1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شوگر کے ایسے 11نقصانات جن کے بارے میں ہر کوئی نہیں جانتا

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏23 اگست 2019۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بلڈ شوگربڑھ جانا سر پر پیر تک ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے متعدد طبی پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے جن کے خطرات سے واقف ہوکر آپ کو ان سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں آپ اپنی بنیائی، گردوں یا ٹانگوں سےمحروم ہوجائیں گے، ایسا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے اور آپ ذیابیطس کےاثرات کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں یہاں تک کے ریورس بھی کرسکتے ہیں۔
    تاہم ذیابیطس کے نتیجے میں جو خاموش پیچیدگیاں آپ کے جسم کو نشانہ بناسکتی ہے ان سے آگاہ ہونا نہ صرف ذیابیطس کو کنٹرول رکھنے میں مددگار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ آپ کا علاج بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
    1- آپ کو مسوڑوں اور دانتوں کے انفیکشن کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے ذیابیطس کے شکار افراد کے منہ میں تھوک یا لعاب دہن زیادہ نہیں بنتا جس کے نتیجے میں منہ خشک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دانتوں اور مسوڑون کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    منہ کی صحت کو معمول پر رکھنے کے لیے آپ کو بلڈ شوگر کا لیول معمول پر رکھنا پڑتا ہے، تاہم ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے دانتوں اور مسوڑوں کا چیک اپ معمول بنالیں ورنہ ان سے محرومی کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے شکار افراد کو برش کے حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
    2-پیشاب کی نالی کا انفیکشن کا خطرہ زیادہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار لگ بھگ دس فیصد افراد کو پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہونے کے خطرے کا سامنا عام لوگوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ پیشاب میں موجود شکر بیکٹریا کی نشوونما کا میدان بن جاتا ہے جبکہ ذیابیطس کے نتیجے میں مثانے کے خلیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کا خمیازہ بھی مریضوں کو اٹھانا پڑتا ہے تاہم اینٹی بائیوٹکس ادویات کے ذریعے اس انفیکشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
    3- یاداشت اور دماغی تیزی پڑسکتے ہیں ماند متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں ذیابیطس ٹائپ ٹو اور دماغی تنزلی کے مسائل کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے شکار 60 سال سے زائد عمرکے افراد میں ڈیمنیشیا (دماغی تنزلی کے امراض) کا امکان 70 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسولین جسم کے نادر سیکھنے اور یاداشت کو تیز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

    ۔ ذیابیطس سے دماغ کو جانے والی خون کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس سے خلیات کو خون اور دیگر نیوٹریشن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بلڈ شوگربڑھ جانا سر پر پیر تک ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے متعدد طبی پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے جن کے خطرات سے واقف ہوکر آپ کو ان سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں آپ اپنی بنیائی، گردوں یا ٹانگوں سےمحروم ہوجائیں گے، ایسا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے اور آپ ذیابیطس کےاثرات کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں یہاں تک کے ریورس بھی کرسکتے ہیں۔
    تاہم ذیابیطس کے نتیجے میں جو خاموش پیچیدگیاں آپ کے جسم کو نشانہ بناسکتی ہے ان سے آگاہ ہونا نہ صرف ذیابیطس کو کنٹرول رکھنے میں مددگار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ آپ کا علاج بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
    1- آپ کو مسوڑوں اور دانتوں کے انفیکشن کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے ذیابیطس کے شکار افراد کے منہ میں تھوک یا لعاب دہن زیادہ نہیں بنتا جس کے نتیجے میں منہ خشک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دانتوں اور مسوڑون کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    منہ کی صحت کو معمول پر رکھنے کے لیے آپ کو بلڈ شوگر کا لیول معمول پر رکھنا پڑتا ہے، تاہم ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے دانتوں اور مسوڑوں کا چیک اپ معمول بنالیں ورنہ ان سے محرومی کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے شکار افراد کو برش کے حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
    2-پیشاب کی نالی کا انفیکشن کا خطرہ زیادہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار لگ بھگ دس فیصد افراد کو پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہونے کے خطرے کا سامنا عام لوگوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ پیشاب میں موجود شکر بیکٹریا کی نشوونما کا میدان بن جاتا ہے جبکہ ذیابیطس کے نتیجے میں مثانے کے خلیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کا خمیازہ بھی مریضوں کو اٹھانا پڑتا ہے تاہم اینٹی بائیوٹکس ادویات کے ذریعے اس انفیکشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
    3- یاداشت اور دماغی تیزی پڑسکتے ہیں ماند متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں ذیابیطس ٹائپ ٹو اور دماغی تنزلی کے مسائل کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے شکار 60 سال سے زائد عمرکے افراد میں ڈیمنیشیا (دماغی تنزلی کے امراض) کا امکان 70 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسولین جسم کے نادر سیکھنے اور یاداشت کو تیز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

    ۔ ذیابیطس سے دماغ کو جانے والی خون کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس سے خلیات کو خون اور دیگر نیوٹریشن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔



    4-ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے ذیابیطس کے مریضوں میں ڈپریشن کا خطرہ عام افراد کے مقابلے میں دوسے تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس ڈپریشن کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے اور یہ ڈپریشن ذیابیطس کے خطرے کو زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ دماغی اسکین سے معلوم ہوا ہے کہ گلوکوز لیول میں تبدیلیوں سے دماغ کے مخصوص حصے خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے اندر تناﺅ کا باعث بننے والے ہارمونز کی سطح بڑھ جاتی ہے جس سے انسولین کی مزاحمت بڑھ جاتی ہے اور پیٹ میں چربی جمع ہونے لگتی ہے۔ تاہم جسمانی طور پر سرگرم رہ کر ذیابیطس کے مریض اس خطرے کو کافی حد تک ٹال سکتے ہیں کیونکہ گھر سے باہر کی تازہ ہوا اور سماجی مصروفیات ڈپریشن کو غلبہ پانے نہیں دیتے۔
    5- ہاضمے کے مسائل ذیابیطس کے مریضوں کے معدے کے اعصاب کا نظام بھی متاثر ہوسکتا ہے جو غذا کو ہاحمے کی نالی میں منتقل کرتا ہے۔ جب یہ نظام کام نہیں کرتا تو کھانا زیادہ طویل وقت تک آپ کے معدےمیں رہتا ہے جس کے نتیجے میں کئی طبعیت پر بھاری گزرنے والی علامات کا سامنا ہوتا ہے جیسے سینے میں جلن، متلی، قے، گیس پیدا ہونا، تھوڑا کھانا کھاتے ہی پیٹ بھرنے کا احساس اور کھانے کی خواہش ختم ہوجانا وغیرہ۔ اگر تو آپ معدے کے مسائل کے شکار ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے غذائی عادات کو اپنائیں جیسے کم غذا کا اسعمال یا زیادہ چربی یا فائبر والی خوراک سے پرہیز۔ اس کے علاوہ آپ کو اپنی ادویات میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے۔
    6- بنیائی کو نقصان مختصر مدت کے لیے گلوکوز لیول میں کمی بیشی آنکھوں کی پتلی کی سوجن کا باعث بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں نگاہ دھندلا جاتی ہے۔ درحقیقت جب ذیابیطس کے مریض اپنا علاج شروع کرتے ہین تو ایسا لگتا ہے کہ بنیائی زیادہ بدتر ہوگئی ہے حالانکہ وہ معمول پر ہوتی ہے صرف بلڈ شوگر لیول اوپر نیچے ہونے کے نتیجے میں پتلی اپنی ساخت بدل لیتی ہے تاہم آنکھیں چند ہفتوں میں خود کو ایڈجسٹ کرلیتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کے نتیجے میں بنیائی کے لیے سنگین مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں آنکھوں کی پشت پر موجود خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنا، موتیا اور کالا و سبز موتیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ مریض ہر سال اپنی آنکھ کا جامع تجزیہ کروائیں تاکہ بنیائی کے مسائل کو جلد از جلد سامنے لایا جاسکے کیونکہ اس صورت میں ان کا علاج زیادہ بہتر ہوجاتا ہے۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بلڈ شوگربڑھ جانا سر پر پیر تک ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے متعدد طبی پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے جن کے خطرات سے واقف ہوکر آپ کو ان سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں آپ اپنی بنیائی، گردوں یا ٹانگوں سےمحروم ہوجائیں گے، ایسا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے اور آپ ذیابیطس کےاثرات کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں یہاں تک کے ریورس بھی کرسکتے ہیں۔
    تاہم ذیابیطس کے نتیجے میں جو خاموش پیچیدگیاں آپ کے جسم کو نشانہ بناسکتی ہے ان سے آگاہ ہونا نہ صرف ذیابیطس کو کنٹرول رکھنے میں مددگار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ آپ کا علاج بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
    1- آپ کو مسوڑوں اور دانتوں کے انفیکشن کا زیادہ سامنا ہوسکتا ہے ذیابیطس کے شکار افراد کے منہ میں تھوک یا لعاب دہن زیادہ نہیں بنتا جس کے نتیجے میں منہ خشک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دانتوں اور مسوڑون کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    منہ کی صحت کو معمول پر رکھنے کے لیے آپ کو بلڈ شوگر کا لیول معمول پر رکھنا پڑتا ہے، تاہم ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے دانتوں اور مسوڑوں کا چیک اپ معمول بنالیں ورنہ ان سے محرومی کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے شکار افراد کو برش کے حوالے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
    2-پیشاب کی نالی کا انفیکشن کا خطرہ زیادہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار لگ بھگ دس فیصد افراد کو پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہونے کے خطرے کا سامنا عام لوگوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ پیشاب میں موجود شکر بیکٹریا کی نشوونما کا میدان بن جاتا ہے جبکہ ذیابیطس کے نتیجے میں مثانے کے خلیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کا خمیازہ بھی مریضوں کو اٹھانا پڑتا ہے تاہم اینٹی بائیوٹکس ادویات کے ذریعے اس انفیکشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
    3- یاداشت اور دماغی تیزی پڑسکتے ہیں ماند متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں ذیابیطس ٹائپ ٹو اور دماغی تنزلی کے مسائل کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے شکار 60 سال سے زائد عمرکے افراد میں ڈیمنیشیا (دماغی تنزلی کے امراض) کا امکان 70 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسولین جسم کے نادر سیکھنے اور یاداشت کو تیز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

    ۔ ذیابیطس سے دماغ کو جانے والی خون کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس سے خلیات کو خون اور دیگر نیوٹریشن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔



    4-ڈپریشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے ذیابیطس کے مریضوں میں ڈپریشن کا خطرہ عام افراد کے مقابلے میں دوسے تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس ڈپریشن کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے اور یہ ڈپریشن ذیابیطس کے خطرے کو زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ دماغی اسکین سے معلوم ہوا ہے کہ گلوکوز لیول میں تبدیلیوں سے دماغ کے مخصوص حصے خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے اندر تناﺅ کا باعث بننے والے ہارمونز کی سطح بڑھ جاتی ہے جس سے انسولین کی مزاحمت بڑھ جاتی ہے اور پیٹ میں چربی جمع ہونے لگتی ہے۔ تاہم جسمانی طور پر سرگرم رہ کر ذیابیطس کے مریض اس خطرے کو کافی حد تک ٹال سکتے ہیں کیونکہ گھر سے باہر کی تازہ ہوا اور سماجی مصروفیات ڈپریشن کو غلبہ پانے نہیں دیتے۔
    5- ہاضمے کے مسائل ذیابیطس کے مریضوں کے معدے کے اعصاب کا نظام بھی متاثر ہوسکتا ہے جو غذا کو ہاحمے کی نالی میں منتقل کرتا ہے۔ جب یہ نظام کام نہیں کرتا تو کھانا زیادہ طویل وقت تک آپ کے معدےمیں رہتا ہے جس کے نتیجے میں کئی طبعیت پر بھاری گزرنے والی علامات کا سامنا ہوتا ہے جیسے سینے میں جلن، متلی، قے، گیس پیدا ہونا، تھوڑا کھانا کھاتے ہی پیٹ بھرنے کا احساس اور کھانے کی خواہش ختم ہوجانا وغیرہ۔ اگر تو آپ معدے کے مسائل کے شکار ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے غذائی عادات کو اپنائیں جیسے کم غذا کا اسعمال یا زیادہ چربی یا فائبر والی خوراک سے پرہیز۔ اس کے علاوہ آپ کو اپنی ادویات میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے۔
    6- بنیائی کو نقصان مختصر مدت کے لیے گلوکوز لیول میں کمی بیشی آنکھوں کی پتلی کی سوجن کا باعث بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں نگاہ دھندلا جاتی ہے۔ درحقیقت جب ذیابیطس کے مریض اپنا علاج شروع کرتے ہین تو ایسا لگتا ہے کہ بنیائی زیادہ بدتر ہوگئی ہے حالانکہ وہ معمول پر ہوتی ہے صرف بلڈ شوگر لیول اوپر نیچے ہونے کے نتیجے میں پتلی اپنی ساخت بدل لیتی ہے تاہم آنکھیں چند ہفتوں میں خود کو ایڈجسٹ کرلیتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کے نتیجے میں بنیائی کے لیے سنگین مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں آنکھوں کی پشت پر موجود خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنا، موتیا اور کالا و سبز موتیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ مریض ہر سال اپنی آنکھ کا جامع تجزیہ کروائیں تاکہ بنیائی کے مسائل کو جلد از جلد سامنے لایا جاسکے کیونکہ اس صورت میں ان کا علاج زیادہ بہتر ہوجاتا ہے۔



    7-کانوں میں گھنٹیاں بجنا ذیابیطس کے مریضوں کے کانوں میں موجود اعصاب کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں گھنٹیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔ اپنے بلڈ شوگر لیول کو متوازن رکھ کر اس علامت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
    8- نیند کے مسائل ذیابیطس کے شکار افراد میں خراٹوں سمیت دیگر نیند کے مسائل کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے خیال میں اس کی وجہ جسمانی وزن زیادہ ہونا ہے جو خراٹوں اور ذیابیطس دونوں کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس کی ایک وجہ انسولین کی مزاحمت بھی ہوسکتی ہے، دبلے پتلے افراد کو انسولین کی مزاحمت کے نتیجے میں خراٹوں یا نیند کے دوران سانس کے نظام میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دیگر سنگین مسائل کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جن میں ہائی بلڈ پریشر بھی شامل ہے۔ اس کا مناسب علاج عام طور پر ایک ماسک نیند کے دوران چڑھا کر کیا جاتا ہے جو سانس کی گزرگاہ کو کھلا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
    9-جگر پر چربی چڑھنےکا خطرہ یہ ایک دوہرا خطرہ ہے درحقیقت اگر کسی شخص کے جگر پر چربی چڑھ جائے تو اس کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اگر ذیابیطس کا شکار پہلے ہو تو جگر کے مرض کا امکان بھی ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ تعلق نقصان دہ ہوتا ہے تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے شکار 80 فیصد افراد کے جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ چربی خون میں گلوکوز کے لیول کو کنٹرول کرنامشکل بنا دیتی ہے۔ جگر پر چربی کی اکثر علامات نہیں سامنے آتی مگر اس سے سوجن اور درد کی شکایت ضرور پیدا ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگر اپنا کام معمول کے مطابق نہیں کرپاتا۔ جسمانی وزن میں معمولی کمی اور کاربوہائیڈریٹ کا استعمال کم کردینے سے جگر کی چربی ڈرامائی انداز سے بہتر ہوجاتی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں