1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شفیق خلشؔ کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏20 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
    مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم

    وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
    خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم

    آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
    کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم

    جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
    کیونکر! نبردآرا ہو سنگِ گراں سے تم

    اِس بار یاد آنے پہ محسُوس کیوں ہُو ئے
    ساری حقیقتوں پہ بھی اِک داستاں سے تم

    قُدرت کہِیں سے بات کو کہنے کی کب نہیں!
    منظُور ہے مُباحَثہ، چاہو جہاں سے تم

    مقصُودِ دِل، بَیاں اُنھیں آنکھوں سے ہو خلشؔ
    اچّھے ذرا لگو گے نہ کہتے زباں سے تم

    شفیق خلشؔ​
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
    تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
    خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
    ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی​

    دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
    تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی​

    لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
    بال ہر روز ناپتی تھی کوئی​

    یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
    جن کو ہاتھوں سے ڈھانپتی تھی کوئی​

    سوچتا ہُوں اب اُن دَرِیچوں کا
    جِن سے ہر روز جھانکتی تھی کوئی
    (ق)
    حُسن، جن سے کہ بارہا لگ کے
    ہم سے لوگوں میں بانٹتی تھی کوئی​

    بچپنا خُوب تھا خلشؔ ! کہ میان
    فاصلے یُوں نہ ناپتی تھی کوئی​

    دِل بھی معصُوم تھا خلشؔ کتنا
    جب سراپا نہ ڈھانپتی تھی کوئی​


    شفیق خلشؔ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
    اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں

    جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
    ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں

    خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
    کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں

    جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
    اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں

    کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
    دِل کا وہ اِستِعمال بھی تو نہیں

    چَور کو چَور کہہ سکیں مُنہ پر
    ہم میں اِتنی مجال بھی تو نہیں

    کارگر کیا ہو بے وفائی پر
    غم میں اِس کے زوال بھی تو نہیں

    کیسے نکلیں خیال و خواب سے ہم
    بُھولتے خد و خال بھی تو نہیں

    اُس سے صرفِ نظر کہاں مُمکن
    درگُزر کا جمال بھی تو نہیں

    صُورتِ چارہ جُوئی ہو کیسے
    مرہَمِ اِندِمال بھی تو نہیں

    کیا مٹے غم کی برتری کہ خلشؔ
    ہمقدم اب جمال بھی تو نہیں​


    شفیق خلشؔ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
    کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے

    ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
    کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے

    بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
    ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے

    شُبہ تک تھا نہیں ترکِ تعلّق پر مناظرسب!
    شِکستہ دِل کے گوشوں میں کہِیں آباد بھی ہونگے

    بہت خوش تھے، ذرا احساس کب تھااپنی ہِجرت پر
    تعاقُب میں وہی نالے، وہی فریاد بھی ہونگے

    مجھے تنہا کئے کی سازِشوں میں وجۂ احباب !
    کسے معلُوم تھا یُوں ورثۂ اجداد بھی ہونگے

    خلش دِل کو گُماں تک تھا نہیں یہ روزِ ہِجرت تک!
    مذاہِب کےجَھمیلوں سے کہِیں آزاد بھی ہونگے

    شفیق خلشؔ
     
  5. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    دوڑے آتے تھے مِرے پاس صدا سے پہلے
    اب وہ شاید ہی، کبھی آئیں قضا سے پہلے

    کوئی اور آ کے ہی بتلادے ہمیں حال اُن کا !
    دردِ دل غم سا ہی ہو جائے سَوا سے پہلے

    عادتیں ساری عِنایت کی بدل دیں اُس نے
    اب تسلّی نہیں دیتے وہ سزا سے پہلے

    روز و شب وہ بھی اذیّت میں ہُوئے ہیں شامِل
    یادِ جاناں میں جو رہتے تھے جُدا سے پہلے

    خواہشیں ساری جو پنہاں ہیں مِرے سینے میں
    پُوری ہونے کی نہیں تیری وفا سے پہلے

    ناز و انداز ہے کیا، حُسْن کے نخرے کیا ہیں
    کچھ بھی معلوم نہ تھا، اُن کی ادا سے پہلے

    کھولنے آئی مُصیبت تھی حقیقت اُن کی !
    دوست بن بن کے جو مُلتے تھے ریا سے پہلے

    اُن دِیوں نے بھی، سرِباد ہی اِلزام دھرے
    جل بُجھے تھے جو چَلی تیز ہَوا سے پہلے

    چا ہے جانے پہ ہی وہ، ہوگئے بدنام خلش !
    کیا سزا پائی ہے نِسبت کی خطا سے پہلے

    شفیق خلش
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دوست یا دشمن جاں کچھ بھی تم اب بن جاؤ

    جینے مرنے کا مرے اک تو سبب بن جاؤ

    ہو مثالوں میں نہ جو حسن عجب بن جاؤ

    کس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ

    آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش الحان

    زندگی بھر کو مرا ساز طرب بن جاؤ

    رشک قسمت پہ مری سارے زمانے کو رہے

    ہم سفر تم جو لئے اپنے یہ چھب بن جاؤ

    میں نے چاہا تھا سر صبح جوانی بھی یہی

    تم ہی سانسوں کی مہک دل کی طلب بن جاؤ

    کچھ تو احساس چھٹے دل سے اندھیروں کا مرے

    زیست تاریک کو اک شمع شب بن جاؤ

    دل میں رکھتا ہوں محبت کا خزانہ جاناں

    چھوڑ کر سارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ

    ذات قربت سے ہمیشہ ہی منور چاہوں

    کب کہا اس سے خلش رونق شب بن جاؤ
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی

    میرے دل میں سما رہا ہے کوئی

    ہے تری طرح روز راہوں میں

    مجھ سے تجھ کو چھڑا رہا ہے کوئی

    پھر ہوئے ہیں قدم یہ من من کے

    پاس اپنے بلا رہا ہے کوئی

    نکلوں ہر راہ سے اسی کی طرف

    راستے وہ بتا رہا ہے کوئی

    کیا نکل جاؤں عہد ماضی سے

    یاد بچپن دلا رہا ہے کوئی

    پھر سے الفت نہیں ہے آساں کچھ

    بھولے نغمے سنا رہا ہے کوئی

    دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں

    میرے نزدیک آ رہا ہے کوئی

    وہ جو کہتا ہے بھول جاؤں خلش

    وقت اس پر کڑا رہا ہے کوئی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں