1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

طُوطئ ہند یمین الدین ابو الحسن خسرو رحمتہ اللہ علیہ حصہ دوم۔

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک حبیب, ‏4 اگست 2015۔

  1. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    مُختلف درباروں سے وابستگی۔۔۔۔

    نانا کے انتقال کے بعد خُسرو نے اس وقت کے ایک اہم اَمیر ملک چھجو کی مُلازمت اختیار کر لی لیکن یہ مُلازمت زیادہ دیر تک نہیں چل سکی۔ دوسال کے بعد ملک چھجو امیر خسرو سے ناراض ہو گیا یہ ناراضگی دراصل ایک حسد کا نتیجہ تھی، ایک دِن ملک چھجو کے ہاں محفلِ شعر و سُخن سجی ہوئی تھی اُس میں اُس وقت کی مشہور شخصیات شمس الدین دَبیر، قاضی اثیر ، بغرا خان اور کشلو خان بھی موجود تھے۔ ان سب حضرات نے امیر خُسرو کا کلام بہت پسند کیا اور بغرا خان نے خوش ہو کر سفیدجغراتی سکوں کا ایک تھال خسرو کو پیش کیا۔ جِسے چھجو خان نے حاسدانہ انداز میں پسند نہ کیا اور وہ خسرو سے جلنے لگا امیر خسرو کو خبر پہنچی کہ چھجو خان ناراضگی کا بدلہ لینا چاہتا ہے تو خطرہ محسوس ہونے پر وہ بغرا خان کے پاس سامانہ چلے گئے اور بغرا خان نے بھی خسرو کا والہانہ استقبال کیا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا کچھ عرصہ بعد بغرا خان کو بلبن نے بنگال کا حاکم مقرر کر دیا چنانچہ امیر خسرو بنگال جانے کی بجائے بلبن کے ہمراہ دہلی آ گئے۔ دہلی میں بلبن نے ایک عظیم الشان جشن منایا۔ اس جشن میں شِرکت کرنے کے لئے اس کا بیٹا محمد قآن حاکمِ مُلتان بھی آیا۔ امیر خسرو کی جب شہزادہ قآن سے مُلاقات ہوئی تو راہ و رسم احسن انداز میں بڑھنے لگی یہاں تک کہ شہزادہ قآن امیر خسرو کو اپنے ہمراہ مُلتان لے گیا اور وہاں مصحف داری کا منصب عطا کیا۔ مُلتان اِن دِنوں علم و ادب کا گہوارہ تھا۔
    شہزادہ بذاتِ خود بہت اعلٰی درجے کا سُخن سنج تھا اور دادِ کلام دیتا تھا شہزادے کے دربار میں دو ہی شاعر تو عظیم تھے ایک امیر خسرو اور دوسرے خواجہ حسن سجزی
    خواجہ سجزی کااصل نام نجم الدین تھا حَسن تخلص کرتے تھے۔
    687ھ میں امیر تیمور نے ملتان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں شہزادے کی فوج کے ہمراہ شہزادے کےساتھ ساتھ امیر خسرو میں شاملِ جنگ تھے۔ شہزادہ اس جنگ میں مارا گیا اور امیر خسرو تیموری لشکر کے ہاتھوں قیدی بن گئے۔ تاتاری اُنھیں قید کر کے تبریز لیجا رہا تھے کہ راستے میں کسی جگہ خسرو تاتاریوں سے رہائی پا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور سیدھے اودھ میں خان جہان امیر علی حاکمِ اودھ کے پاس پہنچے امیر علی سر جاندار سلطان غیاث الدین بلبن کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ تقریباً دو سال تک خانِ جہاں امیر علی کے ہاں مقیم رہے۔ امیر خسرو نے رہائی پانے کے بعد شہزادہ کی وفات پر پُر درد مرثیہ لکھا ایسا مرثیہ جس کو پڑھنے کے بعد ہندوستان کا ایک ایک بشر زار زار رویا۔ امیر علی کے پاس دو سال قیام کے بعد اپنی والدہ کے حُکم اور اصرار پر خانِ جہاں امیر علی سے اِجازت لی اور دہلی آ گئے۔ دہلی میں سلطان معزالدین کیقباد حاکم تھا۔ سلطان نے امیر خسرو کو اپنے دربار میں آنیکی دعوت دی اور ملک الشعرا کا خطاب دے کر اپنے دربار سے وابستہ کر لیا۔ 689ھ میں جب کیقباد قتل ہو گیا تو جلال الدین فیروز شاہ خِلجی بادشاہ بن گیا امیر خصرو کے تعلقات پہلے سے ہی فیروز شاہ کے ساتھ خوشگوار تھے۔ بادشاہ بنتے ہیں فیروز شاہ نے خسرو کو امیر کا خطاب سرکاری طور پر عطا فرمایا اور اُن کو اپنے دربار میں مصحف داری منصب پر متمکن کیا۔ 698ھ میں فیروز خِلجی ایک سازش کا شکار ہو کر قتل ہو گیا، علاؤالدین خِلجی اس کی جگہ بادشاہ بن گیا۔ علاؤالدین خِلجی نے فیروز خِلجی کے بیشتر مصاحبوں اور عہدے داروں کو تہہ تیغ کر دیا اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا لیکن امیر خسرو کو بہت احترام سے نوازا اور دربار میں بطور ملک الشعراء وابستہ رہنے کی تلقین کی۔ اسطرح امیر کا نام پورے ہندوستان میں بہت وقار سے لیا جانے لگا۔ علاؤالدین خِلجی نے 21 سال تک حکومت کی 716ھ میں وہ بقضائے اِلٰہی فوت ہو گیا تو ملک کانور نے تخت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک سال کی تگ و دو کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور 717ھ میں قتل ہو گیا۔ اس کے قتل کے بعد علاؤالدین خِلجی کا بیٹا قطب الدین مبارک تخت نسین ہوا۔ قطب الدین مبارک نے بھی امیر خسرو کی بہت زیادہ عزت افزائی کی اور اپنے دربار سے باقاعدہ منسلک رکھا اس نے امیر خسرو کا اس قدر احترام کیا کہ 718ھ میں "مثنوی نہ سپہر" لکھنے پر آپ کو ہاتھی برابر سونا انعام میں دیا۔ 720ھ میں قطب الدین مبارک کے ایک وزیر خسرو خان نے اس کو قتل کروا دیا اور خود ناصرالدین کے لقب سے تخت نسین ہو گیا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ خود بھی قتل ہو گیا بعد اَزاں غیاث الدین تغلق تختِ دہلی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ امیر خسرو اس کے دربار میں بھی اسی عزت و جاہ کے حامل رہے۔ جو پہلے بادشاہوں کے دور میں تھا۔ 725ھ میں غیاث الدین تغلق ایک حادثے میں مارا گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا جونا خان ناصرالدین محمد تغلق دہلی کا حُکمران بن گیا۔ امیر خسرو کو محمد تغلق نے بھی وہی اعزاز بخشا جو اس کے پیش رو اُن کو دے چُکے تھے۔ اس طرح امیر خسرو یکے بعد دیگرے کئی بادشاہوں کے دربار میں غیر متنازعہ طور پر وابشتہ رہے۔

    اَمیر خسرو اور تصوف :

    ایک رِوایت کیمطابق خسرو جب آٹھ سال کے تھے تو اپنے والد کے ہمراہ حضرت نِظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ دروازے پر رُک گئے اور اپنے والد کے ہاتھ پر مندرجہ ذیل رُباعی تحریر کر کے جناب نِطام الدین اولیاء کے حَضور پیش کی۔

    تو آں شاہی کہ بر ایوانِ قصرت
    کبوتر گر نشیند باز گردد
    فقیرے مستمندے بر در آید
    بیابد اندروں یا باز گردد

    حضرت نِطام الدین اولیاء نے یہ رُباعی پڑھی تو بہت خوش ہوئے۔ اُسی دِن وہ اَمیر خسرو کی صلاحیتوں کے قائل ہو گئے اور رُوحانی طور پر اُن کی جانب مائل بھی ہو گئے۔ تاہم انھون نے فی البدیہہ مذکورہ بالا رُباعی کا جواب کچھ یوں دیا۔۔

    بیابد اندروں مردِ حقیقت
    کہ با ما یک نفس ہمراز گردد
    اگر آبلہ بود آں مردِ ناداں
    ازاں راہے کہ آمد باز گردد

    "سیر الاولیا" میں محمد سعید مارہروی گویا ہیں کہ اَمیر خسرو 685ھ سے قبل ہی حضرت نطام الدین اولیاء کے مُریدوں میں شامل ہو چُکے تھے آپ حضرت نِطام الدین اولیاء کے بہت چہیتے مُرید تھے وہ اپنی نوعیت کے واحد مُرید تھے کہ حضرت نظام الدین اولیاء اُنہیں "ترک" (محبوب) کے نام سے یاد کرتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالٰی ایک قبر میں دو مُردوں کو دفن کرنے کی اِجازت دیتا تو میں امیر خسرو کی قُربت کو پسند کرتا۔ وہ اَمیر خسرو کی شخصیت کے دلدادہ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جِس شخص سے وہ ہمکلام ہوتے ہیں وہ نہ صرف رُوحانی طور پر عالی مقام ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں بلند مقام کا حامل ہے۔ خسرو نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ وہ ایک صوفی بھی تھے۔ وہ ایک دلیر سپاہی اور مخلص دوست بھی تھے۔
    وہ ایک دیانتدار مصاحب اعلٰی درجہ موسیقار،بلند مرتبہ مبلغ ، بہترین رازدان ، ایک نکتہ شناس اور بلند فکر رکھنے والے انسان تھے۔
    بہرحال خؤاجہ نظام الدین اولیاء کے نزدیک وہ ایک معتبر شخصیت کے مالک تھے کتابی علوم کے علاوہ علومِ دینوی کے بھی ماہر تھے اور خؤاجہ صاحب کے نظر میں ایک ایسی شخصیت تھے جو کسی بھی موضوع پر کُھل کر لکھ سکتے تھے یہی وجہ ہے کہ اَمیر خسرو نے خواجہ صاحب کی ہدایت و فرمایش پر کئی مثنویاں اور اشعار تحریر فرمائے۔ امیر خسرو نے اپنی بیشتر تصانیف میں اپنے پیرو مُرشد کی مدح سرائی کی ہے بالخصوص دیوان غرة الکمال، مثنوی شیریں و خسرو، لیلٰی مجنوں، مثنوی مطلع الانوار، آئینۂ سکندری اور دول رانی خضر خان میں بہت مدح سرائی کی۔
    حضرت نظام الدین اولیاء کی مدح کے چند اشعار مُلاحظہ ہوں،

    چوں دم الِہام زدہ کام اُو
    نائبِ وَحی آمدہ الہام اُو
    سر کہ بزیرِ قدمش گشت خاک
    مُوئے بمو از سر سودا ست پاک
    مفتخر از وے بہ غُلامی منم
    خواجہ نِطام است و نِطامی منم

    پناہ جہان دینِ حق را نِطام
    رہِ قُدس راہِ پیشوائے تمام
    جہان زندہ از جانِ بیداد اُو
    زمین روشن از روز با زاد اُو
    جہان زو ہمہ وقت پُر نور باد
    زمین را درش بیتِ معمور باد

    نِطام الدین حق فرخندہ نامے
    کہ دینِ حق گرفت از وے نِظامے
    ز علمش در دو عالم روشنائی
    دو عالم علم کسبی و عطائی
    خدایا آن گزیدہ بندۂ خاص
    کہ ہست الحمد اللہ جفت اخلاص
    بہ قُربت ہم نشینِ مصطفٰی باد
    دراں قُرب ایستادش بر ما باد

    ایک روز حضرت نِطام الدین اولیاء نے امیر خسرو سے از رہِ تفنن دریافت فرمایا کہ اچھے اشعار سُنانے کا آپ کو کیا صِلہ چاہئیے تو آپ نے فرمایا کہ "میں کلام میں شیرینی سخن چاہتا ہوں" خواجہ صاحب نے فرمایا جاؤ اندر میرے پلنگ کے نیچے ایک برتن پڑا ہے اس میں شکر رکھی ہے اس کو جا کر چکھ لو۔ آپ نے ایسا ہی کیا چنانچہ خسرو کی شیریں زبانی آج تک مستند ہے۔ ان کی تاریخِ وفات بھی اسی لفظ میں پوشیدہ ہے یعنی "طوطئ شکر مقال" ۔ خواجہ نظام الدین کو نِطامی گنجوی کا :خمسہ" بہت پسند تھا اس میں نِطامی نے پانچ مثنویوں کا مجموعہ تیار کیا تھا۔ امیر خسرو نے جب اپنے مُرشد کی طبیعت کو اس طرف مائل دیکھا تو خود اس کے جواب میں پانچ مثنویوں کا مجموعہ لکھ دیا۔ اس کو خمسۂ امیر خسرو کا نام دیا۔ وہ مثنویاں حسبِ ذیل ہیں۔

    1: مَثنوی مطلع الانوار بجواب مخزن الاسرار (نظامی گنجوی)
    2: مثنوی شیری و خسرو بجواب خسرو و شیریں ( نِطامی گنجوی)
    3؛ مَثنوی مجنوں و لیلٰی بجواب لیلٰی و مجنوں (نِطامی گنجوی)
    4: مثنوی آئینہ سکندری بجواب سکندر نامہ (نِطامی گنجوی)
    5: مَثنوی ہشت بہشت بجواب ہفت پیکر (نِطامی گنجوی)

    جاری ہے
     
    ھارون رشید اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اعلیٰ جناب ۔جزاک اللہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ محترمی
     
    ھارون رشید اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ ! محترم
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں