1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاخِ زیتون

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شاخِ زیتون

    پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسئلہ کشمیر کو پاک بھارت کشیدگی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستحکم پاک بھارت تعلقات‘ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور مغربی اور مشرقی ایشیا کو قریب لانے کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ پاکستان کی جانب سے حالیہ دنوں اعلیٰ سطح سے بھارت کے لیے امن کا یہ دوسرا پیغام تھا۔ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت امن کیلئے قدم اٹھائے اور دیرینہ مسائل ڈائیلاگ کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ پاکستانی قیادت کی جانب سے بھارت کو امن کی یہ پیش کش ہر لحاظ سے ایک بڑا قدم ہے مگر اس کے نتائج کا انحصار فریقِ ثانی کے ردعمل پر ہے۔ کیا مودی سرکار امن کی اس پیش کش کا مثبت جواب دے پائے گی؟ یہ دیکھنا اہم ہو گا‘ مگر پاکستان کی جانب سے امن کا یہ ہاتھ جھٹکنا پورے خطے کیلئے بد قسمتی ہو گی۔ ہماری علاقائی تاریخ میں تناؤ بڑھانے کے واقعات اور اشارے تو آسانی سے مل جائیں گے مگر زیتون کی شاخ بڑھانے کا عمل نایاب رہا ہے‘ اس پس منظر میں پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کا یہ پیغام روایت اور معمول سے ہٹ کر ہے۔

    اگر مثبت سوچ موجود ہو تو اس قسم کے لب و لہجے پر مثبت رد عمل دینے میں دیر نہیں لگتی اور اس سے نئی راہیں اور امیدیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں مگر بھارت کی مودی سرکار کو پاکستان کی اس پیش کش کو باور کرنے میں شاید کچھ وقت لگے؛ چنانچہ اس موقع پر علاقائی اور عالمی برادری کو بھی متحرک ہونے اور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کیلئے یہ حقیقت نئی نہیں کہ مسئلہ کشمیر ہی پاک بھارت تعلقات میں بنیادی وجۂ تنازع ہے۔ اس معاملے میں پاکستانی موقف بڑا واضح ہے کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کر دیا جائے۔ ان قراردادوں میں ایک اصول یہ طے کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقبوضہ کشمیر میں عوامی رائے شماری کروائی جائے گی اور اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کے عوام کی رائے کے مطابق ہو گا۔

    مسئلہ کشمیر کے علاوہ بھی اگرچہ پاکستان اور بھارت میں بعض متنازع سوالات اور معامات موجود ہیں مگر ہمارا ماننا ہے کہ کشمیر کا تنازع حل ہونے کے بعد ذیلی تنازعات اور مسائل کو طے کرنا قطعاً مشکل نہ رہے گا‘ مگر گیند اب بھارت کی کورٹ میں ہے۔ پاکستان شروع دن سے مسئلہ کشمیر کے حل کا مدعی اور امن کا خوہاں اور خوگر رہا ہے‘ اگر بھارت اس جانب کوئی عملی قدم اٹھاتا‘ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا تو اس خطے کی تاریخ کچھ اور ہوتی‘ یہاں کے عوام کے حالات کچھ اور ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کا اتحاد ’سارک‘ صرف اس خطے کا نہیں بلکہ دنیا کا ایک نمایاں اور قابل ذکر علاقائی اتحاد ہے جو دنیا کی 21 فیصد آبادی کا احاطہ کرتا ہے‘ مگر اپنے قیام کے بعد 35 برس میں بھی یہ تنظیم علاقائی اور عالمی سطح پر کوئی نمایاں کام انجام نہیں دے سکی‘ بنیادی وجہ بھارت کا اجارہ دارانہ رویہ اور مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی ہے۔ اگر یہ رکاوٹیں دور ہو جائیں تو مالدیب سے لے کر افغانستان تک اکیاون لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ‘ جس میں پہاڑ‘ دریا‘ میدان‘ وسیع سمندر‘ معدنی اور انسانی وسائل‘ پیداوار اور منڈیاں سبھی کچھ پایا جاتا ہے‘ کے فروغ پانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی اور چین جیسی دنیا کی ایک بڑی معاشی اور صنعتی قوت کی ہمسائیگی میں یہ خطہ انقلابی رفتار سے ترقی کر سکتا ہے اور یہی انسانوں کے اس انبوہِ کثیر کی اصل منزل ہے۔ اس خطے کے عوام کا فطری حق ہے کہ وہ امن اور ترقی کے ثمرات سے استفادہ کریں‘ مگر اس کیلئے علاقائی اور داخلی امن اور سلامتی ناگزیر ہے۔ بھارت کو یہ حقیقت سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں