تو عرض کر رہا ہوں۔“
    ”مت بہکا مجھے۔“ درویش نےاسےجھڑک دیا۔ ” یوں چاپلوسی کرےگا تو میں پھسل جائوں گا۔ چُپ ہو جا۔ “
    ”بابا۔“ طاہر نےاس کا راستہ روک لیا۔ ”اگر آپ نہیں بتائیں گےتو میں گھر نہیں جائوں گا۔“
    ”تو نہ جا۔“ وہ بھڑک گیا۔ ”میرےباپ کےسر پر کیا احسان کرےگا جا کر۔ پوچھ تجھ سےہو گی۔ جواب دینا پھر اسے۔“ اس نےکمرےسےباہر قدم رکھا۔ ” میں تو کہہ دوں گا کہ میں نےاسےسمجھا دیا تھا۔ اب یہ جان بوجھ کر کفران ِ نعمت کرےتو اس میں میرا کیا قصور؟“
    ”میں بھی کہہ دوں گا کہ آپ نےمجھے آدھی بات بتا کر ٹال دیا تھا۔“
    ”کیا۔۔۔کیا۔۔؟“ درویش نےکچی زمین پر اترکر قدم روک لئے۔”میں نےتجھے آدھی بات بتائی۔ یہ کہا تو نے؟“ وہ غصےسےبولا۔
    ”ہاں تو اور کیا؟“ طاہر بچوں کی طرح مچلا۔ ” عشق کا تیسرا حرف کہاں سمجھایا آپ نےمجھے؟“
    ”تو سہہ نہیں پائےگا۔“ ایک دم وہ طاہر کو جیسےبہلانےپر آ گیا۔ ” ہر چیز کا ایک وزن ہوتا ہےپگلی۔ تو اٹھا نہیں سکےگا اس بوجھ کو۔“
    ”تو کیا ہو گا؟“ طاہر نےاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔” زیادہ سےزیادہ یہ ہو گا کہ میں اس بوجھ تلےدب کر مر جائوں گا۔ یہ منظور ہےمجھےمگر ۔۔۔ نہ جاننےکا ناسور دل میں پال کر میں زندہ نہیں رہنا چاہتا بابا۔“
    ”تو پگلا کم اور سیانا زیادہ ہے۔ “ درویش نےایک آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں چاند مسکرا رہا تھا۔ چاروں طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ بابا شاہ مقیم کا مزار کسی بھید کی طرح ان کےسامنےبُکل مارےکھڑا تھا۔
    ” آپ جو بھی سمجھیں بابا۔“ طاہر نےامید بھری نظروں سےاس کی طرف دیکھا۔
    ”ٹھیک ہے۔“ کچھ دیر بعد درویش نے آسمان سےنظریں ہٹائیں اور طاہر کی طرف دیکھ کر پھر ایک سرد آہ بھری۔” میں تجھےعشق کےقاف سےبھی ملا دوں گا مگر ۔۔۔“ اس نےرک کر طاہر کی جانب ہاتھ کھڑا کیا۔”ابھی نہیں۔“
    ”ابھی کیوں نہیں بابا؟“ طاہر جلدی سےبولا۔
    ”ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہےپگلے۔“ درویش پھر جھلا گیا۔ ”یہ امکانات کی دنیا ہے۔ مجھےیہ بھید تجھ پر کھولنےکا جب حکم ہو گا تو اس کےاسباب پہلےپیدا ہوں گے۔ اس کی تمثیل جنم لےگی۔ تیرےسامنےعین اور شین کی مثالیں موجود ہیں ناں۔ اسی لئےتجھےانہیں سمجھنےمیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اب اس تیسرےبھید کےلئےبھی کچھ تو ایسا ہو جو تجھ پر فہم اور ادراک کےدروازےکھول سکے۔ جب بھی ایسا ہو گا ۔ جب بھی مجھےحکم ہو گا ‘ میں تجھےضرور آگاہ کر دوں گا۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہےتجھ سے۔“
    ”ٹھیک ہےبابا۔“ کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں کھوئےرہنےکےبعد طاہر نےدھیرےسےکہا۔ ”میں انتظار کروں گا۔“
    ”بےصبرا نہ ہو۔ میں نےکہا ناں۔ وقت آنےپر تجھےضرور بتائوں گا۔ اب تو جا۔ رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو گئی ہے۔ کہیں وہ پگلی تیری تلاش میں نہ نکل پڑے۔“ درویش نےاس کےکندھےپر تھپکی دی۔
    ”اچھا بابا۔“ طاہر نےاس کےسامنےہاتھ جوڑ دیے۔ ”میری گستاخی معاف کیجئےگا۔“
    ”پگلا ہےتو۔“ درویش ہنس پڑا۔ ”گستاخی کیسی؟ یہ تو تیرےنصیب کی بات ہے۔ اگر اس میں لکھا ہےکہ تو مکتب ِ عشق میں داخلہ لےلےتو میں کون ہوتا ہوں تجھےروکنےیا چھٹی دینےوالا۔“
    طاہر نےدرویش کا دایاں ہاتھ تھاما۔ دل سےلگایا ۔ ماتھےسےچھوا اور آہستہ سےچھوڑ دیا۔ پھر الٹےپائوں اپنی گاڑی تک آیا۔ دروازہ کھول کر اندر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
    درویش اسےوہیں کھڑا تب تک دیکھتا اور دایاں ہاتھ ہلاتا رہا جب تک اس کی گاڑی وجاہت آباد جانےوالےراستےپر نہ مڑ گئی۔ پھر وہ آہستہ سےپلٹا اور مزار کی طرف چل پڑا۔
    ”عشق کا قاف۔ عشق کا قاف۔ پگلا ہےبالکل۔ “ بڑبڑاتےہوئےاچانک رک کر ایک دم اس نےمزار کی جانب نظر اٹھائی ۔
    ”خود آرام سےتماشا دیکھتےرہتےہو۔ ساری مصیبت میری جان پر ڈال دی ہے۔“ وہ جیسےبابا شاہ مقیم سےلڑنےلگا۔ ”اسےیہاں رکنےہی کیوں دیا تھا؟ آیا تھا تو اس کا رخ گھر کی طرف کر کےروانہ کر دیتے۔ مگر نہیں۔ تم ایسا کیوں کرو گے۔تمہیں تو مزا آتا ہےمجھےتنگ کر کے۔“ اس نےپائوں پٹخ کر کہا۔پھر اس کی آواز بھرا گئی۔ ”پگلا ہےوہ۔ بچوں کی طرح ضد کرتا ہےمجھ سے۔ کہتا ہےوہ اس سےکہہ دےگا کہ میں نےاسےپوری بات نہیں بتائی۔۔۔ پوری بات۔۔۔ “ ایک دم وہ جیسےروتےروتےہنس پڑا۔ ”پوری بات جاننا چاہتا ہے۔ ۔۔ پوری بات۔“ اس کےحلق سےقہقہہ ابلا اور وہ ہنستےہنستےبےحال ہو گیا۔” پوری بات۔۔۔“وہ کچی زمین پر گر پڑا۔ ”پوری بات۔۔۔ دم نکل جائےگا اس پگلےکاپوری بات جان کر۔“
    وہ یوں خاک میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا جیسےپھولوں کےبستر پر مچل رہا ہو۔ رات کی تنہائی اس کی آواز سےگونج رہی تھی۔ سناٹا کان لگائےاسےسن رہا تھا۔ ہوا نےاپنےقدم آہستہ کر لئےکہ اس کی بات میں مخل نہ ہو۔ چاندنی اس کےگرد ہالہ بنائےہاتھ باندھےدم بخود کھڑی تھی۔ ستاروں نےپلکیںجھپکنا چھوڑ کر دیا تھا اور چاند یوں ساکت ہو گیا تھا جیسےاپنا سفر بھول کر اس کےلبوں سےکسی انہونی واردات کا قصہ سننا چاہتا ہو۔
    ”پوری بات۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ “ درویش بڑبڑا رہا تھا۔ مچل رہا تھا۔ ہنس رہا تھا۔ رو رہا تھا۔ ایک سیانا ‘پگلا ہو گیا تھا۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔
    ایک ایک لفظ اسرار و رموز سے بھرپور ہے۔ سرفراز راہی نے درویش کی زبان سے عالم قلب و روح کے جو حقائق واشگاف کیے ہیں ۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے سیدھا دل میں اترے جارہے ہیں۔

    دل میں بےاختیار خواہش ابھری کہ کاش آج کے دور میں‌واقعی کسی ایسے درویش سے ملاقات ہوجائے۔ جو سمجھا دے کہ ۔۔۔

    اے چارہ گرِ شوق ! کوئی ایسی دوا دے
    جو دل سے ہراک غیر کی چاہت کوبھلادے
    پاکیزہ تمنائیں بھی تو لاتی ہیں اداسی
    ہر شوقِ طلب ، ذوقِ تمنا ہی مٹا دے


    عرفان پتوکی بھائی ۔ بہت شکریہ ۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    عرفان جی آپ بہت محنت سے لکھ رہے ھیں اس کی داد ضرور دوں گی تبصرہ نہیں کر سکتی کہ میں پڑھ نہیں‌رہی اس کے لئے معذرت بھی قبول کیجئے کہ کبھی ناول پڑھے نہیں‌آج تک آپ شاید یقین نہ کریں اس بات کا،

    مگر شکریہ اس شئیرنگ کا ، میں نہ سہی بہت سے لوگ یقینا پڑھ رھے ہوں گے اب ہر کوئی تبصرہ نہیں کرتا اس لئے آپ یہ مت سوچیں کہ کوئی نہیں‌پڑھ رہا کوئی 1 بھی پڑھے تو آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں