1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏5 مئی 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اب تو نظروں سے چھپ چکا ہے جہا ز
    ا ڑ رہا ہے افق کے پار دھواں
    اب وہ آئیں نہ آئیں کیا معلوم
    جانے والوں کا ا عتبار کہاں
    وقت رخصت وہ رو دیے ہیں جب
    میں نے مشکل سے اشک روکے تھے
    مسکرا کر کہا تھا ۔۔ غم نہ کرو
    تم بہت جلد لوٹ آؤ گے
    لیکن اب جبکہ رو رہا ہوں میں
    آ کے ڈھارس مری بندھائے کون
    وہ مجھے چھوڑ جائیں ، نا ممکن
    وہ چلے بھی گئے۔۔۔۔۔۔ بتائے کون ؟
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    بادل امڈیں بجلی کڑکے طوفاں بڑا ڈرائے
    چنچل چندا دور دور سے دیکھے اور مسکائے
    نیلم نیل آکاش پہ اپنا پیلا جال بچھائے
    مگھم مگھم سندیسوں سے اپنے پاس بلائے
    لیکن ہاتھ نہ آئے
    اونگھ رہے ہیں چار کوٹ میں پھیلے پھیلے سائے
    قدم قدم پہ ناگ کھڑے ہیں اپنے پھن پھیلائے
    اونچی نیچی چٹیل راہیں ، کومل جی گھبرائے
    انشا کس کو پاس بیٹھا کے دل کی بات بتائے
    کوئی نہ سننے آئے
    نیلامی کے چوک میں انشا جھوٹے دانت لگائے
    جھوٹے سکھوں کو چنکا کر اونچی ہانگ لگائے
    آدھی رات تلک بیٹھا رہتا ہوں لیمپ جلائے
    سوچ رہا ہوں اتنے دن میں کتنے پاپ کمائے
    کس کو گنتی آئے
    یاروں نے تو لال پھریرے دیس لہرائے
    لاکھ کوس کی باٹیں کاٹیں تب جا کر ستائے
    اب سندر سندر کویتاؤں سے کوئی نہ دھوکا کھائے
    انشا جیسے ایک بار بھٹکے تو ہوئے پرائے
    پھر واپس نہ آئی
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تیری باتوں میں زندگی کا رس
    تیری آواز میں ہے رعنائی
    فون پر بولتی ہوئی محبوب
    تو ابھی سامنے نہیں آئی
    دل تجھے دیکھنے کو کہتا ہے
    دل تری دید کا تمنائی
    اک طرف عاشقی سے ہم مجبور
    اک طرف ہم کو خوف رسوائی
    صبر کا حوصلہ نہیں باقی
    سن بیکار ، جان زیبائی
    ہم نے ما نا ، تو خوبصورت ہے
    دیکھ ہم کو تیری ضرورت ہے
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تم کسی کا بساؤ گی پہلو
    مل رہے گا مجھے نیاساتھی
    تم کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا
    تم بھی کھو جاؤ گی خبر کیا تھی
    درد نا گفتی ہے ضبط غم
    کیوں سمجھتی ہو سنگدل مجھ کو
    تم بھی چاہو تو پوچھ لو آنسو
    زخم کچے ہیں دل کے مت چھیڑو
    مغتنم ہے یہ صحبت دو دم
    مسکرا دو ذرا گلے مل لو
    ہا ئے کتنا حسیں زمانا تھا
    دیر پا شے حسیں نہیں ہوتی
    دن تھے لمحات سے سبک رو تر
    رخصت مہر کی خبر نہ ہوئی
    باتوں باتوں میں کٹ گئی راتیں
    نیند سحر اپنا آزما نہ سکی
    نرم رو قافلے ستاروں کے
    چاند جیسے تھکا تھکا راہی
    دیکھتے دیکھتے گزر بھی گئے
    دل میں اک بے خودی سی طاری تھی
    خیر اب اپنی راہ پر جاؤ
    آگیا زندگی کا دورا ہا
    حشر لاکھوں کا ہو چکا ہے یہی
    عشق میں کون کامران رہا
    تم مری ہو نہ میں تمہارا ہوں
    اب تو رشتہ نہیں ہے کچھ اپنا
    جب کبھی یاد آئے ماضی کی
    ساتھ مجھ کو بھی یاد کر لینا
    وصل کو جاوداں سمجھتے تھے
    ہائے یہ سادگی محبت کی
    کاش پہلے سے جانتے ہوتے
    انتہا یہی محبت کی
     
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے
    پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے
    آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں
    من کی بیتا ،تن کا دکھڑا ، دنیا کے حالات کہیں

    اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا
    رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا
    کیوں دھرتی پہ ہم لوگوں کے خون کی نسدن ہولی ہے
    سچ پوچھو تو یہ کہنے کو آج یہ کھڑکی کھولی ہے

    بیلا دیوی آج ہزاروں گھاؤ تمہارے تن من ہیں
    جانتا ہوں میں جان تمہاری بندھن میں کڑے بندھن میں
    روگ تمہارا جانے کتنے سینوں میں بس گھول گیا
    دور ہزاروں کوس پہ بیٹھے ساتھی کا من ڈول گیا

    یاد ہیں تم کو سانجھے دکھ نے بنگالے کے کال کے دن
    راتیں دکھ ور بھوک کی راتیں دن جی کے جنجال کے دن
    تب بھی آگ بھری تھی من میں اب بھی آگ بھری ہے من میں
    میں تو یہ سو چوں آگ ہی آگ ہے اس جیون میں

    ا ب سو نہیں جانا چاہے رات کہیں تک جائے
    ا ن کا ہاتھ کہیں تک جائےا پنی بات کہیں تک جائے
    سانجھی دھرتی سانجھاسورج ،سانجھے چاند اور تارے ہیں
    سانجھی ہیں سبھی دکھ کی ساری باتیں سانجھے درد ہمارے

    گولی لاٹھی ہیسہ شاسن دھن دانوں کے لاکھ سہارے
    وقت پڑیں کس کو پکاریں جنم جنم کے بھوک کے مارے
    برس برس برسات کا بادل ندیاسی بن جائے گا
    دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا

    جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی
    کہنے کو یہ روپ کی برکھا پورب پچھم برسے گی
    جس کے بھاگ سکندر ہوں گے بے مانگے بھی پائے گا
    آنچل کو ترسانے والا خود دامن پھیلائے گا
    انشا جی یہ رام کہانی پیت پہلی بوجھے کون
    نام لیے بن لاکھ پکاریں بوجھ سہیلی بوجھے کون

    وہ جس کے من کے آنگن میں یادوں کی دیواریں ہوں
    لاکھ کہیں ہوں روپ جھروکے ،لاکھ البیلی ناریں ہوں
    اس کو تو ترسانے والا جنم جنم ترسائے گا
    کب وہ پیاس بجھانے والا پیاس بجھانے آئے گا
     
  6. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    لیلا۔۔ تو نے کیوں محو کیا ہے انہیں لوح دل سے
    حاصل زیست سمجھتے ہیں جو پیارے تجھ کو
    اے مرے و سرو کنور ؛ میرے چنسیر راجہ
    دل مرا آج بھی رو رو کے پکارے تجھ کو
    ان کے زخموں پہ مدھر بولوں کا مرہم رکھنا
    اب بھی اپنا جو سمجھتے ہیں بچارے تجھ کو
    ان کو خلقت کی نگاہوں نہ رسوا کر نا
    واسطہ دیتی ہوں جینے کے سہارے تجھ کو
    میں تری پیت کی ماری ہوں بچاری ابلا
    کچھ خیال آتا ہے اس بات کا بارے تجھ کو
    تیری سو رانیاں ،تو میرا اکیلا پتیم
    دل بسارے تو بھلا کیسے بسارے تجھ کو
    شاہ لطیف۔۔
    ایک ادنی سا گلو بند تھا جس کی خاطر
    کھو دیا دل کے خداوند کو ناداں تو نے
    تجھ سے بر گشتہ ہوا تیرا چنبر راجا
    کپٹی کو نرو سے کیا ایک جو پیماں تو نے
    اپنی قسمت کا عجب ا لٹا ہے صفحہ غافل
    بات کی ہے بڑی رسوائی کے شایاں تو نے
    چل گیا ادنی سے زیور کی ڈلک کا جادو
    جانے کیا سمجھا تھا چاہت کو مری جاں تو نے
    لیلا،،،،،میں یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہا ر مرصع رتنار
    ہاتھ آئے تو مرا روپ سوایا ہو گا
    یہ نہ سمجھی تھی کہ یہ ہار ہے ظالم بیری
    کپٹی کنرو نے کوئی جال بچھا یا ہوگا
    شاہ لطیف،،، چل ذرا ڈال کے اب اپنے گلے میں پلو
    ڈھونڈ اس چیز کو جو کھوئی ہے لیلا نے
    شاید اب تجھ سے بنا لے تجھے پھر اپنا لے
    عذر اس سے کو کیا عاجزو گریاں تو نے
    پھر بھی مقصود مبارک نہ جو دل کا پا یا
    درگہ یار سے محبوبہ کیا حیراں تو نے
    یوں ہی فریاد کناں عفو کی طالب رہنا
    ہاں جو چھوڑا کہیں امید کا داماں تو نے
    ایک لغزش سے گنوایا ،نہ گنوایا ہو تا
    اپنے محبوب کا الطاف فرا واں تو نے
    رکھنا فریاد فغاں اب بھی وظیفہ اپنا
    زیست کرنی ہے اگر زود پشیماں تو نے
    لیلا۔۔۔ گن جو ہیں ایک زمانے کے گنائے تم نے
    تم سمجھتے ہو کہ مجھ میں کوئی خوبی ہی نہ تھی
    اپنی بخشش سے نوازو مجھے پتیم پیارے
    کیوں کوئی ا ور بنے دل کی تمہارے رانی
    میں نے سوچا ہے بہت سوچا یہ آ خر پا یا
    دہر میں سوختہ جانوں کا مقدر ہے یہی
    جس پہ غصے کی نگہ ہو تری پتیم پیارے
    باندی بن جائے جو رانی ہو چہیتی رانی
    آج میں در پہ ترے آئی ہوں سرو پیارے
    اپنا اک عمر کا سرمائہ عصیاں لے کر
    تو جو آزردہ ہے کیوں آؤں میں در پہ تیرے
    دل آشفتہ و مجبور و پریشاں لے کر
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    گر تیرا تصور تجھے پروانہ بنا دے
    شعلوں کی حضوری میں وفا سے نہ گزرنا
    دولہا کی طرح حجلئہ محبوب میں جا نا
    اس حسن جہاں سوز کی تابش سے نہ ڈرنا
    کچا ہے تو اے دوست گل خام کی مانند
    بھٹی کی تپش تجھ کو سکھائے گی سنورنا
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم
    رات کو نالے کر لیں گے ہم
    مست رہو تم حال میں اپنے
    تم بن کیا ہم جی نہ سکیں گے

    پھر بھی کہو تو خوش خوش جی لیں
    سوچ سکو تو بگڑا کیا ہے
    دیکھ سکو توا دیکھو نا
    اب بہت کچھ ہو سکتا ہے
    رات کوئی پہلو میں تھا میرے
    صبح سے لیکن پہلے پہلے
    اک ایک سے اب پوچھ رہا ہوں
    تم تو نہیں تھے تم تو نہیں تھے
     
  9. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    مُدّتوں ان کو فقط ان کو سنانے کے لیے
    گیت گائے دل آشفتہ نوانے اے دوست
    پر انھیں گوش توجہ سے نوازا نہ گیا
    نا شنیدہ ہی رہے اپنے فسانے اے دوست
    عشق بیچارہ کو محروم نوا چھوڑ کے وہ
    کھو گئے کونسی دنیاؤں میں جانے اے دوست
    پھر کبھی فرصتِ ا ظہار تمنا نہ ہوئی
    نا شنیدہ ہی رہے دل کے فسانے اے دوست
    اب وہ لوٹے ہیں تو کہتے ہیں جگاسکتے ہیں
    دل کو تجدید محبت کے بہانے اے دوست
    ان سے کہہ دو کہ وہ تکلیف مروت نہ کریں
    اب نہ پھوٹیں گے کبھی اس سے ترانے اے دوست
    ان سے کہہ دو کہ بڑی دیر سے خاموش ہے ساز
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    شام ہوئی ہے ڈگر ڈگر میں پھیلی شب کی سیائی ہے
    پچھم اور کبھی کا ڈوبا ،چار پہر کا راہی ہے
    آج کا دن بھی آخر بنتا جگ جگ کا جنجال لیے
    اندھیارے نے ایک جھپٹ میں چاروں کوٹ سنبھال لیے
    رات نے خیمے ڈیرے ڈالے ہولے ہولے کہاں کہاں
    پورپ پچھم اتر دکھن ،پھیلا کالا بھبھوت دھواں
    سانجھ سمے کی چھایا بیری ،اس کا ناش ناش ہو
    دھندکا پھندا جگ جگ پھیلا ا ندھا نیل آکاش ہوا
    سہماسہما ریل کے کالے پل پر دیر سے بیٹھا ہوں
    سوچ رہا ہوں سیر تو ہولی ٹھہروں یا گھر لوٹ چلوں
    شنٹ کے انجن دھواں اڑاتے آتے ہیں کبھی جاتے ہیں
    رنگ برنگے سنگنل ان کو کیا کیا ناچ نچاتے ہیں
    جنگلے پر پل کو جھکا اور ا نگلیوں سے اسے تھپکایا
    کوئی مسافر مزے مزے میں پیت کا گیت الاپ چالا
    چھاؤنی کے ایک کمپ کا گھنٹہ ٹن ٹن آٹھ بجاتا ہے
    شنٹ انجن دھواں اڑاتا آتا ہے کبھی جاتا ہے
    ا ج کی رات اماوس ہے آج گگن پر چاند نہیں
    تبھی تو سائے گھنے گھنے ہیں تبھی ستارے ماند نہیں
    تبھی تو من میں پھیل چلا الجھا الجھاسوچ کا جال
    کل کی یادیں آج کی فکریں آنے والے کل کا خیال
    کال کی باتیں کھیتی کھیتی ،بستی بستی ،گلی گلی
    جنگ کے چرچے محفل محفل ،گدھوں کی تقدیر بھلی
    ایک پہر سے اوپر گزراسورج کو است ہوئے
    کھیت کے جھینگر سوندھی سوندھی خوشبو پا کر مست ہوئے
    تن تن تن تن ،دب دب دب دب دب الجھی الجھی دبی دبی
    ایک بجے کی نوبت شاید وقت سے پہلے بجا ٹھی
    طوفانی جیکاروں کا اک شور سر صحرا ا ٹھا
    کان بجے یا دشت میں گونجی گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا
    کوچ کرو دل دھڑکے بولے پچھم کوا ٹھ جانا ہے
    کمپ کنارے باجا باجے دور کا دیس بسانا ہے
    ایک سجیلی بستی دائیں ،ایک البیلا رستہ بائیں
    دیرسے کالے پل پہ کھڑے ہیں اے دل آج کدھر کو جائیں
    لہک لہک کر قرنق چیخے دل کے تیس بلو ان کرے
    کھن کھن کھن کھن کھنڈا باجے کیا کیا کتھا بیان کرے
    اجلی خندق اپنے ہی جیالوں کے لہو میں نہائی ہے
    جیت نے جھلسی ویرانی کی شوبھا اور بڑھائی ہے
     
  11. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کہنہ صدیوں کی افسوںزدہ خامشی
    تنگ گلیوں کی پہنائی میں چھائی ہے
    ایک ویرانی جاوداں و جلی
    ساتویں آسماں سے اتر آئی ہے

    ایک کہرا ہے پھیلا ہوا دور تک
    پھول بن میں نہ پیلی ہری کھتیاں
    ایک مذبح کی دیوار کے اس طرف
    چیلیں منڈلا رہی ہیں یہاں سے وہاں

    گھاٹ خالی ہے پانی سے اترا ہوا
    کوئی ملاح بیٹھا نہیں ناؤ میں
    دھندلا دھندلا افق کھو گیا ہے کہیں
    دیواروں کے جھنڈوں کے پھیلاؤ
    زنگ رو دو کش سرنگوں ہو گئے
    جیسے ہاری ہوئی فوج کے سنتری
    سونے آنگن میں الجھی ہوئی گھاس
    بام چھانے میں کیوں دیر اتنی کری
    ایک قسمت کا مارا ہوا کارواں
    جانے کس دیس سے جانے کس شہر سے
    ہا نپتا کانپتا آگیا ہے یہاں
    خالی فردا کی خالی امیدیں لیے
    ٹھنڈے چولھوں میں ٹھٹھری ہوئی آگ ہے
    بیکراں درد چہروں پہ پر قوم ہے
    کب ٹھکانا ملے کب جنازہ اٹھے
    کوئی بتلائے کیا ،کس کو معلوم ہے
    شہر آباد تھے گاؤں آباد تھے
    عالم رنگ و بو تھا یہیں دوستو
    کار گاہوں میں تھا شور محشر بپا
    یہ بہت دن کی باتیں نہیں دوستو

    کون آیا تھا یہ اور کیا کر گیا
    لے گیا کون دھرتی کی تابندگی
    جنگلوں میں سے گزرے تو چیخے ہوا
    زندگی، زندگی ، زندگی ، زندگی
    کونسی نہر کوب سا باغ ہے
    کون سے پات ہیں کون سا پھول ہے
    زندگانی کے دامن کے پھیلاؤ میں
    دشت کے خار ہیں دشت کی دھول ہیں

    موٹروں گاڑیوں پیدلوں میں کوئی
    طاقت و عزم رفتار باقی ہے
    کس کے ایماء ارشاد کے منتظر
    مدتوں سے کھڑے ہیں وہیں کے وہیں
    راہ گیروں کےا ٹھے قدم تھم گئے
    سحر نا وقت نے بے خبر آلیا
    جانے والے جہاں تھے وہیں جم گئے
    آگے جانے کا جب راستہ نہ ملا

    چوک پر آکے سیلِ زماں رک گیا
    چوک پر آکے سب راستے کھو گئے
    اک سپاہی چلیپا کی صورت کھڑا
    سرخ پگڑی ہے سر جمائے ہوئے
    مومی شمعوں کی لوئیں لرزنے لگیں
    محفلوں کا اجالا گیا ، سو گیا
    آمد آمد ہے بلوان طوفان کی
    دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا
    مہر سے چاند تارے الجھنے لگے
    آندھیوں سے غبارے الجھنے لگے
    کیسے وحشت کے مارے الجھنے لگے
    ایک دشمن سے سارے الجھنے لگے
    آرتی کے لیے منتظر ہے جہاں
    گوشت اور خون کے سردو جامد بتو
    اپنی آنکھوں کی پھیلاؤ تو پتلیاں
    کچھ تو بولو زبانوں سے کچھ تو کہو
     
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ساگر کے ساحل سے لائی سرد ہوا کیساسندیس
    درد کی دھوپ میں جھلسنے شاعر گھوم نہیں اب دیس بدیس
    عشق کا درد ، جنوں ، وحشت ، بیتے جگ کی باتیں ہیں
    اب تو چاند سر بام آیا اب سکھ کی راتیں ہیں
    یاد کبھی اس پونم کی تجھے اور نہیں تڑ پائے گی
    آپ ہی آپ وہ دل کی رانی یہلو میں آ جائے گی
    درد کی راہ دکھانے والا آپ دوا بن جائے گا
    پھول سے نازک ہونٹوں سے امرت رس پلوائے گا
    ہاں اب دیکھ حجاب اٹھائے ہاں اب کس سے چوری ہے
    پونم ہے تو کس کی پونم ،گوری کس کی گوری ہے
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دوستو دوستو آؤ کہ سفر باقی ہے
    اپنے گھوڑوں کو بڑھاؤ کہ سفر باقی ہے
    یہ پڑاؤ بھی اٹھاؤ کہ سفر باقی ہے
    ہی الاؤ بھی بجھاؤ کہ سفر باقی ہے
    ہار کے بیٹھ نہ جاؤ کہ سفر باقی ہے
    پھر نئی جوت جگاؤ کہ سفر باقی ہے
    رہبروں کو نہ بلاؤ کہ سفر باقی ہے
    ان کے وعدوں پہ نہ جاؤ کہ سفر باقی ہے
     
  14. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
    طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
    بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
    کہاں ڈوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
    ستارے صبح خنداں کے ستارے
    بھلا ا تنی بھی جلدی کیا ہے پیارے
    کبھی پوچھا بھی تو نے ۔۔۔کس کو چاہیں
    لے پھرتے ہیں ویراں سی نگاہیں
    ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری
    نفس کاسوز ، دل کی بے قراری
    خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے
    عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
    حکایت ہے ابھی پچھلے دنوں کی
    کوئی لڑکی تھی ننھی کا منی سی
    گلے زیبا قبائے ، نو بہارے
    سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے
    بہت صبحوں کی باتیں تھیں انیلی
    بہت یادوں کی باتیں تھیا نیلی
    کبھی سامان تھے دل کے توڑنے کے
    کبھی پیمان تھے پھر سے جوڑنے کے
    عجب تھا طنز کرنے کا بہانا
    نہ تم انشا جی ہم کو بھول جانا
    بہت خوش تھے کے خو ش رہنے کے دن تھے
    بہر ساعت غزل کہنے کے دن تھے
    زمانے نے نیا رخ یوں دیا
    اسے ہم سے ہمیں اس سے چھڑایا
    پلٹ کر بھی نہ دیکھا پھر کسی نے
    اسی عالم میں گزرے دو مہینے
    کگر ہم کیسی رو میں بہ چلے ہیں
    نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں
    ستارے صبح روشن کے ستارے
    تجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے
    ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے
    ہم اپنا حال تجھ سے نہ کہیں گے
    گزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے
    عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
     
  15. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہاری ہوئی روحوں میں
    اک وہم سا ہوتا ہے
    تم خود ہی بتا دو نا
    سجدوں میں دھرا کیا ہے
    امروز حقیقت ہے
    فردا کی خدا جانے
    کوثر کی نہ رہ دیکھو
    تر ساؤں نہ پیمانے
    داغوں سے نہ رونق دو
    چاندی سی جبیوں کو
    ا ٹھنے کا نہیں پردا
    ہے بھی کہ نہیں فردا
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    میرے گھر سے تو سر شام ہوئے ہو رخصت
    میرے خلوت کدۂ دل سے نہ جانا ہوگا
    ہجر میں اور تو سب موت کے ساماں ہوں گے
    اک یہی یاد بہلنے کا بہانا ہوگا
    تم تو جانے کو ہو اس شہر کو ویراں کر کے
    اب کہاں اس دل و حشی کا ٹھکانا ہوگا
    بھیگی راتوں میں فقط درد کے جگنو پکڑیں
    سونی راتوں میں کبھی یاد کے تارے چو میں
    خواب ہی خواب میں سینے سے لگائیں تجھ کو
    تیرے گیسو ہی کبھی درد کے مارے چومیں
    اپنے زانو پہ تراسر ہی کوئی دم رکھ لیں
    اپنے ہونٹوں سے ترے ہونٹ بھی پیارے چومیں
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ٹوٹے کاس والے کھنڈر
    اے دیوتاؤں کے مکاں
    گھنٹی تری خاموش ہے
    ناقوس ہے تیرا کہاں
    تیرے پجاری ہیں کدھر
    ہے کون تیرا پاسباں
    یہ گنبد و محراب دور
    ماضی کی شوکت کے نشاں
    ویران ہیں کب سے پڑے
    بتلا جو کچھ بتلاسکے
    بتلا تو کیوں کر ہو گئے
    ناراض تجھ سے دیوتا
    چھوڑا ہے جو سب نے تجھے
    کیا جُرم تجھ سے ہو گیا
    بتلا اے گرد آلود بت
    بتلا اے پتھر کے خدا
    بتلا اے ختنہ شمع داں
    بتلا اے شمع بے ضیاء
    تم کس لیے خاموش ہو
    تم کس لیے خاموش ہو

    دن ڈھل گیا شام آ گئی
    بستی میں اب جاؤں گا میں
    تجھ پر چڑھانے کے لیے
    جو کچھ ملا لاؤں گا میں
    اے بت اے پتھر کے خدا
    تو نا چنا ، گاؤں گا میں
    رسمیں جو مجھ سے ہو سکیں
    تیری بجا لاؤں گا میں
    برکت عنایت کر مجھے
    آ۔ ۔ یاد کرتا ہوں تجھے
     
  18. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    وہ دوست جنہوں نے من میں میرے
    میرے درد کا پودا بویا تھا
    وہ دوست تو رخصت بھی ہو چکے
    اور بار غم دل ساتھ مرا
    اب چارہ گرد کچھ بولو نہیں
    اب ان باتوں سے تمہیں حاصل کیا
    میرے دوست تو شہد کے گھونٹ پیئے
    تجھے تلخ مزے کا پتہ ہی نہیں
    تیرے دوست تو ہوں گے جلو میں ترے
    ترا دل تو مگر ہے غموں کا امیں
    یہ جو اجنبی لوگ ہیں ان کی بتا
    کبھی ان کو بھی یاد کرے گا کوئی
    کبھی طنز سے پوچھیں گے ایل جہاں
    تیرے دوست کا ہاتھ کہاں ہے بتا
    مگر اہل وفا تو جھجھکتے نہیں
    جہاں سر پہ چمکتی ہے تیغ حنا
    بڑے ناز سے دیتے ہیں سر کو جھکا
    نہیں مانگتے کچھ بھی اجل کے سوا
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    لوٹ چلے تم اپنے ڈیرے ڈوب چلے ہیں تارے
    پردیسی پردیسی میرے بنجارے بنجارے
    یاروں دو نین ہمارے یا جنگل کا جھر نا
    ہم سے پیت نہ کرنا پیارے ہم سے پیت نہ کرنا
     
  20. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
    تم اس لڑکی کو جانتے ہو
    وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں
    وہ مست چکوری نہیں نہیں
    وہ جس کا کرتا نیلا ہے؟
    وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟
    وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے
    وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے

    ان سب سے الگ ان سب سے پرے
    وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
    کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
    جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
    کچھ چتان ہیں البیلے سے
    کچھ اس کے نین نشیلے سے
    اس وقت مگر سوچوں میں مگن
    وہ سانولی صورت کی ناگن
    کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
    یہ گیت اسی کا در پن ہے
    یہ گیت ہمارا جیون ہے

    ہم اس ناگن کے گھائل تھے
    ہم اس کے مسائل تھے
    جب شعر ہماری سنتی تھی
    خاموش دوپٹا چنتی تھی
    جب وحشت اسے سستاتی تھی
    کیا ہرنی سی بن جاتی تھی

    یہ جتنے بستی والے تھے
    اس چنچل کے متوالے تھے
    اس گھر میں کتنے سالوں کی
    تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
    گو پیار کی گنگا بہتی تھی
    وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
    یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
    انشا جی ہم تو تمہارے ہیں

    اب اور کسی کی چاہت کا
    کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے
    ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
    دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
    یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
    نا دل مانا ، نا ہم مانے
    انجام تو سب دنیا والے جانے

    جو ہم سے ہماری وحشت کا
    سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
    ہم جس کے لئے پردیس پھریں
    جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
    چاہت کے نرالے گیت لکھیں
    جی موہنے والے گیت لکھیں
    اس شہر کے ایک گھروندے میں
    اس بستی کے اک کونے میں.
    کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
    اس درد کو اب چپ چاپ سہو
    انشا جی لہو تو اس سے کہو
    جو چتون کی شکلوں میں لیے
    آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے
    خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
    لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
    کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
    ہم جس کے لیے پردیس پھرے
    چاہت کے نرالے گیت لکھے
    جی موہنے والے گیت لکھے
    جو سب کے لیے دامن میں بھرے
    خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
    جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
    جو درد بھی ہے اور دار و بھی
    لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
    کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
    وہ کل بھی ملنے آئی تھی
    وہ آج بھی ملنے آئی ہے
    جو اپنی نہیں پرائی ہے
     
  21. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    پھر گولیاں چل چل اوب گئیں ۔۔۔ اے کیسا بلنکا
    تری سڑکیں خون میں ڈوب گئیں۔۔۔ اے کیسا بلنکا
    مقتل ہے کہ کھاٹی اطلس کی ۔۔اے کیسا بلنکا
    گل رنگ ہے ماٹی اطلس کی۔۔۔۔ اے کیسا بلنکا
    بڑھے لشکر لشکر ہتیارے ۔۔۔ ۔ اے کیسا بلنکا
    لیے توپیں ٹینک اور طیارے ۔۔۔اے کیسا بلنکا
    پر تیری دلاور آبادی۔۔۔۔ اے کیسا بلنکا
    ہر لب پہ ہے نعرہ آزادی ۔۔۔اے کیسا بلنکا
    کھل جائیں ان کے پیچ سبھی۔۔۔اے کیسا بلنکا
    ہیں فور و فرانکو ہیچ سبھی ۔۔۔۔۔اے کیسا بلنکا
    دو روز کی ان کو مہلت ہے اے کیسا بلنکا
    پھر کوچ نکارا باجت ہے ۔۔۔۔اے کیسا بلنکا
    لا ہاتھ میں دیں ہم ہاتھ ترے۔۔۔اے کیسا بلنکا
    ہم لوگ کروڑوں ساتھ ترے ۔۔۔اے کیسا بلنکا
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کسی سے دور جا پڑے کسی کے پاس ہو گئے
    کنار کیپسین پہ ہم بہت اداس ہو گئے
    ادھر کنار بحر تھا ادھر بلند گھاٹیاں
    جنوں کی وحشتیں ہمیں لیے پھر ہیں کہاں کہاں
    وہ رات ایک خواب تھی مگر عجیب خواب تھی
    کتاب زندگی کا ایک لا جواب باب تھی
    ادھر ادھر کی گفتگو زمانے بھر کی گفتگو
    رہ دراز عشق کے کٹھن سفر کی گفتگو
    دلوں کی آرزو زباں تک آن پلٹ گئی
    اسی میں رات کٹ گئی اسی میں بات کٹ گئی
    انھیں تو ہم نے پا لیا یہ اپنا آپ کھو گئے
    کنار کیپسین پہ ہم بہت اداس ہو گئے
     
  23. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کچھ لوگ کہ اودے ،نیلے پیلے ، کالے ہیں
    دھرتی پہ دھنک کے رنگ بکھیرنے والے ہیں
    کچھ رنگ چرا کے لائیں گے یہ بادل سے
    کچھ چوڑیوں سے کچھ مہندی سے کچھ کاجل سے
    کچھ رنگ بسنت کے رنگ ہیں رنگ پتنگوں کے
    کچھ رنگ ہیں جو سردار ہیں سارے رنگوں میں
    کچھ یورپ سے کچھ پچھم سے کچھ دکھن سے
    کچھ اتر کے اس اونچے کوہ کے دامن سے
    اک گہرا رنگ ہے اکھڑ مست جوانی کا
    اک ہلکا رنگ ہے بچپن کی نادانی کا
    کچھ رنگ ہیں جیسے پھول کھلے ہوں پھاگن کے
    کچھ رنگ ہیں جیسے جھپنٹے بھادوں ساوں کے
    اک رنگ ہے برکھا رت میں کھلتے سیئسو کا
    اک رنگ ہے بر ہات میں ٹپکے آنسو کا
    یہ رنگ ملاپ کے رنگ یہ رنگ جدائی کے
    کچھ رنگ ہیں ان میں وحشت کے تنہائی کے
    ان خون جگر کا رنگ ہے گلگوں پیارا بھی
    اک دن رنگ ہمارا بھی ہے تمہارا بھی
     
  24. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    فرض کرو ہم اہلِ وفا ہو، فرض کرو دیوانے ہو
    فرض کرو یہ دونوں باتیں، جھوٹی ہوں افسانے ہوں

    فرض کرو یہ جی کی بپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
    فرض کرو ابھی اور ہو اتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو

    فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
    فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے میخانے ہوں

    فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
    فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

    فرض کرو یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
    فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو
     
  25. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    میں ازل سے تمہاری ہوں پیارے
    میں ابد تک تمہاری رہوں گی
    مجھ کو چھوڑا ہے کس کے سہارے
    کیسے جاؤ گے ،جانے نہ دوں گی
    آسماں پر ستارے کہاں ہیں
    اور جو ہیں وہ ہمارے کہاں ہیں
    زندگی تازگی کھو چکی ہے
    بات ہونی تھی جو ہو چکی ہے
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ان نینوں میں پیت بھری ہے ان کی انوکھی ریت
    کھوٹے کا کبھی کھوٹ نہ دیکھیں دیکھیں پیت ہی پیت
    کاگوں کو ابھی نوچ کھلاؤں پاؤں جو بگڑے طور
    یہ نیناں کچھ اور جو دیکھیں پیت بنا کچھ اور

    پیاروں کی جہاں سنگیت دیکھے جم کر رہے نگاہ
    تم من کو مرے صحبت انکی کعبے کی درگاہ

    دن بھر دیکھیں سیر نہ ہو ویں پیت کو ان کی پیاس
    پیت جو پائیں تب کہیں آئیں لو ٹ کے میرے پاس
    تیغیں پیت کے دن میں ہاریں نینوں کی وہاں جیت
    کس کس کا دکھ درد اپنائیں ان کی انوکھی ریت
     
  27. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ودیالہ سے رام نگر تک
    گرد کا کہرا پھیلا پھیلا
    تاروں کی لو پھیکی پھیکی
    چاند کا چہرا میلا میلا
    انشا جی اس چاند رات میں
    کرتے ہوئے کشتی کی سواری
    پھر کب آؤ ،پھر کب آؤ
    کاشی کی ہر بات ہے نیاری
    اسی گنگا کا پانی پی کر
    اسی کاشی میں بڑھے پلے ہیں
    ہمرے کون دلدر چھوٹے
    ہمرے کتنے پاپ کٹے ہیں
    ان چوبوں کو درشن دیویں
    رام کبھی کبھی شام مراری
    ہم لوگوں کی سار نہ لیویں
    کاشی کی ہر بات ہے نیاری
    کھیت کھیت میں ٹھا کر لوٹیں
    پینٹھ پینٹھ میں بنجارے ہیں
    مندر مندر لوبھی بامن
    گھاٹ گھاٹ پر ہر کارے ہیں
    ایک طرف سرکار کے پیارے
    ایک طرف یہ دھن کے پجاری
    بندے بھی بھگوان بھی دشمن

    کاشی کی ہر بات ہے نیاری
    جھونکے متوالی پروا کے
    پرات کال دریا کا کہتا
    ڈال ڈال گاتے ہوئے پنچھی
    ترل ترل بہتی ہوئی دھار
    پورب اور گگن پر کرنیں
    پنکھ سنہرے تول رہی ہیں
    رات کے اندھیارے کی کرنیں
    ایک اک کر کے کھول رہی ہے
    رکشا والے بگ ٹٹ بھا گے
    اسٹیشن سے لیے سواری
    آج تو ہم نے بھی آ دیکھی
    کاشی کی ہر بات ہے نیاری
    دور دور کے یا تریوں کے
    گھاٹ گھاٹ پر ڈیرے ڈالے
    پنڈت پنڈت نوکا والے
    ا مڈ پڑے کی گٹھڑی کو ڈبونے
    ہم بھی پنجا دیس سے آئے
    جیون کا دکھ کون بٹائے
    جیون کا دکھ سہا نہ جائے
    ہم لوگوں پر کشٹ پڑا ہے
    ہم لوگوں پر وقت ہے بھاری
    لیکن کس کو کون بتائے
    کاشی کی ہر بات ہے نیاری
     
  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    رات پھرا ن کا انتظار رہا
    رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
    وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
    راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
    ایک امید باز دید جو تھی
    دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا
    کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل
    کب انھیں سامنے نہیں پایا
    رات پھر میں نے ان سے باتیں کی
    رات تک میرے پاس تھے گویا
    ہونٹ، رخسار ، کا کلیں ، باہیں
    ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا
    پڑگیاسست رات کا جادو
    دیکھتے دیکھتے سماں بدلا
    ہولے ہولے سرک گئے تارے
    چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا
    اور پھر مشرقی جھروکے سے
    صبح دم آفتاب نے جھانکا
    در پہ باہر کسی نے دستک دی
    (ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا )
    ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں
    اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل

    اب کریں ا نتظار تو کس کا
    وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں
    پھول سا جسم چاند سا چہرہ
    عنبریں زلفیں ، مخملیں باہیں
    آج تک جن کا لمس باقی تھا
    اب فقط ان کی یاد باقی ہے
    لٹ گیا عشق کاسرو ساماں
    شہر امید ہو گیا ہے ویراں
    اس کی اک روئدار باقی ہے
    ایک اجڑ سواد باقی ہے
     
  29. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    وہ آج کی محفل میں
    ہم کو بھی نہ پہچانا
    کیاسوچ لیا دل میں
    کیوں ہو گیا بیگانہ
    ہاں اے دل دیوانا

    وہ آپ بھی آتے تھے
    ہم کو بھی بلاتے تھے
    کس چاہ سے ملتے تھے
    کیا پیار جتاتے تھے
    کل تک جو حقیقت تھی
    کیوں آج ہےا فسانہ
    ہاں اے دل دیوانا

    بس ختم ہوا قصہ
    اب ذکر نہ ہو اسکا
    وہ شخص وفا دشمن
    اب اس سے نہیں ملنا
    گھر اس کے نہیں جانا
    ہاں اے دل دیوانا

    ہاں کل سے نہ جائیں گے
    پر آج تو ہو آئیں
    اس کو نہیں پاسکتے
    اپنے ہی کو کھو آئیں
    تو باز نہ آئے گا
    مشکل تجھے سنجھانا
    وہ بھی ترا کہنا تھا
    یہ بھی ترا فرمانا
    چل اے دل دیوانا
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کیوں جانی پہچانی گئی ہو
    انشا جی کو جان گئی ہو
    جس سے شام سویرےا کر
    فون کی گھنٹی پر بلوا کر
    کیا کیا بات کیا کرتی تھیں
    کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں
    دیکھو پیت نبھانا ہوگا
    دیکھو چھوڑ نہ جانا ہوگا
    پیت لگائی ریت نبھائی
    ہم لوگوں کی ریت پرائی
    میں ہوں انشا ، انشا ، انشا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں