1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

طُوطئ ہند یمین الدین ابو الحسن خسرو رحمتہ اللہ علیہ آخری حِصہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک حبیب, ‏4 اگست 2015۔

  1. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    خسرو کی ہندی شاعری۔۔۔

    خسرو اگرچہ فارسی شاعری میں ایک بے مِثال شہنشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کا تعلق بھی اکابرین سلطنت کے ساتھ رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کی سر زمین کے باشندے بھی تھے اور ہندوستان کے معاشرے کے اہم رُکن بھی۔ وہ اپنے سماج کی زبان کو بھی خوب سمجھتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے ان کا مزاج اگرچہ بزرگان سلطنت کیساتھ عالمانہ تھا لیکن عوام کے ساتھ وہ اسی طرح گُھل مِل کر رہتے تھے جیسے وہ اِن کے خاندان کے جزو ہوں انھیں ہندی زبان پر بہت دسترس حاصل تھی وہ لوگوں کیساتھ ہندی میں کلام کرتے تھے اور عوامی زندگی میں ہونیوالی روایات سے بخوبی واقف تھے اسی وجہ سے انھوں نے عوامی رابطے مضبوط رکھنے کے لئے لوگوں کے مزاج کے مطابق ان کے لئے پسندیدہ کلام کہا اگرچہ اس تمام تر کلام کو یکجا اس وقت پیش کرنا بہت مشکل ہے پھر بھی بطور نمونہ کچھ کلام ضرور پیش کیا جاتا ہے اس کلام سے کم از کم ایک بات ضرور واضح ہو جائے گی کہ امیر خسرو عوامی سماجی زندگی کا کس قدر مطالعہ رکھتے تھے اور لوگوں کے احساسات و جذبات کو کس قدر قریب سے سمجھتے تھے۔

    پہیلیاں ،،،

    فارسی بولی آئی نا،، ترکی ڈھونڈی پائی نا
    ہندی بولوں آرسی آئے ،، خُسرو کہے کوئی نہ بتائے۔

    نَر سے پیدا ہووے نار،،، ہر کوئی اس سے رکھے پیار
    ایک زمانہ اس کو کھاوے ،،، خسرو پیٹ میں وہ نہ جاوے

    چار مہینے بہت چلے اور آٹھ مہینے تھوڑی
    امیر خسرو یوں کہے تو بُوجھ پہیلی موری

    دوہے ،،،

    خسرو ایسی پیت کر جیسے ہندو جوئے
    پوت پرائے کار نے جل جل کوئلہ ہوئے

    خسرو رین سُہاگ کی جاگی پی کے سنگ
    تن میرو من پیو کو دود بہے اک رنگ

    گیت ،،،،

    چھاپ تِلک سب چھینی رے مو سے نیناں ملائیکے
    نیناں ملائیکے نیناں لڑائیکے اپنی سی کر لی رے مو سے نیناں ملائیکے
    خسرو نجام کے بل بل جاؤں
    موہے سہاگن کی رے مو سے نیناں ملائیکے

    اَماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
    بیٹی تیرا باوا تو بُڈھا ری کہ ساون آیا
    اَماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
    بیٹی تیرا بھیا نو بالا ری کہ ساون آیا

    خسرو نے بعض مقامات پر نہایت احسن انداز میں ہندی فارسی کو ایک ہی نظم اور غزل میں اس طرح مربوط کر کے لکھا ہے کہ پڑھنے والا نہ صرف اس کے معانی سے لطف اندوز ہوتا ہے اس کے امتزاج سے بے حد محظوظ ہوتا ہے،، کچھ کلام تو سَند کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور آج تک زبانِ زدِ خاص و عام ہے۔

    ز حالِ مسکین مکن تغافل درائے نیناں بنائے چھتیاں
    چو تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو گاہے لگا ئے چھتیاں
    شبانِ ہجراں دراز چو زُلف زمان وصلت چو عمر کوتاہ
    سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
    چوں شمع سوزاں چو ذرہ حیراں ہمیشہ گِریاں بعیش آمہ
    نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

    یار نہیں دیکھتا سُوئے من
    بے گنہیم ساتھ عجب رُوٹھا ہے
    روئے تو رونق شکن آفتاب
    سرو بہ پیش قد تو بوٹھا ہے
    گاہ ز خسرو تو نہ گفتہ کہ بیٹھ
    وہ چہ کُند بھاگ میرا پُھوٹا ہے

    تیلی پسرے کہ می فرشد تیلے
    از دست و زبان چرب او واویلے
    خالے برُخش دیدم و گفتم کہ تِل ست
    گفتا کہ برو نیست دریں تِل تیلے

    رفتم بہ تماشا کنارے جُوئے
    دیدم بلبِ آب زن ہندوئے
    گفتم صنما چیست بہائے مویت
    فریاد آورد کہ "دُر دُر موئے "

    موسیقی ۔۔۔۔۔
    موسیقی کے بارے میں امیر خسرو کا قول ہے کہ موسیقی فطرت کی ایجاد ہے۔ نفسِ انسانی اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور روح میں اس کی وجہ سے جذباتی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں انھوں نے ایک اور بڑی اہم بات کہی کہ روح انسانی اس وقت تک جسمِ انسانی میں داخل نہیں ہوئی جب تک اسے سنگیت کی مدد سے منایا نہیں گیا۔

    آں روز کہ روح آدم آمد بہ بدن
    از بیم گناہ نمی شُدے اندر تن
    خواندند ملائکہ بہ لحنِ داؤد
    در تن در تن دراں در آمد در تن

    خسرو کلاسیکی موسیقی کے تمام تر تکینیکی اصولوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور تمام تر بنیادی اصولوں سے آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ راگ کیا ہے۔خیال کیا ہے ، ٹھاٹھ کس کو کہتے ہیں راگنیاں کیا ہوتی ہیں وہ ان راگوں کے ضابطوں کو بھی جانتے تھے انھیں معلوم تھا کہ راگوں میں کتنے مت ہوتے ہیں اور کتنے ٹھاٹھ۔ متوں کے نام آدم مت ، بھرت مت ، کلناتھ مت ،اور ہنون مت جبکہ ٹھاٹھوں یہ تھے، کلیان ٹھاٹھ، بھیرون ٹھاٹھ
    بھیر ٹھاٹھ، بلاول ٹھاٹھ ، کھاوج ٹھاٹھ ، ماروا ٹھاٹھ ، پورملی ٹھاٹھ، کافی ٹھاٹھ، اساوری ٹھاٹھ اور ٹوڈی ٹھاٹھ ۔
    نیم کلاسیکی موسیقی میں دادرا، درباری غزل ، ٹھمری ، گجری، اور گیت شامل ہیں ان کے علاوہ بہت سی علاقائی لوک دُھنیں تھیں جنھیں خسرو ہر مقام کے لحاظ سے خوب سمجھتے تھے سُر اور تان کو موزوں رکھنا اور انھیں بکھرنے نہ دینا گائیک کی کامیابی ہوتا ہے۔ چنانچہ امیر خسرو جب بھی کسی سُر یا تان پر اپنے فن کا مُظاہرہ کرتے تو دیکھنے سننے والوں کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔
    سلاطینِ دہلی موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے۔ بلبن کے عہد میں امیر خسرو کی زیرِ صدارت ایک مجلس قائم کی گئی جو فنون و ادب کی مجلس کہلائی۔ اس مجلس کا سربراہ بلبن کا بیٹا شہزادہ محمد تھا۔ اسی مجلس میں معزالدین کیقباد بھی بڑی دلچسبی لیتا رہا۔ پورے ہندوستان کے گلوکار اور موسیقار اس مجلس میں شریک ہونے کے لئے مختلف شہروں سے دہلی آئے امیر خسرو نے اس مجلس میں اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔ ایرانی اور ہندوستانی موسیقی کا امتزاج پیدا کیا۔ کئی نئے راگ راگنیاں اور نئے ساز ایجاد کئے اور انھیں پورے ہندوستان کی موسیقی کی دنیا میں نہ صرف روشناس کرایا بلکہ اُن کو بے حد مقبولیت کے ساتھ رائج کیا، ان میں "ترانہ" قابلِ ذِکر ہے، "قوالی" کو تو کمال درجے کی پذیرائی حاصل ہوئی۔ خسرو کے ایجاد کردہ نئے ساز یعنی ستار کو تو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ کلاسیکی موسیقی کے پرستار اپنے اکثر و پیشتر راگ راگنیوں کو ستار پر ہی گاتے اور بجاتے تھے۔ پوریا جو رات سنگیت ہے خسرو کی ایجاد ہے۔ انھوں نے عجمی موسیقی کے انداز پر ہندوستانی موسیقی میں قول ، ترانہ ، قلبانہ ، اور نقش و نگار اختراع کئے انھوں نے ایرانی دُھنوں کو ہندی موسیقی میں شامل کر کے زنگولہ ، مجاز ، اور نوروز جیسی دُھنیں ترتیب دیں، ہندی اور ایرانی راگوں کو آمیزش کر کے کئی نئی راگنیاں ترتیب دیں۔ ان میں نقش ، بسیط ، سوہلہ اور ترانے جیسی دُھنیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایرانی موسیقی کا ہندوستانی موسیقی میں امتزاج کر کے کچھ اور بھی راگنیاں بنائیں جن میں مجیر ، ساز گیزی، ایمن، عشاق ، موافق ، فرغنہ ، باخزر ، اور صنم جیسی راگنیاں شامل ہیں۔ خسرو کے جو راگ اور راگنیاں آج بھی گائی جاتی ہیں ان میں راگ ایمن، کلیان، راگ سہ پردہ ،راگ مجاز ، راگ سازگری، راگ شہانہ ، راگ فرغنہ ،راگ کافی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ اسی طرح امیر خسرو نے خود بھی اپنے ذہن سے کئی نئے راگ، راگنیاں، بنائیں اور ان کو نئی اصطلاحات کیساتھ رائج کیا۔ خسرو کے اختراع کردہ آلاتِ موسیقی میں طبلہ، ڈھولک ستار سرِ فہرست ہیں۔

    فارسی شاعری میں خسرو کا مرتبہ

    امیر خسرو اپنی کتاب "غرة الکمال" کے دیباچے میں فرماتے ہیں کہ میں نے غزل میں سعدی شیرازی کی پیروی کی، مَثنوی میں نِظامی گنجوی کو اُستاد مانا، مواعظ و حکم میں سنائی اور خاقانی کے کلام سے مستفید ہُوا اور قصائد میں رضی نیشاپوری اور کمال اسمٰعیل اصفہانی کو نمونہ بنایا فرماتے ہیں:

    خسرو سر مست اندر ساغرِ معنی بریخت
    شیرہ از خُمخانۂ سعدی کہ در شیراز بود

    خسرو کے بارے میں چند دوسرے اساتذہ کلام و اکابرینِ دین کے نظریات مُلاحظہ ہوں۔

    آں خسرو ماست ناصر خسرو نیست
    زیرا کہ خدائی ناصر خسرو ماست ،،،، (حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح)

    خسرو از رہ کرم بپذیرد
    آنچہ حق بندہ حسن کی گویم ،،،، ( امیر حسن سجزی دہلوی)

    شکر شکن شوند ہمہ طوطیانِ ہِند
    ایں قند پارسی کہ بہ بنگالہ میرود ،،، ( حافظ شیرازی)

    بر سرِ خسرو کہ بلند اختر ست
    از کفِ درویش گلی در خورست ،،،، (عبدالرحمان جامی)

    خسرو شیریں زباں رنگیں بیاں
    نغمہ ہائش از ضمیرِ کُن فکاں ،،،، (علامہ اِقبال)

    عطا کُن شورِ رُومی سوزِ خُسرو
    عطا کُن صدق و اِخلاص سنائی ،،،، (علامہ اقبال)

    رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
    ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو ،،،، (علامہ اقبال)

    تمام فارسی شعراء میں اگر خسرو کا موازنہ دیگر شعراء کلامِ فارسی سے کیا جائے تو خسرو کا کلام منفرد اور نمایاں نظر آئے گا جنھوں نے ادبِ فارسی کی تقریباً تمام تر اصنافِ سُخن میں طبع آزمائی کی وہ کسی صنفِ سُخن کے لئے مشہور نہیں ہوئے مثلاً غزنوی دور میں فردوسی رزمیہ شاعری کے ماہر، سلجوقی دور میں حافظ اور سعدی غزل گوئی کے اُستاد، بعد ازاں عبدالرحمان جامی ثنا گوئی میں بے مِثال، نظامی گنجوی غزل گوئی کیساتھ ساتھ مثنوی نویسی میں صاحبِ کمال اور ایلخانی دور میں مولانا روم صوفیانہ مثنوی نویسی میں منفرد جبکہ ان اصحاب کے بعد آنیوالے ادوار میں قصیدہ گوئی میں خاقانی اور قآنی جیسے لازوال اصحابِ فن پیدا ہوئے لیکن خسرو کے کلام میں ان تمام اصنافِ سُخن کے بادشاہوں کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ ایک اعلٰی درجے کے مثنوی نویس، بلند پایہ غزل گو، بلند فکر صوفیانہ مزاج کے شاعر اور بہترین قصیدہ گو ہونے کیساتھ ساتھ بے مِثال موسیقار بھی تھے، چنانچہ ہم بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خسرو فارسی شاعری کے ایسے ماہر اُستاد ہیں کہ اگر ان کو تمام شعراء زبان فارسی پر فوقیت حاصل نہیں تو اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اُن کے ہم پلہ ضرور ہیں۔۔ غالب عود ہندی میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہندوستان کے سخنوروں میں اَمیر خسرو کے سِوا کوئی اُستاد مسلم الثبوت نہیں ہوا۔
    بقول شِبلی نعمانی ہندوستان میں چھ سو برس سے آج تک اس پایہ کا جامع کمالات پیدا ہی نہیں ہوا اس قدر مختلف اور گونا گوں اوصاف کے جامع ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو چار ہی پیدا کئے ہونگے ۔خسرو ترکی اور عربی زبان میں ادبائے عرب کے ہمسر تھے انھیں سنسکرت زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔
    خواجہ الطاف حُسین حالی کے قول کیمطابق سعدی، رومی، خسرو، حافظ، عراقی، اور جامی کے کلام میں ضرور ایسی کوئی چیز ہے جس کو روحانیت کیساتھ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امیر خسرو تاریخی میدان میں ایک صاحبِ طرز مؤرخ، فقہ کے نہایت دانشمند فقیہ، اور تصوف میں بلند پایہ صوفی تھے۔ وہ مثنوی،قصیدہ، غزل میں یدِ طُولٰی رکھتے تھے ۔ پروفیسر حافظ محمود شیرانی فرماتے ہیں کہ امیر خسرو ادبی دنیا کے آفتابِ عالمتاب ہیں اور خاکِ ہند اب تک ان جیسے اوصاف و کمالات کا مالک انسان پھر پیدا نہیں کر سکی۔ ان کے ادبی نکات، تلمیحات، اور صنائع کلام کی تشریح طویل اور تھکا دینے والا کام ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ریختہ و آمیختہ کے موجد بھی امیر خسرو تھے، تغزل میں سوز و گداز اور جدتِ تشبیہ ان کا خاصا تھا خسرو نے مخصوص اور مختلف انداز سے اضطرابِ عشق، قرارِعشق اور سکون عشق کی رنگا رنگی کو نہایت احسن انداز سے بیان کیا ہے اس طرح وہ فارسی شاعری میں نمایاں طور پر زندہ و جاوید شاعر بن گئے ہیں ۔۔۔ المختصر فارسی ادب میں خسرو کا مقام اپنی انفرادی نوعیت میں لاثانی ہے اور انھیں پورے فارسی ادب میں ایک اعلٰ درجے کا عالم، بلند مرتبہ صوفی، اور بے مِثال شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔

    وفات۔۔۔۔۔۔۔۔

    18 جمادی الآخر 725ھ کو جبکہ حضرت نِطام الدین اولیاء (رح) اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے تو امیر خسرو اس وقت غیاث الدین تغلق کے ہمراہ بنگال گئے ہوئے تھے اپنے پیر و مُرشد کی وفات کی خبر سُن کر فوراً دہلی پہنچے اور مدفن کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔

    گوری سووے سیج پر مُکھ پر دھارے کھیس
    چل خسرو گھر اپنے رین بھئ سب دیس

    حضرت نِظام الدین اولیاء کی وفات کے ٹھیک 6 ماہ بعد 18 شوال المکرم 725ھ کو امیر خسرو نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا اور راہی مُلکِ عدم ہو گئے انھیں حضرت نِظام الدین اولیاء کے مزار کے پاؤں کی جانب دفن کیا گیا بعض شعراء نے ان کی وفات پر اشعار بھی کہے جن سے ان کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔

    بُلبلِ دستاں سرای بے قریں
    طوطئ شکر مقالِ بے مِثال
    از پی تاریخ سال فوت او
    چوں بیارم سر بہ زانوی خیال
    شُد "عدیم المثل" یک تاریخ او
    دیگرے شُد "طوطئ شکر مقال"

    از رشحات قلم ،،،پروفیسر سید اصغر علی شاہ صاحب

    دعا گو و دعا جُو ملک حبیب
     
    Last edited: ‏4 اگست 2015
    سائل، نعیم، آصف احمد بھٹی اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اعلیٰ جناب ۔جزاک اللہ
     
  3. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ محترم
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی محنت کی تعریف تو بہت مشکل ہے مگر آپ کے ہم سب آپ کے تہہ دل سے شکر گذار ہیں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ خیرا
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. Zh Pasha
    آف لائن

    Zh Pasha ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اپریل 2014
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ملک حبیب صاحب
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ملک صاحب ! بہت خوب ۔ ۔ ۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    پروفیسر اصغر علی شاہ صاحب کا تحقیقی مراسلہ ہم تک بحسن و خوبی پہنچانے کا بہت شکریہ ملک حبیب صاحب۔
    اللہ کریم آپکو جزائے خیر عطا کرے اور ہم سب کو اولیائے کرام کے عشق حقیقی کے سمندر سے کوئی قطرہ عطا کردے۔ آمین
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں