1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شوکتِ اقتدار

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان مسلم, ‏1 مارچ 2011۔

  1. عرفان مسلم
    آف لائن

    عرفان مسلم ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مارچ 2011
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    شوکتِ اقتدار
    رئیس التحریر علامہ ارشد القادری کی کتاب ’ زلف و زنجیر ‘ سے ایک انتخاب


    آج ہجرت کی رات تھی۔ کئی قبیلوں کے کافر نمائندے تیغِ بے نیام لیے انتظار میں کھڑے تھے۔ اسی رسولِ رحمت کے انتظار میں جو انہیں ہلاکت و تباہی کے دھانے سے آسائشِ دوام کی ٹھنڈی چھاؤں میں واپس لانا چاہتا تھا۔ اچانک رات کے پچھلے پہر کا شانہئ نبوت کا دروازہ کھلا۔ ایک کرن چمکی، اور آنکھیں خیرہ ہوکررہ گئےں۔ خدا کا حبیب مسکراتا ہوا باہر نکلا اور تلواروں کے سائے سے گزر گیا۔ سحر کے اجالے میں صحرائے کفر کے خونخوار درندے جب دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے تو یہ معلو م کر کے حیرت سے وہ ایک دوسرے کا منہہ تکتے رہ گئے کہ پیغمبر ان کی پلکوں کے نیچے سے گزرگیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔!؟ ہزار تیاریوں کے باوجود زہر میں بجھی ہوئی تلواروں کا مصرف حاصل نہیں ہوسکا۔ قبائلِ عرب کے مشترکہ محاذ پر آج کی شکستِ فاش سے رہبرانِ کفر تلملا کر رہ گئے۔ فوراً ہی '' دارالندوہ '' میں مشاورت کی مجلس منعقد ہوئی اور طے پایا کہ ابھی محمد (ﷺ) زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے، اگر تعاقب کیا جائے تو آسانی سے انہیں پکڑا جاسکتا ہے۔ کچھ ہی لمحے کے بعد مکے کی گلیوں میں اعلان ہورہا تھا کہ محمد(ﷺ) کو جو بھی گرفتار کر کے لائے گا۔ اسے انعام میں سرخ اونٹ دیئے جائےں گے۔ عرب کے مانے ہوئے شہسوار سراقہ کے کان میں جونہی اس اعلان کی خبر پہنچی وہ انعام کے لالچ میں اس مہم کو سر کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ فوراً ہی ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوارہوئے، باگ سنبھالی اور دم کے دم میں نگاہوںسے اوجھل ہوگئے۔
    کچھ دور چلنے کے بعد انہیں مدینے کے راستے پر دو جھلملاتے ہوئے سائے نظر آئے خوشی سے چہرہ دمک اٹھا۔ سرخ اونٹوں کی قطار تصور میں رینگنے لگی۔ فرطِ مسرت میں گھوڑے کو مہمیز لگائی اور ہوا سے باتیں کرتے ہوئے آن کی آن میں قریب پہنچ گئے۔ خدا کا آخری پیغمبر ا اپنے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ناقہ پر سوار مدینے کی طرف تیز تیز بڑھتا جا رہا تھا۔

    سراقہ نے کمند ڈالنے کے لیے جونہی قدم آگے بڑھایا۔ ایک پُر جلال آواز فضا میں گونجی '' یَا اَرْضُ خُذِیْہِ '' اے زمین اسے پکڑلے۔ فرماں روائے کونین کا حکم تھا، گیتی کا کلیجہ ہل گیا۔ فوراً زمین شق ہوئی اور سراقہ کے گھوڑے کا پاؤں گھٹنے تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے ہزار کوشش کی۔ لیکن زمین کی گرفت سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے۔ جب عاجزومجبورہوگئے تو دو عالم کے تاجدار سے رحم کی درخواست کی۔ سرکار (ﷺ) نے ان کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور زمین سے خطاب فرمایا۔ '' اُتْرِکِیْہ '' اچھا اب اسے چھوڑدے۔ ابھی یہ الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ اچانک زمین کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور گھوڑے کا پاؤں باہر نکل آیا۔

    مال کاطمع بھی کیا چیز ہوتی ہے کہ بنی نوعِ انسان کو دیدہ و دانستہ فریب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ رہائی پاکر جب سراقہ واپس لوٹ رہے تھے تو تقصیر کی ندامت کے خوف سے دل ڈوبا جا رہا تھا۔ ابھی یہی کوئی میل دومیل کی مسافت طے کی ہوگی کہ حرص کا شیطان پھر دل پر مسلط ہوگیا، اور فریب کی راہ سے تلقین شروع کی کہ ''یہ واقعہ یونہی اتفاقاً پیش آگیا تھا، اس کے پیچھے محمد (ﷺ) کی پیغمبرانہ توانائی کا قطعاً کوئی کرشمہ نہیں تھا، چلو واپس چلو، سرخ اونٹوں کے انعام کا زریں موقع ہاتھ سے نہ جانے دو، محمد (ﷺ)کی گرفتاری کوئی انہونی چیز نہیں ہے''

    دل کی آواز پر پھر سراقہ نے گھوڑے کی باگ موڑ دی اور تعاقب کرتے ہوئے دوبارہ سرکار کے قریب پہنچ گئے۔ اس بار بھی لبوں کو جنبش ہوئی، دھرتی کا کلیجہ شق ہوا اور سراقہ اپنے گھوڑے سمیت گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ سراقہ نے پھر رحمتِ اکرم کو آواز دی، پھر بخشش و درگزر کو پکارا۔ اور رحمتِ مجسم (ﷺ) نے پھر احسان کی بارش فرمائی۔ زمین کو اشارہ کیا اور کائنات گیر اقتدار کی گرفت میں سسکتاہوا دشمن پھرآزاد ہوگیا۔

    اس بار دل کی گہرائی میں پیغمبر کی توانائی کا یقین پیدا ہو چلا تھا۔ بار بار سراقہ سوچ رہے تھے کہ ایک نیاز مند کی طرح زمین کی فرمانبرداری بلاوجہ نہیں ہے، کائنات کے خداکے ساتھ محمد ا کا کوئی معنوی تعلق ضرور ہے۔ لیکن نفس کا شیطان بڑا ہی چابکدست اور سحر طراز دشمن ہے۔ یہ ظالم ایک ہی لمحے میں دل کی ساری بسا ط الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ سراقہ کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ شیطان نے پھر سر گوشی شروع کی ''محمد (ﷺ) اتنے ہی بڑے صاحبِ اقتدار ہوتے تو ایک تھکے ہوئے مجبور کی طرح مکے سے مدینے کی طرف ہجرت نہ کرتے۔۔۔۔۔۔! خیالی ہیبت کے آگے ہتھیار ڈال دینا بہادروں کا شیوہ نہیں ہے، سرخ اونٹوں کا انعام تمہاری زندگی کا نقشہ بدل دے گا، چلو واپس لوٹو، اس سے زیادہ زریں لمحہ تمہیں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا''

    بالآ خر سراقہ پھر شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ۔ پھر تیزی کے ساتھ واپس لوٹے۔ پھر پیغمبر کے لبوں کو جنبش ہوئی۔ پھر زمین کا دھانہ کھلا اور سراقہ ایک گرفتار پنچھی کی طرح سسکنے لگے۔ رحمتِ یزدانی نے دوبارہ سراقہ کو موقع دیا تھا کہ وہ سنبھل جائےں لیکن جب بار بارکی تنبیہ کے بعد بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں تو پیغمبر نے خود حقیقت کے چہرے سے نقاب اٹھایا اور دلنواز تبسم کے ساتھ سراقہ کو مخاطب کیا ''سرخ اونٹوں کے فریب میں اپنے نوشتہ تقدیر سے کیوں جنگ کر رہے ہو؟ تمہارا مستقبل میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے، جن کی زلفوں کا اسیر ہونا مقدر ہے، اسی کو گرفتار کرنے آئے ہو؟ کیا اب بھی تمہیں کفر کی شبِ دیجور کا سویرا نظر نہیں آیا؟ میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کے سونے کے کنگن تمہاری کلائےوں میں چمک رہے ہیں، وہ دن زیادہ دور نہیں ہے کہ نصیبے کی ارجمندی تمہیں ایک وارفتہ حال دیوانے کی طرح میرے سامنے لاکھڑا کرے گی، اور تمہارا سینہ اسلام وایمان کی دولتِ لازوال کا گنجینہ بن جائے گا''

    پیغمبر صادق کی زبانِ حق ترجمان کے نکلے ہوئے یہ الفاظ سراقہ کہ دل میں ترازو ہوگئے۔ تاریخ میں عالمی تسخیر کی یہ پہلی خوشخبری تھی، جس کے پیچھے کوئی مادی سامان نہیں تھا۔حیرت ہے کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ جیسے جابر وعظیم فرمانروا کے کنگن دیکھنے والا آج وطن سے بھی شہر بدر کردیا گیا۔
    حضرت سراقہ پر جلد ہی صبحِ سعادت طلوع ہوئی اور وہ مدینے کے دارالامان میں پہنچ گئے اور پروانے کی طرح شمع رسالت (ﷺ) کے جلوؤں میں نہاتے رہے۔ کلائیوں میں کسریٰ کے سونے کے کنگن پہننے کا یقین ان کے دل کی دھڑکنوںسے منسلک ہوگیا تھا۔ جس رسول نے جبرائیل و میکائیل، عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ اور حشر ونشر کی خبر دی تھی، اسی رسول نے کنگن پہننے کی خوشخبری بھی سنائی تھی۔
    زندگی کے دن اسی انتظار میں گزرتے گئے یہاں تک کہ خلافت فاروقی کے عہدِ زریں میں حضرت سراقہ سخت بیمار پڑگئے، علالت سنگین ہوئی، صورتِ حال شہادت دے رہی تھی کہ اب چند سانسوں کے مہمان رہ گئے ہیں، اکابر صحابہ کرام بالیں کے قریب جمع ہوگئے، عالم برزخ کی طرف منتقل ہونے والوں کے نام کچھ لوگ اپنا پیام و سلام کہنا ہی چاہتے تھے کہ حضرت سراقہ نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور مسکراتے ہوئے کہا ''آپ حضرات اطمینان رکھیں،یہ میرا آخری وقت نہیں ہے، اس وقت تک موت میرے قریب بھی نہیں آئے گی، جب تک میں اپنے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن نہ پہن لوں۔ ہر چیز اپنی جگہ سے ٹل سکتی ہے لیکن سرکار رسالت (ﷺ) کا فرمان نہیں ٹل سکتا'' چنانچہ ایساہی ہوا کہ حضرت سراقہ موت کے چنگل سے نکل آئے اور دیکھتے دیکھتے کچھ دنوں میں بالکل صحت یاب ہوگئے۔

    آج مدینے میں ہر طرف مسرتوں کی بارش ہورہی تھی۔ سجدہ شکر کے اضطراب سے سب کی نشانیاں بو جھل ہوگئی تھیں۔ سپیدہ سحر نمودار ہوتے ہی لشکر اسلامی کاقاصد فتح ایران کی خوشخبری لے کر آیا تھا۔ محمد عربی ا کے غلاموں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنے قدموں تلے روندڈالا تھا۔ آج تاریخ میں پہلی بار کسریٰ کے ایوانوں پر عظمتِ اسلامی کا پرچم لہرارہاتھا۔ حق کی سطوت و جبروت کے آگے باطل اقتدار کا غرور چکنا چور ہوگیا تھا۔ چند ہی دنوں کے بعد ایران سے اموالِ غنیمت مدینے آیا، اور خلیفہئ دوم خلیفہ برحق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بکھیر دیا گیا۔

    امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے کسریٰ کے کنگن دریافت کئے۔ تلاش کے بعد جب وہ مل گئے تو حضرت سراقہ کو آواز دی گئی۔ اس وقت حضرت سراقہ کا عالم قابل دید تھا۔ ناز سے جھوم رہے تھے، فرطِ مسرت سے چہرہ کھلا جارہا تھا، ارمانوں کے ہجوم میں مچلتے ہوئے اٹھے اور فاروقِ اعظم کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے۔

    آج حضرت سراقہ کے لیے زندگی کی محبوب ترین گھڑی آگئی تھی۔ جس چیز کی آرزو کو ساری عمر ایمان کی طرح سینے سے لگا رکھا تھا، وہ آنکھوں کے سانے جلوہ گر تھی۔ اہل مدینہ بھی کیف ومستی کے عالم میں اپنے آقا کا زندہ معجزہ دیکھ رہے تھے۔ امڈتے ہوئے خوشی کے آنسوؤں میں حضرت سراقہ کی کلائیوں میں کسریٰ کے کنگن پہنائے گئے، سر پہ تاج رکھا اور شاہی قبازیب تن کرائی۔ حضرت سراقہ کی شاہانہ سج دھج دیکھ کر اہل مدینہ جذبات سے بے قابو ہوگئے، فرطِ شوق میں منہ سے چیخ نکل گئی۔ فاروقِ اعظم بھی عشق وایمان کی رقت انگیز کیفیت دیکھ کر بے خود ہوگئے، لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''اس وقت کی بات ہے، جب اسلام بے سرو سامانی کے عالم میں تھا، ایک یزدانی مسافر نے آج کی عظیم الشان فتح کی خبردی تھی، کل میدانِ قیامت میں آپ حضرات گواہ رہےے گا کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہناکر میں نے اپنے آقا کا فرمان پورا کر دیا''

    سرکارِرسالت (ﷺ) کی شوکت اقتدار کا یہ نظارہ تاریخ فاموش نہیں کرے گی کہ ایک جنبش لب پر کائنات گیتی کا نقشہ بدل گیا اور عشق رسالت کے فیضان نے عرب کے صحرانشینوں کو چشم زدن میں ساری دنیا کا فرماں روا بنادیا۔
    آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
    آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شوکتِ اقتدار

    جزاک اللہ مسلم بھائی۔ بہت ایمان افروز کتاب سے اقتباس شیئر کیا آپ نے۔ یہ کتاب کبھی میرے زیرِ مطالعہ بھی رہی ہے۔ بہت ہی خوبصورت بیانیہ انداز اپنایا گیا ہے۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شوکتِ اقتدار

    جزاک اللہ الخیر
    مزید ایسے ہی فکر اور ایمان افروز تحاریر کا انتظار رہے گا
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شوکتِ اقتدار

    جزاکم اللہ خیر
     
  5. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: شوکتِ اقتدار

    عرفان مسلم صاحب۔بہت اچھی شیئرنگ ہے۔شکریہ،،،،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں