1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ ابراہیم ذوقؔ کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏5 ستمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی

    تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے

    خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں

    پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے

    پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم

    پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے

    شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں

    پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے

    ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر

    بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

    آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی

    جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے

    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز

    ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے

    سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا

    چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے

    لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں

    اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے

    رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم

    مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے

    ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں

    یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے

    ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا

    ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے
     
    د پیخورگل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جائے تو اچھا

    ہے حسرت پابوس نکل جائے تو اچھا

    جو چشم کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر

    جو دل کہ ہو بے داغ وہ جل جائے تو اچھا

    بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا

    لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

    ہو تجھ سے عیادت جو نہ بیمار کی اپنے

    لینے کو خبر اس کی اجل جائے تو اچھا

    کھینچے دل انساں کو نہ وہ زلف سیہ فام

    اژدر کوئی گر اس کو نگل جائے تو اچھا

    تاثیر محبت عجب اک حب کا عمل ہے

    لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا

    دل گر کے نظر سے تری اٹھنے کا نہیں پھر

    یہ گرنے سے پہلے ہی سنبھل جائے تو اچھا

    فرقت میں تری تار نفس سینے میں میرے

    کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا

    اے گریہ نہ رکھ میرے تن خشک کو غرقاب

    لکڑی کی طرح پانی میں گل جائے تو اچھا

    ہاں کچھ تو ہو حاصل ثمر نخل محبت

    یہ سینہ پھپھولوں سے جو پھل جائے تو اچھا

    وہ صبح کو آئے تو کروں باتوں میں دوپہر

    اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا

    ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام

    اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا

    جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے

    گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جائے تو اچھا

    القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے

    دل اس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا

    ہے قطع رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط

    جوں شمع تو اب سر ہی کے بل جائے تو اچھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں