1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 6

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏13 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی

    وجاہت آباد ‘ طاہر کےوالد سر وجاہت سلطان کےنام پر آباد تھا۔
    گائوں کیا تھا ‘ قدیم بود و باش کا ایک ماڈل تھا۔ آج بھی وہاں رہٹ چلتےتھی۔ کھیتوں میں نئےدور کی کوئی کھاد نہ ڈالی جاتی تھی۔ ٹیوب ویل بھی تھےمگر آب پاشی کےلئےپرانےکنووں کو قطعاً ختم نہ کیا گیا تھا۔ وجاہت سلطان کو اپنےکلچر سےبیحد پیار تھا‘ اس لئےانہوں نےوہاں جدید آلات کے آنےپرپابندی نہ لگائی تو پرانےنظام کو ختم کرنےکی اجازت بھی نہ دی۔ ان کےمزارعےان کےایسےفرمانبردار تھےکہ حیرت ہوتی تھی۔ ورنہ یہ قوم کسی سےوفا کر جائےیہ ممکن ہی نہیں۔ نجانےوجاہت سلطان نےانہیں کیا سنگھایا تھا کہ وہ ان کےہر حکم کو جی جان سےمان لیتےتھے۔ ان کےبعد بیگم وجاہت سلطان نےبھی ان کےساتھ وہی سلوک روا رکھا جو ان کےشوہرکا خاصاتھا‘ اس لئےمعاملات خوش اسلوبی سےچل رہےتھے۔
    وجاہت سلطان کا زندگی بھر ایک ہی اصول رہا تھا:
    ”کسی کا حق مارو نہ اپناحق چھوڑو۔ اور عزت سب کےلئے۔“
    بیگم صاحبہ اور طاہر نےاس اصول میں کبھی لچک نہ آنےدی ۔ہر دُکھ سُکھ میں جب وہ گائوں والوں کےساجھی تھےتو انہیں کیا پاگل کتےنےکاٹا تھا کہ وہ ایسےمالکوں کےخلاف سوچتے۔ طاہر کی شادی پر جیسےشہر سلطان وِلا میں بلا کر ان کی پذیرائی کی گئی تھی‘ اس بات نےانہیں اور بھی گرویدہ کر دیا تھا۔
    گائوں میں’ ’بیگم حویلی“ بیگم صاحبہ کےلئےطاہر کےوالد نےتعمیر کرائی تھی۔ یہ ابتدا سےاسی نام سےمشہور تھی۔ حویلی کا انتظام شروع سےمزارعوں کےنگران اور گائوں کےمعاملات کےمنتظم بلال ملک کےہاتھ میں تھا۔ اس کی جوانی ڈھل رہی تھی مگر آج بھی اس کی کڑک اور پھڑک ویسی ہی تھی۔ کسی کو اس کےسامنےدم مارنےکی جرات نہ ہوتی تھی۔ گائوں میں بیگم صاحبہ اور طاہر کےبعد وہ سب سےبا اختیار سمجھا جاتا تھا۔
    حویلی کےباہر ہی بلال ملک چیدہ چیدہ افراد کےساتھ طاہر اور اپنی چھوٹی مالکن کےاستقبال کےلئےموجود تھا۔ طاہر نےگاڑی روکی اور صفیہ اس کےساتھ باہر نکل آئی۔ حویلی کیا تھی‘ چھوٹا موٹا محل تھا جو بڑےپُر شکوہ انداز میں سر اٹھائےانہیں فخر سےدیکھ رہا تھا۔صفیہ اس کی خوبصورتی سےبیحد متاثر ہوئی۔
    بلال ملک اور اس کےبعد دوسرےلوگوں نےان دونوں کےگلےمیں ہار ڈالےاور انہیں چھوٹےسےجلوس کی شکل میں حویلی کےاندر لایا گیا۔
    ہال کمرےمیں وہ دونوں صوفوں پر بیٹھ گئی۔ سب لوگ جیسےکسی بادشاہ کےدربار میں حاضر تھے۔ کچھ دور پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر انہوں نےادب سےسر جھکا لئی۔ بلال ملک ان دونوں کےسامنے آ کھڑا ہوا۔
    ”چھوٹی مالکن۔ اگر چاہیں تو اندر زنان خانےمیں تشریف لےچلیں۔ گائوں کی لڑکیاں بالیاں آپ سےملنا چاہتی ہیں۔“ اس نےکہا۔
    صفیہ نےطاہر کی جانب دیکھا۔ اس نےمسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ صفیہ نےگلےسےہار اتار کر صوفےہی پر ڈالےاور ایک ملازمہ کےعقب میں چلتی ہوئی ہال کمرےکےاندرونی دروازےکی جانب بڑھ گئی جو زنان خانےکےکاریڈور میں کھلتا تھا۔
    ”اور سنائو ملک۔ کیا حالات ہیں؟“ طاہر نےصوفےپر نیم دراز ہوتےہوئےکہا۔
    ”اللہ کا کرم ہےچھوٹےمالک۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔“ وہ اس کےسامنےبیٹھ گیا۔
    اسی وقت ایک ملازم دودھ کا جگ اور گلاس ٹرےمیں رکھے آ گیا۔ طاہر نےدودھ پیا اور ملازم برتن واپس لےگیا۔
    ”پچھلےدنوں جو باڑ آئی تھی‘ اس سےکوئی نقصان تو نہیں ہوا؟“ طاہر نےرومال سےہونٹ صاف کرتےہوئےپوچھا۔
    ”نہیں جی۔ ہمارا علاقہ تو محفوظ ہی رہا۔ ہاں ارد گرد کافی نقصان ہوا۔ دریا ابل پڑا تھا جی۔ بڑی مشکل میں رہےہمسایہ دیہات کےلوگ۔۔۔“
    ”تم نےان کی کوئی مدد بھی کی یا ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھےرہے؟“
    ”مدد کیوں نہ کرتےجی۔ یہ تو ہم پر قرض ہوتا ہےجو ادا کئےبنا رات کو نیند نہیں آتی۔“ بلال ملک نےادب سےجواب دیا۔
    ”اب میں تھوڑا آرام کروں گا ملک۔ اپنی مالکن کو بھی جلدی فارغ کر دینا۔ وہ پہلی بار گائوں آئی ہی۔ پہلےہی دن تھک کر لمبی لمبی نہ لیٹ جائے۔“ وہ ہنستا ہوا اٹھ گیا۔اس کےساتھ ہی سب لوگ اٹھ کھڑےہوئے۔
    ”ان کی آپ فکر کریں نہ ان کےبارےمیں سوچیں۔ اب وہ جانیں اور گائوں والیاں۔ انہیں تو اگر وقت پر سونا بھی مل جائےتو غنیمت ہو گا۔“ ملک بھی ہنسا۔
    ”چلو ٹھیک ہے۔ اسےبھی گائوں آنےکا بڑا شوق تھا۔ بھگتےاب۔“ طاہر کہہ کرہال سےباہر نکل گیا۔ ملک باقی لوگوں کےساتھ دوبارہ نشستوں پر براجمان ہو گیااور ہلکی آواز میں باتیں ہونےلگیں۔
    صفیہ کو گائوں کی بڑی بوڑھیوں نےپیار کر کر کےاور سوغاتیں پیش کر کر کےنڈھال کر دیا۔ پھر لڑکیوں اور جواں سال عورتوں نےاس کےکمرےمیں ایسا ڈیرہ ڈالا کہ اسے آرام کرنا بھول ہی گیا۔ شام کےقریب وہ اسےگائوں کےکھیتوں کی سیر کو لےگئیں۔ ہر کوئی اسےدیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ وہ ساری کلفتیں بھول کر ان کےساتھ یوں گھل مل گئی جیسےیہ سارا ماحول اس کا صدیوں سےدیکھا بھالا ہو۔
    ٭
    سیلاب دریا کی حدود میں داخل ہوا تو دریا بپھر گیا۔ اس انجان پانی کو اس کی اجازت کےبغیر ‘ اچانک اس کےگھر میں داخل ہونےکی جرات کیسےہوئی؟ شاید یہی غصہ تھا جو دریا نےنکالا اور سینکڑوں دیہات اس کےغضب کا نشانہ بن گئے۔
    وجاہت آباد دریا سےذرا ہٹ کر واقع تھااس لئےمحفوظ رہا تاہم سب سےزیادہ نقصان جس گا وں میں ہوا وہ عزیز کوٹ تھا۔ گا وں کا گا وں پانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ درجنوں لوگ سیلاب کےریلےمیں بہہ گئے۔ کچےمکانوں کا وجود یوں مٹ گیا جیسےوہ کبھی موجودہی نہ تھے۔ سیلاب رات کےپچھلےپہر اچانک ہی عزیز کوٹ والوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ نیند میں گم لوگ جب تک ہوش میں آتے‘ غرقابی ان کا مقدر بن چکی تھی۔بچے‘ عورتیں‘ بوڑھے‘ درجنوں لوگ سیلاب کی نذر ہو گئے۔ لاشوں کی تلاش اور گھرےہوئےزندہ افراد کو بچانےکا کام اب بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر جاری تھا۔
    وجاہت آباد والوں نےدن رات عزیز کوٹ والوں کےلئےوقف کر دیے۔ لوگوں کو ان کےپانی میں گھرےمکانوں سےنکالنےسےلےکر ان کےلئےرہائش اور خور و نوش کا وافر انتظام کرنےتک وجاہت پور والوں نےحکومتی مشینری کا ایسا بےمثال ساتھ دیا کہ ہرطرف واہ واہ ہو گئی۔
    عزیز کوٹ اور وجاہت آباد کا درمیانی فاصلہ تقریباً چھ کلو میٹر تھامگر وجاہت آباد والوں نےاپنےتعاون اور محبت سےاس فاصلےکو چھ فٹ میں بدل دیا ۔ پانی اترنےتک انہوں نےبچےکھچےعزیز کوٹ والوں کو اپنےہاں سنبھالےرکھا ۔ پھر جب حکومت نےامدادی کیمپ تشکیل دےلئےتب ان لوگوں کو وہاں سےجانےدیا۔ عزیز کوٹ کےباشندےدھیرےدھیرےاپنےگا وں کو لوٹ رہےتھے۔ مکانوں کو دوبارہ تعمیر کر رہےتھے۔ سیلاب جو کیچڑ اور گارا اپنےپیچھےچھوڑ گیا تھا‘ اس کی صفائی کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اب بھی وجاہت آباد کےدرجنوں لوگ امدادی سرگرمیوں میں فوج اور سول انتظامیہ کا ہاتھ بٹانےکےلئےمتاثرہ علاقےمیں موجود تھی۔
    عزیز کوٹ کو ڈبو کر سیلابی پانی نےجب اپنا راستہ بدلا تو نور پور کےقریب سےیوں گزر گیا جیسےاس علاقےمیں اسےسر اٹھا کر چلنےکی بھی اجازت نہ ہو۔ نور پور ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کےنفوس کی تعداد بمشکل تین ہزار تھی۔ سیلاب ‘گائوں کےباہر باہر سےاپنا راستہ بنا کر خوش خرامی کےساتھ بہتا ہوا نکل گیا تاہم ابھی تک اس پانی کا زور کم نہ ہوا تھا۔
    حافظ عبداللہ چھوٹےموٹےدریا کا منظر پیش کرتےہوئےسیلابی کٹائو کےکنارےایک اونچےٹبےپر بیٹھا نجانےکس سوچ میں گم تھا۔ وہ حافظ قر آن تھا۔ دنیا بھر میں اکیلا اور اس وقت زندگی کےپچیسویں سال میں تھا ۔ نور کوٹ گائوں کی ایک بے آباد چھوٹی سی مسجد کو آج سےسات سال پہلے آ کر اس نے آباد کیا تو گائوں والوں نےاس کی دو وقت کی روٹی اور ضروری اخراجات کو ہنس کر اپنےذمےلےلیا ۔ اس نےاس سےزیادہ کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ گائوں کےبچوں کو نماز فجر کےبعد قر آن پڑھانا اس کےمعمولات میں شامل تھا۔ گائوں کےچوہدری حسن دین کےگھر سےاسےخاص تعلق تھا۔ اس نےچوہدری حسن دین کےتین بیٹوں رفاقت‘ عنایت‘ لطافت اور ایک بیٹی نادرہ کو قر آن پاک پڑھایا تھا۔ اس نسبت سےیہ گھرانا اس کی بڑی عزت کرتا اور اسےاپنےگھر ہی کا ایک فرد خیال کرتا تھا۔ اس کا ماہانہ خرچہ بھی چوہدری حسن دین کی حویلی سے آتا جس کےلئےاسےخود کبھی حویلی نہ جانا پڑا تھا۔ ادھر مہینےکی پہلی تاریخ آئی‘ ادھر اس کا پہلوٹھی کا شاگرد رفاقت اس کا مشاہرہ اور دوسرا ضروری سامان لےکر مسجد میں اس کےحجرےکےدروازےپر آ دستک دیتا۔ گائوں والےاس کےعلاوہ اس کی جو خدمت کرنا چاہتے‘ وہ اکثر اس سےانکار کر دیتا۔ اکیلی جان تھی‘ اس کی ضروریات محدود سی تھیں۔ لالچ اور جمع کرنا اس کی فطرت ہی میں نہ تھا‘ اس لئےبھی گائوں والےاس کےکردار سےبیحد متاثر تھی۔ تاہم وہ جو لے آتے‘ اسےواپس لےجانا انہیں اپنی توہین لگتا‘ اس لئےاصرارکرتےتو حافظ عبداللہ کو ان کا نذرانہ قبول کرنا پڑتا۔ پھر جب اس نےدیکھا کہ اجناس اور روپوں کی آمد اس کی ضرورت سےزیادہ ہےتو اس نےمسجد کےصحن میں بائیں ہاتھ بنے‘ اپنےحجرےکےدو کمروں کےاوپر چوہدری حسن دین سےکہہ کر ایک بڑا ہال کمرہ ڈلوا لیا۔ اس مہمان خانےکا راستہ مسجد کےباہر ہی سےرکھا گیا تاکہ اسےاور نمازیوں کو دقت نہ ہو۔ یہ کمرہ اجنبی مسافروں اور بے آسرا مہمانوں کی خدمت کےلئےوقف کر دیا گیا۔ یوں اس کی زائد آمدنی کےخرچ کا ایک راستہ نکل آیا۔ اب وہ بھی خوش تھا اور گائوں والےبھی۔
    اس کا ایک عرصےسےمعمول تھاکہ روزانہ عصر کےبعد نور پور سےچار فرلانگ دور مشرق میں واقع ایک خانقاہ سےتقریباً ڈیڑھ سو گزدور ‘ ایک اونچےٹبےپر اُگےپیپل کےدرخت کےنیچے آ بیٹھتا اور قر آن حکیم کی دہرائی شروع کر دیتا۔ جب سورج ‘ شفق کی لالی سےدامن چھڑانےلگتا‘ تب وہ قر آن پاک کو چوم کر سینےسےلگاتا ۔ اٹھتا ۔ درخت کو تھپکی دیتا‘ جیسےاس سےرخصت ہو رہا ہو اور مسجد کو چل دیتا جہاں اسےپانچ وقت اذان بھی خود ہی دینا ہوتی تھی۔
    یہ خانقاہ کسی بابا شاہ مقیم نامی بزرگ کےمزار اور دو شکستہ سےکمروں پر مشتمل تھی۔ مزار کےوسیع صحن میں ایک طرف چھوٹا سا سٹور نما کمرہ تھا جس میں لوگوں کےنذرانوں کی اشیا‘ اجناس‘ دری چادریں اور دوسرا سامان بھرا رہتا تھا۔ یہاں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہ پہنچا تھا۔ نور پور والوں نےواپڈا کو درخواست دےرکھی تھی اور امید تھی کہ جلد ہی وہاں بجلی لگ جائےگی۔ مزار سےتھوڑی دور دریا بہتا تھا جس کےپار مظفر آباد کی آبادی کا اختتام ہوتا تھا۔
    مزار کی دیکھ بھال ایک ایسا شخص کرتا تھا‘ جس کےبارےمیں کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ کون ہےاور کہاں سے آیا ہے؟ ملگجےکپڑوں میں ملبوس وہ حال مست درویش خانقاہ کی صفائی کرتا۔ اِدھر اُدھر سےخود رَو پھول اکٹھےکر کےبابا شاہ مقیم کےمزار پر لا ڈالتا۔ وہاں موجود چھوٹی سی کھوئی سےپانی نکالتا۔ خانقاہ اور اس سےملحقہ کمروں کو دھوتااور اگر بتیاں سلگا کر پھر اپنےکمرےمیں گھس جاتا۔ یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔ اسےگائوں والوں نےنہ کبھی کسی سےعام طور پر بات چیت کرتےسنا ‘ نہ وہ کسی سےکوئی چیز لیتا ۔ اگر کسی نےزیادہ نیازمندی دکھانےکی کوشش کی تو وہ اسےیوں گھورتاکہ نیازمند کو بھاگتےہی بنتی۔ اس کےکھانےپینےکا انتظام کیسےہوتا تھا؟ یہ بات کسی کےعلم میں تھی نہ کسی نےا س کا کھوج لگانےکی کوشش کی۔ اس کا سبب درویش کا رویہ تھا ‘ جس کےباعث مزار پر فاتحہ کےلئے آنےوالےافراد بھی اس سےکتراتےتھے۔ اس کاحال پوچھ کر وہ ایسےایسےجواب بھگت چکےتھےجن کےبعد اب کسی کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ وہ اس سےراہ و رسم پیدا کرنےکی سوچے۔ ہاں‘ حافظ عبداللہ کا معاملہ الگ تھا۔ وہ جب بھی مزار پر فاتحہ کےلئےجاتا‘ درویش اپنےکمرےسےنکل آتا۔ اس کےجانےتک مزار کےباہر کھڑا رہتا۔ جاتےہوئےاس سےبڑی گرمجوشی سےہاتھ ملاتا۔چمکدار نظروں سےاسےدیکھتا ۔ ہولےسےمسکراتااور واپس اپنےکمرےمیں چلاجاتا۔ حافظ عبداللہ نےبھی اس سےزیادہ اسےکبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ ہاں اگر کبھی وہ اسےنہ ملتا‘ تو وہ اس کےکمرےمیں ضرور جھانک لیتا مگر اسےوہاں موجود نہ پاتا۔ اس سےحافظ عبداللہ نےسمجھ لیا کہ درویش سےا س کی ملاقات تبھی نہیں ہوتی‘ جب وہ وہاں نہیں ہوتا۔ وہ کہاں جاتا ہے؟ کب لوٹتا ہے؟ حافظ عبداللہ نےکبھی ان سوالوں کا جواب جاننےکی سعی نہ کی۔
    آج اس کا دل کچھ عجیب سا ہو رہا تھا ۔ منزل کرنےکو جی مائل نہ تھا۔ اس کےدادا قاری بشیر احمد مرحوم کا کہنا تھا کہ زبردستی قر آن پاک پڑھنا چاہئےنہ اس پر غور کرنا چاہئے‘ بلکہ جب قر آن خود اجازت دی‘ تب اسےکھولا جائے۔ اور اس کی طرف سےاجازت کی نشانی یہ تھی کہ بندےکا دل خود قر آن پڑھنےکو چاہے۔سو آج بڑی مدت کےبعد جب حافظ عبداللہ کا دل دہرائیےکو نہ چاہا تو وہ سمجھ گیا کہ آج قر آن پاک کی طرف سےاسےمنزل کرنےکی اجازت نہیں ہے۔ اس لئےوہ قر آن حکیم کا نسخہ اپنےساتھ ہی نہ لایا۔ مقررہ وقت پر ٹبےپر پہنچا اورسیلاب کی دھیرےدھیرےبہتی لہروں پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچوں کےگرداب میں ایسا گم ہوا کہ خود سےبےخبر ہو گیا ۔ وقت گزرنےکا احساس ناپید ہو گیا۔ پھرجب سورج کی ٹکیہ اپنے آخری مقام کو چھونےلگی تو اسےہوش آیا۔
    ایک طویل سانس لےکر اس نےحد ِ نظر تک پھیلی سیلابی چادر پر ایک نگاہ ڈالی اور اٹھ گیا۔ پھر ایک دم چونک پڑا۔
    اس کی نظریں پانی میں بہتے آ رہےدرخت کےایک تنےپر جم گئیں جس کےساتھ کوئی انسانی جسم چمٹا ہوا تھا۔ اس نےغور سےدیکھا۔ وہ کوئی عورت تھی‘ کیونکہ دور سےبھی اس کےپھولدار کپڑوں کی جھلک نمایاں تھی۔
    حافظ عبداللہ نےگھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ خانقاہ کی جانب نظر دوڑائی مگر درویش کو آواز دینےکا اسےحوصلہ نہ ہوا۔ چاہا کہ گائوں سےکسی کو مدد کےلئےبلائےمگر اتنا وقت نہ تھا۔ جب تک وہ کسی کو مدد کےلئےبلاتا‘ اندھیرا مزید بڑھ جاتا۔ پھر وہ دریا میں بہتی اس عورت کو بچا پاتا ‘ اس کا اسےیقین نہ تھا۔ اس نےزیادہ تردد میں پڑنےکےبجائےکندھوں سےگرم چادر اور سرسےٹوپی اتار کر درخت کےنیچےرکھتےہوئےپائوں سےچپل بھی نکال دی۔ پھر آستینیں اُڑستےہوئےٹھنڈےیخ پانی میں چھلانگ لگا دی۔
    اس کا خیال درست تھا۔ درخت کےتنےکےقریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اس سےچمٹی ہوئی وہ ایک جواں سال لڑکی ہی تھی جو بیچاری نجانےکہاں سےسیلاب کےریلےمیں بہتی چلی آ رہی تھی۔ اس نےبڑی مضبوطی سےدرخت کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنےہاتھوں سےجکڑ رکھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور بیہوش تھی۔ سردی اور سرد پانی کےباعث اس کےہونٹ نیلےپڑ چکےتھے۔
    حافظ عبداللہ نےاس کےجسم سےچپکےہوئےکپڑوں سےبری طرح جھانکتےاس کےپُر شباب جسم سےنظریں چراتےہوئےدرخت کےتنےکو پیروں کی جانب سےکنارےکی طرف دھکیلنا شروع کیا اور بڑی مشقت سےتقریباً پندرہ منٹ بعد ٹبےکےقریب لانےمیں کامیاب ہو گیا۔
    کنارےکی کچی زمین پر ایک چوتھائی درخت کو کھینچ لینےکےبعد اس نے آنکھیں بند کر کےجگہ جگہ سےپھٹ جانےوالےکپڑوں سےجھانکتےلڑکی کےنیم برہنہ اکڑےہوئےجسم کو اس پر سےاتارا۔ اس کی مدھم سی چلتی ہوئی سانس کو محسوس کیا۔ٹبےسےاپنی چادر اٹھائی۔ اس میں لڑکی کو لپیٹا ۔ ٹوپی سر پر رکھی۔ پائوں میں چپل ڈالی۔ درخت کو حسب ِ معمول تھپکی دی اور ٹبےسےاتر آیا۔ پھرلاحول پڑھ کر شیطانی خیالات کو دور بھگاتےہوئے آنکھیں بند کر کےلڑکی کا چادر میں لپٹا جسم کندھےپر ڈالا۔ اس کےاپنےگیلےکپڑےجسم سےچپکےہونےکی وجہ سےسردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
    اسی وقت خانقاہ سے”ا للہ اکبر“ کی صدا بلند ہوئی۔ وہ ایک پل کو حیران ہوا۔ درویش خانقاہ کےباہر ایک اونچی جگہ کھڑا اذان دےرہا تھا۔ وہ لڑکی کا جسم کندھےپر لئےحتی الامکان تیز قدموں سےخانقاہ کی جانب چل دیا۔
    ٭
    جب تک وہ خانقاہ کےقریب پہنچا‘ درویش اذان دےکر اندر جا چکا تھا۔ اس نےایک لمحےکو خانقاہ سےباہر کھڑےرہ کر کچھ سوچا‘ پھر اللہ کا نام لےکر اندر داخل ہو گیا۔
    پہلےکمرےکا دروازہ بند تھا۔ وہ ایک پل کو اس کےباہر رکا۔ اندر سےکسی کےہلکی آواز میں قرات کرنےکی آواز ا رہی تھی۔ شاید درویش نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نےدوسرےکمرےکا رخ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا۔ باہر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کمرےکی واحد کھڑکی سے آتی ہوئی ملگجی سی روشنی کمرےکا اندھیرا دور کرنےکی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرےکےماحول کو محسوس کیا۔ چند لمحےبُت بنا کھڑا رہا۔ پھر جب اس کی آنکھیں نیم اندھیرےمیں دیکھنےلگیں تو وہ قدم قدم آگےبڑھا۔ کمرےکی بائیں دیوار کےساتھ بچھی بان کی چارپائی پر لڑکی کو ڈالا اور دو قدم پیچھےہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا سانس اعتدال پر آتے آتےدو تین منٹ گزر گئے۔ لڑکی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کروہ آہستہ سےپلٹا۔ اس کا ارادہ تھا کہ درویش سےجا کر ملےاور اسےساری بات بتا کر اس صورتحال میں اس سےمدد مانگے۔
    ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ رک گیا۔ کمرےمیں اچانک ہی روشنی کی ایک لہر در آئی تھی۔ اس نےٹھٹک کر دیکھا۔ درویش کمرےکےدروازےمیں جلتا ہوا چراغ ہاتھ پر رکھےکھڑا اسےعجیب سی نظروں سےدیکھ رہا تھا۔
    ” بابا۔ آپ۔۔۔“ حافظ عبداللہ نےاسےدیکھ کر کہنا چاہا۔
    ”شش۔۔۔“ درویش نےہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسےبولنےسےروک دیا اور آگےبڑھ آیا۔ ” خاموش۔ “ وہ دبی آواز سےبولا۔” کمرہ امتحان میں بولنےکی اجازت نہیں ہوتی۔“
    ”کمرہ امتحان؟“ حافظ عبداللہ نےحیرت سےکہا۔
    ”ہاں۔“ درویش نےچراغ اسےتھما دیا۔” یہ لی۔ اسےطاق میں رکھ دی۔“
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ نےچراغ اس کےہاتھ سےلےلیا۔ وہ اب بھی حیرت زدہ تھا۔ ”کیسا امتحان؟ “
    ”یہ۔۔۔“ درویش نےچارپائی بےسدھ پر پڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ ” یہ امتحان ہی تو ہےجس میں تو نےخود کو ڈال لیا ہے۔“
    ”یہ۔۔۔ یہ تو ۔۔۔ سیلاب کےپانی میں بہتی چلی آ رہی تھی۔۔۔ میں تو اسےبچاکر یہاں اٹھا لایا ہوں۔“ حافظ عبداللہ نےاسےبتایا۔
    ”اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔“ درویش نےایک کونےمیں پڑا کمبل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا کہ لڑکی کو اوڑھا دے۔ ” نیکی کی ہےناں۔ اب بھگت۔ نیکی کرنا اتنا آسان ہوتا تو ساری دنیا کرتی پھرتی۔ نیکی کرنا اس کی مشیت کےتابع ہونا ہےحافظ۔ تابعدار ہونا چاہا ہےناں تو نے؟ ایک بار سوچ لے۔ اچھی طرح۔ ابھی وقت ہےکہ تو آزمائش میں پڑےبغیر نکر کی گلی سےنکل جائے۔ کچھ دیر اور گزر گئی تو یہ راستہ بند ہو جائےگا ۔ پھر تو چاہےنہ چاہے‘ تجھےامتحان دینا پڑےگا۔ نتیجہ کیا نکلےگا؟ نہ تو جانتا ہےنہ میں۔ بس وہ جانتا ہے۔‘ ‘ درویش نےچھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔” وہ ۔۔۔ جو سب جانتا ہےاور کچھ نہیں بتاتا۔جسےبتاتا ہےاسےگونگا بہرہ کر دیتا ہے۔اندھا بنا دیتا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ سوچ لے۔ سوچ لے۔“ درویش نےاپنی بےپناہ چمک دیتی آنکھوں سےاس کی جانب دیکھا۔
    ”بابا۔“ حافظ نےچراغ طاق میں پڑےقر آن پاک کےچند بوسیدہ نسخوں کےپاس رکھااور کمبل میں لڑکی کا بدن خوب اچھی طرح لپیٹ کر درویش کی جانب پلٹا۔ ”میں کچھ نہیں سمجھا۔ آپ کیا کہہ رہےہیں۔“
    ”کھل کر سمجھائوں تجھی؟“ اچانک درویش کا لہجہ جھڑکی دینےکا سا ہو گیا۔ ” تو سُن۔ جا۔ اس کو وہیں سیلاب کےپانی میں پھینک آ۔ نیکی ہےناں۔اسےاسی دریا میں ڈال آ‘ جہاں سےنکال کر لایا ہے۔نیک نہ بن۔ خطا کار بنا رہ۔ جان بچی رہےگی۔ نیک بنےگا تو امتحان میں ڈال دےگا تجھے۔ ۔۔“ اس نےسسکی لی۔ ”بڑا ڈاہڈا ہےوہ۔ رعایتی نمبر آسانی سےنہیں دیتا۔۔۔ “ پھر جیسےوہ جھلا گیا۔ ”مگر میں تجھےیہ سب کیوں سمجھا رہا ہوں؟ کیوں تیرا اور اپنا وقت خراب کر رہا ہوں؟ جو تیرےجی میں آئےکر میاں۔“ اس نےحافظ کے آگےہاتھ جوڑ دیے۔ ” کل کو تو اس کےسامنےمیرےخلاف گواہی دےدےگا کہ میں نےتجھےنیکی کرنےسےروکا تھا۔ نہ بابا نہ۔ تو اپنی مرضی کر۔ توجانےاور وہ ۔ مجھےمعاف رکھ۔“ وہ بڑبڑاتا ہوا جانےکےلئےپلٹا۔
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ لپک کر اس کےراستےمیں آ گیا۔” مجھےکس الجھن میں ڈال کر جا رہےہیں آپ؟ میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس کا کیا کروں؟“ اس نےبازو دراز کر کےلڑکی کی جانب اشارہ کیا جو ہولےسےکسمسائی تھی۔
    درویش ایک بار ساری جان سےلرز گیا۔ پھر اس نےبڑی اجنبی نظروں سےحافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ حافظ ان نظروں سےگھبرا کر رہ گیا۔ عجیب سی سردمہری تھی ان میں۔
    ”میں نےکہا تھا کہ وقت گزر گیا تو امتحان شروع ہو جائےگا تیرا۔ “ درویش نےبڑےگھمبیر لہجےمیں کہا۔ ” گھنٹی بج چکی۔ پرچہ حل کرنےکا وقت شروع ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو نےباتوں میں وہ سارا وقت گزار دیا جو تجھےبھاگ جانےکےلئےدیا گیا تھا۔ نکر کی گلی بند ہو گئی۔ اب تو جس دروازےسےکمرہ امتحان میں داخل ہوا تھا اسی سےباہر جائےگا مگر اس وقت جب پرچہ حل کر لےگا۔ خالی کاغذ دےکر جانا چاہےگا تو میں نہیں جانےدوں گا۔ “ درویش نےکسمسا کر کراہتی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ ”یہ پرچہ تجھےہی حل کرنا ہے۔ میں دعا کروں گا کہ تجھےاس میں زیادہ سےزیادہ رعایت دی جائے۔ اب وہ مانےیا نہ مانے‘ یہ اس کی مرضی ۔“ وہ چل دیا۔
    ”بابا۔“ حافظ اس کےپیچھےلپکا۔ ” مجھےمسجدجانا ہے۔ وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں اور کس کام میں الجھ گیا ہوں۔۔۔ ا س کےوارثوں کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ یہ کون ہے؟ کہاں سےبہتی آئی ہے؟ اسےیوں کیسےاپنےپاس رکھ سکتےہیں ہم؟“
    ”ہم نہیں۔“ درویش نےہاتھ اٹھا کر اسےٹوک دیا۔”تم۔۔۔ صرف تم۔ میرا اس سےکیا تعلق؟ “ وہ بدلحاظی سےبولا۔
    ”مگر بابا۔ رات بھر میں اس کےساتھ کیسے۔۔۔ یہاں۔۔۔ اکیلا۔“ حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
    ”یہی تو میں تجھےسمجھا رہا تھا اس وقت۔“ درویش ملامت کےسےانداز میں بولا۔ ” اسی لئےتو میں نےکہا تھا کہ اسےجہاں سےلایا ہےوہیں ڈال آ۔ خواہ مخواہ مصیبت میں نہ پڑ۔ ۔۔ مگر۔۔۔“
    ”تمہارا مطلب ہےبابا۔ میں اسےواپس سیلاب کےپانی میں پھینک آتا؟“ حافظ عبداللہ نےحیرت سےاس کی جانب دیکھا۔
    ”ہاں۔“ درویش سر جھٹک کر بولا۔ ” یہی مطلب تھا میرا۔ مگر تو نےکج بحثی میں سارا وقت گنوا دیا۔ اب بھگت۔“
    ” بابا ۔ تم جانتےہو اس سےکیا ہوتا؟“ حافظ عبداللہ اب بھی حیران تھا۔
    ”کیا ہوتا؟“ درویش نےلاپرواہی سےپوچھا۔
    ”یہ مر جاتی۔“
    ”بچانےوالےکی کیا مرضی ہے‘ یہ تو کیسےجانتا ہے؟ اگر اسےبچانا ہوتا تو وہ اسےتیرےواپس پانی میں پھینکنےپر بھی بچا لیتا۔“
    ”بالکل ٹھیک۔“ حافظ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔”مگر بابا۔ پھر میں اسےکیا منہ دکھاتا۔ اپنےاس ظلم کا کیا جواز پیش کرتا اس کےسامنے‘ جو میں اس مظلوم کی جان پر کرتا۔“
    ”تو نہ پیش کر جواز۔ اب بھگت۔ اس اندھیری رات میں ‘ اس کےساتھ اکیلا رہ اور اس کی دیکھ بھال کر۔ اس کی خدمت کر۔ اسےزندہ رکھنےکی کوشش کر۔ آزمائش کےکمرےمیں بیٹھ کر پرچہ حل کر ۔ اگر صبح تک تو اپنے آپ سےبچ گیا تو میں تجھ سے آن ملوں گا ورنہ ۔۔۔“ اس نےبات ادھوری چھوڑ دی۔
    ” آپ کہاں جا رہےہیں بابا؟“ حافظ نےگھبرا کر پوچھا۔
    ”پتہ نہیں۔ مگر یہاں بہرحال نہیں رہوں گا۔“ درویش اس کی جانب دیکھ کر عجیب سےانداز میں بولا۔” یہاں رہا تو تجھےمیرا آسرا رہےگا ۔ حوصلہ رہےگا کہ تو اکیلانہیں ہے۔ میں تیرے آس پاس ہوں۔ تجھےمیرےیہاں ہونےکی شرم مارےگی۔ تو جو کرنا چاہےگا‘ اس میں میرےیہاں ہونےکا خیال رکاوٹ بن جائےگا۔ پھر تو موقع سےفائدہ نہ اٹھا سکےگا۔ اور میں تیرےکسی بھی فعل میں اگر مدد نہیں کرنا چاہتا تو تیرےکسی موقع سےفائدہ اٹھانےمیں حائل ہونےکا بھی مجھےکیا حق ہے؟“
    ”بابا۔“ حافظ نےکہا اور چراغ کی مدھم سی روشنی میں گردن گھما کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک بار پھر بالکل بےسدھ ہو گئی تھی۔ شاید کمبل کی گرمی نےاسےسکون پہنچایا تھا۔ پھر وہ درویش کی جانب متوجہ ہوا۔”اب جو ہو سو ہو۔ اب مجھےمجبوراً ایہاں رکنا پڑےگا۔“
    ”تو رک۔ میں کب نکال رہا ہوں تجھے۔ ہاں ایک پل ٹھہر۔“ درویش کمرےسےنکل گیا۔ ذرا دیر بعد وہ لوٹا تو اس کےایک ہاتھ میں چنگیر اور دوسرےہاتھ میں ایک کھیس اور تکیہ دبا ہوا تھا۔” یہ لے۔ اس میں تیرےاور اس کےلئےکھانا ہےاور یہ تیرا رات گزارنےکا سامان ہے۔ اکڑ کر مر گیا تو میں اسےکیا جواب دوں گا؟“
    حافظ عبداللہ نےاس کےہاتھ سےدونوں چیزیں لےلیں۔
    ”جا رہا ہوں۔ اب تیرےاور اس کےسوا یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ “’
    ”ہےبابا۔“ حافظ عبداللہ مسکرایا اور کھیس اور تکیہ دیوار کےساتھ فرش پر ڈال دیا۔
    ”جس کی تو بات کر رہا ہے‘ میں اس کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو ہر کہیں ہے۔بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔“ درویش پلٹ گیا۔”صبح ملاقات ہو گی۔“
    ”انشاءاللہ۔“ حافظ کےلہجےمیں نجانےکیا تھا کہ درویش نےمڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
    ”انشاءاللہ۔“ ہولےسےاس نےکہا اور دروازےسےنکل گیا۔
    خالی دروازےکو چند لمحوں تک دیکھتےرہنےکےبعد حافظ عبداللہ آہستہ سےلڑکی کی جانب پلٹا۔ چراغ کی زرد اور تھرتھراتی روشنی میں اس نےدیکھا کہ وہ چارپائی پر بالکل چت پڑی گہرےگہرےسانس لےرہی تھی۔ اس کےہونٹوں کی سرخی لوٹ رہی تھی۔ گیلےبالوں کی لٹیں چہرےپر بکھری ہوئی تھیں اور کمبل میں مستور سینےکا زیر و بم طوفان اٹھا رہا تھا۔
    حافظ عبداللہ نےگھبرا کر اس کی طرف سےنگاہیں پھیر لیں۔ شیطانی خیالات سےنجات پانےکےلئےتین بار لاحول پڑھ کر سینےپر پھونک ماری اور آگےبڑھ کر چنگیر اس الماری نما کھڈےمیں رکھ دی جو طاق کےساتھ بنا ہوا تھا۔
    کھیس اور تکیہ اٹھاتےہوئےاچانک ہی اسےسردی کا احساس ہوا ۔ اس نےکچھ سوچا ۔ پھر دونوں چیزیں اینٹوں کےفرش پر ڈال کر کمرےسےنکل آیا۔ دونوں کمرےخالی تھے۔ درویش واقعی کہیں جا چکا تھا۔ مزار سےباہر ایک طرف لگےہینڈ پمپ کی طرف جاتےہوئےاس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی۔ تارےنکل رہےتھے۔ دل ہی دل میں اس نےچاند کی تاریخ کا حساب لگایا۔ گزشتہ دن میں ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کی شب شروع ہو چکی تھی۔ آسمان صاف تھا اور چاند ابھرنےمیں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
    انہی خیالات میں ڈوبا وہ ہینڈ پمپ پر پہنچا۔ گیلا کُرتا اور بنیان اتار کر اچھی طرح نچوڑ کر دوبارہ پہننےکےبعد اس نےایک نظر مزار کےاندرونی دروازےپر ڈالی۔ پھر وہاں سےہٹ گیا۔ مزار کےپیچھےجا کر اس نےجلدی سےشلوار اتاری۔ خوب اچھی طرح نچوڑ کر پانی نکالا اور جھاڑ کر پہن لی۔ ہولےہولےچلتا ہوا ہینڈ پمپ پر آیا۔ ہتھی کو چھوا تو جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔ تاہم اس نےحوصلےسےکام لیا اور ہتھی پر زور ڈال دیا۔ تھوڑی دیر تک پانی نکلنےدیا۔ پھر دوسرا ہاتھ نکلتےہوئےپانی کےنیچےکیا تو پانی کم ٹھنڈا محسوس ہوا۔ تھوڑا پانی اور نکالنےکےبعد اس نے”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کہہ کر وضو شروع کر دیا۔ فارغ ہوا تو اس کےدانت بج رہےتھے۔ گیلی ٹوپی کو سر پر جماتےہوئےوہ کانپتا ہوا اندر کو چلا۔ کمرےمیں داخل ہوا تو لڑکی بدستور اسی حالت میں چت پڑی سو رہی تھی‘ جیسےوہ چھوڑ گیا تھا۔اس نےاس کےچہرےپر ایک نظر ڈالی اور جوتی دروازےمیں اتار کر کونےمیں کھڑی کھجور کی چٹائی کی طرف بڑھا۔ اسےکھولا۔ جھاڑا اور چارپائی کےمقابل دیوار کےساتھ فرش پر بچھا دیا۔ پھر کھیس اٹھایااور کس کر اس کی بکل مار لی۔ اسی وقت کھلےدروازےسےہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرےکےماحول کےسپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر حافظ عبداللہ نےدروازہ بھیڑ دیا۔ فوراً ہی اسےکمرےکی یخ بستگی میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ شاید اس کےمحسوس کرنےکا اعجاز تھا‘ ورنہ اتنی جلدی سردی کا کم ہو جانا ممکن نہ تھا۔
    وہ پائوں جھاڑ کر صف پر کھڑا ہوا۔ ایک بار نظر گھما کر سارےکمرےکا جائزہ لیا۔ پھر قبلہ رخ ہو کر اس نےنماز کی نیت کی اور ہاتھ بلند کر دیے۔
    ”اللہ اکبر۔“ حافظ عبداللہ کےہونٹوں سےسرگوشی بر آمد ہوئی اور سارا ماحول عجیب سےسکون میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس نےہاتھ ناف پر باندھےاور آنکھیں سجدےکی جگہ پر جما کر اتنی آہستہ آواز میں قرات شروع کر دی جسےوہ خود سن سکتا تھا یا پھر اس کا معبود‘ جوپہاڑ کی چوٹی پر چیونٹی کےرینگنےکی آواز سننےپر بھی قادر تھا۔ چراغ کی لو نےتھرتھرانا بند کر دیا ۔ شاید وہ بھی حافظ عبداللہ کی قرات سننےمیں محو ہو گئی تھی۔
    رات کا کھانا عشاءکےفوراً بعد کھا لیا گیا۔ پھر دوبارہ سےصفیہ کو تو عورتوں نےگھیر لیا اور طاہر‘ ملک کےساتھ چوپال میں چلا گیا۔
    چوپال گائوں کےمغربی کنارےپر قبرستان کےساتھ ایک ایسی بےدرو دیوار کی چھت کےنیچےنشست کی جگہ تھی‘ جو آٹھ مدور ستونوں پر قائم تھی اور اس کےنیچےتقریباً پانچ سو آدمیوں کےبیٹھنےکی گنجائش تھی۔ اس کےمشرقی گوشےمیں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کےباہر چولہا بنا ہوا تھا۔ اس پر وہاں خدمت گار بابا شمسو روزانہ شام ہوتےہی چائےکا بڑا سا پتیلا چڑھا دیتا جو گائوں والوں اور اجنبی مہمانوں کی سیوا کےلئےلذت ِکام و دہن کا سبب بنتا۔بید کےموڑھےاور بڑی بڑی چارپائیاں چوپال میں پڑی رہتیں‘ جن پر رات کو گائوں والوں کی بلاناغہ محفل جمتی۔
    سفید شلوار قمیض اور سیاہ گرم واسکٹ میں ملبوس ‘ پائوں میں زرتار کھسہ پہنےطاہر‘ بلال ملک کی معیت میں وہاں پہنچا تو گائوں کےپچیس تیس بڑےبوڑھےاور جوان آدمی بیٹھےحقےگڑگڑا تےہوئےباتیں کر رہےتھے۔
    طاہر کی آمد پر سب لوگ ایک بار کھڑےہوئی‘ پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ وہ ان کےنیم دائرےمیں ایک موڑھےپربیٹھ گیا اور فرداً فرداً سب کا حال چال پوچھنےلگا۔ ہوتےہوتےباتوں کا موضوع گائوں کےسکول ماسٹر شیخ محسن کی بیٹی پر آ کر رک ساگیا۔
    ”ماسٹر کی بیٹی زبیدہ نےاپنےلئے آیا ہوا اپنی برادری کےایک چالیس سالہ شخص نثار شیخ کا رشتہ صاف ٹھکرا دیا جی۔“ ملک کہہ رہا تھا۔
    ”زبیدہ کی اپنی عمر کتنی ہی؟“ طاہر نےدلچسپی سےپوچھا۔
    ”بیس اکیس سال ہو گی جی۔“
    ”پھر تو اس نےٹھیک کیا۔“ طاہر نےتائید کی۔” دگنی عمر کےبندےسےوہ کیوں شادی کرے؟“
    ”وہ تو ٹھیک ہےجی مگر۔۔۔“ ملک نےدوسرےلوگوں کی طرف دیکھا۔ کسی نےبھی اس کی نظر کا ساتھ نہ دیا اور یوں ظاہر کیا جیسےوہ سب اس بات سےناواقف ہوں۔
    ”مگر کیا ملک۔ بات پوری کیا کرو ۔ ادھار کی رقم کی آدھی واپسی کی طرح درمیان میں وقفہ نہ ڈالا کرو۔“
    ”ایسی بات نہیں ہےچھوٹےمالک۔“ ملک کھسیانا سا ہو گیا۔ ” میں یہ کہہ رہا تھا کہ بات اس آدمی کی زیادہ عمر ہی کی نہیں تھی۔ بات کچھ اور بھی تھی۔“
    ”وہ کیا؟“
    ”زبیدہ کسی اور کو پسند کرتی تھی جی۔“ ملک نےکہا اور اس کےسر سےجیسےبہت بڑا بوجھ اتر گیا۔
    ” تو۔۔۔۔؟“ طاہر نےاس کےچہرےپرجما دیں۔
    ”ماسٹر محسن نےاس بات کا علم ہونےپر زبیدہ کی وہ دھنائی کی کہ اللہ دےاور بندہ لے۔“
    ”کیا مطلب ؟“ طاہر بری طرح چونکا۔
    ”ظاہر ہےجی۔ جوان بیٹی جب منہ سےبر مانگ لےتو غیرت مند باپ تو اسےجان سےہی مار دےگا۔“ ملک نےگردن اکڑا کر کہا۔” وہ تو شکر ہےکہ زبیدہ کی ماں نےاسےبچا لیا ورنہ ماسٹر محسن تو شاید اس کی گردن اتار دیتا۔“
    ”اس کےبعد کیا ہوا؟“ طاہر نےاضطراب سےپوچھا۔
    ” ہونا کیا تھا چھوٹےمالک۔“ ملک بلال نےلاپروائی سےکہا۔ ” یہ پندرہ دن پہلےکی بات ہے۔ زبیدہ کا رشتہ ہونےسےپہلےہی ختم ہو گیا۔ ماسٹر نےاسےمار مار کر ادھ موا کر دیا۔اب وہ چارپائی پر پڑی ہے۔ “
    ”اور جس سےوہ خود شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔“
    ”وہ۔۔۔ وہ بےغیرت کا بچہ گھر میں منہ چھپائےبیٹھا ہے۔ “
    ”کون ہےوہ؟“ طاہر کا اضطراب اب بھی باقی تھا۔
    ”لالو تیلی کا بیٹا عادل۔“
    ”عادل۔“ طاہر پھر چونکا۔ ”وہی عادل‘ جس نےپچھلےسال وظیفےکےامتحان میں ٹاپ کیا تھا اور جو آج کل محکمہ زراعت میں نوکری کر رہا ہے۔“
    ”وہی جی ۔ وہی بےغیرت عادل۔“ ملک نےنفرت سےکہا۔
    ”اس نےاس معاملےمیں کچھ نہیں کیا؟“ طاہر نےسر جھکائی‘ پائوں سےزمین کریدتےاور غیر محسوس آواز میں حقےگڑگڑاتےان مٹی کےمادھوئوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جن کی غیرت اور بےغیرتی کا اپنا ہی معیار تھا۔
    ”کیا تھا جی۔ اس نےاپنےماں باپ کو ماسٹر کےہاں زبیدہ کےرشتےکےلئےبھیجا تھا۔ جواب میں ماسٹر نےانہیں بےعزت کر کےگھر سےنکال دیا اور ایک بار پھر بیٹی کی خوب دھلائی کی۔“
    ”لاحول ولا قوة۔“ بےاختیار طاہر کےلبوں سےنکلا۔ پھر اس نےبڑی کڑی نظروں سےملک کو دیکھا۔ ”میرا خیال تھا کہ تعلیم اور بدلتےماحول نےوجاہت آباد کےلوگوں کو فراخ دل اور وسیع النظر بنا دیا ہےمگر لگتا ہےاس کےلئےابھی وقت لگےگا۔“
    ”کیا مطلب چھوٹےمالک۔“ بلال ملک نےگھبرا کر اس کی جانب دیکھا۔ باقی سب لوگوں نےبھی چونک کر سر اٹھائےاور طاہر کی طرف متوجہ ہو گئے۔
    ”اس کا جواب میں تھوڑی دیر بعد دوں گا۔تم فوری طور پر ماسٹر محسن ‘ لالو اور عادل کو یہاں بلائو۔“
    ” آپ کیا کرنا چاہتےہیں چھوٹےمالک؟“ ملک باقاعدہ گھبرا گیا۔
    ”جو کروں گا تم سب دیکھ ہی لو گی۔ فی الحال جو کہا ہےاس پر عمل کرو۔ ان تینوں کو بلائو یہاں۔ ابھی۔“ طاہر کا لہجہ سخت ہو گیا۔
    ”جی چھوٹےمالک۔“ ملک نےبیچارگی سےیوں کہا جیسےخود کو ماں بہن کی گالی دےرہا ہو کہ اس نےطاہر کےسامنےیہ بات کی ہی کیوں؟ پھر اس نےبائیں ہاتھ چارپائی پر بیٹھےایک ادھیڑ عمر آدمی کو ہاتھ کےاشارےسےاٹھ جانےکو کہا۔
    ”اوئےشکورے۔ جا۔ لالو‘ ماسٹر محسن اور عادل کو بلا کر لا۔ کہنا چھوٹےمالک نےبلایا ہے۔“
    ”جی ملک صاحب۔“ شکورا اٹھا اور چل پڑا۔
    ”اور سن۔ “ ملک نےاسےروکا۔ ” تینوں کو اکٹھا نہ کر لینا ۔ کہیں یہاں پہنچنےسےپہلےخون خرابہ کر بیٹھیں۔ لالو کا گھر پہلےہے۔ اسےجاتےہوئےپیغام دےجا۔ پھر ماسٹر کےگھر جانا۔ اور دونوں میں سےکسی کو نہ بتانا کہ دونوں کو یہاں اکٹھےبلایا گیا ہے۔“
    ”جی ملک صاحب۔“ شکورا سر ہلا کر چل دیا۔
    ”تم اچھےبھلےعقلمند آدمی ہو ملک۔“ طاہر نےاس کی بات سےمتاثر ہو کر کہا۔ ”مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ روایتی معاملوں میں تمہاری عقل کس جنگل میں گھاس چرنےچلی جاتی ہے۔“
    ”یہ غیرت کےمعاملےمیںکسی کےقابو نہیں آتےچھوٹےمالک۔“ ملک خجل ہو گیا۔”میں نےان دونوں خاندانوں کو بہت سمجھایا مگر سب بےسود۔“
    ”‘ آئندہ یاد رکھنا۔ایسا کوئی بھی معاملہ ہو‘ اگر تمہارےقابو میں نہ آئےتو مجھےفوراً خبر کرنا۔ میں گائوں میں کسی قسم کی بدمزگی نہیں چاہتا۔“
    ”جی چھوٹے مالک۔“ ملک نےسر جھکا لیا۔
    اسی وقت موبائل گنگنا اٹھا۔طاہر نےسائڈ کی جیب سےسیٹ نکالا ۔ سکرین پر صفیہ کا نام دیکھ کراس نےیس کا بٹن دبادیا۔
    ”ہیلو۔“ اس نےموبائل کان سےلگا لیا۔ ”کیا بات ہے؟“
    ” آپ کب تک لوٹیں گے؟“ صفیہ نےپوچھا۔
    ”خیریت؟“
    ”جی ہاں۔ بالکل خیریت ہے۔ ایک ضروری معاملہ آپ کےگوش گزار کرنا تھا۔“
    ”کوئی ایمر جنسی ہےکیا؟“ طاہر نےچونک کر پوچھا۔
    ”ایسی ایمر جنسی بھی نہیں مگر میں چاہتی تھی کہ یہ بات آپ کےعلم میں جتنی جلدی آ جائے‘ اس کا کوئی حل نکل آئےگا۔“
    ”میں بھی یہاں ایک خاص معاملےمیں الجھا ہوا ہوں ۔ اس وقت آٹھ بجےہیں۔ نو بجےتک لوٹوں گا۔ کیا اتنی دیر۔۔۔“
    ”یہ کوئی دیر نہیں۔ “ صفیہ نےجلدی سےکہا۔” میں نےبتایا ناں کہ بہت زیادہ ایمرجنسی کی بات نہیں ہے۔ آپ نو بجےتک آ جائیےگا۔ پھر بات کریں گے۔“
    ”اگر معاملہ زیادہ سیریس ہےتو ۔۔۔“
    ”جی نہیں۔ موبائل پر کرنےکی بات نہیں ہے۔ آپ گھر آ جائیے۔ تسلی سےبات کریں گے۔“
    ”اوکے۔ میں جلدی آنےکی کوشش کروں گا۔ اللہ حافظ۔“
    ”اللہ حافظ۔“ صفیہ نےرابطہ کاٹ دیا۔
    ”خیریت ہےچھوٹےمالک۔“ ملک ‘ہونےوالی گفتگو سےکچھ اندازہ نہ لگا پایا تو پوچھا۔
    ”ہاں۔ حویلی جائوں گا تو پتہ چلےگا۔ ویسےخیریت ہی ہو گی۔ ورنہ تمہاری مالکن مجھےفوراً آنےکو کہتی۔“
    ملک جواب میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔ چوپال میں خاموشی چھا گئی۔ کبھی کبھی حقےکی گُڑ گُڑ اس میں ارتعاش پیدا کر دیتی اور بس۔

    نماز سےفارغ ہو کر حافظ عبداللہ کچھ دیر چٹائی پر سر جھکائےبیٹھا رہا۔ وہ اب تک کی صورتحال پرغور کر رہا تھا۔ درویش کی باتیں اس کےدل و دماغ میں بھونچال سا پیدا کر رہی تھیں۔ اس کی کئی باتوں کا مفہوم اسےاب سمجھ آ رہا تھا۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔ پھر وہ اس وقت چونکا جب لڑکی کےادھ کھلےہونٹوں سےایک ہلکی سی کراہ خارج ہوئی۔ وہ آہستہ سےاٹھا اور چارپائی کےپاس چلا آیا۔ لڑکی غنودگی ہی کےعالم میں کراہی تھی۔ ابھی تک اس کےہوش میں آنےکے آثار واضح نہیں تھے۔ اس نےتو اب تک کروٹ بھی نہ لی تھی۔ چت پڑی تھی۔
    حافظ عبداللہ نےاس کےچہرےپر نظریں گاڑ دیں۔ وہ اچھی خاصی قبول صورت تھی۔ عمر بیس بائیس سےزیادہ نہ ہو گی۔ شادی شدہ بھی نہ لگتی تھی۔کانوں میں سونےکی بالیاں تھیں۔ ناک میں لونگ نےاس کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔ اس کےہونٹوں کی نیلاہٹ اب تقریباً ختم ہو چکی تھی۔کمبل میں مستور اس کےبدن کا گداز حافظ عبداللہ کو یاد آیا تو وہ تھرا کر رہ گیا۔ ”استغفر اللہ“ کہہ کر اس نےلڑکی کی چہرےسےنظریں ہٹانا چاہیں ‘ مگر چونک کر رک گیا۔ نجانےکیوں اسےلگا کہ لڑکی بڑا کھینچ کر سانس لےرہی ہےاور اس کےچہرےپر نمایاں ہوتی ہوئی تمتماہٹ کمرےکےماحول یا کمبل کی گرمی کی وجہ سےنہیں ہے۔ اپنا شک دورکرنےکےلئےاس نےاپنا ہاتھ لڑکی کےصبیح ماتھےپر رکھا اور گھبرا کر واپس کھینچ لیا۔ ماتھا تو آگ کی طرح تپ رہا تھا۔اپنےاندیشےکی تصدیق کیلئےاس نےذرا سا کمبل سرکایا اور لڑکی کا پہلو میں پڑا ہاتھ چھو کر دیکھا۔ ہاتھ بھی انگارہ بنا ہوا تھا۔
    ”کہیں اس پر نمونیہ کا حملہ تو نہیں ہو گیا؟“ اس کےذہن میں ایک خیال سرسرایا۔
    یہ ناممکن بھی نہیں تھا۔ وہ نجانےکب سےسیلاب کےیخ پانی میں بہ رہی تھی۔ پانی سرد ‘ اوپر سےسردی کا موسم۔ اس کا اکڑا ہوا بدن تو اب نرمی پکڑ رہا تھا مگر سردی یقیناً اس پر اپنا اثر دکھا چکی تھی۔
    لڑکی کا ہاتھ کمبل کےاندر کر کےوہ سیدھا ہو گیا۔ اس وقت‘ اس جگہ وہ اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ دوا کےنام پر وہاں پھانکنےکو دھول تک نہ تھی۔ اور اس صورتحال میں وہ اس کےلئےکیا احتیاطی اور طبی تدبیر کرتا ‘ اس سےوہ نابلد تھا۔
    کچھ سوچ کر وہ باہر نکلا ‘ دروازہ بھیڑ دیا اور ساتھ والےکمرےمیں چلا آیا۔ یہ وہ کمرہ تھا جس کےاندر سےاسےدرویش کےنماز میں قرات کرنےکی آواز سنائی دی تھی۔ کمرےکےقبلہ رخ طاق میں چراغ جل رہا تھا۔مغربی دیوار کےپاس آگےپیچھےدو چٹائیاں بچھی تھیں۔ آگےوالی چٹائی پر عین درمیان میں رحل پر سبز جزدان میں ملفوف قر آن ِحکیم دھرا تھا۔اس کےعلاوہ کمرےمیں اور کوئی سامان نہ تھا۔
    وہ چاروں طرف نظر دوڑا کر باہر نکل آیا۔ اب اس کا رخ مزار کی جانب تھا۔ مزار کےباہر چپل اتار کر اس نےسبز دروازہ وا کیا اور اندر داخل ہو گیا۔ صحن کےپار سامنےسبزمنقش چادروں اور پھولوں سےڈھکی بابا شاہ مقیم کی قبر پر چند اگربتیاں سلگ رہی تھیں‘ جن کی بھینی بھینی خوشبو سےوہاں کا ماحول اس اکیلی رات میں عجیب پُراسرار سا ہو گیا تھا۔صحن کےبائیں ہاتھ بنےکمرےکو دیکھتا ہوا وہ بابا شاہ مقیم کےگنبد میں داخل ہو گیا۔
    گنبد کےاندر شمالی جانب ایک لکڑی کی الماری میں اَن گنت قر آن پاک کےنسخے‘ سیپارےاور دوسری وظائف کی کتب پڑی تھیں۔چھت کےدرمیان کسی چاہنےوالےنےقندیل لٹکا دی تھی۔ دیواروں پر پھولدار ٹائلیں جڑی تھیں۔ قبر کےارد گرد دیواروں تک کی تقریباً چار چار فٹ کی جگہ پر کھجور کی صفیں ترتیب سےبچھی تھیں۔مشرقی سمت میں ایک بڑی کھڑکی تھی جو اس وقت بند تھی۔قبلہ رخ محراب بنی تھی تاکہ اگر کوئی وہاں نوافل وغیرہ پڑھنا چاہتا تو اسےدقت نہ ہوتی۔
    حافظ عبداللہ آہستہ قدموں سےچلتا ہوا بابا شاہ مقیم کےچہرےکی جانب آیا اور دوزانو ہو کر بیٹھ گیا۔ بےاختیار اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ سر جھک گیا اور ہاتھ گود میں آ پڑی۔ کچھ دیر اسی عالم میں گزری تو غیرمحسوس انداز میں اس کےدل کی دھڑکن مدھم سی ہو گئی اور وہ ارد گرد سےبےخبر ہو گیا۔
    بڑی آہستگی سےایک انجانی سی مہک کا ایک جھونکا جاگا اور حافظ عبداللہ کےگرد ہالہ سا تن گیا۔ مہک نےاسےاپنےحصار میں لےلیا۔ اسےلگا ‘ اس کےبالوں میں بڑی نرمی سےکوئی اپنی انگلیاں پھیر رہا ہے۔ اسےدلاسہ دےرہا ہے۔ تشفی دےرہا ہے۔پیار کر رہا ہے۔ ہمت بندھا رہا ہےاس کی۔ حوصلہ دےرہا ہےاسے۔
    کتنی دیر گزری‘ اسےپتہ نہ چلا۔ جب یہ احساس مدھم پڑا تو دھیرےسےاس نےسر اٹھایا‘ تب اسےعلم ہوا کہ اس کی داڑھی آنسووں سےتر تھی۔ شبنم ‘ اس کےگود میں دھرےہاتھوں پر قطرہ قطرہ گر رہی تھی۔ گریبان بھیگا ہوا تھا اور اندر جیسےدُھل سا گیا تھا۔
    آہستہ سےاس نےہاتھ چہرےپر پھیری۔ اشک سارےچہرےپر ملتےہوئےلگا جیسےاس نےوضو کر لیا ہو۔
    ”بابا۔ “ اس کےنہاں خانہ دل سےبےاختیار ایک سرگوشی ایک بار پھر آنسوئوں کی برسات لئےنکلی اور ماحول میں رچی مہک کےساتھ ہو لی۔ ہچکیاں لیتےہوئےاس نےقبر کےتعویذ پر سر ٹیک دیا۔
    وہ کیوں رو رہا تھا؟ اسےخود معلوم نہ تھا لیکن اسےتو سب معلوم تھا جو اسےرُلا رہا تھا۔ نہیں۔رُلا نہیں رہا تھا‘ اسےپاکیزگی کا غسل دےرہا تھا۔اس پانی سےوضو کرا رہا تھا جو ہر ایک کےاندر تو ہوتا ہے‘ باہر نصیب والوں ہی کے آتا ہے۔
    ٭
    ماسٹر محسن‘ لالو تیلی اور اس کا بیٹا عادل ‘ تینوں آ چکےتھے۔
    ماسٹر محسن ان دونوں کو بار بار بڑی کینہ توز نظروں سےدیکھ رہا تھا جبکہ وہ باپ بیٹا سر جھکائےبیٹھےتھے۔
    ماحول پر ایک تنائو سا طاری تھا۔طاہر نےملک کی جانب دیکھا۔ اس نےاس کا عندیہ جان کر چاچا شمسو کو ہاتھ اٹھا کر دور ہی سےاشارہ کیا ۔ اسی وقت دو تین آدمی اپنی جگہوں سےاٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدمی چاچا شمسو کےساتھ سب لوگوں کو چائےکےپیالےتھما رہےتھے۔
    ملک نےطاہر کےبائیں ہاتھ موڑھےپر بیٹھےلالو اور عادل اور دائیں ہاتھ بیٹھےماسٹر محسن کو خود چائےکےپیالےپیش کئے‘ جو خاموشی سےلےلئےگئے۔ طاہر اور ملک نےسب سے آخر میں چائےلی اور ہولےہولےچسکیاں لینےلگے۔
    پھر جب لالو اور ماسٹر محسن نےخالی پیالےزمین پر رکھےتو طاہر نےبھی اپنا پیالہ ملک کےحوالےکر دیا۔ پہلو بدلا۔ سنبھل کر بیٹھا اور ماسٹر محسن کی طرف متوجہ ہوا۔
    ”ماسٹر صاحب۔ میں نے آپ کو جس مقصد سےیہاں بلایا ہے‘ وہ تو آپ سمجھ گئےہوں گے۔“ اس نےبڑےناپ تول کر الفاظ زبان سےنکالے۔
    ”جی۔“ ماسٹر محسن نےاس کی جانب نظریں اٹھائیں۔ ” پھر بھی میں آپ کی زبان سےسننا چاہوں گا ۔“ اس کی آواز بالکل سپاٹ تھی۔
    ”میں آپ سےعمر میں بھی چھوٹا ہوں اور منصب میں بھی ماسٹرصاحب۔ آپ خیر بانٹتےہیں۔ علم کی آبیاری کرتےہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری نہ ہو اور اگر ایسا ہو جائےتو وہ سہواً ہو گا۔ پھر بھی اس کےلئےمیں پیشگی آپ سےمعذرت چاہتا ہوں۔“ طاہر کےلہجےمیں جو ادب تھا اس نےماسٹر محسن کی پیشانی پر ٹوٹی ٹھیکریوں میں نمایاں کمی کر دی۔کچھ دیر رک کر اس نےپھر زبان کھولی۔
    ”میں اس جھگڑےکی تفصیل میں نہیں جائوں گا جو ہو چکا ہے۔ صرف یہ چاہوں گا کہ اس جھگڑےکےاثرات مٹ جائیں۔“
    ”کیسے؟“ ماسٹر محسن کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔
    ”اس کا حل تو موجود ہےماسٹر صاحب مگر اس کےلئے آپ کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔“ طاہر نےاس کڑواہٹ کو نظر انداز کر دیا۔
    ”اور اگر میں اس پر راضی نہ ہوں تو؟“ ماسٹر نےبڑےضبط سےکہا۔
    ”میں پھر بھی کوشش ضرور کروں گا ماسٹر صاحب۔ یہ میرا حق ہےاور مجھ پر فرض بھی۔ اپنےوالد کےبعد گائوں کےدُکھ سُکھ کی ذمہ داری مجھ پر سب سےپہلےاور سب سےزیادہ عائد ہوتی ہے۔“
    ”کیا مجھےکھل کر کچھ کہنےکی اجازت ہےچھوٹےمالک؟“ اچانک ماسٹر محسن کا پیمانہ صبر جیسےلبریز ہو گیا۔ اس کےلہجےمیں ٹیس سی محسوس کر کےطاہر کےچہرےپر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
    ” آپ جو کہناچاہیں‘ جیسےکہنا چاہیں‘ آپ کو اس کےلئےاجازت لینےکی ضرورت نہیں ہےماسٹر صاحب۔ یہاں آپ کی کسی بات کا برا منانےوالا میرےسمیت کوئی ایک فرد بھی موجود نہیں ہے۔“
    ”تو مجھےصرف یہ بتائیےکہ اگر میری جگہ ۔۔۔“ ماسٹر محسن ایک ثانئےکو رکا‘ طاہر کی جانب دیکھا اور انگلی اس کی طرف اٹھا دی۔” آپ ہوتےتو۔۔۔“
    ”ماسٹر۔۔۔“ بلال ملک نےتیزی سےکہنا چاہا۔ باقی کےسب لوگ بھی ہکا بکا رہ گئی۔ ماسٹر سےاتنی بڑی بات کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ لالو اور عادل بھی پہلو بدل کر رہ گئی۔
    ”ملک۔“ طاہر نےہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی اور مزید کچھ کہنےسےتحکمانہ اشارےسےروک بھی دیا۔ ملک بادل ِ نخواستہ واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ تاہم اس کےانداز سےناراضگی واضح تھی۔
    ” آپ گھبرائیےنہیں ماسٹر صاحب۔“ طاہر کا لہجہ پھر نرم ہو گیا۔ ” میں نےکہا ناں‘ آپ کو جو کہنا ہےاور جس طرح کہنا ہے‘ کہئے۔ میں نے آپ کا دُکھ سننےہی کےلئے آپ کو یہاں بلایا ہے۔“
    ”مجھےزیادہ نہیں کہنا۔“ ماسٹر محسن کا لہجہ شکستگی سےکٹ گیا۔ ہاتھ نیچےہو گیا۔ ”صرف یہ پوچھنا ہےکہ اگر میری جگہ آپ ہوتےتو کیا کرتے؟“ اس کا سر جھک گیا۔
    ”ماسٹر صاحب۔“ طاہر نےاس کےچہرےپر نگاہیں جمادیں۔ ” آپ کےسوال کا جواب میرےان چند چھوٹےچھوٹےسوالوں میں پوشیدہ ہےجو میں آپ سےپوچھنا چاہتا ہوں‘ اگر آپ کو برا نہ لگےتو۔۔۔“
    ”جی ۔ پوچھئے۔“ ماسٹر محسن نےدونوں بازو سینےپر باندھ لئےاورخاک آلود اینٹوں کےفرش کو گھورنےلگا۔
    ”اتنا تو آپ بھی جانتےہیں ماسٹر صاحب کہ ہمارےمذہب نےشادی میں پسند اور ناپسند کےجو حقوق مرد کو دیےہیں وہی عورت کو بھی حاصل ہیں۔“
    ”جی۔“ ماسٹر نےمختصر سا جواب دیا۔
    ”زبیدہ نےنثار کےرشتہ سےکیوں انکار کیا؟“ طاہر نےہولےسےپوچھا۔
    ”وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔“ ماسٹر محسن مضطرب سا ہوا۔
    ”مجھےمعلوم ہےکہ اس نےانکار کیوں کیا ماسٹر صاحب اور یہی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم بیٹےکو اس کی پسند کےبارےمیں پوچھ کر‘ کبھی کبھار اسےلڑکی دکھا کر بھی شادی کےبارےمیں اس کی رائےکو ترجیح دیتےہیں تو زندگی کےاس سب سےبڑےفیصلےکےبارےمیں بیٹی کو زبان کھولنےکی اجازت کیوں نہیں دیتے‘ جبکہ ہمارا دین اس کےلئےبیٹی کو بھی یہ حق دیتا ہےکہ وہ اپنی پسند سے آگاہ کر سکتی ہی۔ جس سےاس کا نکاح کیا جا رہا ہے‘ اسےنکاح سےپہلےدیکھ سکتی ہےاور ہاں یا نہ کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ جب زبیدہ نے آپ کےمجوزہ رشتےسےانکار کرتےہوئے آپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو آپ نےاس پر سنجیدگی سےغور کرنےکےبجائےاس کےساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا۔ اسےمارا پیٹا۔ کیوں؟“ طاہر کی آواز بلند ہو گئی۔ ” آپ کو یہ حق تو ہےکہ اگر اس کےلئےعادل کا رشتہ موزوں نہ تھا تو اس کی اونچ نیچ سےزبیدہ کو آگاہ کرتے۔ اسےسمجھاتے۔ مگر اس پر ہاتھ اٹھانا کیا مناسب تھا؟دوسرےجب عادل کےگھر والےاس کا رشتہ لےکر آپ کےدروازےپر پہنچےتو آپ کو پورا حق تھا کہ آپ اس رشتےسےانکار کر دیتے‘ جیسا کہ آپ نےکیابھی لیکن اس کےبعد آپ نےایک بار پھر زبیدہ ہی کو کیوں پیٹا؟“
    ” باتیں کرنا بہت آسان ہیں چھوٹےمالک۔“ ایک دم ماسٹر محسن کی زبان کا تالا کھلا۔ ”سمجھانےکےنام پر نصیحتیں کرنا بھی کوئی مشکل کا م نہیں۔ مجھےعلم کی روشنی تقسیم کرنےوالا خیال کر کےمیری اس جاہلانہ حرکت پر مجھ سےجواب طلبی بھی کی جا سکتی ہےلیکن خاندان اور گائوں والوں کی باتوں کےزہریلےنشتر‘ ان کےطعنوں کا پگھلا ہوا سیسہ قطرہ قطرہ کانوں میں اتارناکتنا مشکل ہے‘ اس کا آپ کو علم نہیں ہے۔ اس کیفیت سےگزر کر دیکھئےچھوٹےمالک‘جس سےقسمت نےمجھےدوچار کر دیا ہے۔ پھر آپ کو احساس ہو گا کہ جس پھول سی بیٹی کو میں نےکبھی جھڑکی نہیں دی‘ اس پر ہاتھ اٹھاتےہوئےمیرےدل کےکتنےٹکڑےہوئےہوں گے۔ “ ماسٹر محسن کی آواز بھرا گئی۔ ” میں ایک عام سا‘ کمزور آدمی ہوں چھوٹےمالک‘ جس کےسر پر استاد ہونےکا تاج ہےتو دامن میں صرف عزت کےچند ٹکڑی‘ جن کےچھن جانےکےاحساس نےمجھےاپنی بیٹی کےساتھ قصائیوں کا سا سلوک کرنےپر مجبور کر دیا۔میں دین کےبارےمیں وہ بھی جانتا ہوں جو اس چوپال میں بیٹھےسب لوگوں کےلئےشجر ِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہےمگر مجھےانہی کےدرمیان رہنا ہے۔ انہی کےساتھ رشتےاور تعلقات نبھانےہیں۔ نثار کا رشتہ میں نےکیوں قبول کیا‘ اس کےپیچھےمیری صرف ایک مجبوری تھی۔ میرےپورےخاندان میں زبیدہ کےلئےایسا کوئی لڑکا موجود نہیں ہےجس کےساتھ میں اس کی شادی کر سکوں۔ لڑکےاَن پڑھ ہیں یازبیدہ سےعمر میں چھوٹےہیں ۔ میری بیٹی ایف اےپاس ہے۔ میں دل کا مریض ہوں چھوٹےمالک۔ کب زندگی کی شام ہو جائے‘ نہیں جانتا۔مجھےدور دور تک اس کےلئےجب مناسب رشتہ نظر نہ آیا تو دل پر جبر کر کےمیں نےنثار کےرشتےکےلئےہاں کہہ دی۔“
    ”ایک منٹ ماسٹر صاحب۔“ طاہر نےاس کی بات روک دی۔” یہاں تک میں آپ کی ہر بات سےپوری طرح متفق ہوں۔ آپ نےجو کیا‘ درست کیا لیکن جب زبیدہ نےانکار کیا اور اس کےبعد عادل کا رشتہ بھی اس کےلئے آیا تب آپ نےخدا کا شکر ادا کرنےکےبجائےانکار اور مار پیٹ کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ میرا خیال ہےعادل ‘ ہر طرح سےزبیدہ کےلئےموزوں ہے۔“
    ”مگر وہ ہماری برادری سےنہیں ہےچھوٹےمالک۔“
    ”لاحول ولا قوة۔“ بےاختیار طاہر کی زبان سےنکلا۔” ماسٹر صاحب۔ اب آپ کی سوچ پر مجھےافسوس نہ ہو تو یہ میری اپنےساتھ زیادتی ہو گی۔ آپ پڑھےلکھےہو کر بھی ذات برادری کےچکر میں غوطےکھا رہےہیں؟ “
    ”یہ معمولی بات نہیں ہےچھوٹےمالک۔“ ماسٹر محسن نےسر اٹھایا۔ ” میں نےشروع میں پوچھا تھا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتےتو کیا کرتے؟ اس سوال کا جواب دینےکا یہ بہت اچھا موقع ہے۔ آپ نےبھی تو ابھی ابھی شادی کی ہے۔ آپ نےخاندان‘ ذات برادری دیکھ کر ہی تو نکاح کیا ہو گا؟“
    طاہر کےہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ نےہلکورا لیا۔
    ”ماسٹر صاحب۔ اگرمیرےجواب نےذات برادری کی نفی کر دی تو؟“ اس نےماسٹر محسن کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
    ”تو میں وعدہ کرتا ہوں چھوٹےمالک کہ مجھے آپ کا ۔۔۔“ ماسٹر صاحب نےپورےعزم سےکہا۔” ہر فیصلہ منظورہو گا۔“
    ”سوچنےکی مہلت نہیں دوں گا میں آپ کو۔“ طاہر نےدو ٹوک لہجےمیں کہا۔
    ”میں ایک سیکنڈ کا وقت نہیں مانگوں گا ۔“ وہ بھی آخری دائو کھیلنےکےسےانداز میں بولے۔
    ”تو سنئےماسٹر صاحب۔ میری بیوی اور آپ کی چھوٹی مالکن نہ تو میرےخاندان سےہی‘ نہ میری ذات برادری سےاور نہ ہی کسی کروڑ پتی گھرانےسے۔ وہ متوسط طبقےسےتعلق رکھنےوالی ایک یتیم لڑکی ہےجس کی شرافت اور خوب سیرتی نےمجھےاسیر کر لیا اور اس اسیری کی بھی وضاحت کر دوں۔ میں نےاسےشادی سےپہلےدیکھا تک نہ تھا۔ آپ کی بڑی مالکن نےاسےپسند کیا اور ہم دونوں کو نکاح کےبندھن میں باندھ دیا۔ اب کہئےکیا کہتےہیں آپ؟“
    ماسٹر محسن منہ کھولےطاہر کو دیکھےجا رہا تھا۔ وہاں موجود گائوں والوں کو بھی اس حقیقت کا شاید آج ہی علم ہوا تھا‘اس لئےوہ بھی حیران حیران سےتھی۔
    ”میں آپ کی حیرت ختم ہونےکا منتظر ہوں ماسٹر صاحب۔“ کتنی ہی دیر بعد طاہر نےماسٹر محسن کو مخاطب کیا تو وہ دھیرےسےچونکے۔
    ”جی ۔۔۔ “ ماسٹر صاحب نےپلکیں جھپکیں تو نمی رخساروں پر ڈھلک آئی۔” میں حیران کم اور شرمندہ زیادہ ہوں چھوٹےمالک۔“ انہوں نےچشمہ اتار کر آنکھیں پونچھتےہوئےکہا۔
    ” آپ کو شرمندہ کرنا میرا مقصد نہیں تھا ماسٹر صاحب۔“ طاہر نےان کےکندھےپر ہاتھ رکھ کر ہلکےسےدبایا۔”میں تو اس مسئلےکا حل چاہتا ہوں جس نے آپ جیسےذی علم انسان کو کانٹوں کےبستر پر لا پھینکا۔“
    ”اب کوئی چبھن نہیں چھوٹےمالک۔“ ماسٹر محسن نےچشمہ دوبارہ آنکھوں پر چڑھا لیا۔ ”میرا دل مطمئن ہی۔ آپ جو فیصلہ کریں گےمجھےمنظور ہے۔“
    ”نہیں ماسٹر صاحب۔ “ طاہر نےاس کےکندھےسےہاتھ اٹھا لیا۔ ”فیصلہ اب بھی آپ ہی کا ہے۔ میں تو صرف مشورہ دےسکتا ہوں ۔“
    ”میرےلئےوہ بھی حکم ہو گا چھوٹےمالک۔ آپ فرمائیے۔“ ماسٹر محسن کا لہجہ بیحد پُرسکون تھا۔
    ”عادل بہت اچھا لڑکا ہےماسٹر صاحب۔میں اس سےزیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔“ طاہر نے آہستہ سےکہا اور ہونٹ کاٹتےلالو کی جانب دیکھا جو کسی بھی لمحےرو دینےکو تھا۔ عادل سر جھکائےفرش کو گھور رہا تھا۔
    ” آپ تاریخ مقرر کر دیجئےچھوٹےمالک۔میری طرف سےکوئی دیر نہیں ہے۔“ ماسٹر محسن سب کچھ نبٹا دینےپر تلےبیٹھےتھے۔
    ”کیوں لالو چاچا؟“ طاہر نےاس کی جانب دیکھا اور ایک دم لالو کندھےپر پڑےرومال کےکونےمیں منہ چھپا کر بلک پڑا۔ اس کی ہچکی سی بندھ گئی۔ وہ بچوں کی طرح روئےجا رہا تھا۔
    ملک نےایک دم اٹھ کر اس کی طرف بڑھنا چاہامگر طاہر نےاسےروک دیااور ماسٹر محسن کی جانب دیکھا۔ ایک دم ماسٹر صاحب اٹھےاور دو قدم بڑھ کر لالو کےسامنےجا کھڑےہوئی۔
    ”لالو ۔ “ ان کےہونٹوں سےنکلااور لالو نےان کےدونوں ہاتھ تھام کر برستی آنکھوں سےلگا لئے۔ماسٹرصاحب نےچند لمحےانتظار کیا۔ پھر ہاتھ اس کی گرفت سےنکال کر اسےکندھوں سےپکڑ کر اٹھایا اور سینےسےلگا لیا۔
    کتنی ہی آنکھیں نم نظر آ رہی تھیں۔ ملک ہنسا تو اس کےہونٹوں کےگوشےلرز رہےتھی۔ رہا طاہر ۔۔۔ تو وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائےان دونوں کو ایسی فتح مندانہ مسکراہٹ کےساتھ دیکھ رہا تھا جس میں گائوں کا بڑا ہونےکا غرور چھلکا پڑ رہا تھا۔
    رات آدھی سےزیادہ جا چکی تھی۔
    حافظ عبداللہ چٹائی پر بیٹھا تھا۔ جو قر آن پاک رحل پر اس کےسامنےکھلا رکھا تھا ‘ یہ وہی تھا جو اسےدوسرےکمرےمیں ملا تھا۔ مزار سےنکل کر جب وہ لڑکی والےکمرےمیں آیا تو لڑکی ابھی تک بےسدھ تھی۔ تاہم مزار سےواپسی پر جب اس نےاس کےماتھےپر ہاتھ رکھ کر حرارت کی شدت جاننا چاہی تو حیرت انگیز طور پر اس میں نمایاں کمی آ چکی تھی۔ اس کا دل تشکر اور ممنونیت سےلبالب ہو گیا۔ یہ صاحب ِ مزار کی کرامت ہی تو تھی جو اللہ کےفضل سےظاہر ہوئی تھی۔
    اس نےلڑکی کو ہوش میں لانےکا خیال ترک کر دیا۔ ساتھ والےکمرےمیں گیا اور وہاں سےقر آن پاک اور رحل اٹھا لایا۔ کمرےکا دروازہ بھیڑ دیا ۔ کھیس کی بکل ماری۔ طاق میں رکھےچراغ کےقریب ‘چٹائی پر دوزانو بیٹھ کر قر آن پاک کو بوسہ دیا۔ کھولا اور منزل کرنےمیں لگ گیا۔
    کبھی کبھی وہ آہستہ سےگردن گھما کر لڑکی کا طائرانہ سا جائزہ لےلیتااور دوبارہ دہرائی میں محو ہو جاتا۔
    وقت گزرنےکا اسےاحساس تو ہو رہا تھا مگر کتنا گزر گیا‘ یہ اسےعلم نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سےجلد صبح ہو جائےتاکہ وہ گائوں جا سکے۔ گائوں کا خیال آیا تو اس کا دھیان مسجد کی جانب چلا گیا۔ مغرب اور عشا ءکےوقت وہ وہاں موجود نہ تھا۔ نمازیوں کو بڑی دقت ہوئی ہو گی اور ساتھ ہی وہ فکرمند بھی ہوئےہوں گےکہ آج حافظ کہاں چلا گیا؟ کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ وہ عصر کےبعد روزانہ کہاں جاتا ہے؟ ورنہ اب تک اسےکوئی نہ کوئی تلاش کرتا یہاں تک آ ہی چکاہوتا۔
    قر آن پاک کےالفاظ زبان سےادا ہو رہےتھےاور دماغ ایسی ہی ادھر ادھر کی سوچوں میں بار بار الجھ رہا تھا۔ ایک آیت ختم کرتےہوئےاس نےلڑکی کا جائزہ لینےکےلئے آہستہ سےگردن گھمائی اور الفاظ لڑکھڑا گئے۔وہ اپنےہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔ شاید اسےپیاس لگی تھی۔
    لڑکی کی پیاس کا خیال جب تک حافظ عبداللہ کےدل میں آتا‘ تب تک برانگیختہ کر دینےوالی کتنےہی سوچیں اس پر یلغار کر چکی تھیں۔ لڑکی کا لبوں پر زبان پھیرنےکا انداز اتنا دلفریب تھا کہ حافظ عبداللہ کا دل بےقابو ہو گیا۔
    ”پانی۔۔۔“ اسی وقت لڑکی کےلبوں سےبڑی مہین سی آواز نکلی۔
    حافظ عبداللہ چونک کر اپنی دگرگوں کیفیت سےباہر آیا۔ کھیس کو بدن سےالگ کیا۔ چنگیر کےپاس پڑا مٹی کا پیالہ اٹھا یا اور کمرےسےنکل گیا۔ چند لمحےبعد لوٹا توپیالےمیں پانی تھا ۔ ساتھ ہی اس کےچہرےپر وضو کےاثرات نمایاں تھی۔ سرد پانی نےاسےاپنی غیر ہوتی ہوئی حالت کو سنبھالنےمیں بڑی مدد دی تھی۔
    وہ چارپائی کےقریب آ کھڑا ہوا۔ لڑکی کےپپوٹےلرز رہےتھی۔ اب بھی وہ ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی اور ”پانی ۔۔۔پانی“ کےالفاظ وقفےوقفےسےادا کرتےہوئے آہستہ آہستہ سر کو دائیں بائیں حرکت دےرہی تھی۔
    ”لیجئی۔ پانی پی لیجئے۔“ حافظ عبداللہ نےاسےپکارا۔
    لڑکی نےجیسےاس کی بات سنی ہی نہ تھی۔ حافظ عبداللہ نےاسےچار پانچ بار پکارا مگر وہ تو نیم بیہوشی کےعالم میں پانی مانگ اور سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔
    حافظ عبداللہ تھوڑی دیر پیالہ ہاتھ میں لئےکچھ سوچتا رہا پھر اس نےجیسےکوئی فیصلہ کر لیا۔ پانی کا پیالہ دائیں ہاتھ میں لےکر اس نےدل کڑا کیا اور بایاں ہاتھ لڑکی کی گردن میں ڈال دیا۔ پھر اسےاوپر اٹھاتےہوئےذرا سا جھکا اور جگہ بنتےہی چارپائی کی پٹی پر ٹک گیا۔ اب لڑکی کےجسم کا سارا بوجھ اس کےسینےپر آ رہا۔ جسم کی کپکپی پر قابو پانےکی کوشش کرتےہوئےاس نےپیالہ لڑکی کےہونٹوں سےلگا دیا۔ چھوٹےچھوٹےتین چار گھونٹ بھر نےکےبعد لڑکی نےمنہ ہٹا لیا تو حافظ عبداللہ نےاٹھتےہوئےاسےواپس چارپائی پر لٹا دیا اور خود پھولےہوئےسانس کےساتھ پرےہٹ گیا۔
    سردی کی رات میں ابھی چند منٹ پہلےوہ یخ پانی سےوضو کر کے آیا تھا۔ اس کےباوجود اس کی پیشانی پسینےکےگرم قطروں سےیوں بھیگ چکی تھی جیسےوہ اب تک دہکتےتندور پر جھکا رہا ہو۔ لڑکی اب اتنی بےسدھ نہ تھی۔ حافظ عبداللہ کو لگا‘ تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آ جائےگی کیونکہ اس کی آنکھوں پر جھکےپپوٹےہولےہولےپھڑک رہےتھےاور وہ بار بار گلا تر کرنےکےانداز میں تھوک بھی نگل رہی تھی۔
    حافظ عبداللہ کی حالت بڑی مشکل سےسنبھلی۔ ایک خوبصورت ‘ جوان اور مدافعت کےناقابل لڑکی کےجسم کا اس کےساتھ لگنا ایک ایسی کیفیت کا حامل عمل تھا ‘ جس کےاثرات سےاس کا جسم اب تک جھنجھنا رہا تھا۔
    پیالےمیں ابھی کچھ پانی باقی تھا۔حافظ عبداللہ نےچاہا کہ پانی پی لےتاکہ اس کےحواس میں بھڑکتی آگ میں کچھ تو کمی آئے۔ پھر نجانےکیا سوچ کر رک گیا۔ اس نےپیالہ چارپائی کےسرہانےفرش پر رکھا اور کمرےسےنکل گیا۔ ہینڈ پمپ پر جا کر اس نےایک بار پھر چہرےپر سرد پانی کےچھینٹےماری۔ اوک میں لےکر حلق تک پانی پیا۔ پھر کرتےکےدامن سےچہرہ اور ہاتھ خشک کرتا ہوا واپس لوٹ آیا۔
    کمرےمیں داخل ہوا تو چونک پڑا۔
    لڑکی ہوش میں آ چکی تھی۔ اس نےکمبل ایک طرف ڈال دیا تھااور لرزتی کانپتی چارپائی سےاتر چکی تھی۔ حافظ عبداللہ پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹکی۔ گھبرا کر اس نےکمبل سےاپنےنیم برہنہ جسم کو چھپا یا اور دیوار کی طرف الٹےپائوں سرکتےہوئےمتوحش ہرنی کی طرح اسےدیکھنےلگی۔
    ”گھبرائیےنہیں۔“ حافظ عبداللہ نےہاتھ اٹھا کر اسےمزید پیچھےہٹنےسےروک دیا۔ ”مجھ سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔“ اس نےدروازےکےاندر آتےہی اپنےقدم روک لئے۔اتنی دیر میں وہ دیوار کےبالکل ساتھ جا لگی۔
    ”میں اس وقت کہاں ہوں؟“ کچھ دیر تک حافظ کو بغور گھورتےرہنےکےبعد اس نے آہستہ سےپوچھا۔
    ”نور پور گائوں یہاں سےکچھ ہی دور ہے۔ “ حافظ عبداللہ نےجواب دیا اور ایک قدم آگےبڑھ آیا۔
    ”نور پور؟“ حیرت سےاس کا منہ کھل گیا۔
    ”جی ہاں۔“ حافظ عبداللہ نےچٹائی پر پڑا کھیس اٹھا کر اپنےجسم کےگرد لپیٹتےہوئےکہا۔ ” میں نور پور کی اکلوتی مسجد کا امام ہوں۔ یہ جگہ بھی نور پور ہی کی حد میں آتی ہے۔ بابا شاہ مقیم کےمزار کا ایک کمرہ ہےجہاں آپ اس وقت موجود ہیں۔“
    ”بابا شاہ مقیم۔“ لڑکی بڑبڑائی۔” مگر میں اتنی دور۔۔۔“
    ” آپ ایک درخت کےساتھ چمٹی ہوئی سیلابی ریلےمیں بہتی جا رہی تھیں۔ میں اتفاق سےوہاں ٹبےپر موجود تھا۔ اللہ نےہمت دی اور میں آپ کو پانی سےنکال لایا۔ “
    ”یہ کب کی بات ہے؟“لڑکی اب بھی پریشان تھی۔
    ” آج شام کےقریب کا وقت تھا۔ تب سے آپ بیہوش پڑی تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آپ نےپانی مانگا تو میں نےچند گھونٹ آپ کو پلائے۔ پھر میں۔۔۔“ حافظ عبداللہ کہتےکہتےرک گیا۔ ایک پل کو اس کےبدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ پھر وہ نظر اس کےسراپےسےہٹا کر بولا۔ ”وضو کرنےچلا گیا۔ واپس آیا تو آپ شاید بھاگنےکی تیاری میں تھیں۔“ ہلکی سی مسکراہٹ اس کےہونٹوں پر کھیلنےلگی۔
    ”نن۔۔۔ نہیں ۔بھاگنےکی نہیں۔ “ وہ گڑبڑا گئی اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔
    ”میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔“ حافظ عبداللہ نےکہا۔ ” اس صورتحال میں آپ کا کوئی بھی اقدام اپنی حفاظت اور مجھ پر بد گمانی کےلئےجائزہے۔“ اس نےدروازہ آدھا بھیڑ دیا۔
    ”یہ دروازہ کیوں بند کر دیا آپ نے؟“ وہ جلدی سےدو قدم آگے آ گئی۔
    ”ہوا بہت سرد ہے۔“ حافظ عبداللہ نےنرمی سےکہا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” آپ کا بخار شاید اب کم ہو گیا ہے۔تاہم جب میں آپ کو پانی سےنکال کر لایا تھا تو آپ انگارےکی طرح دہک رہی تھیں۔ابھی ٹھنڈی ہوا آپ کےلئےنقصان دہ ہے۔ پھر میں نےدروازہ بند نہیں کیا ‘ صرف بھیڑ دیا ہے۔ آپ خود کو سنبھالئے۔ شک اوراندیشہ اس وقت آپ کا حق ہےمگرہم دونوں کےعلاوہ بھی ایک ہستی یہاں موجود ہے‘ جس کےہوتےہوئے آپ کو ہر اندیشےسےبےنیازہو جانا چاہئے۔“
    ”کون۔۔۔کون ہےتیسرایہاں؟“ لڑکی نےچونک کر پوچھا۔
    ”وہ۔۔۔“ حافظ عبداللہ نےچھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔”وہ‘ جو ہر جگہ موجود ہی۔ صرف آپ کو اس کا یقین ہوناچاہئے‘ جیسےمجھےہے۔“ وہ مسکرا دیا۔
    ”اوہ۔۔۔“ لڑکی خجل سی ہو گئی۔ اس نےشرمندہ شرمندہ سی نظروں سےحافظ عبداللہ کی طرف دیکھا اور سر جھکا کر پائوں کےناخن سےزمین کریدنےلگی۔
    ”صبح تک آپ کو یہیں ٹھہرنا ہو گا۔“ حافظ عبداللہ نےپھر کہا۔ ” کل کی بارش نےکیچڑ بہت کر دیا ہی۔ سواری کوئی موجود نہیں ہےاور گائوں تک اس اندھیرےمیں پیدل جانا نری مصیبت ہے۔ آپ نےنجانےکب سےکچھ نہیں کھایا۔ وہ طاق میں چنگیر رکھی ہے۔ کھانےکو اس وقت یہی میسر ہی۔ کھا لیجئے۔ پیالےمیں پانی بھی ہے۔“ اس نےچارپائی کےسرہانےزمین پر پڑےمٹی کےپیالےکی جانب اشارہ کیا۔پھر چٹائی کےپاس آگیا۔
    قر آن پاک کو چوم کر سینےسےلگایا۔ رحل اٹھائی اور لڑکی کی جانب دیکھا جو دیوار سےلگی کھڑی اسےبڑی گہری نظروں سےدیکھ رہی تھی۔ حافظ عبداللہ کو لگا ‘ اس کی نظروں میں عجب سحر سا کروٹیں لےرہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تیرتےسرخ ڈورے‘ گالوں پر بکھری دو تین لٹیں اور سینےکا زیر و بم ‘کسی بھی خیال ‘ کسی بھی سوچ کو گمراہی کا راستہ دکھانےکےلئےکافی تھی۔
    ”اگر آپ کو اپنےاور میرےاللہ پر بھروسہ ہےتو بےفکر ہو جائیے۔ کھانا کھائیے اور چارپائی پر آرام کیجئے۔“ اچانک حافظ عبداللہ کی آواز نےکمرےکی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ ”میں دوسرےکمرےمیں جا رہا ہوں۔ آپ اندر سےکنڈی لگا لیجئے۔ صبح ہوتےہی میں آپ کو نورپور لےچلوں گا۔ وہاں چوہدری حسن دین آپ کو آپ کےگھر بھجوانےکا انتظام کر دیں گی۔“
    دروازےکےقریب پہنچ کر وہ رک گیا۔ پلٹ کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں تھی۔
    ”اگر کوئی کام ہو تو اس کھڑکی پر دستک دےدیجئےگا۔“ اس نےدونوں کمروں کی درمیانی دیوار میں بنی چار ضرب چار کی بند کھڑکی کی طرف اشارہ کیا اور دروازےسےنکل گیا۔
    لڑکی خاموش کھڑی کتنی ہی دیر تک خالی دروازےکو گھورتی رہی۔ اس کےدل و دماغ میں ایک جنگ سی جاری تھی۔ حافظ عبداللہ کی باتیں اور اب تک کا رویہ اسےقائل کر رہا تھا کہ وہ اس پر اعتبار کر لےجبکہ ایک جوان مرد کےساتھ ‘ اس جگہ رات بھر رہنےکا فیصلہ کرنا اس کےلئےبڑا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ جہاں دو جوان جسم موجود ہوں ‘ وہاں شیطان کو آتےدیر نہیں لگتی ۔ اور وہ ایسی طاقتور بھی نہیں تھی کہ شیطان اور حافظ عبداللہ کا تنہا مقابلہ کر سکتی۔
    اس نےسر جھکا لیا اور ایک ایک کر کےحافظ عبداللہ کی باتوں پر غور کرنےلگی۔ اس کی کسی بات میں کوئی ول چھل نہ تھا۔ اس کی نگاہوں میں اسےاپنےلئےکوئی ایسا تاثر نہ ملا تھا جس سےیہ ظاہر ہوتا کہ وہ اس کےلئےخطرہ ہے۔ اگر وہ اس کےساتھ کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنا چاہتا تو وہ بقول حافظ عبداللہ کی‘ شام سےاس کےپاس اس کمرےمیں بیہوش پڑی تھی۔ اس دوران اسےروکنےوالا کون تھا مگر وہ محفوظ رہی۔ اور اب تو وہ جاگ رہی تھی۔ پورےہوش و حواس میں تھی۔ اب وہ کم از کم اس کےکسی اقدام کےخلاف مدافعت تو کر ہی سکتی تھی۔
    سوچ سوچ کر اس کا دماغ درد کرنےلگا۔ بدن میں تھکاوٹ سی در آئی تو اس نےخود کو اللہ کے آسرےپر موجودہ صورتحال کےسپرد کرنےکا ارادہ کر لیا۔
    سر اٹھا کر اس نےکھلےدروازےکی جانب دیکھا۔ پھر اندر سےکنڈی لگانےکےخیال سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی چلی۔چراغ کےقریب سےگزرنےپر اس کی لو تھرتھرائی ۔
    وہ دروازےکےقریب پہنچی تو ایک خیال کےتحت ایک پل کو رکی۔ پھر دبےپائوں باہر نکل آئی۔ ساتھ والےکمرےکےدروازےکےپاس ٹھہر کر اس نےذرا سی گردن آگےنکالی اور بھڑےہوئےدروازےمیں سےاندر جھانکا۔
    حافظ عبداللہ کی پشت کمرےکےدروازےکی جانب تھی اور وہ کھیس کی بکل مارےچٹائی پر بیٹھا تھا۔ قر آن پاک اس کے آگےرحل پر کھلا دھرا تھا۔ چراغ اس نےاپنےدائیں ہاتھ اینٹوں کی ایک ڈھیری پر رکھ چھوڑا تھا تاکہ اس کی روشنی قر آن پاک پر پڑتی رہی۔ وہ سر جھکائےہولےہولے آگےپیچھےہل رہا تھا۔
    غور سےسنا تو لڑکی کےکانوں میں قر آن پاک پڑھنےکی ہلکی سی آواز کسی خوشخبری کی طرح اترتی چلی گئی۔سکون اور اطمینان نےاس کےحواس پرتسلی کی چادر تان دی۔
    چند لمحےوہاں کھڑا رہنےکےبعد اس نےگردن پیچھےکھینچ لی۔ خاموش قدموں سےکمرےمیں لوٹی۔ دروازہ بند کیا تو اس کا دل ایک بار پھر زور سےدھڑکا۔یہ دیکھ کر کہ دروازےکےاند کی جانب کنڈی کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ لگتا تھا بہت دیر پہلےوہ ٹوٹی اور دوبارہ کسی نےاسےلگانےکی کوشش ہی نہ کی۔
    خشک ہوتےہونٹوں پرزبان پھیرتےہوئےاس نےخود کو سنبھالا۔ دروازےکو اچھی طرح بند کیا مگر جب کنڈی ہی نہ تھی تو وہ بند رہتا یا کھلا‘ ایک برابر تھا۔
    کچھ سوچ کر وہ کھڑکی کےقریب آئی۔ کھڑکی بند ضرور تھی مگر اس میں بھی کوئی کنڈی یا چٹخنی موجود نہ تھی۔ شاید دوسرےکمرےکی طرف ہو گی۔ ایک بار پھر غیر محفوظ ہونےکا خیال اندھیرےکی دبیز چادر کی طرح اس کےدماغ پر پھیلا۔ بےاختیار اس کا سر کھڑکی سےجا لگا۔ اسےچکر سا آ گیامگر دوسرےہی لمحےاس کےسارےاندیشےبند کھڑکی کی دوسری طرف سے آتی حافظ عبداللہ کی تلاوت کی آواز پر قربان ہو گئے۔ اس کا جی چاہا وہ اس آواز کو سنتی رہےجو اس کےجسم و جان میں عجب سکون بھری سرگوشیاں کر رہی تھی۔ اسےاپنےاللہ پر بھروسےکا سبق دےرہی تھی۔اسےبتا رہی تھی کہ وہ وہاں اکیلی نہیں ہے۔ بقول حافظ عبداللہ کے‘ وہاں اس کا خالق و مالک موجود ہے۔ اور وہ تو ہر جگہ موجود ہے‘ بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔
    اس خیال کا آنا تھا کہ اس کےجسم میں ایک طاقت عود کر آئی۔یقین ‘ بھروسےاور اعتبار کی طاقت۔ اس نےجھکا ہوا سراٹھایا ۔ چند لمحوں تک بند کھڑکی کو گھورتی رہی۔ پھر دھیرےدھیرےقدم اٹھاتی چارپائی کےپاس آ گئی۔
    چنگیر پر نظر پڑی تو بھوک جاگ اٹھی۔ وہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کمبل کےپلو کھولے۔ اسےاپنےشانوں پر دائیں بائیں پھیلایا۔ چنگیر اٹھا کر گود میں رکھی۔ رومال کی تہہ کھولی تو اندر مکئی کی دو روٹیوںپر سرسوں کا ساگ دیکھ کر پیٹ میں اینٹھن سی ہوئی۔ ایک نظر بند دروازےاور کھڑکی پر ڈالی‘ پھر اس کا ہاتھ بےاختیار روٹی کی طرف بڑھ گیا۔
    ٭
    طاہر حویلی واپس آیا تو رات کےساڑھےنو بج رہےتھے۔
    حویلی کےاندر اور باہر سکوت طاری تھا۔ ملازموں میں سےکچھ جاگ رہےتھے‘ زیادہ تر سونےکےلئےجا چکےتھے۔ ملک اس سےرخصت ہوا تو طاہراندر چلا۔ اس کا رخ لیڈیز ڈرائنگ روم کی جانب تھا۔
    ”چھوٹےمالک۔“ اچانک ایک آواز نےاسےکاریڈور میں روک لیا۔ اس نےپلٹ کر دیکھا۔ حویلی کی ایک ملازمہ فہمیدہ اس کی طرف سر جھکائےچلی آ رہی تھی۔
    ”مالکن آپ کےکمرےمیں ہیں۔ “ فہمیدہ نےاس کےقریب آ کر ادب سےکہا ۔
    ”اچھا۔ “ اس نےموبائل جیب میں ڈالتےہوئےکہا اور اس کےپیچھےچل پڑا۔ کاریڈور سےبائیں مڑتےہی پہلا کمرہ اس کا تھا‘ جو اس کی عدم موجودگی میں شاذہی کھلتا تھا۔ فہمیدہ دروازےپر رک گئی۔
    ”کھانا لگا دوں چھوٹےمالک؟“ اس نےپوچھا۔
    ”تمہاری مالکن نےکھا لیا؟“ اس نےکھلےدروازےمیں قدم رکھا۔
    ”جی نہیں۔ آپ کےانتظار میں تھیں۔“
    ”تو کھانا یہیں لے آئو۔“
    ”جی بہتر۔“ وہ لوٹ گئی۔
    طاہر اندر داخل ہوا تو یہ دیکھ کر اسےکوئی حیرت نہ ہوئی کہ ابھی تک صفیہ کو چند عورتیں گھیرےبیٹھی تھیں۔اسے آتا دیکھ کر وہ کپڑےسنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ پھر اسےباری باری سلام کرکےوہ کمرےسےنکل گئیں۔ آخر میں ایک نوجوان لڑکی اٹھی تو صفیہ نےاسےروک لیا۔
    ”تم رکو۔“
    ”جی۔“ لڑکی نےگھبرا کر طاہر کی جانب دیکھا۔
    ”بیٹھ جائو۔“ صفیہ نےنرمی سےاس کا ہاتھ تھام کر دوبارہ قالین پر رکھےکشن پر بٹھا دیا۔ خود بھی و ہ بیڈسےٹیک لگائےایک کشن پر شال اوڑھےبیٹھی تھی۔ کمرہ ایر کنڈیشنڈ ہونےکےباعث سردی کےاثرات سےمبرا تھا۔
    ”کیا بات ہے؟“ طاہر نےایک نظر سر جھکائےبیٹھتی لڑکی کی جانب اور پھر سوالیہ انداز میں صفیہ کو دیکھا۔
    ” آپ نےکھانا کھا لیا؟“ اس کا سوال گول کرتےہوئےوہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
    ”نہیں۔ فہمیدہ یہیں لا رہی ہے۔“ وہ گرم واسکٹ اتارتےہوئےبولا۔
    صفیہ نےاس کی واسکٹ تھام ایک طرف ڈال دی۔وہ بیڈ کی پٹی پر ٹک گیا۔ صفیہ نےہاتھ بڑھائےکہ اس کےپائوں سےزرتار کھسہ نکال دے۔
    ”کیا کر رہی ہو؟“ طاہر نےاس کا ہاتھ تھام لئی۔
    ”اوں ہوں۔“ صفیہ نے آنکھ کےاشارےسےاسےلڑکی کےکمرےمیں ہونےکا احساس دلایا اور ہاتھ اس کےکھسےپر ڈال دیے۔وہ ایک طویل سانس لےکر رہ گیا۔ صفیہ اس کی کسی بات کا برا نہ مانتی تھی مگر کرتی وہی تھی جو اسےطاہر کےبارےمیں اچھا لگتا تھا۔ کھسےکےبعداس نےطاہر کی جرابیں اتاریںاور چپل آگےکر دی۔
    ” آپ منہ ہاتھ دھو لیں۔ اتنی دیر میں کھانا لگ جائےگا۔“
    ”تم نےتو کھا لیا ہوتا۔ خواہ مخواہ آدھی رات تک بھوکی بیٹھی ہو۔“ وہ اٹھتےہوئےبولا۔
    ”پہلےکبھی کھایا ہےجو آج آپ سےپہلےکھا لیتی۔“ صفیہ نےمسکرا کر ہولےسےکہا۔ وہ خاموشی سےاٹیچ باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
    ”چھوٹی بی بی۔“ لڑکی نےاٹھنا چاہا۔”مجھےجانےدیجئی۔ چھوٹےمالک کےسامنےمیں۔۔۔“
    ”خاموشی سےبیٹھی رہو۔“ صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔
    ”بی بی۔ دس بجنےکو ہیں۔“ اس نےدیوار گیر کلاک کی طرف نگاہ اٹھائی۔”گھر والےمیرا انتظار کر رہےہوں گے۔“
    ”انہیں میں نےفہمیدہ کےہاتھ پیغام بھجوا دیا تھا کہ تم میرےپاس ہو۔ دیر سےلوٹو گی۔“
    اب شاید اس کےپاس کوئی بہانہ نہ رہا۔ ہونٹ کاٹتےہوئےوہ واپس کشن پر ٹک گئی مگر انداز ایسا تھا کہ بس صفیہ کی نظر چوکتےہی بھاگ لےگی۔
    جتنی دیر میں طاہر ہاتھ منہ دھو کر نکلا‘ فہمیدہ نےکمرےکےایک گوشےمیں موجود ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا دیا۔
    ”کھانا کھائو گی؟“ صفیہ نےاٹھتےہوئےپوچھا۔
    ”جی نہیں۔“ وہ گھبرا کر بولی تو صفیہ بےاختیار مسکرا دی۔ اس نےاصرار نہ کیا اور طاہر کےساتھ کھانےکی میز پر جابیٹھی۔ صفیہ سمجھ گئی کہ طاہر سےحجاب اور شرم نےاس کا برا حال کر رکھا ہے۔
    ”کیا بات ہے؟ یہ لڑکی کون ہے؟“ طاہر نےنیپکن ڈالتےہوئےپوچھا۔
    ”کھانا خاموشی سےکھانا چاہئے۔“ صفیہ نےاس کی پلیٹ میں سالن نکالتےہوئےکہا۔
    طاہر نےاس کےبعد کوئی بات نہ کی۔ دونوں نےخاموشی سےکھانا کھایا۔ فہمیدہ برتن لےگئی۔ وہ طاہر کو ساتھ لئےواپس اس جگہ آ گئی جہاں وہ لڑکی ابھی تک سر جھکائےکسی سوچ میں گم بیٹھی اپنےناخنوں سےقالین کرید رہی تھی۔ سر پر اس نےدوپٹہ اس طرح لےرکھا تھا کہ طاہر اس کےچہرےکےخد و خال بمشکل دیکھ پایا۔ وہ بیحد سادہ سےنقوش کی مالک تھی‘ مگر چہرےسےشرافت نمایاں تھی۔
    ”ہاں ۔ اب بولو۔“ طاہر نےان دونوں سےکچھ پرےایک کشن پر براجمان ہوتےہوئےکہا۔
    ”میں نے آپ کو جو فون کیا تھاوہ اسی کےمعاملےمیں تھا۔“ صفیہ نےلڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کا سریہ سن کر کچھ اور جھک گیا۔ اضطراب کی حالت میں وہ اپنی انگلیاں مروڑنےلگی۔”یہ آپ کےگائوں کےایک عزت دار شخص ماسٹر محسن کی بیٹی زبیدہ ہے۔“
    ”زبیدہ۔“ایک دم طاہر چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔
    ”کیا ہوا؟“ صفیہ اس کےانداز پر حیران سی ہوئی۔
    ”کچھ نہیں۔ تم کہو‘ کیا کہہ رہی تھیں۔“ وہ زبیدہ کو غور سےدیکھ کر بولا۔
    ”میں بتا رہی تھی کہ۔۔۔“ صفیہ نےاس کی حالت پر غور کرتےہوئےکہنا شروع کیا اور اس کےچہرےپر نظریں جمائےہوئےوہ ساری بات بتائی جو طاہر چوپال میں سن چکا تھا۔ اس دوران زبیدہ مسلسل اضطراب کےعالم میں ہونٹ کاٹتی رہی۔ انگلیاں مروڑتی رہی اور پہلو بدلتی رہی۔ اس کا سر ایک بار بھی نہ اٹھا۔ طاہر کبھی کبھار اس پر نظر ڈال لیتا اور بس۔ اس نےساری توجہ صفیہ کی آواز پر مرکوز رکھی۔
    ”اب صورتحال یہ ہےکہ زبیدہ کو اس کےوالد ماسٹر محسن مستقل طور پر اس کےننھیال بھجوانےکی تیاری کر رہےہیں ۔ ان کا فیصلہ ہےکہ شادی تک یہ وہیں رہےگی اور شادی اگر نثار سےنہیں ہو گی تو عادل سےبھی نہیں ہو گی۔ کس سےہو گی؟ یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم۔“
    صفیہ نےجیسےبات ختم کر دی۔
    ”ہوں۔“ طاہر نےایک طویل ہنکارا بھرا۔ ایک بار زبیدہ کی جانب دیکھا جو شاید رو رہی تھی۔
    ” اری۔“ صفیہ نےاس کی طرف توجہ کی اور اسےکھینچ کر ساتھ لگا لیا۔ ”پگلی۔ رو کیوں رہی ہے؟ طاہر ہیں ناں۔ سب ٹھیک کرلیں گے۔“
    زبیدہ سسک پڑی۔ اس کے آنسو ‘ ہچکیوں میں ڈوب گئی۔ صفیہ اس کا شانہ تھپک رہی تھی مگر اس کی تسلی زبیدہ کو اور بےکل کر رہی تھی۔
    ”چھوٹی بی بی۔“ اس کی سرگوشی کراہ سی بن گئی۔ ”میرےابو نےمجھےکبھی سخت نگاہ سےنہیں دیکھا‘ مگر اس بات پر انہوں نےمجھےاس طرح مارا کہ۔۔۔“ وہ بات پوری نہ کر سکی اور دوپٹےمیں منہ چھپاکر بلکنےلگی۔
    ”ماں باپ اگر سختی کریں تو اس پر دل برا نہیں کیا کرتےزبیدہ۔“ طاہر کی آواز میں سرزنش تھی۔ زبیدہ اس کی آواز پر ایک دم سُن سی ہو گئی۔ ”جس باپ نے آج سےپہلےتمہیں پھول نہیں مارا ‘ ذرا سوچو کہ اسےکتنی تکلیف ہوئی ہو گی تمہاری کسی بات سےجو وہ تم پر ہاتھ اٹھانےپر مجبور ہو گیا۔“
    صفیہ نےطاہر کی بات پر کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا۔ بس زبیدہ کو بازو کےحلقےمیں لئےاس کا شانہ تھپکتی رہی‘ جو بالکل ساکت ہو گئی تھی۔ لگتا تھا اس کےجسم میں جان ہی نہیں رہی۔ آنسو ‘ سسکیاں‘ ہچکیاں سب تھم گئی تھیں۔
    ” میں بزرگوں کےلئےبھی گائوں کا بڑا صرف اس لئےہوں کہ اپنےوالد کےبعد میں نےان کی جگہ بیٹھ کر یہاں کےلوگوں کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھا۔ میں ان کےدُکھ سُکھ کا ساجھی ہوں ۔ میں وہاں چوپال میں ابھی تمہارا ہی قضیہ نمٹا کر آ رہا ہوں۔“
    ”کیا مطلب؟“ صفیہ چونکی تو زبیدہ بھی سیدھی ہو بیٹھی۔ اس نےپلو سے آنکھیں خشک کیں اور دوپٹہ سر پر ٹھیک طرح سےلےلیا۔ طاہر نےدیکھا ‘ رونےسےاس کا چہرہ نکھر سا آیا تھا۔ متورم آنکھوں نےاس کی سادگی کو سجا دیا تھا۔ وہ سر جھکائےخاموش بیٹھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر پھڑکتےہونٹوں سے آواز نہ نکل رہی تھی۔
    ”کیا ہوا وہاں؟ مجھےبھی تو بتائیے۔“ صفیہ پوری طرح طاہر کی طرف متوجہ ہوگئی۔یوں اس نےزبیدہ کی مشکل آسان کر دی۔ اس کےکان طاہر کی آواز پر لگ گئی۔
    ”پہلےزبیدہ سےیہ پوچھو کیا واقعی یہ عادل کو پسند کرتی ہے؟“ طاہر نےدھیرےسےکہا۔
    ”نہیں۔ ان دونوں کی آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔ “ صفیہ نےجواب دیا۔ ”زبیدہ مجھےسب بتا چکی ہے۔“
    ”تو پھر اس نےکیسےعادل کےلئےماسٹر صاحب کےسامنےزبان کھول دی؟“ طاہر حیرت سےبولا۔
    ”یہ ایک اتفاق ہےطاہر‘ جس سےزبیدہ نےفائدہ اٹھانا چاہا۔ ہوا یہ کہ جب نثار کےرشتےسےزبیدہ نےانکارکیا تواسی وقفےمیں اسےاپنی ایک سہیلی سےپتہ چلا کہ عادل کےماں باپ اس کےلئےزبیدہ کا رشتہ مانگنےان کےگھر آنےوالےہیں۔ زبیدہ نےنثار سےجان چھڑانےکےلئےماسٹر صاحب سےکہہ دیا کہ وہ عادل کو پسند کرتی ہی۔ ماسٹر صاحب سہہ نہ سکےکہ ان کی بیٹی اس معاملےمیں ایسی بات زبان پر لائے۔ انہوں نےزبیدہ کو پیٹ ڈالا۔ غضب یہ ہوا کہ اس سےدوہی دن بعد عادل کےوالدین زبیدہ کےرشتےکےلئے آن پہنچے۔ بس‘ یہ اتفاق ماسٹر صاحب کو یقین دلانےکےلئےکافی تھا کہ زبیدہ اور عادل ایک دوسرےسےملتےہیں۔ ایک عزت دار باپ کےلئےیہ بات کسی گالی سےکم نہیں تھی۔ وہ اپنا ذی علم ہونا تو بھول گئے۔ صرف یہ یاد رہا کہ بیٹی نےان کےاعتماد کو دھوکہ دیاہے۔ اور یہ بات ایسی ناقابل برداشت تھی کہ وہ زبیدہ پر ہاتھ اٹھا بیٹھے۔“
    ”بس بس۔ میں سمجھ گیا۔“ طاہر کےہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنےلگی۔ ”اس مانو بلی نےاپنی جان تو چھڑا لی مگر باپ کو جو اذیت دی اس کا کیا ؟“
    مانو بلی کا خطاب پا کرجہاں زبیدہ شرمائی وہیں ماسٹر صاحب کی تکلیف کا خیال آنےپر آبدیدہ ہو گئی۔
    ”میں ۔۔۔ میں۔۔۔ ابو سےمعافی مانگ لوں گی۔“ اس کےہونٹ پھڑکےاور بےاختیار وہ سسک پڑی۔” میں نثار سےشادی کروں گی۔ نہیں چاہئےمجھےایساسُکھ جو ابو کو دُکھ دےکر ملے۔“
    ”یہ بات تو تمہیں پہلےسوچنا چاہئےتھی زبیدہ۔ اب تو ایسا نہیں ہو سکتا۔“طاہر نےسپاٹ لہجےمیں کہا۔
    ”کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیا ابو مجھ سےاتنےناراض ہیں کہ معاف بھی نہیں کریں گے۔“ وہ بلک کر بولی۔
    ”نہیں ۔ اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔“ طاہر لاپروائی سےبولا اور صفیہ نےصاف دیکھا کہ وہ اپنی مسکراہٹ دبا رہا ہے۔ ایک پل میں ساری بات اس پر روشن ہو گئی۔ اسےلگا کہ طاہر کو روتی ہوئی زبیدہ پر لاڈ آ رہا ہے۔ وہ بلکتی ہوئی اسےاچھی لگ رہی ہےاور وہ اسےمحض تنگ کر رہا ہے۔
    ”طاہر۔“ زبیدہ کو ایک بار پھر ساتھ لگاتےہوئےصفیہ نےطاہر کی جانب نگاہ کی۔ ”کیا بات ہی؟ سچ سچ بتائیے۔“
    ”کیا سچ سچ بتائوں؟“ طاہر بھولپن سےمنہ بنا کر بولا۔”کیا یہ بتائوں کہ ماسٹر صاحب نےزبیدہ کی شادی ۔۔۔“ ایک پل کو وہ رکا۔ سر جھکائے آنسو بہاتی زبیدہ کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ ”عادل کےساتھ طےکر دی ہے۔ “
    ”کیا؟“ ایک جھٹکےسےزبیدہ نےسر اٹھایا اور بےیقینی سےطاہر کی جانب دیکھنےلگی۔
    ”ہوں۔۔۔“ صفیہ نےمعنی خیز انداز میں سر ہلایا۔ ”تو میرا شک درست تھا۔“ اس نےطاہر کو گھور کر دیکھا۔ ” آپ خواہ مخواہ بچی کو اب تک رلا رہےتھے۔“
    ”چھوٹی بی بی۔“ زبیدہ نےاس کی جانب بےاعتباری سےدیکھا۔ ” کیا ۔۔۔ کیا یہ سچ ہے؟“
    ”سولہ آنےسچ ہےزبیدہ۔“ طاہر کو محبت پاش نظروں سےدیکھتےہوئےیقین سےسرشار لہجےمیں صفیہ نےکہا۔ ”تمہارےچھوٹےمالک کو جھوٹ بولنا آتا ہی نہیں۔ ورنہ میں اتنی آسانی سےانہیں نہ پکڑ پاتی۔ میں تو ان کےبات کرنےکےانداز سےسمجھ گئی تھی کہ یہ تمہارےرونےکا مزہ لےرہےہیں۔ “
    اور زبیدہ نےصفیہ کی بغل میں چہرہ چھپا لیا۔وہ ایک بار پھر رو دی مگر یہ آنسو خوشی کےتھے۔ تشکر کےتھے۔
    ”کیا ہوا چوپال میں؟مجھےسب کچھ تفصیل سےبتائیے۔“ صفیہ نےزبیدہ کا شانہ تھپک کر اسےخود سےالگ کیا ۔
    جواب میں طاہر نےانہیں چوپال میں ہونےوالی ساری بات سنا دی۔ وہ خاموش ہوا تو زبیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
    ”چھوٹی بی بی۔ اب مجھےجانےدیجئے۔ بہت دیر ہو گئی۔“ اس نےکلاک پر نظر دوڑائی جس پر رات کےگیارہ بجنےوالےتھے۔
    ”ارے۔“ صفیہ نےوقت دیکھا تو حیرت سےبولی۔ ” پتہ ہی نہ چلا وقت گزرنےکا۔ واقعی اب تمہیں جانا چاہئے۔ “ وہ بھی اٹھ گئی۔ ”فہمیدہ کو بلائو۔ “
    ”بیل دےدو۔“ طاہر نےبیڈ سوئچ کی طرف اشارہ کیا۔
    صفیہ سر ہلا کر آگےبڑھی اور وہ بیڈ سوئچ دبا دیا‘ جس کےنیچےبیل کا نشان بنا تھا۔ دور کہیں گھنٹی کی آواز ابھری۔ چند لمحوں کےبعد فہمیدہ کمرےمیں آ پہنچی۔
    ”فہمیدہ۔ کسی ملازم سےکہو زبیدہ کو اس کےگھر چھوڑ آئے۔“ صفیہ نےکہا۔
    ”اس کا بھائی کتنی دیر سے آیا بیٹھا ہےجی۔ اسےلےجانےکےلئے۔“
    ”ارے۔ تو تم نےبتایا کیوں نہیں؟“ صفیہ نےتیزی سےکہا۔ طاہر کو بھی یہ بات اچھی نہ لگی۔وہ بھی اپنی جگہ سےاٹھ گیا۔
    ”اس نےمنع کر دیا تھا جی۔“ فہمیدہ بولی۔ ” اس کا کہنا تھا کہ جب چھوٹی بی بی اجازت دیں گی تب وہ زبیدہ کو لےجائےگا۔ اتنی دیر وہ مردانےمیں انتظار کرےگا۔“
    ”پھر بھی۔“ صفیہ کو پشیمانی سی ہو رہی تھی۔
    ”محسوس نہ کرو۔“ طاہر نےنام لئےبغیر صفیہ کو تسلی دینےکےانداز میں کہا۔ ” یہ ان لوگوں کی محبت کی ایک جھلک ہی‘ جو یہ ہم سےکرتےہیں۔اس کا مزہ لو۔ پشیمان ہو کر اس کی لذت کو گرہن نہ لگائو۔“
    صفیہ نےنظر اٹھا کر طاہر کی جانب دیکھا۔ اس کی نظر میں کچھ ایسا تھا کہ طاہر نےاس سےنظریں چرا لیں۔ مسکرا کر صفیہ نےزبیدہ کی طرف دیکھا۔ پھر اسےسر کےاشارےسےجانےکی اجازت دےدی۔
    زبیدہ نے آہستہ سےصفیہ کا دایاں ہاتھ تھاما اور سر جھکا کر پہلےچوما۔پھر ماتھےسےلگالیا۔ صفیہ نےاس کا سر تھپکا ۔ وہ صفیہ کا ہاتھ چھوڑ کرپلٹی اور دھیرےدھیرےچلتی ہوئی طاہر کےسامنے آ کھڑی ہوئی۔ سر جھکائی۔ پلو سر پر ڈالی۔
    طاہر چند لمحےاسےپیار بھری نظروں سےدیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
    ”جائو۔“ آہستہ سےاس نےکہا۔” بس یہ یاد رکھنا کہ ماں باپ کبھی اولاد کا بُرا نہیں چاہتی۔ مجھےخوشی ہےکہ تم نےماسٹر صاحب کےبھروسےمیں نقب نہیں لگائی۔ اچھی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔“ طاہر کا ہاتھ اس کےسر پر آ گیا۔ ” خوش رہنا۔ اور اسےبھی خوش رکھنا جس نےتمہارےجھوٹ پر اپنی خاموشی کا پردہ ڈال کر اتنی ہی بدنامی سہی‘ جتنی تمہارےحصےمیں آئی۔ نصیبوں والی ہو کہ ایسا بَر خدا نےتمہاری جھولی میں ڈال دیا۔ جائو۔“
    طاہر نےتھپکی دےکر ہاتھ اس کےسر سےہٹا لیا۔ زبیدہ نےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا تھا۔ نمی اس کی آنکھوں سےابلنےکو تھی مگراس نےخود پر قابو پائےرکھا۔ پھر ایک دم جھکی۔اس سےپہلےکہ وہ اسےروکتا اس نےطاہر کےدونوں پائوں ہاتھوں کی انگلیوں سےچھوئےاور انگلیاں چومتی ہوئی سیدھی ہو گئی۔طاہر محض ”ارےارے“ کر کےرہ گیا‘ تب تک زبیدہ کمرےسےجا چکی تھی۔
    ”اوں ہوں۔۔۔“ صفیہ نےایک قدم آگےبڑھ کر اس کےہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔” یہ احترام اور محبت کا اظہار ہےطاہر۔ اس کا مزہ لیجئے۔ “ مسکرا کر صفیہ نےکہا۔
    طاہر کی آنکھوں میں اس کےلئےایک رنگ سا لہرایا‘ جسےصفیہ کی نظروں نےاپنےدامن میں لپک لیا۔اس نےانگلی طاہر کےہونٹوں سےہٹاکر چوم لی۔ آہستہ سےپلٹی اور دونوں ہاتھ سینےپر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا سانس ایک دم بوجھل سا ہو گیا۔ نظرسےوہ رنگ دل میں اتر رہا تھا‘ جو اس نےطاہر کی آنکھوں میں اپنےنام کھلتا ہوا پایا تھا۔ یہ کیسا احساس تھا؟ کیسی لذت تھی؟ کیسی سرشاری تھی جس نےاس کی روح کو ہلکا اور جسم کو ایسا وزنی کر دیا تھا کہ اس سےقدم اٹھائےنہ اٹھ رہےتھی۔ بمشکل وہ دو قدم چلی اور یوں بستر پر گر پڑی جیسےپھولوں سےلدی ڈال اپنی ہی خوشبو کا بوجھ نہ سہار سکی ہو۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    چلو شکر ہے طاہر صاحب بھی کچھ عقل کو ہاتھ مارنا شروع ہوگئے ہیں۔

    اب حافظ صاحب کا قصہ باقی ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں