1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شکیب جلالی کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏20 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
    مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

    سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
    سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

    چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
    مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں

    دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
    پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں

    تارہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
    بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں

    جوئے روان دشت ابھی سوکھنا نہیں
    ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں

    رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
    پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

    کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیب
    رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
    شکیب جلالی

     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دھوپ کہیں ہے، چھاؤں کہیں ہے
    کوئی بھی لذت عام نہیں ہے

    یوں بیٹھے ہیں تھکے مسافر
    جیسے منزل یہیں کہیں ہے

    گردشِ دوراں ، توبہ! توبہ!
    ہم کو خدا بھی یاد نہیں ہے

    جس کو چاہا ، حسن میں ڈھالا
    تجھ سے میری آنکھ حسیں ہے

    اُن کی کوئی بات سناؤ
    جن کا مجھ سے میل نہیں ہے

    دوست ہیں دل میں، ذہن میں دشمن
    کوئی بھی مجھ سے دور نہیں ہے
    ۔​

    شکیب جلالی
     
    Asif Rehan asi نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    زباں کاٹ دے اور ہونٹوں کو سی لے
    بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے

    حوادث کی زد میں بڑے جا رہے ہیں
    مری آرزوؤں کے نازک قبیلے

    وہ ساتھی جسے غم سے نسبت نہیں ہے
    الم کو کریدے نہ زخموں کو چھیلے

    غرور و محبت میں تفریق دیکھو
    یہ سونے کی وادی یہ مٹی کے ٹیلے

    ہمیں دل کی ہر بات سچ سچ بتا دو
    بناؤ نہ باتیں ، تراشو نہ حیلے

    نہ چھیڑو ، پرانے فسانے نہ چھیڑو
    لہو ہی بہے گا اگر زخم چھیلے​

    شکیبؔ جلالی
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
    میرا ہر فقرہ مکمّل داستاں ہو جائے گا

    دھیرے دھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
    رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا

    ہم نے حاصل کرنے چاہا تھا خلوصِ جاوداں
    کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگماں ہو جائے گا

    فطرتِ انساں میں ہونا چاہئے ذوقِ عمل
    خاک کے ذرّے سے پیدا اک جہاں ہو جائے گا

    کر دیا تبدیل ہم نے اپنا اندازِ سفر
    اب تو رہزن بھی شریکِ کارواں ہو جائے گا​

    شکیبؔ جلالی
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
    مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

    سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
    سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

    چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
    مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں

    دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
    پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں

    تارہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
    بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں

    جوئے روان دشت ابھی سوکھنا نہیں
    ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں

    رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
    پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

    کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیبؔ
    رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں​

    شکیب جلالی
     
  6. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں

    (پس نوشت)
    یہ غزل مکرر پوسٹ ہو گئی ہے نوٹ فرما لیں
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ محترم
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خوابِ گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
    آمدِ صبح شب اندام پہ رونا آیا

    دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا
    بے کسئِ گلۂ خام پہ رونا آیا

    کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی
    اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا

    مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
    جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا

    لے کے ابھرے گی سحر پھر وہی پژمردہ کرن
    کیا کہوں تیرگیِ شام پہ رونا آیا

    بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
    اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا

    اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گہر
    آج کیوں تلخیِٔ آلام پہ رونا آیا

    لائق حسن نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
    آج محرومئِ پیغام پہ رونا آیا

    اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
    کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا

    رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
    لاکھ کہئے غمِ ایام پہ رونا آیا

    ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
    اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
    شکیب جلالی
    مارچ 1953ء
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
    جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

    ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
    آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے

    مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

    تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
    یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے

    کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
    کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے

    دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
    مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

    وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
    کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

    ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
    ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے

    کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
    سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

    ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
    ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

    وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر
    آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے

    دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
    نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
    شکیب جلالی
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    کبھی کبھی یہ غزل حسب حال لگتی ہے
    جب بھی پڑھو ایک نیا لطف دیتی ہے
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جی بالکل درست فرمایا آپ نے... حساس تخیلات کا مالک کسی بھی کلام کو دل کے اس گوشے میں فٹ کرتا ہے جس میں ملتے جلتے خیالات ہوں اور اپنے دل کی آواز سمجھنے لگتے ہیں
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے
    اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے

    اُس کو مذکور کہیں شکوہ محسن میں نہیں
    میری خودار روایات سے دُکھ پہنچا ہے

    دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
    ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے

    احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت
    اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ پہنچا ہے

    یا انہیں لغزشِ معصوم گراں گزری ہے
    یا غلط فہمیِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے

    میرے اشکوں کو شکایت نہیں کوئی تم سے
    مجھ کو اپنی ہی کسی بات سے دُکھ پہنچا ہے

    میری جرات پہ شکیب آج خرد حاوی ہے
    آج ناکامئِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے
    شکیب جلالی
    جولائی 1953ء
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں
    لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں

    جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں
    غم کا احساس ہی جگاتے ہیں

    عہدِ ماضی کے زرفشاں لمحے
    شدتِ غم میں مسکراتے ہیں

    خود کو بدنام کررہا ہوں میں
    ان پہ الزام آئے جاتے ہیں

    اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
    لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
    شکیب جلالی
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آگ کے درمیان سے نکلا

    میں بھی کس امتحان سے نکلا

    پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے

    پھر دھواں گلستان سے نکلا

    جب بھی نکلا ستارۂ امید

    کہر کے درمیان سے نکلا

    چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں

    کوئی سایہ مکان سے نکلا

    ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر

    اور کیا خاکدان سے نکلا

    چاند جس آسمان میں ڈوبا

    کب اسی آسمان سے نکلا

    یہ گہر جس کو آفتاب کہیں

    کس اندھیرے کی کان سے نکلا

    شکر ہے اس نے بے وفائی کی

    میں کڑے امتحان سے نکلا

    لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

    کام جس مہربان سے نکلا
     
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خموشی بول اٹھے ، ہر نظر پیغام ہو جائے
    یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
    ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
    میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے
    میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
    خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے
    مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
    نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے
    شکیبؔ اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    شکیب جلالی
     
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پردۂِ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
    دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہو گئے
    ایک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر
    زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
    راہ میں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
    جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے
    دیدہ ورو بتائیں کیا تم کو یقیں نہ آئے گا
    چہرے تھے جن کے چاند سے سینے میں داغ بو گئے
    داغِ شکست دوستو دیکھو کسے نصیب ہو
    بیٹھے ہوئے ہیں تیز رو سست خرام تو گئے
    اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح
    تیشۂِ یاس جب چلا تودۂِ سنگ ہو گئے

    شکیب جلالی
     
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    موجِ صبا رواں ہوئی، رقصِ جنوں بھی چاہیئے
    خیمۂِ گل کے پاس ہی دجلۂِ خوں بھی چاہیئے
    کشمکشِ حیات ہے ، سادہ دلوں کی بات ہے
    خواہشِ مرگ بھی نہیں، زہرِ سکوں بھی چاہیئے
    ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
    فکرِ چمن کے ہم رکاب جوشِ جنوں بھی چاہیئے
    نغمۂِ شوق خوب تھا، ایک کمی ہے مطربہ
    شعلۂِ لب کی خیر ہو، سوزِ دروں بھی چاہیئے
    اتنا کرم تو کیجیے ، بجھتا کنول نہ دیجیے
    زخمِ جگر کے ساتھ ہی دردِ فزوں بھی چاہیئے
    دیکھیے ہم کو غور سے ، پوچھیے اہلِ جور سے
    روحِ جمیل کے لیے حالِ زبوں بھی چاہیئے

    شکیب جلالی
     
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
    ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے
    پینا ہو تو اک جرعۂِ زہراب بہت ہے
    ہم تشنہ دہن تہمتِ بادہ نہیں رکھتے
    اشکوں سے چراغاں ہے شبِ زیست، سو وہ بھی
    کوتاہیِٔ مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے
    یہ گردِ رہِ شوق ہی جم جائے بدن پر
    رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے
    ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں
    ہم اس کے سوا مشعلِ جادہ نہیں رکھتے
    سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
    دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے

    شکیب جلالی
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے
    جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے
    ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات
    چپ چاپ رنگِ خندۂِ احباب دیکھتے
    غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا
    اے کاش وہ بھی حلقۂِ گرداب دیکھتے
    بیتے دنوں کے زخم کریدے ہیں رات بھر
    آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے
    کشکولِ شعرِ تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ
    اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے

    شکیب جلالی


     
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے

    کوئی موسم ہو مرا زخم ہرا رہتا ہے

    شب کو ہوگا افق جاں سے ترا حسن طلوع

    یہ وہ خورشید ہے جو دن کو چھپا رہتا ہے

    یہی دیوار جدائی ہے زمانے والو

    ہر گھڑی کوئی مقابل میں کھڑا رہتا ہے

    کتنا چپ چاپ ہی گزرے کوئی میرے دل سے

    مدتوں ثبت نشان کف پا رہتا ہے

    سارے در بند ہوئے شہر میں دیوانے پر

    ایک خوابوں کا دریچہ ہی کھلا رہتا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں