1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صحیح بخاری

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏6 فروری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب بدء الوحى
    کتاب: وحی کے بیان میں

    1- باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
    باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی۔


    وَقَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ}:
    اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ ” ہم نے بلاشبہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔ “

    حدیث نمبر: 1

    حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ".

    ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب بدء الوحى
    کتاب: وحی کے بیان میں

    ( باب: )
    باب: (کیفیت وحی)۔

    حدیث نمبر: 2
    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي، وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ، وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا.
    ہم کو عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، ان کو مالک نے ہشام بن عروہ کی روایت سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے نقل کی، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی آپ نے فرمایا کہ ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس (فرشتے) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب بدء الوحى
    کتاب: وحی کے بیان میں

    ( باب: )
    باب: (وحی کی ابتداء)۔

    حدیث نمبر: 3

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا،
    قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: " اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ { 1 } خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ { 2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ { 3 } " سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ، قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ ".

    ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري حدیث نمبر: 4
    قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: " يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ { 1 } قُمْ فَأَنْذِرْ { 2 } " سورة المدثر آية 1-2، فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ، تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، وَأَبُو صَالِحٍ ، وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، وَقَالَ يُونُسُ ، وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ.

    ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے ہلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ «فواده» کی جگہ «بوادره» نقل کیا ہے۔
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري حدیث نمبر:5

    حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: " لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا، وَقَالَ سَعِيدٌ: أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا، فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ { 16 } إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ { 17 } سورة القيامة آية 16-17، قَالَ: جَمْعُهُ لَهُ فِي صَدْرِكَ وَتَقْرَأَهُ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، قَالَ: فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ، فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأَهُ ".
    موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو (یعنی اس کو محفوظ کر سکو) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرائیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدیث نمبر: 6
    حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ نَحْوَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ ".


    ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدیث نمبر: 7

    حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ، " أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَكَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَكُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ: أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، فَوَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ كَذِبًا لَكَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ، أَنْ قَالَ: كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا، قَالَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْكَلِمَةِ، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قُلْتُ: الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ، قَالَ: مَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ اعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُكُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ، فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ؟ لَقُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، قُلْتُ: فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ أَبِيهِ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ، أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ، أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ، أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ يَغْدِرُ؟ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ، بِمَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالْعَفَافِ، فَإِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِكُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِه دِحْيَةُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ إِلَى هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا: اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، وَكَانَ ابْنُ النَّاظُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفًّا عَلَى نَصَارَى الشَّأْمِ، يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ، فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ: قَدِ اسْتَنْكَرْنَا هَيْئَتَكَ، قَالَ ابْنُ النَّاظُورِ: وَكَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ، فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِكَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ، فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ؟ قَالُوا: لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ، فَلَا يُهِمَّنَّكَ شَأْنُهُمْ وَاكْتُبْ إِلَى مَدَايِنِ مُلْكِكَ، فَيَقْتُلُوا: مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ؟ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى أَمْرِهِمْ، أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِكُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ، قَالَ: اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا؟ فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ، وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ؟ فَقَالَ: هُمْ يَخْتَتِنُونَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَذَا مَلِكُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ، ثُمَّ كَتَبَ هِرَقْلُ إِلَى صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَكَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ، وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَى حِمْصَ، فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّى أَتَاهُ كِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَى خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْكَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ، ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ، ثُمَّ اطَّلَعَ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ، وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْكُكُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ؟ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنَ الْإِيمَانِ، قَالَ: رُدُّوهُمْ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَكَانَ ذَلِكَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ "، رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَيُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَن الزُّهْرِيِّ.
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدیث نمبر: 7
    ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا، (ابوسفیان کا قول ہے کہ) اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے (نبوت) سے پہلے کبھی (کسی بھی موقع پر) اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اور اب ہماری اس سے (صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ (ابوسفیان کہتے ہیں) میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے (میدان جنگ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (دعویٰ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں، تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے (دل میں) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص (اس بہانہ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، تو (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ تم نے کہا نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا): اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو) اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیاء آیا، ایک دن صبح کو پریشان اٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔ (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دئیے جائیں۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے (سارے حالات) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا ”اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ“ (یہ سننا تھا کہ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے (مگر) انہیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وایاکَ
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    1- باب الإيمان وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «بني الإسلام على خمس»:

    باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔

    وَهُوَ قَوْلٌ وَفِعْلٌ وَيَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ سورة الفتح آية 4، وَزِدْنَاهُمْ هُدًى سورة الكهف آية 13، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى سورة مريم آية 76، وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ سورة محمد آية 17، وَقَوْلُهُ: وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا سورة المدثر آية 31، وَقَوْلُهُ: أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا سورة التوبة آية 124، وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا سورة آل عمران آية 173، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: وَمَا زَادَهُمْ إِلا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا سورة الأحزاب آية 22، وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ: إِنَّ لِلْإِيمَانِ فَرَائِضَ وَشَرَائِعَ وَحُدُودًا وَسُنَنًا، فَمَنِ اسْتَكْمَلَهَا اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَكْمِلْهَا لَمْ يَسْتَكْمِلِ الْإِيمَانَ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَيِّنُهَا لَكُمْ حَتَّى تَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنْ أَمُتْ فَمَا أَنَا عَلَى صُحْبَتِكُمْ بِحَرِيصٍ.
    اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔“ (سورۃ الفتح: 4) اور فرمایا کہ ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا (سورۃ الکہف: 13) اور فرمایا کہ جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے (سورۃ مریم: 76) اور فرمایا کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی (سورۃ محمد: 17) اور فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا (سورۃ المدثر: 31) اور فرمایا کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا (سورۃ التوبہ: 124) اور فرمایا کہ منافقوں نے مومنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا «حسبنا الله و نعم الوكيل» (سورۃ آل عمران: 173) اور فرمایا کہ ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔ (سورۃ الاحزاب: 22) اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے (رواہ ابوداؤد عن ابی امامہ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض اور عقائد ہیں۔ اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔
    وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260، وَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْيَقِينُ الْإِيمَانُ كُلُّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ التَّقْوَى حَتَّى يَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ، أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَإِيَّاهُ دِينًا وَاحِدًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا سَبِيلًا وَسُنَّةً.
    اور ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ ”لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔“ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے (اور صبر آدھا ایمان ہے۔ رواہ الطبرانی) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ «شرع لکم من الدين» الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ (اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ «شرعة ومنهاجا‏» کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    2- باب دعاؤكم إيمانكم:
    باب: اس بات کا بیان کہ تمہاری دعائیں تمہارے ایمان کی علامت ہیں۔

    لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلا دُعَاؤُكُمْ سورة الفرقان آية 77، وَمَعْنَى الدُّعَاءِ فِي اللُّغَةِ الْإِيمَانُ.
    اور سورۃ الفرقان کی آیت میں لفظ «دعاؤكم» کے بارے میں فرمایا کہ «ايمانکم» اس سے تمہارا ایمان مراد ہے۔

    حدیث نمبر: 8
    حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ".

    ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انہوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    3- باب امور الإيمان:
    باب: ایمان کے کاموں کا بیان۔
    وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}. وَقَوْلِهِ: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} الآيَةَ.
    اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم (نماز میں) اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ (کی ذات و صفات) پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے (حاجت مند) رشتہ داروں کو اور (نادار) یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور (تنگ دست) مسافروں کو اور (لاچاری) میں سوال کرنے والوں کو اور (قیدی اور غلاموں کی) گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر و شکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور (معرکہ) جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مومن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔ یقیناً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ (زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے) شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

    حدیث نمبر: 9

    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ".
    ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابوعامر عقدی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    4- باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده:
    باب: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں (کوئی تکلیف نہ پائیں)۔
    حدیث نمبر: 10
    حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: حَدَّثَنَا دَاوُد، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى: عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
    ہم سے آدم بن ابی ایاس نے یہ حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے وہ عبداللہ بن ابی السفر اور اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، وہ دونوں شعبی سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا اور ابومعاویہ نے کہ ہم کو حدیث بیان کی داؤد بن ابی ہند نے، انہوں نے روایت کی عامر شعبی سے، انہوں نے کہا کہ میں نے سنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، وہ حدیث بیان کرتے ہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہی مذکورہ حدیث) اور کہا کہ عبدالاعلیٰ نے روایت کیا داؤد سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
     
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    5- باب اي الإسلام افضل:
    باب: کون سا اسلام افضل ہے؟

    حدیث نمبر: 11
    حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ".

    ہم کو سعید بن یحییٰ بن سعید اموی قریشی نے یہ حدیث سنائی، انہوں نے اس حدیث کو اپنے والد سے نقل کیا، انہوں نے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انہوں نے ابی بردہ سے، انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    6- باب إطعام الطعام من الإسلام:
    باب: کھانا کھلانا (بھوکے ناداروں کو) بھی اسلام میں داخل ہے۔

    حدیث نمبر: 12

    حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ، يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: " تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ".

    ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    7- باب من الإيمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه:
    باب: ایمان میں داخل ہے کہ مسلمان جو اپنے لیے پسند کرے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے پسند کرئے۔

    حدیث نمبر: 13

    حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ".

    ہم سے حدیث بیان کی مسدد نے، ان کو یحییٰ نے، انہوں نے شعبہ سے نقل کیا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ اور شعبہ نے حسین معلم سے بھی روایت کیا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    8- باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الإيمان:
    باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے۔

    حدیث نمبر: 14

    حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ ".

    ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، ان کو شعیب نے، ان کو ابولزناد نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدیث نمبر: 15

    حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ".

    ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے، ان کو ابن علیہ نے، وہ عبدالعزیز بن صہیب سے روایت کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں اور ہم کو آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے، وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو اس کا بہت بہت اجر دے ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     
  22. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں

    9- باب حلاوة الإيمان:

    باب: ایمان کی مٹھاس کے بیان میں۔

    حدیث نمبر: 16
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ".
    ہمیں محمد بن مثنیٰ نے یہ حدیث بیان کی، ان کو عبدالوہاب ثقفی نے، ان کو ایوب نے، وہ ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں، وہ انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    10- باب علامة الإيمان حب الانصار:
    باب: انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔

    حدیث نمبر: 17
    حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ ".

    ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہیں عبداللہ بن جبیر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا، وہ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    11- باب

    حدیث نمبر: 18
    حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: " بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ "، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك.
    ہم سے اس حدیث کو ابوالیمان نے بیان کیا، ان کو شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں، انہیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی ان علمی اور اصلاحی کاوشوں پر ہم صرف آپ کے لیے دُعا ہی کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ آمین
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. Abdul Basit Aman
    آف لائن

    Abdul Basit Aman ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2019
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اللہ مزید ترقی دے...
    ایک عرض ہے کہ بجائے بالترتیب احادیث کے مخلتف موضوعات کی منتخب احادیث کع جمع کیا جائے تو زیادہ سود مند ہوگا...
     
    زنیرہ عقیل اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آمین
     
  28. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جناب محترم ۔ ۔ ۔ احادیث کو ترتیب سے جمع کرنے کی جملہ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح ہمارے بزرگوں کے علمی خزانے نوجوان نسل تک اسی ترتیب سے پہنچے جس ترتیب سے ہم بزرگ اسے مرتب کر گئے ہیں ، اور پھر انشاء اللہ یہ تمام کتب مکمل ہونگی تو ہمارے صارفین کو بیش بہا علمی خزانہ اور ان کے مسائل کا حل ایک ہی جگہ انہیں مل جائے گا ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    منتخب احادیث تو وقتاً فوقتاً احباب شئیر کرتے رہتے ہیں
    لیکن ترتیب کے ساتھ اگر تمام احادیث مل جائیں تو سونے پہ سہاگہ
     
    Abdul Basit Aman نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صحيح بخاري
    كتاب الإيمان
    کتاب: ایمان کے بیان میں
    12- باب من الدين الفرار من الفتن:
    باب: فتنوں سے دور بھاگنا (بھی) دین (ہی) میں شامل ہے۔

    حدیث نمبر: 19
    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ ".

    ہم سے (اس حدیث کو) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے اسے مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انہوں نے اپنے باپ (عبداللہ رحمہ اللہ) سے، وہ ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں