1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 5

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏11 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی​


    صفیہ نےطاہر کی دلہن کےروپ میں ” سلطان وِلا“ میں قدم رکھا تواسےطاہر کےساتھ دیکھ کر بیگم صاحبہ کےہونٹوں پر سُکھ بھری مسکراہٹ نےجنم لیا۔
    امبر کےساتھ دوسری لڑکیاں اپنےگھیرےمیں اسےاور طاہر کو بقعہ نور بنےہال کےدرمیان کھڑی بیگم صاحبہ تک لے آئیں۔ بیگم صاحبہ نےانہیں خود سےدو قدم کےفاصلےپر ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
    ”ذرا رک جائو بہو۔“ ان کا تخاطب صفیہ سےتھا جو سرخ جوڑےمیں ملبوس ‘ زیورات اور پھولوں میں لدی چہرےپر گھونگھٹ ڈالےفرش کی جانب دیکھ رہی تھی۔ بیگم صاحبہ کی آواز پر اس نےدھیرےسےاوپر دیکھا۔ وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
    ”ہماری طرف دیکھو۔“ انہوں نےبڑی محبت سےکہا۔
    صفیہ نےسمجھ میں کچھ نہ آنےکےسےانداز میں ان کی جانب دیکھا۔
    ”ہم تمہیں تمہارا حق دینا چاہتےہیں بہو۔ “ بیگم صاحبہ نےاس کا دایاں ہاتھ تھام کر اوپر اٹھایا اور اس میں ایک گفٹ پیک جیسا لفافہ تھما دیا۔صفیہ نےلفافہ تھام لیا مگر وہ اب بھی الجھی ہوئی نظروں سےانہیں دیکھ رہی تھی۔
    ”یہ تمہاری منہ دکھائی ہے۔ ہم نےاپنی میکےکی ساری جائداد تمہارےنام کر دی ہے۔“
    صفیہ کا ہاتھ لرز گیا۔ اس نےگھبرا کر دائیں ہاتھ کھڑےطاہر کی طرف دیکھا جو پہلےحیران ہوا پھر ایک دم مسکرا دیا۔اس کےمسکرانےسےصفیہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
    ”اب آئو۔ ہمارےسینےمیں ٹھنڈک ڈال دو۔“ انہوں نےبازو وَا کر دیے۔
    صفیہ بےاختیار آگےبڑھی اور ان کےسینےسےلگ گئی۔ اسی وقت ہال تالیوں کےشور سےگونج اٹھا۔ وہاں موجود ہر شخص اس اچانک نمودار ہو جانےوالی خوشی میں خود کو شریک ثابت کر رہا تھا جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ہونٹوں پر بڑی آسودہ مسکراہٹ لئےپروفیسر قمر کا ہاتھ اپنےدونوں ہاتھوں سےدبا رہےتھے۔
    ”امبر۔ دلہن کو اوپر لےجائو بیٹی۔“ کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ نےصفیہ کو خود سےالگ کیا۔ امبر ‘ دوسری خواتین کےساتھ صفیہ کو لئےہوئے آہستہ قدموں کےساتھ سرخ قالین میں لپٹی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی ۔
    طاہر نےزربفت کی شیروانی اور سر سےکلاہ اتار کرملازم کےحوالےکیا اور ایزی ہو کر اپنے آفس کےلوگوں میں آ بیٹھا ۔ یہی اس کےدوست تھے۔ یہی اس کےساتھی۔ اس نےجمال کی موت کےبعد کسی کو اپنی دوستی کےدائرےمیں داخل ہونےکی اجازت ہی نہ دی تھی۔ اس وقت بھی اسےجمال بےطرح یاد آ رہا تھا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو اس کی شادی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔ سینےمیں جلن دیتےاس کےخیال سےراہ ِفرار اختیار کرتےہوئےوہ نجانےکس دل سےہنس رہا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد وہ موجودہ صورتحال میں جذب ہوتا چلا گیا۔
    ہنگامہ فرو ہوتےہوتےرات کےگیارہ بج گئے۔ سب لوگ رخصت ہو گئے۔ گاؤں سے آئےہوئےمزارعوں اور ان کی خواتین کا انتظام گھر کےپائیں باغ میں ٹینٹوں میں کیا گیا۔ وہ سب وہاں چلےگئےاور کھانےپینےسےلطف اٹھانےلگےجس کا وسیع پیمانےپر اہتمام تھا۔
    سب سے آخر میں ڈاکٹر ہاشمی ‘ امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہوئے۔ امبر نےطاہر کو پورا ایک ماہ آفس نہ آنےکا نادر شاہی حکم سنایاجس پر بیگم صاحبہ نےتصدیق کی مہر لگا دی۔
    ”میں سب سنبھال لوں گی سر۔ آپ پورا ایک ماہ چھٹی پر ہیں اور یہ چھٹی ایکسٹینڈ بھی ہوسکتی ہے۔ نو پرابلم۔“ وہ بےنیازی سےبولی۔
    ”میں تمہارےساتھ ہوں امبر بیٹی۔ “ بیگم صاحبہ ہنسیں۔ ” اسے آفس سےجتنا دور رکھ سکتی ہو ‘ تمہیں اختیار حاصل ہے۔“
    ” آپ فکر نہ کریں بیگم صاحبہ۔“ امبر نےطاہر کی جانب دیکھا۔ ” یہ آفس میں گھسنا تو درکنار‘ کم از کم ایک ماہ تک فون بھی نہیں کر سکیں گے۔“
    ”جانےدو بھئی۔ کیوں میرا کورٹ مارشل کرنےپر تُلی ہو تم۔“ طاہر گھبرا گیا۔
    ” آپ یہی سمجھیں سر کہ آپ کا کورٹ مارشل ہو چکا ہےاور مجھےپورا یقین ہےکہ جب آپ اپنی سزا کا گھونگھٹ اٹھائیں گےتو ایک ماہ کےایک سال میں بدل جانےکی دعا کریں گے۔“
    اس پر سب لوگوں کا ملا جُلا قہقہہ گونجا۔ طاہر کو بھاگتےہی بنی۔ ڈاکٹر ہاشمی اور پروفیسر قمر سےہاتھ ملا کروہ پلٹا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
    تھوڑی دیر بعد امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہو گئےاور اب ہال میں صرف ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ رہ گئیں۔
    ”مجھےبھی اب اجازت دیجئےبیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےجانےکا ارادہ ظاہر کیا۔
    ”ہم آپ کےہمیشہ ممنون رہیں گےڈاکٹر صاحب۔“ بیگم صاحبہ نےشال کندھےپر درست کرتےہوئےکہا۔
    ”ایسا نہ کہئےبیگم صاحبہ۔ طاہر کا مجھ پر بڑا حق ہے۔“ وہ مسکرائی۔
    ”یہ آپ کا بڑا پن ہےڈاکٹر صاحب۔ اور ہم آپ کا شکریہ ادا کر کےاس بڑائی کا قد گھٹانا نہیں چاہتے۔ہاں ‘ اس وقت ہم آپ سےایک مشورہ اور کرنا چاہتےہیں۔“
    ”جی جی ۔ فرمائیے۔“ وہ جلدی سےبولے۔
    ” چاہتےہیں کہ زندگی کی سب سےبڑی تمنا پوری ہونےپر اپنےاللہ کا شکر اس کےگھر میں جا کر سجدہ ریز ہو کر ادا کریں۔“
    ”اس سےبڑی سعادت اور کیا ہو گی بیگم صاحبہ۔ آپ نےبہت اچھا سوچا۔“ ڈاکٹر ہاشمی واقعی متاثر ہوئے۔
    ”لیکن اگر ہم یہ چاہیں کہ اس متبرک سفر میں آپ بھی ہمارےساتھ چلیں تو۔۔۔“
    ”میں حاضر ہوں بیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی کےچہرےپر پھول سےکھِلے۔ شاید یہ سفر ان کےاندر کی آواز تھا۔
    ”کوئی رکاوٹ تو مانع نہیں ہے۔“ بیگم صاحبہ نےپوچھا۔
    ”رکاوٹ کیسی بیگم صاحبہ۔ سرمد لندن میں ہی۔ ہاسپٹل کون سامیرےسینگوں پر کھڑا ہے‘ اسےسنبھالنےوالےموجود ہیں۔ اور کوئی ایسی ذمہ داری ہےنہیں جو راستےکا پتھر بنے۔“
    ”تو بس۔ “بیگم صاحبہ نےجیسےفیصلہ سنا دیا۔ ” آپ انتظام کریں ۔ اگلےہفتےمیں کسی بھی دن ہم دونوں بہن بھائی عمرےکےلئےروانہ ہو جائیں گے۔“
    ”انشا ءاللہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےبےساختہ کہا۔
    پھر وہ سلام کر کےرخصت ہو گئےاور بیگم صاحبہ اپنےکمرےکی جانب بڑھ گئیں۔ ان کا رواں رواں اپنےخالق کےسامنےسجدہ ریز ہونےکو بیتاب تھا۔ کمرےمیں داخل ہو کر انہوں نےدروازہ بند کر لیا اور اس وقت اگر وہاں کوئی سننےوالا ہوتا تو سنتا کہ چند لمحوں بعد کمرےسےبھیگی بھیگی شکرانےکی صدائیں جو بلند ہوئیں تو ان کےسبب ہر طرف کیسا عاجزی اور انکساری کا دھیما دھیما نور پھیل رہا تھا۔
    ٭
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔
    پھولوں کےبستر پر گھونگھٹ نکالےصفیہ سر جھکائےبیٹھی تھی۔ طاہر اس کےپاس بستر کی پٹی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔وقت یوں دبےپائوں چل رہا تھا جیسےاسےوہم ہو کہ اس کی آہٹ ان لمحوں کو چونکا دےگی۔
    کنکھیوں سےصفیہ نےطاہر کی جانب دیکھا اور بڑےغیر محسوس انداز میں پہلو بدلا۔ اسےالجھن ہونےلگی تھی۔
    طاہر اس کےہلنےپر چونکا۔ پھر اس کےچہرےپر خجالت کے آثار نمودار ہوئے۔ وہ سوچوں میں گم تھا اور نئی نویلی دلہن اس کی کسی بھی پیشرفت کےانتظار میں سوکھ رہی تھی۔ پہلو بدل کر اس نےگھونگھٹ میں چھپےچہرےپر ایک نگاہ ڈالی اور اس کا دل سینےمیں اتھل پتھل ہونےلگا۔
    بڑا عجیب اور جاں گسل لمحہ تھا۔ اسےگھونگھٹ اٹھانا تھا۔ اپنی باقی زندگی کےساتھی کو دیکھنا تھا۔ اس سےباتیں کرنا تھیں۔ اسےکچھ بتانا تھا۔ اس سےکچھ پوچھنا تھا مگر اسےحوصلہ نہ ہو رہا تھا۔ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ سارےمراحل کیسےطےکرے؟
    پھر اسےکچھ خیال آیا اور اس کےسینےسےجیسےبوجھ سا ہٹ گیا۔ بڑوں کی بنائی ہوئی رسمیں کبھی کبھار کتنا کام آتی ہیں‘ دل ہی دل میں اسےاقرار کرنا پڑا۔
    اس نےکرتےکی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چھوٹی سی نیلی مخملیں ڈبیا نکال کر کھولی۔ اندر نیلم جڑی وائٹ گولڈ رِنگ جگمگا رہی تھی۔
    انگوٹھی نکال کر اس نےڈبیا تپائی پر ڈالی اور دھڑکتےدل کےساتھ بائیں ہاتھ سےصفیہ کا دایاں ہاتھ تھاما۔ اسےصفیہ کےہاتھ میں واضح لرزش اور ایک دم در آنےوالی تپش کا احساس ہوا۔ طاہر نےخشک لبوں پر زبان پھیری ۔
    ”امی نےتو آپ کو منہ دکھائی دےدی۔ یہ میری طرف سےرونمائی کا تحفہ ہے۔“ کہتےہوئےاس نےانگوٹھی اس کےہاتھ کی درمیانی انگلی میں پہنا دی۔
    صفیہ نےہاتھ واپس کھینچنا چاہا۔ کھینچ نہ سکی۔طاہر نےدھیرےسےاس کا ہاتھ چھوڑا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نےہاتھ دوبارہ کھڑےگھٹنوں پر رکھ لئےاور ان پر گھونگھٹ کر لیا۔ بےاختیار طاہر کو ہنسی آ گئی۔
    ” زندگی بھر گھونگھٹ میں رہنےکا ارادہ ہےکیا؟“ اس نےبےتکلفی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔
    جواب میں صفیہ کا بدن ذرا سا ہلا اور شرما کر اس نےسر اور جھکا لیا۔
    ”دیکھئی۔ اب تو ہم آپ کادیدار کرنےکا پروانہ بھی آپ کےحوالےکر چکےہیں۔ کیا اب بھی اجازت میں کوئی امر مانع ہے؟“
    ” آپ اتنےگاڑھےگاڑھےالفاظ کیوں بول رہےہیں؟“ اچانک ایک مدھر آواز نےطاہر کےکانوں میں رس گھول دیا۔
    ”اتنی خوبصورت آواز۔“ بیساختہ اس کا دل پکارا۔ ” اتنا حسین لہجہ۔“ وہ بےقرار سا ہو گیا۔
    آہستہ سےاس کےہاتھ بڑھےاور چاند سےبدلی ہٹا دی۔
    بےخودی نےطاہرکو جکڑ لیا۔ اس کی نگاہوں میں نشہ سا اترا اور سارےوجود میں پھیلتا چلا گیا۔اس کےسامنےایک انسانی چہرہ ہی تھا مگر اس پر کیسا حسن ضوفشاں تھا کہ جس نےطاہر کی رگ رگ میں مستی بھر دی۔ وہ عجب بہکےبہکےانداز میں صفیہ کےچہرےکو تکےجا رہا تھا۔ وہ اپنےگھٹنوں پر ٹھوڑی ٹکائے‘ آنکھیں بند کئےخاموش بیٹھی تھی۔ گلاب رنگ رس بھرےگداز ہونٹوں کےگوشےہولےہولےلرز رہےتھے۔ پلکیں تھرتھرا رہی تھیں اور رخسار شرم سےدہک رہےتھے۔
    ساری ہچکچاہٹیں‘ ساری بےحوصلگیاں دم توڑ گئیں۔ طاہر کی وارفتگی نےاسےبےبس کر دیا۔ اس نےچاہا کہ اس چاند چہرےکو ہاتھوں کےپیالےمیں لےکر اس کےہونٹوں کا سارا رس پی جائے۔۔۔ مگر اسی وقت صفیہ کےہاتھوں نےحرکت کی اور اس کا چہرہ دوبارہ گھونگھٹ میں چھپ گیا۔ طاہر کےبڑھتےہوئےہاتھ رک گئےاور ساتھ ہی اس کےحواس لوٹ آئے۔
    ایک گہرا سانس لےکر اس نےاپنےتپتےجسم کی ناگفتنی کیفیت پر قابو پانےکی کوشش کی۔ پھر بستر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
    ”اگر آپ مناسب سمجھیں تو تکلف کی یہ دیوار گرانےکی باہمی کوشش کی جائے۔“ ذرا دیر بعد اس نےکہا۔
    جواب میں صفیہ خاموش رہی۔ ہوں نہ ہاں۔ طاہر نےچند لمحےانتظار کیا۔
    ”اس کےلئےضروری ہےکہ سب سےپہلے آپ یہ بدلی اپنےچاند چہرےسےہٹا دیں۔“ وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھتےہوئےبولا۔
    ”پہلے آپ یہ مشکل مشکل الفاظ بولنا بند کریں۔“ صفیہ نےاپنی مست آواز سےطاہر کو پھر گرما دیا۔ساتھ ہی جیسےوہ ہولےسےہنسی۔ طاہر کےلبوں پر بھی مسکراہٹ ابھر آئی۔
    ”میں نےکوئی مشکل لفظ نہیں بولا۔ صرف آپ کےحسن کی تعریف کی ہے۔“ طاہر نےبےتکلفی کی جانب چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر صفیہ کا گھونگھٹ الٹ دیا۔
    صفیہ اس اچانک حملےسےبےخبر تھی‘ اس لئےکچھ کر نہ سکی اور اس کی نظر سیدھی طاہر کےچہرےپر جاپڑی۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور چند لمحوں کےلئےوہ ایک دوسرےمیں کھو کر رہ گئی۔ پھر صفیہ نےشرما کر نظر جھکا لی۔ طاہر کا دل سینےمیں مچل کر رہ گیا۔ اس کےشرمانےکا انداز اسےاور بھی دلفریب لگا۔
    ” دیکھئے۔ یہ زیادتی ہے۔“ طاہر نےشکایتی لہجےمیں کہا۔
    جواب میں صفیہ نےمسکراہٹ دباتےہوئےاسےاستفسارانہ انداز میں دیکھا۔
    ” آپ نےمنہ دکھائی دیےبغیر ہی ہمیں دیکھ لیا۔“ طاہر نےکہا توصفیہ کےچہرےپر قوسِ قزح کے لہریےپھیل گئے۔
    ” آپ بھی تو گھونگھٹ کےبغیر ہی آ بیٹھے۔“ دھیرےسےاس نےکہا اور طاہر کےہونٹوں سےایسا جاندار قہقہہ ابلا کہ صفیہ نےگھبرا کر بےاختیار دروازےکی جانب دیکھا۔ پھر دروازہ بند دیکھ کر جیسےاسےاطمینان ہو گیا۔
    ایسی ہی چند اور باتوں نےکمرےکا ماحول تکلف کی قید سے آزاد کرا لیا اور تھوڑی دیر بعد دونوں ایک دوسرےکی ہلکی پھلکی باتوں سےلطف اندوز ہو رہےتھے۔
    دیوار گیر کلاک نےرات کےدو بجنےکا اعلان کیاتو دونوں چونکے۔صفیہ نےلمحوں میں طاہر کو موہ لیا ۔وہ اس کی باتوں اور خیالات سےبہت متاثر نظر آ رہا تھا۔ کلاک نےدو بجائےتو انہیں رات کا آخری پہر شروع ہونےکا پتہ چلا۔ تبھی طاہر کو ایک دم سنجیدگی نےگھیر لیا۔ ایک بار پھر اس کا دل ‘ دماغ سےالجھنےلگا۔ اس نےبڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس خیال سےپیچھا چھڑا لےمگر گزشتہ وقت کےسائےاس کی سوچوں پر منڈلا رہےتھے۔ وہ کچھ دیر الجھا الجھا بیٹھا رہا۔ صفیہ اسےایک دم خاموش ہوتا دیکھ کر خود بھی الجھن میں پڑ گئی۔ جب نہ رہ سکی تو بول اٹھی۔
    ” آپ کسی الجھن میں ہیں طاہر؟“صفیہ کی آواز اور استفسار نےطاہر کو حواس لوٹا دیے۔ اس نےصفیہ کی جانب دیکھا اور بیچارگی سےسر ہلا دیا۔
    ”خیریت؟“ صفیہ کا دل دھڑکا۔
    ”خیریت ہی ہی۔“ وہ ہولےسےبولا۔ پھر جی کڑا کر کےاس نےصفیہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” صفیہ۔ میں تم سےایک دو خاص باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
    ”تو کیجئےناں۔اس میں الجھن یا اجازت کی کیا بات ہے۔“ وہ سنبھل کر بولی۔
    ”دیکھو صفیہ۔ “ طاہر نےاس کی آنکھوں میں جھانک کر کہنا شروع کیا۔ ” آج سےپہلےہم ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ اب اتنےانجان نہیں ہیں جتنےچند گھنٹےپہلےتھے۔ آگےایک پوری زندگی پڑی ہےجو ہمیں ساتھ ساتھ بِتانی ہے۔“ وہ رکا۔
    ”رکئےنہیں۔ کہتےرہئے۔“ صفیہ نےاسےحوصلہ دیا اور طاہر نےنظر جھکا کر کہنا شروع کیا۔
    ”کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ صرف اور صرف اعتماد کےدھاگےسےبندھا ہوتا ہےاور یہ دھاگہ اتنا مضبوط ہوتا ہےکہ اسےبڑےسےبڑاجھٹکابھی توڑ نہیں پاتا لیکن شک کا ہلکا سا احساس اس مضبوطی کو بودےپن میں تبدیل کر کےاس دھاگےکو توڑ دیتاہے۔ اس رشتےکو ہوا کا بدبو دار جھونکا بنا دیتا ہے۔ اس لئےمیں تم سےپوچھ لینا چاہتا ہوں کہ کیامجھ سےتمہاری شادی تمہاری مرضی سےہوئی ہے؟ اس بندھن میں کوئی زبردستی‘ کوئی مجبوری تو شامل نہیں ہے؟ یا یہ کہ ۔۔۔“
    ”میری زندگی میں آپ سےپہلےکوئی دوسرا مرد تو نہیں رہا۔“ صفیہ نےبات کاٹتےہوئےاس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
    طاہر نےچونک کر اس کی طرف دیکھا۔ کیسی آسانی سےصفیہ نےوہ بات کہہ دی تھی جو کہنےکےلئےوہ اب تک خود میں ہمت نہ پا رہا تھا۔تمہیدیں باندھ رہا تھا۔
    ”یہی پوچھنا چاہتےہیں ناں آپ؟“ بڑےاطمینان سےاس نےپوچھا۔
    جواب میں طاہرغیر محسوس انداز میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔
    ”اگر میں کہوں کہ میرا جواب اثبات میں ہےتو؟“ یکایک صفیہ نےجیسےطاہر کےپائوں تلےسےزمین کھینچ لی۔
    ”کیا مطلب؟“ اس کےلبوں سےفوراً نکلا۔
    ”میںنے آپ کی طرح شاعری نہیں کی طاہر۔ سیدھےسادےالفاظ میں پوچھا ہےکہ اگر میری زندگی میں آج سےپہلےتک کوئی مرد رہا ہو‘ جس کا وجود صرف اس حد تک میری آج سےپہلےکی زندگی میں رہا ہو کہ وہ مجھےاور میں اسےپسند کرتی رہی ہوں اور بس ۔۔۔لیکن کسی وجہ سےمیں اس کےبجائے آپ سےشادی کرنےپر مجبور ہو گئی اور اب میں یہ کہوں کہ آج کےبعد میری زندگی میں آپ کےسوا کوئی دوسرا مرد نہیں آئےگاتو آپ کیا کہیں گے؟“
    ”پہلےیہ کہو کہ واقعی ایسا ہےیا تم صرف فرض کر رہی ہو؟“ طاہر کی آواز بکھر سی گئی۔
    ” آپ یوں سمجھ لیں کہ میں جسےپسند کرتی تھی وہ بےوفا نکلا ۔ اس نےکسی اور سےشادی کر لی۔ اب میں آپ سےشادی کرنےمیں آزاد تھی اس لئے آپ کےعقد میں آ گئی۔ اس صورتحال میں آپ کیا کہیں گے؟“
    ”یعنی تم بھی اَن چھوئی نہیں ہو۔“ وہ تلخی سےبولا۔
    ”غلط۔“ ایک دم صفیہ ہتھےسےاکھڑ گئی۔ ”ایسا بُرا اور زہریلالفظ آپ نےزبان سےکیسےنکال دیا طاہر۔ میں نےصرف پسند کی بات کی ہے‘ تعلقات کی نہیں۔ اور آپ نےمجھےسیدھا کسی کی جھولی میں ڈال دیا۔“ اس کےلہجےمیں احتجاج تھا۔
    بات کا رخ ایسا ہو گیا کہ لگتا ہی نہ تھا کہ وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ملےہیں اور یہ ان کی سہاگ رات کےلمحات ہیں۔
    ”میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نےسمجھ لیا۔“ طاہر سنبھلا۔ ”تاہم میں یہ کہنےپر مجبور ہوں کہ اگر بات پسند کی حد تک بھی رہی ہو تو میں اسےسہنےکا حوصلہ نہیں رکھتا۔“
    ”پھر۔۔۔ “ صفیہ کےلبوں پر تمسخر ابھرا۔ ”پھر کیا کریں گے آپ‘ اگر یہ بات سچ ہی نکل آئےتو۔۔۔؟“
    ”میں۔۔۔ میں۔۔۔“ وہ گڑبڑا گیا اور بستر سےاٹھ گیا۔اس کاسانس بےقابو ہو رہا تھا۔
    ”طلاق کا لفظ لبوں سےبغیر سوچےسمجھےنہ نکالئےگاطاہر۔ یہ سوچنےپر بھی لاگو ہو جاتی ہے۔“ صفیہ نےتیزی سےکہا۔
    ”پھر میں۔۔۔ میں کیا کروں؟“ وہ اس کی طرف پلٹا تو بےبسی اس پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی۔
    ”وہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں مگر پہلے آپ میرےایک سوال کا جواب دیجئے۔“ صفیہ بھی بستر سےاتر کر اس کےقریب چلی آئی۔
    طاہر نےبجھی بجھی نظروں سےاس کی جانب دیکھا۔ دل کی دنیا ایک بار پھر تہہ و بالا ہو چکی تھی۔ بسنےسےپہلےہی وہ ایک بار پھر برباد ہو گیا تھا۔
    ”جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں آپ کا مسئلہ یہ ہےکہ آپ ایسی شریک حیات چاہتےہیں جو صرف اور صرف آپ سےمنسوب ہو۔ جس کی زندگی میں آپ سےپہلےکوئی مرد نہ آیا ہو۔ پسند کی حد تک بھی اس کےخیالوں پر کسی کا سایہ نہ پڑا ہو۔صاف صاف کہئے‘ ایسا ہی ہےناں؟“
    ”ہاں۔“ بڑی مشکل سےکہہ کر طاہر نےرخ پھیر لیا۔
    ”لیکن اس کےجواب میں آپ کی شریک حیات آپ سےبھی ایساہی مطالبہ کرنےمیں حق بجانب ہےیا نہیں؟“
    ”کیا مطلب؟“ وہ ایک جھٹکےسےاس کی طرف پلٹا۔
    ”مطلب صاف ہےطاہر۔ اگر آپ اپنےلئےایسی بیوی چاہتےہیں جس کی زندگی میں کوئی مرد تصور کی حد تک بھی دخیل نہ رہا ہو تو وہ بیوی بھی تواپنےلئےایسا ہی مرد چاہ سکتی ہےجس کی زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی لڑکی نہ داخل ہوئی ہو۔“
    طاہر کی آنکھوں میں بےیقینی کی کیفیت ابھری اور وہ صفیہ کو تکتا رہ گیا۔ اس بارےمیں تو اس نےکبھی سوچا ہی نہ تھا۔
    ”کیا آپ خود بھی ایسےہی ہیں طاہر‘ جیسا آپ مجھےدیکھنا چاہتےہیں؟“صفیہ نےاس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
    ”میری زندگی میں ۔۔۔“
    ”جھوٹ مت بولئےگا طاہر۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد کےساتھ ساتھ سچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہےاور میں کسی اور کےبارےمیں نہیں تو کم از کم زاہدہ کےبارےمیں تو جانتی ہی ہوں۔“ صفیہ نےاس کی بات کاٹ دی۔
    طاہرکےسر پر جیسےبم ساپھٹا۔ اس کےحواس مختل ہو گئے۔وہ حیرت اور خجالت بھری نظروں سےصفیہ کو دیکھتا رہ گیا‘ جو کہہ رہی تھی۔
    ”اس کےباوجود میں نے آپ سےشادی کےلئےہاں کہہ دی۔جانتےہیں کیوں؟“ وہ ہولےسےمسکرائی۔” صرف اس لئےکہ انکل ہاشمی نےمجھے آپ کےاور زاہدہ کےبارےمیں ایک ایک سچ بتا دیا تھا۔ اس میں آپ بےقصور تھے۔ اور وہ بھی۔ حالات نےجو تانا بانا بُنا اس میں آپ دونوں الجھ کر رہ گئے۔ جب الجھنوں کےبادل چھٹےتو وہ اپنی منزل پر تھی اور آپ نےتو ابھی سفر شروع ہی نہیں کیا تھا۔مجھےلگا کہ اس صورتحال میں اگر میں آپ کی ہمسفر ہو جاؤں تو آپ کی تنہائی آسان ہو جائےگی اور میرا فیصلہ مجھےکبھی پچھتاوےکی آگ سے آشنا نہیں کرےگا۔ اور اس کی بہت بڑی اور شاید ایک ہی وجہ تھی میرےپاس۔“
    ”وہ کیا؟“ بےاختیار طاہر نےپوچھا۔
    ”صرف یہ کہ ۔۔۔“ وہ پل بھر کو مسکرائی۔”میری زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی مرد کبھی داخل ہی نہیں ہو پایا۔“ وہ بڑےاطمینان سےکہہ گئی۔
    طاہر کو لگا جیسےاسےبھرےبازارمیں بےعزت کر دیا گیا ہو۔ اس کا سر جھک سکا نہ اٹھ سکا۔
    ”اس کی بھی ایک وجہ تھی۔ امی اور ابو کےبعد ممانی نےمجھےاپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور گھر سےباہر جاتےہوئےایک بات کہی کہ بیٹی‘ زندگی میں ایک دن آتا ہےجب مرد ‘ عورت کی زندگی میں کسی طوفان کی طرح داخل ہوتا ہےیا پھر بہار کےجھونکےکی طرح۔ شادی سےپہلے آنےوالا مرد اکثر طوفان کی مثل آتا ہےجو اپنےپیچھےصرف اور صرف بربادی چھوڑ جاتا ہے۔ ایسی بربادی جو اگر جسم کو پامال نہ بھی کرےتو روح پر اپنی خراشیں ضرور ڈالتی ہے۔ جسم کےزخم بھر جاتےہیں لیکن روح کےگھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتےاور اس بربادی کی یادیں عورت کو کبھی اپنےشوہر سےپوری طرح وفادار نہیں ہونےدیتیں۔ اور شوہر ‘ عورت کی زندگی میں اس بہار کےجھونکےکی طرح آتا ہےجسےجلد یا بدیر آنا ہی ہوتا ہے‘ کہ اس کےساتھ عورت کا جوڑا اس کےدنیا میں آنےسےپہلے آسمانوں پر بن چکا ہوتا ہے۔ اس جھونکےکا انتظار ذرا کٹھن ضرور ہوتا ہےمگر بیٹی۔ یہ اپنےساتھ آبادی ‘ سکون اور محبتیں لےکر آتا ہے۔ اس لئےکوشش کرنا کہ تم اس انتظار سےسانجھ پیدا کر سکو۔ میرا تم پر نہ کوئی زور ہےنہ میں تم پر نگاہ رکھوں گی۔ میں تم پر اعتماد بھی کر رہی ہوں اور تمہیں پوری آزادی بھی دےرہی ہوں کیونکہ تم جاہل ہو نہ غلام۔طوفان سے آشنائی میں تمہارا بھلا ہےیا بہار کےانتظار میں ۔ یہ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہے۔ میں اس لئےبھی یہ اعتبار کا کھیل کھیل رہی ہوں کہ مجھےاپنی تربیت کا امتحان مقصود ہے۔“
    صفیہ ذرا رکی۔ چمکتی ہوئی آنکھوں سےدم بخود کھڑےطاہر کی طرف دیکھا اور پھر گویا ہوئی۔
    ”میں نےاس بات پر زیادہ غور نہیں کیاطاہر۔ بس یہ سوچ لیاکہ جب کسی ایک مرد سےواسطہ ہونا ہی ہےتو پھر وہ میرا اپنا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی غیر کیوں ہو؟ ایسا مرد کیوں ہو جس سےدائمی بندھن باندھنےکا موسم بعد میں آئےاور طوفان کا خطرہ ہر وقت اس کےخیال کےساتھ بندھا رہے۔ میں اس سےکیوں نہ آشنائی رکھوں جس کےساتھ میرا جنم جنم کا بندھن پہلےبندھےاور جب وہ آئےتو میرےدامن میں ڈالنےکےلئےبہاریں ساتھ لےکر آئے۔ بس یہ سوچا اورمیں نےاپنی ساری توجہ صرف اپنی تعلیم پر مرکوزکر دی۔ اب اس دوران مجھےکسی نےپسندیدہ نظر سےدیکھا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی‘ بہرحال میں نےاس طرف اپنےکسی خیال کو بھی کبھی نہ جانےدیا۔مگر لگتا ہے آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔“ صفیہ کےلبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔
    طاہر تھرا کر رہ گیا۔ اسےہوش سا آ گیا۔ شرمندگی اس کےروئیں روئیں سےپسینہ بن کر ابلی پڑ رہی تھی۔ سردیوں کی رات اس کےلئےحبس کی دوپہر بن گئی تھی۔
    ”میں ۔۔۔ میں۔۔۔“ آواز طاہر کےگلےمیں درد کا گولہ بن کر پھنس گئی۔
    ”میں آپ کی مشکل آسان کر دیتی ہوں طاہر۔“ صفیہ کی مسکراہٹ کچھ اورگہری ہوگئی۔ ”کہتےہیں کہ انسان اپنی عزیز ترین شےکی جھوٹی قسم کھائےتو وہ چیز اس سےچھن جاتی ہے۔ میرا جی تو چاہ رہا ہےکہ میں آپ کی قسم کھائوں کیونکہ میں جھوٹ نہیں بول رہی لیکن آپ کو یقین دلانےکےلئےمیں اپنی جان کی قسم کھاتی ہوں کہ کسی کو بھی اپنی جان سےزیادہ پیارا کچھ نہیں ہوتا۔ میں قسم کھاتی ہوں کہ میں نےجو کہا سچ کہا‘ سچ کےسوا کچھ نہیں کہا می لارڈ۔“ اس کا دایاں ہاتھ یوں بلند ہو گیا جیسےوہ عدالت میں حلف دےرہی ہو۔ ” اگر میں نےجھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو اور صبح کا سورج مجھےزندہ ۔۔۔“
    ”بس۔۔۔ بس ۔“ طاہر نےلپک کر اس کےہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”جو منہ میں آ رہا ہے‘کہےجا رہی ہو۔ “ اس نےصفیہ کو بازوئوں میں بھرکر اپنےسینےکےساتھ بھینچ لیا۔ اس کےبالوں میں چہرہ چھپایا اور پھٹ پڑا۔ ” اک ذرا سی بات کو آتش فشاں بنا دیا ہےتم نے۔ ایک زخمی دل کامالک ہوں میں۔ اگر تم سےمرہم مانگ لیا تو کون سی قیامت آ گئی جو تم مجھےیوں بےستر کئےدےرہی ہو۔“
    ” آپ نےکم نشتر چلائےہیں کیا؟“ صفیہ کی آواز بھیگ گئی۔” اپنی عزت کو دوسرےکےساتھ منسوب کر دیا۔“
    ”میں نےایسا ہرگز نہیں کہا تھا ۔ پھر بھی مجھےمعاف کر دو۔“ اس نےاپنی گرفت اور سخت کر دی۔
    ”کبھی نہیں۔ ہر گز نہیں۔“ وہ مچل گئی۔
    ”صفو۔“ طاہر نےالتجائیہ سرگوشی کی۔
    ”ایک شرط پر۔“ وہ اس سےالگ ہوتےہوئےبولی۔
    ”کیا؟“ طاہر نےاس کےپھیلتےکاجل کو نظروں سےچوم لیا۔
    ”غدر مچانےکے آغاز میں آپ نےپوچھا تھاکہ میں کیا کروں؟“
    ”تو۔۔۔؟“ طاہر کا لہجہ سوالیہ ہو گیا۔
    ”میں نےکہا تھا کہ یہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں کہ آپ کیا کریں۔ یاد ہے؟“
    ”بالکل یاد ہے۔“
    ”تو شرط یہ ہےکہ جو میں کہوں گی آپ کریں گے۔ بولئےمنظور ہے؟“وہ شاید طاہر کا امتحان لےرہی تھی مگر طاہر اب کوئی رسک لینےکو تیار نہ تھا۔
    ” مجھےسنےبغیر ہی منظور ہے۔“ اس نےجلدی سےکہا۔
    ”نہیں۔ پہلےسن لیجئے۔ ہو سکتا ہےبعد میں آپ سوچنےپر مجبور ہو جائیں۔ “
    ”جلدی سےکہہ ڈالو‘ جو کہنا ہےتمہیں۔“ طاہر بےصبرا ہو گیا۔
    ”تو می لارڈ۔ مجھ پر ‘ اپنی شریک حیات پر‘ جس کے آپ مجازی خدا ہیں‘ اعتماد کیجئے۔ اندھا نہ سہی ‘ دیکھ بھال کر ہی سہی لیکن اعتماد ضرور کیجئےتاکہ میں اس بہار کی آمد کو محسوس کر سکوں جس کےانتظار میں ‘ جس کی امید میں مَیں نےزندگی کےبائیس برس اندھی‘ بہری بن کر گزار دیے۔“
    ”کیا مجھےزبان سےکہنا پڑےگاکہ میں اب تم پر ویسےہی اعتماد کرتا ہوں جیسےخود پر۔“ طاہر نےاس کےشانوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
    ” اگر آپ کو خود پر اعتماد ہوتا تو ہماری پہلی ہی ملاقات یوں بادِ سموم کا شکار نہ ہوتی ۔“ صفیہ کا لہجہ شکایتی ہو گیا۔”اچھا تو یہ ہےکہ مجھ سےپہلےخود پر‘ اپنےجذبوں پر اعتماد کرنا سیکھئےطاہر۔ورنہ یہ کج بحثیاں زندگی کا معمول بن جائیں گی۔“
    ”ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔“ طاہر کا لہجہ بدل گیا۔ ایک عزم سا جھلکا اس کی آواز میں۔
    ”کیا میں اس پر یقین کر لوں؟“ صفیہ نےبراہ راست طاہر کی آنکھوں میں جھانکا۔
    ”ہوں۔“ طاہر نےبیباکی سےاس کی نظروں کا سامنا کرتےہوئےاثبات میں سر ہلایا۔
    ”تو جائیے۔ ہم نے آپ کو معاف کیا۔“ صفیہ نےایک شان ِ بےنیازی سےکہا اور ایک دم اس کےقدموں پر جھک گئی۔”میرےمجازی خدا ہیں آپ۔ لیکن کبھی میری ایسی آزمائش نہ لیجئےگا کہ جس میں پوری نہ اتر سکوں۔“
    ”صفو۔“ طاہر تڑپ کر جھکا اور اسےبازؤوں سےتھام کر اٹھایا۔ نجانےکب سےرکےہوئے آنسو صفیہ کی پلکوں تک آ گئےتھے۔”بس۔ یہ پہلےاور آخری نمکین قطرےہیں جو تمہاری آنکھوں سےچھلک پڑے۔ دوبارہ کبھی نہیں۔کبھی نہیں۔“
    کسی ہلکی پھلکی گڑیا کی طرح اس نےصفیہ کو بازؤوں میں اٹھاکر پھولوں کی سیج کی طرف قدم بڑھا دیےاور صفیہ نےشرما کر اسکےسینےمیں چہرہ چھپا لیا ۔
    صفیہ اور طاہر کی شادی کو پندرھواں دن تھا جب بیگم صاحبہ اور ڈاکٹر ہاشمی عمرےکےلئےروانہ ہو گئے۔
    محرم کےطور پر بیگم صاحبہ نےاپنا ایک یتیم بھانجااعجاز ساتھ لےلیا ۔ فرسٹ ایئر کا طالب علم اعجاز انہی کی زیر ِ کفالت تھا۔ڈاکٹر ہاشمی مردانہ گروپ میں انہی کےساتھ مگر ان سےالگ اپنےطور پر سفر کر رہےتھے۔ دوران ِ سفر ان کا رابطہ بیگم صاحبہ سےاعجاز ہی کی معرفت رہنا تھا ۔ کیونکہ بیگم صاحبہ کےلئےوہ اس مقدس سفر کےحوالےسےبہرحال نامحرم تھے۔
    انہیں ائرپورٹ پر خدا حافظ کہہ کر وسیلہ خاتون اور صفیہ طاہر کی کار میں واپس لوٹ رہےتھےکہ راستےمیں وسیلہ خاتون کا موبائل گنگنا اٹھا۔
    ”ہیلو۔ “ انہوں نےکال اٹنڈ کی۔”کون سرمد بیٹا؟“ ایک دم ان کےچہرےپر بشاشت پھیل گئی۔کیسےہوتم؟“
    ذرا دیر وہ سرمد کی بات سنتی رہیں۔ گردن گھما کر انہیں دیکھتی ہوئی صفیہ نےصاف محسوس کیا کہ دوسری طرف سےجو کہا جا رہا ہےاس کا رد ِ عمل وسیلہ خاتون کےچہرےپر اضطراب کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔طاہر خاموشی سےڈرائیو کر رہا تھا۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی کےبیٹےسرمد کا فون ہےناں؟“ اس نےروا روی میں پوچھا۔
    ”جی ہاں۔ میں تو اسی ایک ہی سرمد کو جانتی ہوں۔“ صفیہ اس کی جانب متوجہ ہو کر ہولےسےمسکرائی۔”پورا ایک سال میں اس سےٹیوشن لیتی رہی ہوں۔اس طرح میں اس کی شاگرد بھی ہوں۔ آپ کےساتھ تو بڑی بےتکلفی ہو گی اس کی؟“
    ”نہیں۔“ طاہر نےنفی میں سر ہلایا۔ ” بس علیک سلیک اچھی خاصی کہہ سکتی ہو۔ اس سےزیادہ نہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی ہمارےفیملی ممبر جیسےہیں تاہم سرمد چونکہ زیادہ تر اپنی بیرون ملک تعلیم میں محو رہا اس لئےاس کےساتھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا۔ہماری شادی میں بھی وہ اسی لئےشریک نہیں تھا کہ ان دنوں وہ لندن میں ایم بی اےکر رہا ہے۔“
    ”طاہر بیٹے۔“ اسی وقت وسیلہ خاتون کی آواز نےان کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ان دونوں کوپتہ ہی نہ چلا کہ کب انہوں نےسرمد سےگفتگو کا سلسلہ ختم کیا۔”مجھےگھر پر اتار دینا۔“
    ”جی نہیں آنٹی۔ آپ ہمارےساتھ چل رہی ہیں۔ جب تک امی واپس نہیں آ جاتیں‘ آپ وہیں رہیں گی۔“طاہر نےجواب دیا۔
    ”ارےنہیں بیٹا۔“ وہ جلدی سےبولیں۔ ”گھر بالکل اکیلا ہےاور زمانہ چوری چکاری کا ہے۔“
    ” آپ کےپاس جو سب سےقیمتی شےتھی‘ وہ تو آپ نےمجھےدےڈالی آنٹی۔ اب کس چیز کی چوری کا اندیشہ ہے؟“ طاہر نےدزدید ہ نگاہوں سےصفیہ کی جانب دیکھا۔
    صفیہ کےرخ پر شرم نےسرخی بکھیر دی ۔ اس نےحیا آلود مسکراہٹ کےساتھ طاہر کےبازو پر چٹکی لی اور منہ پھیر لیا۔
    ”ٹھیک کہہ رہےہو بیٹے۔“ وسیلہ خاتون کےلبوں سےنکلا۔ ”لیکن میرا گھر پر رہنا ضروری ہے۔ ہاں اگر تم محسوس نہ کرو تو ایک آدھ دن کےلئےصفیہ کو میرےپاس چھوڑ دو۔“
    ”ایک آدھ دن کی بات ہےتو کوئی حرج نہیں آنٹی۔“ طاہر نےگاڑی ان کےگھرکو جانےوالی سڑک پر موڑ دی۔” ابھی میں اسے آپ کےہاں چھوڑ جاتا ہوں۔ رات کا کھانا آپ کےساتھ کھائوں گا اور اس کےبعد ہم اپنےگھر چلےجائیں گے۔ رات کو رکنےسےمعذرت۔“
    ”اللہ تم دونوں کو یونہی آباد اور خوش رکھےبیٹا۔“ وسیلہ خاتون نےتشکر سےکہا۔ ”یہ تمہاری محبت ہےاور میں اس میں دخل دینا پسند نہیں کروں گی۔ رات کو تم لوگ بیشک واپس چلےجانا۔“
    ”شکریہ آنٹی۔“ طاہر نےگاڑی وسیلہ خاتون کےگھر کےسامنےروک دی۔
    ” آپ اندر تو آئیی۔ باہر ہی سےرخصت ہو جائیں گےکیا؟“ صفیہ نےاترنےسےپہلےاس کی جانب دیکھ کر کہا۔
    ”نہیں۔ میں ذرا آفس کا چکر لگا ئوں گا۔ شام کو آئوں گا تو تینوں گپ شپ کریں گی۔“ طاہر نےمسکرا کر کہا۔” اس وقت دس بجےہیں۔ شام تک آنٹی سےجی بھر کر باتیں کر لو۔ رات کو ہمیں گھر لوٹ جانا ہی۔“ وہ انگلی اٹھا کر اسےتنبیہہ کرنےکےانداز میں یوں بولا‘ جیسےوعدہ لےرہا ہو۔
    وسیلہ خاتون ”شام کو جلدی آ جانا بیٹی“ کہہ کر پچھلی سیٹ سےاتر گئیں۔ صفیہ اسےمحبت پاش نگاہوں سےدیکھتی ہوئی گاڑی سےنکلی اور گھر کےدروازےپر کھڑی تب تک اسےہاتھ ہلا تی رہی ‘ جب تک اس کی گاڑی موڑ نہ مڑ گئی۔
    ٭
    ”ممانی ۔“ صفیہ نےوسیلہ خاتون کےسامنےبیٹھتےہوئےایک پل بھی صبر نہ کیااور بول پڑی۔ ”کیا بات ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ سرمد کےفون نے آپ کو پریشان کر دیا ہے۔ کیا کہہ رہا تھا؟ خیریت سےتو ہےناں وہ؟“
    ”بتاتی ہوں بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےتھکےتھکےلہجےمیں کہا۔ ” تم ذرا مجھےپانی پلاؤ۔“
    صفیہ اٹھی اور پانی کا گلاس لے آئی۔ وسیلہ خاتون نےپانی پیا۔ شال کےپلو سےہونٹ خشک کئےاور گلاس تپائی پر رکھ دیا۔
    ”اب جلدی سےکہہ دیجئےممانی۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔“ صفیہ ان کےچہرےکی جانب دیکھتےہوئےبولی۔
    ”صفیہ۔ پہلےمجھےایک بات بتاؤ بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاس کا ہاتھ تھام لیا۔ ”حالانکہ مجھےیہ بات پوچھنا نہیں چاہئےکیونکہ مجھےتم نےکبھی ایساکوئی اشارہ تک نہیں دیا پھر بھی اپنا وہم دور کرنےکو پوچھ رہی ہوں ۔“ وہ رک گئیں۔
    ”پوچھئےممانی۔جھجکئےمت۔“ صفیہ نےان کا ہاتھ تھپکتےہوئےمحبت سےکہا۔
    ”بیٹی۔ کیا سرمد تمہیں پسند کرتا تھا؟“ انہوں نےصفیہ کی طرف دیکھا۔
    ”مجھے؟“ صفیہ حیران سی ہو گئی۔”مگر یہ بات اب کیوں پوچھ رہی ہیں ممانی؟جب پوچھنا چاہئےتھی تب تو آپ نےکسی کا نام لےکر نہ پوچھا۔ صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا میں کسی کو پسند کرتی ہوں؟ میں نےاس سوال کا جواب نفی میں دیا تھااور آپ نےطاہر کےساتھ میرےنام کی گرہ باندھ دی۔ اب اس سوال کا کیا موقع ہے؟“
    ”یہی بات تومجھےالجھن میں ڈال رہی ہےصفیہ بیٹی۔ تم اسےپسند نہیں کرتی تھیں مگر وہ تمہیں پسند کرتاتھا۔ یہی بات اس نے آج مجھےفون پر کہی۔“
    ”کیا؟“ صفیہ نےحیرت سےکہا اور اس کا رنگ فق ہو گیا۔”ممانی۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟“
    ”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں صفیہ بیٹی۔ گاڑی میں اس سےکھل کر بات نہیں کی میں نے۔ وہاں طاہر بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب نےشاید اسےبتایا نہیں کہ تمہاری اور طاہر کی شادی ہو چکی ہے۔ “
    ”یہ اسےبتانےوالی بات تھی بھی تو نہیں ممانی۔“ صفیہ حواس میں لوٹ آئی۔ ”لیکن وہ کہہ کیا رہا تھا؟“
    ”یہ کہ اس کا رزلٹ آؤٹ ہو گیا ہے۔ وہ پندرہ بیس دن میں پاکستان آ رہا ہےاور آتےہی ڈاکٹر ہاشمی کو میرےپاس تمہارا ہاتھ مانگنےکےلئےبھیجےگا۔“
    ”نہیں۔“ صفیہ پوری جان سےلرز گئی۔ ”ممانی۔ یہ کیا ہو رہا ہی؟ آپ اسےروکئے۔ میرا گھر ۔۔۔ میرا گھر۔“ اس کا گلا رندھ گیا۔ بات ادھوری رہ گئی ۔
    ”صفیہ۔ “وسیلہ خاتون گھبرا گئیں۔ ”بیٹی۔ اس میں ایسی پریشانی کی کیا بات ہے۔ میں نےاسےکہا تھا کہ اس وقت میں بازار میں ہوں۔ وہ مجھے آدھ گھنٹےبعد فون کرے۔ ابھی اس کا فون آئےگا تو میں اسےساری بات کھل کر بتا دوں گی کہ تمہاری شادی طاہر سےہو چکی ہے۔ اصل بات یہی ہےکہ اسےتمہاری اور طاہر کی شادی کےبارےمیں علم نہیں ہے۔ جب اسےپتہ چلےگا تو وہ معاملےکو یہیں ختم کر دےگا۔ وہ ایک شریف زادہ ہے۔ مجھےاس سےکسی غلط ردِ عمل کی توقع نہیں ہے۔ تم پریشان نہ ہو۔اگر بات کرنا پڑی تو میں ڈاکٹر صاحب سےبھی کروں گی۔“
    ”بات معمولی نہیں ہےممانی۔“ صفیہ نے آنکھیں خشک کیں اور وسیلہ خاتون کو اس ساری گفتگو کےلب لباب سے آگاہ کر دیا جس سےطاہر کےساتھ سہاگ رات کی شروعات ہوئی تھی۔
    ” اب بتائیے۔“ اس نے آخر میں کہا۔ ”اگر طاہر کو معلوم ہو گیا کہ سرمد مجھےپسند کرتا ہےتو۔۔؟“ وہ بات ادھوری چھوڑ کر ہونٹ کاٹنےلگی۔ بےبسی اور پریشانی نےاس کا رنگ روپ لمحوں میں کملا دیا تھا۔
    ”تم حوصلےسےکام لو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاس کی ہمت بندھائی۔” اول تو یہ بات طاہر تک پہنچےگی نہیں۔ اسےکون بتائےگا؟ میں یا تم؟اور سرمد بھی اس کےسامنےزبان کھولنےسےرہا۔اور بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو طاہر کو یہ سوچنا ہو گا کہ سرمد تمہیں چاہتا ہےنہ کہ تم سرمد کو۔“
    ”یہ بات طاہر کو سمجھانا اتنا آسان نہیں ہےممانی۔“ صفیہ پھیکےسےانداز میں مسکرائی۔
    ”اول تو ایسا موقع نہیں آئےگا بیٹی اور آ گیا تو میں خود طاہر سےبات کروں گی۔“ وسیلہ خاتون نےاسےتسلی دی۔
    ”نہیں ممانی۔ہر گز نہیں۔“ صفیہ نےگھبرا کر کہا۔ ” یہ غضب نہ کیجئےگا۔ بات بگڑ جائےگی۔ میں خود ہی اس الجھن کو سلجھانےکی کوئی راہ نکالوں گی۔ آپ پلیز کبھی طاہر سےاس بارےمیں کوئی بات نہ کیجئےگا۔“
    ”بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاسےسینےسےلگا لیا۔ ”یہ تم کس مصیبت میں آ گئیں؟“صفیہ نےان کےسینےسےلگ کر آنکھیں موند لیں اور گہرےگہرےسانس لینےلگی۔
    اسی وقت پاس تپائی پر پڑےفون کی بیل ہوئی۔ پٹ سےچونک کر صفیہ نے آنکھیں کھول دیں۔ وسیلہ خاتون بھی ادھر متوجہ ہوئیں۔ سکرین پر سرمد کا موبائل نمبر ابھر چکا تھا۔ اس بار اس نےموبائل کےبجائےگھر کےنمبر پر رِنگ کیا تھا۔
    ”ممانی۔“ گھبرا کر صفیہ نےوسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔
    ”شش۔“ انہوں نےہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنےکا اشارہ کیا اور اسےخود سےالگ کر دیا۔ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ ” صرف سننا۔ درمیان میں ہر گز بولنا نہیں۔“ انہوں نےکہا اور چوتھی بیل پر وائس بٹن دبا کر ریسیور اٹھا لیا۔ اب سرمد کی ساری گفتگو صفیہ بھی سن سکتی تھی۔
    ”ہیلو آنٹی۔“ وسیلہ خاتون کےریسیور اٹھاتےہی سرمد کی بیتاب آواز ابھری۔
    ”ہاں سرمد بیٹے۔ میں بول رہی ہوں۔“ انہوں نےبیحد سنجیدگی سےکہا۔ کوئی اضطراب یا پریشانی لہجےسےہویدا نہ تھی۔البتہ پیشانی پر ایک ہلکی سی شکن ضرور ابھر آئی تھی۔
    ”جی آنٹی۔میں آپ سےصفیہ کےبارےمیں بات کر رہا تھا؟“ سرمد کےلہجےمیں اشتیاق کروٹیں لےرہا تھا۔
    ”کہو بیٹے۔ کیا کہنا چاہتےہو؟“ وسیلہ خاتون نےبڑےاطمینان سےپوچھا۔
    ” آنٹی۔ تفصیلی بات تو آپ سےابو کریں گے۔ اس وقت تو میں آپ سےصرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ابو آپ کےپاس صفیہ کا میرےلئےہاتھ مانگنے آئیں تو ۔۔۔“
    وہ رکا تو وسیلہ خاتون کےماتھےکی شکن ذرا گہری ہو گئی۔ انہوں نےصفیہ کی جانب دیکھا جو سرمد کی آواز صاف صاف سن رہی تھی اور اس کا دل سینےمیں یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسےکوئی روڑی کوٹ رہا ہو۔
    ”ہاں ہاں۔ رک کیوں گئےسرمد۔ بات مکمل کرو بیٹا۔“ وسیلہ خاتون بولیں۔
    ”بس آنٹی۔ یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اس رشتےپر کوئی اعتراض تو نہیں ؟“
    ”اس بات کا جواب تو میں بعد میں دوں گی بیٹے۔ پہلےیہ بتائو کیا صفیہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے؟“ ان کا لہجہ بڑا ٹھہرا ہوا تھا۔
    ” آنٹی۔“ ایک دم سرمد کی آواز میں اضطراب امنڈ آیا۔ ”یہ تو میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ صفیہ مجھےپسند کرتی ہے؟ تاہم یہ جانتا ہوں کہ وہ مجھےناپسند نہیں کرتی۔“
    ”پسند یا ناپسند کرناایک الگ بات ہےبیٹےاور زندگی کےساتھی کی حیثیت سےکسی کو چُن لینا اور بات۔ تم صفیہ کو اس نظر سےدیکھتےاور پسند کرتےہو لیکن کیا اس نےبھی کبھی تمہیں اس نظر سےدیکھا ہےیا اس کی کسی بات سےایسا ظاہر ہوا ہےکہ وہ تم سےشادی کرنےمیں انٹرسٹڈ ہے؟ ذرا سوچ کرجواب دینا بیٹے۔“
    ”نہیں آنٹی۔“ سرمد نےصاف صاف کہا۔ ” صفیہ نےکبھی کوئی اشارتاً بھی مجھےایسا رسپانس نہیں دیا جس سےپتہ چلےکہ وہ مجھےاس حوالےسےپسند کرتی ہے۔“
    ”الحمد للہ۔“ بےاختیار وسیلہ خاتون کےلبوں سےنکلا اور ان کےماتھےکی شکن نےدم توڑ دیا۔
    ”جی آنٹی۔“ سرمد چونکا۔ ”کیا کہا آپ نے؟“
    ”میں نےاللہ کا شکر ادا کیا ہےبیٹے۔“ انہوں نےکھینچ کر صفیہ کو اپنےساتھ لگا لیا‘ جو کسی ننھی بچی کی طرح ان کےپہلو میں سمٹ کر یوں بیٹھ گئی جیسےاسےپناہ گاہ میسر آ گئی ہو۔
    ”جی۔“ وہ جیسےکچھ بھی نہ سمجھا۔
    ”تو بیٹے۔ بات صاف ہو گئی کہ تم یک طرفہ طور پر صفیہ کو پسند کرتےہو۔“
    ”جی آنٹی۔ ایسا ہی سمجھ لیں۔“ وہ ادب سےبولا۔
    ”اگر ایسی ہی بات تھی تو تم نےیہاں ہوتےہوئےکیوں اس بات کو نہ چھیڑا بیٹے؟“
    ”ابو چاہتےتھےکہ میں ایم بی اےسےپہلےکسی ایسی بات میں نہ الجھوں جو میری تعلیم میں رکاوٹ بنے آنٹی۔ اسی لئےمیں اب تک خاموش رہا۔“
    ”لیکن کیا تم نےڈاکٹر صاحب پر اپنی پسند کا اظہار کیا ؟ اشارتاً ہی سہی۔“
    ”جی نہیں آنٹی۔“ وہ صاف گوئی سےبولا۔ ”میں اس سےپہلے آپ کا عندیہ چاہتا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تومیں ان سےبات کروں۔“
    ”اور اگر مجھےاس رشتےپر اعتراض ہو تو۔۔۔؟“
    ”جی۔“ سرمد جیسےبھونچکا رہ گیا۔ ”میں سمجھا نہیں آنٹی۔“
    ”تم نےبہت دیر کر دی بیٹے۔“ وسیلہ خاتون کا لہجہ گھمبیر ہو گیا۔ ”صفیہ کی شادی ہو چکی ہے۔“
    ”جی۔“ سرمد چونک کر بولا۔ ”کب آنٹی؟“
    ”اسی مہینےکے آغاز میں۔“ انہوں نےدھیرےسےکہا۔
    ”او۔۔۔۔ہ“ سرمد کےلہجےمیں تاریکی سی چھا گئی۔ ” آنٹی۔۔۔“ وہ اس سےزیادہ کہہ نہ سکا۔
    ”تم نےخود دیر کر دی بیٹے۔ اگر تم جانےسےپہلےاپنےابو سےبات کرتےتو شاید تمہاری آج کی مایوسی جنم نہ لیتی۔“
    جواب میں سپیکر پر سرمد کےگہرےگہرےسانسوں کی بازگشت کےسوا کچھ سنائی نہ دیا۔ وسیلہ خاتون بھی خاموش رہیں۔کتنی ہی دیر بعد دوسری جانب سےایک شکستہ سی آواز ابھری۔
    ”مقدر آنٹی۔ ۔۔ مقدر ۔ ۔۔میں اس کےسواکیا کہہ سکتا ہوں۔ بہر حال اب کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کہئےصفیہ کی شادی کس سےہوئی اور کیا اس میں اس کی پسند بھی شامل تھی؟“
    ”یہ ارینج میریج تھی سرمد۔ اور بیگم وجاہت کےبیٹےطاہر سےصفیہ کی شادی ہوئی ہے۔“
    ”کیا؟“ سرمد پر حیرت کا ایک اور حملہ ہوا۔”طاہر سے؟“
    ”ہاں۔ لیکن تم اس پر اتنےحیران کیوں ہو سرمد؟“ وسیلہ خاتون چونکیں۔
    ”کچھ نہیں آنٹی۔“ وہ سنبھل گیا۔ ” ایسےہی بس۔۔۔“
    ”شاید دونوں خاندانوں کا سطحی فرق تمہیں حیران کر رہا ہےبیٹی۔“ وہ ہنسیں۔
    ”جی آنٹی۔“ سرمد خجل سا ہو گیا۔ ”شاید یہی بات ہے۔“
    ”شاید نہیں۔ یقیناً یہی بات ہےسرمد بیٹے۔ تاہم یہ بتا دوں کہ یہ شادی بیگم صاحبہ کی پسند اور اصرار پر ہوئی ہے۔ اور اب میری تم سےایک درخواست ہے۔“
    ” آپ حکم دیجئے آنٹی۔“ سرمد نےدھیرےسےکہا۔
    ”بیٹا۔عورت کی ازدواجی زندگی کانچ کا گھر ہوتی ہےجو شک کےسنگریزےکی ضرب بھی سہہ نہیں پاتا۔ میں چاہوں گی کہ صفیہ کےبارےمیں تمہارےخیالات کبھی صفیہ یا طاہر تک نہ پہنچیں بیٹی۔ یہ ایک ماں کی التجا ہی۔“
    ” آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آنٹی۔ آپ نےمجھ میں بازاری آدمیوں جیسی کیا بات دیکھی ہےجو آپ نےایسا سوچا۔ “
    ”یہ بات نہیں ہےبیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےکہنا چاہا۔
    ”میں سمجھتا ہوں ۔ آپ کےاندیشےدرست ہیں مگر میں ڈاکٹر ہاشمی کا خون ہوں آنٹی۔ نجابت کیا ہوتی ہے‘ اس کا پاس رکھنا ہو گا مجھے۔ آپ بےفکر رہئے۔ میرےلبوں پر کبھی ایسی کوئی بات نہیں آئےگی جو صفیہ کو دُکھ دےیا اس کی زندگی میں گرداب پیدا کر دے۔“
    ”شکریہ سرمد ۔ “ وسیلہ خاتون کی آواز بھرا گئی۔ ” تم نےمیرا مان رکھ لیا ۔ میں تمہارےلئےہمیشہ دعا گو رہوں گی۔“
    ”اچھا آنٹی۔“ سرمد کےلبوں سے آہ نکلی۔ ”میری تمنا ہےصفیہ خوش رہے۔ آباد رہے۔۔۔ لیکن ایک پچھتاوا زندگی بھر میری جان سےکھیلتا رہےگا آنٹی۔ کاش میں دیر نہ کرتا ۔۔۔کاش۔“ اس کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
    ”سرمد۔“ وسیلہ خاتون مضطرب سی ہو گئیں۔” خود کو سنبھالو بیٹے۔ ابھی تو زندگی کا بڑا طویل راستہ طےکرنا ہےتمہیں۔ تم جوان ہو۔ خوبصورت ہو۔ پڑھےلکھےہو۔ تمہیں بہت اچھی شریک حیات مل سکتی ہے۔۔۔“
    ”نہیں آنٹی۔ “ وہ تھکےتھکےسےلہجےمیں بولا۔ ” یہ باب تو اب بند ہو گیا۔ “
    ”مگر کیوں سرمد۔ ایسی مایوسی کیوں؟“
    ” آنٹی۔ میں صفیہ کو پسند ہی نہیں کرتا ‘ اس سےمحبت کرتا تھا آنٹی۔ اور یہ حق مجھ سےکوئی نہیں چھین سکتا کہ میں آخری سانس تک اسےچاہتا رہوں۔“ سرمدنےدل کا پھپھولا پھوڑ دیا۔ ”اس کی جگہ کوئی اور لےلی‘ یہ تو میرےبس میں نہیں ہے آنٹی۔“
    ”سرمد۔ “ وسیلہ خاتون اس کےلہجےمیں چھپےجذبےکو محسوس کر کےسو جان سےلرز گئیں۔ کچھ ایسا ہی حال صفیہ کا تھا۔” یہ تم کیا کہہ رہےہو بیٹے؟“
    ”بس آنٹی۔ جو کہنا تھا کہہ دیا۔ یہ آخری الفاظ تھےجو اس سانحےپر میری زبان سےنکلے۔ اب آج کےبعد اس بارےمیں کبھی کوئی بات نہ ہو گی۔“
    ”سرمد۔“ وسیلہ خاتون نےکہنا چاہا۔
    ”اللہ حافظ آنٹی۔ کبھی لوٹا تو آپ کی قدم بوسی کو ضرور حاضر ہوں گا۔ آپ نےدعا کا وعدہ کیا ہے۔ تو بس میرےلئےصرف یہ دعا کرتی رہئےگا کہ جس الائو نےمجھےاپنی لپیٹ میں لےلیا ہےوہ کبھی سرد نہ ہونےپائے۔ مرنےکےبعد میری قبر کی مٹی سےبھی اس کی مہک آئے آنٹی۔ اللہ حافظ۔“
    سرمد نےرابطہ کاٹ دیا۔
    وسیلہ خاتون کےلبوں پر اس کا نام بکھر کر رہ گیا۔
    صفیہ گم صُم ان کےپہلو سےلگی بیٹھی شاں شاں کی وہ آواز سن رہی تھی جو اس کےدماغ میں بگولےاڑا رہی تھے۔ آہستہ سےانہوں نےریسیور کریڈل پر ڈال کر وائس بٹن پُش کیا اور سگنل کی ٹوں ٹوں نےدم توڑ دیا۔صفیہ دھیرےسےسیدھی ہوئی۔ اپنےسُتےہوئےچہرےپر ہاتھ پھیرتےہوئےوہ اٹھی۔ پلٹی اور سُن ہو کر رہ گئی۔
    ” آپ۔۔۔“ اس کےہونٹوں سےسرسراتی ہوئی سرگوشی آزاد ہو گئی۔ اس کی آواز پر وسیلہ خاتون نےبھی پلٹ کر دیکھا اور ان کےچہرےپربھی صفیہ کی طرح سرسوں پھیلتی چلی گئی۔ ان کی نگاہوں نےصفیہ کی نظروں کےمرکز کو اپنی گرفت میں لیا تو بُت بن کر رہ گئیں۔
    دروازےکےپٹ سےٹیک لگائےطاہر کھڑا تھا۔ کب سےکھڑا تھا ‘ کون جانی؟ اس کی آنکھیں بند تھیںاور لگتا تھا اس نےسب کچھ سُن لیا ہے۔
    صفیہ نےگھبرا ئی ہوئی ہرنی کی طرح وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔ وہ خود پریشانی کی انتہا سےگزر رہی تھیں‘ اسےکیا دلاسہ دیتیں۔ تاہم ذرا دیر بعد وہ سنبھلیں۔
    ”ارےطاہر بیٹے۔ تم کب آئے؟“ وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھیں۔” آفس نہیں گئےکیا؟“
    دھیرےسےطاہر نےحرکت کی۔ ر خ ان کی جانب کیا اور جیسےپورا زور لگا کر آنکھیں کھولیں۔ سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر وہ دونوں ہی گھبرا گئیں۔
    ”تم تو رات کو آنےوالےتھےبیٹے۔“ وسیلہ خاتون کےمنہ سےبےتکی سی بات نکل گئی۔
    ”رات۔۔۔۔“ طاہر نےکھوئےکھوئےلہجےمیں کہا اور اس کی سپاٹ نظریں ان کےچہرےسےہٹ کر صفیہ پر آ جمیں جو اسےوحشت زدگی کےعالم میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل سینےمیں دھڑکنا بھول سا گیا ۔ رنگ زرد سےاب بالکل سفید ہو چکا تھا ۔ لگتا تھا کسی نےاس کےبدن سےلہو کی ہر بوند نچوڑ لی ہے۔
    ” رات تو کب کی آ چکی آنٹی۔ مجھےہی پتہ نہیں چلا۔“ وہ ایک قدم آگےبڑھ آیا۔ ”کیوں صفی؟“ اس نےاسےصفو کےبجائےصفی کہہ کر پکارا تو صفیہ کی ٹانگوں نےاس کابوجھ سہارنےسےانکار کر دیا۔ وہ لڑکھڑائی اور صوفےپر گر پڑی۔
    ” آپ ۔۔۔ آپ۔۔۔“ اس کےہونٹ ہلی‘ آواز نہ سنائی دی۔ اس کی سہمی ہوئی نظریں طاہر کےویران ویران چہرےسےالجھ کر رہ گئیں۔
    ”بیٹھو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےسنبھالا لیا۔
    ”چلیں صفی۔“ طاہر نےجیسےان کی بات سنی ہی نہ تھی۔ وہ صفیہ سےمخاطب تھا۔
    صفیہ نےطاہر کی طرف دیکھتےہوئےساری جان سےحرکت کرناچاہی اوربڑی مشکل سےاٹھ کھڑی ہوئی۔اس کی ٹانگوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
    طاہر نےہاتھ بڑھایا۔ صفیہ نےاپنا سرد اور بےجان ہاتھ اس کےتپتےہوئےہاتھ میں دےدیااور کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اس کی جانب کھنچتی چلی گئی۔ طاہر اسےلئےلئےزندگی سےمحروم قدم اٹھاتا کمرےسےنکل گیا۔
    وسیلہ خاتون کمرےکےوسط میں اجڑی اجڑی کھڑی خالی دروازےکو تک رہی تھیں جہاں سےابھی ابھی جیسےکوئی جنازہ باہر گیا تھا۔

    وسیلہ خاتون کےگھر سےسلطان وِلا تک کا سفر قبرستان جیسی خاموشی کےساتھ طےہوا تھا۔صفیہ پر اس چُپ نےایک عجیب اثر کیا۔ اس کا دل دھیرےدھیرےقابو میں آ گیا۔ حواس میں ایک ٹھہرائو نمودار ہوا اور گھر کےپورچ میں گاڑی رکی تو وہ کافی حد تک پُرسکون ہو چکی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ اس کا ضمیر صاف تھا۔ مطمئن تھا۔ موجودہ صورتحال میں اس کا دامن بالکل پاک تھا۔
    طاہر سارا راستہ گم صُم گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔ اس نےصفیہ کےجانب دیکھا نہ زبان سےایک لفظ کہا۔ گاڑی کا انجن بند کر کےوہ اپنی طرف کےدروازےسےباہر نکلا ۔ صفیہ بھی تب تک گاڑی سےاتر چکی تھی۔ طاہر نےگاڑی کی چابیاں آٹھ دس قدم دور کھڑےڈرائیور کی جانب اچھالیں اور تھکےتھکےقدموں سےگھوم کر صفیہ کی طرف آ گیا جو اسی کی منتظر کھڑی تھی۔ طاہر کا سُتا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا دل ایک بار پھر ہول گیا تاہم اس نےاپنےچہرےسےکسی تاثر کا اظہار نہ ہونےدیا۔ طاہر نےاس کےشانوں پر بازو دراز کرتےہوئےجیسےاس کا سہارا لیا۔ صفیہ نےجلدی سےاس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اپنےدائیں شانےسےلٹکتا اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ہاتھ تھامتےہی وہ بری طرح گھبرا گئی۔ طاہر آگ کی طرح دہک رہا تھا۔ اس نےمتوحش نظروں سےاس کےچہرےکی جانب دیکھا۔ طاہر کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور لگتا تھا اگلےچند لمحوں میں وہ ہوش و حواس سےبیگانہ ہو جائےگا۔ آہستہ آہستہ چلتےہوئےطاہر کےبدن کا بوجھ صفیہ پر آ رہا تھا۔ اس نےسیف کو آواز دینےکا ارادہ کیا۔ پھر نہ جانےکیا سوچ کر اس نےخود ہی طاہر کو سنبھال لیا اور حتی الامکان سرعت سےاسےاندر لے آئی۔
    سیڑھیاں چیونٹی کی رفتار سےطےکی گئیں ۔ پھر خواب گاہ میں پہنچتےہی طاہر بستر پرگرا اور بےسُرت ہو گیا۔
    صفیہ نےاس کاجسم بستر پر ترتیب سےدرست کیا اور ڈاکٹر ہاشمی کےہاسپٹل فون کر دیا۔ پندرہ منٹ میں وہاں سےڈاکٹرہارون ایک نرس کےساتھ آ پہنچی۔ صفیہ خاموش کھڑی ان کی کارروائی دیکھتی رہی۔ فوری طور پر بخار کا انجکشن دےکر گلوکوز ڈرپ لگا دی گئی۔دوا کی تفصیل نرس کو سمجھا کر ڈاکٹر ہارون صفیہ کےقریب آئی۔
    ”مسز طاہر۔ اچانک بخار کا یہ اٹیک بڑا سیریس کنڈیشن کا حامل ہی۔ لگتا ہےمسٹر طاہر نےکوئی زبردست شاک برداشت کرنےکی کوشش کی ےی۔اب انہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے۔ آپ چاہیں تو دوسرےکمرےمیں آرام کر سکتی ہیں۔ جاگنےکےلئےنرس موجود ہی۔ وہ مسٹر طاہر کی تمام کیفیات سےمجھےباخبر رکھےگی۔ میری ضرورت ہوئی تو میں آپ کےبلانےسےپہلےیہاں موجود ہوں گا۔ اب آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں۔“
    ”جی۔ کچھ نہیں۔“ ہولےسےصفیہ نےکہا اور بڑی گہری نظر سےطاہر کی جانب دیکھا جس کا زرد چہرہ اس کا دل دہلا رہا تھا۔
    ”تو مجھےاجازت دیجئے۔ “ ڈاکٹر ہارون نےنرس کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور کمرےسےنکل گئی۔
    صفیہ چھوٹےچھوٹےقدم اٹھاتےبستر کےقریب چلی آئی۔ نرس نےطاہر کی نبض چیک کی اور مطمئن انداز میں سر ہلایا۔”بخار کم ہو رہا ہے۔“ وہ جیسےخود سےبولی۔
    یہ سن کر صفیہ کےسینےسےبوجھ سا ہٹ گیا۔ اس نےدونوں ہاتھ جوڑ کر اوپر دیکھا جیسےاللہ کا شکر ادا کر رہی ہو۔پھر پاس پڑی کرسی کو بستر کےمزید قریب کیا اور بیٹھ گئی۔اسی وقت اس کی نظر بوڑھےسیف پر پڑی جو دروازےکےپاس سر جھکائےکھڑا تھا۔
    ”ارےبابا۔ آپ وہاں کیوں کھڑےہیں؟“ صفیہ کرسی سےاٹھی۔
    ”بیٹھی رہئےچھوٹی بی بی۔“ سیف قریب چلا آیا۔اس نےکچھ پڑھ کر طاہر کےچہرےکی جانب پھونک ماری اور دعا ئیہ انداز میں چہرےپر ہاتھ پھیر لئے۔” اللہ کرم کر دےگا۔ آپ گھبرائیےنہیں چھوٹی بی بی۔“ سیف نےاسےاپنی بوڑھی آنکھوں سےتشفی کا پیغام دیتےہوئےکہا۔ بےاختیار وہ مسکرا دی۔
    ” آپ دعا کر رہےہیں تو میں کیوں گھبراؤں گی بابا۔“
    ” آپ کےلئےکھانا لگادوں؟“ اس نےپوچھا۔
    ”نہیں بابا۔ مجھےابھی بھوک نہیں۔ہاں ان سےپوچھ لو۔“ صفیہ نےنرس کی طرف اشارہ کیا۔
    ”میرا نام شمیم ہےمیڈم۔“ نرس نےصفیہ کو بتایا۔ پھر سیف کی جانب متوجہ ہوئی۔” ابھی بارہ بجےہیں بابا۔میں ایک بجےکھانا کھائوں گی۔“
    ”جی بہتر۔“ سیف کہہ کر کمرےسےنکل گیا۔
    دوپہر سےشام ہوئی اور شام سےرات۔ اس دوران ڈاکٹر ہارون کو نرس شمیم نےدو تین بار طاہر کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ بخار کا زور ختم ہو گیا تھاتاہم ابھی پوری طرح اترا نہیں تھا اور طاہر ہوش میں بھی نہ آیا تھا۔صفیہ اس بات سےمتفکر ہوئی تو نرس نےاسےبتایا کہ طاہر کو گلوکوز ڈرپ میں نیند کا انجکشن دیا گیا ہے۔ اب یہ غنودگی اسی کےباعث ہے۔
    رات کےدس بجےتو شمیم نےڈاکٹر ہارون کو ایک بار پھر طاہر کی حالت سےموبائل پر آگاہ کیا اور بتایا کہ بخار ٹوٹ گیا ہے۔ اب ٹمپریچر نارمل ہے۔ ڈاکٹر ہارون نےاسےہدایت کی کہ دوسری گلوکوز ڈرپ مع انجکشنز لگا دی جائے۔ صبح تک اسےابھی مزید نیند کی ضرورت ہے۔
    ” مسز طاہر سےمیری بات کراؤ۔“ ڈاکٹر ہارون نےکہا تو شمیم نےموبائل صفیہ کو تھما دیا۔”ڈاکٹر صاحب بات کریں گے۔
    ” مبارک ہو مسز طاہر۔ بخار ٹوٹ گیا۔“
    ”شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ یہ سب اللہ کےکرم اور آپ کی کوشش سےہوا۔“ صفیہ نےممنونیت سےکہا۔
    ”جی جی۔“ وہ ہولےسےہنسی۔ ” میں دوسری نرس کو بھیج رہا ہوں۔ شمیم کی ڈیوٹی آف ہو رہی ہے۔“
    ”ڈاکٹر صاحب۔ کیا یہ ضروری ہے؟ میرا مطلب ہےدوسری نرس کا ڈیوٹی پر آنا۔۔۔“
    ”جی ایسا ضروری بھی نہیں لیکن اگر مسٹر طاہر کےہوش میں آنےتک کوئی نرس ان کےپاس رہےتو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔“ڈاکٹر ہارون نےبتایا۔
    ”اگر یہ ضروری نہیں ہےڈاکٹر صاحب تو آپ دوسری نرس کو مت بھیجئے۔ میں طاہر کی دیکھ بھال خود کر سکتی ہوں۔“
    ” آر یو شیور؟“ ڈاکٹر ہارون نےپوچھا۔
    ”ویری مچ شیور ۔“ وہ جلدی سےبولی۔
    ”تو ٹھیک ہے۔ تاہم ذرا سی بھی تشویش کی بات ہو تو فوراً مجھےفون کیجئےگا۔ یہ مت سوچئےگا کہ رات یا دن کا کون سا پہر چل رہا ہے۔ شمیم سےدوا کےبارےمیں سمجھ لیجئےاور ایک تکلیف یہ کیجئےکہ اسےوہیں سےاس کےگھر بھجوا دیجئے۔“
    ”جی بہتر۔ “ صفیہ نےموبائل شمیم کو تھما دیا‘ جو طاہر کو دوسری ڈرپ لگا کر اس کی سپیڈ چیک کر رہی تھی۔
    ”شمیم۔ تم ڈرپ ارینج کر کےوہیں سےگھر چلی جائو۔ دوا مسٹر طاہر کو کب کب اور کیسےدینا ہے‘ یہ مسز طاہر کو سمجھا دو۔“
    ”یس ڈاکٹر۔“ اس نےمستعدی سےجواب دیا۔
    ”اوکی۔ گڈ نائٹ۔“
    ”گڈ نائٹ سر۔“ شمیم نےموبائل آف کر کےجیب میں ڈالا اور صفیہ کو دوا کےبارےمیں بتانےلگی‘ جو چند گولیوں اور ایک سیرپ پر مشتمل تھی۔صفیہ نےدوائوں کی ٹرےتپائی پر رکھ کر سیف کو آواز دی۔ وہ کمرےمیں داخل ہوا تو صفیہ نےکہا۔
    ”بابا۔ حمید سےکہئے‘ انہیں ان کےگھر ڈراپ کر آئے۔“
    ”جی بہتر۔ “ سیف نےمختصرجواب دیااور شمیم صفیہ کو سلام کر کےرخصت ہو گئی۔شمیم کو ڈرائیور حمید کےساتھ روانہ کر کےسیف واپس کمرےمیں آیا۔
    ”چھوٹی بی بی۔ آپ کےلئےکھانا لگائوں۔ آپ نےصبح کا ناشتہ کیا تھا۔ اس کےبعد سےاب تک آپ نےبالکل کچھ نہیں کھایا۔“
    ”بھوک نہیں ہےبابا۔“ صفیہ نےطاہر کےجسم پر کمبل درست کرتےہوئےجواب دیا۔” جب بھوک محسوس ہو گی ‘میں بتا دوں گی۔“
    ”میں ضد تو نہیں کر سکتا چھوٹی بی بی مگر اس طرح مسلسل خالی پیٹ رہ کر آپ خود بیمار ہو جائیں گی۔ اللہ نےکرم کردیا ہی۔اب پریشانی کی کیا بات ہےجو آپ کو بھوک نہیں لگ رہی۔“
    ”بابا۔“ صفیہ طاہر کو محبت پاش نظروں سےدیکھتےہوئےبولی۔ ”طاہر نےکچھ کھایا ہےجو میں کھا لوں؟ جب یہ ہوش میں آ جائیں گےتو کھانا پینا بھی سوجھ جائےگا۔“
    سیف کا منہ حیرت سےکھل گیا۔ پھر اس کی نظروں میں عجیب سی چمک ابھری۔ ایسی چمک جو کسی بوڑھےباپ کی نگاہوں میں اس وقت جنم لیتی ہےجب وہ اپنی اولاد پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس نےطاہر کا ہاتھ اپنےہاتھوں میں تھام کر بیٹھتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا اور ”جیتی رہئےچھوٹی بی بی“ کی سرگوشی کےساتھ کمرےسےنکل گیا۔
    ٭

    کراہ کر طاہر نےپلکوں کو حرکت دی اور بستر کی پٹی پر سر رکھےبیٹھی صفیہ بجلی کی سرعت سےسیدھی ہو گئی۔طاہر کا ہاتھ اب بھی اس کےہاتھوں میں دبا ہوا تھاجسےاس نےاپنےرخسار سےلگا رکھا تھا۔
    ”طاہر۔“ اس کا ہاتھ چومتےہوئےوہ اس کےچہرےپر جھک گئی۔
    ”صفی۔“ طاہر کےلبوں سےنکلااور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
    ”جان ِ صفو۔“ صفیہ وارفتگی سےبولی اور اس کی نگاہوں کےحلقےمیں در آئی۔”یہ صفو سےصفی کیوں کر دیا مجھے آپ نے؟“ شکایت بھرےلہجےمیں اس نےپوچھا۔
    طاہر نےجواب میں کچھ کہنا چاہا مگر ہونٹ کپکپا کر رہ گئی۔ساتھ ہی اس کی آنکھوں کےگوشوں سے آنسوڈھلک پڑے۔
    ”طاہر۔“ صفیہ کا کلیجہ پھٹ گیا۔” طاہر میری جان۔ یہ کیا کر رہےہیں آپ؟ اس طرح مجھےرگ رگ ذبح مت کیجئے۔ ایک ہی بار جان لےلیجئے۔ میں اُف نہ کروں گی مگر اس طرح خود کو اذیت دےکر مجھےپل پل ہلکان مت کیجئےطاہر۔ مت کیجئی۔“ وہ اس کےسینےپر مچل کر بلک پڑی۔
    ”میں کیا کروں صفی ۔۔۔کیا کروں؟“ طاہر سرگوشےکےلہجےمیں بولا۔ اس کی آواز زخم زخم ہو رہی تھی۔” مجھ سےبرداشت نہیں ہو رہا۔۔۔“
    ” آپ کیا کریں‘ یہ میں آپ کو پہلےبھی بتا چکی ہوں طاہر۔ مجھ پر ‘ اپنے آپ پر‘ اپنی محبت پر اعتماد کیجئے۔اور رہی بات برداشت کرنےکی تو آپ کیا برداشت نہیں کر پا رہے‘ یہ میں جانتی ہوں لیکن اس میں میرا کتنا قصور ہے‘ آپ یہ بھی تو جانتےہیں۔“
    ”ہاں۔“ طاہر کی آواز میں درد ابھرا۔” تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں صفی مگر میں اس دل کا کیا کروں جو یہ سوچ کر ہی ہلکان ہو گیا کہ کوئی اور بھی ہےجو کہیں دور رہ کر ہی سہی‘ مگر تمہیں چاہتا ہے۔ تم سےعشق کرتا ہے۔ تمہارےلئےجوگ لےچکا ہے۔“
    ”تو اس سے آپ کو یا مجھےکیا فرق پڑتا ہےطاہر؟ ہمارا اس کےاس فعل سےکیا تعلق؟ کیا لینا دینا ہےہمیں اس کےاس فیصلےسے؟“ صفیہ نےسر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” آپ میرےلئےہیں اور میں آپ کےلئی۔ بس یہی ہماری دنیا ہےجس کےاندر ہمیں رہنا ہی۔ اس سےباہر کیا ہے‘ کیوں ہے‘ اس سےہمیں کیا سروکار طاہر۔“ اس نےطاہر کی آنکھوں سےبہتےاشکوں کو اپنےہونٹوں میں جذب کر لیا۔
    ”یہ ایسا آسان نہیں ہےصفی۔“ طاہر نےپلکیں موند لیں۔”بڑا مشکل ہےیہ سہنا کہ کوئی اور بھی میری صفو کو چاہےاور میں اس سےباخبر ہو کر بھی چین سےجیتا رہوں۔“
    ”یہ پاگل پن ہےطاہر۔“ صفیہ اسےسمجھانےکےانداز میں بولی۔” خود کو سنبھالئی۔ بےبنیاد شک کی آگ میں خود کو مت جلائیے۔“
    ”شک نہیں صفی۔“ طاہر نے آنکھیں کھول دیں۔”شک تو میں تم پر کر ہی نہیں سکتا کہ تم اس معاملےمیں کسی طور بھی انوالو نہیں ہو۔شک نہیں ‘ ایک خوف ہےجس نےمجھےاپنی لپیٹ میں لےلیا ہے۔“
    ”خوف؟“ صفیہ نےاس کا چہرہ ہاتھوں کےپیالےمیں لےلیا۔“ کیسا خوف طاہر؟ کھل کر کہئے۔“
    ”تمہارےچھن جانےکا خوف صفی۔“ وہ کہتا چلا گیا اور صفیہ بُت بنی اسےتکتی رہی۔ سنتی رہی۔
    ”خوف یہ ہےکہ وہ جو تمہارےلئےدنیا تیاگ رہا ہے‘ کسی دن سامنے آ گیا تو کیا ہو گا؟ “
    ”کیا ہو گا؟“ صفیہ نےاس کی آنکھوں میں دیکھا۔” آپ کا خیال ہےکہ وہ مجھے آپ سےچھین کر لےجائےگا۔“
    ”نہیں۔ “ طاہر نےنفی میں ہولےسےسر ہلایا۔ ” یہ نہیں۔ ایسا نہیں ہو گا مگر جو ہو گا وہ اس سےبہت آگےکی بات ہےصفی۔“
    ” آپ کہہ ڈالئےطاہر۔ اندیشےاور خوف کا جو ناگ آپ کو اندر ہی اندر ڈس رہا ہےاسےالفاظ کےراستےباہر نکال دیجئے۔ یہ مت سوچئےکہ الفاظ کتنےزہریلےہوں گے۔ بس کہہ جائیےجو آپ کو کہنا ہے۔“
    ”صفی۔ “ طاہر نےخشک لبوں پر زبان پھیرتےہوئےاس کی جانب دیکھا۔ ” پتھر پر پانی کی بوند مسلسل گرتی رہےتو اس میں چھید کر دیتی ہی۔ اس کا جوگ اگر تمہیں ایک پل کو بھی متاثر کر گیا تو وہ کنڈلی مار کر تمہارےدل میں آ بیٹھےگا اور اس کا یہ آ بیٹھنا میرےاور تمہارےدرمیان ایک پل ہی کی سہی‘ جس دوری کو جنم دےگا وہ شیشےمیں آ جانےوالےاس بال کی مانند ہو گی جس کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا۔“
    ”طاہر۔۔۔“ صفیہ اسےمتوحش نگاہوں سےدیکھنےلگی۔ ” یہ کیا کہہ رہےہیں آپ؟“
    ”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں صفی۔“ اس کی آواز لرز گئی۔”میں نےاب تک کی زندگی میں صرف اور صرف ناکامیوں کامنہ دیکھا ہے۔ چاہا کہ شادی سےپہلےکسی کی اَن چھوئی محبت پا لوں ۔ نہ پا سکا۔ پھر چاہا کہ جس سےزندگی کےسفر کا سودا کروں ‘ وہ ایسا ہو جسےکسی اور سےکوئی تعلق نہ ہو‘ ایسا ہی ہوا ۔اب پتہ چلا کہ میرا ہمسفر تو اَن چھوا بھی ہےاور کسی بھی غیر سےبےتعلق بھی ‘ مگر کوئی ایک اور ایسا ہےجو کہیں دور بیٹھا اس کی پرستش کرتا ہے۔ اسےپوجتا ہے۔ اور ایسا دیوانہ پجاری کبھی سامنے آ جائےتو دیوی پر اس کی تپسیا کیا اثر کرےگی‘ یہ خوف میرےاندر ڈنک مار رہا ہے؟“
    ”طاہر۔“ صفیہ نےاسےوالہانہ دیکھےہوئےکہا۔ ” میں سرمد کی دیوانگی سےتو بےخبر ہوں کہ وہ جو کہہ رہا تھا اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ؟ مگر آپ کا پاگل پن ضرور میری جان لےلےگا۔ آپ ایک فرضی خوف کےسائےاپنی اور میری زندگی پر مسلط کر کےکیوں عذاب مول لےرہےہیں؟ اس کا کوئی علاج بھی ہے؟ مجھےصرف یہ بتائیےکہ میں کیا کروں جو آپ کےد ل سےیہ وہم نکل جائےاور آپ اور میں ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔ بتائیےطاہر۔ اگر اس کےلئےمیں اپنی جان دےکر بھی آپ کو اس خوف سےنجات دلا سکی تو مجھےکوئی عذر نہ ہوگا اور اگر اس کےلئےسرمد کی جان لینا لازم ہےتو میں اسے آپ کےوہم پر قربان کر دں گی طاہر ۔مگر آپ کو اس اذیت سےچھڑا کر رہوں گی۔ بتائیے۔ کیا کروں میں؟ حکم دیجئے۔“ اس نےطاہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
    ”کیا کہہ رہی ہو صفی؟“ طاہر تڑپ گیا۔ ” تم اپنی جان دینےکی بات کر رہی ہو؟ میری کس بات سےظاہر ہوا کہ میں ایسا چاہتا ہوں۔ اور رہی بات سرمد کی تو اسےراستےسےہٹا دینا اگر ضروری ہوا تو یہ کام میں خود کروں گا‘ تم ایسا کیوں کرو گی؟ لیکن مجھےلگتا ہےکہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایسا کوئی فیصلہ کیا جائے۔“
    ”تو پھر خود کو سنبھالئےطاہر۔ خود پر نہیں‘ مجھ پر رحم کیجئے۔ آپ کی حالت مجھ سےدیکھی نہیں جاتی۔ “ صفیہ نےسر اس کےسینےپر ڈال دیا۔ آہستہ سےطاہر کا ہاتھ حرکت میں آیا اور صفیہ کی زلفوں سےکھیلنےلگا۔
    صفیہ سسک رہی تھی۔
    طاہر کی آنکھوں میں پھر نمی چھلک رہی تھی۔
    وقت کیا کھیل کھیلنےوالا تھا‘ دونوں اس سےبےخبر اندیشوں اور خوف کی پرچھائیوں سےدل کا دامن چھڑانےکی کوشش کر رہےتھی۔ دل۔۔۔ جو سمجھائےنہیں سمجھتا اور بہلائےنہیں بہلاکرتا۔
    ٭
    دو ہی دن میں طاہر نچڑ کر رہ گیا۔ کہنےکو بخار تو اتر گیا مگر وہ کیسا بخار تھا کہ جس کی دی ہوئی بربادی نےطاہر کےجسم و جان میں ڈیرےڈال لئے۔ وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا۔ صفیہ رات دن اس کی تیمار داری میں لگی رہتی۔ اسےبہلانے‘ ہنسانی‘ اس کےچہرےکی رونق بحال کرنےکےلئےسو سو جتن کرتی مگر طاہرسوائےپھیکےسےانداز میں مسکرا دینےاور اس کی ہر بات کا مختصر سا جواب دینےکےسوا کچھ بھی رسپانس نہ دیتا۔
    وسیلہ خاتون نےدو تین بار فون پر صفیہ سےبات کی۔ اسےکریدناچاہا کہ صورتحال کیا ہے؟ صفیہ نےانہیں سب کچھ صاف صاف بتا دیا اور کہا کہ وہ اس معاملےمیں بالکل پریشان ہوں نہ اس میں دخل دینےکی کوشش کریں۔ کسی بھی تیسرےفرد کا اس صورتحال میں در آنا مزید الجھن پیدا کر سکتا تھا‘ یہ صفیہ کی اپنی سوچ تھی اور شاید کسی حد تک یہ درست بھی تھا‘ اس لئےوسیلہ خاتون نےاس کےکہنےپر فون پر ہی طاہر کی خیر خبر پوچھ لی‘ خود آنےسےگریز کیا۔
    ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ کا صرف ایک فون آیا تھا۔ وہ خیریت سےتھےاور انہوں نےاپنا قیام دیار ِ حبیب میں بڑھا لیا تھا۔ ان کی جلدواپسی کا ابھی کوئی امکان نہ تھا۔ آفس کےمعاملات امبر بخوبی کنٹرول کر رہی تھی۔ اسےطاہرکی بیماری کا قطعاً علم نہ تھا ۔ صفیہ نےبھی اسےموجودہ صورتحال سےباخبر کرنا ضروری نہ سمجھا کہ اس سےسوائےبات پھیلنےکےاور کیا ہوتا؟وہ جانتی تھی کہ یہ بات طاہر بھی پسند نہ کرےگا۔ گھر کےملازموں میں بابا سیف اور ڈرائیور حمید کو صرف یہ پتہ تھا کہ صاحب کو بڑا شدید بخار ہےاور بس۔ جو ملازمہ صفائی اور باہر کےکاموں کےلئےتھی‘ اسےاس بات کی ہوا بھی نہ لگی کہ طاہر کی طبیعت خراب ہے۔کچن کا کام ہوتا ہی کتنا تھا‘ سیف کو اس کےلئےکسی معاون کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اس لئےاصل بات پردےہی میں رہی۔
    آج پانچواں دن تھا۔ طاہر نےشیو بنائی ‘ غسل کیا اور دس بجےکےقریب سردیوں کی دھوپ کےلئےلان میں آ بیٹھا۔
    صفیہ نےاس کےچہرےپر کچھ رونق دیکھی تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نےسیف سےچائےبنا کر لان ہی میں لے آنےکو کہا اور خود چھوٹا سا بیگ تھامےطاہر کےپاس چلی آئی۔
    وہ بید کی کرسی پر، سر سینےپر جھکائےنجانےکس سوچ میں ڈوبا بیٹھا تھا۔ صفیہ اس کےقریب پہنچی تو اس کی آہٹ پر وہ چونکا۔
    ”کیا سوچ رہےہیں میرےحضور؟“ صفیہ نےکرسی سےکشن اٹھا کر نیچےگھاس پر ڈالا اور اس کےقدموں میں بیٹھ گئی۔
    ”ارےارے۔“ وہ جلدی سےبولا۔” یہ کیا ۔ اوپر بیٹھو ناں۔“ اس نےپائوں کھینچ لئے۔
    ”خاموش۔“ صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔ ” چائے آنےتک مجھےاپنا کام ختم کرنا ہے۔“ کہہ کر اس نےطاہر کےپائوں تھام کر اپنی گود میں رکھ لئے۔
    ”ارے۔ کیا کر رہی ہو بھئی۔ کسی ملازم نےدیکھ لیاتو ۔۔۔؟“ اس نےپائوں واپس کھینچنا چاہے۔
    ”تو کیا ہو گاجناب عالی؟ میں کون سا آپ کےساتھ کوئی نازیبا حرکت کرنےجا رہی ہوں۔ ذرا دیکھئی۔ کس قدر خشکی ہو رہی ہےجلد پر۔ “ صفیہ نےاس کےپائوں پھر گود میں ڈال لئےاور بائیں ہاتھ سےبیگ کھول کر اس میں سےنیل کٹر نکال لیا۔
    ”ارےبابا ۔ یہ کام میں خود کر لوں گا۔ تم رہنےدو۔“طاہر نےاسےروکنا چاہا۔
    ”اگر اب آپ نےپائوں واپس کھینچا ناں تو میں یہ پیر میں چبھو دوں گی۔“ صفیہ نےاسےنیل کٹر میں لگا چھوٹا سا چاقو دکھاتےہوئےدھمکی دی۔ اس کےبچگانہ معصوم اور محبت بھرےلہجےپر طاہر بےاختیار مسکرا دیا اور پائوں ڈھیلےچھوڑ دیی۔
    ”یہ ہوئی ناں اچھےبچوں والی بات۔“ وہ خوش ہو گئی۔
    پھر پہلےاس نےطاہر کےہاتھ‘ پیروں کےناخن کاٹی۔ اس کےبعد اس کےہاتھوں ‘ پیروں اور آخر میں پنڈلیوں پر وائٹ جیل مالش کی۔ طاہر خاموشی سےاسےیہ سب کام کرتےہوئےدیکھتا رہا۔ وہ یوں اپنےکام میں مگن تھی جیسےاس سےبڑا کام آج اسےاور کوئی نہ کرنا ہو۔جب سیف چائےرکھ کر گیا تو وہ لان کےگوشےمیں لگےنل پر ہاتھ دھو کر فارغ ہو چکی تھی۔
    ”یہ ملنگوں والی عادت چھوڑ دیجئے۔ اپنا خیال رکھا کیجئے۔کل کو اگر میں نہ رہی تو آپ کو تو ہفتےبھر میں جوئیں پڑ جائیں گی۔“ واپس آ کر چائےبناتےہوئےاس نےطاہر کی طرف دیکھتےہوئےسنجیدگی سےکہا۔
    ”کہاں جانا ہےتمہیں؟“ طاہر اب اسےنام لےکر بلانےسےاحتراز کرتا تھا‘ یہ بات صفیہ نےمحسوس کر لی تھی مگر اس نےکسی بھی بات پر بحث یا اعتراض کرنےکا خیال فی الحال ترک کر دیاتھا۔ اسےحالات اور خاص طور پر طاہرکےنارمل ہونےتک انتظار کرنا تھا۔اسےعلم تھا کہ یہ انتظار سالوں پر بھی محیط ہو سکتاہے‘ مگر اس نےفیصلہ کر لیا تھا کہ طاہر کےدل میں اپنا مقام دوبارہ اجاگر ہونےتک وہ زبان سی رکھےگی ۔ حق طلب نہ کرےگی اور فرض کو اوڑھنا بچھونا بنا لےگی۔ اب رات دن یہی کر رہی تھی وہ۔
    ”زندگی کا کیا بھروسہ ہےمیرےحضور؟ جانےکب بلاوا آ جائے۔“ وہ چائےکا کپ اس کی طرف سرکاتےہوئےبولی۔”اس لئےاس کنیز کی موجودگی میں اپنا آپ سنبھال لینا سیکھ لیجئے۔ ملازم بہرحال ملازم ہوتےہیں‘ وہ وقت پر کھانا کپڑا تو مہیا کر سکتےہیں‘ بےوقت خدمت سےاکتا جاتےہیں۔“
    ”تم بھی کہیں اکتا تو نہیں گئیں ؟“ طاہر نےاسےغور سےدیکھا۔
    ”میں۔۔؟“ صفیہ نےاسےشکوےبھرےانداز میں دیکھا مگر دوسرےہی پل اس کی آنکھیں شفاف ہو گئیں۔ ”میں بھلا کیوں اکتائوں گی۔ میں ملازم نہیں آپ کی کنیز ہوں اور کنیز خریدا ہوا وہ مال ہوتا ہےمیرےحضور‘ جس کےدل سےاکتانےکی حس ختم کر کےاللہ تعالیٰ اس کی جگہ محبت‘ خلوص اور ایثار کی دھک دھک بھر دیتا ہے۔“
    ”تو میں نےتمہیں خریدا ہے؟“ طاہر نےچسکی لےکر کپ واپس رکھ دیا۔
    ”جی ہاں۔“ صفیہ نےاطمینان سےجواب دیا۔ ” اپنی محبت‘ اپنی توجہ اور اپنےپیار کےعوض آپ اس کنیز ‘ اس باندی کو کب سےخرید چکےہیں۔“
    طاہر لاجواب ہو گیا۔دل میں ایک کسک سی ابھری۔ اس کی محبت اور توجہ سےتو صفیہ کتنےہی دنوں سےمحروم تھی۔ اب شاید وہ اس پر طنز کر رہی تھی یا اسےاس کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ اس نےدزدیدہ نگاہوں سےصفیہ کی جانب دیکھا۔ وہاں اسےطنز کی کوئی جھلک نہ ملی تو وہ سوچ میں ڈوب گیا۔
    صفیہ سےبخار کےاٹیک کی رات اس کی بڑی کھل کر بات ہوئی تھی۔ اس کےبعد اسےنارمل ہو جانا چاہئےتھا مگر وہ اب تک دل و دماغ کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ابھی تک وہ خود کوواپس پہلی پوزیشن پر نہ لا سکا تھا‘ جہاں صرف وہ اور صفو تھی۔ جہاں ابھی صفی نےجنم نہ لیا تھا۔ اور اب تو صفی بھی پردےکےپیچھےچلی گئی تھی۔ وہ حتی الامکان اس کا نام لینےسےگریز کرتا تھا۔
    چائےختم ہو گئی۔ سیف برتن لےگیا۔
    ” آج کہیں باہر چلیں۔“ صفیہ نےبیگ کی زپ بند کرتےہوئےا س کی جانب دیکھا۔
    ”کہاں؟“ طاہر کی نگاہیں اس سےملیں۔
    ”جہاں بھی آپ لےجائیں۔“
    ”جہاں تم جانا چاہو‘ چلےچلیں گے۔“ طاہر نےفیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔
    ”دوچار دن کےلئےگائوں نہ چلیں؟“ صفیہ نےاشتیاق سےکہا۔
    ”گائوں؟“ طاہر حیرت سےبولا۔ ”وہاں جا کر کیا کرو گی۔ مٹی ‘ دھول پھانکنےکےسوا وہاں کیا ہے۔“
    ”چند دن کھلی آب و ہوا میں رہنےسے آپ کی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑےگا اور میں بھی کبھی کسی گائوں میں نہیں گئی‘ میری سیر ہو جائےگی۔“
    ”ہوں۔“ طاہر نےہنکارا بھرا۔
    ”اگر کوئی امر مانع ہےتو رہنےدیں۔“ صفیہ نےاسےالجھن میں دیکھ کر کہا۔
    ”نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں۔“ طاہر نےاس کی جانب دیکھا۔ ” میں صرف یہ سوچ رہا تھا وہاں جا کر تم بور ہو جائو گی۔“
    ”سنا ہے آپ وہاں پندرہ پندرہ دن اور امی جان د و دو مہینےرہ کر آتی ہیں۔ آپ بور نہیں ہوتےکیا؟“
    ”میرا اور امی کا تو کام ہے۔ زمینوں کا حساب کتاب بڑےدقت طلب مسائل کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئےبور ہونےکا وقت ہی نہیں ملتا مگر تم۔۔۔“
    ” آپ ساتھ ہوں گےتو بوریت کیسی؟“ صفیہ نےاسےبڑی والہانہ نظروں سےدیکھا۔
    ”تو ٹھیک ہی۔ میں فون کر دیتا ہوں۔ دو بجےنکل چلیں گے۔ ڈیڑھ گھنٹےکا راستہ ہے۔ عصر تک پہنچ جائیں گے۔“ اس نےنظریں چرا لیں۔
    ”ٹھیک ہے۔“ صفیہ بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔ ” میں پیکنگ کر لوں؟“
    ”کر لو۔“ طاہر بیساختہ ہنس دیا۔ ” مگر بہت زیادہ دنوں کا پروگرام نہ بنا لینا۔ آج منگل ہے۔ بس جمعےتک لوٹ آئیں گے۔“
    ”جی نہیں ۔“ وہ اٹھتےہوئےبولی۔ ” یہ وہاں جا کر سوچیں گےکہ کتنےدن رکنا ہے۔ ابھی آپ کے آفس جانےمیں دس بارہ دن باقی ہیں اور امی کاتو ابھی واپسی کا کوئی ارادہ ہی نہیں ۔ اس لئےاطمینان سےلوٹیں گے۔“ وہ بیگ اٹھا کر چل دی۔ نجانےکیوں طاہر کا جی نہ چاہا کہ وہ اسےٹوکی۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی اور اسےاس کی خوشی میں رکاوٹ ڈالنا اچھا نہ لگا۔
    دوپہر کا کھانا کھا کر وہ گاوں کےلئےنکل کھڑےہوئی۔ گاڑی کی ڈگی میں صفیہ نےدو بکس رکھوائےتھے‘ جس سےاندازہ ہوتا تھا کہ اس کا ارادہ جلدی لوٹنےکا قطعاً نہیں ہے۔
    * * *​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ایسے شکی انسان کو تو ویسے ہی زہر دے کر مار دینا چاہیے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں