1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏5 مئی 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کیا کرونگا جو محبت میں ہو گیا ناکام
    مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اک محبت کافی ہے
    باقی عمر اضافی ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لاکھ دستک ہوئی میری زیست کے صحرا میں مگر
    دل کا دروازہ تیرے بعد نہ کھولا میں نے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    منیر اب بھی مان لے تو مقدر کی جیت کو
    جو ہے وہ بھی ضروری ہے ، جو گزرا وہ بھی ضروری تھا
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کبھی بادل وار برس سائیں
    میرا سینہ گیا ترس سائیں
    میں توبہ تائب دیوانہ
    آباد کروں کیا ویرانہ
    میری بس سائیں ، میری بس سائیں
    کبھی بادل وار برس سائیں
    اس عشق نے عجب اسیر کیا
    خو دل سینے میں تیر کیا
    کیا چلے گی پیش و پس سائیں
    کبھی بادل وار برس سائیں
    ہم بھی کچھ کھل کر سانسیں لیں
    اشکوں سے دھل کر سانسیں لیں
    کچھ گھول فضا میں رس سائیں
    کبھی بادل وار برس سائیں
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی
    اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی
    پھر یوں وا کہ کوئی اپنا نہیں رہا
    پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی
    ٹوٹا ہے جب سے اسکی مسیحائی کا طلسم
    دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نہیں رہی
    پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت
    اور ہمکو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی
    اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہمکو تو ان دنوں
    خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
    وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
    وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
    سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا
    پَلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
    ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا
    کِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
    کوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا
    چلو کہ کوچہء قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
    کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا
    خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
    اُنھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا
    کدھر کو جاتے ہیں رستے ، یہ راز کیسے کُھلے
    جہاں میں کوئی بھی بارِدگر نہیں آیا
    یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
    کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا
    ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
    پر عُمر کیسے کٹے گی ، اگر نہیں آیا


    شاعر امجد اسلام امجد
     
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
    کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
    آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی‘ وہ نہ تھا
    ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی
    سب اپنی اپنی موجِ فنا سے ہیں بے خبر
    میرا کمالِ شاعری‘ تیرا جمال بھی
    حسنِ اَزل کی جیسے نہیں دُوسری مثال
    ویسا ہی بے نظیر ہے اُس کا خیال بھی!
    مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے
    تھا چودھویں کا چاند بھی‘ وہ خوش جمال بھی
    جانے وہ دن تھے کون سے اور کون سا تھا وقت!
    گڈ مڈ سے اب تو ہونے لگے ماہ و سال بھی!
    اِک چشمِ التفات کی پیہم تلاش میں
    ہم بھی اُلجھتے جاتے ہیں‘ لمحوں کا جال بھی!
    دنیا کے غم ہی اپنے لئے کم نہ تھے کہ اور
    دل نے لگا لیا ہے یہ تازہ وبال بھی!
    اِک سرسری نگاہ تھی‘ اِک بے نیاز چُپ
    میں بھی تھا اُس کے سامنے‘ میرا سوال بھی!
    آتے دنوں کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ کھُلے
    سب کچھ فنا کا رزق ہے ماضی بھی حال بھی!
    تم دیکھتے تو ایک تماشے سے کم نہ تھا
    آشفتگانِ دشتِ محبت کا حال بھی!
    اُس کی نگاہِ لُطف نہیں ہے‘ تو کچھ نہیں
    امجد یہ سب کمال بھی‘ صاحبِ کمال بھی
     
  6. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

    تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے

    جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار

    وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے

    حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ زرا

    نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے

    یہ دوستی یہ مراسم یہ چاہتیں یہ خلوص

    کبھی کبھی یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے

    اُفق پہ دور چمکتا ہوا کوئی تارا

    مجھے چراغِ دیارِ حبیب لگتا ہے

    نہ جانے کب کوئی طوفان آئے گا یارو

    بلند موج سے ساحل قریب لگتا ہے

    شاعر جاں نثار اختر
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں
    شرمائے لچک جائے تو لگتا ھے کہ تم ہو
    صندل سے مہکتی ہوئی پرکیف ہوا کا
    جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
    ندی کوئی بل کھائے تو لگتا ھے کہ تم ہو
    جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
    چپ چاپ سے سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
    شاعر جاں نثار اختر
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ذات سے باہر نکل کر جاؤں تو جاؤں کہاں
    تیرے غم کی ہر طرف پھیلی ہوئی زنجیر ہے
    شام تیری سُرخیوں کی ہے قسم، اُس کے بغیر
    سانس لینا بھی مجھے اب جیسے اک تعزیر ہے
     
  9. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تیری کوشش تیری تدبیر ھونا چاہتی ھوں
    میں تیرے ھاتھ کی تحریر ھونا چاھتی ھوں
    تو میرے پاس آئے اور پلٹ کے نہ جائے
    میں تیرے پاؤں کی زنجیر ھونا چاھتی ھوں
    مجھے حجت نہیں اب دوسروں کے مشوروں کی
    میں خود بھی شبِ تقدیر ھونا چاھتی ھوں
    ازل سے خواب بن کر میری آنکھوں میں رھا ھے تو
    میں اب شرمندئہ تعبیر ھونا چاھتی ھوں
    میں اس لیے مسمار خود کو کر رھی ھوں کہ
    میں تیرے ھاتھ سے تعمیر ھونا چاھتی ھوں
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    الفاظ کے جھوٹے بندھن میں
    آغاز کے گہرے پردوں میں
    ہر شخص محبت کرتا ہے
    حالانکہ محبت کچھ بھی نہیں
    سب جھوٹے رشتے ناطے ہیں
    سب دل رکھنے کی باتیں ہیں
    کب کون کسی کا ہوتا ہے
    سب اصلی روپ چھپاتے ہیں
    احساس سے خالی لوگ یہاں
    لفظوں کے تیر چلاتے ہیں
    اک بار نظر میں آ کے وہ
    پھر ساری عمر رلاتے ہیں
    یہ عشق و محب مہر و وفا
    یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
    ہر شخص خودی کی مستی میں
    بس اپنی خاطر جیتا ہے
    بس اپنی خاطر جیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
     
  11. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
    تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
    تو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
    بات جب تھی کہ مری سوچ کو بدلا ہوتا
    رکھ لیا غم بھی ترا بار امانت کی طرح
    کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا
    جب بھی برسا ہے ترے شہر کی جانب برسا
    کوئی بادل تو سر دشت بھی برسا ہوتا
    آئینہ خانے میں اک عمر رہے محو خیال
    اپنے اندر سے نکل کر کبھی دیکھا ہوتا
    میری کشتی کو بھلا موج ڈبو سکتی تھی
    میں اگر خود نہ شریک کف دریا ہوتا
    تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی بھی
    میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
    شاعر ن م راشد
     
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہجر کا تارا ڈوب چلا ہے ڈھلنے لگی ہے رات وصی
    قطرہ قطرہ برس رہی ہے آنکھوں کی برسات وصی
    تیرے بعد یہ دنیا والے مجھ کو پاگل کر دیں گے
    خوشبو کے دیس میں مجھ کو لے چل اپنے ساتھ وصی
    آج تو اس کا چہرہ بھی کچھ بدلا بدلا لگتا ہے
    موسم بدلا دنیا بدلی بدل گئے حالات وصی
    چھوڑ وصی اب اس کی یادیں تجھ کو پاگل کر دیں گی
    تو قطرہ ہے وہ دریا ہے دیکھ اپنی اوقات وصی
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ابھی سورج نہیں ڈوبا، ذرا سی شام ہونے دو
    میں خود ہی لوٹ جاؤں گا، مجھے ناکام ہونے دو
    مجھے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو کیوں؟
    میں خود ہو جاؤں گا بدنام، پہلے نام ہونے دو
    ابھی مجھ کو نہیں کرنا ہے اعترافِ شکست
    میں سب تسلیم کر لوں گا، یہ چرچا عام ہونے دو
    میری ہستی نہیں انمول، پھر بھی بِک نہیں سکتا
    وفائیں بیچ لینا، پر ذرا نیلام ہونے دو
    نئے آغاز میں ہی حوصلہ کیوں توڑ بیٹھے ہو
    جیت لو گے تم سب کچھ، ذرا انجام ہونے دو
     
  14. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تم آ گئے تو بھری بزم جگمگا اٹھی
    چلے گئے تو چراغوں میں روشنی نہ رہی
    تمہارے حسن پہ رنگیں جمال تھے غنچے
    گئے تو پھول شگوفوں میں تازگی نہ رہی
    تم آ گئے تو بہاروں پہ اک شباب آیا
    تمہارے بعد کسی شے میں دلکشی نہ رہی
    تیرے ہی دم سے تھی آباد پیار کی دنیا
    تیرے بغیر میری زیست زیست ہی نہ رہی
     
  15. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جب دور افق پر لالی ہو
    جب شام اداسی والی ہو
    جب ضبط کا بندھن ٹوٹا ہو
    جب آس کا دامن چھوٹا ہو
    جب درشن پیاس بجھاتے ہوں
    جب موسم گیت سناتے ہوں
    جب کان ترسیں باتوں کو
    جب نیند نہ آئے راتوں کو
    جب آنکھوں کو جگ راتے ہوں
    جب اپنے درد ستاتے ہوں
    تب یاد بہت تم آتے ہو
    تب یاد بہت تم آتے ہو
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
    بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا
    میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
    ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا
    میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
    فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا
    سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
    جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا
    پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
    مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا
    ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
    کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    [​IMG]
    بے بسی کے آنگن میں

    ایک یتیم بچی ہے

    بھوک جس کی پکی ہے

    نیند جس کی کچی ہے

    بھوک جب بھی لگتی ہے

    کچھ سمجھ نہ پاتی ہے

    بھوک جب ستاتی ہے

    ماں کیوں گنگناتی ہے؟

    روٹی کیوں نہیں دیتی

    لوری کیوں سناتی ہے؟

    لور یوں کے بولوں میں

    چاند ہے چکوری ہے

    دودھ کی کٹوری ہے

    لڈوؤں کی بوری ہے

    جھولنا ستاروں کا

    چاندنی کی ڈوری ہے

    بھوک کتنی سچی ہے!

    کتنی جھوٹی لوری ہے!

    تھوڑی دیر روتی ہے

    جھوٹ موٹ سوتی ہے

    نیم باز آنکھوں سے

    چوری چوری تکتی ہے

    ماں کو دیکھتی ہے وہ

    اور حیران ہوتی ہے

    جیسے ہی وہ سوتی ہے

    ماں کیوں اُس کی روتی ہے؟
     
  18. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    عورت کے آنسو

    [​IMG]
    اپنی ماں کے بہتے آنسو دیکھ کے اک معصوم سا لڑکا
    اپنی ماں کو چوم کے بولا
    پیاری ماں تو کیوں روتی ہے؟
    ماں نے اس کا ماتھا چوما ،گلے لگایا،اس کے بالوں کو سہلایا
    گہری سوچ میں کھو کر بولی
    ’’کیونکہ میں اک عورت ہوں‘‘
    بیٹا بولا،میں تو کچھ بھی سمجھ نہ پایا
    ماں مجھ کو کُھل کر سمجھاؤ
    اس کو بھینچ کے ماں یہ بولی
    ’’بیٹا تم نہ سمجھ سکو گے‘‘
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    شام ہوئی تو چھوٹا لڑکا،باپ کے پہلو میں جا بیٹھا
    باپ سے پوچھا’’ماں اکثر کیوں رو دیتی ہے‘‘
    باپ نے اس کو غور سے دیکھا ،کچھ چکرایا،پھر بیٹے کو یہ سمجھایا
    ’’یہ عادت ہے ہر عورت کی،دل کی بات کبھی نہ کہنا
    فارغ بیٹھ کے روتے رہنا‘‘
    باپ کا مُبلغ علم تھا اتنا ،بیٹے کو بتلاتا کیا
    اس کے سوا سمجھاتا کیا
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    جب بچے نے ہوش سنبھالا
    علم نے اس کے زہن و دل کو خوب اجالا
    اس نے اپنے رب سے پوچھا
    میرے مالک میرے خالق، آج مجھے اک بات بتا دے
    الجھن سی ہے اک سلجھا دے
    اتنی جلدی اتنی جھٹ پٹ ہر عورت کیوں رو دیتی ہے
    دیکھ کے اس کی یہ حیرانی،بھولے سے من کی ویرانی
    پیار خدا کو اس پر آیا،اس کو یہ نکتہ سمجھایا
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    عورت کی تخلیق کا لمحہ خاص بہت تھا
    مرد کو سب کچھ دے بیٹھا تھا پھر بھی میرے پاس بہت تھا
    میں نے چاہا عورت کو کچھ خاص کروں میں
    چہرہ مقناطیسی رکھوںلیکن دل میں یاس بھروں میں
    میں نے اس کے کاندھوں کو مضبوط بنایا
    کیونکہ اس کو بوجھ بہت سے سہنے تھے
    اور پھر ان کو نرم بھی رکھا
    کیونکہ ان پر سر کو رکھ کر
    بچوں اور شوہرنے دکھڑے کہنے تھے
    اس کو ایسی طاقت بخشی ہر آندھی طوفان کے آگے وہ ڈٹ جائے
    پر دل اتنا نازک رکھا تیکھے لفظ سے جو کٹ جائے
    اس کے دل کو پیار سے بھر کر گہرائی اوروسعت دے دی
    پھولوں جیسا نازک رکھا پھر بھی کافی قوت دے دی
    تا وہ اپنے پیٹ جنوںکے سرد رویوں کو سہہ جائے
    ان راہوں پر چلتی جائے جن پر کوئی چل نہ پائے
    بچوں کی گستاخی جھیلے ،پیار کا امرت بانٹے
    اپنی روح پہ جھیل سکے فقروں کے تپتے چانٹے
    شوہر کی بے مہری بھول کے ہر پل اس کو چاہے
    اس کی پردہ پوشی کر کے زخم پہ رکھے پھاہے
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اتنا بوجھل جیون اس کو دے کر میں نے سوچا
    نازک سی یہ ڈالی اتنے بوجھ سے ٹوٹ نہ جائے
    اس کے نازک کاندھوں پر جب رکھا اتنا بار
    اس کی آنکھوں میں رکھ دی پھر اشکوں کی منجدھار
    اس کو فیاضی سے میں نے بخشی یہ سوغات
    تا وہ دیپ جلا کر کاٹے غم کی کالی رات
    غم کی بھاپ بھرے جب دل میں یہ روزن کھل جائے
    رو کر اس کے دل کی تلخی پل بھر میں دھل جائے جائے
    اس کے سندر مکھڑے پھر روپ وہی لوٹ آئے
    عرشی بے حس دنیا کو جو رب کی یاد دلائے

    کلام : ارشاد عرشی ملک
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    بہت کہنے کی چاھت ھو
    بھت لکھنے کی خواھش ھو
    قلم کو تھام بھی لیں تو ، حرف گمنام ھوتے ھیں
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    بیان مدعا کر لو ، بہت سی گفتگو کرلو
    توکچھ حاصل نہیں ھوتا ، کہ لفظو ں کا اثا ثہ پھر یونہی بیکار جاتا ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    ادا اک لفظ بھی نہ ھو ، کوئ بھی گفتگو نہ ھو
    خاموشی بات کرتی ھے،سماعت میں اتر جاتے ھیں لفظوں کے حسیں موتی
    ( کہ خاموشی بھی گویائ کی دعویدار ھوتی ھے )
    خوشی کی ساعتوں کا پھر کوئ اک مہر باں جھونکا
    اثاث قیمتی بنکر محیط زیست ھوتا ھے
    مہکتی راحتو ں کا خوشنما پیغام ھوتا ھے
    گزرتی ساعتوں کا دلربا انجام ھوتا ھے ۔ ۔ ۔
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    امنگیں مسکراتی ھیں ، بہاریں گنگاتی ھیں ، فضائیں گیت گاتی ھیں
    خوشی کی وادیوں میں زندگی بھی کھلکھلاتی ھے
    دلوں میں چاہ ھوتی ھے کہ ان لمحوں کو ھاتھوں میں پکڑ کر
    زندگی کرلیں ، یہ لمحے قید میں کرلیں ۔ ۔ ۔
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے ۔ ۔
    پھسلتی ریت کی صورت ، نکل جاتے ھیں ھاتھوں سے یہ سب انمول سے لمحے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    کہ ایسا وقت آتا ھے کہ ۔ ۔ ۔
    ساری راحتوں اور الفتوں کو چھین کر ھمکو، تہی دامن بناتا ھے
    وفا حیران ھوتی ھے ، جفائیں مسکرا تیں ھیں ،
    زخم دیتا ھے ھر لمحہ ، سلگتے پل نہیں کٹتے
    دکھوں کی ساعتوں میں پھر یہ منظر ٹھہر جاتاھے
    غموں اندوہ کے صحرا میں،کسی قطر ے کی خواھش میں
    بھٹکتا ھے بیاباں میں ۔ ۔ ۔ مگر پیاسا ھی جاتا ھے
    یہ ھی وہ وقت ھوتا ھے کہ انساں ھارجاتا ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے ۔ ۔
    لب دریا پہ رہ کر بھی،تشنگی ساتھ ھوتی ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    کہ خالی جام ھو پھر بھی،یہ جاں سیراب ھوتی ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    کہ ساری عمر کا رونا،یونہی بیکار جاتاھے
    کوئ آنسو بہاتا ھے، تڑپتا ھے سلگتا ھے، تہی دامن ھی رھتا ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    کسی کو بھولنا چاھیں، محبت چھوڑنا چا ھیں ۔ ۔ ۔
    مگر کچھ کر نہیں سکتے، بھلا ہر گز نہیں سکتے
    خوشی اور دکھ کا سنگم ہی ۔ ۔ روانی زندگی کی ھے
    صبح اور شام کا چلنا، نظام زندگی ھی ھے
    کبھی سایہ کبھی جلنا، دوام زندگی ھی ھے
    کبھی ایسا بھی ھوتا ھے
    کسی لمحے میں انساں سوچتا ھے،کیوں وہ بے بس ھے؟
    کہ سب کچھ پاس بھی ھو کر، تہی دامن سا جیون ھے
    انہی لمحوں میں پھر یہ یاد آتا ھے کہ،کوئ ھے
    کہ جسکے اک اشار ے سے ھے کار زیست میں حرکت
    اسی کا اک کرم ھو جائے گر بند ے کی ھستی پر
    تو دریا ئے غموں میں ناز بیڑہ پار ھوجا ئے
     
  20. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اےگردش دوراں،عمر رواں


    کچھ پل کےلئےسستانےدے


    یہ ناتے،ریت،یہ رسم ورواہ


    ان سب سےآنکھ چرانےدے


    یہ جبر مسلسل رشتوںکے


    یہ بندھن آنسو آہوں کے


    اب زننجیریں سی لگتی ہیں


    ان زنجیروں سےپل دوپل


    تھوڑی سی مجھےآزادی دے


    اےعمر رواں کچھ ٹھر زرا


    اےدل کی خلش کچھ چین تو لے


    اس دشت الم میں دیدئہ نم


    کچھ خواب سےدیکھا کرتی ھیں


    خوش فھمی کےبھلاووں سے


    کچھ حرف تسلی دیتی ھیں



    اس رنج والم نے توڑا ھے


    کچھ اور غموں میں چھوڑا ھے



    یہ رشتوں کی زنجیریں اب تو ساتھ سدا کی ساتھی ھیں



    ( یہ توڑ بھی کیسے سکتے ھیں ؟)



    اےعمر رواں کچھ پل کےلئے



    آسودہ نگرمیں جا نےدے



    اس شوخ نظرسےپوچھ تو لیں



    اس راہ پہ کیوں یہ پاگل دل



    انجانی لےپہ دھڑکاہے ؟



    اس موڑ پہ کیوں یہ دامن دل



    پھرکس کےآ گے پھیلا ہے؟



    یہ نظریں انکی راہوں میں کیوں سجدہ ریزی کرتی ہیں؟



    یہ بھرم و انا کی دیواریں اس کرب وجنوں سے ھاری ھیں



    اےگردش دوراں توہی بتا



    اس سمت پہ چل کر کیا ھوگا ؟



    اس درد کا درماں کیا ھوگا ؟




    اس راہ کا حاصل ھجر ھے کیا ؟



    ا ے عمر رواں کچھ تو ھی بتا ؟ ؟
     
  21. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ایک بے حس لڑکی



    اسے کچھ لوگ کہتے ھیں ۔ ۔



    بہت بے حس سی لڑکی ھے،



    سدا خاموش رھتی ھے



    بہت کم مسکراتی ھے



    نمی آنکھوں میں رھتی ھے



    بھت سوچوں میں رھتی ھے



    بسی آنکھوں میں ویرانی



    چھپی چہر ے پہ حیرانی



    اگر کوئی جو کچھ پوچھے



    جوابی بات کہکر ۔ ۔ پھر



    یونہی خامو ش رھتی ھے



    بڑی بے حس سی لڑکی ھے



    خود ھی میں گم ھی رھتی ھے



    یہ کچھ مغرور لڑکی ھے ۔ ۔ ۔

    یہ باتیں سنکے اس لڑکی کو

    پھر کچھ یاد آتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔



    کبھی یہ لوگ کہتے تھے ۔ ۔




    بڑی چنچل سی لڑکی ھے



    ھمیشہ مسکراتی ھے ۔ ۔




    اور اکثر گنگناتی ھے ۔ ۔




    چمکتا چاند سا چہرہ



    کھنکتا شو خ سالہجہ



    دیے جلتے ھیں آنکھوں میں



    بڑی شوخی ھے باتوں میں



    فضائیں دیکھ کر اسکو



    خوشی سے جھوم جاتی ھیں



    چمکتی رات اسکے نین میں
    سپنے جگاتی ھے ۔ ۔ ۔



    تمازت دھوپ کی چہر ے پہ اسکے
    گل کھلاتی ھے ۔ ۔ ۔



    کبھی بارش کے موسم میں



    سہانے کھیل کشتی کے



    کبھی گڑیوں کی شادی ھو



    کبھی گیتوں کی بازی ھو



    یہ ھر دم پیش رھتی ھے



    بڑی الہّڑ سی لڑکی ھے



    یہ کتنی شو خ لڑکی ھے ؟



    .............



    مگر اب لوگ کہتے ھیں ۔ ۔



    عجب بے حس سی لڑکی ھے



    بہت کم مسکراتی ھے ،



    سدا خاموش رھتی ھے



    ..........



    انہیں معلوم کیسے ھو ؟



    وفا کے قید خانے میں ۔ ۔



    فرائض کے نبھانے میں



    جو لڑکی دار چڑھتی ھے



    جسے سپنوں کے بننے کی



    سزائیں وقت نے دی ھو ں ،



    جو رسموں اور رواجوں کے
    الاؤ میں سلگتی ھو ۔ ۔ ۔



    لبوں کی نوک پر جسکے ۔ ۔
    گلے بے جان ھوتے ھوں



    جسم کی قید میں ۔ ۔ ۔
    جب روح اکثر پھڑپھڑاتی ھو



    تو اک کمزور سی لڑکی ۔ ۔
    یونہی بے موت مرتی ھے



    تو پھر یوں لوگ کہتے ھیں ۔ ۔



    بہت سنجیدگی اوڑھے ۔ ۔
    عجب بے حس سی لڑکی ھے



    بھت کم مسکراتی ھے ۔ ۔



    سدا خاموش رھتی ھے ۔ ۔ ۔
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری


    January 8, 1952 : ابن انشاء

    آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے
    کھو گئے ہیں کہاں تلاش کرو
    دامن چاک کے ستاروں کو
    کھا گیا آسماں تلاش کرو
    ڈھونڈ کے لاؤ یوسفوں کے تیس
    کارواں کارواں تلاش کرو
    ناتواں زیست کے سہاروں کو
    یہ جہاں وہ جہاں تلاش کرو
    گیس آنسو رلا رہی ہے غضب
    چار جانب پولس کا ڈیرا ہے
    گولیوں کی زبان چلتی ہے
    شہر میں موت کا بسیرا ہے
    کون دیکھے تڑپنے والوں میں
    کون تیرا ہے کون میرا ہے
    آج پھر اپنے نونہالوں کو
    صدر میں وحشیوں نے گھیرا ہے
    حکم تھا ناروا گلہ نہ کرو
    خون بہنے لگے جو راہوں میں
    یعنی سرکار کو خفا نہ کرو
    پی گئے بجلیاں نگاہوں میں
    آج دیکھو نیاز مندوں کو
    خون ناحق کے داد خواہوں میں
    سرنگوں اور خموش صف بستہ
    کتنے لاشے لیے ہیں باہوں میں
    آستینوں کے داغ دھو لو گے
    قاتلوں آسماں تو دیکھتا ہے
    چین کی نیند جا کے سو لو گے
    تم کو سارا جہاں تو دیکھتا ہے
    قسمت خلق کے خداوند
    تم سے خلقت حساب مانگتی ہے
    روح فرعونیت کے فرزندو
    بولو بولو۔۔۔۔۔۔جواب مانگتی ہے
     
  23. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جوگی کا بنا کر بھیس پھرے
    برہن ہے کوئی ، جو دیس پھرے
    سینے میں لیے سینے کی دُکھن
    آتی ہے پوَ ن ، جاتی ہے پوَن

    پھولوں نے کہا، کانٹوں نے کہا
    کچھ دیر ٹھہر، دامن نہ چھڑا
    پر اس کا چلن وحشی کا چلن
    آتی ہے پوَ ن ، جاتی ہے پوَن

    اس کا تو کہیں مسکن نہ مکاں
    آوارہ بہ دل ، آوارہ بہ جاں
    لوگوں کے ہیں گھر، لوگوں کے وطن
    آتی ہے پوَ ن ، جاتی ہے پوَن

    یہاں کون پوَن کی نگاہ میں ہے
    وہ جو راہ میں ہے، بس راہ میں ہے
    پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن
    آتی ہے پوَ ن ، جاتی ہے پوَن

    رکنے کی نہیں جا، اٹھ بھی چکو
    انشاء جی چلو، ہاں تم بھی چلو
    اور ساتھ چلے دُکھتا ہُوا مَن
    آتی ہے پوَ ن ، جاتی ہے پوَن
     
  24. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا
    گراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانی
    ابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کا
    ابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانی
    ابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سے
    سحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہے
    ابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کے
    فضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے
     
  25. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    در سے تو ان کے ا ٹھ ہی چکا ہے کہہ دو جی سے بھلانے کو
    لے گئے ہاتھوں ہاتھ ا ٹھا کر لوگ کہیں دیوانے کو

    اے دل وحشی دشت میں ہم کو کیا کیا عیش میسر ہیں
    کانٹے بھی چب جانے کو ہیں تلوے بھی سہلانے کو
    ان سے یہ پوچھو کل کیوں ہم کو دشت کی راہ دکھائی تھی
    شہر کا شہر امڈ آیا آج یہی سمجھانے کو​
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب
    :ذہن نے کھولی، رُکتے رُکتے، ماضی کی پارینہ کتاب
    یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب
    سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب
    گُزری بات، صدی یا پل ہو، گُزری بات ہے نقش بر آب
    یہ رُوداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    شہرِ تمنّا کے مرکز میں، لگا ہُوا ہے میلا سا
    کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے، اک رنگیں گُلزار کھلا
    وہ اک بالک، جس کو گھر سے ، اک درہم بھی نہیں ملا
    میلے کی سج دھج میں کھو کر، باپ کی اُنگلی چھوڑ گیا
    ہوش آیا تو، خُود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا
    بھیڑ میں راہ ملی نہی گھر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    وہ بالک ہے آج بھی حیراں، میلا جیوں کا تُوں ہے لگا
    حیراں ہے، بازار میں چُپ چُپ ،کیا کیا بِکتا ہے سودا
    کہیں شرافت، کہیں نجات، کہیں مُحبّت، کہیں وفا
    آل اولاد کہیں بِکتی ہے، کہیں بُزرگ، اور کہیں خُدا
    ہم نے اس احمق کو آخر، اِسی تَذبذُب میں چھوڑا
    اور نکالی، راہ مَفر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    رہ نوردِ شوق کو، راہ میں، کیسے کیسے یار مِلے
    ابرِ بہاراں، عکسِ نگاراں، خالِ رُخِ دلدار مِلے
    کچھ بلکل مٹّی کے مادُھو، کچھ خنجر کی دھار مِلے
    کچھ منجدھار میں، کچھ ساحل پر، کچھ دریا کے پار مِلے
    ہم سب سے ہر حال میں لیکن، یُونہی ہاتھ پسار مِلے
    اُن کی ہر خُوبی پہ نظر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    ساری ہے بے ربط کہانی، دُھندلے دُھندلے ہیں اوراق
    کہاں ہیں وہ سب، جن سے جب تھی، پل بھر کی دُوری بھی شاق
    کہیں کوئ ناسُو ر نہیں، گو حائل ہے، برسوں کا فراق
    کِرم فراموشی نے دیکھو، چاٹ لۓ کتنے میثاق
    وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں، چلو ہُوا قِصّہ بے باق
    کُھلی، تو آخر بات اثر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
    خوار ہُوۓ دمڑی کے پیچھے، اور کبھی جھولی بھر مال
    ایسے چھوڑ کے اُٹّھے، جیسے چھُوا، تو کر دے کا کنگال
    سیانے بن کر بات بِگاڑی، ٹھیک پڑی سادہ سی چال
    چھانا دشتِ محبّت کتنا، آبلہ پا، مجنوں کی مثال
    کبھی سکندر، کبھی قلندر، کبھی بگُولا، کبھی خیال
    سوانگ رچاۓ، اور گُزر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    زیست، خُدا جانے ہے کیا شے، بُھوک، تجسّس، اشک، فرار
    پھوُل سے بچّے، زُہرہ جبینیں، مرد، مجسّم باغ و بہار
    مُرجھا جاتے ہیں کیوں اکثر، کون ہے وہ جس نے بیمار
    :کیا ہے رُوحِ ارض کو آخر، اور یہ زہریلے افکار
    کس مٹّی سے اُگتے ہیں سب، جینا کیوں ہے اک بیگار
    ان باتوں سے قطع نظر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

    دُور کہیں وہ کوئل کُوکی، رات کے سنّاٹے میں، دُور
    کچّی زمیں پر بِکھرا ہوگا، مہکا مہکا آم کا بُور
    بارِ مُشقّت کم کرنے کو، کھلیانوں میں کام سے چُور
    کم سِن لڑکے گاتے ہوں گے، لو دیکھو وہ صبح کا نُور
    چاہِ شب سے پھُوٹ کے نکلا، میں مغموم، کبھی مسُرور
    سوچ رہا ہوں، اِدھر اُدھر کی، اس آباد خرابے میں
    دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
     
  27. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
    اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

    ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
    ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے

    ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں
    دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے

    اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت
    کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے

    سکھ لے کر چلے جانا ، دکھ دے کر چلے جا نا
    کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

    ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں
    قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے
     
  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
    وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں، یاد رہے گا

    وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
    وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

    ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
    وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

    کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے نسخے
    اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

    جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
    وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

    ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
    تو، یاد رہے گا، ہاں ہمیں یاد رہے گا
     
  29. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں
    اِک آس کی پھانس لیے مَن میں
    کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
    کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
    جب جیون رات اندھیری ہو
    اِک بار کہو تم میری ہو

    جب ساون بادل چھائے ہوں
    جب پھاگن پُول کِھلائے ہوں
    جب چندا رُوپ لُٹا تا ہو
    جب سُورج دُھوپ نہا تا ہو
    یا شام نے بستی گھیری ہو
    اِک بار کہو تم میری ہو

    ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
    کیوں گوری کا دل مَیلا ہے
    ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
    تم کب تک دُور جھروکے میں
    کب دید سے دل کو سیری ہو
    اک بار کہو تم میری ہو

    کیا جھگڑا سُود خسارے کا
    یہ کاج نہیں بنجارے کا
    سب سونا رُوپ لے جائے
    سب دُنیا، دُنیا لے جائے
    تم ایک مجھے بہتیری ہو
    اک بار کہو تم میری ہو
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ہونے والا ہوں جدا تیرے نواحات سے آج
    اے کہ موجیں ہیں تری شاہ سمندر کا خراج
    اب نہ آؤں گا کبھی سیر کو ساحل پہ ترے
    الوداع اے جوئے سرداب ہمیشہ کے لیے
    لاکھ ضو ریز ہوں خورشید ترے پانی پر
    عکس افگن ہو اس آئینے میں سو بار قمر
    پر نہ آؤں گاسیر کو ساحل پہ ترے
    الوداع اے جوئے سرداب ہمیشہ کے لیے
    پھر اراروٹ پہ کشتی کوئی آ کر ٹھہری

    پھر اراروٹ پہ کشتی کوئی آ کر ٹھہری
    کوئی طوفاں متلاطم سر جودی آیا
    سینٹ برنارڈ کے کتوں نے جو نہ خوشبو پائی
    برف نے لا شئر آدم بہ زمیں دفنایا
    سینگ بدلے ہیں زمیں گاؤ نے حیراں ہو کر
    یا مہا دیو غضبناک ہوا چلا یا
    بطن اٹناسے ابلتے ہوئے لاوے کا خروش
    صرصر موت نے ہر چار جہت پہنچا یا
    پمپیائی کے جھروکے ہوئے یکسر مسدور
    آل قابیل نے دنیا کا قبالہ پایا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں