1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ رشید کی دنیا ۔۔۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏14 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ رشید کی دنیا ۔۔۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان

    شیخ رشید احمد پاکستانی سیاست میں اپنے مخصوص انداز، سیاسی پیش گوئیوں، منفرد سیاسی زبان، لب و لہجے اور بیباکی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی تبصروں، تجزیوں اور منفرد سوچ کی وجہ سے پاکستانی میڈیا کے بھی فیورٹ سیاستدان ہیں اور اپنی پریس کانفرنسوں میں اپوزیشن کو للکارنے اور معنی خیز جملے بازی کے سبب بھی جانے جاتے ہیں۔ اپنی پہلی تصنیف ''فرزند پاکستان‘‘ میں شیخ صاحب نے ایک اور صاحب کے بارے میں لکھا تھا ''وہ جتنے اچھے دل کا انسان ہے اور ملک کی خدمت کے جو جذبات رکھتا ہے وہ عوام تک صحیح نہیں پہنچ سکے‘‘ یقینا آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ شیخ صاحب یہ کس کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔ ان صاحب کا نام نواز شریف ہے۔ اگرچہ شیخ رشید آج کل ان کے مخالف ہیں لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ ان کا نواز شریف کے بارے میں لکھا گیا یہ جملہ ایک دن انہیں پر صادق آئے گا۔ گزشتہ ہفتے دنیا پبلشرز کے زیر اہتمام شیخ رشید احمد کی دوسری کتاب ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ کی تقریب رونمائی میں بڑے بڑے اخبار نویسوں، لکھاریوں اور سیاستدانوں کی تقریریں سنتے ہوئے یہ جملہ میری نظروں کے سامنے ناچ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا شیخ رشید صاحب کی شخصیت کا تعارف یہی ہے‘ جو ان تقریروں میں پیش کیا جا رہا ہے یا پھر وہ بھی عوام تک صحیح نہیں پہنچ پایا۔
    شیخ رشید 1950ء میں بھابھڑا بازار راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ والدہ کے قریب تھے مگر والد سے کبھی نہیں بنی، بہن بھائیون سے بھی ہمیشہ خائف نظر آئے۔ بچپن سے ہی خونی رشتوں میں تلخیاں رہیں جس کا وہ کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔ جو لوگ انہیں جانتے پہچانتے ہیں خصوصاً شیخ صاحب کے مخالفین‘ وہ کہتے ہیں کہ شیخ فیملی مین نہیں ہے، وہ بدتمیز اور بدلحاظ تھا‘ جو اپنے خونی رشتوں کا نہ بن سکا وہ کسی کا کیا بنے گا؟ اپنے والد سے ان کی ان بن اس حد تک بڑھ جاتی کہ وہ انہیں گھر سے نکال دیتے مگر والد کے مقابلے میں والدہ نرم دل اور محبت کرنے والی تھیں؛ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کی ہر بات پردہ ڈال دیتیں اور گلے لگا لیتیں مگر اس زمانے میں تو شیخ صاحب کو ان سے بھی کوئی خاص لگاؤ نہ تھا‘ ہاں جب وہ دنیا سے چلی گئیں تو انہیں یاد کر کے روتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''شیخ اپنے خونی رشتے نبھانے میں تو فیل ہی رہا ہے‘‘۔
    1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی مرتبہ راولپنڈی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے شیخ رشید 2018ء کے عام انتخابات میں 8ویں مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس عرصہ میں 14 بار وفاقی وزیر بن چکے ہیں؛ البتہ اس دوران 2008ء کے انتخابات میں انہیں مسلسل 6 بار کامیاب ہونے والے حلقے سے ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔
    الیکشن کے فوراً بعد شیخ رشید سپین چلے گئے‘ جس پر ان کے سیاسی مخالفین نے واویلا کیا کہ شیخ رشید اپنی شکست سے دلبرداشتہ ہو کر سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے ہیں‘ لیکن یہ سوچ وقت کے ساتھ غلط ثابت ہو گئی۔ شکست کی بڑی وجہ لال مسجد کا واقعہ تھا اور شیخ نے پہلے سے فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد سیاست چھوڑ دیں گے مگر انہوں نے کہا کہ میری شکست نے مجھے فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا‘ لہٰذا انہوں نے پی ایم ایل ق کو خیرباد کہا اور عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت بنائی۔
    2010ء میں ضمنی انتخابات کی تیاریوں کے دوران شیخ صاحب اپنی سیٹ بحال کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف تھے کہ ان پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا۔ شیخ صاحب خود تو محض زخمی ہوئے مگر ان کے تین باڈی گارڈ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ضمنی انتخابات میں بھی وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ابتدا میں انہوں نے جنرل مشرف کی جانب سے کئے جانے والے فاٹا میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں ان کی حمایت کی تھی۔ شاید اسی باعث وہ ان کے نشانے پر آ گئے تھے۔
    شیخ رشید نے اپنی تقریر میں اس کتاب کی اشاعت اور اس بھرپور تقریب کے انعقاد پر چیئرمین دنیا گروپ میاں عامر محمود اور ایم ڈی نوید کاشف کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے ہوئے اجمل جامی نے حاضرین کو محفل سے باندھے رکھا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ ہم شیخ رشید کو نہیں مانتے کیونکہ وہ عام لوگوں میں سے ہیں، کوئی وزیر، عام آدمی کے اتنے قریب نہیں جتنے وہ ہیں، شیخ رشید جیل گئے اور اس کو انجوائے کیا اور کتاب لکھی، وہ منظر نہیں بھولے گا جس دن کوٹھیوں والے پیچھے رہ گئے اور مکان میں رہنے والا سارے ناکے توڑ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر مقررہ جگہ پہنچا اور ٹی وی وین پر بیٹھ کر ایک سگار سلگا رہا تھا‘ اس دن لگا‘ کوٹھیوں والے ہار گئے مکان والا جیت گیا۔
    معروف صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا: شیخ رشید کوئی چاندی کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے، زمانہ طالب علمی میں ہی شیخ رشید نے اپنے آپ کو متعارف کروانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کو زچ کیا، ضیاالحق کو بھی کھٹکتے رہے، نواز شریف سے جپھیاں ڈالیں، مشرف کے پسندیدہ رہے، عمران خان کو گرویدہ بنایا، شیخ رشید جلسوں کو لوٹتے اور ٹی وی سکرین پر چھائے رہے، شیخ رشید کی آنکھوں نے بہت کچھ ایسا دیکھا جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ معروف صحافی عارف نظامی، سلیم بخاری اور سلمان غنی نے بھی شیخ رشید صاحب کی خوبیاں گنوانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے بعد سیاستدانوں کی باری آئی تو صوبائی وزیر میاں محمودالرشید، وزیر قانون راجہ بشارت اور ڈاکٹر شہباز گل بھی شیخ رشیدصاحب کی انداز سیاست کے گرویدہ نظر آئے۔تقریب کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب چودھری سرور نے کہا کہ شیخ رشید تنقید بھی کرتے ہیں اور تعلقات بھی قائم رکھتے ہیں جو ایک آرٹ ہے، ان کی بہت سی پیش گوئیاں فوری ٹھیک ثابت ہو جاتی ہیں کچھ میں وقت لگتا ہے۔ شیخ رشید نے 30 سال قبل میری پاکستان کی سیاست میں آنے کی پیش گوئی تھی‘ اور میں نے اس وقت کہا تھا کہ میں کبھی بھی پاکستان کی سیاست میں حصہ نہیں لوں گا‘ مگر بعد ازاں یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے اس کتاب میں شادی نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی‘ شاید وہ اپنی اگلی کتاب میں شادی نہ کرنے کی وجہ بتا دیں۔
    تقریب میں سب سے دلچسپ تقریر سینیٹر ولید اقبال نے کی۔ انہوں نے حاضرین کو نہ صرف یہ احساس دلایا کہ وہ یہ کتاب پڑھ کر آئے ہیں، بلکہ انہوں نے شیخ صاحب سے گلہ بھی کیا کہ انہوں نے اس کتاب میں صرف تعریفیں ہی کی ہیں‘ کسی کے بارے میں برائی نہیں لکھی بلکہ دلچسپ واقعے لکھے ہیں۔ سٹیج سیکرٹری نے سینیٹر صاحب کو تین مرتبہ اپنی تقریر مختصر کرنے کی گزارش کی لیکن وہ چونکہ کتاب پڑھ کر آئے تھے‘ لہٰذا اپنی بات پوری کر کے ہی مائیک چھوڑا۔ ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ کی اس تقریب کے دُلہا شیخ رشید جب تقریر کرنے کے لئے آئے تو حسب معمول ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ سب سے پہلے تو جناب شیخ نے مقررین اور حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ ان کی والدہ بچپن سے یہ کہتی تھیں کہ ان کے سر پر کوئی سایہ ہے لیکن انہیں آج اس تقریب میں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان کے سر پر واقعی کوئی سایہ ہے۔ شیخ رشید کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں۔ میرے نزدیک دوستوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوست کو اس کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں سے بھی آگاہ رکھتے ہیں۔ تمام مقررین میں مجھے شیخ صاحب کے ایک ایسے مخلص دوست کی کمی محسوس ہوئی‘ جو ان کی کچھ بشری خامیوں پر بھی بات کرتا۔ اگر ہم مقررین کی باتوں پر جائیں تو شیخ رشید ایک ایسے فرشتہ صفت انسان اور ایک ایسے نیک نیت سیاستدان ہیں کہ ان جیسا کوئی دوسرا اس ملک میں تو کیا پورے عالم میں نہیں ملے گا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں