1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عالم عربی کا علمی وفکری زوال اور امت مسلمہ کا لائحہء عمل ۔۔ ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏12 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پوری دنیا کے مسلمانوں کو عالم عربی سے جو قلبی اور جذباتی وابستگی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس بے لوث محبت کی وجہ ایمان کی وہ انگیٹھی ہے جو محمد عربی ﷺ سے الفت کی بنا پر ہمیشہ گرم رہتی ہے ‘کیوں کہ محمد عربی سے ہے عالم عربی۔ اسلام کی آمد اس خطہء ارضی پر عرب قوم کی فطری سادگی ‘ حق پسندی وحق گوئی اور بے بیباکی ووفاء عہد جیسی نمایاں خوبیوں کی وجہ سے اللہ کی جانب سے ہوئی تھی ۔ عربوں نے اپنی محنت اور جاں نثاری سے اسلام کی ایسی خدمت کی تھی کہ اسلام اور عرب دونوں ایک دوسرے کے مترادف بن گئے ۔ اسی لئے مسلم مؤرخین نے عرب تہذیب اور اسلامی تہذیب کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر اکثر استعمال کیا ہے۔ یہ قوم علمی بلندی کی اس منتہا تک پہنچ گئی تھی کہ اس کے اپنے دور عروج میں دنیا کی ہر قوم کا بودا پن اس کے مقابلہ میں صاف جھلکتا تھا۔ روم وایران جیسی قدیم تہذیبوں کو قصہء پارینہ بنانے کا فخر بھی اسی قوم کو حاصل ہوا۔ صحرا و سمندر تک پر اپنی حکمرانی کا رعب وداب قائم کر دیاتھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عباسی حکمراں ہارون رشید نے تواپنی قوت سلطنت کے زعم میں بادلوں کے ساتھ بھی دل لگی کر ڈالی تھی۔ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں بچا تھا جس میں مسلمانوں نے اپنی امامت اقوام عالم سے نہ منوالی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہسٹری آف دی عربس کا مشہور مصنف پی کے ہٹی نے عربوں کی علمی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ جب مسلمانوں کا عروج تھا تو یوروپ کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ اندلس کے محلات جب قمقوں سے روشن رہتے تھے اور رات بھی دن کا منظر پیش کرتی تھی تو لندن کے گھروں اور سڑکوں کو چراغ کی صرف مدھم روشنی ہی نصیب ہو تی تھی۔ اہل مغرب پر مسلم تہذیب کا ایسا رعب چھایا ہواتھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ مشرقی قومیں شاید کسی خاص ایسی صلاحیت کی حامل ہیں جس سے مغربی قومیں محروم ہیں۔ یوروپ کو قرون مظلمہ سے نکلنے کی سعی کے دوران ہی ا س حقیقت کا انکشاف ہوپایاکہ دراصل مسلمانوں کی ترقی کا راز علمی میدانوں میں ان کے تفوق میں مضمر ہے۔ آخر کار تمام مسلم علوم وفنون کا مختلف مغربی زبانوں میں ترجمہ کراکر انھوں نے ان کو حاصل کرلیا جن علوم کی وجہ سے مسلم تہذیب کا طوطی سارے عالم میں بولتا تھا‘ لیکن اہل مغرب نے اس پر ہی بس نہیں کیا ۔ اسلامی علوم کی روشنی نے قرون مظلمہ سے نکالنے میں ان کی جو مدد کی تھی اس پر بھی وہ قانع نہ ہوئے بلکہ نئی قوت فکر کا سر چشمہ حاصل ہوجانے کے بعدوہ علم کا دائرہ بدستور اتنا بڑھاتے رہے کہ آج کوئی معقول شخص اس حقیقت سے انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ محض گزشتہ ایک صدی میں انسانی دنیا نے ہرمیدان حیات میں ترقی کی اس بلندی کو چھو لیا جس کا تصور ماضی کے کسی دور میں ممکن نہ ہو سکاتھا۔ مسلمانوں کے دورعروج کی طرح مغربی تہذیب کی اس بے مثال قوت کا راز بھی علم وفکر کی دنیا میں اس کی انفرادیت ہے۔ اکیسویں صدی میں اگرچہ مغربی تہذیب کی روشنی تھوڑی کمزور پڑنے لگی ہے لیکن عالمی قیادت کا زمام آج بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
    اس کے بمقابل موجودہ عالم اسلام پر عمومی اور عالم عربی پراگر خصوصی نظر ڈالیں تو ایک منجمد اور ساکت سماج کا تصور صاف ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہی عرب دنیا جس کی عظمت رفتہ کا اعتراف خود حقیقت پسندیورپی مفکرین بارہا کر چکے ہیں۔ آج مغربی دنیا سے ان کی مرعوبیت کا عالم یہ ہے کہ اپنے تاریخی اثاثہ سے بھی بے زار نظر آتے ہیں ۔ ویسے بھی عرب دنیا نے بیسویں صدی کے ابتداء میں ہی اپنی تنگ نظری اور فکری وسیاسی عدم بصیرت کا ثبوت اس وقت دے دیا تھاجب پہلی جنگ عظیم چھڑی تھی۔ شریف حسین مکہ اپنی سیاسی نا سمجھی کی بنا پر دولت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ وفرانس کے خیمہ میں جا بیٹھے ۔ دولت عثمانیہ اگرچہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی لیکن وحدت امت کا تصور اس کے وجود سے اب بھی باقی تھا۔ البتہ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست کے نتیجہ میں پہلی بارپوری اسلامی دنیا کے ساتھ من مانی کرنے کا موقع مغرب کے ان ٹھیکے داروں کو مل گیا جنہیں صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی کی قوت ایمانی اور جواں مردی نے اس قدر حواس باختہ کردیا تھاکہ و ہ دوبارہ اسلامی مملکتوں کی طرف بری نظر نہ اٹھا سکے تھے۔ لیکن اپنوں کی ناسمجھی نے وہ کام کردیا جو جنگ کے میدان میں دشمن کبھی نہ کرسکے ۔ بالآخر سائیکس پیکوٹ کے ناپاک معاہدہ نے عالم عربی کے صحراء اور ریگستانوں میں اتنی لکیریں کھینچ دیں جتنی کہ یہاں انسانی جماعتیں بھی نہ بستی تھیں۔ شریف حسین مکہ جنھوں نے ایک آزاد جزیرۃ العرب پر حکمرانی کے خواب میں دولت عثمانیہ کی قبر کھود ڈالی تھی خود ان کے صاحبزادہ فیصل‘ فرانس اور لندن کی سڑکوں پر اس طرح بے چارگی سے اپنے حصہ کی زمین مانگ رہے تھے جیسے کوئی یتیم کسی رذیل کے دستر خوان پر اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو‘کیوں کہ پہلی عالمی جنگ عظیم کے خاتمہ کے فورا بعد ہی برطانوی سامراج اور فرانسیسی سازش کا پردہ پورے طور پر فاش ہو گیا۔ شریف حسین مکہ کی شرافت نفسی اور سادہ لوحی کا استعمال در اصل سامراجی طاقتوں نے صرف اسلامی قوت کو زیر کرنے کی غرض سے کیا تھا۔ ایفاء عہد کا کوئی ارادہ ان کا کبھی تھا ہی نہیں اور اس کے بعد ہی پورا عالم عرب بقول ایک مشہور عرب ناول نگا ر اور پٹرول اقتصادیات کا ماہر عبدالرحمن منیف "ٹوایلیٹ اسٹیٹس” میں تبدیل ہو گیا۔ ایک بالشت کی زمین نے ایک مکمل ملک کا درجہ حاصل کرلیا اور اس طرح صرف عالم عرب ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے شیرازہ کو بکھیرنے کا کام اپنے منطقی انجام تک پہونچادیا گیا۔اسلام دشمنی کا ازلی شعبدہ باز اسرائیل جیسا صہیونی ملک قلب عرب میں قائم ہوا اور آج بھی فلسطینیوں کابے دریغ قتل عام شب و روز کرتا رہتا ہے اور عرب ممالک کی بے بسی اس بات سے جھلکتی رہتی ہے کہ وہ بے معنی مذمتی کلمات کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اس تلخ حقیقت کی واحد بڑی وجہ عرب حکمرانوں کی سلطنت پرستی اور ذاتی مصلحت کی خاطر اتحاد عرب وامت سے گریز ہے۔ اقتصادی محاذ پر عربوں کی حالت یہ ہے کہ اگرپٹرول اور گیس جیسی قدرتی وسائل سے بعض عرب ممالک مالامال نہ ہوتے تو شاید مہذب دنیا میں ان کے لئے کوئی جگہ نہ ہوتی کیوں کہ علمی دنیا میں ان کی وہ ساکھ آج تک نہیں بن سکی ہے جس کے لئے کبھی تاریخ میںیہ مشہور ہوا کرتے تھے۔ عرب ممالک اور ان کے نوجوانوں کا عالم یہ ہے کہ خود پٹرول اور گیس جیسی معدنیات سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لئے آج تک یہ دیگر اقوام عالم کے سائنس وٹیکنالوجی کی صلاحیتوں پر منحصر ہیں اور بے محنت حاصل ہونے والی دولت کی ریل پیل نے امیر عرب ممالک کے ان نوجوانوں کو اتنا آسائش پسند‘ مغرور اور تند مزاج بنا دیا ہے کہ کوئی سنجیدہ گفتگو ان سے ممکن نہیں ہے۔ علمی میدانوں میں ان کی بے مائیگی کا عالم یہ ہے کہ ایک عرب ملک بھی فکری میدا ن میں کسی مغربی ملک سے نبرد آزما ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ زبا ن وادب میں بھی ان کا معیا ر کچھ بہتر نہیں رہا ۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہی عربی زبان جس نے تہذیب اسلامی کو اوج کمال تک پہونچانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا آج خود سرزمین عرب میں جس بے چارگی کا شکار ہے وہ کرب کا باعث ہے۔ ایک حساس مسلم ذہن ودماغ اس حالت زار پر خون کے آنسو اس وقت رونے لگتا ہے جب وہ اس زبان کی ایسی صورتحال سے دو چار ہوتا ہے۔ عیش پرستی اور بے معنی طرز زندگی نے یہاں کے نوجوانوں کوپورے طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ نعمت خداوندی اور عمدہ غذاؤوں کی جو بے حرمتی ان امیر عرب ممالک میں ہوتی ہے کہیں دوسری جگہ شاید دیکھنے کو ملے ۔ جبکہ وہیں دوسری طرف شام ‘ عراق اور یمن میں عرب مسلم خواتین اپنا اور اپنے یتیم بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے جسم فروشی تک پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ خارجہ پالیسی میں ان کا حال یہ ہے کہ مغربی ممالک کا بالعموم اور امریکہ کا بالخصوص سکہ ہی یہاں رائج ہے۔ اگر کوئی امریکی شخص عرب کی گلیوں سے گزرتا ہے تو عربوں کے بالمقابل اپنی شان کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے جیسے وہ اپنے غلاموں کے درمیان آقا کے درجہ پر فائز ہو‘ کیوں کہ امریکی تہذیب سے ایک عرب دماغ اس درجہ متأثر ہے کہ اس کی خدمت میں اپنا شرف محسوس کرتا ہے۔ جب کہ وہیں ایک غیر عرب مسلم کی حیثیت عرب مسلم نوجوانوں کی نظر میں کسی حقیر شے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسلامی اخوت تو دور کی بات ہے کسی مہذب انسان جیسا اخلاقی رویہ بھی وہ اس کے ساتھ روا نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ سیاست ہو یا اقتصاد‘ سماجی زندگی ہو یا ترفیہی پہلوہر جگہ مغرب کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ دنیا کے مسلمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ عرب دنیا ان کی قیادت کر پائے گی یا علمی وفکری انقلاب برپا کرنے کی سکت رکھتی ہے تو محض اپنی سادگی کی بنا پر وہ ایسا محسوس کرتے ہیں یا عربوں سے دینی عقیدت کی گہری پرت کا اثر ہوتا ہے ‘ جبکہ سچ یہ ہے کہ اس معاشرہ کو پورے طور پر گھن لگ چکا ہے۔ آزاد طرز فکر اورسنجیدہ علمی کاوش کے لئے آج تک اس معاشرہ کو موزوں نہیں بنایا جا سکا ہے۔ جب کہ عقل کو ماؤف رکھنے کے تمام وسائل ہر قدم پر مہیا کئے گئے ہیں۔شایدموجودہ دنیا کا یہ واحد ایسا خطہ ء ارضی ہے جو مالی بہتات کے باوجود اس قدر علمی و فکری پستی کے غار میں اب تک پڑا ہوا ہے۔ آپسی انتشار کا یہ عالم ہے کہ سارے عرب ممالک مل کر بھی اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ شام وعراق اوریمن میں انسانی زندگی کی ارزانی اور ان سے جڑے مسائل کے حل میں ناکامی عرب ممالک کے ضعف کا بین ثبوت ہے ۔ سر زمین عرب کی اس علمی فکری سیاسی اور سماجی انحطاط کا دنیا بھر کے مسلمانوں پر جو منفی اثر پڑا ہے وہ کسی بیان کا محتاج نہیں ہے۔ اگر آج کی اسلامی دنیا میں مثبت کردار کی کوئی امید کسی ملک سے کی جا سکتی ہے تو صرف ترکی اس میں پیش پیش نظر آتا ہے جہاں کا مرد میداں رجب طیب اردگان ہر روز مسلم دنیاکے ناتواں جسم میں زندگی کی نئی روح پھونکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بیمار عالم عربی کوروبہ صحت لانے میں بھی ترکی کا سیاسی و اقتصادی ماڈل کارگر ہو سکتا ہے۔شمالی افریقہ کے مسلم ممالک گرچہ آج مختلف سیاسی سماجی اور اقتصادی مسائل میں مبتلا ہیں لیکن علم وتحقیق کے میدان میں ان کی حالت قدرے بہتر ہے۔ عرب دنیا اگر اپنی قوت دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ تشکیل نو کے لئے تیار ہو جائے کیونکہ قدرتی وسائل کی محدودیت جگ ظاہر ہے جس کا احساس پٹرول کی قیمت میں اتار چڑھاو کی شکل میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔کیونکہ صرف علمی اصولوں پر مبنی ترقی کے ماڈل کو ہی تا دیر قائم رکھا جا سکتا ہے ۔ اگر جنوبی کوریا 1952 میں تقسیم کے بعد کامیابی کا نیا باب رقم کر سکتا ہے اور جاپان ایٹمی بم کا شکار ہونے کے باوجود اپنی محنت او ر لگن کے بل پر فرسٹ ورلڈ کا درجہ حاصل کرسکتا ہے توعلوم وافکار سے سرد مہری کے علاوہ کیا چیز ہے جو عرب دنیا کو بے حثیت بنائے ہوئے ہے؟
    اس کے ساتھ ہی دنیا کے الگ الگ خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس بات کی سعی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں موجود مواقع سے ایک زندہ اور پراعتماد قوم کی طرح فائدہ اٹھائیں اور علم و فکر کے میدان کو بطورخاص اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    امتِ مسلمہ کے زوال کا نوحہ آج ہر سوچنے والے انسان کی تحریر وتقریر کا جز ہے۔ میڈیا اس پر پروگرام پیش کرتا ہے، مفکرین اس مسئلے پر کتابیں تحریر کرتے ہیں، دانش ور سر کھپاتے ہیں، لیکن کشتیِ امت ہے کہ حالات کے بے رحم دریا کی شوریدہ سر لہروں کے رحم وکرم پر ہلکورے کھا رہی ہے۔ اس زوال کی کیفیت پر ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے، لیکن رجعتِ قَہقَریٰ کا یہ سفر ہے کہ پیہم جاری ہے اور مولانا الطاف حسین حالیؒ کی یہ دردناک صدا ’’فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہباں...بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں