1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏5 مئی 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اندھی شبو ؛ بے قرار راتو ؛
    اب تو کوئی جگمگاتا جگنو
    اب کوئی تمتماتا مہتاب
    اب تو کوئی مہرباں ستارہ
    گلیوں میں قریب شام ہر روز
    لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ
    آتا ہے جو قامتوں کا ریلا
    کہتی ہیں حیرتی نگاہیں
    کس کس کو ہجوم میں سے چاہیں
    لیکن یہ تمام لوگ کیا ہیں
    ا پنے سے دور ہیں جدا ہیں
    ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے
    دامان شکیب چاک کر کے
    وحشت ہی کا آسرا لیا تھا
    جینے کو جنوں بنا لیا تھا
    اچھا نہ کیا۔۔۔۔مگر کیا تو
    اندھی شبو ، بے قرار راتو

    کب تک یونہی محفلوں کے پھرے
    اچھے نہیں جی کے یہ اندھیرے
    اب تو کوئی بھی دید نہیں ہے
    ہونے کی بھی امید نہیں ہے
    ہم بھی تو عہد پاستاں ہیں
    ماضی کے ہزار داستاں ہیں
    پیماں کے ہزار باغ توڑے
    دامان وفا پہ داغ چھوڑے
    دیکھیں جو انا کے روزنوں سے
    پیچھے کہیں دور دور مدھم
    پراں ہیں خلا کی وسعتوں میں
    اب بھی کئی ٹمٹماتے جگنو
    اب بھی کئی ڈبڈباتے مہتاب
    اب بھی کئی دستاں ستارے
    آزردہ بحال ، طپاں ستارے
    پیچھے کو نظر ہزار بھاگے
    لوگو رہ زندگی ہے آگے
    جتنے یہاں راز دار غم ہیں
    تارے ہیں کہ چاند ہے کہ ہم ہیں
    ا ن کا تو اصول ہے یہ بانکے
    اس دل میں نہ اور کوئی جھانکے
    خالی ہوئے جام عاشقی کے
    اکھڑے ہیں خیام عاشقی کے
    قصے ہیں تمام عاشقی کے
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
    ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
    بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
    رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
    لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
    اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
    اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
    قافلے والے دور گئے ، بجھنے دواگر بجھتا ہے الاؤ
    ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
    سمے سمے کا ایک را گ ہے ،سمے سمے کاا پنا بھاؤ
    آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
    پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ
    انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کاسماں
    تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
    وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
    ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
    لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
    بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
    منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
    ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
    روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
    قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے
    چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
    ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
    جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
    تم پر یوں کے راج دلارے ،تم اونچے تاروں کے کوی
    ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
    تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
    ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
    تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری
    ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں ، زرد زرد الجھی الجھی
    ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں
    حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
    آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
    آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
    آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیاداروں میں
    حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں
    اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
    رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
    لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھارا تھے
    انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
    نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
    اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے
    طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    انشا جی کیوں عاشق ہو کر درد کے ہاتھوں شور کرو
    دل کو اور دلاسا دے لو من کو میاں کٹھور کرو
    آج ہمیں اس دل کی حکایت دور تلک لے جانی ہے
    شاخ پہ گل ہے باغ میں بلبل جی میں مگر ویرانی ہے
    عشق ہے روگ کہا تھا ہم نے آپ نے لیکن مانا بھی
    عشق میں جی سے جاتے دیکھے انشا جیسے دانا بھی
    ہم جس کے لیے ہر دیس پھرے جوگی کا بدل کر بھیس
    بس دل کا بھرم رہ جائے گا یہ درد تو اچھا کیا ہوگا
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    انشا جی ہاں تمہیں بھی دیکھا درشن چھوٹے نام بہت
    چوک میں چھوٹا مال سجا کر لے لیتے ہو دام بہت
    یوں تو ہمارے درد میں گھائل صبح نہ ہو شام بہت
    اک دن ساتھ ہمارا دو گے اس میں ہمیں کلام بہت
    باتیں جن کی گرم بہت ہیں کام انہی کے خام بہت
    کافی کی ہر گھونٹ پہ دوہا کہنے میں آرام بہت

    دنیا کی اوقات کہی ،کچھ اپنی بھی اوقات کہو
    کب تک چاک دہن کوسی کر گونگی بہری بات کہو
    داغ جگر کو لالہ رنگیں اشکوں کو برسات کہو
    سورج کو سورج نہ پکارو دن کو اندھی رات کہو
     
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہم لوگ تو ظلمت میں جینے کے بھی عادی ہیں
    اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
    اک یاد پہ آہوں کا طوفاں امڈتا ہوا آتا ہے
    اک ذکر پہ اب دل کو تھا ما نہیں جا تا ہے
    اک نام پہ آنکھوں میں آنسو چلے آتے ہیں
    جی ہم کو جلاتا ہے ہم جی کو جلاتے ہیں
    ہم لوگ تو مدت سے آوارہ و حیراں تھے
    اس شخص کے گیسو کب اس طور پریشاں تھے
    یہ شخص مگر اے دل پردیس سدھارے گا
    یہ درد ہمیں جانے کس گھاٹ اتارے گا
    عشق کا چکر ہے انشا کے ستاروں کو
    ہاں جا کے مبارک دو پھر نجد میں یاروں کو
     
  6. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کل شام کی پیلی روشنی جب ڈوب رہی تھی
    گھر پہنچا میں سوچ میں ڈوبا ، گھبرا یا
    دور کہیں بنسری کی تانا ڑا کے
    ایک پرانے دوست نے جنگل میں بلایا
    ویرانی ہے تنہائی ہے خاموشی ہے
    ٹھیر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا
    دور کہیں اک بنسری کی تان البیلی
    گونج رہی تھی اور میں دبکا دبکا یا
    آنگن کی ویرا ن فضا میں گھوم رہا تھا
    ایک ایک کمرے میں جھانکا ، دیا جلایا
    کھڑکی کے پٹ کھول کے تاروں کو دیکھا
    بھیگی بھیگی نرم ہوا کا جھونکا آیا
    کون ہوا کس دیس کا یہ چھیل چھبیلا
    پیت کے ہاتھوں باؤلا قسمت کاستا یا
    روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں
    وقت کی تپتی دھوپ میں جھلساسنو لایا
    دیس دیس کے راکشوں سے لڑتا بھڑتا
    آج ہمارے شہر کی جانب نکل آیا
    کس ظالم نے شام کے اس شانت سمے میں
    مہجوری کے درد کو ، سوتے سے جگا یا
    گونج رہی ہے بنسری کی تان البیلی
    درد برہ کا ہو گیا کچھ اور رسوایا
    کھڑکی کے پٹ بھیڑ دوں اور دیا جلالوں
    چاروں کوٹوں پھیل چکی ہے رات کی چھایا

    دور دیس کے باولے اوچھیل چھبیلے
    ہم نے کیا اس پیت میں کھویا ،کیا پا یا
    صحراؤں میں راہ راہ کی مٹی چھانی
    دریاؤں کا موڑ مو ڑ پر ساتھ نبھایا
    بادل بن کر انبر انبر گھومے لیکن
    کب پہنچا ہے چاند تک دھرتی کا جایا
    روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں
    دیکھ چکے جو پیت ہم کو دکھلایا
    راج کیا کبھی دوار دوار پر بھکشا مانگی
    تحفے میں کبھی پھول ملے کبی پاتھر کھایا
    لیکن اب تو بھیگے دامن سوکھ چکے ہیں
    ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا
    روندے رہے ہیں اوس کو دھلتے دھلتے پاؤں
    ہر پتی نے دیکھ کے ہم کو سیس نوایا
    وادی گھیری گاؤں کے چولھوں کے دھوئیں نے
    دور دور سے سرمئی بادل گھر آیا
    پچھم میں سونے کی نوکا ڈوب چلی ہے
    کانٹے تو نے چبھ کر ناحق پاپ کمایا
    سونک رہا ہے بوڑھا پیپل سائیں سائیں
    دیکھو چوتھی رات کا چندا ابھر آیا
    لیکن اب وہ بنسری کی تان کہاں ہے
    تو نے پھر کیوں رانجھڑے یاں ہمیں بلایا
    دھندلے سائے دھندلی راہیں میٹ رہی ہیں
    میں تو بستر چھوڑ کے آ کے پچھتا یا
    شاخ شاخ پر شور مچاتے پنچھی دبکے
    دیکھو دیکھو جھیل میں کیسا طوفاں آیا
    چٹے چٹے سارس بیٹھے ایک کنارے
    ڈھونڈ رہے ہیں چندا کی لہراتی چھایا
    بنسی کی آواز فضا میں ڈوب رہی ہے
    کوئی چھلاوا تھا کہ ہمیں نے دھوکا کھایا
    نیلا انبر پیلے چاند کا جھومر باندھے
    دیکھو اب اس پیڑ کے اوپر اتر آیا
    پھندے ڈالے گاؤں کے چولھوں کے دھوئں نے
    دور کہیں اک جانور ، بن کر ڈکرایا
    کوئی بگولا کفنی ڈالے ناچ رہا ہے
    کوئی ستارہ ٹوٹ کر وہ گرا ۔۔ خدایا
    بیتی گھڑیاں بھولی یادیں ، مٹتے سپنے
    سب بیری ہیں سب نے مل کر جال بچھایا
    اوس گری تو بنسی کے شعلے مرجھائے
    چار کوٹ سے اندھیارے کا طوفاں آیا
    روح میں گھس کر بیٹھ گئے مٹیالے سائے
    دیکھا اپنی سوچ نے کیا کیاسونگ رچایا

    بنسی کی آواز فضا میں گونج رہی ہے
    گھر پہنچا ہوں سوچ میں ڈوبا گھبرایا
    دوس دیس کے باؤلے او چھل چھبیلے
    تجھ پر بھی کیا کسی آسیب کاسایا
    کھڑکی کے پٹ بھیڑ لوں اور دیا بجھا دوں
    ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اے رودِ رائن
    اے رودِ رائن اے رودِ رائن
    ساحل بہ ساحل تیرے قرا ئن
    شہر اور قصبے تیرے مدائن
    صدیوں کی تاریخ باندھے ہے لائن
    کہسار کہسار قلعوں کے مینار
    وادی بہ وادی گرجوں کے مینار
    گرما کہ سرما میلوں کی بھر مار
    رقص اور نغمہ حسن طرح دار
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ایک گمنام سپاہی ہوں چلا جاتا ہوں
    بات پوری بھی نہیں تم نے سنی یا اللہ
    اے گمنام سپاہی
    کس دھرتی کا بیٹا ہے تو
    کس منزل کا راہی ۔۔۔۔۔۔ اے گمنام سپاہی
    فوجیں گزریں ،لشکر گزرے
    پیدل گزرے ،ا ڑ کے کر گزرے
    چھائی شب کی سیاہی ۔۔۔۔۔ اے گمنام سپاہی
    دیکھ چمن میں بیلا پھولا دیکھ پپیہے چہکے
    کیوں گلچیں سے پینگ بڑھائے یہیں چمن میں رہ کے
    تجھ پر یہ ہتیار سجائے دشمن نے کیا کہہ کے
    بستی بستی موت کا پہرا
    چاروں کوٹ تباہی ۔۔۔۔ اے گمنام سپاہی
    دے ہر چیز گواہی
     
  9. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    بستی بستی گھومنے والے پیتوں کے بنجارے
    روپ نگر کی ابلا گوری آئے شہر تمہارے
    کیا جانے کیا مانگیں چاہیں جنم جنم کے لو بھی
    ہم سے پیت کرو گی گوری ہم سے پیت کرو گی

    بال اندھیری رات کے بادل گال چٹکے گیسو
    ہونٹ تمہارے نورس کلیاں نین تمہارے جادو
    ان کی دھوپ اجالا من کا ان کی چھاؤں گھنیری
    ہم سے پیت کرو گی گوری ہم سے پیت کرو گی
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    بستی میں دیوانے آئے
    چھب اپنی دکھلانے آئے
    دیکھ رے درشن کی لو بھی
    کر کے لاکھ بہانے آئے
    پیت کی ریت نبھانی مشکل
    پیت کی ریت نبھانے آئے
    اُٹھ اور کھول جھروکا گوری
    سب اپنے بیگانے آئے
    پیر، پروہت، مُلّا، مُکھیا
    بستی کے سب سیانے آئے
    طعنے، مہنے، اینٹیں، پاتھر
    ساتھ لئے نذرانے آئے
    سب تجھ کو سمجھانے والے
    آج انہیں سمجھانے آئے
    اب لوگوں سے کیسی چوری?
    اُٹھ اور کھول جھروکا گوری
    درشن کی برکھا برسا دے
    ان پیاسوں کی پیاس بُجھا دے
    اور کسی کے دوار نہ جاویں
    یہ جو انشاء جی کہلا دیں
    تجھ کو کھو کر دنیا کھوئے
    ہم سے پوچھو کتنا روئے
    جگ کے ہوں دھتکارے ساجن
    تیرے تو ہیں پیارے ساجن
    گوری روکے لاکھ زمانہ
    ان کو آنکھوں میں بٹھلانا

    بجھتی جوگ جگانے والے
    اینٹیں پاتھر کھانے والے
    اپنے نام کو رسوا کر کے
    تیرا نام چھپانے والے
    سب کچھ بوجھے، سب کچھ جانے ؟
    انجانے بن جانے والے
    تجھ سے جی کی بات کہیں کیا
    اپنے سے شرمانے والے
    کر کے لاکھ بہانے آئے
    جوگی لیکھ جگانے آئے

    دیکھ نہ ٹوٹے پیت کی ڈوری
    اُٹھ اور کھول جھروکا گوری
     
  11. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    پھر تمہارا خط آیا
    شام حسرتوں کی شام
    رات تھی جدائی کی
    صبح صبح ہر کارہ
    ڈاک سے ہوائی کی
    نامۂ وفا لایا
    پھر تمہارا خط آیا

    پھر کبھی نہ آؤنگی
    موجۂ صبا ہو تم
    سب کو بھول جاؤنگی
    سخت بے وفا ہو تم
    دشمنوں نے فرمایا
    دوستوں نے سمجھایا
    پھر تمہارا خط آیا

    ہم تو جان بیٹھے تھے
    ہم تو مان بیٹھے تھے
    تیری طلعتِ زیبا
    تیرا دید کا وعدہ
    تیری زلف کی خوشبو
    دشتِ دور کے آہو
    سب فریب سب مایا
    پھر تمہارا خط آیا

    ساتویں سمندر کے
    ساحلوں سے کیوں تم نے
    پھر مجھے صدا دی ہے
    دعوت وفا دی ہے
    تیرے عشق میں جانی
    اور ہم نے کیا پایا
    درد کی دوا پائی
    دردِ لادوا پایا
    کیوں تمہارا خط آیا
     
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی
    پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے
    جہاں سے کاروان شوق گزرے
    نہ جانے کتنی مدت ہوگئی ہے
    پلا تھا صحبت اہل حرم میں
    میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا
    بنی لیکن خداسے نہ بتوں سے
    میں دونوں آستانوں سے خفا تھا
    مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو
    میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں
    مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت
    مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں
    کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو
    اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں
    میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا
    اپنے غم کا مگر مداوا ہے
    ذائقہ کا قصور ہے بابا
    تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے
    رنگ و روغن کو سال و سن کو نہ دیکھ
    پیڑ گننا کہ آم کھانا ہے
    عمر گزری ہے خانقاہوں میں
    ایک شب یاں گزار جانا ہے
    حسن مختوم خوب تھا بابا
    کاش حصے میں آپ کے آسکتا
    عشق معصوم کیا کہا بابا
    کاش میں یہ فریب کھاسکتا
    حسن کا مل عیار عشق نفیس
    سب مراحل سے گزر چکا ہوں میں
    دل خریدا تھا کبھی ان کا
    اب فقط اتنا جانتا ہوں میں
    ایک رنگین خواب تھے بابا
    موجہ ہائے سراب تھے بابا
    ورنہ سرحد پہ تشنہ کامی کی
    مئے رنگیں ہے سادہ پانی ہے
    شرط حسن و وفا اضافی ہے
    قید تسکین نفس کافی ہے
     
  14. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تو جو کہے تجدید محبت میں تو مجھے کچھ عار نہیں
    دل ہے بکار خویش ذرا ہشیار ،ابھی تیار نہیں
    صحرا جو عشق جنوں پیشہ نے دکھائے دیکھ چکا
    مد و جرز کی لہریں گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ چکا
    عقل کا فرمانا ہے کہ اب اس دام حسیں سے دور ہوں
    زنداں کی دیواروں سے سر پھوڑ مرا نوخیز جنوں
    صحبت اول ہی میں شکست جرات تنہا دیکھ چکا

    (۲)

    کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
    جلوہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
    سوچ رہا ہوں کتنی تمناؤں کو لیے آیا تھا یہاں
    مجھ پہ نگاہ لطف تری اب بھی ہے مگر پہلی سی کہاں
    آج میں ساقی یاد ہوں تجھ کو درد تہ ساغر کے لیے
    کل کی خبر ہے کس کو بھلا اتنا بھی رہے کل یانہ رہے
    دھندکے بادل چھوٹ رہے ہیں ٹوٹتے جاتے ہیںافسو
    سوچ رہا ہوں کیوں نہ اسی بے کیف فضا میں لوٹ چلوں
    ساقی رعنا تجھ سے یہی کم آگہی کا شکوہ ہی رہا
    کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
    حیلہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
    لذت و زیرو بم سے رہی محروم نوائے بربط و نے
    ڈھل نہ سکے آہنگ میں خاکے آنہ سکی فریاد میں لے
    کر دیکھی ہر رنگ میں تو نے سعی نشاط سوزدروں
    پھر بھی اے مطرب خلوت محمل میں رہی لیلائے سکوں
    کشتی آوارہ کو کسی ساحل کاسہارا مل نہ سکا
    دیکھ چکا انجام تمنا ، جان تمنا تو ہی بتا
    ہے یہی نشہ غایت صہباساقی رعنا تو ہی بتا
    چارہ غم تھا دعوی نغمہ ،خالق نغمہ تو ہی بتا
    حسن کا احساںا ٹھ نہ سکے تو عشق کاسوداچھوڑ نہ دوں
    کیف بقدر ہوش نہ ہو تو ساغر صہبا پھوڑ نہ دوں
    بربط و نے سے کچھ نہ بنے تو بربط ونے کو توڑ دوں
    قطع جنوں میں جرم ہی کیا ہے پھر مری لیلی تو ہی بتا
     
  15. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جب درد کا دل پر پہرا ہو
    اور جب یاد کا گھاؤ گہرا ہو
    آ جائے گا آرام
    جپوست نام
    جپوست نام
    یہ بات تو ظاہر ہے بھائی
    ہے عشق کا حاصل رسوائی
    پر سوچو کیوں ا نجام
    جپوست نام
    جپوست نام
    یہ عمر کسی پر مرنے کی
    کچھ بیت گئی کچھ بیتے گی
    وہ پکی ہے تم خام
    جپوست نام
    جپوست نام
    جب عشق کا درد تم بھرتے ہو
    کیوں ہجر کے شکوے کرتے ہو
    یہ عشق کا ہے انعام
    جپوست نام
    جپوست نام
    سب اول اول گھبراتے ہیں
    سبا خر آخر لے آتے
    اس کافر پر اسلام
    جپوست نام
    ٍ جپوست نام
    اب چھوڑ کے بیٹھو چپکے سے
    سب جھگڑے دین اور دنیا کے
    آتی ہے وہ خوش اندام
    جپوست نام
    جپوست نام
    جہاں میر سفر ،وزیر بھی ہے
    اس بھیڑ میں ایک فقیر بھی ہے
    اور اس کا ہے یہ کلام
    جپوست نام
    جپوست نام
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
    ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
    ہے کوئی جو ساہو کار بنے
    ہے کوئی جو دیون ہار بنے
    کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
    پر سود بیاج کے بن لوگو
    ہاںا پنی جاں کے خزانے سے
    ہاں عمر کے توشہ خانے سے
    کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
    کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
    جب ناما دھر کا آیا کیوں
    سب نے سر کو جھکایا ہے
    کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
    جنہیں جاننے والے جانے ہیں
    کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
    کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
    ہم مانگتے نہیں ہزار برس
    دس پانچ برس دو چار برس
    ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
    ہں اور خراج بھی دے لیں گے
    آسان بنے، دشوار بنے
    پر کوئی تو دیون ہار بنے
    تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
    کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
    کیوں اس مجمع میں آئی ہو
    کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
    یہ کاروبار کی باتیں ہیں
    یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
    ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
    سب عمر کی نقدی ختم کیے
    گر شعر کے رشتے آئی ہو
    تب سمجھو جلد جدائی ہو
    اب گیت گیاسنگیت گیا
    ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
    کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
    یہا پنے یار پرانے ہیں
    اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
    ان سب کے پاس ہے مال بہت
    ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
    ان سب کو ہم نے بلایا ہے
    اور جھولی کو پھیلایا ہے
    تم جاؤ ان سے بات کریں
    ہم تم سے نا ملاقات کریں
    کیا پانچ برس ؟
    کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
    تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
    کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
    جب عمر کا آخر آتا ہے
    ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
    جینے کی ہوس ہی زالی ہے
    ہے کون جو اس سے خالی ہے
    کیا موت سے پہلے مرنا ہے
    تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
    پھر تم ہو ہماری کون بھلا
    ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
    کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
    کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
    تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
    تم جا کر پوری عمر جیو
    یہ پانچ برس، یہ چار برس
    چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
    سب دوست گئے سب یار گئے
    تھے جتنے ساہو کار ، گئے
    بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
    یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
    ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
    ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
    جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
    گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
    ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
    کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
    جو ساعت و ماہ و سال نہیں
    وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
    لو اپنے جی میں اتار لیا
    لو ہم نے تم کو ادھار لیا
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
    جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
    ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ
    گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ

    کس طرح اب دل کو رہ پر لاؤںمیں
    کس بہانے سے اسے بھولاؤں میں
    سب کو محو خواب راحت چھوڑ کے
    نیند آتی ہے مرے شبستاں میں مرے
    مجھ کو سوتے دیکھ کر آتا ہے کوئی
    میرے سینے سے چمٹ جاتا ہے کوئی

    دیکھتا ہوں آکےا کثر ہوش میں
    کوئی ظالم ہے مری آغوش میں
    خود کو مگر تنہا ہی پاتا ہوں میں
    پھر گھڑی بھر بعد سوجاتا ہوں میں

    پھر کسی کو دیکھتا ہوں خواب میں
    اس دفعہ پہچان لیتا ہوں تمہیں
    بھاگ جاتے ہو قریب صبحدم
    چھوڑ دیتے ہو رہین رنج و غم

    مجھ کو تم سے عشق تھا مدت ہوئی
    ان دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی
    کم نگاہیا قتصائے سال و سن
    کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن
    بندا پنا آنا جانا ہو گیا
    اور اس پر اک زمانا ہو گیا

    تم غلط سمجھے ہوا میں بد گماں
    بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں
    جلد ہی میں تو پیشماں ہوگیا
    تم کو بھیا حساس کچھ ایسا ہوا
    نشہ پندار میں لیکن تھے مست
    تھی گراں دونو پہ تسلیم شکست

    ہجر کے صحرا کو طے کرنا پڑا
    مل گیا تھا رہنما امید سا
    ہے مری جرات کی اصل اب بھی یہی
    دل یہ کہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی
    جس میں اترا تھا ہمارا کارواں
    اب بھی ممکن ہے وہ خالی ہو مکاں

    آج تک دیتے رہے دل کو فریب
    اب نہیں ممکن ذراتاب شکیب
    آؤ میرے دیدہ تر میں رہو
    آؤ اس اجڑے ہوئے گھر میں رہو
    حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں
    دل میں اتناسوچ کر ڈرتا بھی ہوں

    تم نہ ٹھکرا دو مری دعوت کہیں
    میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو نہیں
    گردش ایام کو لوٹالیا
    میں نے جو کھو دیا تھا پا لیا
     
  18. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سکھ کے سپنے دیکھتے جاگے
    جگ جگ کے دکھیارے سائیں
    کھلتا ہے محنت کا پرچم
    سنتے ہو جیکارے سائیں
    دھرتی کانپنے انبر کانپے
    کانپیں چاند ستارے سائیں
    لوہے کو پگھلانے والے
    آپ بھی ہیں انگیارے سائیں
    گولی لاٹھی ، پیہ ، ساسن
    ان کے آگے ہا رے سائیں
    کل تک تھے یہ سب بیچارے پر
    آج نہیں بیچارے سائیں
    تو نے تو یہ بات سمجھ لی
    اوروں کو سمجھا رے سائیں !
    ان کی محنت ہم نے لوٹی
    ہم سب ہیں ہنڈارے سائیں
    ان کی قسمت کٹیا کھولی
    ہم نے محل اسارے سائیں
    ان کا حصہ آدھی روٹی
    اپنے پیٹ اپھارے سائیں
    ان کے گھر اندھیارا ٹوٹا
    سورج چاند ہمارے سائیں
    اندھیاروں کا جاد و ٹوٹے
    اب وہ جوت جگارے سائیں
    ان سے جگ نے جو کچھ لوٹا
    آج انہیں لوٹا رے سائیں
    تو بھی دیکھے میں بھی دیکھوں
    محنت کے نظارے سائیں
    آج بھی کتنی خالی دھرتی
    کتنے کھیت کنوارے سائیں
    —– ٭—–
    یہ دھرتی کا پوٹا چیریں
    کوئلہ ۔ لوہا بھر بھر لائیں
    خون پسینے فرق نہ سمجھیں
    بھاری بھر کم ملیں چلائیں
    چونا پتھر مٹی گارا
    یہی سنبھالیں یہی ا ٹھائیں
    پھر بھی ہے دل میں یہی دبدھا
    کل کیا پہنیں کل کیا کھائیں
    پیٹ پہ پتھر باندھ کے سوئیں
    فٹ پاتھوں پر عمر بتائیں
    —– ٭ —–
    اندھیاروں کاسینہ چیرے
    اب وہ جوت جگانا ہوگا
    ان سے جگ نے جو کچھ لوٹا
    آج انہیں لوٹا نا ہوگا
    جس کی محنت اس کا حاصل
    اب ہی بھید بتا نا ہو گا
    اب تو اور ہی شام سویرا
    اب تو اور زمانہ ہوگا
    اب ان کو سمجھا نا کیسا
    اپنے کو سمجھا نا ہو گا
    پہلے تھے ارشاد ہمارے
    اب ان کافر ما نا ہو گا
    ا ن کے بھاگ جگا کر سائیں
    اپنا بھاگ جگا نا ہو گا
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات
    باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجنکی برات
    سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیاسنجوگ
    ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات
    بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا
    آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات
    میلے آنسو ڈھلکے جھومر ،اجلی چادرسونی سیج
    اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات

    چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ
    باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ
    کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے
    بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ
    ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ
    جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے
    پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں
    سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں
    درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے
    روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں
    یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو
    اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں

    انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے
    ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے
    مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے
    نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں
    ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے

    سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ
    اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ
    کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ
    قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ
    جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب
    کیسے ان تاروں نے بگاڑی ا پنی ہماری چال نہ پوچھ
     
  20. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہم میں آوارہ سو بو لوگو
    جیسے جنگل میں رنگ و بو لوگو
    ساعت چند کے مسافر سے
    کوئی دم اور گفتگو لوگو
    تھے تمہاری طرح کبھی ہم بھی
    رنگ و نکہت کی آبرو لوگو
    قریۂ عاشقی ہراچہ و دل
    گھر ہمارے بھی تھے کبھی لوگو
    وقت ہوتا تو آرزو کرتے
    جانے کس شے کی آرزو لوگو
    تاب ہوتی تو جستجو کرتے
    جانے کس کس کی جستجو لوگو
    کوئی منزل نہیں روانا ہیں
    ہم مسافر میں بے ٹھکانا ہیں
     
  21. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    خواب ہی خواب تھا تصویریں ہی تصویریں تھی
    یہ ترا لطف ترے مہرو و محبت ، لیکن
    تیرے جانے سے یہ جینے کے بہانے بھی چلے
    تجھ کو ہونا تھا کسی روز تو رخصت لیکن
    اپنا جینا بھی کوئی دن ہے ہمیشہ کا نہیں
    تو نے کچھ روز تو دی زیست کی لذت لیکن
    پھر وہی دشت ہے دیوانگی دل بھی وہی
    پھر وہی شام وہی پچھلے پہر کا رونا
    اب تری دید نہ وہ دور کی باتیں ہوں گی
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    خود میں ملا لے یا ہم سےآ مل
    اے نور کامل اے نور کامل
    روز ازل بھی رشتہ یہی تھا
    تو ہم میں پنہاں ہم تجھ میں شامل
    ہم سا رضا جو تم سا جفا جو
    دیکھا نہ معمول پایا نہ عامل
    دل کی زباں ہے اس کو تو سمجھ
    ہم تم سے بولیں تلگو نہ تامل
    اے بے وفا مل اے بے وفا مل
     
  23. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دوری کے جو پردے ہیں ٹک ان کو ہٹاؤ
    آواز ہے مدماتی ،صورت بھی دکھاؤ نا
    راہوں میں بہت چہرے نظروں کو لبھاتے ہیں
    بھر پور لگاوٹ کے جادو بھی جگاتے ہیں
    ان اجنبی چہروں کو خوابوں میں بساؤ نا
    ان دور کے شعلوں پر جی اپنا جلاؤ نا
    ہاں چاندنی راتوں میں جب چاند ستاتا ہے
    یادوں کے جھروکے میں اب بھی کوئی آتا ہے
    وہ کون سجیلا ہے کچھ نام بتاؤ نا
    اوروں سے چھپاتے ہو ہم سے تو چھپاؤ نا
     
  24. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
    اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
    شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ

    دروازہ کھلا رکھنا

    سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
    پھاگن کا نہيں بادل جو چار گھڑي بر سے
    برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے

    دروازہ کھلا رکھنا

    ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
    ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
    جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري

    دروازہ کھلا رکھنا
     
  25. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    رہ صحرا چلا ہے اے دل اے دل
    دوانا ہو گیا ہے اے دل اے دل

    سمیٹیں کارو بار عشق خوباں
    بہت نقصاں ہوا ہے اے دل اے دل

    چلیں اب کوئی تازہ غم خریدیں
    کہ ہر غم کی دوا ہے اے دل اے دل

    کریں کیا آرزو حسن جا ناں
    زمانہ کونسا ہے اے دل اے دل
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ڈرتے ڈرتے آج کسی کو دل کا بھید بتایا ہے
    اتنے دنوں کے بعد لبوں پر نام کسی کا آیا ہے
    اب یہ داغ بھی سورج بن کر انبر انبر چمکے گا
    جس کو ہم نے دامن دل میں اتنی عمر چھپایا ہے
    کون کہے گا وہ کان ملاحت چارہ درد محبت ہے
    چارہ گری کی آڑ میں جس نے خود کو روگ لگایا ہے
    ٹوٹ گیا جب دل کا رشتہ اب کیوں ریزے چنتی ہو
    ریزوں سے بھی کبھی کسی نے شیشہ پھر سے بنایا ہے
     
  27. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
    اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
    جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
    سب مایا ہے

    ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
    یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
    بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
    سب مایا ہے

    اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
    جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
    تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
    سب مایا ہے

    معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
    سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
    فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
    سب مایا ہے

    کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو
    جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
    اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے
    سب مایا ہے

    جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
    تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں
    دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
    سب مایا ہے

    وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
    وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
    آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
    سب مایا ہے

    جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
    وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
    ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
    سب مایا ہے

    جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
    اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
    اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
    سب مایا ہے
     
  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کتنی ٹھنڈک ہے یہیں نہر کنارے بیٹھیں
    دل بہل جائے گا اس میں بھی ہے مشکل کوئی
    ننھے بزغالوں کی سبزے پہ کلیلیں دیکھیں
    اپنے سواگت کو پون آئی ہے دھیمی دھیمی
    کتنے اند وہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
    وہ بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
    سند با ادب کے تو ہمراہ مجھے بھی لے چل
    (دل جو بہلا تو کتابوں ہی میں آ کر بہلا)
    میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل
    لے کے چلتا ہوں خیالوں کاسفینہا پنا
    کیا خبر اب میں انھیں یاد بھی ہوں گا کہ نہیں
    کاش میں نے ہی انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
    کتنے ہنگاموں سے آباد ہیں گلیاں بازار
    (کلفتیں شہر کے ماحول نے دھوئیں دل سے )
    آج ہر چیز کی صورت پہ انوکھا ہے نکھار
    اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے
    اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
    خام امیدوں سے بہلاؤں کا دل کو کیسے ؟
    خام امیدوں سے بہلاؤں گا دل کو کیسے
    اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
    کتنے اندوہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
    دل بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
    کاش میں نے انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
    اب تو شاید میں انھیں یاد بھی آؤں کہ نہیں
     
  29. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سانجھ سمے کی کومل کلیاں مسکا ئیں مرجھائیں
    نگری نگری گھومنے والی پھر واپس نہ آئیں
    ہم بیلوں پر اوس کے موتی ہم پھولوں کی خوشبو
    پی پی پڑا پپہیا بولے کویل کو کو ، کو کو
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ساحل دور سے تو پوں کی دھمک تو آتی ہے
    کتنی گمبھیر ہے ساون کے نئے چاند کی رات
    الکحل کرتی ہیں خوابیدہ رگوں سے چہلیں
    سوجتی ہے دل و حشی کو بڑی دو ر کی بات
    سینہ بحر پہ طوفان کو دبائے لے کر
    رقص کرنے کو چلی آتی ہے بھوتوں کی برات
    ساحل دور سے تو پوں کی دھمک آتی ہے
    کون ہے کس نے سمندر میں سلامی داغی
    جانے کس برج میں الجھی ہے خیالوں کی کمند
    کوئی پشتے پر کھڑا چیخ رہا ہے دیکھو
    کوئی کشتی تو نہیں دور کہیں ڈوب چلی
    ساحل دور سے توپوں کی دھمک آتی ہے
    ابر کے ساتھ تو دیکھا ہے گرجتا بادل
    کیا گرا دی ہے کہیں موجۂ دریائے فصیل
    کیا زمیں بوس ہوا کسی کسری کا محل
    حلقۂ رقص میں ہیں باب جزیرے کے بلوچ
    وہ جو اک غول نظر آتا ہے مشعل مشعل
    درد سینے میں جگائی ہوئی دھیمی پروا
    جانے کس دیس سے آئی کہاں جاتی ہے
    بحر کاہل کے جزیروں کے افیمی باسی
    قسمت مشرق اقصی کے خداوند بنے
    ہائے یہ ذہن یہ باتوں سے بہلتا ہی نہیں
    ہائے یہ درد کہ برسوں کا ملاقاتی ہے
    صبح کاسرخ ستارہ ہوا پیکن سے طلوع
    کوس بجتا ہے کہ بڑھے لگی دل کی دھڑکن
    ساحل دور سے توپوں کی دھمک آتی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں