1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صبر،تحمل اوربرداشت کی اہمیت ۔۔۔۔ مہراظہرحسین وینس

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    صبر،تحمل اوربرداشت کی اہمیت ۔۔۔۔ مہراظہرحسین وینس

    آج کل صبر،تحمل اوربرداشت کی زیادہ ضرورت ہے ،صبرکے لغوی معنی ہیں روکنا،برداشت کرنا ،ثابت قدم رہنا یاباندھ دینا۔ اس کامفہوم ہے کہ ناخوشگوارحالات میں اپنے نفس پرقابو رکھنا۔ کسی بھی پریشانی ،بیماری ،تکلیف اورصدمے کی حالت میں ثابت قدمی اورہمت قائم رکھتے ہوئے اپنے مالک وخالق پرمکمل بھروسہ رکھنا ۔
    ’’اے ایمان والو تم اللہ سے مدد طلب کرو ،صبر اور نماز کے ساتھ‘‘(البقرہ )
    اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ’’اللہ صابروں کو دوست رکھتاہے ‘‘۔اللہ تعالیٰ صبرکی فضیلت یوں بیان فرماتے ہیں’’یقینااللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔دوسری جگہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اورجومصیبت آپ کوپیش آئے ،اس پرصبرکرو،یہ بڑے عزم اورحوصلے کی بات ہے‘‘۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرﷺ سے فرمایا’’اور(اے رسول ؐ)صبرکیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبرکیا‘‘۔
    اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر200 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اے ایما ن والو!خود بھی صبرکرو اور دوسروں کوبھی صبرکی تلقین کرو‘‘۔
    اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے،
    ’’اے ایمان والو تم اللہ سے مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ساتھ‘‘(البقرہ آیت ۱۵۳)
    لوگوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیاچیزہے؟توآپ ﷺ نے فرمایاصبر۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبرکو ارکان ایمان میں سے ایک رکن قراردیااسے جہاد،عدل اوریقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا:اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے (۱)یقین (۲) صبر (۳)جہاد (۴) عدل ۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے بعض ایمان والے بندوں اورایمان والی بندیوں پراللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اورحوادث آتے رہتے ہیں ، کبھی اس کی جان پرکبھی اس کے مال پرکبھی اس کی اولاد پر (اوراس کے نتیجے میں اس کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں)یہاں تک کہ مرنے کے بعد وہ اللہ کے حضو ر اس حال میں پہنچتا ہے کہ اس کاایک گناہ بھی باقی نہیں ہوتا۔ ‘ ‘ (جامع ترمذی) بعض لوگ دنیا میں حد سے زیادہ دکھ ، تکلیف اور بیماری کا شکار بنتے ہیں۔ ان لوگوں کو اجراسی مقدار میں ملے گا جس مقدار میں انہوں نے مصیبت اٹھائی ۔ سب سے زیادہ تکالیف اللہ کے پیغمبروں اور برگزیدہ ہستیوں نے برداشت کیں اور ان پر شکر اورصبرکیاجس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی اندوہناک خبرسنائی گئی توانہوں نے صبرکیا۔ حضرت عائشہ ؓ کوایک سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی توآپؓ نے صبر کیا جس کو صبرجمیل کہا جاتاہے اسی طرح حضرت حارثؓ کوتپتے انگاروں پرلٹایا گیا ،حضر ت بلال ؓ کے گلے میں رسی ڈال کرگھسیٹاگیا۔حضرت صہیب رومیؓ کو ہجرت کے موقع پرمال ودولت سے ہاتھ دھونا پڑا، حضرت ابو سلمہ ؓ سے ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے ،ام سلمہؓ سے بچے اور شوہرچھین لیاگیا ۔حضرت خبیب ؓ کوایمان لانے کی وجہ سے سولی پرلٹکا دیاگیا ۔
    سب سے زیادہ تکالیف ہمارے پیارے آقاومولیٰ حضرت محمدﷺنے اٹھائی ہیں ۔دین حق کی تبلیغ کااعلان کیاتو کفارمکہ آپ ؐکے دشمن ہوگئے ۔ آپؐ نے ان کے ظلم وستم کوبرداشت کیا،صبراوراستقلال کادامن نہ چھوڑا۔ابولہب نے آپ ﷺ کوبراکہا۔اس کی بیوی ام جمیل آپ ؐکے راستے میں کانٹے بچھاتی اور کوڑا پھینکتی تب بھی آپؐ لوگوں کے حق میں دعائیں کرتے اور صبراختیار کرتے ۔
    آپ ﷺکاسوشل بائیکاٹ کیاگیا، شہید کرنے کی (نعوذ باللہ) ناپاک تدبیریں کی گئیں۔طائف میں آپﷺپر سنگباری کرکے بدن مبارک کولہولہان کیاگیا ۔ غزوہ احدمیں آپؐ کے دندان مبارک شہیدکردیئے گئے لیکن آپ ؐنے ہرموقع پر صبرو استقلال سے ہرتکلیف کواپنے اللہ کی خوشنودی اورحق کی تبلیغ کے لیے برداشت کیا اورہروقت آپ ؐکی زبان سے دعائیہ کلمات ہی نکلے کہ ’’اے اللہ ان کوہدایت دے یہ مجھ کونہیں جانتے ‘‘۔ حضور پر نور رحمت عالم ﷺ کے اس صبر نے عرب کے لوگوں میں انقلابی تبدیلی پیداکردی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دنیاوآخرت میں حقیقی کامیابی کی خوشخبری کے حق داروہی ہیں جوصبراختیار کرتے ہیں‘‘۔ صبرکا خاص انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں صابرکوسب لوگوں کے سامنے خاص انعام سے نوازے گا۔صبرکے ثمرات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کاساتھ دیتاہے ،انہیں فتح وکامرانی نصیب ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں اعلیٰ ترین گھرملنے ہیں جن میں ان کے تما م نیک رشتہ داربھی ان کے ساتھ رہیںگے ۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بھی صبرکے مفیدنتائج سامنے آتے ہیں۔ قوموں پرجب کوئی مصیبت یا براوقت آجائے تواس کامقابلہ صرف ہمت اورصبرہی سے کیاجاسکتاہے۔ان حالات میں افراتفری ،بدنظمی ،مایوسی اور بے عملی کامظاہرہ کیاجائے توقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اگر کوئی تکلیف یامصیبت آپڑے تواللہ کی رضا کی خاطر صبرواستقامت کا مظاہرہ کریں۔
    علامہ خازن اپنی تفسیر میں ’’حسن خلق‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ لوگوں سے محبت کرنا‘ معاملات کی درستگی ، اپنوں اور بیگانوں سے اچھے تعلقات رکھنا‘ سخاوت کرنا، بخل اور حرص سے پرہیز کرنا‘ تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا، اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ امام غزالی ؒنے حسن خلق کے بارے میں بڑی قیمتی بات فرمائی ہے۔’’حسن خلق کا ثمرہ الفت ہے اور برے اخلاق کا پھل بیگانگی اور دلوں کی دوری ہے۔‘‘
    حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’مومن بندہ کا معاملہ بھی عجیب ہے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے خیر ہی ہے‘‘۔
    اس دنیا میں دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام و خوشی بھی، مٹھاس بھی ہے اور تلخی بھی‘ خوشگواری بھی ہے اور ناخوشگواری بھی، مومن کا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلہ سے ہوتاہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے بندوں کا یہ حال ہونا چاہئے کہ جب کوئی دکھ اور مصیبت پیش آئے تو مایوسی کا شکار ہونے یا غلط طریقے سے اظہار غم کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں اور اس یقین کو دل میں تازہ رکھیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی دکھوں سے نجات دینے والا ہے۔ اس طرح جب مومن خوشی و شادمانی کے دور سے گزر رہا ہو تو اس کو اپنا کمال اور اپنی قوتِ بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے وہ کسی بھی وقت نعمت چھین بھی سکتا ہے اس لیے نعمت ملنے پر شکر ادا کیجیے۔ اسلامی ہدایات کے مطابق ایک طرف تو خوشی کی حالت میں بھی بندہ خدا سے وابستہ رہتا ہے اور دوسری طرف مصیبتوں اور ناکامیوں سے شکست نہیں کھاتا، مایوسی اور دل شکستگی سے اس کی عملی قوتوں پر بُرا اثر نہیں پڑتا۔
    حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’ اے ابن آدم! اگر تو نے ابتدا ہی سے صدمہ کو برداشت کیا اور میری رضا اور مجھ سے ثواب کی نیت کی تو میں راضی نہیں ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے‘‘۔ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکایت کرے تو اللہ کا ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دیں گے‘‘۔
    حضرت انس سے روایت ہے کہ آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم نزع کے وقت آپﷺ کی گود میں تھے۔ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺکیا آپ ﷺبھی روتے ہیں؟
    آپ ﷺنے فرمایا، اے ابن عوف! یہ رحمت کے آنسو ہیں، اس کے بعد پھر آنسو جاری ہو گئے پھرآپﷺ نے فرمایا ، ’’آنکھیں آنسو بہاتی ہیں‘ دل غمگین ہے اور ہم زبان سے کوئی بات نہیں کہتے مگر جس سے ہمارا رب راضی ہو‘‘۔
    قابل رشک بندہ کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ نماز کی عبادت سے بھی خوب حصہ ملا ہو۔ یعنی نماز میں مصروفیت زیادہ ہو۔ مزید یہ کہ وہ اللہ کی عبادت و اطاعت دکھاوے کے لئے نہ کرتا ہو۔ اتنا نیک ہونے کے باوجود یہ قابل رشک مومن اتنا غیرمعروف اور گمنام کہ آتے جاتے کوئی ان کی طرف انگلی اٹھا کر نہیں کہتا کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں صاحب ہیں اس بندے کو اللہ نے روزی بھی بس اتنی دی جو کہ اسے کافی ہو جائے اور اس پر صبر کرتا ہے۔ اور قناعت اختیار کرتا ہے۔ پھر جب موت کا وقت آیا تو ایک دم رخصت ، اپنے پیچھے نہ مال و دولت چھوڑا نہ جائیداد اور نہ دکانیں نہ مکانات کی تقسیم کے جھگڑے، اور ان کے مرنے پر ان پر رونے والے بھی کم۔
    ’’حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکؐ نے فرمایا مومن بندہ کا معاملہ بھی عجیب ہے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے خیر ہی ہے۔‘‘
    آج اگر کوئی انسان اصلاح کرنے چلے اور نتائج مثبت نظر نہ آئیں تو پھر اسے مصلح اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے طائف کی وادی والا صبر اور تحمل سیکھنا ہو گا۔ اصلاح کرنے پر لوگوں کے منفی رد عمل کے باوجود ان کے لیے بارگاہ الٰہی میں ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کرنا ہوں گی اور یہ اصلاح کا عمل مسلسل جاری رکھنا ہو گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ رحمۃ للعالمینﷺکے طریقہ پر ہو گا تو یقینا اصلاح کے نتائج ظاہر ہوں گے۔
    {یا ایہاالذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوٰۃ}
    چنانچہ ایک مرتبہ ایک یہودی راہب نے تاجر کے روپ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوروں کا سودا کیا کہ یہ رقم لے لیں اور میں فلاں تاریخ کو آکر کھجوریں لے لوں گا پھر یہودی راہب مقرر تاریخ سے چند روز پہلے آگیا اور نبی ﷺ کے سامنے غیر مناسب انداز اختیار کیا۔ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ انہیں بہت غصہ آیا۔ نبی ﷺنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’اسے سودے کی کھجوریں دے دو۔‘‘
    وزدہ عشرین صاعاً مکان من……… اور اس جھگڑے کے بدلے میں بیس صاع کھجوریں اور دیدو۔ اس تاجر نے وہ کھجوریں لے کر ایک طرف رکھیں اور کہا کہ اے عمر اللہ تیرا بھلا کرے۔ میں نے آخری نبی ﷺکی جونشانیاں اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں وہ سب میں نے پا لی تھیں ایک نشانی رہ گئی تھی کہ آخری نبی میں حلم اور بردباری بھی اور لوگوں سے زیادہ ہو گی اور یہ خوبی بھی آج دیکھ لی۔ اور اس نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔
    اللہ تعالیٰ نے ابلاغ حق کے لیے مؤثر ترین طرزِ عمل اپنانے کا سلیقہ قرآن مجید میں سکھایا۔ فرمایا:
    {ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن}
    ’’اللہ کے راستے کی طرف بڑی دانائی سمجھداری اور عمدہ نصیحت سے بلائو اور اچھے طریقے سے دلیل کے ساتھ بات کرو۔‘‘حضرت نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ دعوتِ اسلام کے لیے بہترین طرزِ عمل امت کے سامنے رکھا۔ لوگوں کی طبیعت کا خیال رکھا اپنے طرزِ عمل سے دین کو آسان بنا کر پیش فرمایا۔ فضائل اور خوشخبریاں دے کر دین سکھایا۔ وقت پڑنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ یہی بہترین طرز عمل آج بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں