1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 4

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏10 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد رہی

    ”سیف بابا۔ طاہر ابھی تک نہیں آیا۔“بیگم صاحبہ نےناشتےکی میز پر اخبار بینی سےاکتا کر کہا۔
    ”جی۔ میں دیکھتا ہوں۔“وہ ادب سےکہہ کر باہر نکل گیا۔وہ اکتائی اکتائی نظریں پھر گھسی پٹی خبروں پر دوڑانےلگیں۔
    ”السلام علیکم امی جان۔“وہ دھیرےسےکہہ کر اندر داخل ہوا۔
    انہوںنےجواب دےکر آہستہ سےاس کی جانب دیکھا اور بےساختہ چونک اٹھیں۔ وہ ان کی نظروں کی چبھن سےگھبرا گیا۔ نگاہیں جھکا کر اپنی سرخ سرخ آنکھوں پر پردہ ڈالتےہوئےوہ آگےبڑھا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
    وہ بغوراس کا جائزہ لیتی رہیں۔تنا ہوا چہرہ۔ شب بیداری کا منہ بولتا ثبوت تھا۔سرخ سرخ انگارہ آنکھیں۔ جیسےبہت بڑا سیلاب روکےبیٹھی ہوں۔تھکےتھکےقدم۔ جواری کےسب کچھ ہار جانےکا پتہ دےرہےتھے۔”مگر کیوں؟“وہ اس کا جواب ڈھونڈھنےمیں ناکام رہیں۔
    ”تم نےابھی کپڑےنہیں بدلی؟“دھڑکتےدل کےساتھ ان کی زبان سےنکلا۔
    ”ناشتےکےبعد بدل لوں گا امی۔“وہ آہستہ سےبولا اور اخبار پر نظریں جما دیں۔
    ”طاہر۔“ان کا لہجہ عجیب سا ہوگیا۔
    ”جی۔“وہ سنبھل گیا۔
    ”کیا بات ہے؟“
    ”کچھ بھی تو نہیں امی۔“ وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
    ”واقعی۔۔۔؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولیں۔
    وہ نگاہیں چرا کر رہ گیا۔”جی ۔۔۔جی ہاں امی۔ کوئی خاص بات نہیں۔“
    ”ناشتہ کرو۔“وہ چائےدانی کی طرف ہاتھ بڑھاتےہوئےدھیرےسےبولیں۔
    ”میں صرف چائےپیوں گا۔“
    اور بیگم صاحبہ کا توس والی پلیٹ کی جانب بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ایک لمحےکو انہوں نےسر جھکائےبیٹھی‘ مضطرب اور بےچین بیٹےکی جانب دیکھا۔ پھر ہاتھ کھینچ لیا۔انہوں نےبھی صرف چائےکےکپ پر اکتفا کیا۔خاموشی گہری ہوتی گئی۔خالی کپ میز پر رکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
    ”ٹھہرو۔“ایک تحکم آمیز آواز نےاسےبت بنا دیا۔
    ”جی۔“وہ پلٹےبغیر بولا۔
    ”بیٹھ جاؤ۔“
    اور وہ کسی بےجان شےکی طرح پھر کرسی پر گر پڑا۔
    ”کل ہم نےتم سےکچھ کہا تھا۔“
    ”جی ۔ “ اضطراب کی حالت میں پہلو بدل کر وہ ایک نظر ان کی جانب دیکھ کر رہ گیا۔
    ”لیکن اب ہم نےاپنےپروگرام میں کچھ تبدیلی کردی ہے۔“
    ”جی۔“ وہ کچھ بھی نہ سمجھا۔
    ”ہم لڑکی کےگھر جانےسےپہلےاسےکہیں اور ایک نظر دیکھنا چاہتےہیں۔“
    ”امی۔“وہ تڑپ کر کھڑا ہوگیا۔
    وہ پُرسکون انداز میں اسےدیکھتی رہیں۔”تمہیں اعتراض ہےکیا؟“
    ”مجھے۔ ۔۔نہیں توامی۔“
    ”تو جلدی سےتیار ہو کر آجاؤ۔ ہم تمہارےساتھ آفس چلیں گی۔“ایک ہتھوڑا سا اس کےذہن پر برسا۔
    ”مگرامی۔۔ ۔“اس نےکچھ کہنا چاہا۔
    ”ہم اسے آج۔۔۔ابھی۔۔۔ اسی وقت دیکھنےجانا چاہتےہیں۔“
    ”چند روز رک نہیں سکتیں آپ؟“وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولا۔
    ”وجہ؟“بڑےجابرانہ انداز میں استفسار کیا گیا۔
    ”اسی۔۔۔“وہ ایک پل کو رکا۔ ”دلہن بنا دیکھ لیجئےگا اسے۔“
    ”ہم سمجھےنہیں۔“وہ واقعی حیرت زدہ رہ گئیں۔
    اورجواب میں طاہر کا ہاتھ گاؤن کی جیب سےباہر نکل آیا۔اس سےکارڈ لیتےہوئےان کا ہاتھ نجانےکیوں کانپ گیا۔ وہ تیزی سےچلتا ہوا کمرےسےنکل گیا۔یہ دیکھنےکی اس میں ہمت نہیں تھی کہ کارڈ دیکھ کربوڑھی چٹان ایک مرتبہ پھر لرز کر رہ گئی تھی۔
    ”طاہر۔“ماں کےلبوں پر ایک آہ مچلی اور نظروں کےسامنےدھوئیں کی دیوار بن کر پھیل گئی۔وہ دھندلائی ہوئی آنکھوں سےاپنےلرزتےہاتھوں میں کپکپاتےاس پروانہ مسرت کو دیکھ رہی تھیں جو ان کی ہر خوشی کےلئےزہر بن گیا تھا۔
    ”یہ ۔۔۔یہ سب کیا ہوا میرےبدنصیب بیٹے۔کیا ہو رہا ہےیہ سب ؟کیوں ہو رہا ہے؟ کب تک ہوتا رہےگا؟“کتنی ہی دیرتک ایک بےجان بت کی مانند بیٹھےرہنےکےبعد وہ آہستہ سےبڑ بڑائیں۔
    ”جب تک میری ہر دھڑکن تنہائی اور محرومی سے آشنا نہیں ہو جاتی۔تب تک یہ ہوتا رہےگا امی۔“وہ ان کےسامنےکھڑا تھا۔
    وہ اسےدکھی دکھی نظروں سےگھورتی رہ گئیں۔وہ مسکرا رہا تھا۔نجانےکس طرح؟
    ”اللہ حافظ امی۔“وہ دروازےکی جانب پلٹ گیا۔
    وہ تب بھی پتھر کی طرح ساکت بیٹھی رہیں۔خاموش اوربےحس و حرکت مجسمےکی مانند۔کسی سحر زدہ معمول کی طرح ۔بالکل ایسی۔جیسےغیر معمولی صدمےکےسحر نےایک جاندار کو بےجان شےمیں تبدیل کردیا ہو۔
    ٭
    ”بنو۔ ان دنوں باہر نہیں نکلا کرتے۔ درخواست ہی دینا تھی تو مجھےکہہ دیا ہوتا۔“ رضیہ نےشرارت سےامبر کےبازو پر چٹکی لیتےہوئےکہا اور اس کےلبوں سےسسکی نکل گئی۔
    ”اری۔ درخواست کا تو صرف بہانہ ہے۔اس کا گھر پر دل ہی کہاں لگتا ہے۔ غلامی سےپہلےجی بھر کر آزادی منا لینا چاہتی ہے۔“ انجم نےاپنی بڑی بڑی آنکھیں مٹکاتےہوئےکہاتو وہ بےبسی سےاس کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
    ”ہائی۔ یہ شب بیدار آنکھیں ضرورہمارےدولہا بھیا کی شرارتوں کی تصویریں بناتےبناتےسرخ ہوئی ہیں۔واللہ۔ محبت ہو توایسی ہو۔ “نجمہ نےاس کی آنکھوں کےسامنےانگلی نچاتےہوئےکہا۔باقی تینوں نےبھی اسی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
    ”دیکھو۔ خدا کےلئےمجھےبخش دو۔ “اس نےفریادیوں کےانداز میں ہاتھ جوڑ کر ان سےپیچھا چھڑانےکی کوشش کی ۔
    ”اوں ہوں۔ بی بی۔ ہم سےتو آج کل میں پیچھا چھڑا لوگی مگر وہ جو تمام عمر تمہارےپیچھےلٹھ لئےبھاگتےپھریں گی‘ان کےبارےمیں کیا خیال ہے؟“نجمہ نےکہاتووہ شرم سےلجا کر رہ گئی۔
    ”ہائی۔ اب ہمارےصاحب کا کیا بنےگا؟ وہ تو دیوداس بن کر رہ جائیں گی۔ پھریہ آفس امپورٹ ایکسپورٹ کےبجائےتان سین کا ڈیرہ بن کر رہ جائےگا۔“ رضیہ نےدل پر ہاتھ رکھ کر بڑی ادا سےکہا۔
    ”بکو مت۔“ وہ ایکدم سنجیدہ ہوگئی۔”مذاق میں بھی ان کےبارےمیں ایسی بیہودہ گفتگومت کیا کرو۔ “اس نےجیسےاسےڈانٹ دیا۔
    ”اےفلسفہ بیگم۔“انجم نےاس کےباز پر زور سےچٹکی لی۔”مذاق کو اتنا سیریس کیس مت بنایا کرو۔ ہم بھی جانتی ہیں کہ وہ تمہارےلئےہی نہیں ہمارےلئےبھی دنیا میں شاید ماں باپ کےبعدسب سےزیادہ قابل احترام ہستی ہیں۔ہم تم سےزیادہ چاہتےہیں انہیں۔ “اور سب کی سب مسکرا دیں۔
    ”ارے۔صاحب آگئے۔“ اچانک نجمہ نےدروازےکی جانب اشارہ کیاتووہ چاروں سنبھل کر کھڑی ہو گئیں۔اس وقت وہ سب امبر کےکیبن میں تھیں۔
    ”بی پجارن۔ دیوتا کا سواگت کرو ناں جا کر۔ ان کےچرنوں میں اپنی ایپلی کیشن کےپھول چڑھاؤ۔ انکار تو وہ کرہی نہیں سکیں گے۔“ رضیہ نےاسےکہنی سےٹھوکا دےکر آہستہ سےکہا۔
    ”بکومت۔“ وہ جھینپ سی گئی۔
    طاہر پل بھر کوہال میں رکا۔ لڑکیوں کی تمام سیٹیں خالی دیکھ کر ایک لمحےکو اس نےکچھ سوچا۔ پھر اپنے آفس کی جانب بڑھتا چلا گیا۔تمام لوگ اس کےکمرےمیں جاتےہی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔
    ”چلو۔ اب اپنا اپنا کام کرو جا کر۔میری جان بخشو۔ “وہ اپنا خوبصورت چھوٹا سا شولڈر بیگ اٹھا کر دروازےکی جانب بڑھی۔
    ”جی ہاں۔ اب آپ مندر جارہی ہیں۔“نجمہ نےشرارت سےکہا اور سب کا مشترکہ ہلکا سا قہقہہ گونج کر رہ گیا۔
    ”بکتی رہو۔“ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
    ”چلو بھئی۔ وہ تو گئی۔اب کام شروع کریں۔ سیزن کےدن ہیں۔بہت کام ہے۔“ وہ سب بھی چل دیں۔
    دروازہ دھیرےسےکھلا۔”مارننگ سر۔“وہ اندر آتےہوئے آہستہ سےبولی۔
    ”او ہ۔ امبر تم۔۔۔ آؤ آؤ۔ “وہ دھیرےسےمسکرا دیا۔ امبر دھڑکتےدل کےساتھ نظریں جھکائے آگےبڑھی اور ایک کرسی کی پشت تھام کر کھڑی ہوگئی۔
    ”بیٹھو۔“وہ عجیب سی نظروں سےاسےدیکھتےہوئےبولا اور نجانےکیوں نچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔
    امبر نےکچھ کہنےکےلئےچہرہ اوپر اٹھایا ‘لب کھولےمگر اسےاپنی طرف دیکھتا پا کر شرما گئی۔اس کا سر پھر جھک گیا۔پھر وہ آہستہ سےکرسی پر بیٹھ گئی۔وہ بھی اپنی سیٹ پر چلا آیا۔کتنی ہی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر امبر کی آواز نےاسےچونکا دیا۔
    ”سر۔“
    ”ہوں۔“وہ پیپر ویٹ سےکھیلتےکھیلتےرک گیا۔”کیا بات ہے؟“ اس نےمسکرا کر امبر کی آنکھوں میں دیکھا۔
    ”جی ۔۔۔وہ۔۔ ۔ وہ سر۔“ وہ ہکلا گئی۔
    ”کیا ہوگیا ہےتمہیں؟“وہ ہنس دیا۔”شادی ہر لڑکی کی ہوتی ہے۔شرم و حیا ہر لڑکی کا زیور ہوتا ہےلیکن تم تو سب پر بازی لےگئیں۔“
    وہ سر جھکائی‘بیر بہوٹی بنی‘ناخن سےشیشےکی ٹاپ کریدتےہوئی‘نچلا ہونٹ دانتوں سےکاٹتےہوئےاس کی آواز کی مٹھاس میں گم ہوگئی۔
    ”اور پھر اپنوں سےکیا شرمانا امبر۔ ہم نےایک عرصہ ساتھ ساتھ گزارا ہے۔ اچھےدوستوں ‘ اچھےساتھیوں کی طرح۔“وہ ایک پل کو رکا۔”ہاں۔اب کہو۔ لیکن شرمانا نہیں۔“ وہ اسےتنبیہ کرتےہوئےبولا تو وہ شرمیلی سی ہنسی ہنس دی۔
    ”سر۔۔۔یہ۔۔۔“ اس نےبیگ کھول کر ایک کاغذ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
    ”یہ کیا ہے؟“ وہ اسےتھامتےہوئےحیرت سےبولا۔
    ”ایپلی کیشن سر۔“
    ”کیسی ایپلی کیشن؟“
    ”چھٹی کی سر۔“
    ”ارےچھوڑو بھی۔“ اس نےایک جھٹکےسےاس کےدو اور پھر چارٹکڑےکرکےباسکٹ میں پھینک دیے۔
    ”سر ۔مگر۔۔۔“
    ” آفس کی کارروائی مکمل کرنےکےلئےایسےتکلفات کی ضرورت ہوتی ہےامبر۔۔۔ لیکن تم ان ملازموں میں شمار نہیں ہوتیں جن کےلئےایسی کارروائیوں کا اہتمام لازم ہو۔ تم نےجس طرح میرےساتھ مل کر the proud جیسےپراجیکٹ کو کامیابی سےہمکنار کیا ہے‘ اس کا تقاضا یہ نہیں ہےکہ ہم ایسےتکلفات میں وقت ضائع کیا کریں۔“
    ”سر۔“حیرت اور مسرت سےاس کی آواز لڑکھڑا گئی۔
    ”ہاںامبر۔ میں نےاس آفس کےہر فرد کو اپنا سمجھا ہی۔اپنا جانا ہےاور تم ۔۔۔تم تو وہ ہو‘ جو میری زندگی اور موت کےدرمیان سینہ تان کر آکھڑی ہوئی تھیں۔“وہ اپنی سیٹ سےاٹھ کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔”تم نےایک مرتبہ مجھےدیوتا کہا تھا امبر لیکن مجھےایسا لگتا ہی‘ دیوی تم ہو۔ پیار کی۔وفا کی۔ رفاقت کی۔ تم میرےلئےایک ایسی مخلص دوست ہوامبر‘ جس کےہر پل کی رفاقت مجھ پر احسان ہے۔اوردوستوں میں‘ محبت کرنےوالوں میں یہ رسمیں بڑی بور لگتی ہیں۔لگتی ہیں نا۔“وہ اس کےقریب چلا آیا۔ اس پر جھک سا گیا۔
    ”سر۔“اس کی آنکھوں میں تشکر امڈ آیا۔
    ”پگلی۔ “وہ ہولےسےمسکرایااورسیدھا ہوگیا۔”کتنےدنوں کی چھٹی چاہیےتمہیں؟ “وہ شریر سےلہجےمیں بولا۔
    اور امبر نےناخنوں سےمیز کی سطح کو کریدتےہوئےسر جھکا لیا۔”ایک ۔۔۔ایک ہفتےکی سر۔“ وہ بمشکل کہہ پائی۔
    ”با۔۔۔۔۔س۔“وہ لفظ کو کھینچ کر بولا۔” آج دس تاریخ ہی۔ “وہ کلائی پر بندھی گھڑی میں تاریخ دیکھتےہوئےبولا۔ ”بارہ کو شادی ہی۔ دو دن یہ گئی۔ اور باقی بچےصرف پانچ دن ۔“ وہ بڑ بڑاتےہوئےرکا۔”اری۔ صرف پانچ دن۔“ وہ حیرت اور بھولپن بھری شرارت سےاس کےسامنےہاتھ کھول کرنچاتےہوئےبولا۔
    ”سر۔۔۔“ وہ جھینپ سی گئی۔ طاہر زور سےہنس دیا۔
    ”تمہیں ایک ماہ کی رخصت دی جاتی ہی۔“وہ شاہانہ انداز سےبولا۔
    ”مگر سر۔۔۔“
    ”کچھ نہیں۔کوئی بات ہےبھلا۔ شادی ہو اور صرف پانچ دن بعد پھرڈیوٹی سنبھال لی جائی۔“
    ”مگر میں کچھ اور کہہ رہی تھی سر۔“
    ”ہاںہاں۔ کچھ اور کہو۔ بڑےشوق سےکہو۔ “
    ”وہ سر۔۔۔وہ۔۔ ۔وہ نہیں چاہتےکہ میں شادی کےبعد بھی جاب کروں۔“وہ بڑےاداس لہجےمیں بولی۔
    اور ۔۔۔اس کےدل کو دھچکا سا لگا۔ایک پل کو اس کےچہرےپر جیسےخزاں کا رنگ بکھر گئےمگردوسرےہی لمحےوہ سنبھل گیا۔ اس کےکانپتےلبوں پر ایک کرب آلود مسکراہٹ تیر گئی۔اس نےہونٹوں کو زور سےبھینچ لیااور یوں اثبات میں سر ہلایا جیسےکسی انجانی صدا پر لبیک کہہ رہا ہو۔پھروہ آہستہ سےنامحسوس مگر درد بھرےانداز میں ہنس دیا۔
    ”ٹھیک ہی تو کہتےہیں۔ “وہ جیسےاپنے آپ سےکہہ اٹھا۔”پھر ۔۔۔کب سےہمارا ساتھ چھوڑ رہی ہو؟“ وہ پھر مسکرادیا۔
    ” آپ کا ساتھ تو مرتےدم تک رہےگا سر۔ دوستوں سےایسی باتیں نہ کیا کیجئے۔“وہ افسردگی سےمسکرادی۔
    وہ چند لمحوں تک اسےعجیب نظروں سےگھورتا رہا۔”اس کا مطلب ہی۔“وہ پہلو بدل کر بولا۔ ”کہ تم صرف یہی مہینہ ہمارےساتھ ہو جس کےدس دن گزر چکےہیں۔“
    ”یس سر۔“
    ”ہوں۔“ وہ بجھ سا گیا۔”ٹھیک ہےامبر۔ “کچھ دیر بعد وہ ایک طویل اور سرد آہ بھر کر گویا ہوا۔”ہم میں سےکوئی بھی تمہیں بھول نہ سکےگا۔“
    ”سر۔“اس کی آواز تھرا گئی۔
    ”ارےہاں۔ “وہ بات بدل گیا۔ ”یہ تو میں نےپوچھا ہی نہیں کہ تمہارےوہ کرتےکیا ہیں؟“
    اور جذبات کےریلےمیں بہتی ہوئی امبر ساحل ِحواس پر آگری۔”وہ کالج میں لیکچرار ہیں سر۔“اس نے آہستہ سےکہا۔
    ”ہوں۔“وہ پھر کسی خیال میں ڈوب گیا۔
    ” آج کی ڈاک سر۔“نادر نےاندر داخل ہوتےہوئےکہا اور ڈاک میز پر رکھ کر واپس لوٹ گیا۔ وہ ایک طویل سانس لےکر سیدھا ہو بیٹھا۔ڈاک ایک جانب سرکا کر اس نےامبر کی طرف دیکھا۔دونوں کی نظریں ملیںاورجھک گئیں۔
    ”امبر۔ “
    ”یس سر۔“
    ”میں کچھ کہوں۔برا تو نہ مانو گی۔“
    ”کیسی باتیں کرتےہیں آپ سر۔“
    ”امبر۔۔۔ میں۔۔۔ “وہ کہتےکہتےرکا۔”میں تمہاری شادی میں نہ آسکوں گا۔“
    ”کیوں سر؟“ وہ تڑپ سی گئی۔
    ”مجھےگاؤں جانا ہےامبر۔ وہاں نجانےکتنےدن لگ جائیں۔“اس نےبڑی ہمت کر کےجھوٹ بولا۔”لیکن میں اس سےپہلےتمہارےاعزاز میں ایک شاندار پارٹی دینا چاہتا ہوں امبر۔“
    ”سر۔وہ سب ٹھیک ہی۔مگر۔ آپ۔۔۔“
    ”مجھےاحساس ہےامبر۔ لیکن یقین کرو‘وہ کام اتنا ہی اہم اور وقت طلب ہےکہ میں مجبور ہو گیا ہوں۔“وہ میز کےکونےپر بیٹھ گیا۔”دیکھو ۔ تم جس طرح چاہو‘ میں تم سےمعذرت کرنےکو تیار ہوںلیکن خدارا‘ مجھ سےخفا مت ہونا۔تم کہو تو میں اپنا کام چھوڑ کر تمہاری خوشی میں شریک ہونےکو چلا آؤں گا لیکن تم مجھ سےناراض مت ہونا۔“وہ اس کےشانوں پر ہاتھ رکھ کر اداس اور التجا آمیز لہجےمیں بولا۔
    ”نہیں سر۔ میں آپ سےناراض کیسےہوسکتی ہوں؟ آپ اپنا کام التوا میں مت ڈالئےلیکن اس کےلئے آپ کو میری بھی ایک بات ماننا پڑےگی۔“
    ”ہاں ہاں‘ کہو۔“
    ”شادی کےبعدمیں آپ کےاعزاز میں ایک پارٹی دوں گی‘ جس کےلئے آپ کوئی بہانہ نہ بنا سکیں گی۔ “
    وہ چند لمحوں تک اس کی پُرامید آنکھوں میں جھانکتا رہا۔”ٹھیک ہی۔“وہ میز سےاٹھ گیا۔ وہ کھل اٹھی۔
    ”لیکن۔۔۔“
    ”لیکن کیا سر؟“بےتابی سےاس نےپوچھا۔
    ”پارٹی یہاں‘ اسی آفس میں دی جائےگی۔تمام انتظام میراہوگااور تم اور تمہارےوہ مہمان خصوصی ہوں گی۔“
    ”بالکل نہیں سر۔ “وہ مچل سی گئی۔”پہلی بات تو ٹھیک ہےلیکن باقی دونوں باتیں غلط ہیں۔پارٹی ہم دیں گےاور مہمان آپ ہوں گی۔“
    ”غلط۔ بالکل غلط ۔جا تم رہی ہو۔اور الوداعی پارٹی جانےوالےکےاعزاز میں دی جاتی ہے۔لہذا میرا حق پہلےبنتا ہے۔“
    ”وہ حق تو آپ پارٹی دےکر استعمال کر ہی رہےہیں سر۔“
    ”نہیں ۔ یہ رسمی پارٹی ہی۔ بعد کی پارٹی اعزازی اور خاص ہو گی۔“
    ”سر۔“ وہ جیسےہارتےہارتےجیت کی امید پر بولی۔”سب کچھ تو آپ لےگئےسر۔ ہمارےہاتھ کیا آیا؟“ اس نےمنہ بنا کر کہا۔
    ”تمہارےحصےمیں ہماری دعائیں‘ہماری محبتیں‘ ہمارےجذبات یعنی یہ کہ خدا کرےتم اور تمہاری”وہ“ پھلوپھولو۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔ہماری خوشیاں بھی خدا تمہیں دےدے۔ وغیرہ وغیرہ۔“
    ”سر۔“ اس نےشرما کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔پھر کچھ دیر بعد اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنےلگا۔
    ”اب میں چلوںگی سر۔ “وہ سر جھکا کر بولی۔
    اورجیسےطاہر کےدل کو کسی نےمٹھی میں مسل ڈالا۔کتنی ہی دیر تک وہ اسےگھورتا رہا۔ زاہدہ بھی تو یوں ہی گئی تھی۔
    ”جاؤ۔“ اس کےلب کپکپا گئے۔
    اس نےجھکی ہوئی نظریں اٹھائیں۔
    ”سر۔“ پلکوں پر تیرتےموتی لرزگئے۔طاہرپھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر بکھیر کر رہ گیا۔ پھراس کی پلکوں کےگوشےبھی نم ہوگئے۔شاید‘ضبط کا آخری بندٹوٹنےکو تھا۔
    ”اللہ حافظ۔“اس نےبےساختہ اسےشانوں سےتھام کر کہا۔
    ”سر۔“وہ بہت اداس ہو رہی تھی۔
    ”پگلی۔“اس کا جی چاہا۔ اسےباہوں میں سمیٹ کر سینےمیں چھپالی۔پوری قوت سےبھینچ لےمگر دوسرےہی لمحےوہ اس کےہاتھوں کی گرفت سےپھسل کر دروازےکو چل دی۔
    ہارا ہوا جواری ‘اپنےغلط داؤ پر اس مرتبہ بھی پٹ گیا تھااوراب شاید اس کا دامن‘ہر آرزو‘ تمنا اور خواہش سےخالی ہوچکا تھا۔اسی لئےتو وہ اپنی غیر متوقع ہار کا انجام دیکھ کر اتنےتلخ انداز میں مسکرایا تھا کہ اس کےجذبات پر ناامیدی کی ایک سرد تہہ جمتی چلی گئی تھی۔
    وہ آفس سےنکل آیا۔ بےمقصد ادھر ادھر کار بھگائےپھرتا رہا‘ جو لمحہ بہ لمحہ سپیڈ پکڑتی جارہی تھی۔اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں تیزی سےپیچھےبھاگتی ہوئی سڑک پر منجمد تھیں۔ ذہن ‘ دل‘ خیالات‘ جذبات۔ ایک جنگ تھی جو اس کی سوچ اور احساس کےمابین شدت سےجاری تھی۔
    ”تم پھر ہار گئے۔“
    ”جیت تمہاری تقدیر میں نہیں۔“
    ”تم زندگی بھر یونہی تنہائیوں میں بھٹکتےرہو گے۔“
    ”تمہارا دامن محبت سےسدا خالی رہےگا۔“
    ”تم ساری عمر تشنہ رہو گے۔“
    ”تم سراپا ہار ہو۔اپنےلئے‘اپنی ہر آرزو کےلئی‘ اپنی ہر تمنا کےلئے‘ اپنےہر جذبےکےلئے۔داؤ لگانا چھوڑ دو۔تم اناڑی جواری ہو۔تمہاری خواہشات کی تاش کا ہرپتہ بےرنگ ہے۔ بےوفا ہے۔“
    ”کوئی نہیں آئےگا جو تمہیں اپنےد ل کےنہاں خانےمیں محبت کےنام پر سجا لے۔ تم دیوتا ہو۔ انسان نہیں۔ لوگ تمہارا احترام تو کرتےہیں‘ تم سےمحبت نہیں کرتے۔کسی کی محبت تمہارےمقدر میں لکھی ہی نہیں گئی۔“
    ”تم بن منزل کےلٹےپٹےمسافر ہو۔ منزل کی تلاش چھوڑ دو۔چھوڑ دو۔منزل کی تلاش چھوڑ دو۔ چھوڑ دو۔ چھوڑ دو۔ “
    کار کےبریک پوری قوت سےچیخےاوربھاگتی ہوئی کار الٹتےالٹتےبچی۔
    گھر آ چکا تھا۔
    وہ یوں ہانپ رہا تھا‘جیسےمیلوںدور سےبھاگتا آیا ہو۔چہرہ پسینےمیں شرابور اور سانس دھونکنی کی مانندچل رہا تھا۔اس کےہاتھوں کی گرفت اسٹیئرنگ پر سخت ہوتی چلی گئی۔پھراس نےاپنا سراسٹیئرنگ پر دےمارا۔کتنی ہی دیر تک وہ بےحس و حرکت پڑا رہا۔پھر آہستہ سےاس نےچہرہ اوپر اٹھایا۔اب وہ بالکل پُرسکون تھا۔طوفان تھم گیا تھا۔بادل چھٹنےلگےتھی۔اس کےہاتھ کو حرکت دی۔ہارن چیخ اٹھا۔
    چند لمحوں بعدگیٹ کھل گیا۔وہ کار اندر لیتا چلا گیا۔کار کو گیراج میں بند کرکےوہ داخلی دروازےسےہال میں رکےبغیر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
    ”صاحب ۔بیگم صا حبہ کھانےپر آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔“سیف بابانےکمرےمیں داخل ہو کر کہا۔
    “ان سےکہو‘مجھےبھوک نہیں۔وہ کھالیں۔ “اس نےبجھےبجھےلہجےمیں کہا۔
    ”صاحب۔ وہ تبھی سےبھوکی ہیں جس دن سے آپ نےکھانا چھوڑرکھا ہے۔“
    ”کیا۔۔۔؟تمہا را مطلب ہےانہوں نےپرسوں سےکچھ نہیں کھایا۔“
    ”جی ہاںصاحب۔ ایسا ہی ہے۔“
    وہ تیزی سےدروازےکی طرف لپکا۔بیگم صاحبہ سرجھکائےمیز پر بیٹھی جانےکیا سوچ رہی تھیں۔اس کے آنےکی آہٹ سن کر انہوں نےسر اٹھایا۔
    ”امی۔۔۔“ وہ بےتابی سےکچھ کہتےکہتےرک گیا۔ سر جھک گیا۔ آہستہ سے آگےبڑھ کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ چند لمحوں تک اسےبڑی درد بھری نظروں سےگھورتی رہیں۔
    ”کھانا کھائیےامی۔“ پلیٹ سیدھی کرتےہوئےوہ ان کی نظرو ں کی چبھن سےگھبرا گیا۔
    ایک طویل سانس لےکر انہوں نےپلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔دونوں نےخاموشی سےاور بہت کم کھایا۔سیف نےمیز صاف کردی۔طاہر نےبےقراری سےپہلو بدلا۔ انہوں نےایک طائرانہ نظر اس پر ڈالی۔
    ”جاؤ۔ سوجاؤ جا کر۔ رات کافی جاچکی ہے۔“
    اس نےکچھ کہنےکو منہ کھولامگر۔۔۔ نظریں ملتےہی وہ خاموش ہوگیا۔ آہستہ سےاٹھ کر چل دیا۔پھر رکا۔ایک نظر پلٹ کر دیکھا۔وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔تب وہ نہ چاہتےہوئےبھی دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    ”پگلا کہیں کا۔“وہ دھیرےسےبڑ بڑا ئیں اورکسی گہری سوچ میں ڈوبتی چلی گئیں۔
    آج پورےسات دن بعد وہ آفس آیا تھا۔یہ دن اس نےگھر پر اپنےکمرےمیں قید رہ کر گزارےتھی۔
    وہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔نادر کب کا ڈاک دےکر جا چکا تھامگر اس نےاس کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔
    ”ٹر۔ ر۔رن۔ ٹرن۔ ٹرر۔ رن۔“ٹیلی فون کی چیختی ہوئی آواز نےاس کےسکوت کا سلسلہ درہم برہم کردیا۔
    ”ہیلو۔“ریسیور کان سےلگاتےہوئےاس نےتھکی تھکی آواز میں کہا ۔
    ”مارننگ سر۔“ایک دلکش اور خوبصورت ‘ جانی پہچانی آواز سن کر وہ چونکا۔
    ”امبر۔۔۔“ اس کےلرزتےلبوں سےبےساختہ نکلا۔ پھر دوسرےہی لمحےوہ سنبھل گیا۔”ہیلو امبر۔“ اس نےپُرسکون لہجےمیں کہا۔
    ”کیسےہیں سر؟“وہ چہکتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔
    ”ٹھیک ہوں۔ وہ مسکرایا۔”تم کہو۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ناں۔“
    ” آپ کی عدم موجودگی بڑی بری طرح محسوس کی جاتی رہی سر؟“
    ”ہوں۔“ وہ ہولےسےپھر مسکرا دیا۔”میں تو وہیں تھا امبر۔ تم نےمحسوس ہی نہیں کیا۔“
    ”ایسا نہ کہئےسر۔“ وہ بات سمجھ نہ سکی اور جلدی سےبولی۔
    ”اور کہو۔ تمہارے”وہ“ کیسےہیں؟“ نہ چاہتےہوئےبھی وہ شگفتگی سےبولا۔
    ” سر۔“ وہ شاید شرما گئی تھی۔طاہر نےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔ ” آپ فارغ ہیں آج شام کو؟“ کچھ دیر بعداس کی آواز سنائی دی۔
    ”کیوں۔ کوئی خاص بات؟“ اس کا دل دھڑکا۔
    ” آپ بتائیےناں سر۔“ وہ مچلی۔
    ”کوئی اہم مصروفیت تو نہیں ہےمجھے۔“ وہ سوچ کر بولا۔
    ”تو بس۔ آج رات کا کھانا آپ ہمارےہاں‘ ہمارےساتھ کھا رہےہیں۔“
    ”مگر امبر۔“ وہ گڑ بڑا گیا۔
    ”دیکھئےسر۔ انکار مت کیجئے۔ پہلےہی آپ بہت زیادتی کرچکےہیں۔“
    ”تمہارے”وہ“ بھی ہوں گے؟“
    ”ان ہی کا تو حکم ہے۔“
    ”تو اس کا مطلب ہےتم مجبورا ً بلا رہی ہو۔“وہ ہنس پڑا۔”اگر وہ نہ کہتےتو۔۔۔“
    ”کیسی باتیں کرتےہیں سر؟“ وہ بےچین سی ہوگئی ۔”وہ تو انہوں نے۔۔۔“
    ”اچھا اچھا ٹھیک ہی۔ مذاق کر رہا تھا۔ میں پہنچ جاؤں گا۔“
    ” سات بجےتک پہنچ جائیےگا۔“
    ”اور کون کون انوائٹ ہے؟“ اس نےبات اڑا دی۔
    ” آج کی شام صرف آپ کےنام ہےسر ۔“ سن کر وہ مسکر دایا۔
    ”تو پھر آپ آرہےہیں ناں؟“
    ”حلف اٹھا لوں ۔“طاہر نےکہا تو امبر ہنس دی۔
    ”اچھا سر۔ شام تک اللہ حافظ۔“اس نےاسےاپنےسسرالی مکان کا پتہ لکھوا کر کہا۔
    ”اللہ حافظ۔“اس نےدھیرےسےکہا۔امبر نےرابطہ کاٹ دیا مگر وہ کتنی ہی دیر تک ریسیور کان سےلگائےبیٹھارہا۔
    ”سر۔ دستخط کردیں۔“کلرک نےاس کےسامنےفائل رکھتےہوئےکہا توطاہر نےچونک کر اس کی جانب دیکھا۔ایک طویل سانس لےکر اس نےریسیور کریڈل پر رکھااور فائل پر نظریں دوڑانےلگا۔پھرقلم اٹھایا اور دستخط کردیی۔وہ فائل لئےباہر نکل گیاتواس نےدونوں ہاتھ سر کےپیچھےرکھتےہوئےکرسی کی پشت سےٹک کر آنکھیں موند لیں۔
    سوچیں۔لامتناہی سوچیں۔تنہائی۔ویران تنہائی اور وہ خود۔
    یہی تو تھی اس کی مختصر اور محدود سی دنیا۔
    ٭
    کار آہستگی سےرکی۔وہ باہر نکلا۔ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔چھوٹی سی خوبصورت کالونی تھی۔ ایک ایک دودومنزلہ عمارتیں بڑی ترتیب اور خوبی کےساتھ کھڑی کی گئی تھیں۔ٹی شرٹ اور پتلون میں وہ بیحد سمارٹ لگ رہا تھا ۔سر کےبالوں کو ہاتھ سےسنوارتےہوئےوہ چل پڑا۔پانچ چھ مکان چھوڑ کر وہ ایک دو منزلہ خوبصورت اور بالکل نئےمکان کےدروازےپر رک گیا۔
    ”پروفیسر قمرواصف۔“اس نےنیم پلیٹ پر نظر دوڑائی اور ڈگریاں پڑھےبغیر ہی کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ایک منٹ سےبھی کم وقت لگا۔کسی کےتیز تیز قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور دروازہ کھل گیا۔
    ”ایوننگ سر۔“وہی مخصوص پیارا سا انداز ۔ امبر کا ہاتھ ماتھےپر تھا۔
    وہ اسےگھورکر رہ گیا۔
    ” آئیےسر۔“ امبر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔وہ چونک پڑا۔بےساختہ اس کےہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
    ”ایوننگ۔“دھیرےسےکہہ کر اس نےقدم بڑھا یا۔
    وہ اسےلئےہوئےڈرائنگ روم میں پہنچی۔” آپ بیٹھئےسر۔میں ان کو خبر کرتی ہوں۔“ وہ نظریں چرا کر باہر نکل گئی۔
    وہ دل کا درد دل میں دبائےصوفےپر بیٹھ گیا۔ سرسری نظر سےسجےسجائےدیدہ زیب اور دلکش ڈرائنگ روم کا جائزہ لےکر وہ جانےکیا سوچنےلگا۔
    ”السلام علیکم ۔“ایک مردانہ آواز نےاسےچونکا دیا۔دروازےسےامبر ایک مرد کےساتھ اندر داخل ہوئی
    اور۔۔۔ اسےایک جھٹکا سا لگا۔سارابدن جھنجنااٹھا۔ اسےہر شئےگھومتی ہوئی دکھائی دی۔حیرت اور اضطراب کےملےجلےجذبات سےلبریز نظریں پروفیسر قمر کےچہرےپر گڑ سی گئیں۔وہ حواس میں آیا تو اس وقت جب پروفیسرقمر نےاس کےغیر ارادی طور پر آگےبڑھےہوئےہاتھ کو تھام لیا۔بڑی گرمجوشی تھی اس کےمصافحےمیں لیکن۔۔۔اس کی حیرت زدہ نگاہیں اب بھی نوجوان گورےچٹےپروفیسر قمر کےچیچک زدہ چہرےپرجمی ہوئی تھیں۔
    ” مجھےقمر کہتےہیں۔“وہ مسکرایا ۔”پروفیسر قمر ۔“
    ”میں ۔۔۔ طاہر ۔۔۔“۔اس کی آواز جیسےبہت دور سے آئی۔امبر سر جھکائےان دونوں کےقریب کھڑی تھی۔
    ”بیٹھئےبیٹھئے۔ آپ کھڑےکیوں ہیں؟“قمر خوش اخلاقی سےبولا تووہ کچھ سنبھلا۔ سب لوگ آمنےسامنےصوفوں پر بیٹھ گئے۔
    ”امبر تو ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی ہے۔“
    ”جی۔ “وہ غیرمحسوس انداز میں مسکرایا۔”یہ تو اس کی محبت ہے۔“
    ”لگتا ہے آپ اپنےہر ورکر کےدل و دماغ پرثبت ہوچکےہیں۔شادی کےروز آپ کےسٹاف کےتقریباً تمام لوگ موجودتھےاور کوئی زبان ایسی نہ تھی جو آپ پر اپنی والہانہ عقیدت کےپھول نچھاور نہ کررہی ہو۔“
    ”جی۔بس یہ تو ان سب کا پیارہے۔ورنہ میں کیا اور میری شخصیت کیا؟“وہ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
    پھر پروفیسر قمر ہی باتیں کرتا رہا۔وہ ہوں ہاں کرکےاس کی باتوں سےلاتعلقی پر پردہ ڈالتا رہااور امبر ناخن کریدتی رہی۔
    ” ارےبھئی امبر ۔ وہ چائےوائے۔“ کچھ دیر بعد قمر نےامبر کی طرف دیکھ کر کہا۔
    ”اوہ۔۔۔ میں ابھی پتہ کرتی ہوں۔“وہ اٹھی اور طاہر کی طرف دیکھ کر باہر نکل گئی۔
    ”میں ابھی حاضر ہوا طاہر صاحب۔“قمر بھی اس کے پیچھےہی اٹھ کر باہر نکل گیا۔
    اور ۔۔۔اس کا سلگتا ہوا ذہن جلتےہوئےدل کی تپش سےبھڑک اٹھا۔”یہ۔۔۔ یہ کیا تھا؟یہ کیا ہے؟ کیا یہ تھی امبر کی محبت ۔امبر کی پسند۔امبر کی زندگی کا ساتھی۔اس کا شریک حیات۔ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا یہ ممکن ہے؟“اس کا دماغ پھٹنےلگا۔رگیں تن گئیں ۔
    ” آئیےسر۔“امبر کمرےمیں داخل ہوئی۔
    وہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی جلتی ہوئی آنکھیں امبر پر چنگاریاں سی برسانےلگیں۔ ”امبر۔۔۔“اس کی آواز میں بلا کا درد تھا۔
    امبر کےمعصوم لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔وہ اس کےقریب چلی آئی۔ ”میں جانتی ہوں سر۔سمجھتی ہوں۔لیکن ۔۔۔“وہ ایک پل کو رکی۔”محبت اسی کا نام ہےسر۔کہ اسےوفا کی راہوں پر چلتےہوئےروحوں کےسنگم پر پالیا جائی۔جسموں اور چہروں کی خوبصورتی اور حسن فانی چیزیں ہیں۔اصل حسن تو خوبصورت جذبوں میں پلتا ہےاور اسےدیکھنےکےلئےمن کی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ آنکھیں تو اکثر دھوکا دےجاتی ہیں جو ہم چہروں پر سجائےپھرتےہیں۔جیسے آپ نےفریب کھایا۔“وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتےہوئےکہتی رہی۔ وہ خاموشی سےاسےدیکھتا رہا۔تکتا رہا۔
    ”میں جانتی ہوں سر۔ آپ کےذہن میں کتنےہی سوال چکرا رہےہیں۔لیکن۔۔۔“ وہ بڑےپُرسکون اور ٹھہرےہوئےلہجےمیں پھر گویا ہوئی۔”لیکن یہ سوال آپ کی سوچ کےکسی گوشےمیں پیدا نہیں ہونا چاہئیں سر۔ اس لئےکہ میں نےجو کچھ پایا ، جو کچھ سیکھا‘ آپ سےپایا‘ آپ سےسیکھا۔ سر۔قمر کا چہرہ داغدار ہوا تب ہمیں نئےنئےپیمان باندھےہوئےبہت تھوڑےدن ہوئےتھےلیکن ان کےلاکھ انکار‘دور ہونےکی التجا‘بھول جانےکی فریاد کےباوجود میں نےان کو سنبھال لیا۔اس لئےکہ اگر یہی حادثہ ہماری شادی کےبعد پیش آتا تب کیا ہوتا؟ کیا اس وقت بھی میں ان کا ساتھ چھوڑ دیتی۔ضرور چھوڑ دیتی سر۔ضرور چھوڑ دیتی‘اگر میں ان سےمحبت نہ کرتی ہوتی مگر ہم نےتو ٹوٹ کر چاہا تھا ایک دوسرےکو۔ میں اگر ان کی بات مانتےہوئےان سےناطہ توڑ لیتی تو جانتےہیں کیا ہوتا؟وہ خود کشی کرلیتے۔ اس لئےکہ کسی سےدور ہونے، دور رہنےکافیصلہ کرلینا بہت آسان ہےمگر اسےنبھانےکےلئےپتھر بن جانا پڑتا ہےسر۔ اور انسان پتھر بن جائےتو اس میں اور کسی لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔محبت کےمارےناکام ہو جائیں یا جان بوجھ کر محرومی کو گلےلگا لیں تو بہت کم ایسےہوں گےجو زندگی کی لاش ارمانوں کی خارزار راہوں پر گھسیٹنےپر تیار ہوں۔جیسے آپ۔۔۔مگر آپ تو سب سےمختلف ہیں۔انسانوں سےمختلف ہیں ۔بلند ہیں۔اس لئےکہ آپ دیوتا ہیں۔ خلوص کی۔ وفا کےدیوتا۔“ وہ ایک لمحےکو رکی‘ پھر کہا۔”اور یہی سوچ کر میں نےقمر کو اپنا لیا۔قمر جو گہناگیا تھا مگر تھا تو قمر۔ شکستہ آئینےتو ویسےبھی دل والوں کےلئےانمول ہوتےہیں سر۔ان میں اپنےچہرےان کو بڑےصاف و شفاف دکھائی دیتےہیں۔“
    وہ خاموش ہوگئی۔
    طاہر کےلبوں پر لرزتی مسکراہٹ کسی مزار پر جلتےدیےکی مانند تھر تھر ااٹھی۔
    ”میں نےٹھیک کیا ناں سر؟“ عجب معصومیت سےاس کےچہرےکو تکتےہوئےامبر نےپوچھا۔
    دھیرےسےطاہر نےاثبات میں سر ہلا دیا۔مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
    ”سر۔“وہ مسکرائی۔ہونٹ لرزےاور اس کی پلکوں کےگوشےنم ہو گئی۔” میں جانتی تھی آپ میرےفیصلےپر اثبات کی مہر ثبت کرتےہوئےایک پل کی دیر نہیں کریں گے۔ میں ٹھیک کہتی ہوں سر۔ آپ دیوتا۔۔۔“
    اور طاہر نےاس کا فقرہ پورا ہونےسےقبل ہی نفی میں سر ہلا دیا ۔پھر بڑےپیار سی‘ آہستگی سےاس نےکہا ۔ ”تم۔۔۔ تم دیوی ہو۔“اس کی تھرائی ہوئی آواز ابھری۔
    اورامبر نم آنکھوں کےساتھ مسکردی۔طاہر کا جی چاہا آگےبڑھ کر ان انمول موتیوں کواپنےہونٹوں سےچن لے۔وفا کی اس دیوی کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کردے۔وہ جو اسےدیوتا کہتی تھی خود کتنی عظیم تھی۔اسےمحبت کا مفہوم معلوم تھا۔ اسےمحبت نبھانا آتا تھا۔
    ”چلئےسر۔“ امبر کی آواز میں نئی زندگی تھی۔
    ”چلو۔“وہ بھی اک نئےانداز سےمسکرایا۔پُرسکون باوقار اور والہانہ انداز میں۔ اس کےدل کی ساری جلن شبنم میں ڈھل گئی تھی۔ امبر کو نہ پا سکنےکا کوئی پچھتاوا‘ کوئی دکھ‘ کوئی غم نہیں رہا تھا۔ہر پچھتاوا ‘ ہر دکھ‘ ہر غم اس حسرت میں ڈھل گیا تھا کہ کاش‘ قمر کی جگہ وہ خود ہوتا۔
    وہ دونوں کمرےسےنکلےاور کاریڈور میں چل پڑی۔ کھڑکی کےپاس کھڑا قمر ‘ گہنایا ہوا قمر‘پلکوں پر ستارےسجائےمسکرا رہا تھا‘ فخر سے۔ پیار سے۔ ناز سے۔ جو سب کا سب امبر کےلئےتھا۔
    ٭
    آفس کو کسی نو عروس کی طرح سجا یا گیا تھا۔
    سب کےچہروں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر وہ مسکرایااور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
    ”میرا خیال ہی۔ آپ سب لوگ بری طرح تھک چکےہیں۔“
    ”اب بھی کوئی شک ہےسر۔ “نجمہ نےبےتکلفی سےکہا۔اور وہ ہنس پڑا۔
    ”بھئی تم لوگوں کی لیڈر کو پارٹی دینا کوئی معمولی بات تو ہےنہیں۔“
    ”کتنےبجے آئیں گےوہ لوگ سر؟“کلرک اختر نےپوچھا۔
    ”بھئی اس وقت چار بجےہیں۔ سات بجےکا وقت طےہےان سے۔“
    ”اوہ۔ابھی تین گھنٹےباقی ہیں۔“ انجم جیسےتڑ پ گئی۔”انتظار کا یہ وقت کیسےکٹےگا؟“
    ”اچھا ایسا کرتےہیں کسی انگلش پکچر پر چلتےہیں ۔انٹرول کےبعد پکچر شروع ہوتی ہےاور ساڑھےچھ تک ہم با آسانی واپس آسکتےہیں۔کیا خیال ہے؟“
    سب نےبخوشی رضا مندی ظاہر کردی۔طاہرنےنادر کو دو بڑےنوٹ دےکر سینما پہنچنےکو کہا کہ وہ سب کی ٹکٹیں لےکر ان کا انتظار کرے۔ سب لوگ باری باری منہ ہاتھ دھو کر دس پندرہ منٹ میں تیار ہو کر آفس کی گاڑیوں میں لد کر چل دیے۔
    پکچر چھ بجےختم ہوگئی۔ان کی بوریت اور تھکن کافی حد تک دور ہوگئی کیونکہ پکچر اچھی تھی۔سوا چھ بجےوہ واپس آفس میں موجود تھے۔
    ”اچھا بھئی۔ ایک خاص بات۔“ وہ سب بیٹھ گئےتو ایک دم طاہر سنجیدہ ہوگیا۔”تم میں سےکس کس نےقمر صاحب کو دیکھا ہے؟“
    ”ہم سب ہی نےدیکھا ہےسر۔ہم آپ کا مطلب سمجھتےہیں ۔“انجم جلدی سےبولی۔ ”ہم انہیں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہیں گے‘ جس سےمعلوم ہو کہ انہوں نےچہرےپر ذرہ بکتر پہن رکھی ہے۔“اور سب کےساتھ وہ بھی بےساختہ ہنس دیا۔
    ”بس۔“وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ”میں اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کروں گاکہ وہ کسی بھی طرح اپنی انسلٹ محسوس کریں۔“
    اورسب نےبرا منائےبغیر وعدہ کرلیا۔
    پھر سات بج گئےمگر امبر اور قمر نہ پہنچے۔ساڑھےسات ہوگئے۔ ان دونوں کا اب بھی کوئی پتہ نہ تھا۔طاہر نےدوتین مرتبہ گھر پر فون کیامگر کسی نےریسیور نہ اٹھایا۔ یہ ان کےروانہ ہو جانےکی نشانی تھی۔ لیکن وہ اب تک پہنچےکیوں نہیں؟سب کےذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا تھا۔
    پونے آٹھ بجےباہر کسی گاڑی کےرکنےکی آواز سنائی دی۔
    ”سر۔وہ آگئے۔“نادر کمرےمیں داخل ہوا۔
    سب لوگ بیتابی سےاٹھ کھڑےہوئے۔وہ ابھی آفس کا لان پار کررہےتھےکہ اس نے آفس کےدروازےپر ان کو ریسیو کیا۔
    ”معاف کیجئےگا۔ہمیں کچھ دیر ہوگئی۔ “ قمر اس سےمصافحہ کرتےہوئےمعذرت سےبولا۔
    ”کوئی بات نہیں ۔ یہ ان کی پرانی عادت ہے۔“وہ کسی گڑیا کی مانند سجی امبر کی طرف دزدیدہ نظروں سےدیکھتےہوئےبولا۔
    ”نائٹ سر۔ “ وہی مخصوص سا ادھورےسلام کا انداز۔ اور کھلتی ہوئی مسکراہٹ ۔
    ”نائٹ۔“ وہ بھی مسکرادیا۔
    تمام لوگوں سےقمر کا فردا ًفردا ًتعارف پہلےسےتھا۔رضیہ ، انجم اور نجمہ ‘ امبر کو گھیرےکھڑی تھیں اور وہ ان کی باتوں سےکٹی جارہی تھی ۔شرم کےمارےپانی پانی ہو رہی تھی مگر آج وہ اسےمعاف کرنےکےموڈ میں نہ تھیں۔مرد حضرات لڑکیوں سےپرےصوفوں پر جم گئے۔دلچسپ باتوں، قہقہوں، مسکراہٹوں کا خوشگوار سلسلہ چھڑ گیا۔ آج وہ بےتحاشا ہنس رہا تھا۔مسکرارہا تھا۔قہقہےلگا رہا تھا۔ بات بےبات کھلا جارہا تھا۔نجانےکیوں؟
    کچھ دیر اسی حسین فضا کا تسلط رہا۔پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔” میرا خیال ہےاب دیر کرنا مناسب نہیں ۔کیوں قمر صاحب؟“اس نےپوچھا ۔
    ”جیسے آپ کی مرضی۔“ وہ کچھ بھی نہ سمجھا۔
    وہ مسکرا کر ایک طرف سجی سجائی بڑی سی میز کی جانب بڑھ گیااور اس پر پڑا خوبصورت کپڑا کھینچ لیا۔سب لوگ اس کےگرد جمع ہوگئے۔اس نےمسکراتےہوئےچھری اٹھائی اور پاس کھڑی امبر کی طرف بڑھا دی۔اس نےبڑےدل نشیں انداز میں قمر کی جانب دیکھا اور بڑےسےکیک کےٹکڑےہونےلگے۔
    تالیاں گونجیں ،چھینا جھپٹی ہوئی اور بہاریں کنگنا اٹھیں۔کھانےکی ہر ڈش نےان سےبےپناہ دادوصول کی۔پھر کچھ دیر بعد چائےاور کافی وغیرہ سےشغل کیا گیا۔ تب وہ یادگار لمحہ بھی آن پہنچا‘جب وہ میز کےپاس کھڑا ‘بڑےدلربایانہ انداز سےان سب کو دیکھ رہا تھا‘ جو اس کےسامنےمسکراہٹوں کےپھول لئےکھڑےتھی۔چند لمحےگزر گئے۔پھر آہستہ سےاس کےلبوں کو حرکت ہوئی۔
    ”ساتھیو!“ وہ رکا۔اس کی نظریں امبر کی نظروں سےٹکرائیں اور جھک گئیں۔”مجھےصرف اتنا کہنا ہےکہ یہ تقریب جو ہم نےاپنے آفس کی روح رواں‘ اپنی ایک بہترین دوست ، رفیق اور ساتھی اور آج سےمکمل طور پر پرائی ہو جانےوالی ہستی کےاعزاز میں منعقدکی ہےاور جسے آپ سےمتعارف کرانےکی ، میں ضرورت نہیں سمجھتا۔“ وہ ذرا ٹھہرا۔پھر بولا۔”مجھےیہ کہنےمیں کوئی عار نہیں بلکہ میں فخر سےاس بات سے آپ سب لوگوں کو آگاہ کروں گا کہ امبر ۔۔۔“اس کی نظریں امبر کےمضطرب چہرےپر پھیل گئیں۔ ” اس ادارےکی وہ ممبرہےجس کی محبت ، رفاقت ، پیار اور دردمندی سےجدائی پر دل چاہتا ہےکہ میں جی بھر کر آنسو بہاؤں۔دل کھول کر روؤںاور اس کےدرخشاں مستقبل کی جھلک دیکھ کر ، میرا جی چاہتا ہےکہ میں اپنی پلکوں پر چمکنےوالےہر آبدار موتی کو اس کی مسرتوں، آنےوالی خوشیوں کےقدموں پر نچھاور کردوں۔“ اس کےلرزتےلبوں کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔
    ”دوستو! غم ہر انسان کی زندگی میں آتےہیں۔ کب ، کیسے، کس شکل میں آئیں گی؟ یہ کوئی نہیںکہہ سکتا۔ ایک دکھ کا پہاڑ میرےوجود پر بھی ٹوٹا تھا۔حسرتوں کا ایک آتش فشاں میری زندگی میں بھی پھٹا تھااور میرا خیال ہےاس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں۔“
    اس نےایک طائرانہ نظر ان بتوں پر ڈالی جو سانس بھی اتنی آہستگی سےلےرہےتھےکہ سکوت خود پر بوجھ بن گیا تھا ۔ پھر اس کی گھمبیر آواز نےاس بوجھ کو سرکانا شروع کیا۔
    ”میں اس دکھ ، اس غم،اس سزائےبےجرم کو برداشت کرسکتا تھا نہ کرسکا۔زندگی مجھ پر بوجھ بن گئی۔ہر سانس میرےلئےدائرہ حیات تنگ کرتی چلی گئی۔دنیا اور اس کی ہر رنگینی میرےلئےتاریک رات کی پرچھائیں بن کر رہ گئی۔ مجھےروشنی اور اندھیرےایک ہی ناگن کےدو روپ دکھائی دینےلگی۔میں زندہ ہوتےہوئےبھی مُردوں کی طرح بےحس ہوتا چلا گیا۔ آپ سب نےمیرےدکھ کو محسوس کیا۔میرےغم کی شدت اور میرےزخم کی ٹیس اپنےدلوں میں محسوس کی لیکن ایک ہستی آپ میں ایسی بھی تھی جو آپ سب پر آپ سب کےاحساس پر بازی لےگئی۔ جس نےمجھےدلدل میں دھنستےدھنستے‘کنارےپر کھینچ لیا۔جو مجھےگرداب سےپھر ساحل پر لے آئی۔ جس کی زبان سےنکلےہوئےہر لفظ نےمیرےزخم پر مرہم رکھ دیا۔ جس کی دلجوئی نےمیرےدکھ کی جڑیں کاٹیں۔جس کی محبت، پیار اور عظمت نےنہ صرف مجھےدوبارہ زندگی دی بلکہ زندگی کی امانت، زندگی کو لوٹا دینےکی کامیاب کوشش کی۔وہ۔۔ ۔وہ امبر تھی۔“بےساختہ اس کی پلکوں کےگوشےنم ہوئی۔ تقریباً سب کا یہی حال تھا۔ کوئی دل ایسا نہ تھاجو شدت جذبات سےبوجھل نہ ہو رہا ہو۔کوئی چہرہ ایسا نہ تھاجو فرطِ احساس سےتپ نہ رہا ہو اور امبر کےرخساروں پر تو شبنم ٹپک پڑنےکو بیتاب تھی۔طاہر دھندلائی ہوئی نظروں سےان سب کو دیکھ کراپنی کپکپاتی آواز پر حتی الامکان قابو پاتےہوئےپھر گویا ہوا۔
    ” آپ سب نےامبر کےساتھ تعاون کیا اور مجھےاپنی محبتوں کی آغوش میں چھپا لیا۔ آپ‘ جو بیگانےہوتےہوئےبھی میرےاپنےبن گئے‘ آپ‘ جو میرےاپنےہیں لیکن آپ کی قسم۔ اگر امبر نہ ہوتی تو شاید آج میں بھی نہ ہوتا۔“
    ”سر“۔ امبر نےبھرائی ہوئی آواز میں کہا اور قمر کےشانےپر سر رکھ دیا۔ اس نےپیار سےاس کا شانہ تھپکا ۔طاہر نےپل بھر کو امبر کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
    ”لیکن کتنی بڑی زیادتی ہےمیرےساتھ۔ کتنی بڑی ناانصافی ہےمیرےساتھ۔“وہ بھرائےہوئےانداز میں ہنسا۔”کہ یہ دیوی مجھےدیوتا کہتی ہی۔ آخر کیوں؟“ اس نےپیار بھرےبھیگےبھیگےسوالیہ انداز میں ان سب کو دیکھا۔”کیا صرف اس لئےکہ میں نےچند ضرورت مندوں کو بدحالی کےزمانےمیں پناہ دی۔ان کو کبھی ملازم نہیں سمجھا۔ اپنا جان کر ان سےپیار کیا ۔ان کی ضروریات کا پاس کرتا ہوں۔کیاایسےمعمولی کام کرنےوالےہر انسان کو دیوتا کہا جاتا ہے؟ کیا میرےلئےیہ نام مناسب ہی؟ ہر گز نہیں۔قطعی نہیں۔یہ تو آپ کی محبت ہے۔عقیدت ہی۔پیار ہے۔ ورنہ میں اور دیوتا؟ کوئی جوڑ بھی ہےمیرا اور اس لفظ کا ۔“
    وہ طاہر کےمسکراتےہوئےچہرےکو خاموشی سےتکتےرہے۔
    ”سر“۔تب دھیرےسےامبر ایک قدم آگےبڑھ آئی۔ قمر کےلبوں پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ کھیلنےلگی۔طاہر اس کی جانب دیکھتےہوئےبےساختہ ہنس دیا۔
    ” آپ کی ہر بات درست ۔ہر لفظ بجا ۔۔۔لیکن مجھےبتائیےسر“۔ وہ پل بھر کو اس کی جانب دیکھ کر رکی۔اور پھر کسی داستان کی طرح کھلتی چلی گئی۔
    ”ایک ماںکا جگر گوشہ‘ایک مجبور لڑکی کی بہن ‘صرف اس لئےدلہن نہ بن سکےکہ اس کےتن پر سجا ہوا سرخ جوڑا‘جہیز کی لالی سےمحروم ہی۔اس کی رخصتی صرف اس لئےنہ ہو سکےکہ اس کےماتھےپر سونےکا جھومر اور بدن پر زرتار لباس نہیں ہے۔ وہ ساری زندگی ماں باپ کےگھر صرف اس لئےبیٹھی رہےکہ وہ سسرال جاتےوقت اپنےساتھ ذاتی مکان کےکاغذات‘ نقد روپیہ اور کار نہیں لےجاسکتی۔ اس وقت آسمان سےایک فرشتہ اترے۔“
    ”امبر۔۔“ وہ اضطراب اور گھبراہٹ کےملےجلےتاثرات سےگڑبڑاگیامگر وہ اس کی پروا کئےبغیر کہتی رہی۔
    ”وہ انسان ۔ وہ فرشتہ نما انسان اس لڑکی کو سونےمیں پیلا کردی۔اس کےسرخ جوڑےمیں جہیز کی لالی بھی بھر دے۔ وہ سسرال جائےتو اس کےساتھ ذاتی مکان کےکاغذات بھی ہوں اور اس کا دولہا اسی کی کار میں سوار ہوتو اس معصوم اور بھولی بھالی دلہن کےبوڑھےوالدین اور اس کی بہن اس انسان کو دیوتا نہ کہیں‘ تو کیا کہیں سر۔اسےدل ہی دل میں پوجیں نہیں تو کیا کریں سر۔“
    ”امبر۔چپ ہو جاؤ“۔ وہ جیسےبھرےمجمعےمیں بےستر ہوگیا۔
    ”پھر کسی کا بھائی اس کی جیب سےتعلیم حاصل کرے۔ کسی کی بیوہ بہن اس کےخرچےپر زندگی گزاری۔کسی کی بیٹی اس کےاحسان کےدوش پر پرائےگھر جا کر راج کرے۔کسی کا بیٹا اس کےزیر سایہ روزی کمائےتو ہم اسےدیوتا کیوں نہ کہیں سر؟ بولئے۔ جواب دیجئے۔“ وہ گلوگیر آواز میں اس سےسوال کر بیٹھی۔
    وہ سر جھکائےکسی مجرم کی طرف خاموش کھڑا رہا۔جیسےاس پر لگایا جانےوالا ہر الزام صحیح ہو۔سچ ہو۔ حقیقت یہی تھی کہ امبر کی چھوٹی بہن کی شادی پر اس نےپانی کی طرح روپیہ بہایا تھا۔ آفس کےتقریبا ًتمام لوگوں پر کسی نہ کسی صورت میں اس کی نوازشات جاری رہتی تھیں۔ کسی کا بیٹا اس کےخرچےپر پڑھ رہا تھا کسی کی بیٹی کےلئےوہ ہر ماہ معقول رقم دیتا تھا۔کسی کو خاموشی سےبلینک چیک تھما دیا جاتا کہ وہ اس سےاپنی بیٹی کےجہیز کا سامان خرید سکے۔کسی کےبوڑھےوالدین کی بیماری اس کی ادا کی گئی فیس سےصحت میں بدل رہی تھی۔ کسی کا بھائی اس کی سفارش پر کہیں نہ کہیں نوکری حاصل کرچکا تھا اور کسی کی بہن بیوگی کےدن اس کےوظیفےسےبا آسانی کاٹ رہی تھی۔کتنےہی رفاہی اداروں میں وہ ماہانہ دیتا تھا۔کتنےہی فرضی ناموں سےکئی ادارےاس نےفلاحی کاموں کےلئےکھول رکھےتھے‘جہاںان گنت لوگ فیض یاب ہورہےتھے۔ بیکاری کےمارےروزگار پا رہےتھے۔ضرورت مند اپنےخالی دامن مرادوں سےبھر رہےتھے۔ یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔اوران حقیقتوں سےاس کےعلاوہ صرف امبر واقف تھی۔ اس کےاور امبر کےدرمیان یہ طےتھا کہ زندگی کے آخری سانس تک‘ حالات کیسےہی کیوں نہ ہوں‘ وہ دونوں کہیں بھی رہیں‘ ان رفاہی کاموں کی منتظم صرف اور صرف امبر رہےگی ۔ ان نیکیوں کےلئےکروڑوں کےبینک اکائونٹ کو صرف وہ آپریٹ کرےگی۔ جیسےاور جہاں چاہےاس پیسےکو خرچ کرےگی۔ طاہر نےاپنےبزنس کےایک خاص پراجیکٹ کی ساری آمدنی براہ راست the proud نامی فلاحی ادارےکےلئےمختص کر رکھی تھی اور یہ آمدنی براہ ِراست اس ادارےکےاکائونٹ میں جاتی تھی‘ جس کےتحت یہ سب نیکیاں انجام پاتی تھیں۔ بیگم صاحبہ تک کواس نےاس کی ہوا نہ لگنےدی تھی۔۔۔لیکن آج امبر نےعلی الاعلان اس کا پول کھول دیا تھا۔ جو نہیں جانتا تھا اسےبھی علم ہو گیا تھاکہ بظاہر انسان نظر آنےولا یہ انسان اندر سےکس مقام پر کھڑا ہے؟کتنےہاتھ اس کےحق میں دعاؤں کےلئےاٹھتےہیں؟ کتنےدل اس کی زندگی اور خیر خواہی کےلئےدھڑکتےہیں؟ کتنی آنکھیں اس کےنام پر تشکر آمیز آنسوؤں سےلبریز ہوجاتی ہیں اور کتنی زندگیوں کی خوشیاں ‘مسرتیں اور مسکراہٹیں اس کےاشاروں پر رقصاںہیں؟
    وہ منہ پھیری‘سر جھکائےمیزکا سہارا لئےکھڑا تھااوروہ سب خاموش‘ بےجان بت بنےاسےدیکھ رہےتھے۔ ۔۔کتنی ہی دیر بعدوہ بڑی آہستگی سےان کی طرف پلٹا۔اس کےچہرےپر اداسی اور یاسیت کےبادل امڈےچلے آرہےتھے۔وہ سراپاخزاں لگ رہا تھا۔بکھرا ہوا‘مرجھایا ہوا گلاب نظر آرہا تھا۔
    ”یہ تم نےکیا کیا امبر؟“ وہ بڑ بڑایا۔پھر نجانےکیا ہوا کہ ایک دم بادل چھٹ گئے۔ گلاب مہک اٹھا۔ وہ مسکرا دیا تھا‘بڑی معصومیت سے۔ امبر کا جی چاہا‘ بھاگ کر اس دیوتا کےچرنوں میں جاگرےاور یوں پگھل جائےجیسےشمع کا یہ حق صرف اسی کو حاصل ہےمگر اس کےلب صرف کپکپا کر رہ گئی‘ آواز نہ نکلی۔ اس کا جسم صرف لرزا‘حرکت نہ کرسکا۔
    ”مجھےکوئی گلہ نہیں امبر کہ تم نےمجھے‘ اپنےدیوتا کو پھولوں کےپہاڑ تلےدفن کرکےرکھ دیا۔ کچھ اس طرح کہ اب اگر میں ان پھولوں کےبوجھ سے آزاد بھی ہونا چاہوں تو نہیں ہوسکتا۔ میں تم سےوعدہ کرتا ہوں امبر کہ ان پھولوں کی مہک کو ہمیشہ تازہ رکھوں گا۔انہیں مرجھانےنہیں دوں گا۔“
    بےاختیار امبر کی آنکھیں چھلک گئیں۔”سر۔ میں نے آپ کودیوتا کہہ کر غلطی نہیں کی۔“وہ سب لوگوں کی طرف پلٹی۔ ”کیا میں نےغلط کہا ؟“
    ان سب کےسر جھک گئے۔اقرار میں۔ اثبات میں ۔یوں لگتا تھا۔جیسےایک مندر میں دیوتا کےحضور ان گنت چراغ سرجھکائےکھڑےلو دےرہےہوں۔احسان ووفا کےمندر میں ۔ پیار کےدیوتا کےحضور‘محبت کےپجاری سرنگوں کھڑےتھے۔
    تب قمر دھیرےدھیرےچلتا ہوا اس کےقریب چلا آیا۔” آپ بہت خوش قسمت ہیں طاہر۔“ وہ اس کےشانےپر ہاتھ رکھ کر بولا۔
    وہ جواب میں ہولےسےاثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔کچھ کہہ نہ سکا۔ اس نےدیکھا‘ سارےہی چہرےپُرسکون ہوتےچلےگئے۔اب مسکراہٹوں میں پہلےکی نسبت زیادہ تازگی تھی۔باتوں میں زیادہ شگفتگی اور نظروں میں زیادہ والہانہ پن تھا۔
    پھروہ فرقتوں کا پیامبر لمحہ بھی آن پہنچا جس کےلئےیہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔ چہرےایک بار پھر اداس ہوگئے۔جذبات افسردہ ہونےلگے۔ دل بوجھل ہوتےچلےگئے۔
    ”امبر۔“ طاہر اس کی اور قمر کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ وہ دونوں اسےاستفہامیہ انداز میں دیکھنےلگے۔”تمہارےدوستوں نےتم لوگوں کو رخصت کرتےوقت اپنےجذبات تحفوں میں چھپا کر پیش کرنےکا فیصلہ کیا ہےاور میرا خیال ہے‘اب وہ یادگار وقت آچکا ہےجب ہمیں اپنےان جذبوں کا اظہار کر دینا چاہیے۔“
    اس نےدوسرےلوگوں کی طرف دیکھا اور وہ اس کا اشارہ سمجھ کر کمرےکےایک گوشےکی جانب بڑھ گئے۔چند لمحوں بعد وہ لوٹےتو امبر اور قمر کےسامنےگفٹ پیکس کا ڈھیر لگ گیا۔ وہ پرےکھڑا مسکراتا رہا۔ آخر میں وہ آگےبڑھا اور ایک سفید بڑا لفافہ امبر کےہاتھ میں تھما دیا۔
    ”اس میں کیا ہےسر؟“ وہ حیرت سےبولی۔
    ”اس میں۔۔۔“ وہ دھیرےسےمسکرایا۔ ” اس میں ایک چھوٹا سا گزارش نامہ ہےامبر جس کےتحت آج سےتم the proud کی تا حیات چیئر پرسن ہو۔ “
    ”سر۔۔۔“ وہ سُن ہو گئی۔
    ”کچھ مت کہو امبر۔ یہ تمہارا وہ حق ہےجو مجھ پر قرض تھا۔ آج کےبعد بھی تمام معاملات ویسےہی چلتےرہیں گےجیسےاب تک چلتے آ رہےتھے۔ صرف ایک شق ختم ہو جائےگی اور وہ یہ کہ آج کےبعد کسی چیک پر‘ کسی دستاویز پر تمہیں میرےدستخط درکار نہیں ہوں گے۔ اب تم خود فائنل اتھارٹی ہو۔بس ایک بات یاد رکھنا کہ ہم دونوں کےدرمیان جو اس کام کو نسل در نسل جاری رکھنےکا عہد ہوا تھا اس میں کوئی دراڑ نہیں آنی چاہئے۔ کوتی تعطل نہیں آنا چاہئے۔ the proudکو آسمان ِ خیر پرہمیشہ دمکتا رہنا چاہئے۔ ہم رہیں نہ رہیں‘ اس عہد کو زندہ رہنا چاہئی۔ میں تمہاری شادی پر تمہیں اس ذمےداری کےتحفےکےسوا کچھ نہیں دےسکتا۔“
    ”سر۔۔۔“ امبر نےلفافےکو چوم کر پلکوں پر رکھ لیا۔اس کی آنکھوں سےچھلکتی شبنم نےاس عہد نامےپر پاکیزگی کی مہر ثبت کر دی۔
    ”قمر صاحب۔“ طاہر نےپروفیسر قمر کی جانب دیکھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔” میرا خیال ہے آپ کو اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ یہ کوئی جاب نہیں ہے۔“
    ”قطعاً نہیں طاہر صاحب۔یہ تو ایک سعادت ہےجس میں مَیں خودامبر کا ساتھ دینا چاہوں گا۔“ وہ بڑےجاندار انداز میں مسکرایا۔
    ”شکریہ۔“ طاہر نےاس کا ہاتھ دبایا اور چھوڑ دیا۔پھر اس نےنادر کو اشارہ کیا۔ وہ تحائف دو تین پھیروں میں باہر طاہر کی کار میں رکھ آیا۔
    ”امبر۔ ایک آخری بات۔“ طاہر نےاپنی کار کی چابی اس کےہاتھ پر رکھ دی۔”یہ تمہاری کار کی چابی ہے۔“
    ”یہ تو آپ کی ۔۔۔“ امبر نےکہنا چاہا۔
    ”اب یہ کار تمہاری ہے۔ the proudکی چیئر پرسن کو ادارےکی جانب سےکار اور رہائش کی سہولت دی جائے‘ یہ ادارےکےچارٹر میں طےہے۔اس سفید لفافےمیں تمہاری نئی رہائش کےکاغذات بھی موجود ہیں۔ انکار مت کرنا کہ یہ تمہارا حق ہے۔“
    ”اوکےسر۔“ امبر بےاختیار مسکرا دی۔” میں بار بار حیرت اور انکار کےچکر میں پڑ کر کیوں آپ کا دل دکھائوں۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔“
    ”دیٹس گڈ۔“ طاہر بھی مسکرا دیا۔
    ”نائٹ سر“۔کار میں بیٹھ کر امبر نےلرزتےہاتھ کو پیشانی تک لےجا کر اسی مخصوص انداز میں کہا اور بےساختہ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
    ”نائٹ امبر۔ “وہ دل گرفتہ لہجےمیں مسکراتےہوئےبولا۔
    پھر دعاؤں‘ آنسوؤں‘ محبتوں اور بےپناہ بوجھل جذبات کی چھاؤں میں وہ دونوں رخصت ہوگئی۔
    ویران ویران آفس کی ہر چیز اداس تھی۔مندر سونا ہوگیا تھا‘ دیوتا کےدل کی طرح۔دیوتا کی داسی جاچکی تھی ناں۔ شاید اسی لئے!
    ”طاہر۔“ بیگم صاحبہ کی آواز نےسیڑھیوں کی جانب جاتےہوئےاس کےقدم روک لئے۔
    ”جی امی۔“ وہ ان کی طرف لوٹ آیا۔
    ”بیٹھو۔“ انہوں نے آنکھ سےاشارہ کیا ۔ وہ ان کےسامنےصوفےپر بیٹھ گیا۔”بہت تھکےتھکےسےلگ رہےہو۔“ انہوں نےغور سےاس کا چہرہ دیکھا۔
    ”کام بہت تھا آج آفس میں۔“ اس نےگردن پیچھےڈال دی۔
    چند لمحےخاموشی میں گزر گئی۔”جائو۔ فریش ہو جائو۔ کھانےکی میز پر بات کریں گے۔“ بیگم صاحبہ کی آواز میں بیحد نرمی تھی۔
    ”کوئی خاص بات امی؟“ اس نےدھیرےسےپوچھا اور سیدھا ہو بیٹھا۔
    ”ایسی بھی خاص نہیں مگر ضروری ہے۔“
    ”تو ابھی کر لیجئے۔ میں بھوک محسوس نہیں کر رہا۔“
    ”تم جانتےہو‘ ابھی تک ہم نےاپنی عادت نہیں بدلی۔ تم نہیں کھائو گےتو ہم بھی بھوکےسوجائیں گے۔“
    ”یہ زیادتی ہےامی۔“ وہ انہیں شکوےبھری نظروں سےدیکھ کر بولا۔” کسی وقت مجبوری بھی ہوتی ہی‘ میں باہر کھانا کھا کر آؤں ۔۔۔“
    ”تب ہم نےکبھی اصرار نہیں کیا طاہر۔۔۔ مگر آج تم کھا کر نہیں آئے۔“
    ”امی۔۔۔“ وہ مسکرایا۔” آپ سےجیت نہیں سکتا میں۔ “ وہ اٹھ گیا۔ ” ٹھیک ہی۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔“ اس نےاپنا بریف کیس اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
    آدھ گھنٹےبعد دونوں ماں بیٹا کھانےسےفارغ ہو چکےتھےاور اب کافی کا دور چل رہا تھا۔
    ”جی امی۔“ اس نےچسکی لےکر مگ میز پر رکھا۔” اب کہئے‘ کیا بات تھی؟“
    ”بات نئی ہےنہ بحث طلب طاہر۔بس تمہاری طرف سےکسی پیشرفت کےمنتظر ہیں ہم۔“
    طاہرنےبےاختیار سر جھکا لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔ دونوں ہاتھ سینےپر باندھ کر اس نے آنکھیں موندلیں اور جیسےکسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ بیگم صاحبہ اسےخاموشی سےتکتی رہیں اور کافی کا کپ خالی کرتی رہیں۔
    ”جیومیٹری کا مسئلہ حل کر رہےہو بیٹے؟“ کافی دیر گزر گئی تو وہ بول اٹھیں۔
    ”نہیں امی۔“ بیساختہ وہ ہنسا اور آنکھیں کھول دیں۔” لیکن یہ میرےلئےمسئلہ فیثا غورث سےکم بھی نہیں ہے۔“
    ”تم زندگی کو اپنےلئےاتنا مشکل کیوں بنا رہےہو طاہر۔“ بیگم صاحبہ نےاسےمحبت سےدیکھا۔”بیٹی۔ زندگی اللہ کی نعمت ہے۔ اسےاس طرح ضائع مت کرو کہ یہ کفران بن جائے۔ زندگی کی خوشیوں پر تمہارا جتنا حق ہےا تنا ہی خوشیوں کا تم پر بھی حق ہے۔اپنا حق چھوڑو نہ کسی کا حق غصب کرو‘ کاروبارکی طرح یہ کلیہ زندگی کےشب و روز پر بھی لاگو ہوتا ہے۔“
    ”میں نےاپنی سی کر کےدیکھ لی امی۔ میں تو اپنی زندگی سےوہ مسرت کشید نہیں کر سکاجس کا خواب میں نے ہمیشہ دیکھا۔ جو کچھ ہوا آپ کےسامنےہی۔ پھر بھی۔۔۔“
    ”تم نے آج تک جو بھی کیا‘ اس میں کہیں تمہاری جلدبازی کو دخل ہےاور کہیں دیر کو۔ ہم نےایک ماں ہونےکا تمہیں بھرپور ایڈوانٹیج دیا ہےطاہر۔ ہم نےتمہارےاچھےیا بری‘ غلط یا صحیح ‘ کسی بھی فیصلےکو خوشی سےیا مجبوراً بہر حال قبول کیا۔ تم یہ نہیں کہہ سکتےکہ ہم تمہاری خوشیوں میں کہیں بھی حائل ہوئےہیں۔ اس کےباوجود اگر تم نےٹھوکر کھائی ہےتو تمہیں سنبھلنےکےلئےہم نےوقت بھی دیا ہےاور یہ بات تو تم بھی تسلیم کرو گےکہ ہم نےتمہیں ہر بار جی بھر کےوقت دیاہے۔ ۔۔ لیکن بیٹے۔کب تک؟ کب تک تم اپنےمفروضےپر اڑےرہو گےاور ہم تمہاری ناکامیوں پر چھپ چھپ کر آنسو بہاتےرہیں گے؟“ ان کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
    ”امی۔“ وہ بیتاب سا ہو گیا۔” میں نےاپنی طرف سےکبھی بدنیتی سےکام نہیں لیا۔ جسےبھی انتخاب کیا‘ پورےخلوص اور محبت سےکیا مگر میری قسمت ہی میں کسی کا پیار نہیں ہے۔ شاید مجھےتنہائی کا زہر ۔۔۔“
    ”غلط کہہ رہےہو تم طاہر۔“ بیگم صاحبہ نےاس کی بات کاٹ دی۔ ” اپنی قسمت کو دوش مت دو۔ ہم سمجھتےہیں کہ تمہارا انتخاب نہیں‘ انتخاب کا طریقہ غلط تھا۔ بحث کریں گےتو وقت بھی ضائع ہو گا اور زخموں کےمنہ بھی کھل جائیں گےجبکہ اس وقت ہمارا مقصدیہ نہیں ہے۔ ہم تو چاہتےہیں کہ بہار کےوہ لمحےجو ناکامیوں کی ٹھوکر سےبکھر گئےہیں‘ انہیں خزاں آ جانےسےپہلےسمیٹ کر تمہارےدامن میں ڈال دیں۔ تمہاری تنہائی کو ایک ایسےساتھی کی ضرورت ہےطاہر جو اپنی وفا شعاری اور رفاقت کی پلکوں سےتمہاری زندگی میں خود رو پودوں کی طرح اُگ آنےوالےساری تھکن ‘ ساری محرومی کےکانٹےچن لے۔“
    ”امی۔۔۔“ طاہر نےکچھ کہنےکےلئےلب کھولےمگر بیگم صاحبہ نےہاتھ اٹھا کر اسےخاموش کرا دیا۔
    ” آج ایک ماں کی حیثیت سےنہیں‘ ایک دوست بن کر ہم تمہیں سمجھانا چاہتےہیں طاہر کہ تم جو چاہتےہو شاید وہ تمہارےمقدر میں نہیں ہےیعنی کوئی ایسی ہستی جو تمہاری زوجیت میں آنےسےپہلےتمہیں ٹوٹ کر چاہے‘ ایسا ہونا ممکن ہےتمہارےہاتھ کی لکیروں میں نہ لکھا ہو لیکن یہ تو ممکن ہو سکتاہےناں کہ جو لڑکی بیوی بن کر تمہاری زندگی میں آئی‘ وہ تمہیں اتنی محبت دےدےکہ تمہاری ساری ناکامیاں ‘ ساری محرومیاں سیراب ہو جائیں۔ اور یہ اس لئےبھی ممکن ہےبیٹےکہ ہم مشرق کےلوگ ہیں۔ یہاں کی بیویاں جسےاپنےماتھےکا جھومر بنا لیتی ہیں اسےخدا کےبعد وہ درجہ دیتی ہیں‘ جسےصرف سجدےکا حق حاصل نہیں ہے‘ باقی تمام حقوق وہی ہیں جو خدا کےبعد صرف اور صرف ایک شوہر کو دیےگئےہیں۔پسند کی چیز ایک دکان سےنہ ملےتو دوسری دکان میں نہ جانا حماقت کےسوا اور کچھ نہیں ہوتا طاہر۔ جو شےتمہیں درکار ہےوہ صرف اور صرف ایک بیوی کی محبت ہےاور اسےتم شادی سےپہلےہی حاصل کرنےپر کیوں مصر ہو‘ یہ ہماری سمجھ سےباہر ہے۔“
    ”مجھےخوف آتا ہےامی ۔“اچانک وہ میز سےاٹھ گیا اور کھڑ کی میں جا کھڑا ہوا۔
    ”خوف؟“ بیگم صاحبہ نےحیرت سےکہا۔”کیسا خوف اور کس سے؟“
    ”کیا ضروری ہےامی کہ جو لڑکی میری بیوی بن کر آئےوہ مجھ سےپہلےکسی اور سےانوالو نہ ہو؟“
    ”یہ بات تم پہلےبھی کہہ چکےہو طاہر۔ آخر تم اس وہم میں کیوں مبتلا ہو؟“انہوں نےاپنا رخ اس کی جانب پھیرلیا۔
    ”میرا دوست جمال اسی حادثےکا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جا سویا تھا امی جان۔ اس نےجس لڑکی سےشادی کی ‘ وہ شادی سےپہلےکسی اور لڑکےکو چاہتی تھی۔ جمال سےشادی کےبعد بھی وہ اس لڑکےکو نہ بھول سکی اور اس سےچھپ چھپ کر ملتی رہی۔ جمال نےاس بات سےواقف ہونےکےبعد اسےطلاق دےدی مگر اپنی بیوی پروین کی جدائی اور بےوفائی برداشت نہ کر سکا۔ دو ماہ بعد اس نےخودکشی کر لی۔“
    ”کیا؟“ بیگم صاحبہ کا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا۔
    ”ہاں امی۔“ طاہر کی آواز بھیگ گئی۔ ”وہ میرابچپن کا دوست تھا۔ اس کا خیال آج بھی مجھےرلا دیتا ہے۔ میں اسی خوف سےاس وہم کا شکار ہو گیا ہوں کہ کہیں ایسی ہی بیوی میرےنصیب میں بھی نہ لکھی ہو۔اسی لئےمیں چاہتا تھا امی کہ جس سےشادی کروں ‘ شادی سےپہلےاس سےمیرا محبت کا ایسا تعلق استوار ہو چکا ہو جس میں کسی اور کےسائےکا بھی شائبہ نہ ہو۔“
    ”طاہر۔“ بیگم صاحبہ اٹھ کر اس کےقریب چلی آئیں۔” بیٹےتم نےکیسا وہم پال لیا ہےدل میں۔ یہ تو ناسور بن کر تمہیں چاٹ جائےگا۔“ انہوں نےاس کےماتھےاور پھر بالوں میںپیار سےہاتھ پھیرتےہوئےکہا۔”میری جان۔ ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔یہ تو پروین یا اس جیسی کسی بھی دوسری لڑکی کےماں باپ کو چاہئےکہ وہ شادی سےپہلےبالکل اسی طرح بیٹی سےبھی اس کی پسند اور مرضی معلوم کریں جیسےبیٹےسےمعلوم کرتےہیں۔ میں سمجھتی ہوں اس میں قصور ایسی لڑکی کا کم اور اس کےسرپرستوں کا زیادہ ہوتا ہےجو بیٹی کو اس کی پسند بتانےکا وہ حق نہیں دیتے‘ جو اسےہمارےمذہب نےدیا ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی‘ دونوں کو شادی میں اپنی پسند اور ناپسند یدگی کےاظہار کا یکساں حق حاصل ہے۔ اگر پروین کےوالدین بیٹی کی مرضی سےاس کی شادی کر دیتےتو اسےطلاق ہوتی نہ جمال خودکشی کرتا۔بہرحال تمہارےوہم کا علاج ہےمیرےپاس۔“
    ”یہی ناں کہ مجھےشادی سےپہلےلڑکی سےملاقات کا موقع دیا جائےگا اور میں اس سےایک دو ملاقاتوں میں یہ بات صاف کرنےکی کوشش کر سکوں گا کہ وہ کسی اور سےتو۔۔۔“
    ”ہاں۔“ بیگم صاحبہ نےاثبات میں سر ہلایا۔” اس کا یہی ایک حل ہےمیرےپاس۔“
    “ نہیں امی۔“ طاہر نےان کےہاتھ تھام کر گالوں سےلگا لئی۔” میں ایسانہیں چاہتا۔“
    ”تو پھر۔۔۔؟“ وہ الجھ گئیں۔
    ”دو بار میں نےاپنی سی کر کےدیکھ لی۔ اب آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہےکریں۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہو گا۔“
    ”طاہر۔۔۔“ وہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
    ”ہاں امی۔“ میں اب اندھا داؤ کھیلنا چاہتا ہوں۔ آپ جو لڑکی میرےلئےپسند کریں گی‘ میں اس سےشادی کر لوں گا۔ اسےشادی سےپہلےدیکھوں گا نہ اس سےملوں گا۔ “
    ”ایسا۔۔۔؟“ بیگم صاحبہ کےچہرےپر پھلجھڑیاں سی چھوٹیں۔
    ”ہوں۔“ طاہر نے آنکھیں موند کر ان کےہاتھوں کوہونٹوں سےلگا لیا۔
    ”پھر سوچ لو طاہر۔“
    ”سوچ لیا امی۔“ وہ سرشاری سےبولا۔”مجھےسمجھ آ رہا ہےکہ جب اپنےفیصلےٹھیک نہ بیٹھ رہےہوں تب کسی ایسی ہستی پر اعتماد کر لینا چاہئےجسےدل اپنا خیرخواہ مانتاہو۔ اور ماں سےبڑھ کر کون ہو گا امی‘ جسےاولاد کی بھلائی عزیز ہو۔“
    ”جیتےرہو طاہر۔“ بیگم صاحبہ کا دل گلاب کی طرح کھل گیا۔ آنکھیں چھلک نہ جائیں‘ یہ چھپانےکےلئےانہوں نےطاہر کی جانب سےرخ پھیر لیا۔
    ”امی۔“ طاہر پیچھےسےان کےگلےمیں باہیں ڈال کر لپٹ گیا۔
    ”بس کرو طاہر۔ اتنا لاڈ کرو گےتو ہم رو دیں گی۔“ انہوں نےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔
    ”کبھی نہیں امی۔“ طاہر نےان کےشانےپر سر رکھ کر انہیں زور سےبھینچ لیا۔” میں آپ کو رونےدوں گا تب ناں۔“
    بیگم صاحبہ نےاس کےہاتھوں پر اپنےہاتھ رکھ دیےاور ہولےہولےیوں تھپکنےلگیں جیسےاس کی محرومیوں کو ‘ اس کی ناکامیوں کوگہری نیند سلا دینا چاہتی ہوں۔
    ٭
    بیگم صاحبہ نےبہت زور دیا مگر طاہر نےایک ہی انکار پر کمر باندھےرکھی۔ لڑکی کی تصویر تک دیکھنےسےانکار کر دیا۔اس کی بس ایک ہی رٹ تھی۔”امی۔ آپ جو چاہیں‘ جیسےچاہیں کریں۔ میں آپ کی بہو کو دیکھوں گا تو اسی وقت جب وہ دلہن بن کر اس گھر میں آ جائےگی۔“
    بیگم صاحبہ کو اس کی اس بات پر محتاط ہو جانا پڑا۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان سےکوئی ایسا فیصلہ ہو جائےجو طاہر کےاس اعتماد کو لےڈوبے۔
    ڈاکٹر ہاشمی کےمشورےسی‘ بڑا پھونک پھونک کر سوچتےہوئےانہوں نےایک متوسط گھرانےکی ایسی لڑکی کا انتخاب کیاجو اپنےماں باپ کےمرنےکےبعد اپنی بیوہ ممانی کےپاس رہ رہی تھی۔ ممانی نےاسےحتی الامکان سہولت سےپالا تھا۔ بی اےتک پڑھایا اور سلائی کڑھائی سےلےکر کچن تک ‘ گھر کےتمام کاموں میں طاق کر دیا۔ ممانی کی اپنی دو بیٹیاں تھیں جن کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ اپنےگھروں میں خوش تھیں۔ لڑکی کےماں باپ اور پھر ماموں اتنا کچھ چھوڑ گئےتھےکہ تینوں بچیوں کی شادی کےبعد بیوہ ممانی آرام سےزندگی گزار سکتی تھی۔
    طاہر کےرشتےنےباوقار‘ وسیلہ خاتون کو کتنےہی دن گم صُم رکھا۔ اتنےبڑےگھرانےمیں اپنی بیٹیوں یا اب صفیہ کی شادی کا تو انہوں نےخواب بھی نہ دیکھا تھا۔وہ دمےکی مریضہ اور کئی سال سےڈاکٹر ہاشمی کےزیر ِ علاج تھیں۔ ڈاکٹر ہاشمی انہیں سالوں سےجانتےتھے۔ انہوں نےاس خاندان کےبارےمیں بیگم صاحبہ کو پوری پوری ضمانت دی۔ صفیہ کو بھی وہ بہت اچھی طرح جانتےاور سمجھتےتھے۔ وہ درجنوں بار وسیلہ خاتون کےساتھ ان کےکلینک آ چکی تھی بلکہ بی اےکے آخری سال میں تو وہ ڈاکٹر ہاشمی کےنوجوان بیٹےسرمد ہاشمی سےکئی ماہ تک پڑھائی میں مدد بھی لیتی رہی تھی۔ انہی دنوں وہ صفیہ کےبارےمیں زیادہ جان پائےتھے۔ یتیم اور ہونہار صفیہ کےبارےمیں کبھی کبھار سوچتےتو انہیں بہت اچھا لگتا۔ صفیہ اس لئےبھی انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی۔گھر میں صرف وہ اور سرمد تھے۔ بیوی کےمرنےکےبعد انہوں نےدوسری شادی نہ کی تھی۔ بیٹےکو پالا اور ایم بی اےکےلئےلندن بھجوا دیا۔ اب وہ اپنےہاسپٹل میں مگن رہتےتھے۔ سرمد کی واپسی میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا۔ ایک آدھ بار ان کےدل میں صفیہ اور سرمد کی شادی کا خیال بھی آیا مگر وہ سرمد کی تعلیم میں ایسی کسی بات سےروڑا نہ اٹکانا چاہتےتھےجو اس کا دھیان تعلیم سےہٹا دی۔ اس لئےیہ بات اس کی واپسی پر اٹھا رکھی۔ پھر جب بیگم صاحبہ نےان کےسامنےطاہر کی تازہ صورتحال بیان کرکےجلد از جلد کسی متوسط گھرانےکی لڑکی تلاش کرنےکو کہاتو سب سےپہلےان کےتصور میں صفیہ کا چہرہ ابھرا۔ انہوں نےبیگم صاحبہ سےذکر کیا۔ بیگم صاحبہ نےان کےہاسپٹل ہی میں آ کر ایک دن صفیہ کو بہانےسےدیکھ لیا۔ سرو قد صفیہ کی بھولی بھالی صورت‘ سرخ و سفید رنگ روپ اور شیریں کلامی نےان کا دل پہلی نظر ہی میں مٹھی میں کر لیا۔ انہوں نےڈاکٹر ہاشمی کو وسیلہ خاتون سےبات کرنےکا عندیہ دےدیا۔
    تیسرےدن جب ڈاکٹر ہاشمی نےوسیلہ خاتون سےصفیہ کےلئےطاہر کےبارےمیں بات کی تو ان کا منہ حیرت سےکھل گیا۔ انہوں نےسوچنےکےلئےچند دن کی مہلت مانگی‘ جو ڈاکٹر ہاشمی نےطاہر اور اس کی فیملی کےبارےمیں مکمل معلومات فراہم کرتےہوئےانہیں دےدی۔ساتھ ہی کہا کہ ”جیسےوسیلہ خاتون کےگھرانےکی طرف سےہر قسم کی ذمہ داری مجھ پر ہےاسی طرح بیگم صاحبہ کی طرف سےبھی ہر طرح سےمیں ضامن ہوں۔“
    یہ بہت بڑی بات تھی مگر وسیلہ خاتون زمانےکےنشیب و فراز سےڈرتی تھیں۔ انہیں اپنی بیٹیوں سےزیادہ اپنی یتیم و یسیر بھانجی کا خیال تھا۔ اس لئےوہ کئی دن تک ڈاکٹر ہاشمی سےدوبارہ ملنےنہ آئیں۔ بال آخر ڈاکٹر ہاشمی نےانہیں فون کر کےبلایا اور کسی حتمی فیصلےپر پہنچنےکےلئےبیگم صاحبہ کےخاندان کےبارےمیں چھان بین کی مکمل آزادی دی۔ ساتھ ہی کہا کہ روپےپیسےجائدادوغیرہ جیسی کوئی بھی اور کسی بھی انتہاکو چھوتی ہوئی ضمانت انہیں دی جا سکتی ہے۔
    وسیلہ خاتون نےڈاکٹر ہاشمی کی اس بات پر پھیکےسےانداز میں مسکراتےہوئےکہا۔ ”ڈاکٹر صاحب۔ اگر روپیہ پیسہ ہی بیٹیوں کےسُکھ کا ضامن ہوتا تو آج کسی کروڑ پتی کی کوئی بیٹی دُکھی نہ ہوتی‘ اجڑ کر میکےنہ آ بیٹھتی اور شوہر کےسلوک کی شاکی نہ ہوتی۔ بات تو ساری نصیبوں کی ہےاور نصیب میں کیا لکھا ہے‘ یہ کون جانے؟“
    ”میں آپ کی بات سےسو فیصد متفق ہوں وسیلہ خاتون۔ اور اگر آپ غور کریں تو آپ کی اس بات ہی میں آپ کےاندیشوں اور سوچوں کا حل موجود ہے۔“
    ”یعنی۔۔۔“ ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھ کر انہوں نےاستفسار کیا۔
    ”دیکھئی۔ جب آپ مانتی ہیں کہ ہو گا وہی جو نصیب میں لکھا ہےتو پھر خوف کیسا؟ ہم بےاختیار انسان تو صرف یہی کر سکتےہیں کہ اپنےطور پر پورا اطمینان کر لیں کہ جو قدم ہم اٹھانےجا رہےہیں وہ ہمیں کہیں کسی گڑھےمیں تو نہیں لےجا رہا۔ اگر یہ اطمینان حاصل ہو جائےتو اس کےبعد ہم پرصرف یہ واجب ہےکہ ہم اپنےاللہ کی بارگاہ میں بیٹی کےسُکھ کی دعا کرتےہوئےسرِتسلیم خم کر دیں۔ میں جانتا ہوں کہ بیٹی کا دُکھ کیا ہوتا ہے؟ اس لئےکہ ساری زندگی بیٹی کےلئےترسا ہوں۔ میرےخالق کی مرضی نہ تھی کہ مجھےبھی بیٹی کا باپ ہونےکا اعزاز ملتاوگرنہ میں ‘ سرمد کی ماں کےمرنےتک اس خواہش میں برابر کا شریک تھا کہ ہمارےہاں بھی ایک بیٹی جنم لیتی۔ ہمارےگھر میں بھی اللہ کی رحمت اترتی۔ یہ ساری باتیں کرنےکا سبب یہ ہےوسیلہ خاتون کہ ایک طرف تو میں بیگم صاحبہ کی طرف سےہر بات کا ضامن ہوں‘ دوسری طرف میں نے آپ کو مکمل آزادی دی ہےکہ آپ ان کےبارےمیں جیسےچاہیں چھان بین کر سکتی ہیں۔تیسری بات یہ کہ آپ کی تسلی کےلئےبیگم صاحبہ ایسی ہر ضمانت۔۔۔“
    ”یہ بات رہنےدیں ڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نےان کی بات کاٹ دی۔ ”میری کسی بات کا یہ مطلب ہےہی نہیں۔“
    ”تو پھر کھل کر کہئے‘ بات کیا ہےجو آپ گومگوکا شکار ہیں؟“
    ”بات صرف سٹیٹس کی ہےڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نے آخر کہہ ہی دیا۔ ”ہم اس پائےکےلوگ نہیں ہیں جس سطح سےطاہر کا رشتہ آیا ہے۔ یہی بات میرے”ہاں “کہنےمیں مانع ہے۔“
    ”بس۔۔۔“ ڈاکٹر صاحب نےبغور وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔”اس کےعلاوہ تو کوئی بات نہیں ہے؟“
    ”جی نہیں۔ میں چھان بین کرنےسےبھی انکاری ہوں کہ آپ جیسا زمانہ شناس اور ذمہ دارشخص درمیان میں موجود ہے۔ میری ہچکچاہٹ کا اور کوئی سبب نہیں ہے۔“
    ”تو پھر سینےمیں رکےہوئےخوف سےبوجھل سانس کو آزاد کر دیجئےوسیلہ بہن۔ اگر صفیہ کو کبھی کانٹا بھی چبھ گیا تو دوسرےجہان میں میرا گریبان ہو گا اور آپ کا ہاتھ۔۔۔“
    ”بس ڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نےہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنےسےروک دیا۔ ” آپ کی اس معاملےمیں موجود گی ہی میرےلئےبہت بڑی ضمانت ہی۔ اب آپ نےبہن کہہ دیا تو میں دوسرےجہان کےبوجھ سےابھی آپ کو بری الذمہ کرتی ہوں ۔ اس لئےکہ بیٹیوں کےنصیب اچھےہوں ‘ ہم صرف یہ دعا کر سکتےہیں اس کےلئےکوئی اشٹام لکھا جا سکتا ہےنہ کوئی بوجھ ذمےلیا جا سکتا ہے۔“
    ”تو میں آپ کی طرف سے۔۔۔“
    ”جی ہاں۔ آپ بیگم صاحبہ کو میری طرف سےہاں کہہ دیجئے۔“ وسیلہ خاتون کی آواز بھیگ سی گئی۔ ”ساتھ ہی ان سےصرف یہ عرض کر دیجئےگا کہ صفیہ میری بھانجی نہیں‘ بیٹی ہے۔“
    ”میں انہیں پہلےہی بتا چکا ہوں وسیلہ بہن کہ صفیہ آپ کےلئےاپنی بیٹیوں سےبڑھ کر ہے۔“ڈاکٹر ہاشمی نےجلدی سےکہا۔ ”تاہم ایک بات آپ سےمیں بھی کہنا چاہوں گا۔“
    ”جی جی۔ “ وسیلہ خاتون نے آنکھوں کےگوشےخشک کئے۔
    ”کیا آپ نےصفیہ سےپوچھ لیا؟“
    ”لوگ عام طور پر ایسی باتوں سےگریز کرتےاور ایسا کرنا اپنی غیرت اور شان کےخلاف سمجھتےہیں ڈاکٹر صاحب‘ لیکن میں نےصفیہ سےبرابر پوچھ لیا ہے۔ جواب میں خاموشی اس کی رضامندی کا ثبوت ہے۔“
    ”تو میری طرف سےمبار ک قبول کیجئے۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےخوش ہو کر کہا۔ ”میں آج دوپہر یہاں سےسیدھا بیگم صاحبہ کےہاں جائوں گا اور انہیں بھی یہ خوشخبری سنا دوں گا۔ بتانےکو تو یہ بات انہیں فون پر بھی بتائی جا سکتی ہےمگر میرا جی چاہتا ہےکہ میں یہ خبر انہیں خود جاکر سنائوں۔“
    ”اب جیسے آپ کی مرضی ڈاکٹر صاحب۔ مجھےاجازت دیجئے۔“ وسیلہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئیں۔
    ”ضرور ضرور۔“ ڈاکٹر ہاشمی بھی سیٹ سےاٹھ گئے۔ ”میں آج کل ہی میں اگلا پروگرام آپ کےگوش گزار کر دوں گا۔“
    ”جی۔ اللہ حافظ۔“ وسیلہ خاتون رخصت ہو گئیں اور ڈاکٹر ہاشمی ایسےبیتاب ہوئےکہ وقت سےپہلےہی ہاسپٹل سےنکل پڑے۔
    بیگم صاحبہ نےجب ان کی زبان سےصفیہ کےبارےمیں نوید سنی تو بےاختیار ان کی زبان سے”الحمد للہ“ نکلا۔ڈاکٹر ہاشمی نےانہیں وسیلہ خاتون کےتمام اندیشوں کےبارےمیں کھل کر بتایا تو انہوں نےایک عجیب فیصلہ سنا دیا۔
    ”ڈاکٹر صاحب۔ صفیہ کی ممانی کےاندیشےزمانےکی چال دیکھتےہوئےبےبنیاد نہیں ہیں۔ اس لئےہم نےفیصلہ کیا ہےکہ اپنی میکےکی پشتینی جائداد طاہر کی دلہن کےنام کر دیں گی۔ اس گھر میں آنےپر ہماری طرف سےیہ جائداد اسےمنہ دکھائی میں دی جائےگی۔“
    ”بیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی کا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا۔” آپ جانتی ہیں کہ آپ نےکیا فیصلہ کیا ہے؟“
    ”جی ہاں ڈاکٹر صاحب۔“ وہ بڑےاطمینان بھرےانداز سےمسکرائیں۔ ”ہم خوب جانتےہیں ۔ اور یہ بہت ضروری ہے۔ ایک تو اس لئےکہ صفیہ اور اس کےمیکےوالوں کو زندگی بھر کا اطمینان دلانا ہےاور دوسرےاس لئےبھی کہ ہماری بہو جب اس گھر میں داخل ہو تو کروڑوں کی مالک بن چکی ہو۔“
    اور ڈاکٹر ہاشمی کی زبان تھم گئی۔ انہوں نےمزید کچھ کہنےکاارادہ ترک کر دیا۔بیگم صاحبہ جو فیصلہ کر چکی تھیں اس کےپیچھےخاندانی جاہ وحشم اور وقار بول رہا تھا‘ جس پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنےکو کبھی تیار نہ ہوتیں۔
    اگلےدن سےشادی کی تیاریاں ایک بار پھر پورےزور شور سےشروع ہو گئیں۔ زاہدہ کے آنےپر جس کام کی ابتدا ہوئی تھی‘ اب اسےانجام تک پہنچانےمیں بیگم صاحبہ کسی قسم کی دیر نہ چاہتی تھیں۔اس لئےمحض دو ہفتوں کےوقفےسےنکاح کی تاریخ رکھ دی گئی۔ وسیلہ خاتون کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا کہ وہ مدت سےصفیہ کی شادی کا سامان کئےبیٹھی تھیں۔
    طاہر نےپروفیسر قمر اور امبر کو بلا کر بیگم صاحبہ کےسپرد کر دیا۔ اب وہ تینوں تھےاور شادی کےہنگامی۔ طاہر خاموشی سےایک طرف ہو گیا۔ اسےاگر شادی کی بہت زیادہ خوشی نہ تھی تو کوئی دُکھ بھی نہ تھا ۔ اس نےخود کو حالات کےسپرد کر دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اب مقدر اس کےساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے؟ اس سےقبل ‘وہ شادی سےپہلےکسی کی محبت پانےکےجنون میں مبتلا تھا۔ اب وہ شادی کےبعد محبت مل جانےکی امید سےدل بہلا رہا تھا ۔
    مگر اس کےساتھ کیا ہونےوالاتھا؟ اس سےوہ بالکل ایسےہی بےخبر تھا جیسےہر انسان اپنےساتھ پیش آنےوالےکسی بھی سانحےیا اچانک نکل آنےوالےانعام سےلا علم ہوتا ہے۔

    * * *
     
  2. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت خوب عرفان جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے آپ پتوکی میں کس جگہ رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کبھی آپ کو ڈھونڈ ہی لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب مگر مجھے اس میں بلاک سے نظر‌آتے ھیں اس کی کیا وجہ ھے

    پھر آپ نے سارے قاف ایک ہی جگہ اکٹھے کیوں نہیں لکھے میرا مطلب ہے ایک ہی لڑی میں
     
  4. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ابھی تو ایک چوتھائی بھی نہیں ہوا پورا
    اور رہی بات بلاک کی وہ تو آپ کے منتظمین ہی بتا سکتے ہیں
    ہاں ایک پرابلم رہی یہاں‌
    اس کی تدوین نہیں ہو سکی بہت بار کوشش کی لیکن شائد میرے کمپیوٹر میں اردو نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر تدوین کرنے کا ٹھیک طریقہ نہیں آیا مجھے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان پتوکی بھائی ۔
    بہت اچھا ناول چل رہا ہے۔
    طاہر کو ایک بار پھر بحرِ امید کے برلب ساحل لا کھڑا کردیا گیا ہے۔
    لیکن لگتا ہے مصنف ابھی اسے پھر کسی منجھدھار میں ڈبونے کا پروگرام بنائے بیٹھا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں