1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

طوطئ ہند یمین الدین ابو الحسن خسرو رحمتہ اللہ علیہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک حبیب, ‏4 اگست 2015۔

  1. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    طوطئ ہِند یمین الدین ابو الحسن خُسرو رحمتہ اللہ علیہ کے عُرسِ مبارک پر خصوصی تحریر

    حالاتِ زِندگی ۔۔

    امیر خسرو کی وِلادت یکم محرم الحرام 651ھ بمطابق 1253ء میں پٹیالی کے مقام پر ہوئی۔ اُن کے والد کا نام امیر سیف الدین محمود تھا۔ دراصل امیر سیف الدین محمود لاچین قبیلہ کے سردار تھے۔ 1220ء میں چنگیز خان نے سمر قند و بُخارا کو تہس نہس کر دیا تھاچنانچہ لاچین قبیلہ اپنے سردار کے ہمراہ ہندوستان منتقل ہوا۔ سلطان التمش نے اِس قبیلے کو اپنی پناہ میں لے لیا۔سردار امیر سیف الدین محمود التمش کے دربار میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر شاہ کے اقربا
    میں شُمار ہونے لگے اور اسی قربت کی بناء پر شاہ نے سیف الدین کو ایک جاگیر بھی عطا کی جس میں پٹیالی جسے بعد میں مومن آباد بھی کہا گیا عطا کی اور بارہ سو تنکے وظیفہ مقرر کر دیا۔ اسی جگہ امیر سیف الدین محمود کی شادی اُس دور کے ایک اور امیر عماد المُلک راوت کی بیٹی "دولت ناز" سے ہوئی۔
    امیر خسرو کی پیدائش پر اُن کے والد نے اُن کا نام ابو الحسن رکھا اور لقب یمین الدولہ قرار پایا۔ امیر خسرو کے دو بڑے بھائی بھی تھے ایک کا نام عزالدین اور دوسرے کا نام حسام الدین تھا اگرچہ یہ دونوں بھائی بھی اپنی علمی قابلیت کی بناء پر بڑے محترم مانے جاتے تھے لیکن جو مقام امیر خسرو کو نصیب ہوا وہ دوسرے بھائیوں کو نہ مل سکا۔ امیر خسرو ابھی آٹھ برس کے ہی تھے کہ اِن کے والد سردار سیف الدین محمود 659ھ میں بقضائے اِلٰہی وفات پا گئے۔ اس وقت سیف الدین کی عمر 85 سال کی تھی۔ والد کی وفات کے بعد امیر خسرو کی پرورش آپ کے نانا عماد المُلک نے کی۔
    چونکہ آپ کے نانا بذاتِ خود صاحبِ علم و فضل تھے اور صاحب جاہ و ثروت بھی۔
    انھون نے امیر خسرو کی تعلیم و تربیت بہت احس انداز میں کی اور ان کی تربیت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ خسرو نے پندرہ سال کی عمر میں تمام مروج و متداول علوم میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ فطری طور پر امیر خسرو ایک شاعر پیدا ہوئے تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا وہ خود "غرة الکمال" میں فرماتے ہیں "دراں صغر سن کہ دندان می افتاد سخن می گفتم"
    ڈاکٹر وحید مرزا لکھنؤ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور انھون نے خسرو کی حیات و اثرات پر ڈاکٹریٹ کی ہے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں گویا ہیں کہ خسرو کی عمر ابھی دَس سال کی نہ ہو گی کہ اُن کے اُستاد قاضی اسدالدین انھیں اپنے ہمراہ قاضی عزیزالدین کے گھر لے گئے اور ان سے کہا یہ بچہ بھی بہت اچھے شعر کہتا ہے ذرا اس سے بھی ایک دو شعر پڑھوا کر دیکھئے چنانچہ عزالدین نے ایک کتاب امیر خسرو کے ہاتھ میں دی اور کہا کہ اس کو پڑھو۔ خسرو نے اس کتاب کو نہایت مُترنم اور سُریلی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا جس پر سامعین پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ تاہم قاضی صاحب کے ایک اور دوست جو اس محفل میں تشریف فرما تھے کہنے لگے کہ گا کر شعر پڑھ لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس سے کہا جائے کہ چار متفرق چیزوں کے نام جن میں بظاہر کوئی مناسبت نہ ہو ایک ہی شعر میں اسی طرح بیان کرے کہ آپس میں مربوط مضمون کی شکل میں نظر آنے لگیں چنانچہ جن چار چیزوں کے نام لئے گئے وہ یہ تھیں۔ بیضہ،تیر،خربوزہ اور مُو۔۔۔
    امیر خسرو نے برجستہ ایک رُباعی کہہ دی۔

    ہر موی کہ در دو زُلف آن صنم است
    صد بیضۂ عنبرین بر آن موی صنم است
    چوں تیر مدان راست دلش را زہرا
    چوں خربوزہ دندانش میانِ شکم است

    یہ رُباعی سُن کر سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ خود قاضی صاحب نے فرمایا کہ اس شخص کا شہرہ بڑے بڑے اساتذۂ کلام میں بلند ترین ہو گا۔
    فارسی زبان کے علاوہ امیر خسرو ہندی زبان میں بھی بہت اچھے شعر کہتے تھے۔ جِس طرح مذکور بالا غیر مربوط فارسی الفاظ کو خسرو نے شعر کی لڑی میں مربوط کر کے پرو دیا اسی طرح ایک ایسی ہی نشست میں انھیں چار چیزوں کے نام ہندی میں دئیے گئے کہ انھیں مربوط انداز میں شعر میں پرو دیا جائے۔ وہ الفاظ یہ تھے کُتا، چرخہ، ڈھول ، کھیر ۔۔۔۔ آپ نے فوراً فی البدیہہ یہ شعر کہہ دیا۔

    کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جَلا
    آیا کُتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

    جب تک اَمیر خُسرو کے نانا اُن کے سر پر سلامت رہے اُس وقت تک اُن کے روز و شب بڑے آرام و آسائش سے گزرے۔ اگرچہ چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئے تھے لیکن نانا نے انھیں بہت احسن طریقے سےسنبھالا تھا اور ان کی تعلیم و تربیت میں مکمل التفات سے کام لیا تھا۔ چنانچہ خسرو کے دِل سے باپ کی فُرقت کا صدمہ اگرچہ محو نہیں ہوا تھا لیکن اس غَم کی شِدت میں کمی واقعی آ گئی تھی۔ نانا کی شفقت اور احسان نے ان کے دِل کو بہت زیادہ تسکین بخشی تھی۔ 671ھ میں جبکہ امیر خسرو کی عمر بیس سال تھی عماد المُلک بھی اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ ۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔
     
    ھارون رشید اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اعلیٰ جناب ۔جزاک اللہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک حبیب
    آف لائن

    ملک حبیب ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مارچ 2015
    پیغامات:
    78
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی عمدہ جی ، دل خوش ہوگیا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں