1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 3

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏9 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی

    وہ۔۔۔ نظریں جھکائےڈاکٹر ہاشمی کے آفس میں داخل ہوئی۔
    چچا اور چچی کےعلاوہ وہاں ایک اور ایسی ہستی موجودتھی‘ جس کا سامنا کرنےکی اس میں ہمت نہ تھی۔وہ رک گئی۔ چلنےکی سکت ختم ہوگئی۔
    اس نے آہستہ سےنظریں اٹھائیں۔خاموشی۔ سناٹا۔ سکوت۔ ہرچہرہ اداس۔ ہر آنکھ نم۔ ہروجود بےحس و حرکت۔ زاہدہ کی دھڑکن رکنےلگی۔سانس گھٹنےلگی۔ یہ خاموشی، یہ سناٹا‘ یہ سکوت ۔ یوں لگتا تھا جیسےکوئی بہت بڑا طوفان گذر چکا ہو اور اپنےپیچھےاپنی تباہی و بربادی کے آثار چھوڑ گیا ہو۔
    اس کی نظریں بیگم صاحبہ کی نظروں سےٹکرائیں۔کتنا درد تھا ان میں۔ان بوڑھےچراغوں میں ‘جہاں ممتا کی لاش ویرانی کا کفن اوڑھےپڑی تھی۔
    وہ دبدبہ‘ وہ رعب ‘وہ کرختگی۔ کچھ بھی تو نہیں تھاوہاں۔سب ختم ہو چکا تھا۔سب راکھ ہو چکا تھا۔اس نےگھبرا کر نظریں جھکالیں۔ اس کادل کسی انجانےبوجھ تلےدبتا چلا گیا۔
    ”زاہدہ۔ “ایک سرگوشی ابھری۔
    اس نےپلکیں اٹھائیں۔پتھرکےلبوں پر بڑی زخمی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
    ”ہمارےپاس آؤ۔ “جیسےکسی نےالتجا کی ہو۔ وہ ان کی نم آنکھوں میں دیکھتی ہوئی آگےبڑھی۔ مسکراہٹ میں خون کی سرخی گہری ہوگئی۔زخم کا منہ کچھ اور کھل گیا۔
    ”بیگم صاحبہ۔“وہ بلکتی ہوئی ان کےقدموں سےلپٹ گئی۔
    انہوں نےپاؤں کھینچےنہیں۔اسےروکا نہیں۔اس کی زلفوں میں بوڑھےہاتھ سےکنگھی کرتی رہیں۔ وہ کتنی ہی دیران مشفق قدموں سےلپٹی دل کی بھڑاس نکالتی رہی۔ پھرانہوں نے آہستہ سےاسےشانوں سےتھام کر اٹھایا اوراپنےسامنےکھڑا کرلیا۔
    ”منزل مبارک ہو بیٹی۔“ان کےلب کپکپائےاور آنکھیں چھلک گئیں۔انہوں نےاسےلپٹا لیا۔بھینچ لیا۔کتنےہی گرم گرم موتی ان کےرخساروں سےٹوٹ کر زاہدہ کی سیاہ گھٹاؤں میں جذب ہوگئے۔ پھرجب انہوں نےاسےسینےسےالگ کیاتو اسےیوں محسوس ہوا جیسےاس سےکوئی بہت قیمتی شےکھو گئی ہو۔
    ”ابو ۔ “وہ پلٹ کر ڈاکٹر ہاشمی سےلپٹ گئی۔
    ”پگلی۔“ وہ اس کا شانہ تھپکتےہوئےخود بھی بےقابو سےہوگئی۔”میں نےکہا تھا ناں۔ تو میری چند روز کی مہمان بیٹی ہے۔ “ایک باپ دکھی ہو رہا تھا۔
    ”ابو۔ “وہ مزید کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
    پھر اس سسکتی کلی کو‘اس کےاپنی‘ ماضی کےدشمنوں اور حال کےدوستوں نےباہوں میں سمیٹ لیا۔دامن میں بھر لیا۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی۔“
    ”جی بیگم صاحبہ۔ “وہ سر جھکائے آگےبڑھ آئے۔
    ”اختر کس حال میں ہے؟“
    ”یہ اسےگھر لےجاسکتےہیں بیگم صاحبہ۔مسیحا ان کےساتھ ہے۔ “وہ ان کی بات کےجواب میں آہستہ سےبولے۔
    بیگم صاحبہ نےاختر کےوالدین کی جانب بڑی یاس بھری نظروں سےدیکھا۔وہ سمجھ گئے۔ بڑےاداس تھےوہ بھی۔ شاید بیٹےکی حالت نےان کا سارا زہر نکال دیا تھا۔
    ”ہم کس طرح آپ کا شکریہ۔۔۔“
    ”کوئی ضرورت نہیں۔ہم بھی ایک بیٹےکی ماں ہیں۔“بیگم صاحبہ نےبڑی دھیمی سی مسکراہٹ کےساتھ کہا۔”بس ایک کرم کیجئےہم پر۔“
    ”جی۔ آپ حکم کیجئے۔“ چچا کی آواز میں ممنونیت کا دریا بہہ رہا تھا۔
    ”جتنی جلدی ہو سکے آپ یہاں سےرخصت ہو جائیے۔ طاہر ادھر نکل آیا تو ہم اپنے آپ میں نہ رہ سکیں گے۔“
    ”جی۔“ چچا اور چچی کےچہروں پر دھواں سا پھیلا جبکہ زاہدہ سرسوں کےپھول جیسی زرد ہو گئ۔
    ان سب کےسر جھک گئی۔ احسان کےبوجھ سی۔پھر وہ رخصت ہونےکےلئےدروازےکی جانب بڑھ گئے۔
    ”زاہدہ۔“ایک آواز پر وہ رک گئی۔پلٹی اوربیگم صاحبہ کی جانب دیکھنےلگی۔ آہستہ آہستہ اس کےقدم اٹھی۔وہ ان کےقریب چلی آئی۔
    ”ہاتھ لاؤ۔“
    اوربےساختہ زاہدہ کا ہاتھ ان کےہاتھ میں چلا گیا۔
    ”اس پر تمہارا ہی حق تھا۔“ ایک ہیرا اس کی انگلی میں جڑدیا گیا۔
    اس کےہونٹ لرزی۔ہاتھ کی مٹھی بھنچ گئی اور پلکوں کےگوشےپھر نم ہوگئی۔
    ”نہیں۔ اب نہیں۔کبھی نہیں۔ “ ان کےہونٹوں پر پھر ایک خون رستی مسکراہٹ تیر گئی۔
    وہ بےقابو سی ہو کر پلٹ کربھاگتی ہوئی کمرےسےنکل گئی۔
    وقت تھم سا گیا!
    ”ڈاکٹر ہاشمی ۔“ایک شعلہ لرزا۔
    ”جی بیگم صاحبہ۔“ لو تھرتھرائی۔
    ”یہ تھا وہ خوف جو ہمیں طاہر اور زاہدہ کےملاپ سےروکتا تھا۔ ہم جانتےتھےپہلی محبت کبھی بھی زاہدہ کےدل سےنکل نہیں سکےگی۔اختر کا خیال اسےکبھی بھی طاہر میں پوری طرح مدغم نہ ہونےدےگا۔اور ڈاکٹر ہاشمی۔ یہ کہنےکی ضرورت تو نہیں ہےناں کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرےکا لباس ہوتےہیں۔ اس لباس میں کسی اور کا پیوند لباس کو لباس نہیں رہنےدیتا‘ چیتھڑا بنا دیتا ہےاور طاہر چیتھڑےپہن کر زندگی گزار سکتا ہےکیا؟“
    جواب میں ڈاکٹر ہاشمی صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گئے۔بیگم صاحبہ کا اندیشہ کتنی جلدی حقیقت بن کر سامنے آ گیا تھا‘ وہ اس سوچ میں ڈوب گئے۔
    ٭
    کار کا انجن آخری مرتبہ کھانسا اور بےدم ہوگیا۔وہ ڈیش بورڈ پر پڑا گفٹ پیک سنبھالتا باہر نکل آیا۔ شام کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ کوٹھی دلہن بنی ہوئی تھی۔بڑی حسین اور امنگوں بھری مسکراہٹ لبوں پر لئےدھیمےسروں میں کوئی پیارا سا گیت گنگناتاوہ داخلی دروازےکی طرف بڑھا۔دبےپاؤں اندر داخل ہوا۔
    ”امی آج بھی کوئی نئی خریدی ہوئی چیز آگےرکھےمیرا انتظار کررہی ہوں گی۔“ اس نےسوچااور بڑےدلکش خیالات میں گم اوپر جانےوالی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔
    ”امی۔ آپ۔۔۔؟“وہ کھڑکی کےکھلےپٹ کا سہارا لئےکھڑی دور کہیں اندھیرےمیں گھورتی بیگم صاحبہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ وہ خاموش‘ اسی انداز میں کھڑی رہیں۔ ”اس سردی میں ۔اس وقت تک آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟“ وہ ان کےقریب چلا آیا۔ بیگم صاحبہ بدستور چپ رہیں۔
    ” آپ بولتی کیوں نہیں امی؟“وہ گھبرا سا گیا۔
    تب وہ آہستہ سےپلٹیں اوراس کےذہن کوجھٹکا سا لگا۔ دل بڑےزور سےدھڑکا۔ سوجی سوجی آنکھیں‘ جن میں کبھی بھوری چٹانوں کی سی سختی کےسوا کچھ دکھائی نہ دیا تھا۔زرد رنگت جوہمیشہ وقار اور دبدبےکےبوجھ سےابلتےہوئےخون کی چغلی کھاتی تھی۔ کملایا ہوا چہرہ‘جس پر پہاڑوں کےعزم اور آسمانوں کی سی عظمت کےسوا کبھی کچھ نہ ابھرا تھا۔
    ”امی۔ “کسی انجانےحادثےکی وہ منہ بولتی تصویراس کا صبر و قرار چھین لےگئی۔ ”کیا بات ہےامی ؟“وہ تڑپ اٹھا۔
    وہ بڑی دردبھری نظروں سےاس کےمعصوم سےخوفزدہ چہرےکو گھورتی رہیں۔
    ”بولئےامی۔ آپ بولتی کیوں نہیں؟“ وہ بےپناہ بےقراری سےبولا۔
    انہوں نےسر جھکا کررخ پھیرتےہوئےقدم آگےبڑھا دیے۔
    ”امی ۔ “وہ تیزی سےان کےسامنےچلا آیا۔” آپ کو میری قسم امی۔“
    انہوں نےبڑےکرب سےپلکیں بھینچ لیں۔پتھر سےچشمہ پھوٹ نکلا۔وہ گنگ سا کھڑا ان کی طرف بڑی عجیب سی نظروں سےدیکھنےلگا۔
    ”زاہدہ۔۔۔“ایک سسکی ان کےکانپتےلبوں سے آزاد ہوگئی۔
    ”کیا ہوا اسے؟“ وہ بےچینی سےبولا۔
    ”چلی گئی۔“ڈاکٹر ہاشمی کی آواز‘ اس کی سماعت کےلئےتو بہ شکن دھماکہ ثابت ہوئی۔وہ لڑکھڑا گیا۔
    گفٹ پیک اس کےہاتھ سےچھوٹ کر چمکدار فرش پر آرہا۔سنگ مر مر کا خوبصورت اور بےداغ تاج محل ٹکڑےٹکڑےہوگیا۔بکھر گیا۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سےمنہ پھیرےکھڑی بیگم صاحبہ اور سرجھکائےڈاکٹر ہاشمی کو گھورتا رہ گیا۔
    کتنی ہی دیر۔۔۔ ہاں کتنی ہی دیر اس اذیت ناک خاموشی کےقبرستان میں ارمانوں کےمزار پر کھڑےگزر گئی۔بجھتےچراغوں کا دھواں نظروں کی دھندلاہٹ میں بدل گیا۔
    ”چلی گئی۔۔۔؟“ایک سپاٹ‘ جذبات سےعاری‘ دھیمی سی صدا ابھری۔
    جھکےہوئےسر اٹھے۔
    ”بیٹی۔“ بیگم صاحبہ کا دل جیسےپھٹ گیا۔
    ”اور آپ اسےروک بھی نہ سکی۔“اس کا لہجہ درد سےپُر تھا۔بیگم صاحبہ نےتڑ پ کر پھر رخ پھیر لیا۔
    ”وہ کیوں چلی گئی امی؟“ وہ بچوں کی طرح سوال کر بیٹھا۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی ۔“بیگم صاحبہ نےسسک کر صوفےکا سہارا لےلیا۔”اسےبتا ئیےڈاکٹر ہاشمی‘ وہ کیوں چلی گئی۔“ان کی آواز بھیگ گئی۔
    ”میں جواب آپ سےچاہتا ہوں امی۔ “وہ جیسےکرب سےچیخ اٹھا۔تڑپ کر ان کےسامنے آکھڑا ہوا۔”جواب دیجئے۔ وہ کیوں چلی گئی۔کہاں چلی گئی۔کس کےساتھ چلی گئی؟“ وہ ان کو جھنجھوڑتا ہواچیخ اٹھا۔
    ”اختر موت کےدہانےپر کھڑا تھا۔اسےجانا پڑا۔“
    ”اختر کا گھر اس کی منزل تھا۔ وہ وہیں لوٹ گئی۔“
    ”اختر اس کی محبت ہی۔ اسی کےساتھ چلی گئی۔“
    ”نہیں نہیں نہیں۔“ وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کرپوری قوت سےچیخ اٹھا۔
    نہ جانےکس ضبط سےاس نےاپنےدل کا خون رخساروں پر چھلکنےسےروکا ۔اس کی آنکھیں کتنی ہی دیر بھنچی رہیں‘جیسےاسےزہر کےتلخ اور کسیلےگھونٹ حلق سےاتارنا پڑےہوں۔جیسےوہ زہر اس کےجسم کی ہر رگ کو کاٹ رہا ہو۔ اس کےہاتھ مضبوطی سےکانوں پر جمےرہے۔ جیسےاب وہ کچھ سننےکی تاب نہ رکھتا ہو۔جیسےاب اگر ایک لفظ بھی اس کےکانوں کےپردوں سےٹکرایاتو وہ ہمیشہ کےلئےسماعت سےمحروم ہو جائےگا۔پھروہ آہستہ سےپلٹا۔
    بیگم صاحبہ دل کو دونوں ہاتھوں میں جکڑےصوفےپر بیٹھتی چلی گئیں۔کھڑےہونےکی سکت ہی کہاں رہ گئی تھی ان میں۔
    ڈاکٹر ہاشمی نےچہرےپر ابھر آنےوالےکرب کو رخ پھیر کر چھپاتےہوئےصوفےکی پشت کا سہارا لےلیالیکن وہ ہر ایک سےبےنیاز‘ دھیرےدھیرےزمین پر بیٹھتا چلا گیا۔اس کےلرزتےہوئےبےجان‘ بےسکت ہاتھ ٹوٹےہوئے‘ بکھرےپڑےتاج محل کےٹکڑوں سےٹکرائے۔
    ”تو کیا تاج محل صرف چاندنی راتوں ہی میںمحبت کی کہانیاں سنتا ہی۔ اندھیری راتوں میں یہ خود بھی بکھر ا رہتا ہےکیا؟“وہ مر مر کےبےجان ٹکڑوں پر ہاتھ پھیرتےہوئےبڑ بڑایا۔
    دھیرےدھیرےاس نےتمام ٹکڑوں کو دونوں ہاتھوں میں سمیٹ لیا۔ آہستہ سےاٹھا اور ہولےہولےچلتا ہوا اوپر جانےوالی سیڑھیوں کی جانب بڑھتا چلا گیا۔
    ”طاہر۔“بیگم صاحبہ کی غمزدہ آواز نےاس کےقدم روک لئےلیکن وہ پلٹا نہیں۔
    ایک لمحےکا وقت معنی خیز خاموشی میں بیت گیا۔
    ”گھبرائیےنہیں امی۔ ابھی دل دھڑک رہا ہی۔ لاشیں بےگوروکفن بھی تو پڑی رہتی ہیں۔“وہ کہہ کر آگےبڑھ گیا۔
    سائےگہرےہوتےچلےگئی۔شبِ پُرنم کی زلفیں کھلتی چلی گئیں۔شبنم گرتی رہی ۔ اور خزاں کا کہر ہر سو پھیلتا چلا گیا۔ پھیلتا چلا گیا۔
    سمور کےکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالےدوسرےہاتھ میں بڑا سا پیکٹ سنبھالےوہ گنگناتی ہوئی آفس میں داخل ہوئی۔ہر سو ایک بےنام اور خلاف معمول خاموشی کا راج تھا۔ہر شخص سرجھکائےاپنےکام میں مشغول تھا۔
    اس کےخوبصورت ہونٹ ساکت ہوگئی۔بڑی بڑی آنکھوں میں ہلکی ہلکی الجھن تیرنےلگی۔ہر وقت قہقہوں میں ڈوبا رہنےوالا آفس اداسی میں تہہ نشین تھا۔وہ آہستہ آہستہ چل پڑی۔رجسٹر پر جھکی نجمہ اس کےقدموں کی آہٹ پر چونکی۔
    ”اوہ ۔امبر۔۔ ۔“وہ اس کی جانب دیکھ کر آہستہ سےمسکرائی۔
    سر کےاشارےسےسب سےسلام لیتےاور دیتےہوئےوہ اس کی میز کےقریب پہنچ گئی۔
    ”کیا بات ہےبھئی۔ آج گلشن اداس ہی۔“وہ اس کی میز پر بیٹھ گئی۔
    ” آج باس اداس ہیں۔ “نجمہ دھیرےسےبولی۔
    ”اداس۔۔۔؟“ وہ چونک پڑی۔
    ”ہاں۔“
    ”مگر کیوں؟“
    ”کوئی نہیں جانتا۔بس۔صبح خاموشی سے آئی۔ کسی سےسلام لیا نہ کسی سےبات کی۔سیدھے آفس میں چلےگئی۔اب تک وہیں بندہیں۔“
    امبر کسی سوچ میں گم ہوگئی۔نجمہ اپنا کام نبٹانےلگی۔
    ”اچھا ۔میں مل کر آتی ہوں۔یہ کارڈ آگئےہیں۔ یہ دے آؤں ۔ شاید کچھ وجہ بھی معلوم ہو جائےاس بےوقت اداسی کی۔کل تو ان کی شادی ہے۔“
    ”ہاں ۔ تم سےکچھ نہیں چھپائیں گی۔ ان کی چہیتی ہوناں۔“ نجمہ شرارت سےبولی۔
    ”تم جلا کرو۔ “وہ پیکٹ ہاتھ میں لئےمسکراتی ہوئی چل دی۔سب کی نظریں پل بھر کواٹھیں اور جھک گئیں۔
    دروازہ آہستہ سےکھلا۔وہ چونکا۔اس کی سرخ سرخ آنکھیں دروازےسےاندر داخل ہوتی ہوئی امبر پر جم گئیں۔
    ”مارننگ سر۔“اس نےمخصوص لہجےمیں کہا اور ساتھ ہی اس کا نرم و نازک ہاتھ ماتھےپر پہنچ گیا۔
    ”مارننگ۔“ وہ جیسےبڑ بڑایا۔
    وہ پل بھر کو ٹھٹکی۔پھرہولےہولےمسکراتی ہوئی اس کی میز کےقریب چلی آئی۔
    ”لیجئےسر۔ آپ کےمیریج کارڈ۔۔۔“وہ پیکٹ اس کےسامنےرکھتےہوئےمیز کےکونےسےٹک گئی۔
    اس کی حالت ایکدم بدل گئی۔چہرےپر زردی اور سرخ آنکھوں میں بےچینی سی پھیل گئی مگرپھر فورا ًہی وہ سنبھل گیا۔
    ”کیا بات ہےسر۔ آپ رات ٹھیک سےسوئےنہیں کیا؟“وہ گہری نظروں سےاس کی بدلتی ہوئی حالت اور سرخ سرخ آنکھوں کو پرکھتےہوئےدھیرےسےسیدھی ہو کر کھڑی ہوگئی۔
    ” آں۔۔۔ نہیں تو۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ “ وہ جیسےبڑےدرد سےبادل نخواستہ مسکرایا۔ پھر کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ اس نےکارڈز کا پیکٹ چھو کر بھی نہ دیکھا ۔
    ”سر۔ “وہ ڈر سی گئی۔اس کا معصوم دل دھڑک اٹھا۔یہ بےچینی ، یہ اضطراب ، یہ کسی چیز کو پوشیدہ رکھنےکی سعی ہے۔ وہ بچی نہیں تھی۔ یہ کسی المیےہی کی نشانی ہے۔ اس نےسوچا۔
    ” آں۔۔۔“ اس نےسر جھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔
    ”سر۔مجھےلسٹ دےدیجئے۔ میں نام ٹائپ کردوں۔“ وہ چاہتےہوئےبھی اس کی پریشانی کی وجہ پوچھتےپوچھتےرہ گئی۔
    جواب میں اس کےہونٹوں پر‘خشک ہونٹوںپر بڑی کرب انگیز مسکراہٹ تیر گئی۔
    ”سر۔ آپ کچھ پریشان ہیں؟“وہ کہتےہوئےنہ جانےکیوں اس سےنظریں چرا گئی۔
    ”ہاں۔ بہت پریشان ہوں امبر۔“وہ کھوئےکھوئےلہجےمیں بولا۔
    ”مجھےبتائیےسر۔شاید میں آپ کےکچھ کام آسکوں۔“وہ بےتابی سےبولی۔
    ”تم۔۔۔؟“ وہ خالی خالی نظروں سےاس کےچہرےکو تکنےلگا۔”ہاں۔تم میری پریشانی کا خاتمہ کرسکتی ہو۔“اس کا لہجہ اب بھی ویران ویران سا تھا۔
    ”کہئےسر۔“وہ کچھ اور بےچین ہوگئی۔
    اس کی نظریں پیکٹ میں بندھےکارڈوں پر جم گئیں۔”امبر۔ یہ کارڈ ہیں نا۔۔۔“ وہ ان پر ہاتھ پھیرتےہوئے آہستہ سےبولا۔
    ”یس سر۔“ وہ حیران سی ہوگئی۔
    ”ان کو۔۔۔ان کو آگ لگا دو امبر۔ “وہ اسی خالی خالی سپاٹ آواز میں بولا۔
    امبر پھٹی پھٹی نظروں سےاسےدیکھتی رہ گئی۔
    ”امبر۔ انہیں جلا کر راکھ کردو۔شعلوں میں پھینک دو۔“وہ تڑپ کر کھڑا ہوگیا۔”یہ ۔۔۔ یہ مجھےراس نہیں آئےامبر۔ انہیں یہاں رہنےکا کوئی حق نہیں۔ کوئی حق نہیں امبر۔“ وہ پیکٹ پر جھپٹ پڑا۔ ۔۔چند ہی لمحوں بعد فرش پر ہر سو کارڈز کےپرزےپھیل گئے۔امبر حیرت بھری پھٹی پھٹی نگاہوں سےسب کچھ دیکھتی رہی۔اس کےسوچنےسمجھنےکی ہر صلاحیت دم توڑ گئی۔
    ”یہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟“ وہ سوچتی رہی۔ اوروہ فرش پر بکھرےان بےجان پرزوں کوویران ویران ‘سرخ سرخ شب بیدار آنکھوں سےتکتارہا۔
    ”بیٹھ جاؤ امبر۔ کھڑی کیوں ہو؟“ وہ تھکےتھکےلہجےمیں بولا۔
    وہ کسی بےجان مشین کی طرح کرسی پر گرگئی۔ اس کی نظریں اب بھی طاہر کےستےہوئےچہرےپر جمی تھیں۔
    ”سر۔ “کتنی ہی دیر بعد دھیرےسےاس نےکہا۔طاہر نےاس کی جانب دیکھا۔”یہ سب کیسےہوا سر؟ کیوں ہوا؟“اس کی آواز بےپناہ اداسی لئےہوئےتھی۔
    ”پگلی۔“ وہ بڑےکرب سےہنسا۔
    ”سر۔وہ تو آپ کےساتھ۔۔۔“
    ” دو دن بعد شادی کرنےوالی تھی۔“اس نےامبر کی بات کاٹ دی۔
    ”جی سر۔ اور پھریہ انکار۔۔۔“
    ”وہ کسی اور سےمحبت کرتی تھی امبر۔ “وہ مسکرایا ۔بڑےعجیب سےانداز میں۔
    ”سر۔۔۔“
    ”ہاں امبر۔ اس کا محبوب موت کی دہلیز پر کھڑا اسےپکاررہاتھا۔ وہ زندگی بن کر اس کےپاس واپس لوٹ گئی۔“
    ”اور آپ۔۔ ۔؟ “وہ بےساختہ کہہ اٹھی۔
    ”ابھی تک زندہ ہوں۔نہ جانےکیوں؟“ وہ پھر مسکرایا۔
    اورنہ جانےکیوں امبر کا جی چاہا۔وہ رودی۔ لاکھ ضبط کےباوجود اس کی پلکوں کےگوشےنم ہوگئی۔
    ”اری۔۔۔“ وہ اسےحیرت سےدیکھ کر بولا۔اٹھ کھڑا ہوا۔”تم رو رہی ہو۔ “وہ اس کےقریب چلا آیا۔”پگلی۔تم سن کر رودیں۔میں تو سہہ کر بھی خاموش رہا۔“
    ”سر۔ آپ ہمارےلئےکیا ہیں؟ آپ نہیں جانتی۔ آپ کی ذرا سی خاموشی اور اداسی نےسارے آفس پر موت کا سا سناٹا طاری کردیا ہی۔کیوں؟ کیوںسر؟“ وہ بےچین ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
    ”امبر۔“ وہ اس کی کانپتی آواز کےزیر و بم میں کھو کر رہ گیا۔
    ”صرف اس لئےسر کہ آپ ۔۔۔ آپ اس آفس کےچپڑاسی سےلےکر مینجرتک کےلئےکسی دیوتا سےکم نہیں ہیں۔ پُر خلوص‘بےلوث‘بےپناہ محبت کرنےوالادیوتا۔ آپ نےاپنے آفس میں ان بیروزگاروں کو ‘اپنےدالدین ‘بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کےواحد سہاروں کواس وقت پناہ دی‘ جب وہ مایوسی کی باہوں میں سما جانےکا فیصلہ کرچکےتھی۔ وہ آپ کےدکھ درد ‘ آپ کی مسرت کو آپ سےزیادہ محسوس کرتےہیں سر۔ آپ اداس ہوں تو اس چھوٹےسےگلستاں کا ہر باسی مرجھا جاتا ہے۔ آپ خوش ہوں توان کی زندگی میں بہار رقصاں ہوجاتی ہے۔ یہ سب آپ کےسہاری‘ آپ کی مسکراہٹوں کےسہارےجیتےہیں سر۔ آپ پر اتنا بڑا حادثہ اتنا بڑا سانحہ گزر جائےاور ہم پتھر بنی‘ مرجھائےہوئےبےحس پھولوں کی طرح آپ کو تکتےرہیں۔کیسےسر؟ ہم یہ کیسےکریں؟“
    ”چپ ہو جاؤ امبر ۔ چپ ہو جاؤ۔ “اس نےگھبرا کر اس کےکانپتےلبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”میں ۔۔۔میں تو پاگل تھا۔دیوانہ تھا۔مجھےایک فرد کی محبت نے‘ایک تھوڑی سی محبت نے‘اتنی ڈھیر ساری محبت ‘اتنےبہت سوں کےپیار سےپل بھر میں‘ کتنی دور پہنچا دیا۔میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تم لوگ مجھےاتنا چاہتےہو۔ مجھ سےاتنا پیار کرتےہو۔ بخدا امبر۔ میں اب بالکل اداس نہیں ہوں۔بالکل پریشان نہیں ہوں۔میں ۔۔۔میں تو مسکرا رہا ہوں۔ہنس رہا ہوں۔میرےاتنےسارےاپنےہیں۔ ایک بیگانہ چلا گیاتو کیا ہوا ؟ کیا ہوا امبر؟ کچھ بھی تو نہیں؟ پھر میں کیوںاداس رہوں؟ میں کیوں افسوس کروں۔ دیکھو۔ میں مسکرارہا ہوں امبر۔ میں ہنس رہا ہوں۔ ہنس رہا ہوں۔ ہا ہا۔ ہا ہا۔ میں ہنس رہا ہوں امبر۔ دیکھو۔ ہا ہاہا۔ میں ہنس رہا ہوں۔ ہا۔ ہا ۔ ہا ۔ ہاہا۔“اس کی آواز بھرا گئی اور وہ پاگلوں کی طرح رقت آمیز انداز میں ہنستا چلا گیا۔بالکل دیوانوں کی مانند۔پھر جب مزید قہقہےلگانےکی سکت ہی نہ رہی تو اس کی آواز دھیمی ہوتےہوتےبالکل رک گئی۔امبر نےدیکھا۔اس کےلب اب بھی مسکراہٹ کےانداز میں وا تھےاور آنکھوںکی نمی چھلکنےکو تھی۔
    ”سر۔“ اس کی آواز تھرا گئی۔”دکھ بھرےقہقہوں سےدل کےزخم بھرنےکی بجائےکچھ اور کھل جایا کرتےہیں۔ “وہ پلٹ کر تیزی سےدروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔باہر جمع ہجوم اسےروک نہ سکا۔وہ دوڑتی ہوئی آفس سےباہر نکل گئی۔
    ٭
    زندگی۔۔۔کسی ویرانےکی طرح اداس ‘کسی بےزبان کی طرح خاموش اور کسی لاش کی طرح سرد ہوتی چلی گئی۔
    بہارکچھ اس انداز سےرخصت ہوئی تھی کہ خزاں نےگلشن میں ہر سوڈیرےڈال لئی۔جیسےہمیشہ کو اس نےیہ کھوکھلا چمن خرید لیا ہو۔
    زندگی۔۔۔ ہاں‘اگر سانس کی آمدو رفت کو زندگی کہتےہیں تو وہ واقعی زندگی تھی‘ جو اس کےساتھ ساتھ چل رہی تھی۔گھسٹ رہی تھی۔اس کےسوکھےہوئےلبوں پر اب بھی مسکراہٹ ابھرتی تھی لیکن یہ مسکراہٹ کتنی کرب آلود ہوتی تھی۔وہ اب بھی قہقہےلگاتا تھامگران قہقہوں میں کتنی چیخیں چھپی ہوتی تھیں ‘ یہ وہ خود بھی جانتا تھا۔
    بیگم صاحبہ!
    ہروقت کھوئی کھوئی اور حسرت بھری نگاہوں سےاسےتکا کرتیں۔وہ ان ویران ویران سےجلتےبجھتےچراغوں کی سسکتی ہوئی روشنی سےدامن بچا کر گذر جاتا۔
    وقت گزرتا رہا ۔انجانی رفتار سے۔ یوں ہی دو سال گزر گئے۔
    ایک بیگانہ اپنا بنتےبنتےرہ گیا تھااور کتنےبیگانےپل بھر میں اپنےبن گئے۔وہ سوچتااور پھر نجانےکیوں ہنس دیتا‘بڑےکرب سے۔وقت اگر زخم دےکر مرہم نہ رکھےتواس دنیا سےزندگی اور موت ‘دونوں کا وجود ناپید ہو جائے۔ختم ہو جائے۔
    پُرسکون جھیل میں پتھر گرا۔لہریں کناروں سےبپھر بپھر کر ٹکرائیں۔بھنور ابھری۔گرداب پھیلےلیکن جب پتھر اس جھیل کی تہہ میں بےجان بوجھ بن کر رہ گیا۔ ایک خلش بن کر پڑرہا ‘تو لہریں پھر سمٹ گئیں۔بھنور دم توڑ گئی۔گرداب سکوت پذیر ہوگئی۔ جھیل کےساکت پانی میں پھر ایک کنول کھلا۔
    اوراس کنول کا نام تھا۔۔۔امبر۔ اس کی خوبصورت‘ پرسنل سیکرٹری۔
    خلوص اور ہمدردی کا منہ بولتا پیکر‘جس نےاسےزندہ رہنےکا حوصلہ دیا ۔اسےزندگی کےسامنےچٹان بن جانےکا عزم بخشا ۔جو مسلسل اس کےخزاں آلود گلشن میں اپنی پیاری پیاری مسکراہٹوں کےپھول کھلارہی تھی۔
    وہ چپکےسےاپنی ناکام خواہش کےمندر میں اسےدیوی بنا کر بٹھانےکی سوچنےلگاجبکہ وہ اس کی ہر سوچ سےبےخبر تھی۔ہر خیال ‘ ہر فیصلے‘ ہر تصور سےبےبہرہ تھی۔اسےتو بس ایک ہی بات سےغرض تھی کہ وہ اسےہر وقت خوش رکھے۔ اسےقہقہےلگاتا دیکھتی رہے۔اسےایک ہی دھن تھی کہ اس کا باس ہر وقت مسکراتا رہےاوریہ اسی کی عنایت تھی کہ آج زاہدہ کےدیےہوئےزخم پر کھرنڈ جم چکا تھا۔ ٹیسیں اٹھنا بند ہوگئی تھیں۔ہاں ‘ کبھی کبھی زخم کےگرد دل کو کچلتی ہوئی میٹھی میٹھی جان لیوا خارش سی ہوتی۔ یادوں کی سرخی ابھر آتی تو وہ بےچین ہو اٹھتا اوراس اضطراب آلود کیفیت سےاس وقت بھی اسےصرف اور صرف امبر کی من موہنی ہستی نجات دلاتی۔
    کبھی پکچر ‘ کبھی لنچ ‘ کبھی ڈنراور کبھی سارے آفس کےساتھ ایکدم بن جانےوالا پکنک پروگرام۔ یہ سب امبر ہی کی تو نوازشیں تھیں۔وہ مالک اور ملازم کےدائرےسےنکل کردوستی کےحلقےمیں داخل ہوچکےتھے۔
    زندگی پھر کروٹ لینےکو پر تول رہی تھی۔وقت کا بوڑھا ہاتھ داستانِ حیات کا ایک اور ورق الٹنےکو متحرک ہو رہا تھا۔
    جھیل کی سطح پر ہر سو پھیلی کہر چھٹنےلگی۔دھند کی چادرچاک ہونےلگی۔دھواں وقت کی فضا میں تحلیل ہونےلگا۔جھیل میں ایک پُرزور لہر نےطوفان سا بپا کردیا۔جیسےایک ناکام تمنا اپنی منزل کو سامنےپا کر بےقابو ہو جائے۔وہ آگےبڑھے۔ پورےزور سے۔ پھررک گئے۔ناکامی‘ شکست اور ماضی۔ایک سوال ‘ایک ٹیس بن کر اس کےذہن میں ابھرےاور حواس پر چھاتےچلےگئے۔ اس کا جوش دم توڑ گیا۔ہوش آنےلگا ۔
    ”منزل تمہارےپاس خود چل کر نہ تو آئےگی۔ “سوچ نےکہا۔
    ”میں تمہارےساتھ ہوں۔“دل سےصدا ابھری ۔
    اورمسافر کےقدم بےاختیارراستےپر اٹھ گئے۔
    منزل دور نہ تھی مگر اندھیرےمیں ڈوبی ہوئی تھی۔اس کی آمد سےبےخبر‘ گہری نیند سو رہی تھی۔ بےخبری کی نیند۔وہ امیدکا دامن تھامے‘ قدم بہ قدم آگےبڑھتا چلا گیا۔
    زندگی۔۔۔کسی ویرانےکی طرح اداس ‘کسی بےزبان کی طرح خاموش اور کسی لاش کی طرح سرد ہوتی چلی گئی۔
    بہارکچھ اس انداز سےرخصت ہوئی تھی کہ خزاں نےگلشن میں ہر سوڈیرےڈال لئی۔جیسےہمیشہ کو اس نےیہ کھوکھلا چمن خرید لیا ہو۔
    زندگی۔۔۔ ہاں‘اگر سانس کی آمدو رفت کو زندگی کہتےہیں تو وہ واقعی زندگی تھی‘ جو اس کےساتھ ساتھ چل رہی تھی۔گھسٹ رہی تھی۔اس کےسوکھےہوئےلبوں پر اب بھی مسکراہٹ ابھرتی تھی لیکن یہ مسکراہٹ کتنی کرب آلود ہوتی تھی۔وہ اب بھی قہقہےلگاتا تھامگران قہقہوں میں کتنی چیخیں چھپی ہوتی تھیں ‘ یہ وہ خود بھی جانتا تھا۔
    بیگم صاحبہ!
    ہروقت کھوئی کھوئی اور حسرت بھری نگاہوں سےاسےتکا کرتیں۔وہ ان ویران ویران سےجلتےبجھتےچراغوں کی سسکتی ہوئی روشنی سےدامن بچا کر گذر جاتا۔

    وقت گزرتا رہا ۔انجانی رفتار سی۔ یوں ہی دو سال گزر گئی۔
    ایک بیگانہ اپنا بنتےبنتےرہ گیا تھااور کتنےبیگانےپل بھر میں اپنےبن گئے۔وہ سوچتااور پھر نجانےکیوں ہنس دیتا‘بڑےکرب سی۔وقت اگر زخم دےکر مرہم نہ رکھےتواس دنیا سےزندگی اور موت ‘دونوں کا وجود ناپید ہو جائی۔ختم ہو جائی۔
    پُرسکون جھیل میں پتھر گرا۔لہریں کناروں سےبپھر بپھر کر ٹکرائیں۔بھنور ابھری۔گرداب پھیلےلیکن جب پتھر اس جھیل کی تہہ میں بےجان بوجھ بن کر رہ گیا۔ ایک خلش بن کر پڑرہا ‘تو لہریں پھر سمٹ گئیں۔بھنور دم توڑ گئی۔گرداب سکوت پذیر ہوگئی۔ جھیل کےساکت پانی میں پھر ایک کنول کھلا۔
    اوراس کنول کا نام تھا۔۔۔امبر۔ اس کی خوبصورت‘ پرسنل سیکرٹری۔
    خلوص اور ہمدردی کا منہ بولتا پیکر‘جس نےاسےزندہ رہنےکا حوصلہ دیا ۔اسےزندگی کےسامنےچٹان بن جانےکا عزم بخشا ۔جو مسلسل اس کےخزاں آلود گلشن میں اپنی پیاری پیاری مسکراہٹوں کےپھول کھلارہی تھی۔
    وہ چپکےسےاپنی ناکام خواہش کےمندر میں اسےدیوی بنا کر بٹھانےکی سوچنےلگاجبکہ وہ اس کی ہر سوچ سےبےخبر تھی۔ہر خیال ‘ ہر فیصلے‘ ہر تصور سےبےبہرہ تھی۔اسےتو بس ایک ہی بات سےغرض تھی کہ وہ اسےہر وقت خوش رکھی۔ اسےقہقہےلگاتا دیکھتی رہے۔اسےایک ہی دھن تھی کہ اس کا باس ہر وقت مسکراتا رہےاوریہ اسی کی عنایت تھی کہ آج زاہدہ کےدیےہوئےزخم پر کھرنڈ جم چکا تھا۔ ٹیسیں اٹھنا بند ہوگئی تھیں۔ہاں ‘ کبھی کبھی زخم کےگرد دل کو کچلتی ہوئی میٹھی میٹھی جان لیوا خارش سی ہوتی۔ یادوں کی سرخی ابھر آتی تو وہ بےچین ہو اٹھتا اوراس اضطراب آلود کیفیت سےاس وقت بھی اسےصرف اور صرف امبر کی من موہنی ہستی نجات دلاتی۔
    کبھی پکچر ‘ کبھی لنچ ‘ کبھی ڈنراور کبھی سارے آفس کےساتھ ایکدم بن جانےوالا پکنک پروگرام۔ یہ سب امبر ہی کی تو نوازشیں تھیں۔وہ مالک اور ملازم کےدائرےسےنکل کردوستی کےحلقےمیں داخل ہوچکےتھے۔
    زندگی پھر کروٹ لینےکو پر تول رہی تھی۔وقت کا بوڑھا ہاتھ داستانِ حیات کا ایک اور ورق الٹنےکو متحرک ہو رہا تھا۔
    جھیل کی سطح پر ہر سو پھیلی کہر چھٹنےلگی۔دھند کی چادرچاک ہونےلگی۔دھواں وقت کی فضا میں تحلیل ہونےلگا۔جھیل میں ایک پُرزور لہر نےطوفان سا بپا کردیا۔جیسےایک ناکام تمنا اپنی منزل کو سامنےپا کر بےقابو ہو جائے۔وہ آگےبڑھی۔ پورےزور سے۔ پھررک گئی۔ناکامی‘ شکست اور ماضی۔ایک سوال ‘ایک ٹیس بن کر اس کےذہن میں ابھرےاور حواس پر چھاتےچلےگئے۔ اس کا جوش دم توڑ گیا۔ہوش آنےلگا ۔
    ”منزل تمہارےپاس خود چل کر نہ تو آئےگی۔ “سوچ نےکہا۔
    ”میں تمہارےساتھ ہوں۔“دل سےصدا ابھری ۔
    اورمسافر کےقدم بےاختیارراستےپر اٹھ گئے۔
    منزل دور نہ تھی مگر اندھیرےمیں ڈوبی ہوئی تھی۔اس کی آمد سےبےخبر‘ گہری نیند سو رہی تھی۔ بےخبری کی نیند۔وہ امیدکا دامن تھامی‘ قدم بہ قدم آگےبڑھتا چلا گیا۔
    ٭
    راستہ طویل نہ تھا مگراس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بےتحاشا لپک کر منزل کا دامن تھام لیتا۔
    انتظار۔۔۔ہاںاسےانتظار کرنا تھا۔
    ابھی تو اسےمنزل‘سوئی سوئی منزل‘ بےخبر منزل کےبارےمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اسےاپنا مسافر بھی تسلیم کرتی ہےیا نہیں؟ابھی تو یہ سب خواب تھے۔ سراب تھے۔
    اس نےکتنی ہی مرتبہ کوشش کی اور کئی باراس کی زبان پر آ کر دل کی بات رک گئی۔وہ مضطرب سا ہو جاتا ۔پہلو بدل کر رہ جاتا۔بےچینی اس کےرگ و پےمیں بجلی بن کر سرایت کرجاتی مگروہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔جذبات بےزبان حیوا ن کی طرح سرکشی پر اترتےرہے۔احساس چوٹ کھائےہوئےپرندےکی مانند پھڑ پھڑاتا رہا۔بہار، خزاں کےقفس میں سر ٹکراتی رہی لیکن کب تک؟ آخر وہ لمحہ بھی آیاجب یہ سب کچھ اس کی برداشت سےباہر ہوگیا۔ اذیت کی تپش اسےہر پل‘ ہر گھڑی‘ خشک لکڑی کی طرح جلانےلگی۔وہ کسی ویرانےمیں سلگتی ہوئی اس شمع کی طرح پگھلنےلگا‘ جس کا کوئی پروانہ نہ تھا۔
    شمع‘ پروانےکو جلائےبغیر خود جلتی رہی۔پگھلتی رہی۔یہ وہ کب گوارا کرسکتی ہی؟یہی اس کےساتھ ہوا۔ضبط انتہا کو پہنچ کر دم توڑ گیا۔پیمانہ لبریز ہوااورچھلک پڑا۔
    ”میں آج امبر کوسب کچھ بتا دوں گا۔۔۔ سب کچھ۔“وہ آہستہ سےبڑ بڑایا۔
    ”صاحب۔ناشتےپر بیگم صاحبہ آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ “ سیف نےاسےچونکا دیا۔
    ”تم چلو۔میں آرہا ہوں۔“اس نےبستر سےنکلتےہوئےکہا۔
    ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ناشتےکی میز پر بیٹھا تھا۔ناشتہ خاموشی سےکیا گیا۔ملازم نےمیز صاف کردی۔وہ اخبار دیکھنےلگا۔
    بیگم صاحبہ کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔ان کا داہنا ہاتھ سامنےپڑےسفید لفافےسےکھیلنےمیں مصروف تھا۔
    ”اوہ۔ دس بج گئے۔ “وہ اخبار رکھ کر رسٹ واچ پر نظریں دوڑاتےہوئےجلدی سےاٹھ کھڑا ہوا۔
    ”بیٹھ جاؤ۔“ بیگم صاحبہ کی دھیمی سی آواز نےاسےبےساختہ پھر بٹھا دیا۔ان کی سوچ زدہ آنکھوں میں سنجیدگی کروٹیں لےرہی تھی۔اس کا دل بےطرح سےدھڑک اٹھا۔وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
    ”جی امی۔“اس نےخاموشی کا دامن چاک کیا۔
    ”بیٹے۔“ اداس سی آواز ابھری۔ ”ہم چاہتےہیں کہ زندگی کا دامن چھوڑنےسےپہلےتمہیں زندگی کی خوشیوں میں کھیلتےدیکھ لیں۔ اب ہم مزید پتھر کی یہ سل اپنےدل پر برداشت نہ کرسکیں گی۔“
    وہ سر جھکائےناخنوں سےمیز کی سطح کریدتا رہا۔
    ”زندگی میں ناکامیاں بھی آتی ہیں بیٹےلیکن اس لئےنہیں کہ انسان میدان چھوڑ کر بھاگ نکلےبلکہ اس لئےکہ اگلےامتحان میں پچھلی ناکامی کی کسر بھی نکال دے۔ ایک تمنا پوری نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انسان آرزو کرنا ہی چھوڑ دی۔کہنےکا مقصد یہ ہےکہ سنبھلنےکےلئےجتناوقت درکار ہوتا ہی‘ ہم اس سےبہت زیادہ وقت تمہیں دےچکےہیں۔ ہر ماں کی طرح ہماری بھی تمنا ہےکہ ہم اپنےبیٹےکےپہلو میں چاند سی بہو دیکھیں۔“ وہ ایک لمحےکو رکیں۔
    اس کا جھکا ہوا سر تب بھی جھکا ہی رہا۔
    ”کئی ایک گھروں سےرشتے آئےہیں۔ہم نےابھی کسی کو جواب نہیں دیا۔صرف تمہاری خاطر۔“
    تب اس نےدھیرےسےچہرہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑ اتھوڑا مضطرب لگ رہاتھا وہ۔
    ”ہم تمہیں فیصلےسےپہلےانتخاب اور پسند کا پورا پورا موقع دیں گے۔“ انہوں نےاس کی آنکھوں میں دیکھا اوراپنےسامنےپڑا لفافہ اس کی جانب سرکادیا۔”اس میں کچھ تصویریں ہیں۔زاہدہ کی چچا زاد بہن نرگس کی بھی۔“ وہ معنی خیز لہجےمیں بولیں۔
    وہ ایک جھٹکےسےاٹھ کھڑا ہوا۔چہرےپر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ کچھ کہتےکہتےرک گیا۔
    ”وہ خاص طور پر اس رشتےکےخواہش مند ہیں۔لڑکی چند ہی روز پہلےانگلینڈ سےواپس آئی ہےمگر اس پر مشرقی اقدار پوری طرح حاوی ہیں۔ “
    ”مگر میں۔۔۔“
    ”شادی نہیں کرنا چاہتا۔“تلخی سےکہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔”یہی جواب ہےناں تمہارا۔“
    ”جی نہیں۔میں نےیہ کب کہا ۔“
    ”تو پھر؟“ وہ حیرت سےبولیں۔
    ”کیا ضروری ہےکہ ان ہی میں سےاورپھرخاص طور پر نرگس ہی سے۔۔۔ “
    ”ہم سمجھتےہیں بیٹےلیکن ہم نےیہ بات ایسےہی نہیں کہی۔ نرگس واقعی گل ِنرگس ہے۔زاہدہ اور اس لفافےمیں موجود کوئی بھی لڑکی اس کےسامنےہیچ ہے۔“
    ”لیکن۔۔۔“
    ”کہیں تم کسی اور کو تو ۔۔۔“
    ”یہ بات نہیں ہےامی۔“وہ ان کی بات کاٹتےہوئےپھر بےچین سا ہو گیا۔
    ”دیکھو بیٹی۔ تم کیوں یہ چاہتےہو کہ تم محبت کی شادی کرو۔ کیا ضروری ہےکہ جس سےتم شادی کرو وہ شادی سےپہلےتم سےمحبت کرے۔“ وہ کھل کر کہہ گئیں۔
    ”میں نےایسا کب کہا امی۔“ اس کی آواز دب سی گئی۔
    ”پھر کیا تم یہ چاہتےہو کہ شادی سےپہلےتم اپنی ہونےوالی بیوی کےساتھ محبت کےچار دن ضرور گزارو۔“
    ” ایسی بھی میری کوئی شرط نہیں ہےامی۔“
    ”تو پھر تم چاہتےکیا ہو؟“ان کی آواز میں تلخی ابھر آئی۔
    ”امی۔“ اس نےسر جھکائےجھکائےکہا۔ ”میں نےایک زخم کھایا ہی۔ ایسی لڑکی کو چن لیا جو پہلےہی کسی اور سےمحبت کرتی تھی۔ اب میں ایسےکسی حادثہ سےدوچار ہونےکےلئےتیار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں مجھےجو لڑکی بیوی کےروپ میں ملےوہ صرف میری ہو‘ ہر طرح سے۔ اس کےخیالوں پر‘ اس کی سوچ پر میرےسوا کسی اور کی پرچھائیں بھی نہ پڑی ہو۔“
    ” شریف گھرانوں کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں بیٹی۔ اور یہ سب تصویریں شرفا کی بیٹیوں ہی کی ہیں۔“
    ”زاہدہ بھی تو شریف گھرانےہی سےتعلق رکھتی تھی امی۔“
    ”بیٹے۔ “ وہ اسےسمجھانےوالےانداز میں بولیں۔ ”محبت ایسا جذبہ ہےجس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ زاہدہ نےاگر ایسا کیا تو کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ سچ تو یہ ہےکہ تمہاری جلد بازی اور میری ممتا نےمل کر ایک ایسی غلطی کو جنم دیاجس کا خمیازہ ہم دونوں کو بھگتنا پڑا۔“
    ”یعنی۔۔۔؟“ اس نےسوالیہ انداز میں ماں کی جانب دیکھا۔
    ”ہمیں پہلےزاہدہ کےبارےمیں پوری چھان بین کرنی چاہئےتھی۔ وہ تو خیر ہوئی کہ وہ لڑکی دھوکےباز نہیں تھی ورنہ اگر وہ کوئی چالباز ہوتی اور واردات کی نیت سے آئی ہوتی تو ہم اس کےچکر میں پھنس کر اب تک مال اور عزت دونوں گنوا چکےہوتی۔“
    ”تو اب آپ جس لڑکی سےبھی میری شادی کرانا چاہتی ہیں اس کےبارےمیں یہ کیسےپتہ چلےگا کہ وہ مجھ سےپہلےکسی اور کےساتھ انوالو نہیں رہی؟“
    بات چیت بڑی کھل کھلا کر ہو رہی تھی۔ بیگم صاحبہ اپنےمزاج کےخلاف اس صورتحال کا بڑےحوصلےاور برداشت کےساتھ سامنا کر رہی تھیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بات کو کسی منطقی انجام تک لےجانا چاہتی تھیں۔
    ”تم اگر چاہو تو جس لڑکی کو پسند کرو تو اس کےساتھ تمہاری ملاقات کرائی جا سکتی ہے۔ تم دونوں ایک دوسرےکو اچھی طرح جان لو‘ سمجھ لو۔ پھر کسی فیصلےپر پہنچ سکو‘ اس کا یہ بہت اچھا راستہ ہے۔“
    ”اس بات کا کیا ثبوت ہےکہ وہ لڑکی ہمارےامیر گھرانےمیں شادی کےلئےمجھ سےاپنا ماضی نہیں چھپائےگی۔ جھوٹ نہیں بولےگی۔ “
    ”اب وہم کا علاج تو حکیم لقمان کےپاس بھی نہیں تھا بیٹے۔ تم ایک ہی چوٹ کھا کر تمام طبیبوں سےبدظن ہو گئےہو۔ اس طرح تو زندگی نہیں گزر سکتے۔“
    ”اور پھر ایک آدھ ملاقات میں ہم ایک دوسرےکو کیسےمکمل طور پر جان لیں گے۔“
    ”تو کیا اب سالوں کےسال چاہئیں تمہیں بیوی منتخب کرنےکےلئی؟تم کھل کر کیوں نہیں کہتے‘ جو تمہارےدل میں ہے؟“وہ جھنجھلا گئیں۔
    ”میں۔۔۔ میں۔۔۔“ اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئی۔
    ”کسی کو پسند کرچکےہو کیا؟“ وہ اس کی جانب غور سےدیکھ کر بولیں۔
    ”جی ۔۔۔جی ہاں۔“سرگوشی سی ابھری۔وہ جوتےکی ٹو سےفرش کر یدنےلگا۔
    ”ہوں۔کون ہےوہ؟“ان کےلہجےسےکچھ بیزاری‘ناگواری اور ناپسندیدگی ظاہر تھی۔
    ”امبر۔ ۔۔“وہ اسی طرح بولا۔
    ”کون امبر؟“
    ”میری اسٹینو۔“
    ”طاہر۔۔۔“وہ بےپناہ کڑواہٹ سےبولیں۔
    ”وہ بڑی اچھی لڑکی ہےامی۔ “وہ بمشکل تمام کہہ سکا۔
    ”زاہدہ بھی تو بری نہیں تھی۔ “وہ تلخی سےبولیں۔
    ”مگر امی۔۔۔“
    ”ہم جانتےہیں ۔ڈائیلاگ تمہاری زبان پر دھرےرہتےہیں۔ ہمیں قائل کرنےکےلئےتم ایڑی چوٹی کا زور لگا دو گےلیکن یہ سوچ لوطاہر۔ ہم بار بار ایک ہی زخم نہ کھا سکیں گے۔“وہ تلخی سےشکست خوردگی پر اتر آئیں۔
    ”نہیں امی۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔“
    ”جاؤ۔ اس وقت ہمیں تنہا چھوڑدو۔ہم ماں ہیں۔ جو ان اولاد کی خوشی پر ایک مرتبہ پھر اپنی اناقربان کررہےہیں لیکن یاد رکھنا طاہر۔ یہ آخری بارہو رہا ہے۔اس کےبعد ہم داؤ لگائیں گےنہ بساط کےمہرےکی طرح پٹنےپر تیار ہوں گے۔“
    ”شکریہ امی جان۔میری جیت بھی تو آپ ہی کی جیت ہے۔“وہ اپنی خوشی کودباتےہوئےبمشکل کہہ سکا۔
    ”بس جاؤ۔ ہم کل ہی اس لڑکی کےگھر جاناچاہیں گے۔“
    ”جی ۔مگر۔ اتنی جلدی۔۔۔“ وہ ہکلایا۔
    ”بکو مت۔ ہر بات میں اپنی منوانےکےعادی ہو چکےہو۔ بس ۔۔۔ کل ہم امبر کےگھر جا کر اسےدیکھنا چاہیں گے۔“
    ”جی۔۔ ۔بہتر۔ “وہ خفیف سا ہو گیا۔چند لمحےکھڑا رہا۔بیگم صاحبہ پھر کسی خیال میں کھو گئی تھیں۔ وہ آہستہ سےپلٹا اور خارجی دروازےکی جانب بڑھتا چلا گیا۔اس کےقدموں میں لرزش اور اضطراب نمایاں تھا۔
    ٭
    ”اوہ ۔ساڑھےگیارہ ہو گئی۔“ وہ ٹہلتےٹہلتےرکااوروقت دیکھ کر بڑ بڑایا۔اس کی بےچینی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔ قدموں نےپھر قالین کی سینہ کوبی شروع کردی۔امبر ابھی تک نہیں آئی تھی۔اس نےکبھی اتنی دیر نہیں کی تھی۔اور پھر بغیر اطلاع۔اس کا دل بار بار کسی نئےاندیشےکےبوجھ تلےدب کررہ جاتا۔
    ”اگر وہ آج نہ آئی تو؟“
    ”نہیں نہیں ۔وہ ضرور آئےگی۔ “وہ بڑ بڑایا اور نظریں پھر رسٹ واچ پر پھسل پڑیں۔ ”بارہ۔“اس کےبےچین اور بےقرار خیالات کےسانس اکھڑنےلگے۔
    اس کےمتحرک قدم رکے۔ داہنا ہاتھ تیزی سےکال بیل کی جانب لپکا۔دوسرےہی لمحےنادر کمرےمیں تھا۔
    ”یس سر۔“
    ”دیکھو۔ مس امبر ابھی تک ۔۔۔“الفاظ اس کےلبوں پر دم توڑ گئی۔دروازےسےامبر اندرداخل ہورہی تھی۔
    ”جاؤ۔تم جاؤ۔“وہ جلدی سےبولااور نادر خاموشی سےباہر نکل گیا۔
    ”مارننگ سر۔“وہ شوخی اور شرارت سےبھرپور آواز میں آدھےسلام کےساتھ بولی ۔
    ”ہوں۔۔۔“وہ اس کےخوبصورت اور سڈول جسم کو دیکھتا ہوا اس کےگلاب ایسےکھلےہوئےچہرےپر آ کر رک گیا۔”یہ مارننگ ٹائم ہی۔“وہ ہونٹ بھینچ کر بولا۔
    جواب میں وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔اس کےسینےمیں جیسےکسی نےہلچل مچا دی۔
    ”سر۔۔۔ وہ۔۔۔ بات ہی ایسی تھی۔ “وہ شرما سی گئی۔
    ”بات۔۔۔کیسی بات؟ اور یہ تمہارےہاتھ میں کیا ہے؟“وہ اس کےدائیں ہاتھ کو دیکھ کر جلدی سےبولا۔
    ”یہ ۔۔ ۔ یہ سر ۔۔۔ “وہ گڑ بڑا سی گئی۔قوس قزح کےحسین لہریےاس کےحسین چہرےپر پھیلتےچلےگئے۔اس نےسر جھکالیا ۔وہ اس کی پیشانی پر ابھرتےپسینےکےقطروں کودیکھ کر الجھن میں پڑ گیا۔
    ”کیا بات ہےامبر؟“ وہ دو قدم آگےبڑھ آیا۔
    ”سر۔۔۔ وہ۔۔۔ “وہ جیسےکہہ نہ پا رہی تھی۔
    ”ارےبولو نا۔ پھر مجھےبھی کچھ کہنا ہے۔“
    ”تو پہلے آپ بتائیے۔ “وہ اسےدیکھ کر بڑےپیارےانداز میں مسکرائی۔
    ”اوں ہوں۔ پہلےتم۔“ وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
    ”نو سر۔پہلے آپ ۔۔۔انتظار آپ کررہےتھے‘میں نہیں۔“ وہ شوخی سےبولی۔
    اور اس کا دل جیسےپسلیوں کاقفس توڑ کر سینےسےباہر آجانےکو مچلنےلگا۔”میں تو۔۔“وہ خود گڑ بڑا گیا۔
    ”ہوں۔ کوئی خاص ہی بات ہی۔“وہ پھر شرارت پر اتر آئی۔
    ”امبر۔ وہ ۔ میں۔۔۔“جسم میں ابلتا ہوا لاوا جیسےسرد پڑنےلگا۔اچھا بیٹھو تو۔“وہ کرسی کی جانب اشارہ کرتےہوئےبولا۔
    ”جی نہیں۔بیٹھ گئی۔تو پھر بھاگنےمیں دقت پیش آئےگی۔“ اس نےنفی میں سر ہلایا۔
    ”کیا مطلب؟“
    ”بات ہی ایسی ہےسر۔“ وہ پھر شرما گئی۔
    ”ہوں۔“ وہ اسےبڑی عجیب اور تیز نظروں سےگھورنےلگا۔
    ”بتائیےنا سر۔“وہ اس کےانداز پر کچھ جھینپ سی گئی۔
    ”امبر۔“وہ کچھ دیر بعد بڑےٹھہرےہوئےلہجےمیں بولا۔ وہ اس کی جانب دیکھنےلگی۔ ”امبر۔ اگر کوئی کسی کو پسند کرنےلگےتو؟“اس کی پیشانی بھیگ سی گئی۔
    ”تو اسےاپنالی۔“وہ مسکرا کر بولی۔بڑی لاپرواہی سی۔جیسےکوئی بات ہی نہ ہو۔
    طاہر نےاس کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ بدستور مسکراتی رہی۔
    ”لیکن اگر کوئی اس بات سےبےخبر ہو کہ اسےکوئی پسند کرتا ہے۔اسےاپنانا چاہتا ہے۔ تب ؟“
    ”تب اسےبتادے۔“اس نےسیدھا سا نسخہ بتایا۔اور وہ جھلا گیا۔
    ”بڑی آسان بات ہےناں۔“اور وہ اس کےجھنجلانےپر کھکھلا کر ہنس پڑی۔وہ بڑےپیار سےاس کی جانب دیکھےجارہا تھا۔
    ”دیکھو امبر۔فرض کرو۔“اس نےدھڑکتےہوئےدل کےساتھ کہنا شروع کیا۔”فرض کرو۔کوئی تمہیں پسند کرتا ہی۔ “اس کی زبان لڑکھڑاتےلڑکھڑاتےرہ گئی۔
    فقرہ ختم کرکےاس نےامبر کی جانب دیکھا۔ وہ مسکراتی ہوئی نظروں سےاس کی جانب دیکھ رہی تھی۔گالوں پر حیا کی سرخی ضرور ابھر آئی تھی۔اس کا حوصلہ جیسےدوچندہوگیا۔
    ”تمہیں چاہتا ہے۔تمہیں اپنانا چاہتا ہے۔لیکن تم۔ ۔۔تم اس سےبےخبر ہو۔ تمہیں کچھ بھی معلوم نہ ہو۔“
    ”لیکن ہم بےخبر نہیں ہیں سر۔“وہ شرارت بھرےانداز میں کہہ کر بےطرح شرما گئی۔
    ”امبر۔“اس کا سینہ پھٹنےلگا۔ دماغ چکرا کر رہ گیا۔”تو کیا؟“مسرت اس کےانگ انگ میں ناچ اٹھی۔
    ”یس سر۔ یہ رہا اس کا ثبوت کہ ہم بےخبر نہیں تھی۔ہم بھی کسی کو چاہتےتھے۔“وہ پل بھر کو رکی۔اس کا ہاتھ پشت پر سےسامنے آیاجس میں ایک سفید لفافہ دبا ہوا تھا۔”اوراسےحاصل بھی کرسکتےہیں۔“اس نےلفافہ طاہر کےہاتھ میں تھما یااورشرم سےسرخ رُو پلٹ کربھاگتی ہوئی کمرےسےباہر نکل گئی۔
    ”امبر۔“اس کےلبوں سےایک سرگوشی ابھری اورامبر کےپیچھےفضا میں تحلیل ہوگئی۔ بہاریں ناچ اٹھیں۔ دھڑکتا ہوا دل جھوم سا گیا۔
    اس نےلرزتےہاتھوں سےلفافہ کھولااور ۔۔۔ لڑکھڑا کر رہ گیا۔اندھیرااور روشنی جیسےپوری قوت آپس میں سےٹکرا گئی۔رات اور دن ایک دوسرےپر جھپٹ پڑی۔ آسمان اور زمین نےجگہیں بدل لیں۔ہرشےدرہم برہم ہوگئی۔
    وہ بےجان سےانداز میں کرسی پر بیٹھتا چلاگیا۔اس کی پھٹی پھٹی‘ بےاعتبار نگاہیں‘لفافےسےنکلنےوالےکارڈ پر ٹھہر سی گئیں۔
    وہ امبر کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔
    اس کی امبر‘ اس کی اپنی امبر‘ کسی دوسرےکی امانت تھی‘ یہ تو اسےمعلوم ہی نہ تھا۔پگلا تھا ناں۔ہر پسند آجانےوالی شےکو حاصل کرلینےکی خواہش نےاسےایک بار پھر ناکامی اور محرومی کا داغ دیا تھا۔پہلی بار جلد بازی نےایساکیا تھا اور دوسری بار شاید اس نےخود دیر کر دی تھی۔
    خاموشی ۔اداسی ۔سناٹا۔اور وہ ۔کتنےہی لمحوں تک باہم مدغم رہے۔ شاید صدیوں تک۔
    ”امبر۔“ آخر ایک سسکی اس کےلبوں سے آزاد ہوئی۔ ساکت آنکھوں کےگہرےاور ہلچل زدہ سمندر نےدھند لاہٹ کےگرداب سےچند موتی پلکوں کےکناروں پر اچھال دیی۔ موتی دعوت نامےپر چمکتے”امبر“ کےلفظ پر گرےاور پھیل گئی۔ لفظ کی چمک کچھ اور بڑھ گئی۔رنگ کچھ اور گہرا ہوگیا۔
    اس کےکانپتےہوئےہاتھوں نےحرکت کی اور لرزتےلبوں نےپہلی اور آخری بار مہر تمنا” امبر“ کےلفظ پرثبت کردی۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بےچارہ طاہر ، اب امبر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں