1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق و جذبے کا اصول

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏23 اپریل 2019۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    عشق و جذبے کا اصول وجود کی ایک حقیقی بنیاد ہے جو تمام وابستگیوں، تعلّقات، خام احساسات اور ہر قسم کے محدود اور متغیّر پہلوؤں سے ماورا مصروفِ عمل ہوتی ہے۔ جس چیز کو انسان 'عشق' کے نام سے جانتا ہے وہ مجازی اور محدود عشق ہے جو عشقِ حقیقی کی ایک محدود جھلک ہے۔ حقیقی عشق ایک وجودی اصل ہے جو بنیادی اور مستحکم تکیہ گاہ کی حامل ہے اور تبدیلیوں اور تغیّرات پر مشتمل نہیں۔ محبّت کی عام سطح روزمرّہ زندگی، جنسیت، دوستی اور دوسری کششوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ لوگ اکثر غلطی سے جنسی جذبے اور حسّیاتی جنسیّت کو محبّت کی اعلٰی ترین شکل سمجھ لیتے ہیں، جب کہ یہ حقیقت میں کم ترین شکل ہوتی ہے

    عشقِ مجازی، جو عشقِ حقیقی کی ایک شکل ہے، اپنے اِس محدود مرتبے میں بھی کچھ مثبت جھلکیوں کی حامل ہے۔ عاشق انسان کی زندگی کو معنی و مفہوم ملتا ہے۔ وہ شوق و جذبہ رکھتا ہے، توانائی رکھتا ہے، تنہا نہیں اور پُرامید ہے۔ وہ ایثار کا جذبہ رکھتا ہے، حُسن کو بہتر سمجھتا ہے، مشکلات کو کم تر گردانتا اور احساس رکھتا ہے، لیکن چوں کہ اِس مقام میں عشق متغیّر ہے اور یہ تمام حالات اُس عشقِ مجازی کے تقاضوں کے تحت بدلتے رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ مکمّل بر عکس اور منفی شکل اختیار کرلے۔عشقِ مجازی میں تغیّرات شامل ہیں، جب کہ عشقِ حقیقی ایک جوہر ہے جو قائم ہے۔ وہ "میں" کی مرکزیت میں پوشیدہ ہے اور اُس کی جھلکیاں بھی غیر متغیّر اور ابدی ہیں۔

    پروفیسر صادق عنقا عشق کی ایک وجودی اصل کے طور پر، جو حیات کے لطیف ترین اور روحانی ترین مرتبے کے مترادف ہے، تعریف کرتے ہیں۔
    عشقِ حقیقی ابدی، ثابت اور غیر متغیّر "میں" کی مرکزیت میں پوشیدہ جذبہ ہے ۔ عشق ایک ایسی قوّت ہے جو ہستی کے ذرّات کو باہم مربوط کرتی ہے، عشق ہستی کی قوّتِ جاذبہ ہے،کیوں کہ:

    "عشقِ سوزاں قلب کا جوہر ہے اور وجود کے اندر نہاں۔ جاوداں عشق بہ ہر عنواں عالمِ ارتقا کی سمت رواں ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ اُس ہمہ گیر عشق سے مل کر اَمر ہو جائے۔ عالمِ بالا کی سمت ذرّات کی جوہری حرکت اور دائمی کوشش اِسی جاذبۂ عشق کے اثرات ہیں۔"



    اگر کوئی انسان اپنے وجود کی مرکزیت سے غافل ہوجائے اور اپنے حقیقی مدار سے دُور ہٹ جائے تو صرف عشقِ مجازی کے تجربے کرسکتا ہے اور دائمی عشقِ سوزاں سے، جو حیات کے پہیّوں کو متحرّک کرنے والا، محور اور اُس کی زندگی کی قوّت ہے، محروم رہ جاتا ہے۔۔

    "عشق ایک قابلِ نفوذ برقی اور مقناطیسی توانائی ہے جو لامتناہی جہان کے جزو وکُل کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔

    اگر عشق کا جاذبہ نہ ہوتا تو کوئی ذرّہ وجود میں نہ آتا۔"

    یہی عشق کا جاذبہ ہے جو ہستی کے تمام موجودات اور خصوصی طور پر انسانوں کو ظاہر و باطن کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے کثیف عالَم سے لطیف عالَم کی جانب سفر فراہم کرتا ہے۔ انسان کے وجود میں "میں،" یعنی اُس کی وجودی مرکزیت کسی مقناطیس کی مانند کام کرتی ہے، جو خلیوں کے اِس گروہ کو اپنی کشش کے تحت لا کر ہستی میں موجود عشق، جذبے اور توانائی سے اُسے مملو کرتی ہے۔ تمام افراد اِس ثابت وجودی مرکزیت کے حامل ہیں اور جس وقت اِن افراد میں سے ہر ایک اپنی وجودی اور حقیقی قدر و قیمت کو منکشف اور حاصل کرلے، تو اُن کے درمیان یہی قدرِ مشترک ہے جو درست ایک ڈوری کے مانند اُنھیں ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے اور اُن کے ماحول میں آپس میں ہم بستگی، عشق اور جذبہ فراہم کرتی ہے۔ ایسے افراد جن کی زندگی میں اصولِ عشق و جذبہ فرماں روا ہو اور اُن کا وجود اِس سے مملو ہو، متحرّک، فعّال، پُرامید اور مثبت ہیں اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے، اُن کی موجودگی مثبت توانائیوں اور زندگانی کی شگفتگی کو رونق بخشتی ہے

    عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
    عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
    عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
    عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
    عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِ حیات
    عشق سے نُورِ حیات، عشق سے نارِ حیات

    ربط
    http://mto.org/aos/Main/All/ur/Principle_of_Love.html
     
    Last edited: ‏23 اپریل 2019
    ھارون رشید اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    عشق‘ رحمتِ ابدی کی طرف سے اولادِ آدم کو عطا کی جانے والی سب سے خفیہ نوازشوں میں سے ایک ہے۔یہ تقریباَ ہر فرد میں ایک مرکز‘ ایک تخم کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔مساعدِ شرائط کی حد تک یہ تُ خم درختوں کی طرح شاخیں اورٹہنیاں نکالتا ہے‘ پھولوں کی طرح کھلتا ہے اور پھلوں کی طرح ابتدا اور انتہا کو ایک نقطے پر لا کر حلقہِ تکمیل کو مکمل کرتا ہے۔
    عشق‘ آنکھوں ‘ کانوں اورقلب کے راستے ایک احساس کی طرح بہتا ہوا انسان کی باطنی دنیامیں پہنچ جاتا ہے اور وصال ہونے تک ایک دریائی بند کے پانی کی طرح چڑھتا رہتا ہے‘ ایک گلیشیئر کی طرح بڑا ہوتا رہتا ہے‘اور ایک شعلے کی طرح انسان کے ہر پہلوکو اپنی لپیٹ میں لیتا جاتا ہے۔جب عشق وصال کے نقطے تک پہنچ جاتا ہے توہر شے ساکن اور مدھم ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ آگ بجھ جاتی ہے‘ ڈیم خالی ہو جاتا ہے‘ اور گلیشیئر بھی پگھل پگھل کر نا پید ہو جاتا ہے۔
    عشق جو پیدائش کے وقت سے ہی ایک مرکز اور معنی کی شکل میں تقریباَ ہر انسان کی روح کا ایک اہم پہلو ہوتا ہے‘ اُسے اپنا حقیقی لہجہ اور رنگ اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حقیقی عشق (یعنی عشقِ اِلہٰی) میں تبدیل کر لیتا ہے۔یہ لہجہ اور رنگ ملنے کے بعد وہ ابدیت حاصل کر لیتا ہے اور وصال کی دہلیز پر پہنچ کر خود کو ایک پاک و صاف لذت میں تبدیل کر لیتا ہے۔
    اولادِ آدم کے لیے تجلیاتِ حق کے لیے کھلی رہنے والی طور کی چوٹی دل ہے۔ دلوں کا اٍن تجلیات اوراِن کے وسیلے سے اللہ جلِّ جلالہ‘ کے عشق کا مظہر ہونے کی سب سے آشکار علامت خالقِ اعظم کے لیے انسان کا وہ عشق اور اشتیاق ہے جو اس کے سینے میں پنہاں ہوتا ہے۔
    انسان کو اُفقِ کامل تک پہنچانے کی راہوں میں سے سب سے یقینی‘ نزدیک ترین اور سب سے صحتمند راہ‘ راہِ عشق ہے۔جوراہیں عشق اور اشتیاق کے لیے کھلی نہ ہوں اُن کے ذریعے اُس اُفق ِ کامل تک پہنچنا خاصہ مشکل کام ہے۔چناچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت تک رسائی کے لیے ”عجز و فُقر‘ شوق و شُکر“ کی راہ کے علاوہ راہِ عشق جیسی دوسری کوئی اور راہ نہیں ہے۔
    عشق وہ بُراق ہے جو جنابِ حقِ تعالیٰ نے ہمیں جنتِ گم گشتہ کو تلاش کرنے کا راستہ طے کرنے کے لیے عطا کی ہے۔ اور یہ وہ بُراق ہے جس کے سواروں میں سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہو ا جو راستے ہی میں رہ گیا ہو۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس سماوی بُراق کی پیٹھ پر سوارلوگو ں کو ”سڑک کے کنارے کنارے“ پیدل چلتے عیاشی اور نشے میں مدہو ش لوگوں کا دکھائی دینا بھی بعیدازقیاس نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے کا تعلق تمام تر اُن کے اور حق تعالیٰ کے باہمی تعلقات کے معیار سے ہے۔
    عشق چونکہ انسان کو مکمل طور پر جلا کر راکھ کر دیتا ہے اس لیے آئندہ اُسے نہ اس دنیا کی آگ کے شعلے جلا سکیں گے اور نہ ہی عقبٰی کی نارِ جہنم۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ دو سلامتیاں اور دو خوف‘ دو اشتیاق اور دو اضطراب ایک ہی وقت میں ایک ہی انسان میں نہیں پائے جا سکتے۔اِس بنیادی اصول کے مطابق‘ ساری زندگی میں اپنا سینہ عشق کی آگ کے سامنے کُھلا رکھنے والے‘ اپنی باطنی دنیا میں جہنم کی آگ سے مقابلہ کرنے والے لوگوں کا اُسی اضطراب اور اُسی الم میں دوبارہ زندگی گزارنا بعیداز عقل ہے۔
    عشق‘ انسان کو اپنی ہستی بھلا کر اپنے محبوب کی ہستی سے یک جان کر دیتا ہے۔انسان کے دل کو کسی غرض اور بدلے کے بغیرمحض معشوق کا طالب بنا دینا‘ اُسی کی آرزو اور خواہش میں پگھل کر ختم ہو جاناہی عشق کا عنوان ہے۔اور میرے خیال میں انسان ہونے کا مقصد بھی تو یہی ہے۔
    مسلکِ عشق کے مطابق عاشق کی آنکھوں میں دوسرے خیالات کا درآنا حرام ہے اور اِس حرام پر عمل درآمدکرنا عشق کی موت ہے۔ عشق کی زندگی اُس وقت اور حد تک باقی رہتی ہے جب تک عاشق کو اپنے اِرد گِرد سُنی جانے والی باتوں میں محبوب کا نام اوراُس کے عنوان‘ اُس کے حسن کی خوبیاں ‘ اور اُس کے کمالات کی داستانیں سُنائی دیتی رہتی ہیں ۔بصورتِ دیگر عشق بجھ کرناپید ہو جاتا ہے۔۔۔۔
    عاشق کسی بھی معاملے میں معشوق کی مخالفت کے بارے میں نہ سوچتا ہے اور نہ سوچ سکتا ہے۔وہ خاص طور پر یہ تو کسی حال میں نہیں چاہتا کہ کوئی شے اُس کے محبوب پر سائے کی طرح چھا جائے یا خود سامنے آ کر اُس کی یاد بھلانے کی کوشش کرے۔یہاں تک کہ وہ تمام ایسے الفاظ کو بے فائدہ اور عبس قرار دیتا ہے جِن میں اُس کے محبوب کا ذکر نہ ہو۔وہ اپنے محبوب سے غیر متعلقہ ہر کام کو محبوب کے خلاف حرام خوری اور بے وفائی سمجھتا ہے۔
    عشق ایک ایسی حالت ہے جس میں دل کا رشتہ‘اِرادے کی رغبت‘ احساسات کی اغیار سے تطہیر‘ اور انسان کے احساسات کاتعلق معشوق کے خوابوں اور تصورات کے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں ہوتا۔ اِس حالت میں عاشق کی ہر حرکت میں معشوق کے بارے میں ایک معنی چمک اُٹھتا ہے‘ اُس کا دل معشوق کے اشتیاق کے ساتھ دھڑکتا ہے ‘اُس کی زبان ہر وقت محبوب ہی کا نام گُنگُناتی رہتی ہے‘ اور اُس کی آنکھیں اُسی کے خیال میں کھلتی اور بند ہوتی ہیں ۔
    عاشق‘ چلتی آندھی میں ‘ برستی بارش میں ‘ آبشاریں بناتے دریاﺅں میں ‘چیختے چلاتے جنگل میں ‘ روشن ہوتی صبح اور سیاہی کی طرف مائل رات میں ہمیشہ اپنے دوست کی خوشبو سونگھ کر نئی زندگی پاتا ہے‘ اپنے ماحول میں منعکس ہوتے محبوب کے حسن کو دیکھ کر جوش میں آتا ہے‘ ہوا کے ہر جھونکے میں دوست کی سانسوں کو محسوس کر کے لطف اندوز ہوتا ہے‘ اور قدم قدم پر محبوب کے مظالم کو محسوس کرکے آہیں بھرتا ہے۔۔۔
    شفق پر اپنے معشوق کے آثار دیکھ کر نیند سے جاگنے والے عاشق اپنے لبوں پر گہرا سرخ خون اور اپنے سینوں میں آگ کے شعلوں کا ایک طوفان دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو آگ کے ایک دائرے میں گھرا ہوا پاتے ہیں ۔ وہ ایک مرتبہ بھی اس پُر لذت جہنم سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔
    یہ خیال کرنا کہ سچا عشق فاسق لوگوں کی شہوانی محبت پر مشتمل ہوتا ہے ایک غلطی اور نادانستگی کی علامت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات مجازی عشق بھی حقیقی عشق میں تبدیل ہو جا تے ہیں لیکن اس کا کسی حال میں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ مجازی عشق کی بھی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قسم کے عشق میں خامیاں بھی ہیں اورقصوربھی‘ اور یہ ابدیت کا اظہارنہیں کرتا۔
    سچّے عاشق جس عشق میں مبتلا ہوتے ہیں اُس کی تپش کے باعث اِن کی باطنی دنیا ہمیشہ ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح دھوئیں میں اٹی رہتی ہے اور بُری طرح کراہتی رہتی ہے۔جو لوگ اِنہیں کراہتا سن کر نتیجہ نکال سکتے ہیں اُن کے مطابق اِن عشاق کی ہر آہ اُن کے سینوں سے پھوٹ کر نکلنے والا ایک ایسا لاوا ہوتی ہے جو ہر جگہ کو آگ لگا کر تباہ کرتا ہے اور جدھر جدھر جاتا ہے اُدھر ہی توڑ پھوڑ کرتا اور آگ لگاتا جاتا ہے۔
    عشق کو الفاظ میں بیان کرنا خاصا مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔یہی وجہ ہے کہ عشق کے نام پر بیان کی گئی باتوں کے ایک بڑے حصّے میں اس کے سطحی اثرات کو بیان کرنے کے سِوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ایک حالت کا نام ہے اور اٍسے بیان کرنے والی زبان خود عاشق ہے۔
    عاشق ایک ایسا سرمست انسان ہے جو حق تعالیٰ کی محبت کو اپنا دین بنا کر اپنی زندگی کو حیرت‘ استعجاب اور اپنے محبوب کی تعریفوں کے احساسات سے سجا رکھتا ہے اور جو قیامت کا صور پھونکے جانے پر شاید ہی ہوش میں آ سکے۔
    عاشق ایک فوارے کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنے ہی اندر سے پھوٹتا رہتا ہے فانی ہونے کے دکھ کو کم کرنے والی‘ دکھ درد میں اٹھنے بیٹھنے والی روحوں کے اضطرا رکی آگ کو ٹھنڈا کرنے والی صرف ایک ہی شے ہے اور وہ ہے حقیقی عشق ۔ جی ہاں ! سالہا سال سے ہمارے دردوں کا اور اُن بیماریوں کا جنہیں ہم لا علاج سمجھتے ہیں ‘ ہمارے خوف اور اندیشوں کا ‘ ہماری الجھنوں اور بحرانوں کا واحد درمان اوریکتا علاج محض عشق ہے۔
    علم و عرفان اور ہماری مروّجہ ثقافت کے ذریعے نسلِ انسانی کے احیاءکی کوششیں تو کی جا رہی ہیں مگرجب تک ہم لوگوں کے دلوں پر خواہ کم ہی سہی‘ عشق (الٰہی) کی چنگاریاں نہیں چھڑکتے تب تک یہ کوششیں نا کافی اور ناقص ہی رہیں گی اور کسی صورت میں بھی اُن کی مادیت کوزیر نہیں کر سکیں گی۔
     
    ھارون رشید اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    سید شہزاد ناصر صاحب ! سورۃ الحجر کی چار آیات 28،29،30،31 میں اللہ تعالی نے ایک فلسفہ بیان فرمایا ہے جو کہ ایک حقیقی واقعہ بھی ہے ۔
    وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ (2) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (29) فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (30) إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ (31)
    یہ واقعہ قران پاک میں متعدد مقامات پر آیا ہے ، اس واقعہ میں جو سب سے خاص بات ہے وہ ہے فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي ۔ ۔ ۔ جس ربط کا ذکر پروفیسر صاحب نے کیا ہے دراصل وہ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي ہے ۔ ۔ ۔
     
    Last edited by a moderator: ‏6 مئی 2019
    ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں