1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عاصمہ جہانگیر کا خاوند قادیانی، داماد غیر ملکی عیسائی، والدسی آئی اے کا ایجنٹ تھا

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏14 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی تدفین میں اس لئے دیر ہوئی اور آج دوسرے دن ان کی تدفین کی جائے گی کیونکہ ان کی بیٹی منیزے جہانگیر اور ان کے غیر ملکی عیسائی داماد ہیری لندن سے وطن نہیں پہنچے تھے۔ اخبار کی رپورٹ میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں عاصمہ جہانگیر ساری عمر پاکستان میں اسلام و نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم رہیں عاصمہ جہانگیر اکھنڈ بھارت کے تصور کو بڑھانے کیلئے بھارتی یوم آزادی پر واہگہ جا کر شمعیں جلانے کی رسم کا حصہ بنی رہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوث انتہا پسند ہندو دہشتگرد لیڈر بال ٹھاکرے سے ان کی ملاقاتیں بھی بھارتی میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ ملاقات کیلئے بطور خاص نارنجی رنگ کا لباس پہن کر گئیں جیسے ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کا لیڈر پہنتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر دورہ بھارت کے دوران ماتھے پر تلک لگانے کا خصوصی اہتمام کرتیں۔ بال ٹھاکرے کے ساتھ ان کی ایک اور مشابہت یہ رہی کہ وہ بھی اسی لہجے میں پاکستانی اداروں کو برا بھلا کہتیں جس لہجے میں بال ٹھاکرے بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بناتا تھا۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف وہی موقف اپنا جو بھارت کا تھا۔ عاصمہ جہانگیر ملک توڑنے کیلئے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی خدمات کا بنگلہ دیش سے حال ہی میں ایوارڈ لینے اس وقت بنگلہ دیش گئیں جب بھارت نواز حسینہ واجد پاکستان توڑنے میں رکاوٹ بننے والے سیاسی قائدین کو پھانسیاں دے رہی تھیں۔ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھی ان کی کئی دہائیوں تک توجہ نہ پا سکے۔ ملک کے مذہبی حلقے و اہم قومی ادارے ہمیشہ ان کے نشانے پر رہےالبتہ وہ قادیانیوں کی سرپرست بنی رہیں۔ ان کے مخصوص خیالات اور فکر کو معروف میڈیا ہائوس نے ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ایک اہم عدالتی شخصیت نے کہا کہ کاش عاصمہ جہانگیر کو اسلام مخالف روئیے سے رجوع اور غلط عقائد سے توبہ نصیب ہو جاتی۔ اخبار نے سفارتی حلقوں کے حوالے سے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بار کےصدارتی الیکشن سے قبل بھارتی ہائی کمشنر نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں بڑے ڈنر کا اہتمام کر کے وکلا تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو عاصمہ کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی جیت میں بعض دوسرے سفارتخانوں کی خواہشات کا دخل بھی ریا۔ ذرائع کے مطابق عاصمہ جہانگیر بالعموم اپنے قادیانی ہونے یا نہ ہونے کے سوال پرطرح دے جاتی تھیں تاہم بعض نجی محفلوں میں یہ موقف بھی اختیار کرتیں کہ ہاں یہ درست ہے کہ میرا شوہر قادیانی ہے۔ ایسی ہی ایک نجی محفل میں عاصمہ کا کہنا تھا کہ وہ قادیانیوں کو کافر قرار دیئے جانے سے پہلے شادی کر چکی تھیں۔ واضح رہے کہ عاصمہ جہانگیر کی شادی اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے پارلیمانی فیصلہ ماننے کو کبھی تیار نہ ہوئیں۔ پارلیمنٹ کے سپریم ہونےکا جھنڈا اٹھائے رکھنے کے باوجود عاصمہ کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ قومی اسمبلی کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں۔ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر کا کہنا تھا کہ یہ عذر بے معنی ہے کہ عاصمہ کی شادی 1974کے پارلیمانی فیصلے سے پہلے ہوئی تھی ۔ نکاح پہلے بھی ہوا تھا تو پارلیمنٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایک مسلمان کا قادیانی سے نکاح باقی نہیں رہ سکتا تھا۔اسے کیسے اتفاق مانا جا سکتا ہے کہ آپ ہر کیس قادیانیوں کے حق میں لڑیں۔ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کے بارے میں تاثر یہی تھا کہ وہ سی آئی کا ایجنٹ ہے۔ ملک غلام جیلانی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ احمدیوں کے لاہور گروہ میں ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ ظلم پر کئی عشروں تک ان کی این جی او نے کوئی آواز نہ اٹھائی۔ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں 2بے گناہ نوجوان مارے ان نوجوانوںکیلئے انسانی حقوق کمیشن نے کیا کیا؟ پاکستانی طلبہ اور مزدوروں کے حقوق کیلئے بھی ایچ آر سی پی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    کیا آپ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ ایک اخبار کسی انسان کے بارے میں اتنے بڑے بڑے انکشاف اس وقت کرتا ہے جب وہ انسان مرچکا ہو
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    خواتین و حضرات نے مل کر اکٹھے نماز جنازہ ادا کی​

     
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    چمکانے ،،،،
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کو توڑنے کا اپنا مکروہ اور بھیانک ایجنڈا عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کے گھر پر تیار کیا تھا۔ مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کے فیصلے کی مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ مزاحمت غلام جیلانی نے کی۔ بغاوت قابو میں آنے پر عاصمہ کے والد غلام جیلانی نےبھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھ کر مغربی پاکستان پر حملہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایکشن نہ لینے پر دوسرا خط لکھا اور تیسری بار اسے چوڑیاں بھیج دیں۔ ملک غلام جیلانی کے یہ خطوط ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئے۔

    عاصمہ جہانگیر حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کے قانون کے خلاف رہیں، کئی لوگوں کا کیس انہوں نے مفت لڑا

    ممبئی حملوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس پر ملکی موقف کے برعکس بھارتی موقف کی تائید کی اور بغیر کسی ثبوت کے آئی ایس آئی کو ذمہ دار قرار دیا۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں حملوں کا ماسٹر مائنڈ انڈین انٹیلی جنس کے کرنل پروہت کے ملوث ہونے اور آر ایس ایس کے حملے میں شامل ہونے کے باوجود عاصمہ جہانگیر پاکستان کو ہی حملوں میں ملوث قرار دیتی رہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کبھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت فلسطین میں اسرائیل جبکہ شام و عراق میں امریکی مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس جج کو عدالت میں نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ کسی مسجد میں خطیب ہونا چاہئے تھا، عاصمہ جہانگیر

    http://www.zemtv.com/2017/02/14/asma-jahangir-bashing-judge-who-banned-valentine-day-in-pakistan/
    ----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    14 فروری پر پابندی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں:عاصمہ جہانگیر
    دیکھیئے خصوصی رپورٹ اور اوریا مقبول جان کا تبصرہ

    ویڈیو

    لنک
    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------

    [​IMG]
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:

    ہیومن رائٹس کمیشن کاقیام ؛ قانونِ توہین رسالت کی مخالفت

    عاصمہ جہانگیر نے مغربی سرپرستوں کی آشیر باد کے ساتھ جسٹس درّاب پٹیل کے ساتھ مل کر ۱۹۸۷ء میں ’پاکستان انسانی حقوق کمیشن‘ کی داغ بیل ڈالی۔ قادیانی حقوق کا تحفظ اس کمیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔۲۴؍اپریل ۱۹۸۷ء کو عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
    ’’کمیشن کو نہ صرف ۱۹۷۳ء کے آئین میں مندرجہ انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرنی ہے بلکہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کئے گئے انسانی حقوق کا آئیڈیل حاصل کرنا ہے۔ کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین کو منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یک طرفہ ہیں۔ اُنہوں نے اس ضمن میں حدود آرڈیننس، قانونِ شہادت میں مرد وعورت کی حیثیت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت اور عورت کو مرد کی گواہی پر سزا، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، قانونِ توہین رسالت اور جداگانہ انتخابات جیسے قوانین کا ذکر کیا۔‘‘
    (نوائے وقت: ۲۵؍ اپریل ۱۹۸۷ء)
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سلامت مسیح کیس اور عاصمہ جہانگیر
    نومبر ۱۹۹۳ء میں سیکولر مزاج پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے قانون کے خلاف سرگرمیوں میں یکدم شدت پیدا ہوگئی۔ خاتون وزیر اعظم سے ذاتی مراسم کو اُس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ ۱۹۹۴ء میں جب سلامت مسیح اور رحمت مسیح پر توہین رسالت ؐکا مقدمہ قائم ہوا تو عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی اپنی روایت کے عین مطابق میدانِ عمل میں کود پڑیں اور بعض مسیحی راہنمائوں اور سیکولر صحافیوں کی جماعت کے تعاون سے اس مقدمے کو پاکستانی پریس میں تشہیر دی۔ یکطرفہ جارحانہ بیان بازی میں حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس معمولی مسئلے کو غیر معمولی طور پر اُچھالا، اوروہ اودھم مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر اور حناجیلانی مغربی ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھیں۔ آئے دن ان کے انٹرویو اور بیانات سی این این، بی بی سی اور مغربی اخبارات کی زینت بن رہے تھے۔
    عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالتؐ کو بار بار انسانی حقوق کے منافی اور فتنہ قرار دینے کا عمل جاری رکھا،لیکن اس کی اپنی اس فتنہ پردازی کا نوٹس کوئی نہیں لے رہا تھا۔اس کی مسرت آسمان کی بلندیوںکو چھو رہی تھی، جب انہی دنوں پاکستان کی خاتون وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے قانونِ توہین رسالت کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا۔ سلامت مسیح کو جرم ثابت ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ نے موت کی سزا سنائی، لیکن جلد ہی حکومت کی مداخلت پر اسے ضمانت پر رہائی ملی۔ برطانوی وزیر اعظم جان میجر کے مشیر فلپ جے پارہم نے جان میجر کی طرف سے پاکستان یونائیٹڈ کرسچین کے سربراہ جارج فیلکس کے نام خط میں پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا :
    ’’اگرچہ سلامت مسیح پر مذہبی توہین کا الزام برقرار ہے، مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی ذاتی مداخلت کی بنا پر سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔‘‘
    (روزنامہ جنگ ۹؍ اگست ۱۹۹۴ء)
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ایوب مسیح کیس، بشپ جان جوزف کی خود کشی اور عاصمہ جہانگیر کا کردار
    سلامت مسیح کیس کے بعد پہلی مرتبہ عاصمہ جہانگیر کے مغربی مسیحی تنظیموں سے گہرے مراسم منظر عام پر آئے۔ اس مقدمہ میں مغربی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی نے عاصمہ جہانگیر کے لئے پاکستان میں مسیحی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کا راستہ ہموار کیا۔ اس نے بعض مسیحی راہنمائوں کو قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ کیا۔ اب اس نے توہین رسالتؐ کے مرتکب مسیحی نوجوانوں کے مقدمات میں غیر معمولی دلچسپی لینا شروع کی۔ آنجہانی بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کے بعد بعض مسیحی گروہوں کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کے پس پشت دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔
    ۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو چیف بشپ کیتھ نے اخباری انٹرویو میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
    ’’چیف بشپ کیتھ نے دکھ کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر جیسے انسانی حقوق کے علمبردار پاکستان میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ مسیحی افراد سمیت دیگر بشپ حضرات کو بھی غلط گائیڈ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں عیسائیوں کے مقدمات تو مفت لڑتی ہیں اور کوئی فیس نہیں لیتیں، لیکن اُنہیں باہر سے ’لمبے پیسے‘ مل جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فرانسس جوزف جیسے لوگ عاصمہ جہانگیر اور ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے پروردہ ہیں۔ فرانسس جوزف جو نہایت غریب آدمی تھا، یہ YMCA لاہور میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ الیگزینڈر جان ملک نے اسے گاڑی اور پیسوں کے ناجائز استعمال کے سلسلے میں وہاں سے نکال دیا تھا اور آج وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ۱۳؍ لاکھ کی گاڑی میں پھر رہا ہے، اس نے اپنے بچوں کی شادی پر رائے ونڈ میں لاکھوں روپے خرچ کئے۔ ایسے بہت سے لوگ عاصمہ جہانگیر اور دوسرے لوگوں کے آلہ کار ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔‘‘ (روزنامہ ’آزاد‘: ۱۱؍مئی ۱۹۹۸ء)
     
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    روزنامہ ’خبریں‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ،انہوں نے کہا کہ
    ’’وہ دفعہ ۲۹۵؍ سی کے تحت دی جانے والی سزائوں کے بارے میں پریشان ہیں اور جلد ہی عاصمہ جہانگیر کے ذریعے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کریں گے ۔‘‘
    روزنامہ جنگ کے صفحہ اوّل پر یہ خبر شائع ہوئی :
    ’’بشپ کی موت میں این جی اوز ملوث ہو سکتی ہیں۔‘‘ (مؤرخہ ۱۲ مئی ۱۹۹۸ء )
    ۱۳ ؍مئی ۱۹۹۸ء کے ’نوائے وقت‘ میں چیف بشپ کیتھ لیزی کا یہ بیان شائع ہوا :
    ’’بشپ جوزف کے قتل کے پیچھے امریکی ڈالر اور عاصمہ جہانگیر کے چہرے ہیں۔‘ ‘
    اسی دن ’خواتین محاذ عمل‘ جس کی کرتا دھرتا عاصمہ جہانگیر ہیں، کی طرف سے اخبارات میں یہ پریس ریلیز شائع ہوا :
    ’’خواتین محاذ عمل نے توہین رسالتؐ کا قانون فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خاص طور پر اس کے آرٹیکل ۲۹۵۔ اے سے ڈی تک کو ختم کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ بشپ جان جوزف کی خود کشی سے پاکستان میں اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔‘‘​
    آنجہانی بشپ جان جوزف کی آخری رسوم میں شریک عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے یہ اشتعال انگیز بیان داغا :
    ’’۲۹۵۔ سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔‘‘​
    (روزنامہ دن: ۹؍مئی ۱۹۹۸ء)
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بشپ جان جوزف کی خود کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسیحی جلوس سے تقریر کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے ایوب مسیح کیس کی اپیل میںخود پیش ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ انسانی حقوق کی جہاں بھی پامالی ہوئی، وہاں پر احتجاج کے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
    ساہیوال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، ’’توہین رسالتؐ کے ملزم ایوب مسیح کے خلاف مقدمہ کی پیروی کے لئے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے ذریعے محمد حنیف ڈوگر ایڈووکیٹ کو نامزد کیا گیا۔‘‘ ـــــ
    (روزنامہ دن، ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۲۱؍ مئی ۱۹۹۸ء)

    عاصمہ جہانگیر کے اصل عزائم کا پردہ چاک ہو چکا۔ اس کی انسانی حقوق کے ’چمپئن‘ ہونے کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی۔ قومی اخبارات اپنے اداریوں اور مضامین میں عاصمہ جہانگیر کے کردار کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، چند سال قبل یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ روزنامہ ’خبریں‘ نے اپنے اداریے میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر ان الفاظ میں تنقید کی:
    ’’بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کو بہانہ بنا کر عاصمہ جہانگیر اور مسیحی برادری کے بعض زعما توہین رسالتؐ کے قانون کے خلاف جو مہم چلا رہے ہیں، وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر غیر حکومتی ادارے بنانا اور پھر پاکستان، اسلام اور اسلامی قوانین کے خلاف دریدہ دہنی کے ذریعے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے نقد امداد حاصل کرنا، ان تنظیموں اور افراد کا شیوہ ہے۔ فادر جوزف کی مبینہ خود کشی کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
    ’’عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان کہ توہین رسالتؐ کا قانون فتنوں کا باعث ہے، ان کی ذہنی روش اور فکر کا عکاس ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی قبیل کی سبھی عورتوں کو اسلام بطورِ مذہب ہی (نعوذ باللہ) فتنہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ نام نہاد ترقی پسند عناصر امریکی ڈالروں کے لئے اسلام کو گالی دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر (بدقسمتی) سے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہیں۔​
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    متعدد مسیحی راہنمائوں نے بھی فادر جوزف کی خود کشی کو مشکوک قرار دیا ہے، لیکن یہ طبقہ اُنہیں ’شہید‘ قرار دینے پر تلا ہوا ہے، ہماری عاصمہ جہانگیر اور دوسرے حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش نہ کریں۔ حکومت کو بھی ایسے عناصر کا محاسبہ کرنا چاہئے جو مسلمانوں اور مسیحی برادری کے درمیان فساد پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں۔‘‘ (روز نامہ خبریں، لاہور: ۱۵؍ مئی ۱۹۹۸ء )

    عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن (قادیانی) نے ۱۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ’جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس‘ کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
    ’’توہین رسالتؐ سے متعلق قانون کی دفعہ ۲۹۵۔سی مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ صرف ۲۰ فیصد جاہل مولوی اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، اکثریت توہین رسالتؐ قانون کی حامی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات مکمل طور پر سیکولر تھے۔‘‘(روزنامہ ’دن‘ : ۱۹؍ مئی ۱۹۹۸ء)
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ٭ وفاقی شرعی عدالت کے اس بنچ پر مولوی نہیں بلکہ ہماری عدلیہ کے قابل فخر ارکان جسٹس گل محمد خان (چیف جسٹس)، جسٹس عبد الکریم خان کندی، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس عبد الرزاق تھہیم اور جسٹس فدا محمد خان موجود تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت ؐکی حمایت کرنے والوں کو ’جاہل‘ قرار دے کر بالواسطہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کے ان جج صاحبان کو بھی ’جاہل‘ قرار دے دیا ہے، جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں یہ فیصلہ صادر فرمایا۔
    ٭عاصمہ جہانگیر اور اس کے ہم خیال بدبخت ’دانشوروں‘ کو معلوم ہونا چاہئے کہ تاجدارِ ختم نبوتؐ، امام الانبیا، سرورِ کائناتﷺ کی حرمت وناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی آرزو ہے۔ یہ محض ’۲۰ فیصد مولویوں‘ کی حمایت کی بات نہیں ہے، مسلمانوں کے بچے بچے کے دل کی آواز ہے کہ توہین رسالتؐ کے مرتکب خبیث مجرموں کی سزا صرف موت ہے۔ اُنہیں یہ بھی اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ’مولوی‘ کی مخالفت کی آڑ میں اسلام کے بنیادی عقائد کی اہانت کا ان کا دیرینہ، اشتراکی وقادیانی حربہ اب کارگر نہیں ہوگا ،کیونکہ رسولِ عربیﷺکے جان نثار اسلام سے ان کی دشمنی، ان کے خبث ِباطن اور باطل عزائم سے اب بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اب آپ کو اخلاقی جرا ت سے کام لینا ہوگا۔
    پردوں میں چھپ کر وار کرنے سے آپ کے چہرے چھپ نہیں سکیں گے،جیسا کہ بیرسٹر خالد اسحق صاحب نے ’نیوز لائن‘ کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قائداعظم سیکولر نہیں تھے۔ اُن کو سیکولر کہنا محض پرلے درجے کی الزام تراشی ہے۔‘‘ (شمارہ فروری ۱۹۹۸ء)
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ توہین رسالتؐ کو ’فتنہ‘ قرار دینا کیا توہین رسالتؐ نہیں ہے۔ ۱۰ مئی ۱۹۹۸ء کے نوائے وقت میں مسلم لائرز فورم کے ارکان کا بیان شائع ہوا :
    ’’توہین رسالتؐ کے قانون کی مخالفت پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتیں توہین رسالتؐ کے قانون ۲۹۵۔ سی کو آئینی قرار دے چکی ہیں۔‘‘
    ۲۹۵۔ سی کا متن درج ذیل ہے، جسے قانون توہین رسالت کہا جاتاہے:
    ’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘ (مجموعہ تعزیراتِ پاکستان)
     
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    روزنامہ جسارت کی رپورٹ کے مطابق :
    ’خواتین محاذِ عمل اسلا م آباد کے ایک جلسے میں صورتِ حال اس وقت سنگین ہو گئی، جب ایک خاتون مقرر عاصمہ جیلانی نے شریعت بل کیخلاف تقریر کرتے ہوئے سرورِ کائناتﷺکے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔
    اس پر ایک مقامی وکیل نے احتجاج کیا اورکہا کہ رسولِؐ خداکے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔جس پر دونوں کے درمیان تلخی ہو گئی اور جلسے کی فضا کشیدہ ہو گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی تقریر میں ’تعلیم سے نابلد‘ اور ’ان پڑھ‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔‘‘ (جسارت ،کراچی ۱۸؍مئی ۱۹۸۴ء)
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عاصمہ جہانگیر ا س وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی۔اس سیاہ بخت نے محسن انسانیتﷺکے لیے جان بوجھ کر وہی لفظ استعمال کیا جو یورپی مستشرقین اسلام او ر پیغمبر اسلامﷺکی تحقیر اور اہانت کی غرض سے کرتے ہیں۔جس سیمینار میں عاصمہ نے یہ الفاظ ادا کیے، وہ شریعت بل کی مخالفت میں ہو رہا تھاا ور ظاہر ہے ایسی مخالفانہ فضا میں ان الفاظ کی کوئی دوسری تاویل یا تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی سیمینار کے حاضرین کے مطابق عاصمہ کی تقریر کاسیاق وسباق ایسا تھا جس میں اس کا کوئی اور مفہوم لیا جاسکتا ہو۔ اس سیمینار میں سب ’پڑھے لکھے‘ لوگ تھے افسوس کوئی ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین شہید نہ تھا جو اس گستاخِ رسول زبان کو بند کرانے کے لیے عملی اقدام کر گزرتا۔
     
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عن أبي قتادة بن ربعي الأنصاري، أنه كان يحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة، فقال: «مستريح ومستراح منه» قالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: «العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد، والشجر والدواب»
    (رواه البخاري 6512 )
    ترجمہ ( جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «مستريح» یا «مستراح» ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔
    صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ”المستریح او المستراح منہ“ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ «مستريح» ہے اور «مستراح» منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔ ))
     
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عاصمہ جہانگیر کے بارے میں غور طلب امور

    اللہ مالک الملک جس کو چاہے معاف کرے ، جسے چاہے عذاب دے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اخروی اور برزخی معاملات میں فیصلے کا اختیار مخلوق کے پاس نہیں ، خالق کے پاس ہے۔
    لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے غلط عقائد و نظریات سے صرف نظر کر لیا جائے۔ لہٰذا کسی بھی مرنے والے کے ظاہری اقوال و افعال کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کسی فیصلے پر پہنچنا ضروری ہے ۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ ظاہری قرائن کی روشنی میں حقائق کو واضح کرنے کے لیے رائے دیں ۔
    چنانچہ عاصمہ جہانگیر کے عقائد و نظریات اور اسکی زندگی کی تگ و تاز کے مطالعہ کے بعد درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں کہ موصوفہ :
    1۔ شریعت محمدی میں کھلم کھلا من مانی کرتی تھیں ، اور تاریخ شاہد ھے کہ انہوں نے عورت کی آدھی گواہی کے قرآنی قانون کے خلاف شور مچایا۔
    2 ۔ کئی دفعہ اشاروں کنایوں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اُمّی کا بھی استہزاء کیا۔ اسی طرح بلاگرز کے خلاف جسٹس صدیقی کے فیصلہ پر ناروا تنقید کی۔
    3۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والی تھیں ، سزائے موت کی منکر تھیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کی آبرو ریزی کرنے والوں اور سفاکی کے ساتھ قتل کرنے والوں کے قتل کی بھی مخالف تھیں اور عدلیہ میں مذہبی عناصر کا مذاق اڑاتی تھیں۔
    4۔ اعلانیہ ایک قادیانی کی بیوی تھیں ، جبکہ.کوئی مسلم عورت کسی کافر سے نکاح نہیں کرسکتی ۔
    5۔ گستاخان رسول کی پشت پناہی کی۔ جیسے کہ ملعونہ آسیہ کی حمایت کرنا سب کے سامنے ہے۔
    6۔ بذات خود مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتی رہیں کہ ’ میں تمام مذہبوں کو ایک جیسا سمجھتی ہوں ، میرا اپنا کوئی مذہب ہے ہی نہیں ‘ گویا یہ دین برحق اسلام اور دوسرے ادیان و مذاہب میں فرق نہیں سمجھتی تھیں ، سب کو ایک جیسا مانتی تھیں ۔
    7۔عمر بھر توہین رسالت اور ختم نبوت اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف عملی جدو جہد کا حصہ رہیں۔ بلکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف عدالت میں گئیں۔
    8۔ پاکستان کے نظریہ کی نفی کرتی رہیں اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ قرار دینے کی جدوجہد میں ملکی اداروں کی ، گالی کی حد تک مخالفت کرتی رہیں۔
    9-مبینہ طور پر پاکستان توڑنے کی قرار داد شیخ مجیب نے ان کے والد کے گھر میں بیٹھ کر تیار کی تھی۔ اسی قسم کی کاوشوں کے تناظر میں بنگالی حکومت نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
    ان نو نکات کی روشنی میں ہر ایک مسلمان بخوبی فیصلہ کر سکتا ہے کہ
    ایسی میّت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے یا انکی موت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس قسم کے عناصر سے کلی برات کا اظہار کرنا چاہیے ؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں