1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شعر اور تشریح‌پسند اپنی اپنی

'اشعار اور گانوں کے کھیل' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏12 مارچ 2011۔

  1. شاہدندیم
    آف لائن

    شاہدندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2013
    پیغامات:
    4,145
    موصول پسندیدگیاں:
    338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شعر اور تشریح‌پسند اپنی اپنی

    اب کے آشوبِ زمانہ تھاقیامت کا فراز
    کیسے کیسے مرے دشمن ہوئے کیا کیا مرے دوست
    ----------------------
    اس شعر میں مشہورَ زمانہ شاعر فراز آشوب چشم کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایسی آشوب چشم پھیلی کہ نہ ان کے دوست بچ پائے اور نہ دشمن ۔۔ اللہ معافی
     
    ملک بلال، نعیم اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ واہ
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مشہور شعر ہے۔

    مجھے کیا بُرا تھا مرنا ،
    اگر ایک “بار” ہوتا۔

    شاعر (حسبِ معمول) رند ہے اور مصرعہ ثانی میں “بار” انگریزی والا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ہاہاہاہاہا بہت خوب
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ھو گا
    میرا دروازہ ھوائوں نے ہلایا ھو گا

    شاعر موصوف کو شدید قسم کے وہم کا عارضہ لاحق ہے اور پھر وہ ایک زمانے کے مقروض بھی ہیں، اس لیے ہر آہٹ پر شاعر کو دھڑکا لگا رہتا ہے اور پھر خود ہی خود کو تسلیاں دیتا ہے ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
    کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

    شاعر موصوف کے ساتھ ان کے دوست ہاتھ کر گئے ہیں ، لگی بارش میں بغیر چھتری کے بیچ سڑک پر چھوڑ کر اڑن چھو ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    شکر ہے شاعر دھوتی میں نہیں تھا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز
    درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا

    شاعر موصوف اس شعر میں خود اپنے آپ کو قرض خواہ کو دیکھ کر ہارٹ اٹیک کا بہانہ کرنے سے منع کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ کہ محفل میں اکثر لوگ شاعر موصوف کو جانتے ہیں اور اس حرکت سے مزید " حجامت " ہونے کا امکان ہے ۔ ۔ ۔
     
    Last edited: ‏27 نومبر 2018
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب ۔۔۔۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ

    ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘۔ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر “چونک” میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی “چونک ” میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی “باجائے” وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔‘‘
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رنجش ہی سہی‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
    آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ ..

    مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں “مہندی حسن” نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آ جاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔‘‘
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .

    ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کرتے ہوئے لکھا کہ

    ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتا ہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہ وگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ۔۔۔
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ..

    ایک سقراط نے تشریح لکھی کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک “پونچا” ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام “دار” پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بے شک اسے ” سُوئے” مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں “دار ” تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔‘‘
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔۔
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ..

    جواب تھا کہ ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی “محارت” سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ” اُنچی” منزلیں بنانا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟‘‘
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سرہانے میر کے آہستہ بولو ۔۔۔
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .

    نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ

    ’’اس شعر میں “حامد میر ” نے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں “ٹک” (زخم) بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولو’ مجھے ” ٹَک ” لگا ھے ” ۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے ۔۔.
    ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ..

    ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ

    ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر “کمند” ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا ۔۔۔۔
    کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

    علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور ” انتقام ” لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ

    ’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ یوـ پی ـایس ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر “نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم” بنانے چاہئیں تاکہ لوڈ شیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں “کالا باغ نشیمن” نہیں بنے گا‘ تو بجلی کا “ماسالا” حل نہیں ہو گا کا اصول بتایا گیا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    چہرۂ صبح نظرآیا رخِ شام کے بعد
    سب کو پہچان لیا گردشِ ایّام کے بعد

    شاعر موصوف اس شعر میں اپنے گھر سر شام ہونی والی چوری کا ذکر کر رہے ہیں کہ چوروں نے خواہ مخواہ زحمت کی ۔ ۔ ۔ اور مزے کی بات ہے کہ شاعر نے سب کو پہچان بھی لیا ہے ۔ ۔ ۔
     
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
    آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

    تشریح

    اِس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آج کل میرا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے۔ میرے دل میں ایک بے چینی اور بے قراری ہے۔ میرا دل فیض، سکون، نشاط اور راحت سے عاری ہے۔ ہر لمحہ میرے دل میں ایک نئی اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے اور میرا دل طرح طرح کے طریقوں سے مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے دل گرفتہ محبوب! میرا دل تیری محبت میں گرفتار ہے اس لئے اِس نے بھی تیرے ہی طور طریقے سیکھیں ہیں۔ ہزار کوشش کے باوجود سگریٹ پان نسوار سے منہ نہیں پھیر سکتا صبح اگر حلوہ پوری لینے گھر سے نکلوں تو پل بھر میں سب بھول کر کرکٹ گراونڈ کے کنارے بنے ہوئے پان کے دھابے پر بیٹھ جا تا ہوں دل میٹھا کھانے کو کرتا ہے اور نمک پارے کھا لیتا ہوں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں